✭﷽✭
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ کھانے کے متعلق اسلامی تعلیم -1,*
▪•═════••════•▪
*✪_ فرمایا رحمت کائنات فخر موجودات احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے کہ:-*
*(١)_ کھانے کی برکت ہے کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد وضو کرنا (یعنی ہاتھ دھونا اور کلی کرنا)_,"*
*®_(ترمذی کتاب الطعام، ١٨٤٦)*
*✪__ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لیجئے، طہارت اور نظافت کا تقاضا ہے کہ کھانے میں پڑنے والے ہاتھوں کی طرف سے طبیعت مطمئن ہو۔*
*✪__(٢)_ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ_,"*
*®_ (بخاری کتاب الاطعمة - ٥٣٧٦، مسلم كتاب الاشربة)*
*✪__ حدیث کی دعا: "بسم الله وَعَلَى بَرَكَةِ الله" پڑھ کر کھانا شروع کیجئے اور اگر بھول جائیں تو یاد آنے پر "بسم الله اوله وآخرہ" کہ لیجئے۔ یادر کھئے جس کھانے پر خدا کا نام نہیں لیا جاتا اس کو شیطان اپنے لئے جائز کر لیتا ہے۔*
*✪__(٣)_ داہنے ہاتھ سے کھاؤ_,"*
*®_ (بخاری کتاب الاطعمة - ٥٣٧٦)*
*✪__(٤)_ ہمیشہ سیدھے ہاتھ سے کھائیے۔ ضرورت پڑنے پر بائیں ہاتھ سے بھی مدد لے سکتے ہیں،*
*✪__(٥)_ اور اپنے سامنے سے کھاؤ (یعنی برتن کے چاروں طرف ہاتھ نہ مارو اپنی طرف سے کھاؤ)*
*®_ (ترمذی - ١٨٤٨ ، بخاری - ٥٣٧٦، مسلم - ٥٢٦٩)*
*✪_ (6)_ بائیں ہاتھ سے ہرگز نہ کھاؤ نہ پیو کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا پیتا ہے۔ (مسلم ٥٢٦٧)*
*✪__(7)_ جو جو شخص کسی برتن میں کھانا کھائے پھر اُسے صاف کرے تو اس کے لئے برتن استغفار کرتا۔ تا ہے۔ (ابن ماجه، ابواب الاطعمة - ۳۲۷۱)*
*✪__(8)_ جب تمہارے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو جو ( تنکا وغیرہ ) لگ جائے اُس کو ہٹا کر لقمہ کھالو اور شیطان کے لئے مت چھوڑو۔ جب کھانے سے فارغ ہو جاؤ تو ہاتھ دھونے سے پہلے اپنی انگلیاں چاٹ لو تمہیں معلوم نہیں کہ کھانے کے کون سے حصے میں برکت ہے۔ (مسلم - ٥٣٠١)*
*✪_(9)_ برتن کے درمیان سے نہ کھاؤ بلکہ کناروں سے کھاؤ کیونکہ درمیان میں برکت نازل ہوتی ہے۔ (ترمذی ۱۸۰٥)*
*✪__(10)_پلیٹ میں اپنی طرف کے کنارے سے کھائیے ، دوسروں کی طرف سے نہ کھائیے۔*
*✪__(11)_ آپس میں ایک ساتھ مل کر کھایا کرو اور اللہ کا نام لے کر کھاؤ کیونکہ اس میں تمہارے لئے برکت ہوگی۔ (ابوداؤد - ٣٧٦٤)*
*✪_(12)_جب کھانا کھانے لگو تو جوتے اتار دو اس سے تمہارے قدموں کو آرام ملے گا۔ (دارمی)*
*"✪__(13)_ پانی اونٹ کی طرح ایک سانس میں مت پیو بلکہ دو تین سانس میں پیو۔*
*"✪__(14)_ اور جب پینے لگو تو " بسم اللہ " کہو اور جب پی کر منھ سے برتن ہٹاؤ تو " الحمد للہ" کہو۔ (ترمذی ١٨٨٥)*
*"✪__(15)_ دستر خوان اُٹھانے سے پہلے نہ اُٹھو۔*
*"✪__(16)_ اگر کسی دوسرے شخص کے ساتھ کھانا کھا رہے ہو تو جب تک وہ کھا تا رہے اپنا ہاتھ نہ روکو اگرچہ پیٹ بھر چکا ہو، تاکہ اسے شرمندگی نہ ہو۔ اگر کھانا چھوڑنا بھی ہو تو عذر کر دو۔ (ابن ماجه، ٣٢٩٥)*
*✪__(17)_ مشکیزے میں منھ لگا کر مت پیو (بخاری، ٥٦٢٧)*
*"_ لوٹے ، گھڑے، صراحی یا بوتل وغیرہ کو منھ لگا کر پینا بھی اسی ممانعت میں داخل ہے۔ آج کل کے مشروبات پیپسی وغیرہ وغیرہ اسی ممانعت میں داخل ہے، گلاس میں ڈال کر دیجئے۔*
*"✪__(18)_ برتن میں نہ سانس لو نہ پھونک مارو۔ (ترمذی ۱۸۸۸)*
*"_ کھانے پینے کی چیزوں پر پھونک نہ مارئیے۔ اندر سے آنے والا سانس گندا اور زہریلا ہوتا ہے۔*
*"✪__(19)_ کھڑے ہو کر مت پیو۔ (ترمندی ۱۸۷۹)*
*"✪__(20)_ برتن میں پھٹی ٹوٹی جگہ منھ لگا کر نہ ہو۔ (ابوداؤد، - ۳۷۲۲)*
*"✪__(21)_ جلتا ابلتا کھانا جس سے ہاتھ منھ جلے اور زبان جلے، اُس کے کھانے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ ایسے کھانے کو تھوڑی دیر ڈھک کر رکھ دیا جائے، جب اُس کی وہ حرارت ختم ہو جائے تب اُس کے کھانے کا ارادہ کریں۔*
*"_ آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کرنا برکت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور یہ بات صحیح ہے اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔*
*✪_(22)_کھانے کے لئے ٹیک لگا کر نہ بیٹھیں، خاکساری کے ساتھ اکڑوں بیٹھئے یا دوزانو ہو کر بیٹھے یا ایک گھٹنا بچھا کر اور ایک کھڑا کر کے بیٹھئے، خدا کے رسول ﷺ اسی طرح بیٹھتے تھے۔ (بخاری، باب الاكل متكنا. ٥٣٩٨)*
*✪"_(24)_ ہمارے پیارے رسول ﷺ ٹیک لگا کر نہیں کھاتے تھے۔ (بخاری، باب الاكل متكنا - ٥٣٩٨)*
*✪"_(25)_ تین انگلیوں سے کھائیے اور اگر ضرورت ہو تو چھنگلی چھوڑ کر چار انگلیوں سے کام لیجئے۔ اور انگلیاں جڑوں تک ساننے سے پر ہیز کیجئے۔*
*✪"_(26)_ نوالہ نہ زیادہ بڑا لیجئے اور نہ زیادہ چھوٹا اور ایک نوالہ نگلنے کے بعد ہی دوسرا نوالہ منھ میں دیجئے,*
*✪"_(27)_روٹی سے انگلیاں ہرگز صاف نہ کیجئے، یہ بڑی بے ادبی اور رزق کی توہین ہے۔*
*✪"_(28)_ روٹیوں کو جھاڑنے اور پھٹکنے سے بھی پرہیز کیجئے۔*
*✪"_(29)_ کھانے میں کبھی عیب نہ نکالئیے ۔ پسند نہ ہو تو چھوڑ دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہیں لگایا، دل کو بھایا تو کھالیا، پسند نہ آیا تو چھوڑ دیا۔ (بخاری، باب ما عاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاما - ٥٤٠٩)*
*✪"_(30)_ کھانے کے دوران ٹھٹھا مارنے اور بہت زیادہ باتیں کرنے سے پر ہیز کیجئے۔*
*✪_( 31)_ بلا ضرورت کھانے کو نہ سونگھئے۔ یہ بری عادت ہے، کھانے کے دوران نہ بار بار اس طرح منھ کھولیے کہ چبتا ہوا کھانا نظر آئے اور نہ بار بار منھ میں اُنگلی ڈال کر دانتوں میں سے کچھ نکا لیے۔ اس سے دستر خوان پر بیٹھنے والوں کو گھن آتی ہے۔*.
*✪_(32)_ کھانا بھی بیٹھ کر کھائیے اور پانی بھی بیٹھ کر پیجئے۔ البتہ ضرورت پڑنے پر پھل وغیرہ کھڑے ہو کر کھا سکتے ہیں اور پانی بھی پی سکتے ہیں۔*
*✪_(33)_ پلیٹ میں جو کچھ رہ جائے اگر رقیق ہو تو پی لیجئے ورنہ انگلی سے چاٹ کر پلیٹ صاف کر لیجئے۔*
*✪_(34)_ پانی تین سانس میں ٹھہر ٹھہر کر پیجئے۔ اس سے پانی بھی ضرورت کے مطابق پیا جاتا ہے اور آسودگی بھی ہو جاتی ہے اور یکبارگی پورے برتن کا پانی پیٹ میں انڈیل لینے سے کبھی کبھی تکلیف بھی ہو جاتی ہے۔*
*✪_(35)_ پھل وغیرہ کھا رہے ہوں تو ایک ساتھ دو - دو عدد یا دو۔ دو قاشیں نہ اُٹھائے۔*
*✪_(36)_ لوٹے کی ٹوٹی یا صراحی یا اس طرح کی دوسری چیزوں سے پانی نہ پیجئے۔ ایسے برتن میں پانی لے کر پیجئے جس میں پیتے وقت منھ میں جانے والا پانی نظر آئے تا کہ کوئی گندگی یا مضر چیز پیٹ میں نہ جائے۔*
*✪_(37)_ کھانے سے فارغ ہو کر انگلیاں چاٹ لیجئے اور پھر ہاتھ دھو لیجئے اور یہ دعا پڑھے:- الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ_,"*
*"_( ترجمہ) :- حمد وثنا اس خدا کے لئے ہے جس نے ہمیں کھلایا اور جس نے ہمیں پلایا اور جس نے ہمیں مسلمان بنایا، ®_(ابوداؤد، باب ما يقول الرجل اذا طعم - ٣٨٥٠)*
*"✪_(38)_ جس کی دعوت کی گئی اور اُس نے قبول نہ کی تو اُس نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی (ابوداؤد، کتاب الاطعمة - ٣٧٤١)*
*"✪_(39)_ اور جو شخص بغیر دعوت کے (کھانے کے لئے ) داخل ہو گیا, وہ چور بن کر اندر گیا اور لٹیرا بن کر نکلا۔ (ابوداؤد، کتاب الاطعمة -٣٧٤١)*
*✪_ الحمدللہ خانے پینے کے آداب مکمل ہوئے _,"*
*📓 مدنی معاشرہ - 35,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞مجلس کے متعلق اسلامی تعلیم -,*
▪•═════••════•▪
*✪__ فرما یا معلم انسانیت سرور کائنات ﷺ نے کہ:-*
*✪_"_(1)_ مجلسیں امانت ہیں، یعنی مجلس میں جو باتیں سنیں ان کا دوسری جگہ نقل کرنا امانت داری کے خلاف ہے اور گناہ ہے_," (ابوداؤد، باب في نقل الحديث - ٤٨٦٨)*
*✪_"_(2)_کسی کو اس کی جگہ سے اُٹھا کر خود نہ بیٹھ جاؤ۔ اور بیٹھنے والوں کو چاہئے کہ آنے والوں کو جگہ دینے کے لئے مجلس کشادہ کر لیں (بخاری، باب اذا قيل لكم تفسحوا ... الخ - ٦٢٧٠)*
*✪_"_(3)_ جب مجلس میں تین آدمی ہوں تو ایک کو چھوڑ کر آہستہ سے دو آپس میں باتیں نہ کریں کیونکہ اس سے تیسرے کو رنج ہوگا (بخاری، ٦٢٨٨)*
*"_ کسی ایسی زبان میں باتیں کرنا جس کو تیسرا آدمی نہیں جانتا وہ بھی اسی حکم میں ہے۔*
*✪_"_(4)_ کسی شخص کے لئے حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان بغیر ان کی اجازت کے بیٹھ جائے_," (ترمذی، باب ما جاء في كراهية الجلوس بين الرجلين بغير اذنهما - ٢٧٥٢)*
*✪_"_(5)_ مجلس میں سب لوگ متفرق نہ بیٹھیں بلکہ مل مل کر بیٹھیں۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب في التحلق - ٤٨٢٣)*
*✪_(6)_جب کوئی مسلمان بھائی تمہارے پاس آئے تو جگہ ہونے کے باوجود اس کے اکرام کے لئے ذرا سا کھسک جاؤ۔ (بہیقی)*
*✪"_(7)_ ہر چیز کا سردار ہوتا ہے اور مجلسوں کی سردار وہ مجلس ہے جس میں قبلہ رو ہو کر بیٹھا جائے۔ (طبرانی)*
*"✪_(8)_ جب کوئی شخص کسی کا سلام لائے تو یوں جواب دو۔ وعَلَيْكَ وَعَلَيْهِ السلام - (ابوداؤد، کتاب الادب)*
*"✪_(9)_مریض کی عیادت کی تکمیل یہ ہے کہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا جائے اور تمہارے آپس میں سلام کی تکمیل یہ ہے کہ مصافحہ کر لیا جائے_, (ترمذی، باب ما جاء في المصافحة - ۲۷۳۱)*
*"✪_(10)_ جب دو مسلمان ملاقات کے وقت آپس میں مصافحہ کریں تو جدا ہونے سے پہلے ضرور ان کی بخشش کر دی جاتی ہے_," (ترمذی، باب ما جاء في المصافحة - ۲۷۲۷)*
*📓 مدنی معاشرہ - 36,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞چھینک اور جمائی کے وقت اسلامی تعلیم*
▪•═════••════•▪
*✪_ فرما یا معلم الاخلاق ﷺ نے کہ:-*
*✪_"_(1)_ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو چاہئے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہے۔*
*"_ اور جواب میں اس کا ساتھی "يَرْحَمُكَ الله" کہے۔ اور چھینکنے والا يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ہے۔*
*(بخاری، کتاب الادب، باب اذا عطس كيف يشمت - ٦٢٢٤)*
*✪_"_(2)_ ہمارے پیارے رسول ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو ہاتھ یا کپڑے سے چہرہ مبارک ڈھانک لیتے تھے اور چھینک کی آواز بلند نہ ہونے دیتے تھے۔ (ترمذی، کتاب الادب - ٢٧٤٥)*
*"✪__(3)_ اور فرمایا حضور اکرم ﷺ نے کہ جب تم کو جمائی آئے تو منھ پر ہاتھ رکھ کر روک لو کیونکہ جمائی کے سبب منھ کھل جانے سے شیطان داخل ہو جاتا ہے۔ (ابودازد، باب في التثاءب - ٥٠٢٦)*
*"✪__(4)_ اور ایک حدیث میں ہے کہ جمائی آئے تو "ہا" کی آواز نہ نکالو، اس سے شیطان ہنستا ہے۔ (ابوداؤد - ۵۰۲۸، بخاری،- ٦٢٣٣)*
*📓 مدنی معاشرہ - 37,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞_عورتوں اور لڑکیوں کے لئے مخصوص اسلامی تعلیم*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ مردوں سے علیحدہ ہو کر چلیں۔*
*"✪_(2)_ راستوں کے درمیان سے نہ گزریں بلکہ کناروں پر چلیں۔*
*"✪_(3)_چاندی کے زیور سے کام چلانا بہتر ہے۔*
*✪"_(4)_ جو عورت شان (بڑائی) ظاہر کرنے کے لئے سونے کا زیور پہنے گی تو عذاب ہوگا (ابو داؤد، کتاب الخاتم - ٤٢٣٨)*
*✪"_(5)_ عورت کو اپنے ہاتھ میں مہندی لگاتے رہنا چاہئے۔ (ابو داؤد، باب فی الخضاب للنساء كتاب الترجل)*
*✪"_(6)_ فرما یا رسول اللہ ﷺ نے کہ عورت کی خوشبو ایسی ہو جس کا رنگ ظاہر ہو اور خوشبو نہ آئے ( یعنی بہت معمولی خوشبو ہو ) (ترمذی، کتاب الادب - ٢٧٨٦)*
*✪"_(7)_ باریک کپڑے نہ پہنیں۔اگر دو پٹہ باریک ہو تو اس کے نیچے موٹا کپڑ الگالیں۔ (ابوداؤد، باب في لبس القباطي للنساء - ٤١١٦)*
*✪"_(8)_ بجنے والا زیور نہ پہنیں۔ (ابوداؤد، باب ما جاء فی الجلاجل)*
*✪"_(9)_ جو عورتیں مردوں کی شکل و صورت اختیار کریں ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ (ابوداؤد، باب فی لباس النساء - ٤٠٩٧)*
*📓 مدنی معاشرہ - 38,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ _استنجے کے متعلق اسلامی آداب :-,*
▪•═════••════•▪
*✪_فرما یا خاتم النبین ﷺ نے کہ:-*
*✪_"_(1)_جب پاخانہ جاؤ تو پیشاب کے مقام کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوؤ، اور استنجاء داہنے ہاتھ سے صاف نہ کرو۔( ترندی-۱۵)*
*✪_"_(2)_ بڑا استنجاء تین پتھروں ( یا تین ڈھیلوں) سے کرو، اس کے بعد پانی سے دھوؤ ۔ (ابوداؤد، باب الاستنجاء بالماء)*
*✪_"_(3)_جب پاخانہ جاؤ تو قبلہ رخ ہو کر اور قبلہ کی طرف کو پشت کر کے نہ بیٹھو۔ (بخاری - ١٤٤)*
*✪_"_(4)_ جب پیشاب کرنے کا ارادہ کرو تو اس کے لئے ( مناسب ) جگہ تلاش کر لو (ابوداؤد، باب التخلى عند قضاء الحاجة - ۱)*
*"_ مثلاً پردہ کا دھیان کرو اور ہوا کے رُخ پر نہ بیٹھو۔*
*"✪__(5)_ ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہیں پیشاب نہ کرو (بخاری، باب البول في الماء الدائم - ۲۳۸)*
*"_ جیسے تالاب، حوض وغیرہ۔*
*"✪__(6)_ غسل خانے میں پیشاب نہ کرو کیونکہ اکثر وسوسے اس سے پیدا ہوتے ہیں۔ (ابوداؤد ، باب فی البول في المستحم - ۲۷)*
*✪_"_(7)_ کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرو۔ (ابوداؤد، باب النهي عن البول في الجحر - ٢٩)*
*✪_"_ (8)_ پاخانہ کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کرو۔ (مسند احمد )*
•▪
*✪_(9)_ پانی کے گھاٹوں پر، راستوں میں، سایہ کی جگہوں میں (جہاں لوگ اُٹھتے بیٹھتے ہوں ) پاخانہ نہ کرو (ابو داؤد، باب المواضع التي نهي عن البول فيها - ٢٦)*
*"✪_(10)_ بسم اللہ کہہ کر پاخانہ میں داخل ہو، کیونکہ بسم اللہ جنات کی آنکھوں اور انسان کی شرم کی جگہوں کے درمیان آڑ ہے۔ (ترمذی)*
*✪"_(11)_ لید اور ہڈیوں سے استنجاء نہ کرو۔ (ترندی - ۱۸)*
*✪"_(12)_ ندی، نہر کے گھاٹ پر، عام راستوں پر اور سایہ دار مقامات پر قضائے حاجت کے لئے نہ بیٹھئے اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور ادب و تہذیب کے بھی خلاف ہے۔*
*✪"_(13)_ جب پاخانہ جانا ہو تو جوتا پہن کر اور سر کو ٹوپی وغیرہ سے ڈھانپ کر جائیے اور جاتے وقت یہ دعا پڑھئے:-*
*"_اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ _," (بخاری، باب ما يقول عند الخلاء، كتاب الوضوء - ١٤٢ و مسلم)*
*"_(ترجمہ) خدایا تیری پناہ چاہتا ہوں شیطانوں سے، ان شیطانوں سے بھی جو مذکر ہیں اور ان سے بھی جو مونث ہیں۔*
*✪"_(14)_ اور جب پاخانے سے باہر آئیں تو یہ دعاء پڑھیے :-*
*"_ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي _,*
*(ابن ماجه، باب ما يقول اذا خرج من الخلاء - ٣٠١)*
*"_( ترجمہ)_ خدا کا شکر ہے جس نے مجھ سے تکلیف دور فرمائی ہے اور مجھے عافیت بخشی,*
*📓 مدنی معاشرہ - 38,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ متفرق اسلامی آداب -,*
▪•═════••════•▪
*✪"_(1)_اکٹر کٹڑ کر اتراتے ہوئے نہ چلو ۔ ( قرآن شریف، سورہ بنی اسرائیل، آیت ۳۷)*
*✪"_(2)_کوئی مرد عورتوں کے درمیان نہ چلے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب في مشى النساء مع الرجال - ٥٢٧٣)*
*✪"_(3)_ بیچ میں ایک دن چھوڑ کر کنگھا کیا کرو یعنی روزانہ کنگھے کا شغل پسند نہیں فرمایا۔ (ترندی، کتاب اللباس - ۱۷۵۶)*
*✪"_(4)_ اللہ تعالیٰ کو صفائی ستھرائی پسند ہے لہذا اپنے گھروں سے باہر جو جگہیں خالی پڑی ہیں ان کو صاف رکھا کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب النظافة – ۲۷۹۹)*
*✪"_(5)_ اس گھر میں (رحمت کے ) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتا (یا جاندار کی تصویر ہو ) (بخاری، کتاب اللباس، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة - ٥٩٦٠)*
*✪"_(6)_ جب کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ اور اندر سے پوچھے کون ہے تو یہ نہ کہو کہ میں ہوں بلکہ اپنا نام بتا دو۔ (بخاری، کتاب الاستیذان - ٦٢٥٠)*
*✪"_(7)_ چھپ کر کسی کی بات نہ سنو ۔ (مسلم ۲۵۳۶)*
*✪"_(8)_ جب کسی کو خط لکھو تو شروع میں اپنا نام لکھ دو۔(ابوداؤد، کتاب الادب - ٥١٣٤)*
*✪_(9)_ جب کسی کے گھر جاؤ تو پہلے اجازت لے لو پھر اندر جاؤ۔ (بخاری، کتاب الاستيذان - ٦٢٤٦)*
*✪"_(10)_ اور اجازت سے پہلے اندر نظر بھی نہ ڈالو۔ (بخاری، کتاب الاستيدان - ٦٢٤١)*
*✪"_(11)_ تین بار اجازت مانگو اگر اجازت نہ ملے تو واپس ہو جاؤ۔ (بخاری، کتاب الاستيذان - ٦٢٤٥)*
*✪"_(12)_ اور اجازت لیتے وقت دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہو بلکہ دائیں بائیں کھڑے ہو جاؤ۔ (ابو داؤد، کتاب الاستیذان، ٥١٧٤)*
*✪"_(13)_ اپنی والدہ کے پاس جانا ہو تو بھی اجازت لے کر جاؤ۔ (مالک)*
*✪"_(14)_ کسی کی چیز مذاق میں لے کر نہ چل دو۔ (ابو داؤد، کتاب الادب-۵۰۰۳)*
*✪"_(15)_ ننگی تلوار ( جو نیام سے باہر ہو ) دوسرے شخص کے ہاتھ میں نہ دو۔ (ابو داؤد، کتاب الجهاد - ۲۵۸۸)*
*"_ اسی طرح چاقو چھری وغیرہ کھلی ہوئی کسی کونہ پکڑاؤ، اگر ایسا کرنا پڑے تو اس کے ہاتھ میں دستہ دے دو۔*
*✪"_(16)_ زمانہ کو برا مت کہو کیونکہ اس کا اُلٹ پھیر اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ (مسلم، کتاب الالفاظ من الادب - ٥٨٦٢)*
*✪"_(17)_ ہوا کو برا مت کہو۔ (ابوداؤد ، باب ما يقول اذا هاجت الريح-٥٠٩٧)*
*✪"_(18)_ بخار کو بھی برا کہنا منع ہے۔ (ابن ماجہ )*
▪
*✪_(19)_ جب چھوٹے بچے کی زبان چلنے لگے تو اسے پہلے "لا اله الا اللہ" کہلاؤ۔ (حصن حصین)*
*✪"_(20)_ اور سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز سکھاؤ اور نماز پڑھنے کا حکم دو۔ اور جب اولاد دس سال کی ہو جائے تو ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کردو _," ( ترمذی، کتاب الصلاة باب متى يؤمر الصبي بالصلاة- ٤٠٧)*
*✪"_(21)_ جب شام کا وقت ہو جائے تو اپنے بچوں کو ( باہر نکلنے سے) روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں۔*
*✪"_(22)_ اور رات کو اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر دو کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور مشکیزوں کو تسموں سے باندھ دو۔*
*✪"_(23)_ اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانک دو۔ اگر ڈھانکنے کو کچھ بھی نہ ملے تو کم از کم برتن کے اوپر ایک لکڑی ہی رکھ دو۔ (بخاری، مسلم، کتاب الاشربة - ٥٢٥٠)*
*✪"_(24)_ ایک روایت میں برتنوں کے ڈھانکنے اور مشکیزوں کو تسمہ لگانے کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ سال بھر میں ایک رات ایسی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے۔ ( یعنی عمومی مرض، طاعون وغیرہ) یہ وبا جس ایسے برتن پر گزرتی ہے جس پر ڈھکن نہ ہو یا ایسے مشکیزے پر جو تسمے سے بندھا ہوا نہ ہو تو اس وبا کا کچھ حصہ ضرور اس برتن اور مشکیزے میں نازل ہو جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب الاشربة - ٥٢٥٥)*
*✪"_(25)_ جب رات کو لوگوں کا چلنا پھرنا بند ہو جائے (یعنی راستوں اور گلی کوچوں میں آمد و رفت بند ہو جائے ) تو ایسے وقت میں باہر کم نکلو۔ اللہ جل شانہ انسانوں کے علاوہ اپنی دوسری مخلوق میں سے جسے چاہتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ (یعنی شیاطین کو گھومنے کی آزادی دے دی جاتی ہے) جس کی وجہ سے وہ پھیل جاتے ہیں _," (مسند احمد ۳۰۷/۳ مستدرک الحاکم برقم ۱۵۸۴)*
*✪"_(26)_ کسی کا ہدیہ حقیر نہ جانو،*
*📓 مدنی معاشرہ - 41,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ اولاد کی پرورش اس طرح کیجئے ,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ اولادکو خدا کا انعام سمجھئے:-*
*✪"_ اولاد کو خدا کا انعام سمجھئے، ان کی پیدائش پر خوشی منائیے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیجئے۔ خیر و برکت کی دُعاؤں کے ساتھ استقبال کیجئے اور خدا کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو اپنے ایک بندے کی پرورش کی توفیق بخشی اور یہ موقع فراہم فرمایا کہ آپ اپنے پیچھے, اپنے دین ودنیا کا جانشیں چھوڑ جائیں۔*
*✪"_(2)_ اولاد نہ ہو تو خدا سے دعا کیجئے:-*
*✪"_ اولاد نہ ہو تو خدا سے صالح اولاد کے لئے دُعا کیجئے، جس طرح خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت زکریا علیہ السلام نے صالح اولاد کے لئے دُعا فرمائی:-*
*"_ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةٌ طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ_," (آل عمران، آیت: ۳۸)*
*✪”_میرے رب ! تو اپنے پاس سے مجھے پاک باز اولا د عطا فرما۔ بیشک تو دُعا کا سننے والا ہے،*
*✪"_ اولاد کے لیے صرف خدا ہی سے دعائیں مانگیں، بعض لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور غیر اللہ کے درو کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، یہ بہت بڑی جہالت ہے،*
*✪_(3)_اولاد کی پیدائش کو بوجھ نہ سمجھئے:-*
*✪"_ اولاد کی پیدائش پر کبھی دل تنگ نہ ہو، معاشی تنگی یا صحت کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اولاد کی پیدائش پر کڑھنے یا اس کو اپنے حق میں ایک مصیبت سمجھنے سے سختی کے ساتھ پر ہیز کیجئے۔*
*✪"_(4)_ اولاد کو کبھی ضائع نہ کیجئے:-*
*✪"_ اولادکو ضائع کرنا بھیا نک ظلم ہے، پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے بعد اولاد کو ضائع کرنا بد ترین سنگ دلی، بھیانک ظلم، انتہائی بزدلی اور دونوں جہاں کی تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام، آیت: ١٤٠)*
*✪"_وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں اپنی حماقت سے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔“*
*✪"_ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا _", (بنی اسرائیل، آیت: ۳۱)*
*✪"_ اور اپنی اولاد کو فقر و فاقے کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور ہم ہی تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اولاد کا قتل کرنا بہتبڑا گناہ ہے“*
*✪"_ ایک بار ایک صحابی نے دریافت کیا، یا رسول اللہ ﷺ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا: شرک، پوچھا، اس کے بعد ، فرمایا تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی_," (بخاری، کتاب الادب، باب قتل الولد خشية ان يأكل معه - ٦٠٠١)*
*✪_(5)_ ولادت والی عورت کے پاس اللہ کا کلام پڑھ کر دم کیجئے:-*
*✪"_ ایسے وقت میں فضول اور شرکیہ کاموں سے بچیں اور آیتہ الکرسی سورہ اعراف کی دو آیتیں ( 55-56)، سورہ فلق، سورہ ناس پڑھ کر دم کیجئے،*
*✪"_(6)_ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہئے:-*
*✪"_ ولادت کے بعد نہلا دھلا کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہئے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے اُن کے کان میں اذان واقامت فرمائی۔ (طبرانی)*
*"✪_اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس کے یہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس بجے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو بچہ ام الصبیان کی تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ (ابو یعلی، ابن صنی)*
*"✪_ پیدا ہوتے ہوئے بچے کے کان میں خدا اور رسول کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے۔ علامہ ابن قیم اپنی کتاب "تحفۃ الودود" میں فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے۔ اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہوگا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے۔ اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کر دے۔ اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے۔*
*✪_(7)_ نو مولود کے لئے کسی مرد صالح سے تحنيك کروائیے :-*
*✪"_ تحنيك کہتے ہیں کھجور وغیرہ کو چبا کر خوب نرم کر کے بچے کے تالو میں لگانے کو، اذان و اقامت کے بعد کسی نیک مرد یا عورت سے کھجور چبوا کر بچے کے تالو میں لگوائیے اور بچے کے لئے خیر و برکت کی دُعا کروائیے۔*
*✪"_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب پیدا ہوئے تو میں نے ان کو نبی کریم ﷺ کی گود میں دیا ۔ آپ ﷺ نے خرما منگوایا اور چبا کر لعاب مبارک عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے منھ میں لگا دیا۔ اور خرما ان کے تالو میں ملا اور خیر و برکت کی دُعا فرمائی۔ (مسلم، كتاب الآداب - ٥٦١٦)*
*✪"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں بچے لائے جاتے تھے۔ آپ ﷺ ان کی تحنيك فرماتے اور اُن کے حق میں خیر و برکت کی دُعا کرتے۔ (مسلم- ٥٦١٩)*
*✪_ (8)_ بچہ کے لئے بہتر نام تجویز کیجئے:-*
*✪"_ بچے کے لئے اچھا سا نام تجویز کیجئے جو یا تو پیغمبروں کے نام پر ہو یا خدا کے نام سے پہلے عبد لگا کر ترکیب دیا گیا ہو۔ جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ، قیامت کے روز تمہیں اپنے اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، اس لئے بہتر نام رکھا کرو۔*
*(ابو داؤد، کتاب الادب باب فى تغيير الاسماء - ٤٩٤٨)*
*✪"_ اور نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ خدا کو تمہارے ناموں میں سے عبداللہ اور عبد الرحمٰن سب سے زیادہ پسند ہیں اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ انبیاء کے ناموں پر نام رکھو (مسلم، کتاب الاداب - ۵۵۸۷ -۵۵۹۸) اور (مسلم -۵۵۸۶) میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، میرے نام پر نام رکھو، میری کنیت پر مت رکھو_,"*
*✪"_(9)_ بچہ کا غلط نام رکھا ہے تو بدل کر اچھا نام رکھئے:-*
*"✪_ اگر کبھی لاعلمی میں غلط نام رکھ دیا ہو تو اُس کو بدل کر اچھا نام رکھ دیجئے ۔ نبی کریم ﷺ غلط نام کو بدل دیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا۔ آپ ﷺ نے بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔*
*(ابوداؤد باب في تغيير الاسم القبيح - ٤٩٥٢)*
*✪_ (10)_بچہ کا عقیقہ کیجئے اور مونڈے ہوئے بالوں کے برابر سونا یا چاندی خیرات کیجئے:-*
*✪"_ ساتویں دن عقیقہ کیجئے۔ لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا کیجئے۔ لیکن لڑکے کی طرف سے دو بکرے کرنا ضروری نہیں ہے، ایک بکرا بھی کر سکتے ہیں۔ اور بچے کے بال منڈوا کر اس کے برابر سونا یا چاندی خیرات کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ ساتویں روز بچے کا نام تجویز کیا جائے اور اس کے بال اُتروا کر اُس کی طرف سے عقیقہ کیا جائے_," (ترمذی)*
*"✪_ساتویں دن ختنہ بھی کرا دیجئے۔ لیکن کسی وجہ سے نہ کرائیں تو سات سال کی عمر کے اندر اندر ضرور کرائیں۔ ختنہ اسلامی شعار ہے۔*
*"✪_(11)_ بچہ جب بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ سکھایئے:-*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: " جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اس کو "لا إِلَهَ إِلَّا الله، سکھا دو۔ اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دو ( ابن سنی )*
*✪_(12)_ماں بچے کو اپنا دودھ بھی پلائیے:-*
*✪_"_ ماں پر بچے کا یہ حق ہے، قرآن نے اولاد کو ماں کا یہی احسان یاد دلا کر ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کا فرض یہ ہے کہ وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ توحید کا درس، رسول ﷺ کا عشق اور دین کی محبت بھی پلائے اور اس محبت کو اس کے قلب و روح میں بسانے کی کوشش کرے۔*
*✪_"_ پرورش کی ذمہ داری باپ پر ڈال کر اپنا بوجھ ہلکا نہ کیجئے بلکہ اس خوشگوار دینی فریضہ کو انجام دے کر روحانی سکون اور سرور محسوس کیجئے۔*
*✪_"_(13)_بچوں کو ڈرانے سے پر ہیز کیجئے:-*
*"_ بچوں کو ڈرانے سے پرہیز کیجئے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری زندگی ذہن ودماغ پر چھایا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔*
*✪_"_اولا د کو بات بات پر ڈانٹنے جھڑ کنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پر ہیز کیجئے اور ان کی کوتاہیوں پر بے زار ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کے بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تربیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کیجئے، اور اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہر حال غالب رکھئے کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات آپ ہرگز برداشت نہ کریں گے۔*
*✪_(14)_ اولاد کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کیجئے:-*
*"_ اولاد کے ساتھ ہمیشہ، شفقت، محبت، نرمی کا برتاؤ کیجئے اور حسب ضرورت و حیثیت ان کی ضروریات پوری کر کے ان کو خوش رکھئے اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھا رہیے۔*
*"✪__ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کہئے اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہیئے ؟ احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہے، کمر کی ٹیک ہے، ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے جو نہایت نرم اور بے ضرر ہے اور ہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہی کے ذریعہ بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔*
*"✪__ پس اگر وہ آپ سے کچھ مطالبہ کریں تو اُن کو خوب دیجئے اور اگر کبھی گرفتہ دل ہوں تو ان کے دلوں کا غم دور کیجئے ۔ نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے، آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اور کبھی ان پر نا قابل برداشت بوجھ نہ بنے کہ وہ آپ کی زندگی سے اُکتا جائیں اور آپ کی موت کے خواہاں ہوں، آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔*
*"✪__ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یہ حکیمانہ باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے اور فرمایا: *"_ احنف ! خدا کی قسم جس وقت آپ میرے پاس آکر بیٹھے، میں یزید کے خلاف غصے میں بھرا بیٹھا تھا۔ پھر جب حضرت احف تشریف لے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور یزید سے راضی ہو گئے اور اسی وقت یزید کو دو سو درہم اور دو سو جوڑے بھجوائے۔ یزید کے پاس جب یہ تحفے پہنچے تو یزید نے یہ تحفے دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے سو درہم اور سو جوڑے حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھجوا دیئے۔*
*✪__(15)_ چھوٹے بچوں سے پیار کیجئے :-*
*✪_"_چھوٹے بچوں پر شفقت کا ہاتھ پھیر یئے، بچوں کو گود میں لیجئے، پیار کیجئے اور ان کے ساتھ خوش طبعی کا سلوک کیجئے۔ ہر وقت تند خو اور سخت گیر حاکم نہ بنے رہئے، اس طرز عمل سے بچوں کے دل میں والدین کے لئے والہانہ جذبہ محبت بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا نہیں ہوتی اور ان کی فطری نشو ونما پر بھی خوشگوار اثر نہیں پڑتا۔*
*✪_"_ ایک مرتبہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے، حضور ﷺ اس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر تعجب ہوا اور بولے یا رسول اللہ ﷺ آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں نے تو کبھی کسی ایک کو بھی پیار نہیں کیا۔*
*✪_"_ نبی کریم ﷺ نے اقرع رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ اُٹھائی اور فرمایا: اگر خدا نے تمہارے دل سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ (بخاری، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقة- ٥٩٩٧)*
*✪_ (16)_ اولاد کو پاکیز تعلیم وتربیت سے مزین کیجئے:-*
*✪"_ اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے اپنی کوشش وقف کر دیجئے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیجئے، یہ آپ کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان بھی اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔*
*✪"_ قرآن میں ہے: "_ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (سوره تحریم، آیت : ٦)* *"_مومنو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے_,"*
*✪"_ اور جہنم کی آگ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آدمی دین کے ضروری علم سے بہرہ مند ہو اور اس کی زندگی خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزر رہی ہو۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ (ترمذی، باب ما جاء في ادب الولد - ١٩٥٢)*
*✪"_ اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے، دوسرے یہ کہ وہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اُٹھا ئیں۔ تیسرے صالح اولاد جو باپ کے لئے دُعا کرتی رہے_,"( ابن ماجه، کتاب العلم باب ثواب معلم الناس)*
*✪_(17)_ بچوں کو سات (۷) سال کا ہونے پر نماز سکھائیے:-*
*✪"_ بچے جب سات (۷) سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز سکھایئے۔ نماز پڑھنے کی تلقین کیجئے اور اپنے ساتھ مسجد لے جا کر شوق پیدا کیجئے اور جب وہ دس (۱۰) سال کے ہو جائیں اور نماز میں کوتاہی کریں تو انہیں مناسب سزا بھی دیجئے اور اپنے قول عمل سے ان پر واضح کر دیجئے کہ نماز کی کوتاہی کو آپ برداشت نہ کریں گے، بہت زیادہ نہ ماریے بلکہ مارنے میں گرمی نرمی دونوں ہونی چاہئے۔*
*✪"_(18)_ دس (۱۰) سالہ بچوں کے بستر الگ الگ کر دیجئے:-*
*✪"_بچے جب دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دیجئے اور ہر ایک کو الگ الگ چار پائی پر سلائیے ۔*
*✪"نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات (۷) سال کے ہو جائیں اور نماز کے لئے ان کو سزا دو جب وہ دس (۱۰) سال کے ہو جائیں اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو (ابو داؤ ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة - ٤٩٥)*
*✪__(19)_ ہمیشہ بچوں کی طہارت و نظافت کا خیال رکھئے:-*
*✪_"_ بچوں کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھئے، ان کی طہارت، نظافت اور غسل وغیرہ کا خیال رکھئے، کپڑے بھی پاک صاف رکھئے، البتہ زیادہ بناؤ سنگھار اور نمود و نمائش سے پر ہیز کیجئے۔*
*✪_"_ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ رکھئے اور زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج خراب نہ کیجئے۔*
*"✪__(20)_ دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب بیان نہ کیجئے:-*
*✪_"_ دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کیجئے اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پر ہیز کیجئے۔*
*✪_"_(21)_ بچوں کے سامنے بچوں کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار نہ کیجئے :-*
*"_ بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار نہ کیجئے بلکہ ان کی ہمت بڑھانے کے لئے اُن کی معمولی اچھائیوں کی بھی دل کھول کر تعریف کیجئے۔ ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اور ان میں خود اعتمادی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے تا کہ یہ کارگاہ حیات میں اونچے سے اونچا مقام حاصل کر سکیں۔*
*✪_(22)_ بچوں کو دینی قصے اور قرآن خوش الحانی سے پڑھ پڑھ کر سناتے رہیں:-*
*✪"_بچوں کو نبیوں کے قصے، صالحین کی کہانیاں اور صحابہ کرام علیہم اجمعین کے مجاہدانہ کارنامے ضرور سناتے رہیں۔*
*✪"_ تربیت و تہذیب کردار سازی اور دین سے شغف کے لئے اس کو انتہائی ضروری سمجھئے اور ہزار مصروفیتوں کے باوجود اس کے لئے وقت نکالئے، اکثر و بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائیے اور موقع بہ موقع نبی کریم ﷺ کی پر اثر باتیں بھی بتائیے اور ابتدائی عمر ہی سے اُن کے دلوں میں عشق رسول ﷺ کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔*
*✪"_(23)_غریبوں کو صدقہ خیرات اپنے بچوں کے ہاتھوں دلوائیے:-*
*✪"_ کبھی کبھی بچوں کے ہاتھ سے غریبوں کو کچھ کھانا یا پیسے وغیرہ بھی دلوائیے تا کہ ان میں غریبوں کے ساتھ سلوک اور سخاوت وخیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ اور کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کیجئے کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائیوں میں خود ہی تقسیم کریں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔*
*✪"_(24)_بچوں کی بے جا ضد پوری نہ کیجئے:-*
*✪"_بچوں کی بے جا ضد پوری نہ کیجئے بلکہ حکمت کے ساتھ اُن کی یہ عادت چھڑانے کی کوشش کیجیے، کبھی کبھی مناسب سختی بھی کیجئے، بے جا لاڈ پیار سے اُن کو ضدی اور خود سرنہ بنائیے۔*
*✪_(25)_ چیخنے چلانے سے خود بھی پرہیز کیجئے اور بچوں کو بھی تاکید کیجئے:-*
*✪"_ تیز آواز سے بولنے اور گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے سے خود بھی پر ہیز کیجئے اور ان کو بھی تاکید کیجئے کہ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کریں اور آپس میں بھی ایک دوسرے پر چیخنے چلانے سے سختی کے ساتھ بچیں۔*
*✪"_(26)_ بچوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈلوائیئے:-*
*✪"_ بچوں کو عادت ڈالئے کہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔ انہیں آلسی کاہل، سست اور اپاہج نہ بنائیے ۔ بچوں کو جفاکش محنتی اور سخت کوش بنا ئیے۔*
*"✪_(27)_ بچوں میں باہم لڑائی ہونے پر اپنے بچے کی بے جا حمایت نہ کیجئے:-*
*✪"_ بچوں میں باہم لڑائی ہو جائے تو اپنے بچہ کی بے جا حمایت نہ کیجئے۔ یہ خیال رکھئے کہ اپنے بچہ کے لئے آپ کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لئے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھئے اور ہر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ میں اپنے بچہ کی کوتاہی اور غلطی کی کھوج لگا کر حکمت اور مسلسل توجہ سے اُس کو دور کرنے کی پر سوز کوشش کیجئے۔*
*✪_(28)_اولاد کے مابین ہمیشہ برابری کا سلوک کیجئے:-*
*"✪_ اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کیجئے اور اس معاملہ میں بے اعتدالی سے بچنے کی پوری پوری کوشش کیجئے۔*
*"✪_ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیادہ میلان ہو تو معذوری ہے لیکن سلوک و برتاؤ اور لین دین میں ہمیشہ انصاف اور مساوات کا لحاظ رکھئے اور کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کیجئے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔*
*✪"_ اس سے دوسرے بچوں میں احساس کمتری ، نفرت، مایوسی اور آخر کار بغاوت پیدا ہوگی اور یہ برے جذبات فطری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے میں اور اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے زبر دست رکاوٹ ہیں۔*
*✪"_(29)_ بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کیجئے:-*
*✪"_ بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کیجئے۔ آپ کی زندگی بچوں کے لئے ایک ہمہ وقتی خوش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سکھتے رہتے ہیں۔ بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولئے۔*
*✪_(30)_ لڑکی پیدا ہونے پر بھی خوشی منائیے:-*
*✪"_ لڑکے کی طرح لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیے جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا، لڑکی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھانا اور دل شکستہ ہوتا اطاعت شعار مومن کے لئے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ ناشکری بھی ہے اور خدائے علیم وکریم کی تو ہین بھی۔*
*✪"_حدیث میں ہے کہ جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو ! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں:-*
*"_ یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا ، قیامت تک خدا کی مدد اُس کے شامل حال رہے گی (طبرانی)*
*✪"_ ( 31)_ لڑکیوں کی تربیت و پرورش انتہائی خوش دلی سے کیجئے:-*
*"_ لڑکیوں کی تربیت و پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کیجئے اور اُس کے صلے میں خدا سے بہشت بریں کی آرزو کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم و تہذیب سکھائی اور اُن کے ساتھ رحم کا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ خدا ان کو بے نیاز کردے۔ تو ایسے شخص کے لئے خدا نے جنت واجب فرما دی۔ اُس پر ایک شخص بولا، اگر دو ہی ہوں تو ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، دولڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ ﷺ ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے۔ (ترمذی، باب ما جاء في النفقة على البنات والاخوات - ١٩١٦)*
*✪_ (32)_لڑکے لڑکیوں کے مابین یکساں محبت کا اظہار کیجئے:-*
*✪"_ لڑکی کو حقیر نہ جانے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دیجئے, دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کیجئے اور یکساں سلوک کیجئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: وہ جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اُس نے جاہلیت کے طریقے پر اُسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اُس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو خدا جنت میں داخل کرے گا (ابو داؤد، باب فی فضل من عال تيامي- ٥١٤٦)*
*✪"_(33)_ جائداد میں لڑکی کا مقررہ حصہ پوری خوش دلی سے دیجئے:-*
*✪"_ جائداد میں لڑکی کا مقررہ حصہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیجئے یہ خدا کا فرض کردہ حصہ ہے اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار مومن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور خدا کے دین کی تو ہین بھی۔*
*✪"_ ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دُعا بھی کرتے رہیں ۔ خدائے رحمنٰ ورحیم سے توقع ہے کہ وہ والدین کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پر سوز دُعا ئیں ضائع نہ فرمائے گا۔*
http://haqqkadaayi.blogspot.com/2023/01/madni-maashra-urdu.html
*👆🏻 مدنی معاشرہ - مکمل پوثٹ لنک سے دیکھیں,*
*📓 مدنی معاشرہ - 68,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ ازدواجی زندگی اس طرح گزاریئے,*
▪•═════••════•▪
*✪_اسلام جس اعلیٰ تہذیب و تمدن کا داعی ہے, وہ اسی وقت وجود میں آ سکتا ہے جب ہم ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ آپ خاندانی نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب بنا ئیں۔*
*✪"_ خاندانی زندگی کا آغاز شوہر اور بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلق سے ہوتا ہے اور اس تعلق کی خوشگواری اور استواری اسی وقت ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی ازدواجی زندگی کے آداب و فرائض سے بخوبی واقف بھی ہوں، اور ان آداب و فرائض کو بجالانے کے لئے پوری دل سوزی، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ سرگرم کار بھی۔*
*✪"_(1)_ بیوی کے حقوق کشادہ دلی سے ادا کیجئے:-*
*"_بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کی زندگی گزارئیے۔ اس کے حقوق کشادہ دلی کے ساتھ ادا کیجئے اور ہر معاملے میں احسان اور ایثار کی روش اختیار کیجئے۔ خدا کا ارشاد ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ” اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزاریں_," اور نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ہدایت فرمائی:-*
*✪"_ لوگو سنو ! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔ تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے ، اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو، اور انہیں مارو تو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے۔ اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو۔*
*"✪_ دیکھو سنو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارے حقوق یہ ہیں کہ وہ تمہارے بستروں کو اُن لوگوں سے نہ روندوائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں نا گوار ہو، اور سنو اُن کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ (رياض الصالحين، باب الوصية بالنساء)*
*✪_(2)_ جہاں تک ہو سکے بیوی سے خوش گمان رہئے:-*
*"_ جہاں تک ہو سکے بیوی سے خوش گمان رہئے۔ اور اس کے ساتھ نباہ کرنے میں تحمل، بردباری اور عالی ظرفی کی روش اختیار کیجئے۔ اگر اس میں شکل وصورت یا عادات و اخلاق یا سلیقہ اور ہنر کے اعتبار سے کوئی کمزوری بھی ہو تو صبر کے ساتھ اس کو برداشت کیجئے اور اس کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے فیاضی، درگزر، ایثار اور مصلحت سے کام لیجئے،*
*✪"_ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:" اور مصالحت خیر ہی خیر ہے“ اور مومنین کو ہدایت کی گئی ہے: "_پھر اگر وہ تمہیں (کسی وجہ سے) نا پسند ہوں، تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر خدا نے اس میں تمہارے لئے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو _"( النساء-19)*
*✪"_ اسی مفہوم کو نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں یوں واضح فرمایا ہے: کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر بیوی کی کوئی عادت اس کو نا پسند ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسری خصلت اس کو پسند آجائے“ (مسلم، کتاب الرضاع - ٣٦٤٥)*
*"✪_حقیقت یہ ہے کہ ہر خاتون میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کمزوری ضرور ہوگی اور اگر شوہر کسی عیب کو دیکھتے ہی اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لے اور دل برا کر لے تو پھر کسی خاندان میں گھر یلو خوشگواری مل ہی نہ سکے گی۔ حکمت کی روش یہی ہے کہ آدمی در گزر سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے عورت کے ساتھ خوش دلی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے۔ ہو سکتا ہے کہ خدا اس عورت کے واسطے سے مرد کو کچھ ایسی بھلائیوں سے نوازے جن تک مرد کی کوتاہ نظر نہ پہنچ رہی ہو۔*
*✪"_ مثلاً عورت میں دین و ایمان اور سیرت و اخلاق کی کچھ ایسی خوبیاں ہوں، جن کے باعث وہ پورے خاندان کے لئے رحمت ثابت ہو، یا اس کی ذات سے کوئی ایسی روح سعید وجود میں آئے جو ایک عالم کو فائدہ پہنچائے اور رہتی زندگی تک کے لئے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنے یا عورت مرد کی اصلاح حال کا ذریعہ بنے اور اس کو جنت سے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہو یا پھر اس کی قسمت سے دنیا میں خدا اس مرد کو کشادہ روزی اور خوش حالی سے نوازے،*
*"✪_ بہر حال عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے ساتھ ازدواجی تعلق کو برباد نہ کیجئے بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے دھیرے دھیرے گھر کی فضا کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کیجئے۔*
*✪_(3)_ بیوی کے ساتھ عفو و کرم کی روش اختیار کیجئے:-*
*"_ بیوی کے ساتھ عفو و کرم کی روش اختیار کیجئے اور بیوی کی کوتاہیوں، نادانیوں اور سرکشیوں سے چشم پوشی کیجئے ۔ عورت عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور اور نہایت ہی جذباتی ہوتی ہے۔ اس لئے صبر و سکون، رحمت و شفقت اور دل سوزی کے ساتھ اس کو سدھارنے کی کوشش کیجئے اور صبر وضبط سے کام لیتے ہوئے نباہ کیجئے۔*
*✪"_ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-"_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ _" (تغابن: ١٤)*
*"✪_ مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولا د تمہارے دشمن ہیں، سو ان سے بچتے رہو اور اگر تم عفو و کرم، درگزر اور چشم پوشی سے کام لو تو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے_,"*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے، اس کو سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو (بخاری، مسلم، كتاب النكاح، باب الوصية بالنساء - ٣٦٤٤)*
▪
*✪_(4)_ بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کیجئے:-*
*✪"_ بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کیجئے اور پیار و محبت سے پیش آئے۔*
*"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:- کامل ایمان والے مومن وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں (ابن ماجہ ، باب حسن معاشرۃ النساء - ۱۹۷۷)*
*✪"_ اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہے۔ گھر والوں ہی سے ہر وقت کا واسطہ رہتا ہے، اور گھر کی بے تکلف زندگی میں ہی مزاج اور اخلاق کا ہر رُخ سامنے آتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان میں کامل ہے جو گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاقی، خندہ پیشانی اور مہربانی کا برتاؤ رکھے۔ گھر والوں کی دلجوئی کرے اور پیار و محبت سے پیش آئے۔*
*✪"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتیں، جب نبی کریم ﷺ تشریف لاتے تو سب اِدھر اُدھر چھپ جاتیں۔ آپ تمام کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک کو میرے پاس بھیجتے تاکہ میرے ساتھ کھیلیں (مسلم، کتاب فضائل الصحابة - ٦٢٨٧)*
*✪_(5)_پوری فراخ دلی کے ساتھ رفیقہ حیات کی ضروریات فراہم کیجئے:-*
*"✪_ پوری فراخدلی کے ساتھ رفیقہ حیات کی ضروریات فراہم کیجئے اور خرچ میں بھی تنگی نہ کیجئے۔*
*✪"_ اپنی محنت کی کمائی گھر والوں پر صرف کر کے سکون و مسرت محسوس کیجئے۔ کھانا، کپڑا بیوی کا حق ہے اور اس حق کو خوش دلی اور کشادگی کے ساتھ ادا کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرنا شوہر کا انتہائی خوشگوار فریضہ ہے۔ اس فریضے کو کھلے دل سے انجام دینے سے نہ صرف دنیا میں خوشگوار ازدواجی زندگی کی نعمت ملتی ہے بلکہ مومن آخرت میں بھی اجر و انعام کا مستحق بنتا ہے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ایک دینار تو وہ ہے جو تم نے خدا کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی غلام کو آزاد کرانے میں صرف کیا، ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی فقیر کو صدقہ میں دیا، اور ایک دینا روہ ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا۔ ان میں سب سے زیادہ اجر و ثواب اس دینار کے خرچ کرنے کا ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا _," (رياض الصالحين، باب النفقة على العيال)*
*✪_(6)_ بیوی کو دینی تعلیم دیجئے:-*
*✪"_بیوی کو دینی احکام اور تہذیب سکھائے۔ دین کی تعلیم دیجئے۔ اسلامی اخلاق سے آراستہ کیجئے اور اُس کی تربیت اور سدھار کے لئے ہر ممکن کوشش کیجئے تا کہ وہ ایک اچھی بیوی، اچھی ماں اور خدا کی نیک بندی بن سکے اور اپنے منصبی فرائض کو بحسن و خوبی ادا کر سکے۔*
*✪"_ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:- "_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا _,(سوره تحریم، آیت: ٦)*
*"_ ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ _,"*
*✪"_ نبی کریم ﷺ جس طرح باہر تبلیغ تعلیم میں مصروف رہتے تھے۔ اسی طرح گھر میں بھی اس فریضے کو ادا کرتے رہتے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو خطاب کیا ہے: "_ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ _," (الاحزاب، آیت ۳۳)*
*"_اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں اُن کو یاد رکھو _,"*
*✪"_ قرآن میں نبی کریم ﷺ کے واسطے سے مومنوں کو ہدایت کی گئی ہے۔ وأمر أهْلَكَ بِالصَّلَوَةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا_," اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجئے اور خود بھی اس کے پورے پابند رہے ( سور طاہہ ، آیت: ۱۳٢)*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:”_ جب کوئی مردرات میں اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ دونوں مل کر دو رکعت نماز پڑھتے ہیں تو شوہر کا نام ذکر کرنے والوں میں اور بیوی کا نام ذکر کرنے والیوں میں لکھ لیا جاتا ہے (ابوداؤد، باب قیام اللیل - ۱۳۰۹)*
*✪_(7)_ کئی بیویاں ہوں تو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیجئے:-*
*✪"_اگر کئی بیویاں ہوں تو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیجئے, نبی کریم ﷺ بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں برابری کا بڑا اہتمام فرماتے۔ سفر پر جاتے تو قرعہ ڈالتے اور قرعہ میں جس بیوی کا نام آتا اسی کو ساتھ لے جاتے۔*.
*"✪_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں، اور اُس نے اُن کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک نہ کیا تو قیامت کے روز وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گر گیا ہوگا“ (ترمذی، باب ما جاء في التسوية بين الضرائر - ١١٤١)*
*"✪_ انصاف اور برابری سے مراد، معاملات اور برتاؤ میں مساوات برتتا ہے۔ رہی یہ بات کہ کسی ایک بیوی کی طرف دل کا جھکاؤ اور محبت کے جذبات زیادہ ہوں تو یہ انسان کے بس میں نہیں ہے اور اس پر خدا کے یہاں کوئی گرفت نہ ہوگی۔*
*✪_(8)_ بیوی نہایت خوش دلی سے شوہر کی اطاعت کرے:-*
*✪"_نہایت خوش دلی سے اپنے شوہر کی اطاعت کیجئے اور اس اطاعت میں مسرت اور سکون محسوس کیجئے، اس لئے کہ یہ خدا کا حکم ہے اور جو بندی خدا کے حکم کی تعمیل کرتی ہے وہ اپنے خدا کو خوش کرتی ہے۔*
*✪"_ قرآن مجید میں ہے: نیک بیویاں شوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں_,"*
*"_نبی کریم مسلم کا ارشاد ہے: کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے _," (ابوداؤد، باب المرأة تصوم بغیر اذن زوجها - ٢٤٥٨)*
*✪"_ شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے عورت کو تنبیہ کیا ہے: دو قسم کے آدمی وہ ہیں جن کی نمازیں اُن کے سروں سے اونچی نہیں اُٹھتیں۔ اس غلام کی نماز جو اپنے آقا سے فرار ہو جائے جب تک کہ لوٹ نہ آئے اور اس عورت کی نماز جو شوہر کی نافرمانی کرے جب تک کہ شوہر کی نافرمانی سے باز نہ آ جائے۔ (الترغيب والترهيب، باب ترهيب العبد من الاباق من سيده -۳)*
*✪_(9)_اپنی آبرو اور عصمت کی حفاظت کا اہتمام کیجئے:-*
*✪"_ اپنی آبرو اور عصمت کی حفاظت کا اہتمام کیجئے اور ان تمام باتوں اور کاموں سے بھی دور رہے جن سے دامن عصمت پر دھبہ لگنے کا اندیشہ بھی ہو۔*
*"✪_ خدا کی ہدایت کا تقاضا بھی یہی ہے اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائے رکھنے کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری ہے۔ اس لئے کہ اگر شوہر کے دل میں اس طرح کا کوئی شبہ پیدا ہو جائے تو پھر عورت کی کوئی خدمت و اطاعت اور کوئی بھلائی شوہر کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکتی اور اس معاملہ میں معمولی سی کوتاہی سے بھی شوہر کے دل میں شیطان شبہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔*
*✪"_ لہذا انسانی کمزوری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط کیجئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھ لے، اپنی آبرو کی حفاظت کرلے، اپنے شوہر کی فرماں بردار ر ہے تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے_, (الترغیب والترہیب)*
*✪_(10)_ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائیے:-*
*✪"_ شوہر کی اجازت اور مرضی کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے اور نہ ایسے گھروں میں جائیے جہاں شوہر آپ کا جانا پسند نہ کرے اور نہ ایسے لوگوں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دیجئے جن کا آنا شو ہر کو نا گوار ہو۔*
۔
*✪"_ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا پر ایمان رکھنے والی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں کسی ایسے شخص کو آنے کی اجازت دے جس کا آنا شوہر کو نا گوار ہو اور وہ گھر سے ایسی صورت میں نکلے جب کہ اس کا نکلنا شوہر کو نا گوار ہو اور عورت شوہر کے معاملے میں کسی دوسرے کا کہا نہ مانے_," ( الترغیب والترہیب)*
*✪"_ یعنی شوہر کے معاملے میں شوہر کی مرضی اور اشارہ چشم و ابروہی پر عمل کیجئے اور اس کے خلاف ہر گز دوسروں کے مشورے کو نہ اپنائیے۔*
*✪_(11)_ ہمیشہ اپنے قول و عمل اور انداز و اطوار سے شوہر کو خوشرکھنے کی کوشش کیجئے:-*
*✪"_ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز بھی یہی ہے اور خدا کی رضا اور جنت کے حصول کا راستہ بھی یہی ہے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جس عورت نے بھی اس حالت میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی“۔ (ترمذی)*
*✪"_اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”_ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو جنسی ضرورت کے لئے بلائے اور وہ نہ آئے اور اس بناء پر شوہر رات بھر اس سے خفا رہے تو ایسی عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں_," (بخاری، کتاب النکاح -۵۱۹۳)*
*✪_ (12)_ اپنے شوہر کی رفاقت کی قدر کیجئے:-*
*✪"_اپنے شوہر کی رفاقت کی قدر کیجئے اپنے شوہر سے محبت کیجئے اور اس کی رفاقت کی قدر کیجئے۔ یہ زندگی کی زینت کا سہارا اور راہِ حیات کا عظیم معین و مددگار ہے۔ خدا کی اس عظیم نعمت پر خدا کا بھی شکر ادا کیجئے اور اس نعمت کی بھی دل و جان سے قدر کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: نکاح سے بہتر کوئی چیز دو محبت کرنے والوں کے لئے نہیں پائی گئی _," ( ابن ماجه، باب ما جاء في فضل النكاح - ١٨٤٧)*
*"✪_ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم ﷺ سے انتہائی محبت تھی۔ چنانچہ جب آپ ایام بیمار ہوئے تو انتہائی حسرت کے ساتھ بولیں: ”کاش آپ ﷺ کے بجائے میں بیمار ہوتی“ نبی کریم ﷺ کی دوسری بیویوں نے اس اظہار محبت پر تعجب سے ان کی طرف دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”دکھاوا نہیں ہے بلکہ سچ کہہ رہی ہیں_" (الاصلبة )*
*✪_(13)_ شوہر کا احسان مان کر اس کی شکر گزار رہنے:-*
*✪"_ شوہر کا احسان مانے، اس کی شکر گزار رہے۔ آپ کا سب سے بڑا محسن آپ کا شوہر ہی تو ہے جو ہر طرح آپ کو خوش کرنے میں لگارہتا ہے، آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے، اور آپ کو ہر طرح کا آرام پہنچا کر آرام محسوس کرتا ہے۔*
*✪"_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:-*
*"_تم پر جن کا احسان ہے اُن کی ناشکری سے بچو۔ تم میں کی ایک اپنے ماں باپ کے یہاں کافی دنوں تک بن بیاہی بیٹھی رہتی ہے، پھر خدا اُن کو شوہر عطا فرماتا ہے، پھر خدا اس کو اولاد سے نوازتا ہے ( ان تمام احسانات کے باوجود) اگر کبھی کسی بات پر شوہر سے خفا ہوتی ہے تو کہہ اُٹھتی ہے کہ میں نے تو کبھی تمہاری طرف سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں ( الادب المفرد، باب التسليم على النساء)*
*"✪_نا شکر گزار اور احسان فراموش بیوی کو تنبیہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:- خدا قیامت کے روز اس عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا جو شوہر کی نا شکر گزار ہوگی، حالانکہ عورت کسی وقت بھی شوہر سے بے نیاز نہیں ہو سکتی (نسائی)*
*✪_(14)_شوہر کی خدمت کر کے خوشی محسوس کیجئے:-*
*✪"_ شوہر کی خدمت کر کے خوشی محسوس کیجئے اور جہاں تک ہو سکے خود تکلیف اُٹھا کر شوہر کو آرام پہنچائے اور ہر طرح اُس کی خدمت کر کے اس کا دل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کیجئے,*
*"✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھ سے نبی کریم ﷺ کے کپڑے دھوتیں، سر میں تیل لگاتیں، کنگھا کرتیں، خوشبو لگاتیں، اور یہی حال دوسری صحابیہ خواتین کا بھی تھا۔ ایک بار نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیوی کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ شوہر کا اپنی بیوی پر عظیم حق ہے۔ اتنا عظیم حق کہ اگر شوہر کا سارا جسم زخمی ہو اور بیوی شوہر کے زخمی جسم کو زبان سے چاٹے تب بھی شوہر کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند احمد)*
*✪_(15)_شوہر کے گھر بار اور مال و اسباب کی حفاظت کیجئے:-*
*✪"_ شادی کے بعد شوہر کے گھر ہی کو اپنا گھر سمجھئے، اور شوہر کے مال کو شوہر کے گھر کی رونق بڑھانے، شوہر کی عزت بنانے اور اس کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں حکمت اور کفایت وسلیقے سے خرچ کیجئے۔ شوہر کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی ترقی اور خوشحالی سمجھئے،*
*✪"_ اور نبی کریم ﷺ نے نیک بیوی کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا: مومن کے لئے خوف خدا کے بعد سب سے زیادہ مفید اور باعث خیر نعمت نیک بیوی ہے کہ جب وہ اس سے کسی کام کو کہے تو وہ خوش دلی سے انجام دے اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو وہ اس کو خوش کر دے، اور جب وہ اس کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو وہ اس کی قسم پوری کر دے، اور جب وہ کہیں چلا جائے تو وہ اس کے پیچھے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال و اسباب کی نگرانی میں شوہر کی خیر خواہ اور وفادار رہے۔ (ابن ماجه، کتاب النکاح باب افضل النساء - ١٨٥٧)*
*✪_(16)_ شوہر کو کمانے کا اور بیوی کو خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے:-*
*✪"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت اپنے (شوہر) کے کھانے میں خرچ کرے اور بگاڑ کا طریقہ اختیار کرنے والی نہ ہو تو اس کو خرچ کرنے کی وجہ سے ثواب ملے گا اور شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملے گا اور جو خزانچی ہے (جس کے پاس رقم یا مال محفوظ رہتا ہے اگر چہ وہ مالک نہیں ہے مگر اس مال میں سے مالک کے حکم کے مطابق جب اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو ) اس کو بھی اسی طرح ثواب ملتا ہے۔ (جیسے مالک کو ملا )_,*
*"✪_ غرض ایک مال سے تین شخصوں کو ثواب ملے گا۔ کمانے والا, اس کی بیوی جس نے صدقہ کیا, اس کا خزانچی اور کیشئر ( جس نے مال نکال کر دیا),*
*"_ اور ایک کی وجہ سے دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی یعنی ثواب بٹ کر نہیں ملے گا بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کا پورا ثواب دیا جائے گا۔(مشکوۃ المصابیح، از بخاری، کتاب الزكوة، باب اجر المرأة اذا اتصدقت او اطعمت ... الخ و مسلم، كتاب الزكوة - ٢٣٦٤)*
*✪"_بہت سی عورتیں طبیعت کی کنجوس ہوتی ہیں اگر شو ہر کسی غریب کو دینا چاہتا ہے تو برا مانتی ہیں اور منھ بناتی ہیں۔ اگر ان کے پاس کچھ رکھا ہو اور شوہر کسی کو دینے کے لئے کہے تو برے دل سے نکال کر دیتی ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے روپیہ کے ساتھ کلیجہ نکل آ رہا ہے، بھلا ایسا کر کے اپنا ثواب کھونے سے کیا فائدہ؟*
*✪_(17)_صفائی وغیرہ کا پورا اہتمام کیجئے:-*
*✪"_صفائی ، سلیقہ اور آرائش وزیبائش کا بھی پورا پورا اہتمام کیجئے۔ گھر کو بھی صاف ستھرا رکھئے اور ہر چیز کو سلیقے سے سجائیے اور سلیقے سے استعمال کیجئے۔ صاف ستھرا گھر، قرینے سے سجے ہوئے صاف ستھرے کمرے، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور بناؤ سنگار کی ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیر و برکت سے مالا مال ہوتی ہے، بلکہ ایک بیوی کے لئے اپنی عاقبت بنانے اور خدا کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے۔*
*✪"_ ایک بار بیگم عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بیگم عثمان نہایت سادہ کپڑوں میں ہیں اور کوئی بناؤ سنگار بھی نہیں کیا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت تعجب ہوا اور اُن سے پوچھا: بی بی! کیا عثمان کہیں باہر سفر پر گئے ہوئے ہیں؟“*
*"_اس تعجب سے اندازہ کیجئے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہروں کے لئے بناؤ سنگار کرنا کیسا پسندیدہ فعل ہے۔*
*✪"_ ایک بار ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں، آپ ﷺ نے ان کو پہننے سے منع فرمایا تو کہنے لگیں: یا رسول اللہ ﷺ ! اگر عورت شوہر کے لئے بناؤ سنگار نہ کرے گی تو اس کی نظروں سے گر جائے گئی (نسائی، کتاب الزينة - ٥١٤٥)*
*✪"_ حضور ﷺ کی ممانعت اور پھر بعد میں سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ سونے کا استعمال عورتوں کے لئے جائز ہے مگر چونکہ یہ عیش پسندی اور تعیش تک پہنچاتا ہے اس لئے سونے کا استعمال بطور عیش پسندی اور مفاخرت کے مکروہ ہے، لیکن اگر شوہر کے لئے بناؤ سنگار کے لئے ہے تو جائز ہے۔*
*(51)*
*📓 مدنی معاشرہ - 82,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞ والدین کے ساتھ سلوک اس طرح گزاریئے,*
▪•═════••════•▪
*"✪_(1)_ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کو دونوں جہاں کی سعادت سمجھے:-*
*✪"_ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیجئے، اور اس حسن سلوک کی توفیق کو دونوں جہاں کی سعادت سمجھے، خدا کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق ماں باپ ہی کا ہے۔ ماں باپ کے حق کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ ماں باپ کے حق کو خدا کے حق کے ساتھ بیان کیا ہے اور خدا کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی شکر گزاری کی تاکید کی ہے,*
*✪"_وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا _" (بنی اسرائیل آیت ۲۳)*
*"_ اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو_,"*
*"✪_ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ نماز جو وقت پر پڑھی جائے۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟فرمایا: ” ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک“....." (بخاری، کتاب الادب، باب البر والصلة - ٥٩٧٠ و مسلم)*
*✪"_حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ ارشاد فرمایا: ”ماں باپ ہی تمہاری جنت ہے اور ماں باپ ہی دوزخ_," (ابن ماجہ، ابواب الادب -۳۶۶۲)*
*"_ یعنی ان کے ساتھ نیک سلوک کر کے تم جنت کے مستحق ہو گئے اور ان کے حقوق کو پامال کر کے تم جہنم کا ایندھن بنو گے۔*
*✪_(2)_ والدین کے شکر گزار رہئیے ۔ :-*
*"✪_محسن کی شکر گزاری اور احسان مندی شرافت کا اولین تقاضا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وجود کا سبب والدین ہیں۔ پھر والدین ہی کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلتے بڑھتے اور شعور کو پہنچتے ہیں اور وہ جس غیر معمولی قربانی، بے مثل جانفشانی اور انتہائی شفقت سے ہماری سر پرستی فرماتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہمارا سینہ ان کی عقیدت و احسان مندی اور عظمت و محبت سے سرشمار ہو اور ہمارے دل کا ریشہ ریشہ ان کا شکر گزار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ ان کی شکر گزاری کی تاکید فرمائی ہے۔*
*"✪_ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کیجئے اور ان کی مرضی اور مزاج کے خلاف کبھی کوئی ایسی بات نہ کہئے جو ان کو ناگوار ہوں، بالخصوص بڑھاپے میں جب مزاج کچھ چڑ چڑا اور کھتر ہو جاتا ہے اور والدین کچھ ایسے تقاضے، مطالبے کرنے لگتے ہیں جو توقع کے خلاف ہوتے ہیں، اس وقت بھی ہر بات کو خوشی خوشی برداشت کیجئے اور ان کی کسی بات سے اُکتا کر جواب میں کوئی ایسی بات ہر گز نہ کیجئے جو ان کو نا گوار ہو، اور ان کے جذبات کو ٹھیس لگے _,"*
*✪"_ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا (بنی اسرائیل، آیت:٢٣)*
*"✪_اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑ کیاں دو,*
*✪"_حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " خدا کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور خدا کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے_," (ترمذی، باب ما جاء من الفضل فى رضا الوالدين - ۱۸۹۹، ابن حبان، حاکم)*
*✪"_ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوا ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جاؤ اپنے ماں باپ کے پاس واپس جاؤ اور ان کو اسی طرح خوش کر کے آؤ جس طرح تم ان کو ر لا کر آئے ہو_" (ابوداؤد، کتاب الجهاد باب فى الرجل يغزو وابراه کارهان - ۲۵۲۸)*
*✪"_دل و جان سے ماں باپ کی خدمت کیجئے۔ اگر آپ کو خدا نے اس کا موقع دیا ہے تو دراصل یہ اس بات کی توفیق ہے کہ آپ خود کو جنت کا مستحق بنا سکیں اور خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ ماں باپ کی خدمت ہی سے دونوں جہاں کی بھلائی، سعادت اور عظمت حاصل ہوتی ہے اور آدمی دونوں جہاں کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔*
*✪"_ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں کشادگی ہو، اس کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرے اور صلہ رحمی کرے۔ (الترغيب والترهيب، كتاب البر والصلة،باب الترغيب في بر الوالدين وصلتهما ... الخ - ١٦)*
*"✪_ اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: وہ آدمی ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو، لوگوں نے پوچھا، اے خدا کے رسول ﷺ کون آدمی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا۔ دونوں کو پایا یا کسی ایک کو۔ اور پھر ( اُن کی خدمت کر کے ) جنت میں داخل نہ ہوا_," (مسلم،٦٥١٠)*
*"✪_ ایک موقع پر تو آپ ﷺ نے خدمت والدین کو جہاد جیسی عظیم عبادت پر بھی ترجیح دی۔ اور ایک صحابی کو جہاد میں جانے سے روک کر والدین کی خدمت کی تاکید فرمائی۔*
*"✪_حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے حاضر ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا: تمہارے ماں باپ زندہ ہیں۔ اُس نے کہا، جی ہاں زندہ ہیں۔ ارشاد فرمایا: جاؤ اور اُن کی خدمت کرتے رہو، یہی جہاد ہے_," (بخاری و مسلم، كتاب البر والصلة- ٦٥٠٤)*
*"✪_ماں باپ کا ادب و احترام کیجئے اور کوئی بھی ایسی بات یا حرکت نہ کیجئے جو اُن کے احترام کے خلاف ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک بار دو آدمیوں کو دیکھا، ایک سے پوچھا، یہ دوسرے تمہارے کون ہیں؟ اُس نے کہا، یہ میرے والد ہیں۔ آپ نے فرمایا، دیکھو! نہ اُن کا نام لینا، نہ کبھی اُن سے آگے آگے چلنا اور نہ کبھی اُن سے پہلے بیٹھنا_," (الادب المفرد، باب لا يسمى الرجل اباه ولا يجلس قبله ولا يمشى امامه - ٤٤)*
*✪_(3)_ والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آئیے:-*
*✪"_وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ_," (بنی اسرائیل، آیت:۲۳)*
*"_ اور عاجزی اور نرمی سے اُن کے سامنے بچھے رہو,*
*✪"_ عاجزی سے بجھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت اُن کے مرتبہ کا لحاظ رکھو۔ اور کبھی اُن کے سامنے اپنی بڑائی نہ جتاؤ اور نہ اُن کی شان میں گستاخی کرو۔*
*✪"_ والد سے محبت کیجئے اور اُس کو اپنے لئے باعث سعادت و اجر آخرت سمجھئے۔*
*✪"_ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: جو نیک اولاد بھی ماں باپ پر محبت بھری ایک نظر ڈالتی ہے، اُس کے بدلے خدا اُس کو ایک حج مقبول کا ثواب بخشتا ہے، لوگوں نے پوچھا، اے خدا کے رسول ﷺ؟ گر کوئی ایک دن میں سو بار اسی طرح رحمت و محبت کی نظر ڈالے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جی ہاں ! اگر کوئی سو بار ایسا کرے تب بھی، خدا ( تمہارے تصور سے ) بہت بڑا اور ( تنگ دلی جیسے عیبوں سے ) بالکل پاک ہے_" (مشكوة، باب البر والصلة الفصل الثالث)*
*✪_(4)_ ماں باپ کی دل و جان سے اطاعت کیجئے:-*
*✪"_ ماں باپ کی دل و جان سے اطاعت کیجئے۔ اگر وہ کچھ زیادتی بھی کر رہے ہوں تب بھی خوشدلی سے اطاعت کیجئے اور اُن کے عظیم احسانات کو پیش نظر رکھ کر ان کے وہ مطالبے بھی خوشی خوشی پورے کیجئے۔ جو آپ کے ذوق اور مزاج پر گراں ہوں بشرطیکہ وہ دین کے خلاف نہ ہوں۔*
*✪"_حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس آدمی نے اس حال میں صبح کی کہ وہ ان ہدایات و احکام میں خدا کا اطاعت گزار رہا، جو اُس نے ماں باپ کے حق میں نازل فرمائے ہیں، تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اُس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہوں اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہو تو جنت کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے_,"*
*✪"_ اور جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے بارے میں خدا کے بھیجے ہوئے احکام و ہدایات سے منہ موڑے ہوئے ہے تو اُس نے اس حال میں صبح کی کہ اُس کے لئے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں، اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہے تو دوزخ کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے۔*
*✪"_ اس آدمی نے پوچھا، اے خدا کے رسول ﷺ! اگر ماں باپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہوں تب بھی۔ فرمایا: ہاں اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی۔ اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی۔*
*®_(مشكوة، باب البر والصلة الفصل الثالث)*
*✪_(5)_ماں باپ کو اپنے مال کا مالک سمجھئے اور ان پر دل کھول کر خرچ کیجئے۔*
*✪"_ قرآن پاک میں ہے: يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ _," (البقر وايت: ٢١٥)*
*"_ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں، ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دیجئے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو، اس کے اولین حقدار والدین ہیں“*
*✪"_ ایک بار نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اپنے باپ کی شکایت کرنے لگا کہ وہ جب چاہتے ہیں میرا مال لے لیتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے اُس آدمی کے باپ کو بلوایا۔ لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا کمزور شخص حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے اس بوڑھے شخص سے تحقیق فرمائی۔ تو اُس نے کہنا شروع کیا۔ خدا کے رسول ﷺ ! ایک زمانہ تھا جب یہ کمزور اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی، میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا۔ میں نے کبھی اس کو اپنی چیز لینے سے نہیں روکا۔ آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست وقوی ہے، میں خالی ہاتھ ہوں اور یہ مالدار ہے۔ اب یہ اپنا مال مجھ سے بچا بچا کر رکھتا ہے_"*
*✪"_بوڑھے کی یہ باتیں سن کر رحمت عالم ﷺ رو پڑے اور بوڑھے کے لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا : " تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے_"*
*✪_(6)_ ماں باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کے ساتھ سلوک کیجئے:-*
*"✪_ ماں باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی اُن کے ساتھ سلوک کیجئے، اُن کا ادب و احترام اور اُن کی خدمت برابر کرتے رہے, البتہ اگر وہ شرک و معصیت کا حکم دیں تو اُن کی اطاعت سے انکار کر دیجئے اور اُن کا کہا ہر گز نہ مانے۔*
*✪"_وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا _,"(سورة لقمان، آیت:15)*
*✪"_اور اگر ماں باپ دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک بناؤ جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے تو ہرگز ان کا کہنا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو۔*
*"✪_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں میرے پاس میری والدہ آئیں اور اُس وقت وہ مشرکہ تھیں۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میرے پاس میری والدہ آئی ہیں اور وہ اسلام سے متنفر ہیں۔ کیا میں ان کے ساتھ سلوک کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی رہو_," (بخاری، باب صلة الوالد المشرك - ٥٩٧٨)*
*✪_(7)_ ماں باپ کے لئے برابر دعا کرتے رہئے:-*
*✪"_ ماں باپ کے لئے برابر دعا کرتے رہے اور ان کے احسانات کو یاد کر کے خدا کے حضور گڑگڑائے اور انتہائی دل سوزی اور قلبی جذبات کے ساتھ ان کے لئے رحم و کرم کی درخواست کیجئے۔*
*✪"_ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"_ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا _," (بنی اسرائیل آیت ٢٤)*
*✪"_ اور دعا کرو کہ پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں پرورش فرمائی تھی_,*
*✪"_یعنی اے پروردگار! بچپن کی بے بسی میں، جس زحمت و جانفشانی اور شفقت و محبت سے انہوں نے میری پرورش کی۔ اور میری خاطر اسے عیش کو قربان کیا، پر وردگار ! اب یہ بڑھاپے کی کمزوری اور بے بسی میں مجھ سے زیادہ خود رحمت و شفقت کے محتاج ہیں۔ خدایا! میں ان کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتا، تو ہی ان کی سرپرستی فرما اور ان کے حال زار پر رحم کی نظر کر_,"*
*✪_( 8)_ ماں کی خدمت کا خصوصی خیال رکھئے:-*
*"✪_ ماں طبعاً زیادہ کمزور اور حساس ہوتی ہے۔ اور آپ کی خدمت و سلوک کی نسبتاً زیادہ ضرورت مند بھی۔ پھر اس کے احسانات اور قربانیاں بھی باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں, اس لئے دین نے ماں کا حق زیادہ بتایا ہے اور ماں کے ساتھ سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے۔*
*"✪_ قرآن پاک میں ارشاد ہے:-"_ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا _,"(الاحقاف، آیت: ١٥)*
*✪"_ اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں تکلیف اُٹھا اُٹھا کر اس کو پیٹ میں لیے لیے پھری اور تکلیف ہی سے جنا، اور پیٹ میں اُٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ (تکلیف دہ) مدت تیسں مہینے ہے"*
*✪"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور پوچھا: ”اے خدا کے رسول ﷺ ! میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” تیری ماں“ اس نے پوچھا، پھر کون؟" آپ ﷺ نے فرمایا، تیری ماں۔ اس نے پوچھا، پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تیری ماں۔ اس نے کہا، پھر کون؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا- تیرا باپ_,"*
*®_(بخاری، باب من أحق الناس بحسن الصحبة - ٥٩٧١)*
*✪"_حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یارسول اللہ ! میرا ارادہ ہے کہ میں آپ کے ہمراہ جہاد میں شرکت کروں اور اسی لئے آیا ہوں کہ آپ ﷺ سے اس معاملہ میں مشورہ لوں (فرمائیے کیا حکم ہے؟) نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا: تمہاری والدہ (زندہ) ہیں؟ جاہمہ رضی اللہ عنہ نہ نے کہا، جی ہاں (زندہ ہیں)۔*
*"_ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا- تو پھر جاؤ اور انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت انہی کے قدموں میں ہے_,"*
*®_(ابن ماجه، ابواب الجهاد باب الرجل يغزو وله ابوان ۲۷۸۱)*
*"✪_ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نبی کریم ﷺ کے دور میں موجود تھے مگر آپ ﷺ کی ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ ان کی ایک بوڑھی ماں تھیں۔ دن رات انہی کی خدمت میں لگے رہتے۔ نبی کریم ﷺ کے دیدار کی بڑی آرزو تھی اور کون مومن ہوگا جو اس تمنا میں نہ تڑپتا ہو کہ اس کی آنکھیں دیدار رسول ﷺ سے روشن ہوں۔*
*✪"_ چنانچہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے آنا بھی چاہا لیکن نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا۔ فریضہ حج ادا کرنے کی بھی ان کے دل میں بڑی آرزو تھی لیکن جب تک ان کی والدہ زندہ رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے حج نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد ہی یہ آرزو پوری ہو سکی۔*
*✪_(9)_رضاعی ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کیجئے:-*
*✪"_ رضاعی ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیجئے، اس کی خدمت کیجئے۔ اور ادب و احترام سے پیش آئے ۔*
*"✪_ حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے جعرانہ کے مقام پر نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ گوشت تقسیم فرما رہے ہیں۔ اتنے میں ایک عورت آئیں اور نبی کریم ﷺ کے بالکل قریب پہنچ گئیں ۔ آپ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھا دی، وہ اس پر بیٹھ گئیں۔*
*"✪_ میں نے لوگوں سے پوچھا، یہ کون صاحبہ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی وہ ماں ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا_,"*
*®_( ابو داؤد، باب في بر الوالدين - ٥١٤٤)*
*✪_ (10)_ ماں باپ وفات کے بعد بھی حسن سلوک کے حقدار ہیں:-*
*✪_"_ والدین کی وفات کے بعد بھی ان کا خیال رکھئے اور ان کے لئے مغفرت کی دُعائیں برابر کرتے رہئے۔ قرآن پاک نے مومنوں کو یہ دعا سکھائی ہے:-*
*"_ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ_,"*
*✪_"_ پروردگار میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی اور سب ایمان والوں کو اس روز معاف فرما دے جب کہ حساب قائم ہوگا“ (سورہ ابراہیم، آیت: ۴۱)*
*✪_"_ حضرت ابو ہریرہ ہی اتنی ہی کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے، صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں، ایک صدقہ جاریہ، دوسرے اس کا پھیلایا ہوا وہ علم جس سے لوگ فائدہ اُٹھا ئیں۔ تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لئے دُعائے مغفرت کرتی رہے_"*
*®_ (ابن ماجه، باب ثواب معلم الناس الخير - ٢٤١)*
*✪_(11)_ والدین کی کہی ہوئی وصیت کو پورا کیجئے:-*
*✪"_ والدین کے کیئے ہوئے عہد و پیمان اور وصیت کو پورا کیجئے۔ ماں باپ نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں سے کچھ وعدے کئے ہوں گے، اپنے خدا سے کچھ عہد کیا ہوگا، کوئی نذر مانی ہوگی۔ کسی کو کچھ مال دینے کا وعدہ کیا ہوگا۔ اُن کے ذمہ کسی کا قرض رہ گیا ہوگا اور ادا کرنے کا موقع نہ پاسکے ہوں گے، مرتے وقت کچھ وصیتیں کی ہوں گی۔ آپ اپنے امکان بھر ان سارے کاموں کو پورا کیجئے۔*
*✪"_ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! میری والدہ نے نذر مانی تھی لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے وفات پا گئیں، کیا میں ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر سکتا ہوں؟*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں ! تم ضرور ان کی طرف سے نذر پوری کردو_،"*
*®_ (بخاري، كتاب الوصايا، باب ما يستحب لمن توفى فجاء ... الخ (۲۷٦١)*
*✪_ باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہئے:-*
*"✪__ باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہے۔ ان کا احترام کیجئے، اُن کو اپنے مشوروں میں اپنے بزرگوں کی طرح شریک رکھئے، اُن کی رائے اور مشوروں کی تعظیم کیجئے۔*
*"✪__ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”سب سے زیادہ نیک سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ بھلائی کرے۔" (مسلم کتاب البر والصلة و الادب ٦٥١٣)*
*"✪__ ایک بار حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور مرض بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ بچنے کی کوئی اُمید نہ رہی۔ تو حضرت یوسف بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دور دراز سے سفر کر کے ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو تعجب سے پوچھا تم یہاں کہاں؟ یوسف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہاں محض اس لئے آیا ہوں کہ آپ کی عیادت کروں۔ کیونکہ والد بزرگوار سے آپ کے تعلقات بڑے گہرے تھے_," (مسند احمد ۶ ۴۵۰)*
*"✪__ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں جب مدینہ آیا تو میرے پاس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے۔ ابو بردہ رضی اللہ عنہ! تم جانتے ہو میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟ میں نے کہا، میں تو نہیں جانتا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں۔*
*"_ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص قبر میں اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہتا ہو اُس کو چاہئے کہ باپ کے مرنے کے بعد باپ کے دوست احباب کے ساتھ اچھا سلوک کرے_,"*
*"_اور پھر فرمایا: بھائی میرے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے والد میں گہری دوستی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس دوستی کو نباہوں اور اس کے حقوق ادا کروں_,"*
*®( ابن حبان الترغيب والترهيب كتاب البر والصلة - ٣٤)*
*✪_(13)_ ماں باپ کے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہئے :-*
*✪"_ ماں باپ کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی برابر نیک سلوک کرتے رہئے اور ان رشتوں کا پوری طرح پاس ولحاظ رکھئے۔ ان رشتہ داروں سے بے نیازی اور بے پرواہی در اصل والدین سے بے نیازی ہے۔*
*"✪_ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا- "_تم اپنے آباؤ و اجداد سے ہرگز بے پرواہی نہ برتو, ماں باپ سے بے پرواہی برتنا خدا کی ناشکری ہے_,"*
*"✪_(14)_ ماں باپ سے سلوک میں کوتا ہی ہو جائے تو مایوس نہ ہوں:-*
*"✪_ اگر زندگی میں خدانخواستہ ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتا ہی ہو گئی ہے تو پھر بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ مرنے کے بعد ان کے حق میں برابر خدا سے دعائے مغفرت کرتے رہئے۔ توقع ہے کہ خدا آپ کی کوتاہی سے در گزر فرمائے اور آپ کا شمار اپنے صالح بندوں میں فرما دے۔*
*"✪_ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:"_ اگر کوئی بندہ خدا زندگی میں ماں باپ کا نافرمان رہا اور والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا اسی حال میں انتقال ہو گیا تو اب اس کو چاہئے کہ وہ اپنے والدین کے لئے برابر دعا کرتار ہے، اور خدا سے ان کی بخشش کی دعا کرتا رہے۔ یہاں تک کہ خدا اس کو اپنی رحمت سے نیک لوگوں میں لکھ دے_,"*
*📓 مدنی معاشرہ - 96,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ لباس ہو تو ایسا ہو _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_شرم و حیا اور ستر پوشی والے لباس پہئیے :-*
*✪"_ لباس ایسا پہنئے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے تہذیب وسلیقہ اور زینت و جمال کا اظہار ہو۔*
*"✪_ قرآن پاک میں خدا تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:- "_ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا _,"(الاعراف، آیت: ٢٦)*
*”_ اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو_,"*
*"✪_ لباس کا مقصد زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے لیکن اولین مقصد قابل شرم حصوں کی ستر پوشی ہے۔ خدا نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہ السلام سے جنت کا لباس فاخرہ اتروا لیا گیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔*
*"✪_ اس لئے لباس میں اس مقصد کو سب سے مقدم سمجھئے اور لباس ایسا منتخب کیجئے جس سے ستر پوشی کا مقصد بخوبی پورا ہو سکے۔ ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام رہے کہ لباس موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کرنے والا بھی ہو، اور ایسا سلیقے کا لباس ہو جو زینت و جمال اور تہذیب کا بھی ذریعہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اُسے پہن کر آپ کوئی عجوبہ یا کھلونا بن جائیں اور لوگوں کے لئے بنسی اور دل لگی کا موضوع مہیا ہو جائے۔*
*✪"_ لباس پہنتے وقت یہ سوچیئے کہ یہ وہ نعمت ہے جس سے خدا نے صرف انسان کو نوازا ہے۔ دوسری مخلوقات اس سے محروم ہیں اس امتیازی بخشش و انعام پر خدا کا شکر ادا کیجئے اور اس امتیازی انعام سے سرفراز ہو کر کبھی خدا کی ناشکری اور نافرمانی کا عمل نہ کیجئے۔ لباس خدا کی ایک زبر دست نشانی ہے، لباس پہنیں تو اس احساس کو تازہ کیجئے اور جذبات شکر کا اظہار اُس دُعا کے الفاظ میں کیجئے جو نبی کریم ﷺ نے مومنوں کو سکھائی ہے۔*
*✪_(2)_ بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے :-*
*"✪_بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کے لباس سے باطنی پاکیزگی مراد ہے اور ظاہری پرہیز گاری کا لباس بھی۔ یعنی ایسا لباس پہنے جو شریعت کی نظر میں پر ہیز گاروں کا لباس ہو، جس سے کبر و غرور کا اظہار نہ ہو، جو نہ عورتوں کے لئے مشابہت کا ذریعہ ہو مرد سے اور نہ مردوں کے لئے عورتوں سے مشابہت کا۔*
*"✪_ ایسا لباس پہنئے جس کو دیکھ کر محسوس ہو سکے کہ لباس پہنے والا کوئی خدا ترس اور بھلا انسان ہے اور عورتیں لباس میں ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لئے مقرر کی ہیں اور مردان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے اُن کے لئے مقرر کی ہیں۔*
*"✪_(3)_ کپڑے دائیں طرف سے پہیئے، جب تم (کپڑے) پہنو اور جب تم وضو کرو تو داہنی طرف سے شروع کیا کرو_,"*
*"_ (ابن ماجه، باب اليتمن في الوضوء - ٤٠٢ )*
*✪_(4)_ نیا کپڑا پہنیں تو کپڑے کا نام لے کر خوشی کا اظہار کیجئے اور حضور اکرم ﷺ کی پڑھی جانے والی دعا پڑھئے:-*
*✪"_ نیا لباس پہنیں تو کپڑے کا نام لے کر خوشی کا اظہار کیجئے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے یہ کپڑا عنایت فرمایا۔ اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو کر نیا لباس پہنے کی وہ دُعا پڑھئے جو نبی کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے۔*
*✪"_ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی نیا کپڑا، عمامہ کرتا یا چادر پہنتے تو اس کا نام لے کر فرماتے:-*
*"_ اللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيْهِ، أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ _,"*
*"®_(ابوداؤد، کتاب اللباس - ٤٠٢٠)*
*✪"_ ( ترجمہ)_ خدایا تیرا شکر ہے تونے مجھے یہ لباس پہنایا۔ میں تجھ سے اس کی خیر کا خواہاں ہوں اور جس چیز کے لئے بنایا گیا ہے اس کی خیر طلب کرتا ہوں اور میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، اس لباس کی برائی سے اور اس کے مقصد کے اس برے پہلو سے جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے"*
*✪"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص نئے کپڑے پہنے اگر وہ گنجائش رکھتا ہو تو اپنے پرانے کپڑے کسی غریب کو خیرات میں دے دے۔ اور نئے کپڑے پہنتے وقت یہ دعا پڑھے:-*
*"_ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِى مَا أَوَارِى بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمْلُ بِهِ فِي حَيَاتِي.*
*"_ساری تعریف اور حمد اُس خدا کے لئے ہے جس نے مجھے یہ کپڑے پہنائے، جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں، اور جو اس زندگی میں میرے لئے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہے"*
*✪"_جو شخص بھی نیا لباس پہنتے وقت یہ دُعا پڑھے گا، خدا تعالیٰ اس کو زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے گا_,"*
*®_(ابن ماجه، كتاب اللباس - ٣٥٥٧)*
*✪_(5)_ کپڑے پہنتے وقت سیدھی جانب کا خیال رکھئے اور کپڑے پہنے سے پہلے ضرور جھاڑ لیجئے:-*
*✪"_ قمیص، کرتہ، شیروانی اور کوٹ وغیرہ پہنیں تو پہلے سیدھی آستین پہنے اور اسی طرح پائجامہ وغیرہ پہنیں تو پہلے سیدھے پیر میں پائنچہ ڈالئے,*
*"✪_ نبی کریم ﷺ جب قمیص پہنتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر اُلٹا ہاتھ الٹی آستین میں ڈالتے۔ اسی طرح جب آپ ﷺ جوتا پہنتے تو پہلے سیدھا پاؤں سیدھے جوتے میں ڈالتے پھر الٹا پاؤں اُلٹے جوتے میں ڈالتے اور جوتا اتارتے وقت پہلے الٹا پاؤں جوتے میں سے نکالتے پھر سیدھا پاؤں نکالتے۔*
*"✪_کپڑے پہنے سے پہلے ضرور جھاڑ لیجئے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی موذی جانور ہو اور خدانخواستہ کوئی ایذا پہنچائے۔ نبی کریم ﷺ ایک بار جنگل میں اپنے موزے پہن رہے تھے۔ پہلا موزہ پہننے کے بعد جب آپ ﷺ نے دوسرا موزہ پہنے کا ارادہ فرمایا تو ایک کوا جھپٹا اور وہ موزہ اٹھا کر اُڑ گیا اور کافی اوپر لے جا کر اُسے چھوڑ دیا۔*
*"_موزہ جب اونچائی سے نیچے گرا تو گرنے کی چوٹ سے اس میں سے ایک سانپ نکل کر دور جا پڑا۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ارشاد فرمایا: ”ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جب موزہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس کو جھاڑ لیا کرے_," (طبرانی)*
*✪_(6)_ لباس سفید پہنئے:-*
*"✪_ لباس سفید پہنئے، سفید لباس مردوں کے لئے پسندیدہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:- "سفید کپڑے پہنا کرو، یہ بہترین لباس ہے۔ سفید کپڑا ہی زندگی میں پہننا چاہئے اور سفید ہی کپڑے میں مردوں کو دفن کرنا چاہتے"*
*®_(ترمذی، کتاب الجنائز باب ما جاء ما يستحب من الاكفان - ٩٩٤)*
*✪"_ ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”سفید کپڑے پہنا کرو، اس لئے کہ سفید کپڑا زیادہ صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو_,"*
*®_( ابن ماجه، باب البياض من الثياب)*
*"✪_ زیادہ صاف ستھرا ربنے سے مراد یہ ہے کہ اگر اس پر ذرا سا داغ دھبہ بھی لگے تو فوراً محسوس ہو جائے گا۔ اور آدمی فوراً دھو کر صاف کر لے گا۔رنگین کپڑا ہوگا تو اس پر داغ دھبہ جلد نظر نہ آسکے گا اور جلد دھونے کی طرف توجہ نہ ہوگی_,"*
*"_ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سفید لباس پہنا کرتے تھے (بخاری، كتاب اللباس، باب الثياب البيض - ٥٨٢٧) یعنی آپ ﷺ نے خود بھی سفید لباس پسند کیا اور اُمت کے مردوں کو بھی اسی کو پہنے کی ترغیب دی۔*
*✪_(7)_ پائجامہ اور لنگی وغیرہ کو ٹخنوں سے اونچا رکھئے:-*
*✪"_ جولوگ غرور و تکبر میں اپنا پائجامہ اور لنگی وغیرہ لٹکاتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کی نظر میں وہ ناکام اور نامراد لوگ ہیں اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔*
*✪"_ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ خدا تعالی قیامت کے دن نہ تو ان سے بات کرے گا نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا اور نہ اُن کو پاک وصاف کر کے جنت میں داخل کرے گا بلکہ ان کو انتہائی دردناک عذاب دے گا۔*
*"_ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ارشاد فرمایا: ایک وہ جوغرور اور تکبر میں اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جو احسان جتاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو جھوٹی قسموں کے سہارے اپنی تجارت کو چمکانا چاہتا ہے“ (مسلم، کتاب الایمان-۲۹۳)*
*"✪_حضرت عبید بن خالد رضی اللہ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: ”میں ایک بار مدینہ منورہ میں جارہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے یہ کہتے سنا : " اپنا تہبند اوپر اٹھا لو کہ اس سے آدمی ظاہری نجاست سے بھی محفوظ رہتا ہے اور باطنی نجاست سے بھی ۔ میں نے گردن پھیر کر جو دیکھا تو نبی کریم ﷺ تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ تو ایک معمولی سی چادر ہے۔ بھلا اس میں کیا تکبر اور غرور ہو سکتا ہے؟*
*"_ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” کیا تمہارے لئے میری اتباع ضروری نہیں ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے الفاظ سنے تو فوراً میر کی نگاہ آپ ﷺ کے تہبند پر پڑی، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا تہبند نصف پنڈلی تک اونچا ہے (سنن نسائی ۴۸۴/۵ شمائل ترمذی)*
*✪_(8)_مرد ریشمی کپڑا نہ پہنے:-*
*✪"_ مرد ریشمی کپڑا نہ پہنے ۔ یہ عورتوں کا لباس ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے مردوں کو عورتوں کا سا لباس پہنے اور ان کی سی شکل وصورت بنانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔*
*"✪_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ریشمی لباس نہ پہنو کہ جو اس کو دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اس کو نہ پہن سکے گا“*
*"_®_ (بخاری، کتاب اللباس - ۵۸۳۰ و مسلم، کتاب اللباس - ٥٤١٠)*
*✪"_ایک بار نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس ریشمی کپڑے کو پھاڑ کر اور اس کے دوپٹے بنا کر ان فاطماؤں میں تقسیم کر دو_," (مسلم ، کتاب اللباس -۵۴۲۲)*
*✪"_ فاطماؤں سے مراد یہ تین قابل احترام خواتین ہیں:(١)_ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی پیاری بیٹی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ، (٢)_ فاطمہ بنت اسد، حضرت علی کی والدہ محترمہ، (٣)_ فاطمہ بنت حمزہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ عم رسول ﷺ کی بیٹی،*
*✪"_ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین کے لئے ریشمی کپڑا پہنا پسندیدہ ہے، اسی لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ خواتین کے دوپٹے بنا دو ورنہ کپڑا تو دوسرے کاموں میں بھی آسکتا ہے۔*
*✪_(9)_عورتیں باریک کپڑے نہ پہنیں کہ جس سے بدن جھلکے، چست لباس بھی نہ پہنیں کہ بدن کی بناوٹ نظر آئے:-*
*"✪_عورتیں ایسے باریک کپڑے نہ پہنیں جس میں سے بدن جھلکے اور نہ ایسا چیست لباس پہنیں جس میں سے بدن کی ساخت اور زیادہ پرکشش ہو کر نمایاں ہو، اور وہ کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آئیں۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے ایسی آبرو باختہ عورتوں کو عبرتناک انجام کی خبر دی ہے:-*
*"_ وہ عورتیں بھی جہنمی ہیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، دوسروں کو رجھاتی ہیں اور خود دوسروں پر ریجھتی ہیں۔ اُن کے سرناز سے بختی اونٹوں کے کو ہانوں کی طرح ٹیڑھے ہیں۔ یہ عورتیں نہ جنت میں جائیں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی۔ درانحالیکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہے_,"*
*®_ (مسلم، کتاب اللباس - ۵۵۸۲)*
*"✪_ ایک بار حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہنے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، وہ سامنے آئیں تو آپ نے فوراً منھ پھیر لیا اور فرمایا: اسماء! جب عورت جوان ہو جائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ منھ اور ہاتھ کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے_“*
*®_(ابودائود، کتاب اللباس، باب فيما تبدى المرأة من زينتها - ٤١٠٤)*
*"✪_تہبند اور پائجامہ وغیرہ پہننے کے بعد بھی ایسے انداز سے لیٹنے اور بیٹھنے سے بچئے جس میں بدن کھل جانے یا نمایاں ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:-*
*"_ ایک جوتا پہن کر نہ چلا کرو اور تمہبند میں ایک زانو اُٹھا کر اکڑوں نہ بیٹھو اور بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ۔ اور چادر پورے بدن پر اس انداز سے نہ لپیٹو کہ کام کاج کرنے یا نماز وغیرہ پڑھنے میں بھی ہاتھ نہ نکل سکے اور نہ چت لیٹ کر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھو ( کہ اس طرح ستر پوشی میں بے احتیاطی کا اندیشہ ہے )*
*®_ (مسلم، كتاب اللباس، باب النهي عن اشتمال الصماء... الخ)*
*✪_(10)_ لباس میں مردوزن ایک دوسرے کا رنگ ڈھنگ نہ اپنا ئیں:-*
*✪"_ لباس میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کا سا رنگ ڈھنگ نہ اختیار کریں۔ نبی کریم ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کریں_," ( بخاری، کتاب اللباس -۵۸۸۵)*
*✪"_ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے ذکر کیا کہ ایک عورت ہے جو مردوں کے سے جوتے پہنتی ہے, تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مرد بننے کی کوشش کرتی ہیں_," (ابوداؤ - ۴۰۹۹)*
*✪_(11)_ خواتین دو پٹہ اوڑھے رہنے کا اہتمام رکھیں اور اس سے اپنے سر اور سینے کو چھپائے رکھیں۔*
*"✪_ دو پٹہ ایسا باریک نہ اوڑھیں جس سے سر کے بال نظر آئیں۔ دوپٹے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس سے زینت کو چھپایا جائے۔ قرآن پاک میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ (النور: ۳۱)*
*✪"_اور اپنے سینوں پر اپنے دوپٹوں کے آنچل ڈالے رکھیں_,"*
*"✪_ ایک بار نبی کریم ﷺ کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ کی چادر آئی۔ آپ نے اس میں سے کچھ حصہ پھاڑ کر دحیہ کلبی کو دیا اور فرمایا اس میں سے ایک حصہ پھاڑ کر تم اپنا کرتا بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لئے دے دو مگر اُن سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے_," (ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فى لبس القباطي للنساء - ٤١١٦)*
*"✪_ کتاب وسنت کی اس صریح ہدایت کو پیش نظر رکھ کر احکام الہی کے مقصد کو پورا کیجئے اور چار گرہ کی پٹی کو گلے کا ہار بنا کر خدا اور رسول کے احکام کا مذاق نہ اڑائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا تو عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر موٹے کپڑے چھانٹے اور اُن کے دوپٹے بنائے" (ابودائود، باب فی قول الله تعالى وليضربن بخمرهن - ٤١٠٢)*
*✪_(12)_ لباس ہمیشہ اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق پہنئے:-*
*"✪_ لباس ہمیشہ اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق پہنے۔ نہ ایسا لباس پہنے جس سے فخر ونمائش کا اظہار ہو اور آپ دوسروں کو حقیر سمجھ کر اترائیں اور اپنی دولت مندی کی ہے جا نمائش کریں اور نہ ایسا لباس پہنے جو آپ کی وسعت سے زیادہ قیمتی ہو اور آپ فضول خرچی کے گناہ میں مبتلا ہوں،*
*"✪_ اور نہ ایسے شکستہ حال بنے رہیں کہ ہر وقت آپ کی حالت سوال بنی رہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود آپ محروم نظر آئیں بلکہ ہمیشہ اپنی وسعت و حیثیت کے لحاظ سے موزوں با سلیقہ اور صاف ستھرے کپڑے پہنیں۔*
*"✪_ بعض لوگ پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہن کر شکستہ حال بنے رہتے ہیں اور اس کو دینداری سمجھتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کو دنیا دار سمجھتے ہیں جو صاف ستھرے سلیقے کے کپڑے پہنتے ہیں حالانکہ دینداری کا یہ تصور سراسر غلط ہے۔ حضرت ابوالحسن عامی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ ایک بار نہایت ہی عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ کسی شکستہ حال صوفی نے ان کے اس ٹھاٹ باٹ پر اعتراض کیا کہ بھلا اللہ والوں کو ایسا بیش بہا لباس پہننے کی کیا ضرورت؟ حضرت شاذلی نے جواب دیا، بھائی یہ شان و شوکت، عظمت و شان والے خدا کی حمد وشکر کا اظہار ہے اور تمہاری یہ شکستہ حالی صورت سوال ہے۔ تم زبان حال سے بندوں سے سوال کر رہے ہو _,"*
*"✪_ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے کہا، یا رسول اللہ ﷺ! میں چاہتا ہوں کہ میرا لباس نہایت عمدہ ہو، سر میں تیل لگا ہوا ہو، جوتے بھی نفیس ہوں، اسی طرح اس نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا یہاں تک کہ اس نے کہا میرا جی چاہتا ہے میرا کوڑہ بھی نہایت عمدہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی گفتگو سنتے رہے، پھر فرمایا: ” یہ ساری ہی باتیں پسندیدہ ہیں اور خدا اس لطیف ذوق کو اچھی نظر سے دیکھتا ہے_," (مستدرک احمد)*
*"✪_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ تکبر اور غرور ہے کہ میں نفیس اور عمدہ کپڑے پہنوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ یہ تو خوبصورتی ہے، اور خدا اس خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ (ابن ماجہ )*
*✪_(13)_ پہنے، اوڑھنے اور بناؤ سنگھار کرنے میں بھی ذوق کا پورا خیال رکھئے:-*
*✪"_پہننے اوڑھنے اور بناؤ سنگار کرنے میں بھی ذوق اور سلیقے کا پورا پورا خیال رکھئے۔ گریبان کھولے کھولے پھرنا، اُلٹے سیدھے بٹن لگانا، ایک پائینچہ چڑھانا اور ایک نیچا رکھنا اور ایک جوتا پہنے پہنے چلنا یا اُلجھے ہوئے بال رکھنا۔ یہ سب ہی باتیں ذوق اور سلیقے کے خلاف ہیں۔*
*"✪_ ایک دن نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ اتنے میں ایک شخص مسجد میں آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اُس کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جا کر اپنے سر کے بال اور داڑھی کو سنوارو ۔ چنانچہ وہ شخص گیا اور بالوں کو بنا سنوار کر آیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کیا یہ زینت و آرائش اس سے بہتر نہیں کہ آدمی کے بال اُلجھے ہوئے ہوں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ شخص شیطان ہے_," (مشکوۃ، باب الترجل الفصل الثالث)*
*✪"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا دونوں پہن کر چلو یا دونوں اُتار کر چلو۔ (ترمذی، کتاب اللباس باب ما جاء في كراهية المشى في النعل الواحدة ١٧٧٤)*
*"✪_ اور اسی حدیث کی روشنی میں علماء دین نے ایک آستین اور ایک موزہ پہنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے_,"*
*"✪_ جوتا پہنتے وقت پہلے داہنے پاؤں میں جوتا ڈالو۔ اور جب جوتے اتارو تو پہلے بایاں پاؤں نکالو_,"(بخاری، باب ينزع نعله اليسرى- ٥٨٥٦)*
*✪_(14)_سرخ اور شوخ رنگ، زرق برق پوشاک اور نمائشی سیاہ اور گیروا کپڑے پہنے سے بھی پرہیز کیجئے:-*
*✪"_سرخ اور شوخ رنگ، زرق برق پوشاک اور نمائشی سیاہ اور گیروا کپڑے پہنے سے بھی پرہیز کیجئے۔ سرخ اور شوخ رنگ اور زرق برق پوشاک عورتوں ہی کے لئے مناسب ہے اور ان کو بھی حدود کا خیال رکھنا چاہئے۔ رہے نمائشی لمبے چوڑے جبے یا سیاہ اور گیروا جوڑے پہن کر دوسروں کے مقابل میں اپنی برتری دکھانا اور اپنا امتیاز جتانا تو یہ سراسر کبر و غرور کی علامت ہے۔*
*✪"_ اسی طرح ایسے عجیب وغریب اور مضحکہ خیز کپڑے بھی نہ پہنے جس کے پہنے سے آپ خواہ مخواہ عجوبہ بن جائیں اور لوگ آپ کو ہنسی اور دل لگی کا موضوع بنالیں۔*
*✪_(15)_ ہمیشہ سادہ اور باوقار لباس پہنے:-*
*"✪_ ہمیشہ سادہ، باوقار اور مہذب لباس پہنے اور لباس پر ہمیشہ اعتدال کے ساتھ خرچ کیجئے۔ لباس میں عیش پسندی اور ضرورت سے زیادہ نزاکت سے پر ہیز کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: عیش پسندی سے دور رہو، اس لئے کہ خدا کے پیارے بندے عیش پرست نہیں ہوتے_," (مشکوة، باب فضل الفقراء الفصل الثالث)*
*✪"_ اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے وسعت اور قدرت کے باوجود محض خاکساری اور عاجزی کی غرض سے لباس میں سادگی اختیار کی تو خدا اس کو شرافت اور بزرگی کے لباس سے آراستہ فرمائے گا_," (ابودائود کتاب صفة القيامة - ٢٤٨١)*
*✪"_صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دن بیٹھے دنیا کا ذکر فرما رہے تھے, تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "لباس کی سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_, (ابوداؤد)*
*✪"_ ایک بار نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " خدا کے بہت سے بندے جن کی ظاہری حالت نہایت ہی معمولی ہوتی ہے بال پریشان اور غبار میں اٹے ہوئے کپڑے معمولی اور سادہ ہوتے ہیں لیکن خدا کی نظر میں ان کا مرتبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو خدا اُن کی قسم کو پورا ہی فرما دیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں سے ایک براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں_," ( ترمذی، کتاب المناقب ۳۸۵۴)*
*✪_(16)_ ناداروں کو لباس پہنائیے:-*
*"✪_ خدا کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لئے ان ناداروں کو بھی پہنائے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کچھ نہ ہو۔*
*"✪_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: "جو شخص کسی مسلمان کو کپڑے پہنا کر اس کی تن پوشی کرے گا تو خدا تعالیٰ قیامت کے روز جنت کا سبز لباس پہنا کر اُس کی تن پوشی فرمائے گا“ (ترمذی، کتاب صفة القيامة - ٢٤٤٩)*
*✪"_ اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی مسلمان نے اپنے مسلمان بھائی کو کپڑے پہنائے تو جب تک وہ کپڑے، پہننے والے کے بدن پر رہیں گے، پہنانے والے کو خدا اپنی نگرانی اور حفاظت میں رکھے گا_," (ترمذى، كتاب صفة القيامة، باب ما جاء فى ثواب من كسا مسلما - ٢٤٨٤)*
*✪_(16)_اپنے خادموں کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنائے:-*
*✪"_اپنے ان نوکروں اور خادموں کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنائے جو شب و روز آپ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لونڈی اور غلام تمہارے بھائی ہیں، خدا نے ان کو تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے۔ پس تم میں سے جس کسی کے قبضہ و تصرف میں خدا نے کسی کو دے رکھا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جو اس کی سہار سے زیادہ نہ ہو، اور اگر وہ اس کام کو نہ کر پا رہا ہو تو خود اس کام میں اُس کی مدد کرے_," (بخاری، کتاب الايمان باب المعاصى من امر الجاهلية ... الخ ۳۰ و مسلم)*
*📓 مدنی معاشرہ - 113,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ طہارت و نظافت _,*
▪•═════••════•▪
*✪_ (1)_خدا نے ان لوگوں کو اپنا محبوب قرار دیا ہے جو طہارت اور پاکیزگی کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : " طہارت اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے (مسلم، کتاب الطہارة -۵۳۳)*.
*✪"_ یعنی آدھا ایمان تو یہ ہے کہ آدمی روح کو پاک و صاف رکھے اور آدھا ایمان یہ ہے کہ آدمی جسم کی صفائی اور پاکی کا خیال رکھے۔ روح کی طہارت و نظافت یہ ہے کہ اس کو کفر و شرک اور معصیت وضلالت کی نجاستوں سے پاک کر کے صالح عقائد اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کیا جائے،*
*✪"_ اور جسم کی طہارت و نظافت یہ ہے کہ اس کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک وصاف رکھ کر نظافت اور سلیقے کے آداب سے آراستہ کیا جائے۔*
*✪"_طہارت و نظافت کے آداب:-**
*✪"_(١)_ سوکر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں ہاتھ نہ ڈالئے ، کیا معلوم سوتے میں آپ کا ہاتھ کہاں کہاں پڑا ہو۔*
*✪"_(٢)_ غسل خانے کی زمین پر پیشاب کرنے سے پر ہیز کیجئے بالخصوص جب غسل خانے کی زمین کچی ہو۔*
*✪_(3)_ ضروریات سے فراغت کے لئے نہ قبلہ رخ بیٹھئے اور نہ قبلے کی طرف پیٹھ کیجئے۔*
*"_فراغت کے بعد ڈھیلے اور پانی سے استنجاء کیجئے یا صرف پانی سے طہارت حاصل کیجئے۔ لید، ہڈی اور کوئلے وغیرہ سے استنجاء نہ کیجئے اور استنجاء کے بعد صابون یا مٹی سے خوب اچھی طرح ہاتھ دھو لیجئے۔*
*"✪_(4)_ جب پیشاب پاخانے کی ضرورت ہو تو کھانا کھانے نہ بیٹھے، فراغت کے بعد کھانا کھائے۔*
*"✪_(5)_ کھانا وغیرہ کھانے کے لئے دایاں ہاتھ استعمال کیجئے، وضو میں بھی دائیں ہاتھ سے کام لیجئے اور استنجاء اور ناک وغیرہ صاف کرنے کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کیجئے۔*
*✪"_(6)_نرم جگہ پر پیشاب کیجئے تاکہ چھینٹیں نہ اُڑیں، اور ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیجئے، ہاں اگر زمین بیٹھنے کے لائق نہ ہو یا کوئی اور واقعی مجبوری ہو تو کھڑے ہوکر پیشاب کر سکتے ہیں لیکن عام حالات میں یہ بڑی گندی عادت ہے جس سے سختی کے ساتھ پر ہیز کرنا چاہئے۔*
*✪"_( 7)_ ناک صاف کرنے یا بلغم تھوکنے کے لئے احتیاط کے ساتھ اُگالدان استعمال کیجئے یا لوگوں کی نگاہ سے بچ کر اپنی ضروریات پوری کیجئے۔*
*✪"_(8)_ بار بار ناک میں انگلی ڈالنے اور ناک کی گندگی نکالنے سے پرہیز کیجئے ۔ اگر ناک صاف کرنے کی ضرورت ہو تو لوگوں کی نگاہ سے بچ کر اچھی طرح اطمینان سے صفائی کر لیجئے۔*
*✪_(9)_ وضو کافی اہتمام کے ساتھ کیجئے اور اگر ہر وقت ممکن نہ ہو تو اکثر با وضو رہنے کی کوشش کیجئے، جہاں پانی میسر نہ ہو، تیم کر لیا کیجئے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر وضو شروع کیجئے اور وضو کے بعد یہ دُعا پڑھئے: -*
*"_أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ_,"*
*®_ (ترمذی، باب ما يقول بعد الوضوء - ٥٥)*
*"✪_ ( ترجمہ)_ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ خدایا! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو بہت زیادہ تو بہ کرنے والے اور بہت زیادہ پاک وصاف رہنے والے ہیں۔“*
*✪"_ اور وضو سے فارغ ہو کر یہ دُعا پڑھئے۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ اسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ _,"(نسائی ٥/٦)*
*"_( ترجمہ)_ خدایا تو پاک و برتر ہے اپنی حمد وثنا کے ساتھ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر تو ہی ہے، میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں“*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : " قیامت کے روز میری اُمت کی نشانی یہ ہوگی کہ ان کی پیشانیاں اور وضو کے اعضا نور سے جگمگا رہے ہوں گے پس جو شخص اپنے نور کو بڑھانا چاہے بڑھائے_,"*
*®_ (بخاری ومسلم، کتاب الطہارة -۵۸۰)*
*✪_(10)_ پابندی کے ساتھ مسواک کیجئے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر مجھے اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر وضو میں اُن کو مسواک کرنے کا حکم دیتا_," (ابوداؤد، باب السواک - ۴۶)*
*✪_"_ ایک مرتبہ آپ ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئے جن کے دانت پیلے ہو رہے تھے، آپ ﷺ نے دیکھا تو تاکید فرمائی کہ مسواک کیا کرو۔*
*✪_"_(11)_ ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ہی غسل کیجئے۔ جمعہ کے دن غسل کا اہتمام کیجئے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر جمعہ کی نماز میں شرکت کیجئے،*
*✪_"_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا - امانت کی ادائیگی آدمی کو جنت میں لے جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا:- یا رسول اللہ! امانت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا، ناپاکی سے پاک ہونے کے لئے غسل کرنا، اس سے بڑھ کر خدا نے کوئی امانت مقرر نہیں کی ہے، پس جب آدمی کو نہانے کی حاجت ہو جائے تو غسل کرلے۔*
*✪_(12)_ ناپاکی کی حالت میں نہ مسجد میں جائے اور نہ مسجد میں سے گزریئے۔ اور اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پھر تیم کر کے مسجد میں جائے اور گزریئے۔*
*✪"_(13)_ بالوں میں تیل ڈالنے اور کنگھا کرنے کا بھی اہتمام کیجئے، ڈاڑھی کے بڑھے ہوئے بے ڈھنگے بالوں کو قینچی سے درست کر لیجئے، آنکھوں میں سرمہ بھی لگائے ، ناخن ترشوانے اور صاف رکھنے کا بھی اہتمام کیجئے اور سادگی اور اعتدال کے ساتھ مناسب زیب وزینت کا اہتمام کیجئے۔*
*✪"_(14)_رومال میں بلغم تھوک کر ملنے سے سختی کے ساتھ پر ہیز کیجئے۔ الا یہ کہ مجبوری ہو۔*
*"✪_(15)_ منھ میں پان بھر کر اس طرح باتیں نہ کیجئے کہ مخاطب پر چھینٹیں اُڑیں اور اُسے تکلیف ہو، اسی طرح اگر تمباکو اور پان کثرت سے کھاتے ہوں تو منھ صاف رکھنے کا بھی انتہائی اہتمام کیجئے اور اس کا بھی لحاظ رکھئے کہ بات کرتے وقت اپنا منھ مخاطب کے قریب نہ لے جائیں۔*
*✪"_(16)_ چھینکتے وقت منہ پر رومال رکھ لیجئے تاکہ کسی پر چھینٹے نہ پڑے، چھینکنے کے بعد "_اَلْحَمْدُ لِله _" تمام تعریف اللہ کے لئے ہے کہئے ۔ سننے والا "_یر حَمُكَ اللهُ _," خدا آپ پر رحم فرمائے کہے اور اس کے جواب میں "يَهْدِيكُمُ اللهُ " خدا آپ کو ہدایت بخشے“ کہئے۔*
*"✪_(17)_ خوشبو کا کثرت سے استعمال کیجئے، نبی کریم ﷺ خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ ﷺ سوکر اٹھنے کے بعد جب ضروریات سے فارغ ہوتے تو خوشبو ضرور لگاتے۔*
*📓 مدنی معاشرہ -116 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ صحت اس طرح سنبھالیں _,*
▪•═════••════•▪
*✪_ (1)_ صحت اس طرح سنبھالیئے:-*
*✪"_ صحت خدا کی عظیم نعمت بھی ہے اور عظیم امانت بھی, صحت کی قدر کیجئے اور اُس کی حفاظت میں کبھی لا پرواہی نہ برتے, ایک بار جب صحت بگڑ جاتی ہے تو پھر بڑی مشکل سے بنتی ہے۔ جس طرح حقیر دیمک بڑے بڑے کتب خانوں کو چاٹ کر تباہ کر ڈالتی ہے۔ اسی طرح صحت کے معاملے میں معمولی سی خیانت اور حقیر بیماری زندگی کو تباہ کر ڈالتی ہے۔*
*✪"_ صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کو تاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور خدا کی ناشکری بھی ، عقل و دماغ کی نشو و نما ، فضائل اخلاق کے تقاضے، اور دینی فرائض کو ادا کرنے کے لئے جسمانی صحت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمزور اور مریض جسم میں عقل و دماغ بھی کمزور ہوتے ہیں۔*
*✪"_ ہمیشہ خوش و خرم، ہشاش بشاش اور چاق و چوبند رہے، خوش باشی، خوش اخلاقی مسکراہٹ اور زندہ دلی سے زندگی کو آراستہ، پرکشش اور صحت مند رکھئے ۔ غم ، غصہ، رنج و فکر، حسد، جلن، بدخواہی ، تنگ نظری، مردہ دلی اور دماغی اُلجھنوں سے دور رہے۔ یہ اخلاقی بیماریاں اور ذہنی اُلجھنیں معدے کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور معدے کا فساد صحت کا بدترین دشمن ہے۔*
*✪"_ ایک بار نبی کریم ﷺ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کا سہارا لئے ہوئے ان کے بیچ میں گھسٹتے ہوئے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا، اس بوڑھے کو کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس نے بیت اللہ تک پیدل چلنے کی نذر مانی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " خدا اس سے بے نیاز ہے کہ یہ بوڑھا خود کو عذاب میں مبتلا کرے اور اس بوڑھے کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اپنا سفر پورا کرو _", (مسلم، كتاب النذر - ٤٢٤٧)*
*✪_(2)_"_اپنے جسم پر برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیے:-*
*✪"_جسمانی قوتوں کو ضائع نہ کیجئے, جسمانی قوتوں کا یہ حق ہے کہ اُن کی حفاظت کی جائے اور اُن سے اُن کی برداشت کے مطابق اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے۔*
*"✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اتنا ہی عمل کرو جتنا کر سکنے کی تمہارے اندر طاقت ہو۔ اس لئے کہ خدا نہیں اُکتا تا یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ“ (بخاری)*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: "مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کو ذلیل کرے۔ لوگوں نے پوچھا، "مومن بھلا کیسے اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے؟“ ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو نا قابل برداشت آزمائش میں ڈال دیتا ہے_," (ترمذی)*
*✪_(3)_ جفاکشی اور بہادری کی زندگی گزاریئے:-*
*✪"_ ہمیشہ سخت کوشی، جفاکشی، محنت ، مشقت اور بہادری کی زندگی گزاریے، ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیئے اور سخت جان بن کر سادہ اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کا اہتمام کیجئے۔ آرام طلب، سہل انگار، نزاکت پسند ، کامل، عیش کوش، پست ہمت اور دنیا پرست نہ بنے۔*
*"✪_نبی کریم ﷺ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنے لگے تو ہدایت فرمائی کہ معاذ! اپنے کو عیش کوشی سے بچائے رکھنا، اس لئے کہ خدا کے بندے عیش کوش نہیں ہوتے_“ (مشکوۃ، باب فضل الفقراء الفصل الثالث)*
*✪"_ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” سادہ زندگی گزارنا ایمان کی علامت ہے_," (ابوداؤد)*
*"_ نبی کریم ﷺ ہمیشہ سادہ اور مجاہدانہ زندگی گزارتے تھے اور ہمیشہ اپنی مجاہدانہ قوت کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کی کوشش فرماتے تھے۔ آپ ﷺ تیرنے سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اس لئے کہ تیرنے سے جسم کی بہترین ورزش ہوتی ہے۔*
*"✪_ نبی کریم ﷺ کوسواری کے لئے گھوڑا بہت پسند تھا، آپ ﷺ اپنے گھوڑے کی خود خدمت فرماتے اپنی آستین سے اس کا منھ پوچھتے اور صاف کرتے۔ اُس کی ایال کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے بٹتے اور فرماتے بھلائی اُس کی پیشانی سے قیامت تک کے لئے وابستہ ہے۔*
*✪"_حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” تیر چلانا سیکھو۔ گھوڑے پر سوار ہوا کرو، تیراندازی کرنے والے مجھے گھوڑوں پر سوار ہونے والوں سے بھی زیادہ پسند ہیں اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی اُس نے خدا کی نعمت کی قدر نہیں کی" (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرمی-۲۵۱۳)*
*✪_ (4)_خواتین بھی سخت کوشی اور محنت و مشقت کی زندگی گزاریں:-*
*✪"_ خواتین بھی سخت کوشی اور محنت و مشقت کی زندگی گزاریں، گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کریں، چلنے پھرنے اور تکلیف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں، آرام طلبی ستی اور عیش کوشی سے پر ہیز کریں,*
*"✪_ اور اولاد کو بھی شروع سے سخت کوش، جفاکش اور سخت جان اُٹھانے کی کوشش کریں, گھر میں ملازم ہوں تب بھی اولاد کو بات بات میں ملازم کا سہارا لینے سے منع کریں، اور عادت ڈلوائیں کہ بچے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔*
*"✪_ صحابیہ عورتیں اپنے گھروں کا کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ باورچی خانے کا کام خود کرتیں، چکی پیستیں، پانی بھر کر لاتیں، کپڑے دھوتیں، سینے پرونے کا کام کرتیں اور محنت مشقت کی زندگی گزارتیں اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور پانی پلانے کا نظم بھی سنبھال لیتیں۔*
*"✪_ اس سے خواتین کی صحت بھی بنی رہتی ہے۔ اخلاق بھی صحت مند رہتے ہیں اور بچوں پر بھی اس کے اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں پسندیدہ بیوی وہی ہے جو گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہو، اور جو شب و روز اس طرح اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں لگی ہوئی ہو کہ اُس کے چہرے بشرے سے محنت کی تھکان بھی نمایاں رہے اور باورچی خانے کی سیاہی اور دھوئیں کا ملگجا پن بھی ظاہر ہورہا ہو، نبی کریم میں علم کا ارشاد ہے : ” میں اور ملگجے گالوں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔“ آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے ہوئے فرمایا:*
*✪_(5)_ سحرخیزی کی عادت ڈالیئے:-*
*"✪_سحر خیزی کی عادت ڈالیے۔ سونے میں اعتدال کا خیال رکھئے، نہ اتنا کم سوئیے کہ جسم کو پوری طرح آرام و سکون نہ مل سکے اور اعضاء میں تھکان اور شکستگی رہے اور نہ اتنا زیادہ سوئیے کہ ستی اور کاہلی پیدا ہو۔*
*✪"_ رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اُٹھنے کی عادت ڈالیئے۔ صبح اُٹھ کر خدا کی بندگی بجا لائے۔ اور چمن یا میدان میں ٹہلنے اور تفریح کرنے کے لئے نکل جائیے۔ صبح کی تازہ ہوا صحت پر بہت اچھا اثر ڈالتی ہے۔*
*✪"_ روزانہ اپنی جسمانی قوت کے لحاظ سے مناسب اور ہلکی پھلکی ورزش کا بھی اہتمام کیجئے۔ نبی کریم ﷺ باغ کی تفریح کو پسند فرماتے تھے اور کبھی کبھی خود بھی باغوں میں تشریف لے جاتے تھے ۔ آپ ﷺ نے عشاء کے بعد جاگنے اور گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا: عشاء کے بعد وہی شخص جاگ سکتا ہے جس کو کوئی دینی گفتگو کرنی ہو یا پھر گھر والوں سے ضرورت کی بات چیت کرنی ہو۔*
*✪_(6)_ضبط نفس کی عادت ڈالیئے:-*
*"✪_ضبط نفس کی عادت ڈالیے۔ اپنے جذبات، خیالات، خواہشات اور شہوات پر قابورکھیے۔ اپنے دل کو بہکنے، خیالات کو منتشر ہونے اور نگاہ کو آوارہ ہونے سے بچائیے,*
*✪"_ خواہشات کی بے راہ روی اور نظر کی آوارگی سے قلب و دماغ ، سکون و عافیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ایسے چہرے جوانی کے حسن و جمال، ملاحت و کشش اور مردانہ صفات کی دلکشی سے محروم ہو جاتے ہیں اور پھر وہ زندگی کے ہر میدان میں پست ہمت، پست حوصلہ اور بزدل ثابت ہوتے ہیں۔*
*"✪_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: آنکھوں کا زنا بدنگاہی اور زبان کا زنا بے حیائی کی گفتگو ہے۔ نفس تقاضے کرتا ہے اور شرمگاہ یا تو اس کی تصدیق کر دیتی ہے یا تکذیب؟"*
*"✪_کسی حکیم و دانا نے کہا: مسلمانو ! بدکاری کے قریب نہ پھٹکو، اس میں تین خرابیاں ہیں: آدمی کے چہرے کی رونق اور کشش جاتی رہتی ہے۔ آدمی پر فقر و افلاس کی مصیبت نازل ہوتی ہے۔ اور اس کی عمر کوتاہ ہو جاتی ہے۔*
*✪_(7)_ نشہ آور چیزوں سے بچیئے:-*
*✪"_نشہ آور چیزوں سے بچئے۔ نشہ آور چیزیں دماغ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور معدے کو بھی۔ شراب تو خیر حرام ہے ہی اس کے علاوہ بھی جو نشہ لانے والی چیزیں ہیں اُن سے بھی پرہیز کیجئے۔*
*✪"_(8)_ ہر کام میں اعتدال اور سادگی کا لحاظ رکھئے:-*
*"_ ہر کام میں اعتدال اور سادگی کا لحاظ رکھئے۔ جسمانی محنت میں، دماغی کاوش میں، ازدواجی تعلق میں، کھانے پینے میں سونے اور آرام کرنے میں فکر مند رہے اور ہنسنے میں تفریح میں اور عبادت میں، رفتار و گفتار میں غرض ہر چیز میں اعتدال رکھئے اور اس کو خیر و خوبی کا سر چشمہ تصور کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : " خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے۔ ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی بھلی ہے اور عبادت میں درمیانی روش کیا ہی بہتر ہے _," (مسند بزار، کنز العمال)*
*✪_(9)_ کھانا وقت پر کھائیے:-*
*✪"_کھانا ہمیشہ وقت پر کھائیے۔ پر خوری سے بچئے ، ہر وقت منہ چلاتے رہنے سے پر ہیز کیجئے۔ کھانا بھوک لگنے پر ہی کھائیے اور جب کچھ بھوک باقی ہو تو اُٹھ جائے۔ بھوک سے زیادہ تو ہر گز نہ کھائیے۔*
*"✪_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ” مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے_“ (ترمذی، کتاب الأطعمة - ۱۸۱۸)*
*✪"_صحت کا دارو مدار معدے کی صحت مندی پر ہے۔ معدہ بدن کے لئے حوض کی مانند ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہونے والی ہیں، پس اگر معدہ صحی اور تندرست ہے تو رگیں بھی صحت سے سیراب ہو کر لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی خراب اور بیمار ہے تو رگیں بیماری چوس کر لوٹیں گی_," (مشكوة، كتاب الطب والرقي الفصل الثالث)*
*"✪_ کم خوری کی ترغیب دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ” ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہے_," (ترمذی، کتاب الاطعمة - ۱۸۲۰)*
*✪_(10)ہمیشہ سادہ کھانا کھائیے:-*
*✪"_ہمیشہ سادہ کھانا کھائیے۔ بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائیے، زیادہ گرم کھانا کھانے سے بھی پرہیز کیجئے۔ مسالوں، چٹخاروں اور ضرورت سے زیادہ لذت طلبی سے پر ہیز کیجئے۔ ایسی غذاؤں کا اہتمام کیجئے جو زود ہضم اور سادہ ہوں اور جن سے جسم کو صحت اور توانائی ملے، محض لذت طلبی اور زبان کے چٹخاروں کے پیچھے نہ پڑیئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ بغیر چھنے آٹے کی روٹی پسند فرماتے۔ زیادہ پتلی اور میدے کی چپاتی پسند نہ فرماتے۔ گرم کھانے کے بارے میں کبھی فرماتے کہ خدا نے ہم کو آگ نہیں کھلائی ہے اور کبھی ارشاد فرماتے، گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔*
*"✪_ آپ ﷺ گوشت پسند فرماتے اور خاص طور پر دست، گردن اور پیٹھ کا گوشت رغبت سے کھاتے۔ در حقیقت جسم کو قوت بخشنے اور مجاہدانہ مزاج بنانے کے لئے گوشت ایک اہم اور لازمی غذا ہے اور مومن کا سینہ ہمہ وقت مجاہدانہ جذبات سے آباد رہنا چاہئے۔*
*✪_(11)_ کھانا اطمینان سے اور چبا کر کھائیے:-*
*"✪_ کھانا نہایت اطمینان وسکون کے ساتھ خوب چبا چبا کر کھائیے۔ غم وغصہ، رنج اور گھبراہٹ کی حالت میں کھانے سے پرہیز کیجئے۔*
*✪"_ خوشی اور ذہنی سکون کی حالت میں اطمینان کے ساتھ جو کھانا کھایا جاتا ہے وہ جسم کو قوت پہنچاتا ہے اور رنج وفکر اور گھبراہٹ میں جو کھانا نگلا جاتا ہے وہ معدہ پر برا اثر ڈالتا ہے اور اس سے جسم کو خاطر خواہ قوت نہیں مل پاتی۔*
*"✪_ دستر خوان پر نہ تو بالکل افسردہ اور غم زدہ ہو کر بیٹھئے اور نہ حد سے بڑھی ہوئی خوش طبعی کا مظاہرہ کیجئے کہ دستر خوان پر قہقہے بلند ہونے لگیں ۔ کھانے کے دوران قہقہے لگانا بعض اوقات جان کے لئے خطرہ کا باعث بن جاتا ہے۔ دستر خوان پر اعتدال کے ساتھ ہنستے بولتے رہئے، خوشی اور نشاط کے ساتھ کھانا کھائیے اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کیجئے اور جب بیمار ہوتو پر ہیز بھی پورے اہتمام سے کیجئے۔*
*✪"_نبی کریم ﷺ کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپ ﷺ بار بار اس سے فرماتے جاتے۔ کھائیے، کھائیے، جب مہمان خوب سیر ہو جاتا اور بے حد انکار کرتا۔ تب آپ ﷺ اپنے اصرار سے باز آتے۔ یعنی آپ ﷺ نہایت خوشگوار فضا اور خوشی کے ماحول میں مناسب گفتگو کرتے ہوئے کھانا تناول فرماتے۔*
*✪_(12)_دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کیجئے:-*
*✪"_ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کیجئے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کیجئے اور کھانا کھانے کے بعد فوراً کوئی سخت قسم کا دماغی یا جسمانی کام ہرگز نہ کیجئے ۔*
*✪_اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیلولہ پانچ گھنٹہ کا ہو بلکہ تھوڑی دیر آرام کر کے اپنے کام پر لگ جاؤ۔*
*✪_(13)_ آنکھوں کی حفاظت کا پورا اہتمام کیجئے:-*
*"✪_ آنکھوں کی حفاظت کا پورا اہتمام کیجئے۔ تیز روشنی سے آنکھیں نہ لڑائیے۔ سورج کی طرف نگاہ جما کر نہ دیکھئے، زیادہ مدھم یا زیادہ تیز روشنی میں نہ پڑھئے ۔ ہمیشہ صاف اور معتدل روشنی میں مطالعہ کیجئے۔ زیادہ جاگنے سے بھی پرہیز کیجئے۔ دھول غبار سے آنکھوں کو بچائے ، آنکھوں میں سرمہ لگائیے اور ہمیشہ آنکھیں صاف رکھنے کی کوشش کیجئے،*
*"✪_ کھیتوں، باغوں اور سبزہ زاروں میں سیر و تفریح کیجئے۔ سبزہ دیکھنے سے نگاہوں پر اچھا اثر پڑتا ہے, آنکھوں کو بدنگاہی سے بچائیے۔ اس سے آنکھیں بے رونق ہو جاتی ہیں اور صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔*
*"✪_نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، مومن کا فرض ہے کہ وہ خدا کی اس نعمت کی قدر کرے اُس کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ اس کی حفاظت اور صفائی کا اہتمام رکھے۔ وہ ساری تدبیریں اختیار کرے جن سے آنکھوں کو فائدہ پہنچے اور ان باتوں سے بچا رہے جن سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ اسی طرح جسم کے دوسرے اعضاء اور قوی کی حفاظت کا بھی خیال رکھئے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ”لوگو! آنکھوں میں اثمد سرمہ لگایا کرو۔ سرمہ آنکھ کے میل کو دور کرتا ہے اور بالوں کو اُگاتا ہے“ (ترمذی، کتاب اللباس، باب الاكتحال - ١٧٥٧)*
*✪_(14)_ دانتوں کی صفائی اور حفاظت کا اہتمام کیجئے:-*
*✪"_ دانتوں کی صفائی اور حفاظت کا اہتمام کیجئے۔ دانتوں کے صاف رکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے اور ہاضمے پر اچھا اثر پڑتا ہے اور دانت مضبوط بھی رہتے ہیں۔ مسواک کی عادت ڈالیئے منجن وغیرہ کا بھی استعمال رکھئے۔ پان یا تمباکو وغیرہ کی کثرت سے دانتوں کو خراب نہ کیجئے۔*
*✪"_ کھانے کے بعد بھی دانتوں کو اچھی طرح صاف کر لیا کیجئے۔ دانت گندے رہنے سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جب نیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنا منھ صاف فرماتے_, (بخاری، کتاب الوضوء، باب السواك - ٢٤٥ ، مسلم -٥٩٣)*
*"✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے لئے وضو کا پانی اور مسواک تیار رکھتے تھے، جس وقت بھی خدا کا حکم ہوتا آپ ﷺ اُٹھ بیٹھتے تھے اور مسواک کرتے تھے۔ پھر وضو کر کے نماز ادا فرماتے تھے_," (مسلم)*
*✪"_ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تم لوگوں کو مسواک کرنے کے بارے میں بہت تاکید کر چکا ہوں_," (نسائی، باب الاكثار في السواك)*
*✪"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” مسواک منھ کو صاف کرنے والی اور خدا کو راضی کرنے والی ہے۔“ (نسائی، باب الترغيب في السواك -٥)*
*"✪_آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "اگر میں اپنی اُمت کے لئے شاق نہ سمجھتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا_," (نسائی)*
*✪"_ ایک بار آپ ﷺ سے ملنے کے لئے کچھ مسلمان خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن کے دانت صاف نہ ہونے کی وجہ سے پیلے ہو رہے تھے ۔ آپ ﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا: ”تمہارے دانت پیلے کیوں نظر آرہے ہیں؟ مسواک کیا کرو_," (مسند احمد )*
*✪_(15)_ بول و براز کی حاجت ہو تو فوراً حاجت پوری کیجئے:-*
*"✪_ بول و براز کی حاجت ہو تو فوراً حاجت پوری کیجئے۔ ان ضرورتوں کو روکنے سے معدے اور دماغ پر نہایت برے اثرات پڑتے ہیں۔*
*"✪_(16)_ طہارت و نظافت کا پورا اہتمام کیجئے:-*
*"✪_پاکی، طہارت اور نظافت کا پورا پورا اہتمام کیجئے۔ قرآن حکیم میں ہے: خدا ان لوگوں کو اپنا محبوب بناتا ہے جو بہت زیادہ پاک وصاف رہتے ہیں (التوبه، آیت ۱۰۸)*
*✪"_اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: " صفائی اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے" (مشكوة، كتاب الطهارة)*
*✪"_صفائی اور پاکیزگی کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ نے طہارت کے تفصیلی احکام دیے ہیں اور ہر معاملے میں طہارت و نظافت کی تاکید کی ہے۔ کھانے، پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھئے۔ انہیں گندہ ہونے سے بچائیے اور مکھیوں سے حفاظت کیجئے۔ برتنوں کو صاف ستھرا رکھئے۔ لباس اور لیٹنے بیٹھنے کے بستروں کو پاک صاف رکھئے۔ اُٹھنے بیٹھنے کی جگہوں کو صاف ستھرا رکھئے۔ جسم کی صفائی کے لئے وضو اور غسل کا اہتمام کیجئے ۔*
*✪"_ جسم اور لباس اور ضرورت کی ساری چیزوں کی صفائی اور پاکیزگی سے روح کو بھی سرور و نشاط حاصل ہوتا ہے اور جسم کو بھی فرحت اور تازگی ملتی ہے اور بحیثیت مجموعی انسانی صحت پر اس کا نہایت ہی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔*
*"✪_ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کل تم مجھ سے پہلے جنت میں کیسے داخل ہو گئے؟ بولے: یا رسول اللہ ﷺ ! میں جب بھی اذان کہتا ہوں تو دو رکعت نماز ضرور پڑھ لیتا ہوں اور جس وقت بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر کے ہمیشہ وضو کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا ہوں“*
*"✪_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” ہر مسلمان پر خدا کا یہ حق ہے کہ ہر ہفتے میں ایک دن غسل کیا کرے، اور اپنے سر اور بدن کو دھویا کرئے“ (بخاری، کتاب الجمعة باب هل على من لم يشهد الجمعة غسل ... الخ - ۸۹۸)*
*📓 مدنی معاشرہ -128 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ راستہ میں اس طرح چلیں _,*
▪•═════••════•▪
*★_(1)_درمیانی چال چلئے:-*
*★"_راستے میں درمیانی چال چلئے, نہ اتنا جھپٹ کر چلئے کہ خواہ مخواہ لوگوں کے لئے تماشا بن جائیں اور نہ اتنے مست ہو کر رینگنے کی کوشش کیجئے کہ لوگ بیمار سمجھ کر بیمار پرسی کرنے لگیں۔*
*"_ نبی کریم ﷺ قدم لمبے لمبے رکھتے اور قدم اُٹھا کر رکھتے، قدم گھسیٹ کر کبھی نہ چلتے،*
*"★_(2)_ وقار اور نیچی نگاہ سے چلئے:-*
*"★_ ادب و وقار کے ساتھ نیچے دیکھتے ہوئے چلئے اور راستہ میں ادھر اُدھر ہر چیز پر نگاہ ڈالتے ہوئے نہ چلئے۔ ایسا کرنا سنجیدگی اور تہذیب کے خلاف ہے۔*
*★"_ نبی کریم ﷺ چلتے وقت اپنے بدن مبارک کو آگے کی طرف جھکا کر چلتے جیسے کوئی بلندی سے پستی کی طرف اُتر رہا ہو۔ آپ ﷺ و وقار کے ساتھ ذرا تیز چلتے اور بدن کو چست اور سمٹا ہوار کھتے اور چلتے ہوئے دائیں بائیں نہ دیکھتے۔*
*"★_(3)_ خاکساری کے ساتھ دبے پاؤں چلئے:-*
*★"_ خاکساری کے ساتھ دبے پاؤں چلئے۔ اکڑتے ہوئے نہ چلئے, نہ تو آپ اپنی ٹھوکر سے زمین کو پھاڑ سکتے ہیں اور نہ پہاڑوں کی اونچائی کو پہنچ سکتے ہیں، پھر بھلا اکڑنے کی کیا گنجائش ہے۔*
*✪_(4)_ ہمیشہ جوتے پہن کر چلئے:-*
*✪"_ہمیشہ جوتے پہن کر چلئے۔ ننگے پاؤں چلنے پھرنے سے پر ہیز کیجئے۔ جوتے کے ذریعے پاؤں کانٹے کنکر اور دوسری تکلیف دہ چیزوں سے بھی محفوظ رہتا ہے اور موذی جانوروں سے بھی بچارہتا ہے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اکثر جوتے پہنے رہا کرو۔ جوتا پہنے والا بھی ایک طرح کا سوار ہوتا ہے۔*
*®_(ابو داؤد، کتاب اللباس، باب في الانتعال - ٤١٣٣)*
*"✪_(5)_ راستہ چلنے میں تہذیب و وقار کا کا بھی لحاظ رکھئے:-*
*✪"_راستہ چلنے میں حسن ذوق اور تہذیب و وقار کا بھی لحاظ رکھئے ، یا تو دونوں جوتے پہین کر چلے یا دونوں جوتے اتار کر چلئے۔ ایک پاؤں ننگا اور ایک پاؤں میں جوتا پہن کر چلنا بڑی مضحکہ خیز حرکت ہے۔ اگر واقعی کوئی معذوری نہ ہو تو اس بدذوقی اور بے تہذیبی سے سختی کے ساتھ بچنے کی کوشش کیجئے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا تو دونوں جوتے پہن کر چلے یا دونوں اُتار کر چلے_,"*
*®_( ترندی، کتاب اللباس -۱۷۷۴)*
*✪_(6)_ چلتے وقت اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر چلئے:-*
*✪_"_چلتے وقت اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر چلئے تا کہ اُلجھنے کا خطرہ نہ رہے۔ نبی کریم ﷺ چلتے وقت اپنا تہبند ذرا اٹھا کر سمیٹ لیتے۔*
*"✪__(7)_ ہمیشہ بے تکلفی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلئے:-*
*"✪__ ہمیشہ بے تکلفی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ چلئے۔ آگے چل چل کر اپنی امتیازی شان نہ جتائے، کبھی کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ، ہاتھ میں لے کر بھی چلئے۔ نبی کریم ﷺ ساتھیوں کے ساتھ چلنے میں کبھی اپنی امتیازی شان ظاہر نہ ہونے دیتے۔ اکثر آپ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیچھے پیچھے چلتے اور کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر بھی چلتے۔*
*✪_(8)_ راستے کا حق ادا کرنے کا بھی اہتمام کیجئے:-*
*"✪_ راستے کا حق ادا کرنے کا بھی اہتمام کیجئے۔ راستے میں رُک کر یا بیٹھ کر آنے جانے والوں کو تکنے سے پر ہیز کیجئے اور اگر کبھی راستہ میں رکنا یا بیٹھنا پڑے تو راستہ کا حق ادا کرنے کے لئے چھ باتوں کا خیال رکھئے۔*
*"_(1)_نگاہیں نیچی رکھئے۔*
*"_(2)_ تکلیف دینے والی چیزوں کو راستے سے ہٹا دیجئے۔*
*"_(3)_ سلام کا جواب دیجئے۔*
*"_(4)_ نیکی کی تلقین کیجئے اور بری باتوں سے روکیئے۔*
*"_(5)_ بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھائیے۔*
*"_(6)_ اور مصیبت کے مارے ہوؤں کی مدد کیجئے۔*
*"✪_(9)_ راستے میں ہمیشہ اچھے لوگوں کا ساتھ پکڑئیے:-*
*✪"_ راستے میں ہمیشہ اچھے لوگوں کا ساتھ پکڑئیے۔ برے لوگوں کے ساتھ چلنے سے پر ہیز کیجئے۔*
*✪_(10)_ راستے میں مرد اور عورت مل جل کر نہ چلیں:-*
*✪"_راستے میں مرد اور عورت مل جل کر نہ چلیں, عورت کو بیچ راستے سے بچ کر کنارے کنارے چلنا چاہئے اور مردوں کو چاہئے کہ اُن سے بچ کر چلیں۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: گارے میں اٹے ہوئے اور بد بودار سڑی ہوئی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے سور سے ٹکرا جانا تو گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ گوارا کرنے کی بات نہیں ہے کہ کسی مرد کے شانے کسی اجنبی عورت سے ٹکرائیں۔*
*"✪_(11)_ عورتیں پردہ کا مکمل اہتمام کریں:-*
*"✪_ شریف عورتیں جب کسی ضرورت سے راستے پر چلیں تو برقع یا چادر سے اپنے جسم، لباس اور زیب وزینت کی ہر چیز کو خوب اچھی طرح چھپائیں اور چہرے پر نقاب ڈالے رہیں۔*
*"✪_(12)_ عورتیں راستہ میں ان چیزوں سے بچیں:-*
*✪"(1)_ کوئی ایسا زیور پہن کر نہ چلیں جس میں چلتے وقت جھنکار پیدا ہو،*
*"(2)_ دبے پاؤں چلیں تا کہ اُس کی آواز اجنبیوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔*
*"_(3)_ عورتیں پھیلنے والی خوشبو لگا کر راستے پر نہ چلیں، ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے نہایت سخت الفاظ فرمائے ہیں۔*
*✪_(13)_ گھر سے نکلیں تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر یہ دعا پڑھئے۔*
*"✪_ گھر سے نکلیں تو آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر یہ دُعا پڑھئے:-*
*"_بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ اَنْ نَّزِلُّ أَوْ نُزَلَّ وَانْ نَّضِلَّ اَوْ نُضَلَّ اَوْ نَظْلِمَ اَوْ يُظْلَمَ عَلَيْنَا أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا _,"*
*®_(مسند احمد، ترمذی، کتاب الدعوات ٣٤٢٧)*
*✪"_( ترجمہ) خدا ہی کے نام سے (میں نے باہر قدم رکھا) اور اسی پر میرا بھروسہ ہے۔ خدایا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ہم لغزش کھا جائیں یا کوئی دوسرا ہمیں ڈگمگا دے۔ ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکا دے۔ ہم خود کسی پر ظلم کر بیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کرے یا ہم خود نادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جہالت کا برتاؤ کرے“*
*✪"_(14)_ بازار جا ئیں تو یہ دعا پڑہیں:-*
*"✪_ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بازار میں داخل ہوتے ہوئے یہ دُعا پڑھ لے، خدا اس کے حساب میں دس لاکھ نیکیاں درج فرمائے گا، دس لاکھ خطائیں معاف فرما دے گا اور دس لاکھ درجات بلند کر دے گا:-*
*"_ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَیَّ لَّا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير _,"*
*®_(ترمذی، باب ما يقول اذا دخل السوق - ٣٤٢٩)*
*”✪_( ترجمہ) خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، اقتدار اُسی کا ہے وہی شکر و تعریف کا مستحق ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ وہی زندہ جاوید ہے، اس کے لئے موت نہیں ، ساری بھلائی اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے,*
*📓 مدنی معاشرہ -135 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ سفر اس طرح کیجیے _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ سفر جمعرات کے دن شروع کیجئے:-*
*"✪_ سفر کے لئے ایسے وقت روانہ ہونا چاہئے کہ کم سے کم وقت خرچ ہو اور نمازوں کے اوقات کا بھی لحاظ رہے۔ نبی کریم ﷺ خود سفر پر جاتے یا کسی کو روانہ فرماتے تو عام طور پر جمعرات کے دن کو مناسب خیال فرماتے۔*
*✪"_(2)_ سفر تنہا نہ کیجئے:-*
*✪"_ سفر تنہا نہ کیجئے، ممکن ہو تو کم از کم تین آدمی ساتھ لیجئے ۔ اس سے راستہ میں سامان وغیرہ کی حفاظت اور دوسری ضروریات میں بھی سہولت رہتی ہے۔ اور آدمی بہت سے خطرات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔*
*✪"_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر لوگوں کو تنہا سفر کرنے کی وہ خرابیاں معلوم ہو جائیں جو میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات میں تنہا سفر نہ کرے ۔ (بخاری، کتاب الجهاد، باب السير وحده - ۲۹۹۸)*
*✪_(4)_ سواری جب حرکت میں آئے تو یہ دُعا پڑھئے :-*
*✪"_سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت جب سواری پر بیٹھ جائیں اور سواری حرکت میں آئے تو یہ دُعا پڑھئے:-*
*"_سبحن الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ._,*
*(مسلم، ابودائود، کتاب الجهاد، باب ما يقول الرجل اذا سافر، ترمذی)*
*✪"_ ( ترجمہ) پاک و برتر ہے وہ خدا جس نے اس کو ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہ تھے, یقیناً ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔*
*"✪(5)_ راستے میں دوسروں کی سہولت اور آرام کا بھی خیال کیجئے:-*
*"✪_ راستے میں، دوسروں کی سہولت اور آرام کا بھی خیال رکھئے۔ راستہ کے ساتھی کا بھی حق ہے۔ قرآن میں ہے: اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ حسن سلوک کرو، پہلو کے ساتھی سے مراد ہر ایسا آدمی ہے جس سے کہیں بھی کسی وقت آپ کا ساتھ ہو جائے۔*.
*"✪_ سفر کے دوران کی مختصر رفاقت کا بھی یہ حق ہے کہ آپ اپنے رفیق سفر کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کریں اور کوشش کریں کہ آپ کے کسی قول و عمل سے اُس کو کوئی جسمانی یا ذہنی اذیت نہ پہنچے۔*
*✪"_ فرمایا کہ سفر میں جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد کھانے پینے کی چیزیں ہوں تو اُن لوگوں کا خیال کرے جن کے پاس اپنا تو شہ نہ ہو۔ (مسلم)*
*✪_(6)_ سفر پر روانہ ہوتے وقت اور واپسی پر دورکعت پڑھئے:-*
*✪"_سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت اور واپس آنے پر دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھئے۔ نبی کریم ﷺ کا یہی عمل تھا۔*
*"✪_(7)_ رات کو کہیں محفوظ مقام پر قیام کیجئے:-*
*"✪_ رات کو کہیں قیام کرنا پڑے تو محفوظ مقام پر قیام کیجئے۔ جہاں چور ڈاکو سے بھی آپ کی جان و مال محفوظ ہو اور موذی جانوروں کا بھی کوئی کھٹکا نہ ہو۔*
*"✪_(8)_ سفر کی ضرورت پوری ہونے پر جلدی واپس ہو جائیے:-*
*✪"_ سفر کی ضرورت پوری ہونے پر گھر واپس آنے میں جلدی کیجئے۔ بلا ضرورت گھومنے پھرنے سے پرہیز کیجئے۔*
*✪"_ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے تمہیں نیند سے اور کھانے پینے سے روکتا ہے، لہذا جب وہ کام پورا ہو جائے جس کے لئے گئے تھے تو جلد گھر واپس ہو جاؤ ( مسلم ۴۹۷۱)*
*✪_ (9)_ سفر سے واپسی پر بغیر اطلاع گھر نہ آئے:-*
*"✪_ سفر سے واپسی پر یکا یک بغیر اطلاع، رات کو گھر میں نہ آئے۔ پہلے سے اطلاع دیجئے، ورنہ مسجد میں دوگانہ نفل ادا کر کے گھر والوں کو موقع دیجئے کہ وہ اچھی طرح سے آپ کے استقبال کے لئے تیار ہو سکیں۔*
*"✪_ آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کے وقت مدینہ میں داخل ہوتے اور پہلے مسجد میں جا کر دو رکعتیں پڑھتے۔ پھر ذرا دیر لوگوں کی ملاقات کے لئے وہیں تشریف فرما رہتے۔ (ابو داؤد باب في الصلاة عند القدوم من السفر (۲۷۸۱)*
*✪"_(10)_ سفر میں کوئی ساتھی ہوں تو ان کے آرام کا خیال رکھئے:-*
*"✪_ سفر میں اگر جانور ساتھ ہوں تو ان کے آرام و آسائش کا بھی خیال رکھئے اور اگر کوئی سوار ہو تو اس کی ضروریات اور حفاظت کا بھی اہتمام کیجئے، آپ کا ڈرائیور ہو تو اس کے آرام کا خیال کیجئے چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔*
*"✪_(11)_ سفر میں مذکورہ چیزیں ساتھ رکھئے:-*
*"✪_ جاڑے کے موسم میں ضروری بستر وغیرہ ساتھ رکھئے اور میزبان کو بے جا پریشانی میں مبتلا نہ کیجئے۔ سفر میں پانی کا برتن لوٹا اور جانماز اور قبلہ نما آلہ ساتھ رکھئے۔ تا کہ استنجاء وضوء نماز اور پانی پینے کی تکلیف نہ ہو۔*
*✪_(12)_ چند آدمی ہوں تو ایک کو اپنا امیر مقرر فرما لیجئے:-*
*"✪__ چند آدمی سفر کر رہے ہوں تو ایک کو اپنا امیر مقرر فرما لیجئے ،البتہ ہر شخص اپنا ٹکٹ، ضرورت بھر رقم اور دوسرا ضروری سامان اپنے قبضے میں رکھے۔*
*"✪__ اور فرمایا کہ سفر میں اپنے ساتھیوں کا سردار وہ ہے جو اُن کا خدمت گزار ہو۔ جو شخص خدمت میں آگے بڑھ گیا کسی عمل کے ذریعہ اس کے ساتھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے، ہاں اگر کوئی شہید ہو جائے تو وہ آگے بڑھ جائے گا۔ (بیہقی )*
*"✪__ سفر میں جن لوگوں کے پاس کتا یا کھنٹی ہو تو اُن کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں ہوتے۔ (ابو دائود كتاب الجهاد، باب في تعليق الاجراس - ٢٥٥٥)*
*"✪__ آج کل موبائل میں میوزک کی گھنٹی بھی اس میں شامل ہے۔*
*✪_(13)_ کسی کو سفر پر رخصت کریں تو کچھ دور تک ساتھ جائیے :-*
*"✪_جب کسی کو سفر پر رخصت کریں تو کچھ دور اُس کے ساتھ جائیے۔ رخصت کرتے وقت اس سے بھی دُعا کی درخواست کیجئے اور اس کو بھی دُعا دیتے ہوئے رخصت کیجئے_,"*
*"✪_(14)_کوئی سفر سے واپس آئے تو اس کا استقبال کیجئے:-*
*"✪_ جب کوئی سفر سے واپس آئے تو اس کا استقبال کیجئے اور اظہار محبت کے الفاظ کہتے ہوئے ضرورت اور موقع کا لحاظ کرتے ہوئے مصافحہ کیجئے یا معانقہ بھی کیجئے۔*
*📓 مدنی معاشرہ -143 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ تلاوت قرآن اس طرح کیجیے _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ قرآن کی تلاوت دل لگا کر کیجئے:-*
*"✪_ قرآن مجید کی تلاوت ذوق و شوق کے ساتھ دل لگا کر کیجئے اور یہ یقین رکھئے کہ قرآن مجید سے شغف خدا سے شغف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” میری اُمت کے لئے سب سے بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے ۔"*
*"✪_(2)_ اکثر وقت تلاوت میں مشغول رہئے اور کبھی نہ اُکتایئے:-*
*"✪_نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خدا کا ارشاد ہے جو بندہ قرآن کی تلاوت میں اس قدر مشغول ہو کہ وہ مجھ سے دُعا مانگنے کا موقع نہ پا سکے تو میں اس کو بغیر مانگے ہی مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا “ (ترمذی، ابواب فضائل القرآن - ۲۹۲۶)*
*"✪_ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بندہ تلاوت قرآن ہی کے ذریعے خدا کا سب سے زیادہ قرب حاصل کرتا ہے۔ (ترمذی، ابواب فضائل القرآن ۲۹۱۱)*
*"_ اور آپ ﷺ نے تلاوت قرآن کی ترغیب دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا: جس شخص نے قرآن پڑھا اور وہ روزانہ اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔ اُس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری ہوئی زنبیل کہ اس کی خوشبو چار سو مہک رہی ہے اور جس شخص نے قرآن پڑھا لیکن وہ اُس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری ہوئی بوتل کہ اُس کو ڈاٹ لگا کر بند کر دیا گیا ہے" (ترمذی، ابواب الامثال باب ما جاء في مثل المومن القارئ للقرآن وغير القارئ - ٢٨٦٥)*
*✪_(3)_ قرآن پاک کی تلاوت محض طلب ہدایت کے لئے کیجئے۔*
*"✪_ قرآن کریم کی تلاوت محض طلب ہدایت کے لئے ہو نہ کہ لوگوں پر اپنی خوش الحانی کا سکہ جمانے کے لئے اور اپنی دینداری کی دھاک بٹھانے سے سختی کے ساتھ پر ہیز کیجئے۔ یہ انتہائی گھٹیا مقاصد ہیں اور ان اغراض سے قرآن کی تلاوت کرنے والا قرآن کی ہدایت سے محروم رہتا ہے بلکہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔*
*"✪_(4)_ تلاوت سے پہلے طہارت و نظافت کا پورا اہتمام کیجئے:-*
*"✪_تلاوت سے پہلے طہارت اور نظافت کا پورا اہتمام کیجئے۔ بغیر وضو قرآن مجید چھونے سے پر ہیز کیجئے۔ اور پاک صاف جگہ پر بیٹھ کر تلاوت کیجئے۔*
*✪_(5)_ تلاوت کے وقت دل میں عاجزی ہو:-*
*"✪_ تلاوت کے وقت قبلہ رُخ دوزانو ہو کر بیٹھے اور گردن جھکا کر انتہائی توجہ، یکسوئی، دل کی آمادگی اور سلیقے سے تلاوت کیجئے۔*
*"_خدا کا ارشاد ہے:- "_ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ _,"(سورہ ص ، آیت: ۲۹)*
*"✪_( ترجمہ)_ کتاب جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے۔ تا کہ وہ اس میں غورو فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں_“*
*"✪_(6)_ تجوید و ترتیل کا حتی الوسع خیال رکھئے:-*
*"✪_ تجوید اور ترتیل کا بھی جہاں تک ہو سکے لحاظ رکھئے۔ حروف ٹھیک ٹھیک ادا کیجئے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اپنی آواز اور اپنے لیجے سے قرآن کو آراستہ کرو (ابو داؤد )*
*"✪_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: " قرآن پڑھنے والے سے قیامت کے روز کہا جائے گا، جس طرح ٹھہراؤ اور خوش الحانی کے ساتھ تم دنیا میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے تھے، اسی طرح قرآن پڑھو اور ہر آیت کے صلے میں ایک درجہ بلند ہوتے جاؤ تمہارا ٹھکانا تمہاری تلاوت کی آخری آیت کے قریب ہے" (ترمذی، ابواب فضائل القرآن - ٢٩١٤)*
*✪_(7)_ قرآن درمیانی آواز سے پڑھئے:-*
*✪"_ نہ زیادہ زور سے پڑھئے اور نہ بالکل ہی آہستہ بلکہ درمیانی آواز میں پڑھئے۔ خدا کی ہدایت ہے:- وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا _,"(سورہ بنی اسرائیل، آیت: ۱۱۰)*
*✪"_( ترجمہ)_ اور اپنی نماز میں نہ تو زیادہ زور سے پڑھئے اور نہ بالکل ہی دھیرے دھیرے نہ بلکہ دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کیجئے“*
*"✪_(8)_ تہجد کی نماز میں قرآن پڑھئے:-*
*"✪_ یوں تو جب بھی موقع ملے تلاوت کیجئے لیکن سحر کے وقت تہجد کی نماز میں بھی قرآن پڑھنے کی کوشش کیجئے۔ یہ تلاوت قرآن کی فضیلت کا سب سے اونچا درجہ ہے اور مؤمن کی یہ تمنا ہونی چاہئے کہ وہ تلاوت کا اونچے سے اونچا مرتبہ حاصل کرے۔*.
*✪_(9)_ تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کریں:-*
*"▪_ تین دن سے کم میں قرآن شریف ختم کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قطعاً قرآن کو نہیں سمجھا (ترمذی، ابواب القراءت، باب في كم اقرا القرآن-۲۹۴۹)*
*"▪_(10)_قرآن کی وقعت و عظمت کا احساس رکھیئے:-*
*"_ قرآن کی عظمت و وقعت کا احساس رکھئے اور جس طرح ظاہری طہارت اور پاکی کا لحاظ کیا ہے۔ اسی طرح دل کو بھی گندے خیالات، برے جذبات اور ناپاک مقاصد سے پاک کیجئے۔ جو دل گندے اور نجس خیالات اور جذبات سے آلودہ ہیں اس میں نہ قرآن پاک کی عظمت و وقعت بیٹھ سکتی ہے اور نہ وہ قرآن کے معارف و حقائق ہی کو سمجھ سکتا ہے۔*
*"▪_ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جب قرآن شریف کھولتے تو اکثر بے ہوش ہو جاتے اور فرماتے یہ میرے جلال و عظمت والے پروردگار کا کلام ہے۔*
*✪_ (11)_ قرآن تدبر و تفکر کے ساتھ پڑھئیے:-*
*"❀_ یہ سمجھ کر تلاوت کیجئے کہ روئے زمین پر انسان کو اگر ہدایت مل سکتی ہے تو صرف اسی کتاب سے، اور اسی تصور کے ساتھ اس میں تفکر اور تدبر کیجئے اور اس کے حقائق اور حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ فرفر تلاوت نہ کیجئے بلکہ سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیئے اور اس میں غور و فکر کرنے کی کوشش کیجئے۔*
*"❀_ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ "القارعہ" اور "القدر" جیسی چھوٹی چھوٹی سورتوں کو سوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ "البقرہ" اور "آل عمران" جیسی بڑی بڑی سورتیں فرفر پڑھ جاؤں اور کچھ نہ سمجھوں,"*
*"✪_(12)_ قرآن کے احکام پر عمل کی نیت سے قرآن پڑھئیے:-*
*"❀_ اس عزم کے ساتھ تلاوت کیجئے کہ مجھے اس کے احکام کے مطابق اپنی زندگی بدلنا ہے اور اس کی ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگی بنانی ہے اور پھر ہدایت ملے تو اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے اور کوتاہیوں سے زندگی کو پاک کرنے کی مسلسل کوشش کیجئے۔*
*"❀_ قرآن آئینے کی طرح آپ کا ہر ہر داغ اور ہر ہر دھبہ آپ کے سامنے نمایاں کر کے پیش کر دے گا۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ان داغ دھبوں سے اپنی زندگی کو پاک کریں۔*
*✪__ ( 13)_ قرآنی آیات سے اثر لینے کی کوشش کیجئے:-*
*❀"_ تلاوت کے دوران قرآن کی آیات سے اثر لینے کی بھی کوشش کیجئے۔ جب رحمت، مغفرت اور جنت کی لازوال نعمتوں کے تذکرے پڑھیں تو خوشی اور مسرت سے جھوم اُٹھیئے اور جب خدا کے غیظ و غضب اور عذاب جہنم کی ہولنا کیوں کا تذکرہ پڑھیں تو بدن کا نپنے لگے آنکھیں بے اختیار بہہ پڑے اور دل توبہ اور ندامت کی کیفیت سے رونے لگے،*
*❀"_ جب مومنین صالحین کی کامرانیوں کا حال پڑھیں تو چہرہ دمکنے لگے اور جب قوموں کی تباہی کا حال پڑھیں تو غم سے نڈھال نظر آئیں۔ وعید اور ڈراوے کی آیات پڑھ کر کانپ اُٹھیں اور بشارت کی آیات پڑھ کر روح شکر کے جذبات سے سرشار ہو جائے۔*
*"✪_(14)_ تلاوت کے بعد دعا فرمائیے:-*
*"❀_تلاوت کے بعد دعا فرمائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک دُعا کے الفاظ یہ ہیں: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي التَّفَكُرَ وَالتَّدَبُّرَ بِمَا يَتْلُوهُ لِسَانِي مِنْ كِتَابِكَ وَالْفَهُمْ لَهُ وَالْمَعْرِفَةَ بِمَعَانِيْهِ وَالنَّظْرَ فِى عَجَائِبِهِ وَالْعَمَلَ بِذَالِكَ مَا بَقِيتُطُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.*
*"❀_( ترجمہ)_ خدایا میری زبان تیری کتاب میں سے جو کچھ تلاوت کرے۔ مجھے توفیق دے کہ میں اس میں غور و فکر کروں، خدایا! مجھے اس کی سمجھ دے۔ مجھے اس کے مفہومو معانی کی معرفت بخش اور اس کے عجائبات کو پانے کی نظر عطا کر اور جب تک زندہ رہوں مجھے توفیق دے کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔*
*❀"_ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ قرآن پڑھنے کے بعد یہ دعا کیجئے کہ اے اللہ ! اس قرآن میں میرے حصے کی جو ہدایت ہے مجھے عطا فرما۔*
*®_( حج عرفات ۱۴۲۹ھ)*
*📓 مدنی معاشرہ -159 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ مریض کی عیادت اس طرح کیجیے _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ مریض کی عیادت ضرور کیجئے:-*
*"❀_مریض کی عیادت ضرور کیجئے، عیادت کی حیثیت محض یہی نہیں ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی ایک ضرورت ہے یا باہمی تعاون اور غم خواری کے جذبے کو ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کا دینی حق ہے اور خدا سے محبت کا ایک لازمی تقاضا ہے، خدا سے تعلق رکھنے والا، خدا کے بندوں سے بے تعلق نہیں ہو سکتا۔ مریض کی غمخواری، دردمندی اور تعاون سے غفلت برتنا در اصل خدا سے غفلت ہے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ملنے کا ایڈریس بتایا ہے ): قیامت کے روز خدا فرمائے گا۔ اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا اور تو نے میری عیادت نہیں کی ؟ بندہ کہے گا: پروردگار ! آپ ساری کائنات کے رب بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا۔ خدا کہے گا: میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اُس کی عیادت کو جاتا تو تو مجھے وہاں پاتا یعنی تو میری خوشنودی اور رحمت کا مستحق قرار پاتا (مسلم، كتاب البر والصلة والادب، باب عيادة المريض - ٦٥٥٦)*
*✪_(2)_ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں_,*
*"❀_ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں؟*
*"❀_ فرمایا: (1)_ جب تم مسلمان بھائی سے ملو تو اُس کو سلام کرو۔*.
*"_(2)_ جب وہ تمہیں دعوت کے لئے مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرو۔*.
*"_(3)_ جب وہ تم سے نیک مشورے کا طالب ہو تو اس کی خیر خواہی کرو اور نیک مشورہ دو۔*
*"_(4)_جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں کہو يَرْحَمُكَ الله _,"*
*"_(5)_ جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرو۔*
*"_(6)_ اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔“*
*®_ (ترمذی، ٢٧٣٦)*
*"❀_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے یا اس سے ملاقات کے لئے جاتا ہے تو ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے تم اچھے رہے، تمہارا چلنا اچھا رہا تم نے اپنے لئے جنت میں ٹھکانا بنالیا۔*
*®_(ترمذی، ابواب البر والصلة باب زيارة الاخوان، ۲۰۰۸)*
*✪_(3)_ مریض کو بہلائے اور تسلی بخش کلمات کہئے:-*
*"❀_مریض کے سرہانے بیٹھ کر اس کے سر یا بدن پر ہاتھ پھیر یئے اور تسلی و تشفی کے کلمات کہئے۔ تا کہ اس کا ذہن آخرت کے اجر وثواب کی طرف متوجہ ہو، اور بے صبری اور شکوہ و شکایت کا کوئی کلمہ اس کی زبان پر نہ آئے۔*
*"❀_ حضرت عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہا بیا ن کرتی ہیں کہ میرے والد نے اپنا قصہ سنایا کہ میں ایک بار مکہ مکرمہ میں سخت بیمار پڑا۔ نبی کریم ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے ، تو میں نے پوچھا، یا رسول اللہ ﷺ ! میں کافی مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بچی ہے۔ کیا میں اپنے مال میں سے دو تہائی کی وصیت کر جاؤں، اور ایک تہائی بچی کے لئے چھوڑ دوں۔*
*"❀_ فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا- آدھے مال کی وصیت کر جاؤں اور آدھا لڑکی کے لئے چھوڑ جاؤں؟ فرمایا نہیں۔ تو میں نے عرض کیا، یا رسول الله ﷺ پھر ایک تہائی کی وصیت کر جاؤں؟ فرمایا: ”ہاں ایک تہائی کی وصیت کر جاؤ اور ایک تہائی بہت ہے۔*
*"❀_ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا، اور میرے منھ پر، اور پیٹ پر پھیرا، پھر دعا کی: اے خدا! سعد کو شفا عطا فرما، اور اس کی ہجرت کو مکمل فرمادے۔ اس کے بعد سے آج تک جب کبھی خیال آتا ہے تو نبی کریم ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس کرتا ہوں (مسلم، کتاب الوصية، باب الوصية بالثلث - ٤٢٠٩).*
*"❀_ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ( ایک بوڑھی خاتون ) اُم السائب کی عیادت کو آئے۔ ام السائب بخار کی شدت میں کانپ رہی تھیں، پوچھا کیا حال ہے؟ خاتون نے کہا، خدا اس بخار کو سمجھے اس نے گھیر رکھا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” بخار کو برا بھلا نہ کہو، یہ مومن کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتا ہے جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔“ (مسلم، کتاب البر والصلة والادب باب ثواب المؤمن فيما تصيبه من مرض ... الخ - ٦٥٧٠)*
*✪_(4)_ مریض کے پاس جائیے، حال پوچھئے، صحت کی دُعا کیجئے :-*
*"❀_مریض کے پاس جا کر اُس کی طبیعت کا حال پوچھئے اور اس کے لئے صحت کی دُعا کیجئے۔ نبی کریم ﷺ جب مریض کے پاس پہنچتے تو پوچھتے : " کہئے طبیعت کیسی ہے؟ پھر تسلی دیتے اور فرماتے: " گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، خدا نے چاہا تو یہ مرض جاتا رہے گا اور یہ مرض گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔*
*"❀_ اور تکلیف کی جگہ پر سیدھا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا فرماتے:"_اللَّهُمَّ أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِهِ وَأَنْتَ الشَّافِى لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُ كَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سُقْما_,*
*®_(بخاری، کتاب المرضى باب دعاء العائد للمريض - ٥٦٧٥ و مسلم)*
*❀"_( ترجمہ) خدایا! اس تکلیف کو دور فرما۔ اے انسانوں کے رب اس کو شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کسی سے شفا کی توقع نہیں ۔ ایسی شفا بخش کہ بیماری کا نام و نشان نہ رہے_,*
*✪_ (5)_ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھئے، شور و شغب بھی نہ کیجئے:-*
*"❀_ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے اور نہ شور و شعب کیجئے۔ ہاں اگر مریض آپ کا کوئی بے تکلف دوست یا عزیز ہے اور وہ خود آپ کو دیر تک بٹھائے رکھنے کا خواہش مند ہو تو ضرور آپ اس کے جذبات کا احترام کیجئے۔*
*❀"_ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شور و شغب نہ کرنا سنت ہے“*
*✪"_(6)_ مریض کے متعلقین سے بھی مریض کا حال پوچھئے:-*
*"❀_ مریض کے متعلقین سے بھی مریض کا حال پوچھئے اور ہمدردی کا اظہار کیجئے اور جو خدمت اور تعاون کر سکتے ہوں، ضرور کیجئے۔ مثلا ڈاکٹر کو دکھانا، حال کہنا، دوا وغیرہ لانا اور اگر ضرورت ہو تو مالی امداد بھی کیجئے۔*
*✪_( 7)_ غیر مسلم مریض کی عیادت کے لئے بھی جائیے:-*
*"❀_غیر مسلم مریض کی عیادت کے لئے بھی جائیے اور مناسب موقع پا کر حکمت کے ساتھ اس کو دین حق کی باتیں کیجئے۔ بیماری میں آدمی خدا کی طرف نسبتاً زیادہ متوجہ ہوتا ہے اور قبولیت کا جذبہ بھی بالعموم زیادہ بیدار ہوتا ہے۔*
*"✪_(8)_ مریض کے گھر پہنچنے کے بعد ادھر اُدھر تا کنے سے بچئے:-*
*"❀_ مریض کے گھر عیادت کے لئے پہنچیں تو ادھر اُدھر تا کنے سے پرہیز کیجئے اور احتیاط کے ساتھ اس انداز سے بیٹھئے کہ گھر کی خواتین پر نگاہ نہ پڑے۔*
*✪_(9)_ علانیہ فسق و فجور میں مبتلا رہنے والوں کی عیادت نہ کیجئے:-*
*"❀_ جولوگ علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ خدا کی نافرمانی کر رہے ہوں، اُن کی عیادت کے لئے نہ جائیے۔*
*"✪_(10)_ مریض سے اپنے لئے دعا کروائیے :-*
*"❀_مریض کی عیادت کے لئے جائے تو مریض سے بھی اپنے لئے دعا کرائے۔ ابن ماجہ میں ہے جب تم کسی مریض کی عیادت کو جاؤ تو اس سے اپنے لئے دُعا کی درخواست کرو۔ مریض کی دُعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دُعا۔ (یعنی فرشتے خدا کی مرضی پا کر ہی دُعا کرتے ہیں اور اُن کی دُعا مقبول ہوتی ہے )*
*📓 مدنی معاشرہ -166 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ میزبانی اس طرح کیجیے _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ مہمان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیجئے:-*
*"❀_ مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کیجئے اور نہایت خوشدلی، وسعت قلبی اور عزت و اکرام کے ساتھ اس کا استقبال کیجئے۔ تنگ دلی، بے رخی سرد مہری اور کڑھن کا اظہار ہر گز نہ کیجئے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جولوگ خدا اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں، انہیں اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہئے"(بخاری، کتاب الادب،- ٦٠١٨ و مسلم)*
*"❀_خاطر تواضع کرنے میں وہ ساری ہی باتیں داخل ہیں جو مہمان کے اعزاز و اکرام، آرام و راحت ، سکون ومسرت اور تسکین جذبات کے لئے ہوں۔ خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہنسی خوشی کی باتوں سے دل بہلانا عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھنے لیٹنے کا انتظام کرنا۔ اپنے معزز دوستوں سے تعارف اور ملاقات کرانا، اس کی ضروریات کا لحاظ رکھنا، نہایت خوشدلی اور فراخی کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنا اور خود بنفس نفیس خاطر مدارات میں لگے رہنا۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کے پاس جب معزز مہمان آتے تو آپ ﷺ خود بنفس نفیس اُن کی خاطر داری فرماتے۔ جب آپ ﷺ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے: اور کھائیے، اور کھائیے، جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا تب آپﷺ اصرار سے باز آتے ۔*
*✪_ (2)_ مہمان کے آنے پر سب سے پہلے سلام دُعا کیجئے اور خیریت معلوم کیجئے:-*
*"❀_مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اُس سے سلام دُعا کیجئے اور خیریت و عافیت معلوم کیجئے ۔ قرآن میں ہے: (سورة الذاريات، آیت : ٢٤ - ٢٥) " کیا آپ (ﷺ) کو ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم علیہ سلام نے جواب میں سلام کیا،*
*"✪__(3)_ دل کھول کر مہمان کی خاطر تواضع کیجئے اور حسب حیثیت اچھی چیز پیش کیجئے:-*
*"❀_دل کھول کر مہمان کی خاطر تواضع کیجئے اور جو اچھے سے اچھا میسر ہو مہمان کے سامنے فوراً پیش کیجئے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ نے مہمان کی خاطر داری پر جس انداز سے اُبھارا ہے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میری ان دو آنکھوں نے دیکھا اور ان دوکانوں نے سنا جبکہ نبی کریم ﷺ یہ ہدایت دے رہے تھے : " جولوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، انہیں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنی چاہئے۔ مہمان کے انعام کا موقع پہلی شب و روز ہے_," (بخاری، کتاب الادب، - ٦٠١٩ و مسلم)*
*✪_ (4)_ مہمان کے آتے ہی اس کی انسانی ضرورتوں کا احساس کیجئے:-*
*"❀_ مہمان کے آتے ہی اس کی انسانی ضرورتوں کا احساس کیجئے ۔ رفع حاجت کے لئے پوچھے منھ ہاتھ دھونے کا انتظام کیجئے۔ ضرورت ہو تو غسل کا انتظام بھی کیجئے، کھانے پینے کا وقت نہ ہو جب بھی معلوم کر لیجئے۔ اور اس خوش اسلوبی سے کہ مہمان تکلف میں انکار نہ کرے۔ جس کمرے میں لیٹنے بیٹھنے اور ٹھہرانے کا نظم کرنا ہو وہ مہمان کو بتا دیجئے۔*
*"✪_(5)_ ہر وقت مہمان کے پاس دھرنا مارے بیٹھے نہ رہے:-*
*"❀_ ہر وقت مہمان کے پاس دھرنا مارے بیٹھے نہ رہے اور اسی طرح رات گئے تک مہمان کو پریشان نہ کیجئے تاکہ مہمان کو آرام کرنے کا موقع ملے اور وہ پریشانی محسوس نہ کرے،*
*✪_(6)_مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے، تنگ دلی، کڑھن اور کوفت محسوس نہ کیجئے:-*
*"❀_ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خدا جس کو آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اُتار دیتا ہے۔ وہ آپ کے دستر خوان پر آپ کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور آپ کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔*
*"✪_(7)_ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھئے:-*
*"❀_ مہمان کی عزت و آبرو کا بھی لحاظ رکھئے اور اس کی عزت و آبرو کو اپنی عزت و آبرو سمجھئے، آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت وحمیت کے خلاف چیلنج سمجھئے۔*
*"❀_قرآن میں ہے کہ جب لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بد نیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ لوگ میرے مہمان ہیں ان کے ساتھ بد سلوکی کر کے مجھے رسوا نہ کرو، ان کی رسوائی میری رسوائی ہے, (الحجر: ٦٨ - ٦٩)*
*✪_ (8)_تین دن تک انتہائی شوق اور ولولے سے میزبانی کے تقاضے پورے کیجئے:-*
*"❀_ تین دن تک کی ضیافت مہمان کا حق ہے اور حق ادا کرنے میں مومن کو انتہائی فراخ دل ہونا چاہئے ۔ پہلا دن خصوصی خاطر مدارات کا ہے، اس لئے پہلے روز مہمان نوازی کا پورا پورا اہتمام کیجئے۔ بعد کے دو دنوں میں اگر وہ غیر معمولی اہتمام نہ رہ سکے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اور مہمان نوازی تین دن تک ہے، اس کے بعد میزبان جو کچھ کرے گا وہ اس کے لئے صدقہ ہوگا" (بخاری، کتاب الادب، - ٦٠١٩ ، مسلم)*
*"✪_(9)_ مہمان کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھئے:-*
*"❀_ مہمان کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھے اور مہمان کو ملازموں یا بچوں کے حوالے کرنے کے بجائے خود اس کی خدمت اور آرام کے لئے کمر بستہ رہے۔ نبی کریم ﷺ معزز مہمانوں کی مہمان نوازی خود فرماتے تھے۔*
*✪_(10)_کھانا کھانے کے لئے جب ہاتھ دھوئے تو پہلے میزبان دھوئے ، پھر مہمان کے ہاتھ دھلوائے:-*
*"❀_ کھانا کھانے کے لئے جب ہاتھ دھلوائیں تو پہلے خود ہاتھ دھو کر دستر خوان پر پہنچے اور پھر مہمان کے ہاتھ دھلوائے۔*
*"❀_ امام مالک رحمہ اللہ نے جب یہی عمل کیا، تو امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: کھانے سے پہلے تو میزبان کو پہلے ہاتھ دھونا چاہئے اور دستر خوان پر پہنچ کر مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے اور کھانے کے بعد مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے چاہئیں اور سب کے بعد میزبان کو ہاتھ دھونے چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُٹھتے اٹھتے کوئی اور آپہنچے،*
*"✪_ (11)_ دستر خوان پر خوردونوش کا سامان اور برتن وغیرہ زیادہ رکھئے:-*
*"❀_ دستر خوان پر خوردونوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمانوں کی تعداد سے کچھ زیادہ رکھے۔ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آجائیں اور پھر ان کے لئے انتظام کرنے کو دوڑنا بھاگنا پڑے۔ اور اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہوگا تو آنے والا بھی سبکی کے بجائے مسرت اور عزت افزائی محسوس کرے گا۔*
*✪_(12)_ مہمان کے لئے ایثار سے کام لیجئے:-*
*"❀_ مہمان کے لئے ایثار سے کام لیجئے۔ خود تکلیف اُٹھا کر اُس کو آرام پہنچاہیے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا، حضور ! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی بیوی کے یہاں کہلایا، کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہو بھیج دو۔ جواب آیا، اُس خدا کی قسم جس نے آپ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔*
*"❀_ پھر آپ ﷺ نے دوسری بیوی کے یہاں کہلا بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب آیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ایک ایک کر کے سب بیویوں کے یہاں کہلوایا اور سب کے یہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔ اب آپ ﷺ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آج رات کے لئے اس مہمان کو کون قبول کرتا ہے۔ ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں قبول کرتا ہوں۔*
*"❀_ انصاری اُس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور گھر جا کر بیوی کو بتایا: ”میرے ساتھ یہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہیں ان کی خاطر داری کرو ۔ بیوی نے کہا: "میرے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے۔ صحابی نے کہا: ” بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے سے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں، اس طرح مہمان نے تو پیٹ بھر کھایا اور گھر والوں نے ساری رات فاقے سے گزاری،*
*"❀_ صبح جب یہ صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا: تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا وہ خدا کو بہت ہی پسند آیا _,*
*®_(بخاری و مسلم ، کتاب الاشربة، باب اكرام الضيف-٥٣٥٩)*.
*✪_(13)_ اگر مہمان کسی موقع پر میزبان سے بے مروتی کرے تب بھی میزبان فیاضی کا سلوک کرے :-*
*"❀_اگر آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروتی اور روکھے پن کا سلوک کیا ہو، تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراخدلی، وسعت ظرف اور فیاضی کا سلوک کیجئے۔*
*❀"_ حضرت ابوالاحوص جشمی رضی اللہ عنہ اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: "اگر کسی کے پاس میرا گزر ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمانی کا حق ادا نہ کرے، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کروں یا اس ( کی بے مروتی اور بے رُخی ) کا بدلہ اُسے چکھاؤں؟*
*❀"_ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”نہیں بلکہ تم بہر حال اس کی مہمانی کا حق ادا کرو۔“ (مشکوۃ باب الضیافتہ )*
*✪_ (14)_ مہمان سے اپنے حق میں خیر و برکت کی دُعا کے لئے درخواست کیجئے:-*
*"❀_مہمان سے اپنے حق میں خیر و برکت کی دُعا کے لئے درخواست کیجئے، بالخصوص اگر مہمان نیک، دیندار اور صاحب فضل ہو۔*
*"❀_ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ میرے والد کے یہاں مہمان ٹھہرے، ہم نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ہریہ پیش کیا۔ آپ ﷺ نے تھوڑا سا تناول فرمایا، پھر ہم نے کھجوریں پیش کیں۔ آپ ﷺ یہ کھجوریں کھاتے تھے اور گٹھلیاں شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی میں پکڑ پکڑ کر پھینکتے جاتے تھے۔*
*"❀_ پھر پینے کے لئے کچھ پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے نوش فرمایا اور اپنی دائیں طرف بیٹھنے والے کے آگے بڑھا دیا۔ جب آپ ﷺ تشریف لے جانے لگے تو والد محترم نے آپ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور درخواست کی کہ حضور ﷺ ہمارے لئے دعا فرما ئیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی: اللَّهُمْ بَارِك لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ_," (مسلم، کتاب الاشربة - ٥٣٢٨)*
*"❀_(ترجمہ) خدایا ! تو نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں برکت فرما، ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم کر_,"*
*📓 مدنی معاشرہ -174 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ ہم مہمانی کس طرح کریں _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ مہمان میزبان کے لئے یا اس کے بچوں کے لئے کچھ تحفہ لے لیا کرے:-*
*"❀_ کسی کے یہاں مہمان بن کر جائیں تو حسب حیثیت میزبان، یا میزبان کے بچوں کے لئے کچھ تحفے تحائف لیتے جائیے اور تحفے میں میزبان کے ذوق اور پسند کا لحاظ کیجئے۔ تحفوں اور بدیوں کے تبادلے سے محبت اور تعلق کے جذبات بڑھتے ہیں۔ اور تحفہ دینے والے کے دل میں گنجائش پیدا ہوتی ہے۔*
*"✪__(2)_ مہمان بغیر ضرورت تین دن سے زیادہ نہ ٹھہرے:-*
*"❀_ جس کے یہاں بھی مہمان بن کر جائیں کوشش کریں کہ تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، الا یہ کہ خصوصی حالات ہوں اور میزبان ہی شدید اصرار کرے۔*
*"❀_ نبی کریم صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: معمہمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے_,"*
*®_(بخاری کتاب الادب، باب اكرام الضيف وخدمته اياه بنفسه - ٦١٣٥)*
*"❀_ اور صحیح مسلم میں ہے کہ مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو گنہ گار کر دے“۔*
*"_ لوگوں نے کہا: "یا رسول اللہ ﷺ ! گنہ گار کیسے کرے گا ؟" فرمایا: اس طرح کہ وہ اس کے پاس اتنا ٹھہرے کہ میزبان کے پاس ضیافت کے لئے کچھ نہ رہے_"*
*✪_(3)_ ہمیشہ دوسروں کے ہی مہمان نہ بننے:-*
*"❀_ ہمیشہ دوسروں کے ہی مہمان نہ بئے۔ دوسروں کو بھی اپنے یہاں آنے کی دعوت دیجئے اور دل کھول کر خاطر تواضع کیجئے۔*
*"✪_(4)_ موسم کے لحاظ سے ضروری سامان لے کر جائیں:-*
*"❀_ مہمانی میں جائیں تو موسم کے لحاظ سے ضروری سامان اور بستر وغیرہ لے کر جائے۔ جاڑے میں خاص طور پر بغیر بستر کے ہر گز نہ جائے، ورنہ میزبان کو نا قابل تکلیف ہوگی اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مہمان میزبان کے لئے وبال جان بن جائے ،*
*✪_ (5)_ میزبان کی ذمہ داریوں کا بھی لحاظ رکھئے:-*
*"❀_میزبان کی مصروفیات اور ذمہ داریوں کا بھی لحاظ ر کھنے اور اس کا اہتمام کیجئے کہ آپ کی وجہ سے میزبان کی مصروفیات متاثر نہ ہو اور ذمہ داریوں میں خلل نہ پڑے،*
*"✪_(6)_ میزبان سے طرح طرح کے مطالبے نہ کریں:-*
*"❀_ میزبان سے طرح طرح کے مطالبے نہ کیجئے۔ وہ آپ کی خاطر مدارات اور دلجوئی کے لئے از خود جو اہتمام کرے اس پر میزبان کا شکر یہ ادا کیجئے اور اس کو کسی بیجا مشقت میں نہ ڈالیئے ۔*
*✪_(7)_میزبان کے گھر کی خواتین سے ( غیر محرم ہیں تو) گفتگو وغیرہ نہ کریں:-*
*"❀_ اگر آپ میزبان کی خواتین کے لئے غیر محرم ہیں تو میزبان کی غیر موجودگی میں بلا وجہ ان سے گفتگو نہ کیجئے نہ ان کی آپس کی گفتگو پر کان لگائیے اور اس انداز سے رہے کہ آپ کی گفتگو اور طرز عمل سے انہیں کوئی پریشانی بھی نہ ہو اور کسی وقت بے پردگی بھی نہ ہونے پائے۔*
*"✪_(8)_ اگر میزبان کے ساتھ نہ کھانا ہو تو اچھے انداز میں معذرت کریں:-*
*"❀_ اور اگر کسی وجہ سے آپ میزبان کے ساتھ نہ کھانا چاہیں یا روزے سے ہوں تو نہایت اچھے انداز میں معذرت کریں۔ اور میزبان کے لئے خیر و برکت کی دُعا مانگیں۔*
*"❀_ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنے والے معزز مہمانوں کے سامنے پر تکلف کھانا رکھا اور وہ ہاتھ کھنچتے ہی رہے تو حضرت نے درخواست کی: ” آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں؟“ جواب میں فرشتوں نے حضرت کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ” آپ ناگواری نہ محسوس فرمائیں در اصل ہم کھا نہیں سکتے، ہم تو صرف آپ کو ایک لائق بیٹے کے پیدا ہونے کی خوشخبری دینے آئے ہیں۔"*
*✪_(9)_ میزبان کے لئے خیر و برکت کی دعا کیجئے:-*
*"❀_ جب کسی کے یہاں دعوت میں جائیں تو کھانے، پینے کے بعد میزبان کے لئے کشادہ روزی، خیر و برکت اور مغفرت و رحمت کی دُعا کیجئے۔*
*"❀_ حضرت ابوالہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دعوت کی، جب آپ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کو صلہ دو، صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: ”صلہ کیا دیں؟ یا رسول اللہ !*
*"❀_ فرمایا: ” جب آدمی اپنے بھائی کے یہاں جائے اور وہاں کھائے پیئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دُعا کرے۔ یہ اس کا صلہ ہے۔*
*®_(ابودائود، کتاب الاطعمة باب فى الدعاء - ٣٨٥٣)*
*"❀_ نبی کریم ﷺ ایک بار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے روٹی اور زیتون پیش کیا۔ آپ ﷺ نے تناول فرمایا اور یہ دعا فرمائی: ( ترجمہ) تمہارے یہاں روزے دار، روزہ افطار کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت و مغفرت کی دُعا کریں_,"*
*®_ (ابودائود، کتاب الاطعمة - ٣٨٥٤)*
*📓 مدنی معاشرہ -178 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞__ امن والا سونا، امن والا جاگنا _,*
▪•═════••════•▪
*✪_ (1)_ شام کا اندھیرا چھا جانے لگے تو بچوں کو گھر بلا لیجئے:-*
*"❀_ جب شام کا اندھیرا چھا جانے لگے تو بچوں کو گھر میں بلا لیجئے اور باہر نہ کھیلنے دیجئے، ہاں، جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو نکلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ احتیاط اسی میں ہے کہ کسی اشد ضرورت کے بغیر بچوں کو رات میں گھر سے نہ نکلنے دیں،*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جب شام ہو جائے تو چھوٹے بچوں کو گھر میں روکے رکھو، اس لئے کہ اس وقت شیاطین (زمین) میں پھیل جاتے ہیں، البتہ جب گھڑی بھر رات گزر جائے تو بچوں کو چھوڑ سکتے ہو۔" (بخاری، کتاب الاشربة، باب تغطية الاناء، ٥٦٢٣ ، صحاح سته، بحواله حصن صين)*
*"✪_(2)_ شام ہوتے ہی مندرجہ ذیل دُعا پڑھئیے:-*
*"❀_ جب شام ہو جائے تو یہ دُعا پڑھئے ۔ نبی کریم علیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہی دُعا پڑھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے:-*
*"❀_ اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ النُّشُورُ_," (ترمذی، کتاب الدعوات باب ماجاء فى الدعاء اذا اصبح واذا امسی - ۳۳۹۱)* *"❀_ خدایا ! ہم نے تیری ہی توفیق سے شام کی اور تیری ہی مدد سے صبح کی۔ تیری ہی عنایت سے جی رہے ہیں اور تیرے ہی اشارے پر مرجائیں گے، اور انجام کار تیرے ہی پاس اُٹھ کر حاضر ہوں گے,*
*✪_(3)_ مغرب کی اذان کے وقت مندرجہ ذیل دُعا پڑھئیے:-*
*"❀_ اللَّهُمْ إِنَّ هَذَا إِقْبَالُ لَيْلِكَ وَإِدْبَارُ نَهَارِكَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِكَ فَاغْفِرْ لِی _," (ترمذی، ابودائود، کتاب الصلاة باب ما يقول عند اذان المغرب - ٥٣٠)*
*"❀_ خدایا ! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا، تیرے دن کے جانے کا اور تیرے موذنوں کی پکار کا، پس تو میری مغفرت فرمادے“*
*"👈🏻_ نوٹ : کتاب " مومن کا ہتھیار" میں دی گئی صبح و شام کی دعائوں کا اہتمام کیجئے، کتاب آپ لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں _,"*
*👇🏻 مومن کا ہتھیار ، اللہ کی پناہ ( مومن کا قلعہ)*
https://drive.google.com/file/d/0B2E60cf5hyGARF9BX1BjUHlCa00/view?usp=drivesdk&resourcekey=0-td65q-I7MqSeR6zR7RyAqQ
*👇🏻 نئی اضافہ شدہ کتاب _,*
https://drive.google.com/file/d/18e56q8uTHXHvOlT3ZJ1iitRBk8stK_GN/view?usp=sharing
*👇🏻مومن کا ہتھیار ہندی میں،*
https://drive.google.com/file/d/0B2E60cf5hyGAa1NkbVYwN2xmdTg/view?usp=sharing&resourcekey=0-aQa8LPi60H_fkJtiA73YFw
*"✪_(4)_ عشاء کی نماز سے پہلے سونے سے پر ہیز کیجئے:-*
*"❀_ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے سونے سے پرہیز کیجئے۔ اس طرح اکثر عشاء کی نماز خطرے میں پڑ جاتی ہے اور کیا خبر کہ نیند کی اس موت کے بعد خدا بندے کی جان واپس کرتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لئے ہی لے لیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ عشاء سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے۔*
*"✪_(5)_ رات ہوتے ہی گھر میں روشنی ضرور کیجئے:-*
*"❀_ رات ہوتے ہی گھر میں روشنی ضرور کر لیجئے ۔ نبی کریم ﷺ ایسے گھر میں سونے سے پرہیز فرماتے جس میں روشنی نہ کی گئی ہوتی۔*
*✪_(6)_ رات میں جلد سونے اور سحر میں جلد اُٹھنے کی عادت ڈالیے:-*
*"❀_ رات گئے تک جاگنے سے پرہیز کیجئے ۔ شب میں جلد سونے اور سحر میں جلد اٹھنے کی عادت ڈالیے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ” عشاء کی نماز کے بعد یا تو ذکر الہی کے لئے جاگا جا سکتا ہے یا گھر والوں سے ضرورت کی بات کرنے کے لئے_ “*
*"✪_( 7)_ رات کو جاگنے اور دن میں نیند پوری کرنے سے پر ہیز کیجئے:-*
*"❀_ رات کو جاگنے اور دن میں نیند پوری کرنے سے پرہیز کیجئے۔ خدا نے رات کو آرام و سکون کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور دن کو سو کر اٹھنے اور ضروریات کے لئے دوڑ دھوپ کرنے کا وقت قرار دیا ہے۔*
*"❀_ ۔ جو لوگ آرام طلبی اور ستی کی وجہ سے دن میں خراٹے لیتے ہیں، یا داد عیش دینے اور لہو و لعب میں مبتلا ہونے کے لئے رات بھر جاگتے ہیں، وہ قدرت کی حکمتوں کا خون کرتے ہیں اور اپنی صحت و زندگی کو برباد کرتے ہیں۔ دن میں پہروں تک سونے والے اپنے دن کے فرائض میں بھی کوتاہی کرتے ہیں۔ اور جسم و جان کو بھی آرام سے محروم رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ دن کی نیند رات کا بدل نہیں بن پاتی۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ نے تو اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ آدمی رات رات بھر جاگ کر خدا کی عبادت کرے اور اپنے کونا قابل برداشت مشقت میں ڈالے۔*
*"❀_حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بار نبی کریم ﷺ نے پوچھا، کہا یہ بات جو مجھے بتائی گئی ہے صحیح ہے کہ تم پابندی سے دن میں روزے رکھتے ہو اور رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں! بات تو صحیح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں ایسا نہ کرو، کبھی روزہ رکھو اور کبھی کھاؤ پیو۔ اسی طرح سوؤ بھی اور اُٹھ کر نماز بھی پڑھو۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری، کتاب التهجد-١١٥٣)*
*✪_ (8)_ زیادہ آرام دہ بستر نہ استعمال کیجئے:-*
*"❀_ زیادہ آرام دہ بستر نہ استعمال کیجئے۔ دنیا میں مؤمن کو آرام طلبی اور عیش پسندی سے پر ہیز کرنا چاہئے۔ مومن کو جفاکش سخت کوش، اور محنتی ہونا چاہئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی" (شمائل ترمذی، باب ما جاء في فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم)*
*"❀_ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا، آپ کے یہاں نبی کریم ﷺ کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا: ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم نبی کریم ﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو ذرا زیادہ نرم ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا۔*
*"❀_ صبح کو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: رات میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی؟ میں نے کہا، وہی ٹاٹ کا بستر تھا، البتہ رات میں نے اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہو جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں، اس کو دوہرا ہی رہنے دیا کرو، رات بستر کی نرمی تہجد کے لئے اُٹھنے میں رکاوٹ بنی,(شمائل ترمذى، باب ما جاء في فراش النبي صلى الله عليه وسلم)*
*"❀_ نبی کریم ﷺ ایک بار چٹائی پر سورہے تھے ، لیٹنے سے آپ ﷺ کے جسم مبارک پر چٹائی کے نشانات پڑ گئے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں یہ دیکھ کر رونے لگا، نبی کریم ﷺ نے مجھے روتے دیکھا، تو فرمایا کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ قیصرو کسریٰ تو ریشم اور مخمل کے گدوں پر سوئیں اور آپ ﷺ ہوریے پر۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ رونے کی بات نہیں ہے، ان کے لئے دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے۔*
*✪_(9)_ سونے سے پہلے وضو کر لیجئے اور پاک صاف ہو کر سوئیے :-*
*"❀_سونے سے پہلے وضو کرنے کا بھی اہتمام کیجئے اور پاک وصاف ہو کر سوئیے۔ اگر ہاتھوں میں چکنائی وغیرہ لگی ہو تو ہاتھوں کو خوب اچھی طرح دھو کر سوئے۔*.
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: " جس کے ہاتھ میں چکنائی وغیرہ لگی ہو اور وہ اُسے دھوئے بغیر سو گیا اور اُسے کوئی نقصان پہنچا ( یعنی کسی جانور نے کاٹ لیا ) تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے (کہ دھوئے بغیر کیوں سو گیا تھا ؟ ) (ترمذی، کتاب الاشربة، باب ما جاء في كراهة البيتونة وفي يده ريح عمر - ١٨٥٩)*..
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ سونے سے پہلے آپ ﷺ وضو فرماتے اور اگر کبھی اس حال میں سونے کا ارادہ فرماتے کہ غسل کی حاجت ہوتی تو ناپاکی کے مقام کو دھوتے اور پھر وضو کر کے سو رہتے ۔ (بخاری، کتاب الغسل، باب الجنب يتو ضأئم، ينام - ۲۸۸)*
*✪_(10)_ سونے کے وقت گھر کا دروازہ بند کیجئے، برتن ڈھانکئے، چراغ بجھا دیجئے:-*
*"❀_سونے کے وقت گھر کا دروازہ بند کر لیجئے۔ کھانے پینے کے برتن ڈھانک دیجئے، چراغ یا لائٹ وغیرہ بجھا دیجئے۔ اور اگر آگ جل رہی ہو تو اُس کو بھی بجھا دیجئے ۔*
*"❀_ ایک بار مدینہ منورہ میں رات کے وقت کسی کے گھر میں آگ لگ گئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آگ تمہاری دشمن ہے جب سویا کرو تو آگ بجھا دیا کرو, (ترمذی، کتاب الأطعمة - ۱۸۱۳)*
*"✪_(11)_ سوتے وقت بستر کے قریب یہ چیزیں رکھ لیجئے:-*
*"❀_ سوتے وقت بستر پر اور بستر کے قریب یہ چیزیں ضرور رکھ لیجئے۔ پینے کا پانی اور گلاس، لوٹا، لاٹھی، روشنی کے لئے ماچس یا ٹارچ ، مسواک، تولیہ وغیرہ اور اگر آپ کہیں مہمان ہوں تو گھر والوں سے بیت الخلاء وغیرہ ضرور معلوم کر لیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ رات میں کسی وقت ضرورت پیش آجائے اور زحمت ہو۔*
۔
*"❀_ نبی کریم ﷺ جب آرام فرماتے تو آپ کے سرہانے سات چیزیں رکھی رہتیں۔ تیل کی شیشی۔ کنگھا۔ سرمہ دانی۔ قیچی، مسواک۔ آئینہ۔ اور لکڑی کی ایک چھوٹی سی سیخ جو سر وغیرہ کھجانے کے کام میں آتی ۔*
*✪_( 12)_ سونے کے وقت کپڑے وغیرہ پاس رکھئے اور اُٹھتے ہی جھاڑ لیجئے:-*
*"❀_سوتے وقت اپنے جوتے اور کپڑے وغیرہ پاس ہی رکھئے کہ جب سوکر اُٹھیں تو تلاش نہ کرنے پڑیں اور اُٹھتے ہی جوتے میں پیر نہ ڈالیے۔ اسی طرح کپڑے بھی بغیر جھاڑے نہ پہنے۔ پہلے جھاڑ لیجئے ہو سکتا ہے کہ جوتے یا کپڑے میں کوئی موذی جانور ہو اور خدانخواستہ وہ آپ کو تکلیف پہنچادے۔*
*"✪_(13)_ سونے سے پہلے بستر جھاڑ لیجئے:-*
*"❀_ سونے سے پہلے بستر اچھی طرح جھاڑ لیجئے ۔ اور اگر کبھی سوتے سے کسی ضرورت کے لئے اُٹھیں اور پھر آ کر لیٹیں تب بھی بستر کو اچھی طرح جھاڑ لیں۔*.
*"❀_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اور جب کوئی شب میں بستر سے اُٹھے اور پھر بستر پر جائے تو اپنی لنگی کے کنارے سے تین بار اسے جھاڑ دے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے بستر پر کیا چیز آگئی ہے،(ترمذی، ابوداؤد، ابواب الادب باب ما يقول عند النوم-۵۰۵۰)*
*✪_(14)_ جب بستر پر پہنچیں تو یہ دعاء پڑھئے:-*
*"❀_ جب بستر پر پہنچیں تو یہ دعاء پڑھئے۔ نبی کریم ﷺ کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :-*
*"❀_ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانًا وَاوَانَا فَكُمْ مِّمَّنْ لَّا كَافِي لَهُ وَلَا مُؤْوِى_, (شمائل ترمذی، باب فى صفة نوم رسول الله ﷺ )*
*"❀_( ترجمہ) شکر و تعریف خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور جس نے ہمارے کاموں میں بھر پور مدد فرمائی اور جس نے ہمیں رہنے بسنے کو ٹھکانا بخشا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کا نہ کوئی معین و مددگار اور نہ کوئی ٹھکانا دینے والا_,"*
*✪_(15)_ بستر پر پہنچنے پر قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھئے:-*
*"❀_ بستر پر پہنچنے پر قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھ لیجئے ۔ نبی کریم ﷺ سونے سے پہلے قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور تلاوت فرماتے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بستر پر آرام کرنے کے وقت کتاب اللہ کی کوئی سورت پڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے۔ جو ہر تکلیف دہ چیز سے اس کے بیدار ہونے تک اس کی حفاظت کرتا ہے خواہ وہ کسی بھی وقت نیند سے بیدار ہو (احمد)*
*"❀_ اور آپ نبی ﷺ نے فرمایا : جب آدمی سونے کے لئے اپنے بستر پر پہنچتا ہے تو اسی وقت ایک فرشتہ اور شیطان اُس کے پاس آپہنچے ہیں۔ فرشتہ اُس سے کہتا ہے: اپنے اعمال کا خاتمہ بھلائی پر کرو اور شیطان کہتا ہے: ”اپنے اعمال کا خاتمہ برائی پر کرو۔ پھر اگر وہ آدمی خدا کا ذکر کر کے سویا تو فرشتہ رات بھر اُس کی حفاظت کرتا ہے,"*
*"❀_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بستر پر تشریف لیجاتے تو دونوں ہاتھ دُعا مانگنے کی طرح ملاتے اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کی سورتیں تلاوت فرما کر ہاتھوں پر دم فرماتے اور جہاں تک ہاتھ پہنچتا اپنے جسم پر پھیر لیتے۔ سر، چہرے اور جسم کے اگلے حصے سے شروع فرماتے اور آپ ﷺ تین مرتبہ یہ عمل فرماتے۔*
*®_(شمائل ترمذی، باب في صفة نوم رسول الله صلى الله عليه وسلم)*
*✪_(17)_ سوتے وقت دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹیں:-*
*"❀_جب سونے کا ارادہ کریں تو دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹے, حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ آرام فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ کلمات پڑھتے : رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ _,"*
*®_(شمائل ترمذی، باب في صفة نوم رسول الله ﷺ)*
*"❀_( ترجمہ) خدایا! مجھے اس روز اپنے عذاب سے بچا، جس روز تو اپنے بندوں کو اپنے حضور اُٹھا حاضر کرے گا“*
*"❀_ حصن حصین میں ہے کہ آپ ﷺ یہ کلمات تین بار پڑھتے۔*
*"✪_(18)_ پٹ لیٹنے اور بائیں کروٹ پر سونے سے پر ہیز کیجئے:-*
*"❀_پٹ لیٹنے اور بائیں کروٹ پر سونے سے پر ہیز کیجئے ۔حضرت یعیش رضی اللہ عنہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ کسی صاحب نے مجھے اپنے پاؤں سے ہلایا اور کہا، اس طرح لیٹنے کو خدا نا پسند فرماتا ہے۔اب جو میں نے دیکھا تو وہ نبی کریم ﷺ تھے۔*
*®_(ابودائود، ابواب الادب باب في الرجل ينبطح على بطنه - ٥٠٤٠)*
*✪_(19)_سونے کا انتظام ایسی جگہ رکھئے جہاں تازہ ہوا پہنچتی ہو_,*
*"❀_ سونے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جہاں تازہ ہوا پنچتی ہو، ایسے بند کمروں میں سونے سے پرہیز کیجئے جہاں تازہ ہوا کا گزر نہ ہوتا ہو۔*
*"✪_(20) مٹھ لپیٹ کر نہ سوئے:-*
*"❀_ منھ لپیٹ کر نہ سوئے۔ اس طرح سونے سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے، چہرہ کھول کر سونے کی عادت ڈالیے، تا کہ آپ کو تازہ ہوا ملتی رہے۔*
*"✪_(21)_ بغیر منڈیر والی چھت پر سونے سے پرہیز کیجئے:-*
*"❀_ ایسی کھلی چھتوں پر سونے سے پرہیز کیجئے جہاں کوئی منڈیر یا جنگلا وغیرہ نہ ہو اور چھت سے اُترتے وقت اہتمام کیجئے کہ زینے پر پاؤں رکھنے سے پہلے آپ روشنی کا انتظام کر لیں۔ بعض اوقات معمولی غلطی سے کافی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔*
*✪_(22)_سخت سردی کے باوجود بھی کمرے میں انگیٹھی جلا کر نہ سوئیے :-*
*"❀_کیسی ہی سخت سردی پڑ رہی ہو، کمرے میں انگیٹھی جلا کر نہ سوئیے اور نہ بند کمرے میں لالٹین جلا کر سوئیے ۔ آگ جلنے سے بند کمروں میں جو گیس پیدا ہوتی ہے وہ صحت کے لئے انتہائی مضر ہے بلکہ بعض اوقات تو اس سے جان کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔*
*"✪_(23)_ سونے سے پہلے یہ دُعا پڑھ لیا کیجئے:-*
*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ سونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیا کرتے:-*
*"_ بِاسْمِکَ رَبِّیْ وَضَعْتُ جَنْۭبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہٗ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْھَا وَاِنْ اَرْسَلْتَھَا فَاحْفَظْھَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصّٰلِحِیْنَ _,*
*®_(بخاری، کتاب الدعوات و مسلم)*
*”❀_( ترجمہ)_اے میرے رب! تیرے ہی نام سے میں نے اپنا پہلو بستر پر رکھا اور تیرے ی سہارے میں اُس کو بستر سے اُٹھاؤں گا۔ اگر تو رات ہی میں میری جان قبض کرے تو اُس پر رحم فرما۔ اور اگر تو اسے چھوڑ کر مزید مہلت دے تو اس کی حفاظت فرما جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے_,*
*"❀_اگر یہ دُعا یاد نہ ہو تو مختصری دُعا یہ ہے:-*
*"_ اللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا _,"*
*®_(بخاری، کتاب الدعوات باب وضع اليد تحت الخد الیمنی و مسلم)*
*”❀_ خدایا ! میں تیرے ہی نام سے موت کی آغوش میں جاتا ہوں، اور تیرے ہی نام سے زندہ اُٹھوں گا“*
*✪_(24)_رات کے آخری حصے میں اُٹھنے کی عادت ڈالیئے:-*
*"❀_ رات کے آخری حصے میں اُٹھنے کی عادت ڈالیے۔ نفس کی تربیت اور خدا سے تعلق پیدا کرنے کے لئے آخری شب میں اُٹھنا اور خدا کو یاد کرنا ضروری ہے۔ خدا نے اپنے محبوب بندوں کی یہی امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر خدا کے حضور رکوع اور سجود کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ اوّل رات میں آرام فرماتے اور اخیر شب میں اُٹھ کر خدا کی عبادت میں مشغول ہو جاتے۔*
*"✪_(25)_ نیند سے بیدار ہونے پر دُعا پڑھئے:-*
*"❀_ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانًا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ_,*
*®_ (بخاری، کتاب الدعوات، و مسلم)*
*"❀_(ترجمہ)_شکر و تعریف خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں مردہ کر دینے کے بعد زندگی سے نوازا اور اسی کے حضور اُٹھ کر حاضر ہونا ہے,*
*✪_(26)_ اچھا خواب دیکھنے پر خدا کا شکر ادا کیجئے:-*
*"❀_ جب کوئی اچھا خواب دیکھیں تو خدا کا شکر ادا کیجئے۔ اور اس کو اپنے حق میں بشارت سمجھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اب نبوت میں سے بشارتوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا ، لوگوں نے پوچھا، بشارت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: اچھا خواب۔ (بخاری، کتاب التعبير، باب المبشرات - ٦٩٩٠)*
*"❀_ اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں جو زیادہ سچا ہے اس کا خواب بھی زیادہ سچا ہوگا ۔ اور آپ ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ "جب کوئی اچھا خواب دیکھو تو خدا کی حمد وثنا کرو اور اس کو بیان کرو۔ اور دوست سے بھی بیان کرو۔“*
*"❀_ نبی کریم صلی علیہ وسلم جب کبھی کوئی خواب دیکھتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی فرماتے کہ اپنا خواب بیان کرو، میں اس کی تعبیر دوں گا_,"*
*®_(بخاری، کتاب التعبير، باب الرئويا من الله ، باب تعبير الرئويا بعد صلاة الصبح)*
*"✪_27)_اپنے جی سے گھڑ کر جھوٹے خواب کبھی بیان نہ کیجئے:-*
*"❀_ اپنے جی سے گھڑ کر جھوٹے خواب کبھی بیان نہ کیجئے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو خواب دیکھے بغیر اپنی جانب سے گھڑ گھڑ کر بیان کرے گا اس کو یہ سزا دی جائے گی کہ جو کے دو دانوں میں گرہ لگائے اور وہ ایسا کبھی نہ کر سکے گا_“*
*®_(بخاری، کتاب التعبير، باب من كذب في حلمه - ٧٠٤٢)*
*✪_(28)_ اگر نا پسندیدہ خواب دیکھیں تو کسی سے بیان نہ کیجئے ، اور خدا کی پناہ مانگئے:-*
*"❀_جب کبھی خدانخواستہ کوئی نا پسندیدہ اور ڈراؤنا خواب دیکھو تو ہرگز کسی سے بیان نہ کیجئے اور اس خواب کی برائی سے خدا کی پناہ مانگئے۔ خدا نے چاہا تو اس کے شرسے محفوظ رہیں گے۔*
*❀"_ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ناگوار خوابوں کی وجہ سے اکثر بیمار پڑ جایا کرتا تھا۔ ایک روز میں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث سنائی: ”اچھا خواب خدا کی جانب سے ہوتا ہے، اگر تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو اپنے مخلص دوست کے سوا کسی اور سے نہ بیان کرے اور کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو قطعاً کسی کو نہ بتائے بلکہ جاگتے ہی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيم“ پڑھ کر تین بار ہائیں جانب تھتکار دے اور کروٹ بدل لے ، تو وہ خواب کے شر سے محفوظ رہے گا_“*
*®_ (رياض الصالحين، مسلم، كتاب الرئويا - ٥٨٩٧)*
*✪_(29)_ خواب سنانے والے کو اچھی تعبیر دیجئے اور اس کے حق میں دُعا کیجئے:-*
*"❀_ جب کبھی کوئی دوست اپنا خواب سنائے تو اس کی اچھی تعبیر دیجئے اور اس کے حق میں دُعا کیجئے، ایک آدمی نے ایک بار نبی کریم ﷺ سے اپنا خواب بیان کیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” بہتر خواب دیکھا ہے، اور بہتر تعبیر ہو گی،*
*"❀_ نبی کریم ﷺ عام طور پر فجر کی نماز کے بعد پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور لوگوں سے فرماتے جس نے جو خواب دیکھا ہو بیان کرو، اور سننے سے پہلے یہ الفاظ فرماتے: اس خواب کی بھلائی تمہیں نصیب ہو، اور اس کی برائی سے تم محفوظ رہو، ہمارے حق میں خیر اور ہمارے دشمنوں کے لئے وبال ہو اور حمد و شکر خدا ہی کے لئے ہے جو تمام عالموں کا رب ہے،*
*"✪_(30)_ پریشان کن خواب دیکھ کر گھبراہٹ محسوس ہو تو مندرجہ ذیل کلمات پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی یہ دعا یاد کرا دیجئے:-*
*"❀_کبھی خواب میں ڈر جائیں یا کبھی پریشان کن خواب دیکھ کر پریشان ہو جائیں تو خوف اور پریشانی دور کرنے کے لئے یہ دُعا پڑھئے اور اپنے ہوشیار بچوں کو بھی یہ دعا یاد کرائے۔*
*"❀_حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی خواب میں ڈر جاتا یا پریشان ہو جاتا تو نبی کریم ﷺ اس کی پریشانی دور کرنے کے لئے یہ دُعا تلقین فرماتے:-*
*"_أعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَاَنْ يَحْضُرُون_,"*
*®_ (ابوداؤد، ترندی، کتاب الدعوات باب دعاء الفزع في النوم)*
*"❀_( ترجمہ) میں خدا ہی کے کلمات کاملہ کی پناہ مانگتا ہوں، اُس کے غضب و غصے سے، اُس کی سزا سے، اُس کے بندوں کی برائی سے، شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں _,"*
*✪_(31)_ سونے کے وقت درود شریف کثرت سے پڑھئے:-*
*"_ درود شریف کثرت سے پڑھئے۔ توقع ہے کہ خدا تعالی نبی کریم علیم کی زیارت سے مشرف فرمائے۔ حضرت یزید فارسی رحمۃ اللہ قرآن پاک لکھا کرتے تھے۔ ایک بار آپ کو خواب میں نبی کریم ﷺ کا دیدار نصیب ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حیات تھے۔*
*"❀_ حضرت یزید نے ان سے ذکر کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اُن کو نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث سنائی کہ جس نے خواب میں مجھے (ﷺ) دیکھا اس نے واقعی مجھی کو دیکھا، اس لئے کہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا_"*
*"_ پھر پوچھا: تم نے خواب میں جس ذات کو دیکھا ہے، اس کا حلیہ بیان کر سکتے ہو۔*
*"❀_ حضرت یزید نے کہا: آپ ﷺ کا بدن اور آپ ﷺ کا قد و قامت انتہائی متوازن تھا۔ آپ ﷺ کا رنگ گندمی مائل بہ سفیدی تھا، آنکھیں سرمگیں ، ہنستا خوبصورت گول چہرہ، نہایت اُبھری ہوئی ڈاڑھی جو پورے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی، اور سینے پر پھیلی ہوئی تھی_,"*
*"❀_ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، اگر تم نبی کریم ﷺ کو زندگی میں دیکھتے تب بھی اس سے زیادہ حلیہ نہ بیان کر سکتے ( یعنی تم نے جو حلیہ بیان کیا وہ واقعی نبی کریم ﷺ کا ہی حلیہ ہے )*
*®_(شمائل ترمذی، باب ما جاء في روية رسول الله ﷺ في المنام)*
*📓 مدنی معاشرہ -200 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞_حقوق العباد اور ہمارا اسلامی معاشرہ_,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ وقف کے مالوں میں خیانت کرنا شخص واحد کا مال مارنے سے زیادہ سخت ہے:-*
*"❀_جو حضرات کسی مسجد یا کسی دوسری وقف شدہ جائداد کے متولی ہیں، یا کسی مدرسہ کے مہتمم ہیں، ان کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا سخت ضروری ہے۔ جب وقف کا مال قبضہ میں ہوتا ہے اور عام طور سے چندہ کی رقوم آتی رہتی ہیں۔ ان سب کو وقف کرنے والے کی شروط کے مطابق اور چندہ دینے والوں کی متعین کردہ مد کے مطابق ہی خرچ کرنالازم ہے۔*
*"❀_ بہت سے لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر اس بارے میں خوف آخرت سے بے نیاز ہو کر ایسی ایسی حرکتیں کر گزرتے ہیں جو ان کے لئے آخرت کا وبال اور عذاب بنتی چلی جاتی ہیں۔ آخرت کی جواب دہی کا یقین نہ ہو تو نفس اور شیطان خیانت کروا ہی دیتے ہیں۔*
*"❀_بہت سی جگہ اس کی بھی خلاف ورزی کی جاتی ہے کہ جن حضرات کو خوف خدا نہیں وقف کے بہت سے اموال اپنی اولا د یا دیگر افراد خاندان پر یا اپنی ذات پر بلا استحقاق شرعی خرچ کر جاتے ہیں۔ اس قسم کی خیانت اور مساجد و مدارس کے اموال کا غین کسی شخص واحد کا مال مارنے سے بھی زیادہ شدید ہے کیونکہ شخص واحد سے معافی مانگ لینا یا ادا کر دینا آسان ہے۔ لیکن عمومی چندہ یا عام مستحقین کی خیانت کرنے کے بعد تلافی کرنا دشوار ترین گھاٹی ہے۔ اگر اللہ توبہ کی توفیق دے دے تو اہل حقوق نا معلوم ہونے کی وجہ سے ان تک حقوق پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں پاسکتا۔*
*"❀_ محض یاد دہانی اور تذکیر کے طور پر یہ باتیں لکھ دی گئی ہیں۔ جو خیر خواہی پر مبنی ہیں اور اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ہے۔ جو حضرات مبتلا ہوں اپنا جائزہ لیں اور اپنا انجام سوچ کر اُس مال میں تصرف کریں جو اُن کا ذاتی نہیں ہے۔ دوسروں پر خرچ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو امین بنایا ہے۔*
*✪_(2)_ یتیم کا مال کھانا اپنے پیٹوں میں آگ بھرنا ہے:-*
*"_ سب کو معلوم ہے کہ یتیم کا مال کھانا اور اُصولِ شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ملک میں لے لینا یا اپنے اوپر یا اپنی اولاد کے اوپر خرچ کر دینا سخت گناہ ہے اور حرام ہے۔*
*"❀_ قرآن مجید میں ارشاد ہے:-*
*"_ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡيَتٰمٰى ظُلۡمًا اِنَّمَا يَاۡكُلُوۡنَ فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ نَارًا ؕ وَسَيَـصۡلَوۡنَ سَعِيۡرًا _," (سورة النساء آیت ١٠)*
*"❀_ ( ترجمہ)_ بے شک جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں بس یہی بات ہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے_,"*
*"❀_ جو لوگ یتیم خانوں کے نام سے ادارے لئے بیٹھے ہیں اور وہ یا اُن کے سفراء چندہ کرتے ہیں وہ لوگ اس آیت کے مضمون پر غور کر لیں اور اپنا حساب اسی دنیا میں کر لیں۔ شرعاً جتنا حق الخدمت لے سکتے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں لے رہے ہیں؟ خوب غور فرما لیں، اگر کوئی غبن کیا ہے تو اس کی تلافی یوم آخرت سے پہلے کر لیں۔*
*"❀_ اور بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یتیم کا مال کھانے کا گناہ انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو یتیم خانے چلا رہے ہیں۔ لیکن در حقیقت گھر گھر ییموں کا مال کھایا جاتا ہے۔ جب کسی شخص کی وفات ہو جاتی ہے اس کی نابالغ اولاد لڑ کے ہوں یا لڑکیاں سب یتیم ہو سب یتیم ہو تے ہیں۔ شرعی اصول کے مطابق میراث تقسیم نہیں کی جاتی یا چاچا یا بڑے بھائی کے قبضے میں مرنے والے کی رقوم اور جائداد جو کچھ ہوتی ہیں ان میں سے تھوڑا بہت بغیر حساب ان بچوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور بعض لوگ تو ان کے مستحقین پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتے اور پوری جائداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے نام یا اپنی اولاد کے نام کر دیتے ہیں۔*
*"❀_ جب یہ یتیم بچے بالغ ہوتے ہیں تو باپ کی میراث میں سے ان کو کچھ نہیں ملتا۔ یہ سب یتیم کا مال کھانے میں داخل ہے، اگر کسی نے بہت ہمت کی اور مرنے والے کی جائداد اور مال تقسیم ہی کر دیا تو اس میں مرنے والے کی بیوی اور بچیوں کو کچھ بھی نہیں دیتے۔ یہ سب بیوہ اور یتیم کا مال کھانے میں شامل ہے۔*
*✪_(3)_ بیوی بھی مرحوم شوہر کے مال کی حصہ دار ہے:-*
*"❀_ بہت سے دینداری کے مدعی مرنے والے بھائی کی جائداد سے اس کی بیوی کو حصہ نہیں دیتے بلکہ اسے مجبور کرتے ہیں کہ تو ہمارے ساتھ نکاح کرلے، وہ بے چاری مجبوراً نکاح کر لیتی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے شریعت کی پاسداری کرلی۔ حالانکہ نکاح کر لینے سے اس کے شوہر کی میراث سے جو شرعاً حصہ اس کو ملتا۔ اس کا دبا لینا پھر بھی حلال نہیں ہوتا۔*
*"❀_ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر عورت کو جائداد میں سے حصہ دے دیا گیا تو ہماری زمین کا حصہ دوسرے خاندان میں چلا جائے گا۔ اگر چلا ہی گیا تو کیا ہوا، بیوہ عورت کا مال مارنے اور آخرت کے عذاب سے تو بچ جائیں گے۔*
*✪_(4)_ بھائیوں کا بہنوں کو ورثہ کی رقم نہ دینا خدا سے بغاوت کرنا ہے:-*
*"❀_ ہمارے علاقوں میں رواج ہے کہ میت کے ترکہ میں سے اس کی لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے بلکہ بھائی ہی دہا بیٹھتے ہیں جو سراسر ظلم کرتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنا حق مانگتی نہیں ہیں اور معاف کرانے سے معاف بھی کر دیتی ہیں۔*
*"❀_ واضح رہے کہ حق نہ مانگنا دلیل اس بات کی نہیں کہ انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے اور جیسی جھوٹی معافی ہوتی ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ہم کو ملنا تو ہے ہی نہیں لہٰذا معاف ہی کر دیتی ہیں اور اپنا حق طلب کرنے سے خاموش رہتی ہیں۔*
*"❀_ اگر اُن کا حصہ بانٹ کر اُن کے سامنے رکھ دیا جائے کہ لو یہ تمہارا حصہ ہے اور جائداد کی آمدنی جتنی بھی اُن کے حصہ کی ہو ان کو دے دی جائے اور وہ اس کے باوجود معاف کر دیں تو معافی کا اعتبار ہوگا، مجبوری رسمی معافی کا اعتبار نہیں۔*
*"❀_ بعض لوگ نفس کو یوں سمجھا لیتے ہیں کہ زندگی بھر اُن کو اُن کی سسرال سے بلائیں گے، بچوں سمیت آئیں گی، کھائیں گی، پیئیں گی۔ اس سے ان کا حق ادا ہو جائے گا۔ یہ سب خود فریبی ہے۔ اول تو ان پر اتنا خرچ نہیں ہوتا، جتنا میراث میں ان کا حصہ نکلتا ہے، دوسرے صلہ رحمی کرنا ہے تو اپنے پیسے سے کرو۔ پیسہ اُن کا اور احسان آپ کا کہ ہم نے بہن کو بلایا ہے اور خرچ کیا ہے۔ یہ کیا صلہ رحمی ہوئی ؟ تیسرے ان سے معاملہ کرو کیا اس سودے پر وہ راضی ہیں؟ یکطرفہ فیصلہ کیسے فرما لیا ؟*
*✪_(5)_ مہر بیوی کا حق ہے جو رسماً معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا:-*
*"❀_ اسی طرح مہر کو بھی سمجھو کہ رسمی طور پر بیوی کے معاف کر دینے سے معاف نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کی خوشی سے معاف نہ کر دے۔ اگر اس نے یہ سمجھ کر زبانی طور پر معاف کر دیا کہ معاف کروں یا نہ کروں ملتا تو ہے ہی نہیں تو اس معافی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔*
*"❀_ قرآن شریف میں ارشاد ہے:-*
*"_ فَاِنۡ طِبۡنَ لَـكُمۡ عَنۡ شَىۡءٍ مِّنۡهُ نَفۡسًا فَكُلُوۡهُ هَنِيۡٓـئًـا مَّرِیۡٓـــٴًﺎ _,( نساء، آیت:۴)*
*"❀_(ترجمہ) سو، اگر تمہاری بیویاں نفس کی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو تم اس کو مرغوب اور خوشگوار سمجھتے ہوئے کھائو_,*
*"❀_اس بارے میں بھی یہی صورت کریں کہ اُن کا مہر اُن کے ہاتھ میں دے دیں، پھر وہ اپنی خوشی سے بخش دیں، اس کو بے تکلف قبول کرلیں۔*
*✪_(6)_شادی کی جانے والی لڑکی کے مہر پر ولی ( والد وغیرہ) کا قبضہ کر لینا بغیر رضامندی کے درست نہیں:-*
*"❀_ لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور ان کا مہر والد یا دوسرا کوئی ولی وصول کر لیتا ہے۔ وصول کر لینا اور اس کی ملکیت جانتے ہوئے محفوظ رکھنا یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن لڑکی سے پوچھے بغیر اس کے مال کو اپنے تصرف میں لانا اور اپنا ہی سمجھ لینا پھر اس کو کبھی بھی نہ دینا یا اوپر کے دل سے جھوٹی معافی کرالینا یہ حلال نہیں ہے۔*
*"❀_ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب شادی میں جو ہم نے خرچ کیا ہے اس کے عوض یہ رقم ہم نے وصول کر لی یا جہیز میں لگا دی۔ حالانکہ والد یا کوئی ولی رواجی اخراجات کرتا ہے، عموماً یہ سب کچھ نام کے لئے ہوتا ہے اور بہت سے کام شریعت کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔ گانا بجانا اور رنڈی کے ناچ رنگ ہوتے ہیں۔ جہیز بھی دکھاوے کے لئے دیا جاتا ہے, سب جانتے ہیں کہ خلاف شرع اور دکھاوے کے لئے تو اپنا مال خرچ کرنا بھی حرام ہے۔ پھر بے زبان لڑکی کا مال اس طرح خرچ کرنا کیسے حلال ہو سکتا ہے؟*
*"❀_ جو کچھ خرچ کریں شرع کے موافق خرچ کریں، اور وہ بھی اپنے مال سے نہ کہ لڑکی کے مہر سے ، اس کے مال سے خرچ کرنا بلا اس کی اجازت کے ظلم ہے۔ اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ شرعاً شادی میں کوئی خرچہ نہیں ہے۔ ایجاب و قبول سے نکاح ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد رخصت کر دو۔ سواری کا خرچ شوہر دے گا۔ جو اپنی بیوی کو لے جائے گا لڑکی یا اس کے ولی کے ذمہ کچھ بھی خرچہ نہیں آتا۔*
*"❀_۔ یوں کہنے والے بھی ملتے ہیں کہ ہم نے پیدائش سے لے کر آج تک خرچ کیا ہے وہ ہم نے وصول کر لیا۔ یہ بھی جاہلانہ جواب ہے، کیونکہ شرعاً آپ پر اس کی پرورش واجب تھی اس لئے آپ نے اپنا واجب ادا کیا جس کی ادائیگی اپنے مال سے واجب تھی اس کا عوض وصول کرنا خلاف شرع ہے بلکہ خلاف محبت ہے اور خلاف شفقت بھی۔ گویا آپ جو کچھ اس کی پرورش پر خرچ کرتے آئے ہیں وہ ایک سودے بازی ہے,*
*✪_(7)_ بغیر بلائے کسی کی دعوت میں پہنچ کر کھانا حلال نہیں:-*
*"❀_ بغیر بلائے کسی دعوت میں پہنچ کر کھانا حلال نہیں ہے۔ اگر مروت اور لحاظ کی وجہ سے کوئی منع نہ کرے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس خاموشی کو اجازت سمجھ لینا صریح غلطی ہے اور خود فریبی ہے۔ اگر کوئی شخص چار آدمی بلائے اور پانچواں بھی ساتھ چلا جائے اور صاحب خانہ لحاظ میں کچھ نہ کہے تو زائد آدمی کا کھا لینا حرام ہے۔*
*"✪_(8)_ مذاق میں کسی کی چیز لے کر سچ مچ رکھ لینا بھی ظلم ہے:-*
*"❀_ بعض لوگ مذاق میں کسی کی چیز لے کر چل دیتے ہیں اور پھر سچ مچ رکھ لیتے ہیں، حالانکہ جس کی ملکیت ہوتی ہے وہ خوشی سے اس کو دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ لہذا اس طرح لینا حرام ہے۔*
*✪_ (9)_ میت کی مالیت میں تر کہ تقسیم کئے جانے سے قبل کوئی تصرف نہ کیجئے:-*
*"❀_عموماً رواج ہے کہ کسی کے مر جانے پر اس کے مال سے فقراء اور مساکین کی دعوت کرتے ہیں اور اس کے کپڑے وغیرہ خیرات کی نیت سے دے دیتے ہیں۔ حالانکہ ترکہ تقسیم کئے بغیر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔*
*"❀_ کیونکہ اول تو سب وارث بالغ نہیں ہوتے اور جو بالغ ہوں ان سب کا موجود ہونا ضروری نہیں ان میں بہت سے سفر میں یا ملازمتوں پر پردیس میں ہوتے ہیں۔ مشترک مال میں سب کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا درست نہیں ہے اور رسمی طور سے رواجی اجازت کا اعتبار نہیں ہے۔*
*"❀_ مال تقسیم کر کے ہر ایک وارث کا حصہ اس کے حوالے کر دو۔ پھر وہ اپنی خوشی سے جو چاہے ایصال ثواب کے لئے شریعت کے مطابق بلا ریا کاری کے خرچ کر دے اور یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ نابالغ کی اجازت شرعاً معتبر نہیں ہے اگر چہ وہ اپنے نفس کی خوشی سے اجازت دے دے۔*
*✪_(10)_ مقروض مورث کا قرض ادا کئے بغیر مال پر قبضہ کرنا مرنے والے پر ظلم کرنا ہے:-*
*"❀_ بہت سے وارثین مرنے والے کے قرضے ادا نہیں کرتے خود ہی سب دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ مرنے والے پر ظلم ہے کہ وہ بے چارہ قرضوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں پکڑا جائے گا اور اپنے اوپر بھی ظلم ہے کہ غیر کے مال پر قابض ہو گئے۔ شریعت کا قانون یہ ہے کہ ترکہ سے اولاً کفن دفن کے اخراجات کئے جائیں، پھر اس کے قرضے ادا کئے جائیں پھر باقی مال میں سے ١/٣ کے اندر اس کی وصیت نافذ کی جائے,*
*"❀_ (اگر اس نے وصیت کی ہو ) اور ۲/۳ مال وارثوں کو شریعت کی تقسیم کے مطابق دے دیا جائے۔ اگر قرض ترکہ سے زیادہ یا ترکہ کے برابر ہو تو کسی وارث کو کچھ بھی نہ ملے گا۔ یہ شریعت کا اُصول ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر قرضے ادا کر بھی دیئے تو مرنے والے کی وصیت نافذ نہیں کرتے۔ مرنے والے کو اختیار ہے کہ قرضوں سے جو مال بچے اس کے ۱/٫۳ میں وصیت کر سکتا ہے، جب مرنے والا وصیت کر دے تو وارثوں پر اس کی وصیت نافذ کرنا واجب ہے۔ اس کی وصیت کے بعد جو مال بچے اس کو آپس میں تقسیم کریں۔*
*"❀_ البتہ ۱/۳ سے زائد میں وصیت نافذ کرنا واجب نہیں ہے۔ اور جو وصیت خلاف شرع ہو اس کا نافذ کرنا جائز نہیں ہے۔*
*✪_(11)_بہت سے لوگ مرید ہو کر بھی غافل ہیں:-*
*"❀_مرید ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ عموماً لوگ اس ضرورت ہی سے ناواقف ہیں۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی رواجی طور پر مرید ہو جاتے ہیں، اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن پیر صاحب ہماری سفارش کر دیں گے۔ اس سے زیادہ کسی چیز کا تصور پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں عموماً نہیں پایا جاتا۔ بھلا بے عمل خلاف شرع پیر کیا سفارش کر سکتے ہیں؟*
*"❀_مرید ہوتے وقت جو کسی شیخ کے ہاتھ پر تو بہ کرتے ہیں اس تو بہ کے لوازم کا پورا کرنا لازم ہے ( حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی جائے) اگر مرید ہوئے اور فرائض کا اہتمام نہ کیا ، گناہوں سے نہ بچے اور حلال و حرام کی تمیز نہ کی ۔ حرام مال کماتے رہے، یا حرام جگہ خرچ کرتے رہے، یا لوگوں کے حقوق دباتے رہے۔ یا مال مارتے رہے تو ایسی مریدی والی تو بہ سچی نہیں ہے۔*
*"❀_ شیخ کے ہاتھ پر توبہ کر لینے کے بعد حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ نہ ہونے کا باعث یہ بھی ہے کہ عموماً بہت سے پیر جو آباء واجداد کی گدیاں سنبھالے بیٹھے ہیں، خود ہی فکر آخرت سے خالی ہیں، خالص دنیا دار ہیں۔ مال جمع کرنے کو مقصد زندگی بنارکھا ہے۔ پیری مریدی بھی ایک دھندہ ہے جو کسب مال کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے لوگوں کی صحبت سے فکر آخرت کے بجائے حب دنیا میں اضافہ ہوتا ہے۔*
*"❀_ مرید ہونے کا ارادہ کریں تو اول لازم ہے کہ ایسا مرشد تلاش کریں جو شریعت کا پابند ہو اور آخرت کا فکر مند ہو۔ دنیا دار نہ ہو، دنیا سے محبت نہ رکھتا ہو، گنا ہوں سے بچتا ہو اور اس کے پاس بیٹھنے سے آخرت کی فکر بڑھتی ہو اور گناہ چھوٹتے ہوں، نیکیوں کی رغبت ہوتی ہو۔ حرام سے بچنے کی طرف اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف طبیعت چلتی ہو اور فرائض و شرعی احکام کی طرف رغبت ہوتی ہو۔*
*"❀_ اگر کوئی شخص مرید کرتا ہو لیکن فرائض و حقوق کا خیال نہ رکھتا ہو۔ اس کی زندگی گناہوں والی ہو تو اس قابل نہیں ہے کہ اس سے مرید ہوں۔ اس شخص سے دور بھاگنا واجب ہے۔*
*📓 مدنی معاشرہ -212,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞_ کبیرہ اور صغیرہ گناہ _,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟*
*"❀_۔علامہ قرطبی رحمۃ اللہ نے اپنی تفسیر (صفحہ ۱۵۹، جلد ۳) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر دوزخ کے داخلے کی یا اللہ کے غصے کی یا لعنت کی یا عذاب کی وعید آئی ہو،*
*"❀_ نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ سات سو (۷۰۰) کے قریب ہیں۔ ساتھ ہی اُن کا یہ مقولہ بھی نقل کیا ہے کہ لا كَبِيرَةً مَّعَ اسْتِغْفَارِ وَلَا صَغِيرَةً مَّعَ إِصْرَارِ یعنی جب استغفار ہوتا رہے تو کبیرہ کبیرہ نہیں رہتا بلکہ وہ محو ہو جاتا ہے (بشرطیکہ استغفار سچے دل سے ہو، زبانی جمع خرچ نہ ہو) اور صغیرہ پر اصرار رہے تو پھر وہ صغیرہ نہیں رہتا، بلکہ بڑھ کر کبیرہ بن جاتا ہے۔*
*"❀_حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ستر (۷۰) گناہ لکھے ہیں اور ان کے بارے میں جو وعیدیں ہیں وہ بھی درج کی ہیں۔ اجمالی طور پر ہم حافظ ذہبی رحمۃ اللہ کی کتاب سے کبیرہ گناہوں کی فہرست لکھتے ہیں:-*
*"❀_(1)_ شرک اور شرک کے علاوہ وہ عقائد و اعمال جن سے کفر لازم آتا ہے (کفرو شرک کی کبھی مغفرت نہ ہوگی)،*
*"❀_(2)_ کسی جان کو عمدا قتل کرنا۔*
*"❀_(3)_جادو کرنا۔*
*"❀_(4)_فرض نماز کو چھوڑنا یا وقت سے پہلے پڑھنا۔*
*"❀_(5)_ زکوٰۃ نہ دینا۔*
*"❀_(6)_ بلا رخصت شرعی رمضان مبارک کا کوئی روزہ چھوڑنا یا رمضان مبارک کا روزہ رکھ کر بلا عذر توڑ دینا۔*
*"❀_(7)_ حج فرض ہوتے ہوئے حج کئے بغیر مر جانا۔*
*"❀_(8)_والدین کو تکلیف دینا اور ان اُمور میں ان کی نافرمانی کرنا جس میں فرمانبرداری واجب ہے۔*
*"❀_(9)_ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا۔*
*"❀_(10)_زنا کرنا۔*
*"❀_(11)_ غیر فطری طریقے پر عورت سے جماع کرنا یا کسی مرد یا لڑ کے سے اغلام کرنا۔*
*"❀_(12)_سود کا لین دین کرنا یا سود کا کاتب یا شاہد بننا۔*
*"❀_(13)_ ظلم سے یتیم کا مال کھانا۔*
*"❀_(14)_ اللہ پر یا اس کے رسول صلی علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا۔*
*"❀_(15)_ میدان جہاد سے بھاگنا۔*
*"❀_(16)_ جو اقتدار اعلیٰ پر ہو اس کا رعیت کو دھوکہ دینا اور خیانت کرنا۔*
*"❀_(17)_ تکبر کرنا۔*
*"❀_(18)_ جھوٹی گواہی دینا یا کسی کاحق مارا جارہا ہو تو جانتے ہوئے گواہی نہ دینا۔*
*"❀_(19)_ شراب پینا یا کوئی نشہ والی چیز کھانا پینا۔*
*"❀_(20)_جوا کھیلنا۔*
*"❀_(21)_کسی پاکدامن عورت کو تہمت لگانا ۔*
*"❀_(22)_مال غنیمت میں خیانت کرنا۔*
*"❀_(23)_چوری کرنا۔*
*"❀_(24)_ڈاکہ مارتا۔*
*"❀_(25)_جھوٹی قسم کھانا۔*
*"❀_ (26)_ کسی بھی طرح سے ظلم کرنا ( مار پیٹ کر ہو یا ظلما مال لینے سے ہو یا گالی م گلوچ کرنے سے ہو )*
*"❀_(27)_ٹیکس وصول کرنا۔*
*"❀_(28)_حرام مال کھانا یا پینا یا پہنا یا خرچ کرنا۔*
*"❀_(29)_ خود کشی کرنا یا اپنا کوئی عضو کاٹ لینا۔*
*"❀_(30)_جھوٹ بولنا۔*
*"❀_(31)_رشوت لینا۔*
*"❀_(32)_ عورتوں کا مردوں کی یا مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا (جس میں ڈاڑھی مونڈ نا بھی شامل ہے)۔*
*"❀_(33)_اپنے اہل وعیال میں فحش کام یا بے حیائی ہوتے ہوئے دور کرنے کی فکر نہ کرنا،*
*"❀_( 34)_ تین طلاق دی ہوئی عورت کے پرانے شوہر کا حلالہ کروانا اور اس کے لئے حلالہ کر کے دینا، اس کو دماغی چالا کی کہا جاتا ہے، اس سے احتیاط فرمائیے۔*
*"❀_(35)_بدن یا کپٹروں میں پیشاب لگنے سے پرہیز نہ کرنا۔*
*✪_(36)_ دکھاوے کے لئے اعمال کرنا۔*
*"❀_(37)_ کسب دنیا کے لئے علم دین حاصل کرنا اور علم دین کو چھپانا۔*
*"❀_(38)_ خیانت کرنا۔*
*"❀_(39)_ کسی کے ساتھ سلوک کر کے احسان جتانا,*
*"❀_(40)_ تقدیر کو جھٹلانا۔*
*"❀_(41)_لوگوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ لگانا، تجس کرنا اور کن سوئی لینا۔*
*"❀_(42)_ چغلی کرنا۔*
*"❀_(43)_لعنت بکنا ۔*
*"❀_(44)_دھوکہ دینا اور جو عہد کیا ہو اس کو پورا نہ کرنا۔*
*"❀_(45)_کا ہن اور منجم (غیب کی خبریں بتانے والے) کی تصدیق کرنا۔*
*"❀_(46)_شوہر کی نافرمانی کرنا۔*
*"❀_(47)_تصویر بنانا یا گھر میں لٹکانا ۔*
*"❀_(48)_ کسی کی موت پر نوحہ کرنا منھ پیٹنا، سر منڈانا، ہلاکت کی دعا کرنا۔*
*"❀_(49)_سرکشی کرنا اللہ کا باغی ہونا، مسلمانوں کو تکلیف دینا۔*
*"❀_(50)_ قانون شرعی کے خلاف فیصلہ کرنا_,*
*✪_(51)_ مخلوق پر دست درازی کرنا۔*
*"❀_(52)_پڑوسی کو تکلیف دینا۔*
*"❀_(53)_مسلمانوں کو تکلیف دینا اور اُن کو برا کہنا۔*
*"❀_(54)_خاص کر اللہ کے نیک بندوں کو تکلیف دینا۔*
*"❀_(55)_ٹخنوں پر یا اس سے نیچے کوئی کپڑا پہنا ہو لٹکانا۔*
*"❀_(56)_مردوں کو ریشم اور سونا پہننا ۔*
*"❀_(57)_۔ غلام کا آقا سے بھاگ جانا۔*
*"❀_(58)_غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا۔*
*"❀_(59)_ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو باپ بنا لینا۔ یعنی یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں میرا باپ ہے حالانکہ وہ اس کا باپ نہیں۔*
*"❀_(60)_ فساد کے طور پر لڑائی جھگڑا کرنا ۔*
*"❀_(61)_ (بوقت حاجت ) بچا ہوا پانی دوسروں کو نہ دینا۔*
*"❀_(62)_ناپ تول میں کمی کرنا۔*
*"❀_(63)_اللہ کی گرفت سے بے خوف ہو جانا۔*
*"❀_(64)_اولیاء اللہ کو تکلیف دینا۔*
*"❀_(65) نماز با جماعت کا اہتمام نہ کرنا۔*
*"❀_(66)_بغیر عذر شرعی نماز جمعہ چھوڑنا۔*
*"❀_(67)_ایسی وصیت کرنا جس سے کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود ہو ،*
*"❀_(68)_ مکر کرنا اور دھوکہ دیتا۔*
*"❀_(69)_ مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی ٹوہ لگانا اور ان کی پوشیدہ چیزوں پر دلالت کرتا۔*
*"❀_(70)_کسی صحابی کو گالی دینا۔*
*✪_صغائر و کبائر کے بیان میں علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی صاحب بحر الرائق نے مزید کبیرہ گناہوں کی فہرست دی ہے، جو حافظ ذہبی کی فہرست سے زیادہ ہے۔ مثلاً :-*
*"❀_(71)_کسی ظالم کا مددگار بننا۔ قدرت ہوتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنا۔*
*"❀_(72)_جادو سیکھنا اور سکھانا یا اس پر عمل کرنا۔*
*"❀_(73)_ قرآن کو بھول جانا۔*
*"❀_(74)_کسی حیوان (جاندار ) کو زندہ جلانا۔*
*"❀_(75)_ اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہو جاتا۔*
*"❀_(76)_مردار یا خنزیر بغیر اضطرار کے کھانا۔*
*"❀_(77)_ صغیرہ گناہ پر اصرار کرنا۔*
*"❀_(78)_ گناہوں پر مدد کرنا اور ان پر آمادہ کرنا۔*
*"❀_(79)_ گانے کا پیشہ اختیار کرنا۔*
*"❀_(80)_لوگوں کے سامنے ننگا ہونا۔*
*"❀_(81)_ناچنا۔*
*"❀_(82)_دنیا سے محبت کرنا۔*
*"❀_(83)_ حاملین قرآن اور علماء کرام کے حق میں بدگوئی کرنا۔*
*❀"_(84)_اپنے امیر کے ساتھ غدر ( بغاوت) کرنا۔*
*❀"_(85)_ کسی کے نسب میں طعن کرنا۔,*
*✪_(86)_گمراہی کی طرف دعوت دینا۔*
*"❀_(87)_اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا۔*
*"❀_(88)_ اپنے غلام کو خصی کرنا یا اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو کاٹ دینا۔*
*"❀_(89)_کسی محسن کی ناشکری کرنا۔*
*"❀_(90)_حرم میں الحاد کرنا۔ ( دین حق سے پھر جانا),*
*"❀_(91) نرد (ایک کھیل ہے جسے تختہ نرد بھی کہتے ہیں ) کھیلنا۔ اور وہ کھیل کھیلنا جس کی حرمت پر اُمت کا اجماع ہے۔*
*"❀_(92)_بھنگ پینا (ہیروئن اسی کے حکم میں ہے)۔*
*"❀_(93)_کسی مسلمان کو کافر کہنا۔*
*"❀_(94)_بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنا۔*
*"❀_(95)_مشت زنی کرنا۔*
*"❀_(96)_حالت حیض میں جماع کرنا۔*
*"❀_(97)_ مسلمانوں کے ملک میں مہنگائی ہو جائے تو خوش ہونا۔*
*"❀_(98)_جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا۔*
*"❀_(99)_ عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔*
*❀_(100) _ کھانے کو عیب لگانا۔*
*"❀_(101)_ بے ریش حسین لڑکے کی طرف دیکھنا۔*
*"❀_(102)_ کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالنا اور بلا اجازت اندر چلے جانا۔*
*📓 مدنی معاشرہ -223 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✪__ صغیره گناه:-*
*"❀_(1)_جہاں نظر ڈالنا حرام ہو وہاں دیکھنا۔*
*"❀_(2)_بیوی کے سوا کسی کا شہوت سے بوسہ لینا یا بیوی کے سوا کسی کو شہوت سے چھونا۔*
*"❀_(3)_اجنبیہ کے ساتھ خلوت میں رہنا۔*
*"❀_(4)_سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا,*
*"❀_(5)_ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا یعنی سلام کلام بند رکھنا۔*
*"❀_(6)_ کسی نمازی کا نماز پڑھتے ہوئے اپنے اختیار سے ہنسنا۔*
*"❀_(7)_کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔*
*"❀_(8)_مصیبت پر نوحہ کرنا اور منھ پیٹنا (یا گریبان پھاڑنا اور جاہلیت کی دہائی دینا)*
*"❀_(9)_مرد کو ریشم کا کپڑا پہننا ۔*
*"❀_(10)_تکبر کی چال چلنا۔*
*"❀_(11)_فاسق کے ساتھ بیٹھنا۔*
*"❀_(12)_ مکروہ وقت میں نماز پڑھنا۔*
*"❀_(13)_ مسجد میں نجاست داخل کرنا یا دیوانے کو یا بچے کو مسجد میں لے جانا ، جس کے جسم یا کپڑے پر نجاست ہونے کا غالب گمان ہو۔*
*"❀_(14)_پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پشت کرنا۔*
*❀"_(15)_ تنہائی میں بطور عبث شرمگاہ کو کھولنا۔*
*✪_(16)_ لگا تار نفلی روزے رکھنا جس میں بیچ میں افطار نہ ہو۔*
*"❀_(17)_جس عورت سے ظہار کیا ہو کفارہ دینے سے پہلے اس سے وطی کرنا۔*
*"❀_(18)_ کسی عورت کا بغیر شوہر اور محرم کے سفر کرنا۔*
*"❀_( 19 )_کسی دوسرے خریدار سے زیادہ قیمت دلوانے کے لئے مال کے دام زیادہ لگا دینا جبکہ خود خریداری کا ارادہ نہ ہو۔*
*"❀_(20)_ضرورت کے وقت مہنگائی کے انتظار میں غلہ روکنا۔*
*"❀_(21)_ کسی مسلمان بھائی کی بیع پر پیع کرنا یا کسی کی منگنی پرمنگنی کرنا۔*
*"❀_(22)_ باہر سے مال لانے والوں سے شہر سے باہر ہی سودا کر لینا ( تا کہ سارا مال اپنا ہو جائے اور پھر دام چڑھا کر بچیں)۔*
*"❀_(23)_جولوگ دیہات سے مال لائیں اُن کا مال اپنے قبضہ میں کر کے مہنگا بیچنا۔*
*"❀_(24)_اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء (خرید و فروخت) کرنا۔*
*"❀_(25)_مال کا عیب چھپا کر بیچنا۔*
*"❀_(26)_شکار یا مویشیوں کی حفاظت کی ضرورت کے بغیر کتا پالنا۔*
*"❀_(27)_ مسجد میں حاضرین کی گردنوں کو پھاند کر جانا۔*
*"❀_(28)_ زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہو جانے کے بعد ادا ئیگی میں تاخیر کرنا۔*
*"❀_(29)_ راستے میں بیع و شراء ( خرید و فروخت) یا کسی ضرورت کے لئے کھڑا ہونا جس سے راہ گیروں کو تکلیف ہو، یا راستے میں پیشاب پاخانہ کرنا ( سائے اور دھوپ میں جہاں لوگ اُٹھتے بیٹھتے ہوں اور پانی کے گھاٹ پر پیشاب پاخانہ کرنا بھی اسی ممانعت میں داخل ہے)*
*"❀_(30)_ بحالت جنابت اذان دینا یا مسجد میں داخل ہونا یا مسجد میں بیٹھنا۔*
*✪_(31) _ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا اور کپڑے وغیرہ سے کھیلنا۔*
*"❀_(32)_ نماز میں گردن موڑ کر دائیں بائیں دیکھنا۔*
*"❀_(33)_ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا۔ اور ایسے کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔*
*"❀_(34)_ روزے دار کو بوس و کنار کرنا۔ اگر اپنے نفس پر اطمینان نہ ہو۔*
*"❀_(35)_ گھٹیا مال سے زکوٰۃ دینا۔*
*"❀_(36)_ ذبح کرنے میں اخیر تک (پوری گردن ) کاٹ دینا۔*
*"❀_(37)_ بالغ عورت کا اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لینا۔*
*"❀_(38)_ ایک سے زیادہ طلاق دینا۔*
*"❀_(39)_ زمانہ حیض میں طلاق دینا۔*
*"❀_(40)_ جس طہر میں جماع کیا ہو اس میں طلاق دینا۔*
*"❀_(41)_ اولاد کو لینے دینے میں کسی ایک کو ترجیح دینا۔ الا یہ ک علم یا اصلاح کی وجہ سے کسی کو ترجیح دے۔*
*"❀_(42)_ قاضی کو مدعی اور مدعی علیہ کے درمیان برابری نہ کرنا۔*
*"❀_(43)_ جس کے مال میں غالب حرام ہو ہدیہ قبول کرنا اور اس کا کھانا کھانا اور اس کی دعوت قبول کرنا۔*
*"❀_(44)_ کسی کی زمین میں بغیر اجازت کے چلنا۔*
*"❀_(45)_ انسان یا کسی حیوان کا مثلہ کرنا ( یعنی ہاتھ، پاؤں، ناک، کان کاٹ دینا )*
*✪_(46)_ نماز پڑھتے ہوئے تصویر پر سجدہ کرنا یا ایسی صورت میں نماز پڑھنا کہ نمازی کے مقابل تصویر ہو۔*
*"❀_(47)_ مزاح یا مدح میں افراط کرنا۔*
*"❀_(48)_بچہ کو وہ لباس پہنانا جو بالغ کے لئے جائز نہ ہو۔*
*"❀_(49)_ پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھاتے رہنا۔*
*"❀_(50)_ مسلمان سے بدگمانی کرنا۔*
*"❀_(51)_لہو و لعب کی چیزیں سننا۔*
*"❀_(52)_ غیبت سن کر خاموش رہ جانا ( غیبت کرنے والے کو منع نہ کرنا اور تر دید نہ کرنا )*
*"❀_(53)_ زبردستی امام بننا ( جبکہ مقتدیوں کو اس کی امامت گوارا نہ ہو اور اس کی ذات میں دینی اعتبار سے کوئی قصور ہو )۔*
*"❀_(54)_ خطبے کے وقت باتیں کرنا۔*
*"❀_(55)_مسجد کی چھت پر یا مسجد کے راستے میں نجاست ڈالنا۔*
*"❀_(56)_ دل میں یہ نیت رکھتے ہوئے کسی سے کوئی وعدہ کر لینا کہ پورا نہیں کروں گا۔*
*"❀_(57)_کافر کو سلام کرنا۔*
*"❀_(58)_ غصہ کرنا (ہاں اگر دینی ضرورت سے ہو تو جائز ہے)۔*
*"❀_عام طور سے جن کبیرہ و صغیرہ گناہوں میں لوگ مبتلا ہیں وہ ہم نے ذکر کر دیا ہے، اگر دیگر احادیث شریفہ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے اور گناہ بھی سامنے آجا ئیں گے۔ (اصلاحی بیان صفحہ ۹-۱۰۰)*
*📓 مدنی معاشرہ -227 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞_ اسلام میں سلام کی اہمیت_,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_ مسلمان بھائی سے ملاقات ہونے پر السلام علیکم کہئے:-*
*"❀_جب کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو اس سے اپنے تعلق اور مسرت کا اظہار کرنے کے لئے "السلام علیکم" کہئے،*
*"❀_ قرآن پاک کی سورۃ الانعام، آیت ۵۴ میں ہے:- "_وَاِذَا جَآءَكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلۡ سَلَمٌ عَلَيۡكُمۡ _, (سورة الانعام، آیت:۵۴)*
*"❀_اے نبی ! جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہئے "السلام علیکم",*
*"❀_ اس آیت میں نبی کریم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے بالواسطہ اُمت کو یہ اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمان جب بھی مسلمان سے ملے تو دونوں ہی جذبات محبت و مسرت کا تبادلہ کریں اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے سلامتی اور عافیت کی دُعا کریں۔*
*"_ ایک "السلام علیکم" کہے تو دوسرا جواب میں "وعلیکم السلام" کہے۔سلام با ہمی الفت و محبت بڑھانے اور استوار کرنے کا ذریعہ ہے۔*
*"❀_نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تم لوگ جنت میں نہیں جا سکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مؤمن نہیں بن سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ بتا دوں جس کو اختیار کر کے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ آپس میں سلام کو پھیلاؤ_,*
*®_ ( ابوداؤد، کتاب الادب، ابواب السلام ، باب انشاء السلام -۵۱۹۳)*
*✪_(2)_ہمیشہ اسلامی طریقہ پر سلام کیجئے:-*
*"❀_ ہمیشہ اسلامی طریقہ پر سلام کیجئے۔ کسی سے ہم کلام ہوں یا مکاتبت کریں، ہمیشہ کتاب وسنت کے بتائے ہوئے یہ الفاظ ہی استعمال کیجئے۔ اس اسلامی طریقے کو چھوڑ کر سوسائٹی کے رائج کئے ہوئے الفاظ و انداز اختیار نہ کیجئے۔*
*"❀_ اسلام کا بتایا ہوا یہ انداز خطاب نہایت سادہ، با معنی اور پر اثر بھی ہے اور سلامتی و عافیت کی جامع ترین دُعا بھی ،*
*"❀_آپ جب اپنے کسی بھائی سے ملتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تم کو ہر قسم کی سلامتی اور عافیت سے نوازے۔ خدا تمہارے جان و مال کو سلامت رکھے۔ گھر بار کو سلامت رکھے، اہل وعیال اور متعلقین کو سلامت رکھے۔ دین و ایمان کو سلامت رکھے، دنیا بھی سلامت رہے اور آخرت بھی، خدا تمہیں ان سلامتیوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں ہیں، اور اُن سلامتیوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں نہیں ہیں۔ میرے دل میں تمہارے لئے خیر خواہی، محبت و خلوص اور سلامتی وعافیت کے انتہائی گہرے جذبات ہیں۔ اس لئے تم میری طرف سے کبھی کوئی اندیشہ محسوس نہ کرنا، میرے طرز عمل سے تمہیں کوئی دُکھ نہ پہنچے گا۔*
*"❀_ سلام کے لفظ پر الف لام داخل کر کے السلام علیکم کہہ کر آپ مخاطب کے لئے سلامتی اور عافیت کی ساری دُعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔*
*"❀_ آپ اندازہ کیجئے کہ اگر یہ الفاظ شعور کے ساتھ سوچ سمجھ کر آپ اپنی زبان سے نکالیں تو مخاطب کی ملاقات پر قلبی مسرت کا اظہار کرنے اور خلوص و محبت، خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے بہتر الفاظ کیا ہو سکتے ہیں۔*.
*"❀_ نبی کریم صلی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "السلام" خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کو خدا نے زمین میں (زمین والوں کے لئے) رکھ دیا ہے۔ پس " السلام" کو آپس میں خوب پھیلاؤ " (الادب المفرد باب السلام اسم من اسماء الله عز وجل - ۹۸۹)*
*✪_(3)_ ہر مسلمان کو سلام کیجئے چاہے پہلے سے تعارف ہو یا نہ ہو:-*
*"❀_ ہر مسلمان کو سلام کیجئے چاہے اس سے پہلے سے تعارف اور تعلقات ہوں یا نہ ہوں ۔ ربط اور تعارف کے لئے اتنی بات بالکل کافی ہے کہ وہ آپ کا مسلمان بھائی ہے اور مسلمان کے لئے مسلمان کے دل میں محبت و خلوص اور خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات ہونا ہی چاہئیں۔*
*"❀_ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”غریبوں کو کھانا کھلانا، اور ہر مسلمان کو سلام کرنا ، چاہے تمہاری اُس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔_“*
*®_(بخاری ، کتاب الاستیذان باب السلام للمعرفة وغير المعرفة - ٦٢٣٦ و مسلم)*
*✪_(4)_ گھر میں داخل ہونے پر گھر والوں کو سلام کیجئے:-*
*"❀_ جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کو سلام کیجئے ۔ قرآن میں ہے: فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلَّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُبَارَكَةً طيبة ( النور : ٦١ )*
*"❀_(ترجمہ)_ پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو۔ دُعائے خیر خدا کی طرف سے تعلیم کی ہوئی بڑی ہی بابرکت اور پاکیزہ ہے_"*
*"❀_ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے تاکید فرمائی کہ پیارے بیٹے ! جب تم اپنے گھر میں داخل ہوا کرو تو پہلے گھر والوں کو سلام کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے خیر و برکت کی بات ہے_,"*
*®_(ترمذی، ابواب الاستيذان باب ما جاء فى التسليم اذا دخل بيته - ٢٦٩٨)*
*"❀_ اسی طرح جب آپ کسی دوسرے کے گھر جائیں تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کیجئے ۔ سلام کئے بغیر گھر کے اندر نہ جائیے۔*
*"❀_يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَانِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا_, ( النور : ٣٧)*
*"❀_(ترجمہ) اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو۔ اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔*
*"❀_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے معزز مہمانوں کی حیثیت سے پہنچے تو اُنہوں نے آکر سلام کیا اور ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں اُن کو سلام کیا۔*
*✪_(5)_چھوٹے بچوں کو بھی سلام کیجئے:-*
*"❀_ چھوٹے بچوں کو بھی سلام کیجئے۔ یہ بچوں کو سلام سکھانے کا بہترین طریقہ بھی ہے اور نبی کریم ﷺ کی سنت بھی۔*
*"❀_ حضرت انس رضی اللہ عنہ بچوں کے پاس سے گزرے تو اُن کو سلام کیا اور فرمایا: نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے_,"*
*®_ (بخاری، کتاب الاستیذان باب التسليم على الصبيان - ٦٢٤٧ و مسلم)"*
*"❀_اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے_,"*
*®_( الادب المفرد، باب السلام على الصبيان - ١٠٤٤ )*
*✪_(6)_ خواتین مردوں کو سلام کر سکتی ہیں اور مرد بھی خواتین کو سلام کر سکتے ہیں:-*
*"❀_خواتین ، مردوں کو سلام کر سکتی ہیں اور مرد بھی خواتین کو سلام کر سکتے ہیں۔ حضرت اسماء انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ نبی کریم ﷺ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے ہم لوگوں کو سلام کیا۔ (الادب المفرد، باب التسليم على النساء - ١٠٤٧)*
*"❀_ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ ﷺ اس وقت غسل فرما رہے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کون ہو؟ میں نے کہا، اُم ہانی ہوں۔ فرمایا: خوب! خوش آمدید_, (ترمذی، ابواب الاستیذان، باب ماجاء في مرحبا - ٢٧٣٤)*
*✪_(7)_سلام کرنے میں کبھی بخل نہ کیجئے:-*
*"❀_ زیادہ سے زیادہ سلام کرنے کی عادت ڈالیے اور سلام کرنے میں کبھی بخل نہ کیجئے۔ آپس میں زیادہ سے زیادہ سلام کیا کیجئے ۔ سلام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور خدا ہر دُکھ اور نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں تمہیں ایسی تدبیر بتاتا ہوں جس کو اختیار کرنے سے تمہارے مابین دوستی اور محبت بڑھ جائے گی، آپس میں کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو_, (ترمذی، کتاب الاستيذان - ٢٦٨٨)*
*"❀_ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ بہت زیادہ سلام کیا کرتے تھے۔ سلام کی کثرت کا حال یہ تھا کہ اگر کسی وقت آپ ﷺ کے ساتھی کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور پھر سامنے آتے تو پھر سلام کرتے اور آپ کا ارشاد ہے:-*
*”❀_ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اُس کو سلام کرے۔ اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور وہ پھر اُس کے سامنے آئے تو اُس کو پھر سلام کرئیے_, (الادب المفرد باب حق من سلم اذا قام - ۱۰۱۰)*
*"❀_ حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کے ہمراہ بازار جایا کرتا۔ پس جب ہم دونوں بازار جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جس کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے چاہے وہ کوئی کباڑیا ہوتا، چاہے کوئی دکاندار ہوتا، چاہے کوئی غریب اور مسکین ہوتا۔ غرض کوئی بھی ہوتا آپ اُس کو سلام ضرور کرتے ۔*
*"❀_ایک دن میں آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے کہا چلو بازار چلیں۔ میں نے کہا، حضرت بازار جا کے کیا کیجئے گا، آپ نہ تو کسی سودے کی خریداری کے لئے کھڑے ہوتے ہیں نہ کسی مال کے بارے میں معلومات کرتے ہیں۔ نہ مول بھاؤ کرتے ہیں، نہ بازار کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں۔ آئیے یہیں بیٹھ کر کچھ بات چیت کریں۔ حضرت نے فرمایا: اے ابو بطن! ( توند والے) ہم تو صرف سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں کہ ہمیں جو ملے ہم اُسے سلام کریں۔“*
*®_(الادب المفرد، باب من خرج يسلم ويسلم عليه - ١٠٠٦ ، مؤطا امام مالك )*
*✪_ (8)_مسلمان کو سلام کرنا اُس کا حق تصور کیجئے:-*
*"❀_ سلام اپنے مسلمان بھائی کا حق تصور کیجئے اور اس حق کو ادا کرنے میں فراخدلی کا ثبوت دیجئے ۔ سلام کرنے میں کبھی بخل نہ کیجئے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو سلام کرے“ (مسلم، کتاب السلام - ٥٦٥٠)*
*"❀_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے _" (الادب المفرد، باب من بخل بالسلام - ١٠٤٢)*
*✪__(9)_سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کیجئے:-*
*"❀_ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کیجئے اور اگر کبھی خدانخواستہ کسی سے ان بن ہو جائے تب بھی سلام کرنے اور صلح صفائی کرنے میں پہل کیجئے ۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:-"_ وہ آدمی خدا سے زیادہ قریب ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے_" (ابودائود، كتاب الادب باب في فضل من بدأ بالسلام - ٥١٩٧)*
*"❀_ اور آپ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تک قطع تعلق کئے رہے کہ جب دونوں ملیں تو ایک ادھر کترا جائے اور دوسرا اُدھر۔ اُن میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرے_“*
*®_(الادب المفرد، باب من بدأ بالسلام - ٩٨٥)*
*"❀_ نبی کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو اُن دونوں میں سے کون پہلے سلام کرے۔ فرمایا: ”جو ان دونوں میں خدا کے نزدیک زیادہ بہتر ہو_,"*
*®_( ترندی، کتاب الاستیذان - ۲۷۹۴)*
*✪_(10)_ ہمیشہ زبان سے السلام علیکم اونچی آواز سے کہہ کر سلام کیجئے:-*
*"❀_ ہمیشہ زبان سے السلام علیکم کہہ کر سلام کیجئے اور ذرا اونچی آواز سے سلام کیجئے تاکہ وہ شخص سن سکے جس کو آپ سلام کر رہے ہیں۔ البتہ اگر کہیں زبان سے السلام علیکم کہنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے کی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔*
*"❀_ مثلاً آپ جس کو سلام کر رہے ہیں وہ دور ہے اور خیال ہے کہ آپ کی آواز اس تک نہ پہنچ سکے گی یا کوئی بہرا ہے، ایسی حالت میں اشارہ کر سکتے ہیں،*
*"❀_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سناؤ اس لئے کہ سلام خدا کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دعا ہے_,"*
*®_(الادب المفرد، باب يسمع اذا سلم - ١٠٠٥)*
*"❀_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ مسجد کے پاس سے گزرے وہاں کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں تو آپ ﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا_,*
*®_(ترمذی، ابواب الاستیذان، باب ما جاء في التسليم على النساء - ٢٦٩٧)*
*"❀_ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زبان سے السلام علیکم کہنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کیا۔ اسی بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو ابوداؤد میں ہے۔*
*"❀_حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں سلام کیا ۔ اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ سلام زبان سے ہی کیجئے، البتہ کہیں ضرورت ہو تو ہاتھ یاسر کا اشارہ بھی کر سکتے ہیں، عین اس وقت بھی زبان سے الفاظ ادا کرنے چاہئے۔*
*✪_(11)_ اپنے بڑوں کو اور چلنے والا بیٹھنے والوں کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام میں پہل کریں:-*
*"❀_اپنے بڑوں کو سلام کرنے کا اہتمام کیجئے۔ جب آپ پیدل چل رہے ہوں اور کچھ لوگ بیٹھے ہوں تو بیٹھنے والوں کو سلام کیجئے اور جب آپ کسی چھوٹی ٹولی کے ساتھ ہوں اور کچھ زیادہ لوگوں سے ملاقات ہو جائے تو سلام کرنے میں پہل کیجئے۔*
*"❀_نبی کریم عالم کا ارشاد ہے:- چھوٹا شخص بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے افراد زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں_,"*
*®_ (الادب المفرد، باب يسلم الصغير على الكبير - ١٠٠١)*
*"✪_(12)_ سواری والا پیدل چلنے والوں اور راہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرے:-*
*"❀_ اگر آپ سواری پر چل رہے ہوں، تو پیدل چلنے والوں، اور راہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کیجئے۔*
*"❀_ نبی کریم صلی نیلم کا ارشاد ہے:- سواری پر چلنے والے، پیدل چلنے والوں کو اور پیدل چلنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کرنے میں پہل کریں_,"*
*®_( الادب المفرد، باب يسلم الصغير على الكبير - ١٠٠٠)*
*✪_(13)_ کسی کے یہاں ملنے جائیں تو پہنچتے ہی سلام کیجئے:-*
*"❀_ کسی کے یہاں ملنے جائیں، یا کسی کی بیٹھک یا نشست گاہ میں پہنچیں، یا کسی مجمع کے پاس سے گزریں یا کسی مجلس میں پہنچیں تو پہنچتے وقت بھی سلام کیجئے اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگیں تب بھی سلام کیجئے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:-" جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو، اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگو تو پھر سلام کرو اور یاد رکھو کہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق اجر نہیں ہے (کہ جاتے وقت تو آپ سلام کا بڑا اہتمام کریں اور جب رخصت ہونے لگیں تو سلام نہ کریں اور رخصتی سلام کو کوئی اہمیت نہ دیں)_,"*
*®_ (ترمذی، کتاب الاستيذان، باب ما جاء فى التسليم عند القيام و عند القعود - ۲۷۰)*
*✪_(14)_کسی کے واسطہ سے بھی سلام پہنچوا سکتے ہیں:-*
*"❀_ اگر اپنے کسی بزرگ یا عزیز اور دوست کو کسی دوسرے کے ذریعے سلام کہلوانے کا موقع ہو یا کسی کے خط میں سلام لکھوانے کا موقع ہو تو اس موقع سے ضرور فائدہ اُٹھایئے اور سلام کہلوائے۔*
*"❀_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: عائشہ (رضی اللہ عنہا)جبرئیل علیہ السلام تم کو سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا، وعلیہ السلام و رحمتہ اللہ_,"*
*®_ (بخاری، کتاب الاستيذان باب تسليم الرجال على النساء والنساء على الرجال - ٦٢٤٩ و مسلم)*
*✪_(14)_مجلس میں جائیں تو پوری مجلس کو سلام کیجئے:-*
*"❀_مجلس میں جائیں تو پوری مجلس کو سلام کیجئے مخصوص طور پر کسی کا نام لے کر سلام نہ کیجئے۔*
*"❀_ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تھے کہ ایک سائل آیا اور اُس نے آپ کا نام لے کر سلام کیا۔ حضرت نے فرمایا، خدا نے سچ فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور پھر آپ گھر تشریف لے گئے، لوگ انتظار میں بیٹھے رہے کہ آپ کے فرمانے کا مطلب کیا ہے۔ خیر جب آپ باہر آئے تو حضرت طارق نے پوچھا: ( حضرت ہم لوگ آپ کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکے ) تو فرمایا: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب لوگ مجلسوں میں لوگوں کو مخصوص کر کے سلام کرنے لگیں گئے_,"*
*® (الادب المفرد، باب من كره تسليم الخاصة - ١٠٤٩)*
*✪_(16)_ سلام کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے دیجئے:-*
*"❀_ سلام کا جواب نہایت خوشدلی اور خندہ پیشانی سے دیجئے۔ یہ مسلمان بھائی کا حق ہے، اس حق کو ادا کرنے میں کبھی بخل نہ دکھایئے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے مسلمان پر مسلمان کے پانچ حق ہیں۔(١)۔ سلام کا جواب دینا۔ (٢)_مریض کی عیادت کرنا۔(٣)_ جنازے کے ساتھ جانا۔(٤)_ دعوت قبول کرنا۔ (٥)_چھینک کا جواب دینا_,"*
*®_ (مسلم، کتاب السلام - ٥٦٥٠ ، متفق عليه)*
*✪_ (17)_ سلام کا جواب پورا دیجئے:-*
*"❀_ سلام کے جواب میں "وعلیکم السلام" کہنے پر ہی اکتفا نہ کیجئے بلکہ "ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کا اضافہ کیجئے۔*
*"❀_قرآن پاک کی سورہ نساء، آیت:٨٦ میں ہے: "_وَاِذَا حُيِّيۡتُمۡ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡهَاۤ اَوۡ رُدُّوۡهَا ؕ*
*"❀_ اور جب کوئی تمہیں دُعا سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر دُعا دو یا پھر وہی الفاظ جواب میں کہہ دو_,"*
*"❀_حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ تشریف فرماتے تھے کہ ایک آدمی آیا اور اُس نے آکر "السلام علیکم" کہا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا - دس (یعنی دس نیکیاں ملی)*
*"❀_ پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے "السلام عليكم ورحمتہ اللہ" کہا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دے دیا اور فرمایا ہیس (یعنی بیس نیکیاں ملی )،*
*"❀_ اس کے بعد ایک تیسرا آدمی آیا اور اُس نے آکر کہا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" آپ ﷺ نے جواب دیا اور فرمایا: تیس ( یعنی اس کو تیس نیکیاں ملیں )*
*®_ (ترمذی، ابواب الاستیذان والادب باب ما ذكر فى فضل السلام - ۲۶۸۹)*
*✪_(18)_ جب کسی سے ملاقات ہو تو سب سے پہلے السلام علیکم کہئے:-*
*"❀_ جب کسی سے ملاقات ہو تو سب سے پہلے السلام علیکم کہئے ، یکبارگی گفتگو شروع کر دینے سے پر ہیز کیجئے، جو بات چیت کرنی ہو سلام کے بعد کیجئے۔*
*"❀_نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ”جو کوئی سلام سے پہلے کچھ بات کرنے لگے اُس کا جواب نہ دو_,*
*®_ (ترمذی، کتاب الاستيذان والادب، باب ما جاء في السلام قبل الكلام)*
*"❀_ جب ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کر لیا، اور ( ذرا دیر کو ) درمیان میں درخت یا پتھر یا دیوار کی آڑ آ گئی۔ پھر اسی وقت دوبارہ ملاقات ہو گئی تو دوبارہ سلام کرے _,"*
*®_(ابودائود، باب فی الرجل يفارق الرجل ثم يلقاه ...٥٢٠٠)*
*❀"_ یعنی یہ نہ سوچے کہ ابھی آدھا منٹ ہی تو سلام کو ہوا ہے اتنی جلدی دوسرا سلام کیوں کروں۔*
*✪_(19)_ ان حالات میں سلام کرنے سے پر ہیز کیجئے:-*
*"❀_١ جب لوگ قرآن و حدیث پڑھنے پڑھانے یا سنے میں مصروف ہوں۔*
*"_٢_ جب کوئی خطبہ دینے اور سنے میں مصروف ہو،*
*"٣_جب کوئی اذان یا تکبیر کہہ رہا ہو۔*
*"_٤_جب کسی مجلس میں کسی دینی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہو یا کوئی کسی کو دینی احکام سمجھا رہا ہو،*
*"_٥_ جب استاد پڑھانے میں مصروف ہو،*
*"_٦_ جب کوئی قضاء حاجت کے لئے بیٹھا ہو،*
*"❀_ اور ذیل کے حالات میں نہ صرف سلام کرنے سے پر ہیز کیجئے، بلکہ اپنی بے تعلقی اور روحانی اذیت کا اظہار بھی حکمت کے ساتھ کیجئے۔*
*"❀_١- جب کوئی فسق و فجور اور خلاف شرع لہو ولعب اور عیش و طرب میں مبتلا ہو کر دین کی توہین کر رہا ہو،*
*"❀_٢_ جب کوئی گالی گلوج، بے ہودہ بکواس، جھوٹی سچی غیر سنجیدہ باتیں اور فحش مذاق کر کے دین کو بدنام کر رہا ہو۔*
*"❀_ (۳) جب کوئی خلاف دین و شریعت افکار و نظریات کی تبلیغ کر رہا ہو اور لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور بدعت و بے دینی اختیار کرنے پر اُبھار رہا ہو۔*
*❀_٤_ جب کوئی دینی عقائد و شعائر کی بے حرمتی کر رہا ہو، اور شریعت کے اُصول و احکام کا مذاق اُڑا کر اپنی اندرونی خباثت اور منافقت کا ثبوت دے رہا ہو۔*
*✪_(20)_غیر مسلم کو سلام کرنے کی ضرورت پیش آئے تو السلام علیکم نہ کہئے:-*
*"❀_ اگر کسی غیرمسلم کو سلام کرنے کی ضرورت پیش آئے تو السلام علیکم نہ کہئے بلکہ آداب عرض, تسلیمات وغیرہ قسم کے الفاظ استعمال کیجئے اور ہاتھ یا سر سے بھی کوئی اشارہ ایسا نہ کیجئے جو اسلامی عقیدے اور اسلامی مزاج کے خلاف ہو۔*
*"✪_(21)_جس مجلس میں مسلم اور غیر مسلم سب ہی شریک ہوں تو وہاں سلام کیجئے:-*
*"❀_ جب کسی مجلس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں جمع ہوں تو وہاں سلام کیجئے۔ نبی اکرم ﷺ ایک بار ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلم اور مشرک سب ہی شریک تھے تو آپ ﷺ نے ان سب کو سلام کیا۔*
*®_(ترمذی، کتاب الاستيلان ، باب ما جاء فى السلام على مجلس فيه المسلمون وغيرهم - ٢٧٠٢)*
*✪_(22)_ سلام کے بعد محبت و مسرت کے اظہار کے لئے مصافحہ بھی کیجئے:-*
*"❀_ سلام کے بعد محبت و مسرت یا عقیدت کے اظہار کے لئے مصافحہ بھی کیجئے,*
*"❀_ نبی کریم ﷺ خود بھی مصافحہ فرماتے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مصافحہ کرنے کی تاکید فرمائی اور اُس کی فضیلت اور اہمیت پر مختلف انداز میں روشنی ڈالی۔*
*"❀_ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، " کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیم میں مصافحہ کرنے کا رواج تھا ؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "جی ہاں تھا۔*
*®_(ترمذی، باب ما جاء في المصافحة - ٢٧٢٩ )*
*"❀_حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” جب دو مؤمن ملتے ہیں اور سلام کے بعد مصافحہ کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت سے (سوکھے) پتے۔*
*®_ (طبرانی)*
*"❀_حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مکمل سلام یہ ہے کہ مصافحہ کے لئے ہاتھ بھی ملائے جائیں_,"*
*®_ (ترمذی، ابواب الاستيذان والادب، باب ما جاء في المصافحة - ٢٧٣٠)*
*✪_(22)_کوئی دوست یا بزرگ سفر سے واپس آئے تو معانقہ بھی کیجئے:-*
*"❀_ کوئی دوست عزیز یا بزرگ سفر سے واپس آئے تو معانقہ بھی کیجئے ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جب مدینے آئے تو نبی کریم ﷺ کے یہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ ﷺ اپنی چادر گھسٹتے ہوئے دروازے پر پہنچے، اُن سے معانقہ کیا اور پیشانی کو بوسہ دیا_,"*
*®_( ترمذی باب ماجاء في المعانقة والقبلة ۲۷۳۲)*
*"❀_ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور اگر سفر سے واپس آتے تو معانقہ بھی کرتے_, (طبرانی)*
*✪_(23)_گڈ مارننگ، گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے الفاظ مت استعمال کیجئے:-*
*"❀_ یہ جو بعض قوموں میں گڈ مارنگ، گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ان میں اول تو سلامتی کے معنی کو پوری طرح ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے۔ بلکہ ان میں انسانوں کے بارے میں کوئی دُعا ہے ہی نہیں،*.
*"❀_ اسلام نے جو ملاقات کا طریقہ بتایا ہے وہ ہر لحاظ سے کامل او ر جامع ہے۔ دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور اُن کے رواج کے مطابق کلمات منھ سے نکالنا ممنوع ہے، جو لوگ انگریزوں کے طریقے پر گڈ مارننگ وغیرہ کہتے ہیں یا عربوں کے رواج کے مطابق "صباح الخیر یا "مساء الخیر" کہتے ہیں اس سے پر ہیز کرنا لازم ہے۔*
*"❀_ دنیا کے مختلف اقوام میں ملاقات کے وقت مختلف الفاظ کہنے کا رواج ہے لیکن اسلام میں جو سلام کے الفاظ مشروع کئے گئے ہیں ان سے بڑھ کر کسی کے یہاں بھی کوئی ایسا کلمہ مروج نہیں جس میں اظہار محبت بھی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت بھی ہو اور اللہ تعالیٰ سے دُعا بھی ہو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی اور ہر طرح کی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھے،*
*"❀_ لفظ "السلام" جہاں اپنا خاص معنی رکھتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ شراحِ حدیث نے فرمایا ہے کہ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلامتی دینے والا ہے تمہیں اس کے حفظ وامان میں دیتا ہوں، وہ مہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔*
*®_(اصلاحی مضامین صفحه- ۱۷۸)*
*📓 مدنی معاشرہ -242 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
☜█❈ *مدنی معاشرہ*❈ █☞
*☞_ رنج و غم کے حالات کیسے گزاریں_,*
▪•═════••════•▪
*✪_(1)_مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجئے:-*
*"❀_ مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجئے۔ کبھی ہمت نہ ہاریئے اور رنج و غم کو کبھی حد اعتدال سے نہ بڑھنے دیجئے۔ دنیا کی زندگی میں کوئی بھی انسان رنج وغم ، مصیبت و تکلیف، آفت یا ناکامی اور نقصان سے بے خوف اور مامون نہیں رہ سکتا۔*
*"❀_ البتہ مؤمن اور کافر کے کردار میں یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، مایوسی کا شکار ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات غم کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لیتا ہے,*
*"❀_ اور مؤمن بڑے سے بڑے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و ثبات کا پیکر بن کر چٹان کی طرح جما رہتا ہے۔ وہ یوں سوچتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا تقدیر الٰہی کے مطابق ہوا، خدا کا کوئی حکم حکمت مصلحت سے خالی نہیں اور یہ سوچ کر کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اپنے بندے کی بہتری کے لئے کرتا ہے، یقیناً اس میں خیر کا پہلو ہوگا۔ مؤمن کو ایسا روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ غم کی چوٹ میں لذت آنے لگتی ہے اور تقریر کا یہ عقیدہ ہر مشکل کو آسان بنا دیتا ہے،*
*"❀_ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-*
*"__مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡـرَاَهَا ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌۚ, لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ ۞ (الحدید: ۲۲-۲۳)*
*"❀_( ترجمہ )_ جو مصائب بھی روئے زمین میں آتے ہیں اور جو آفتیں بھی ہم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے کہ ہم انہیں وجود میں لائیں، ایک کتاب میں (لکھی ہوئی محفوظ اور طے شدہ) ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات خدا کے لئے آسان ہے تاکہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو!*
*"❀_ یعنی تقدیر پر ایمان لانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مؤمن بڑے سے بڑے سانحے کو بھی قضا و قدر کا فیصلہ سمجھ کر اپنے غم کا علاج پا لیتا ہے اور پریشان نہیں ہوتا، وہ ہر معاملے کی نسبت اپنے مہربان خدا کی طرف کر کے خیر کے پہلو پر نگاہ جما لیتا ہے اور صبر و شکر کر کے ہر شر میں سے اپنے لئے خیر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : " مؤمن کا معاملہ بھی خوب ہی ہے، وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹتا ہے، اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوشحالی اُس کے لئے خیر کا سبب بنتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزهد والرقائق، باب المومن امره كله خير – ٧٥٠٠)*
*✪_(2)_ تکلیف کی خبر سنتے ہی اِنَّ لِلّٰهِ وَاِنَّااِلَیْهِ رَاجِعُوْن پڑھے :-*
*"❀_ جب رنج و غم کی کوئی خبر سنیں یا کوئی نقصان ہو جائے یا کوئی دکھ اور تکلیف پہنچے یا کسی ناگہانی مصیبت میں خدا نخواستہ گرفتار ہو جائیں تو فوراً إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرہ، آیت:۱۵۲) پڑھئے ۔*
*"❀_( ترجمہ )_ہم خدا ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (مسلم، کتاب الجنائز - ۲۱۲۶)*
*"❀_ مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب خدا ہی کا ہے، اُسی نے دیا ہے اور وہی لینے والا ہے, ہم بھی اسی کے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔*
*"❀_ ہم ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی ہیں۔ اس کا ہر کام مصلحت، حکمت اور انصاف پر مبنی ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے کسی بڑی خیر کے پیش نظر کرتا ہے۔ وفادار غلام کا کام یہ ہے کہ کسی وقت بھی اُس کے ماتھے پر شکن نہ آئے۔*
*"❀_ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-*
*"_ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ لْاَمْوَالِ وَلْاَنْفُسِ وَثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِالصّٰبِرِيْنَ ط اَلَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَتٌه قَالُوْآاِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّآاِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ، اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مَّنْ رَبَّھِمْ وَرَحْمَتٌه قف وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ، (البقره: ١٥٦-١٥٧)*
*"❀_(ترجمہ )_ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، بھوک، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور خوش خبری ان لوگوں کو دیجئے جو مصیبت پڑنے پر (صبر کرتے ہیں اور ) کہتے ہیں ”ہم خدا ہی کے ہیں اور خدا ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جاتا ہے۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی اور اس کی رحمت ہوگی اور ایسے ہی لوگ راہِ ہدایت پر ہیں،*
*"❀_نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جب کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر انا لِلهِ ... الخ پڑھتا ہے تو خدا اس کی مصیبت دور فرما دیتا ہے، اس کو اچھے انجام سے نوازتا ہے، اور اس کو اس کی پسندیدہ چیز اس کے صلے میں عطا فرماتا ہے،*
*®_(ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فى الصبر عند المصيبة - ١٥٩٨)*.
▪•═════••════•▪
*✪_(3)_مصائب و تکلیف کو صبر و سکوں کے ساتھ برداشت کیجے-1:-*
*"❀_ایک بار نبی کریم ﷺ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا۔ کسی نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا چراغ کا بجھنا بھی کوئی مصیبت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جی ہاں! جس بات سے بھی مؤمن کو دکھ پہنچے وہ مصیبت ہے,*
*"❀_ اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے: جس مسلمان کو بھی کوئی قلبی اذیت، جسمانی تکلیف اور بیماری، کوئی رنج و غم اور دُکھ پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر اُسے کانٹا بھی چبھ جاتا ہے ( اور وہ اس پر صبر کرتا ہے ) تو خدا اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے“*
*®_(بخاری و مسلم كتاب البر والصلة والادب - ٦٥٦٨)*
*"❀_ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جتنی سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور خدا جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو اُن کو مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لئے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے پس جو لوگ خدا کی رضا پر راضی رہیں خدا بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں خدا سے ناراض ہوں، خدا بھی ان سے ناراض ہو جاتا ہے_,*
*®_ (ترمذی، کتاب الزهد باب ما جاء في الصبر على البلاء - ٢٣٩٦)*
*"❀_ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی بندے کا کوئی بچہ مرتا ہے تو خدا اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے: ” کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی جان قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے تم نے اس کے جگر کے ٹکڑے کی جان نکال لی؟ وہ کہتے ہیں، ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے تو میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس مصیبت میں اس نے تیری حمد کی اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا۔*
*"_ تو خدا اُن سے فرماتا ہے : میرے اس بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد ( شکر کا گھر ) رکھو_,*
*®_ (ترمذی، ابواب الجنائز، باب فضل المصيبة اذا احتسب – ۱۰۲۱)*
*"❀_ کسی بھی تکلیف اور حادثے پر اظہار غم ایک فطری امر ہے، البتہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھئے کہ غم کی انتہائی شدت میں بھی زبان سے کوئی ناحق بات نہ نکلے اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ گود میں تھے اور جان کنی کا عالم تھا، یہ رقت انگیز منظر دیکھ کر نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور فرمایا: "اے ابراہیم ! ہم تیری جدائی سے مغموم ہیں مگر زبان سے وہی نکلے گا جو پروردگار کی مرضی کے مطابق ہوگا“*
*®_(بخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبى إنَّا بِكَ لَمَحْرُونُونَ - ۱۳۰۳ )*
,*
▪•═════••════•▪
*✪_ (3)_کوئی ایسی حرکت بھی نہ کریں جو شریعت کے خلاف ہو:-*
*"❀_ غم کی شدت میں بھی کوئی ایسی حرکت نہ کیجئے جس سے ناشکری اور شکایت کی بو آئے اور جو شریعت کے خلاف ہو۔ دھاڑیں مار مار کر رونا، گریبان پھاڑنا ، گالوں پر طمانچے مارنا، چیخنا چلانا اور ماتم میں سر سینہ پیٹنا مومن کے لئے کسی طرح جائز نہیں،*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جو شخص گریبان پھاڑتا، گالوں پر طمانچے مارتا اور جاہلیت کی طرح چیختا اور چلاتا اور بین کرتا ہے وہ میری اُمت میں نہیں۔*
*®_(ترمذی، ابواب الجنائز - ۹۹۹)*
*"❀_ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جب شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر اُن کے گھر پہنچی تو اُن کے گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں اور ماتم کرنے لگیں۔ نی کریم ﷺ نے کہلا بھیجا کہ ماتم نہ کیا جائے، مگر وہ باز نہ آئیں تو آپ ﷺ نے دوبارہ منع فرمایا، پھر بھی وہ نہ مانیں تو آپ ﷺ نے حکم دیا، ان کے منھ میں خاک بھر دو۔*
*®_ (بخاری، کتاب الجنائز باب ما ينهى من النوح والبكاء والزجر عن ذالك - ١٣٠٥)*
▪•═════••════•▪
*✪_(4)_ بیماری کو برا بھلا نہ کہئے۔,*
*"❀_ بیماری کو برا بھلا نہ کہئے اور نہ حرف شکایت زبان پر لائیے، صبر و ضبط سے کام لیجئے اور اجر آخرت کی تمنا کیجئے۔ بیماری جھیلنے اور اذیتیں برداشت کرنے سے مومن کے گناہ دھلتے ہیں اور اس کا تزکیہ ہوتا ہے اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: مومن کو جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے جو بھی دُکھ پہنچتا ہے خدا تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے_,*
*®_ (مسلم، باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض...الخ - ٦٥٥٩)*
*"❀_ ایک بار نبی کریم ﷺ نے ایک خاتون کو کانپتے دیکھ کر پوچھا، اے اُم سائب یا مسیب ! کیا بات ہے، تم کیوں کانپ رہی ہو؟ کہنے لگیں مجھے بخار نے گھیر رکھا ہے، اس کو خدا سمجھے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ نہیں بخار کو برا مت کہو۔ اس لئے کہ بخار اس طرح اولاد آدم کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے جس طرح آگ لوہے کے میل کو دور کر کے صاف کرتی ہے_,*
*®_ (مسلم، کتاب البر والصلة والادب باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض او حزن ... الخ - ٦٥٧٠)*
▪•═════••════•▪
*✪_ (5)_کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ غم نہ منائے:-*
*"❀_ کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ غم نہ منائیے۔ عزیزوں کی موت پر غمزدہ ہونا اور آنسو بہانا ایک فطری امر ہے لیکن اس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے۔*
*"❀_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے۔ البتہ بیوہ کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ اس مدت میں نہ وہ کوئی رنگین کپڑا پہنے، نہ خوشبو لگائے اور نہ کوئی اور بناؤ سنگار کرے_,*
*®_ (ترمذی، کتاب الطلاق و اللعان، باب ما جاء فى عدة المتوفى عنها زوجها - (۱۱۹)*
*"❀_ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوا تو چوتھے روز تعزیت کے لئے کچھ خواتین پہنچیں۔ انہوں نے سب کے سامنے خوشبو لگائی اور فرمایا مجھے اس وقت خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ میں نے یہ خوشبو محض اس لئے لگائی کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ سنا ہے کہ کسی مسلمان خاتون کو شوہر کے سوا کسی عزیز کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں_,*
*®_ (ترندی-۱۱۹٦)*
*✪_(6)_ رنج و غم میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کیجئے:-*
*"❀_ رنج وغم اور مصیبت میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کیجئے۔ نبی کریم ﷺ جب غزوہ اُحد سے واپس تشریف لائے تو خواتین اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کا حال معلوم کرنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ جب حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے سامنے آئیں تو آپ ﷺ نے ان کو صبر کی تلقین فرمائی اور کہا اپنے بھائی عبد الله رضی اللہ عنہ پر صبر کرو۔ اُنہوں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“ پڑھا اور دُعائے مغفرت کی۔*
*"❀_ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا وہ بچے کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے کام میں چلے گئے، ان کے جانے کے بعد بچے کا انتقال ہو گیا۔ بیگم ابوطلحہ نے لوگوں سے کہہ دیا کہ ابوطلحہ کو اطلاع نہ ہونے پائے۔ وہ شام کو اپنے کام سے واپس گھر آئے تو بیوی سے پوچھا: بچے کا کیا حال ہے؟ بولیں پہلے سے زیادہ سکون میں ہے۔ یہ کہہ کر ابوطلحہ کے لئے کھانا لا ئیں۔ انہوں نے اطمینان سے کھانا کھایا اور لیٹ گئے، صبح ہوئی تو نیک بیوی نے حکیمانہ انداز میں پوچھا: اگر کوئی کسی کو عاریہ کوئی چیز دے دے اور پھر واپس مانگے تو کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس چیز کو روک لے؟*
*"❀_ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، بھلا یہ حق کیسے حاصل ہو جائے گا۔ تو صابرہ بیوی نے کہا، اپنے بیٹے پر بھی صبر کیجئے۔*
*®_ (مسلم، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابى طلحة الانصاري - ٦٣٢٢)*
*✪_(7)_راہ حق میں آنے والی مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے:-*
*"❀_ راہ حق میں آنے والی مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے اور اس راہ میں جو دکھ پہنچیں ان پر رنجیدہ ہونے کے بجائے مسرت محسوس کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے اپنی راہ میں قربانی قبول فرمائی۔*
*"❀_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سخت بیمار پڑیں۔ حضرت ان کی عیادت کے لئے آئے۔ ماں نے ان سے کہا، بیٹے ! دل میں یہ آرزو ہے کہ دو باتوں میں سے ایک جب تک نہ دیکھ لوں خدا مجھے زندہ رکھے،*
*(١)_ یا تو میدان جنگ میں شہید ہو جائے اور میں تیری شہادت کی خبر سن کر صبر کی سعادت حاصل کروں۔*
*"_ (٢) یا تو فتح پائے اور میں تجھے فاتح دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں۔*
*"❀_ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کی زندگی ہی میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت کے بعد حجاج نے ان کو سولی پر لٹکا دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کافی ضعیف ہو چکی تھیں، لیکن انتہائی کمزوری کے باوجود بھی وہ یہ رقت انگیز منظر دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور اپنے جگر گوشے کی لاش کو دیکھ کر رونے پیٹنے کے بجائے حجاج سے خطاب کرتے ہوئے بولیں اس سوار کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ گھوڑے کی پیٹھ سے نیچے اُترے_,*
*✪_(8)_ دکھ درد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیجئے:-*
*"❀_دکھ درد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیجئے, دوستوں کے رنج و غم میں شرکت کیجئے اور ان کا غم دور کرنے میں ہر طرح کا تعاون کیجئے ۔*
*"_ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے جسم کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے تو سارا بدن دُکھ محسوس کرتا ہے اور سر میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے_,"*
*®_ (مسلم کتاب البر والصلۃ والادب -۲۵۸۹)*
*"❀_ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جب شہید ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: جعفر کے گھر کھانا بھجوا دو اس لئے کہ آج غم میں ان کے گھر والے کھانا نہ پکا سکیں گے۔*
*®_ (ابوداؤد، ابواب الجنائز، باب صنعة الطعام لاهل الميت - ٣١٣٢)*
*"❀_ اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا- جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی خبر گیری کی تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا خود مصیبت زدہ کو ملے گا_,"*
*®_(ترمذی ابواب الجنائر باب ماجاء فى اجر من عزی مصابا ۱۰۷۳)*
*✪_(9)_ غم کے ہجوم میں خدا کی طرف رجوع کیجئے:-*
*"❀_مصائب کے نزول اور غم کے ہجوم میں خدا کی طرف رجوع کیجئے اور نہایت عاجزی کے ساتھ نماز پڑھ کر خدا سے دُعا کیجئے ۔ قرآن میں ہے, يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقره، آیت: ١٥٣):- مومنو! ( مصائب اور آزمائش میں ) صبر اور نماز سے مدد لو _,*
*"❀_غم کی کیفیت میں آنکھوں سے آنسو بہنا، رنجیدہ ہونا فطری بات ہے۔ البتہ دھاڑے مار مار کر زور زور سے رونے سے پرہیز کیجئے ۔ نبی کریم ﷺ روتے تو رونے میں آواز نہ ہوتی ۔ ٹھنڈا سانس لیتے، آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے اور سینے سے ایسی آواز آتی جیسے کوئی ہانڈی اُبل رہی ہو، یا چکی چل رہی ہو۔ آپ ﷺ نے خود اپنے غم اور رونے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہوتا ہے اور ہم زبان سے وہی کلمہ نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہوتا ہے۔“*
*®_ (بخاری، ابواب الجنائز، باب قول النبى انابك لمحزونون - ۱۳۰۳)*
*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب فکر مند ہوتے تو آسمان کی طرف سر اُٹھا کر فرماتے: سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم (پاک و برتر ہے عظمت والا خدا) اور جب زیادہ گریہ وزاری اور دعا کا انہماک بڑھ جاتا تو فرماتے: يَا حَى يَا قَيُّومُ _,*
*®_ (ترمذی، ابواب الدعوات، باب ما يقول عند الكرب- ٣٤٣٦)*
*✪_ (10)_ پریشانی کے وقت یہ دعائیں پڑھئے:-*
*"▩__ رنج و غم کی شدت، مصائب کے نزول اور پریشانی و اضطراب میں یہ دعائیں پڑھئے۔*
*"❀_حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ذوالنون علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے جو دُعا کی تھی وہ یہ تھی:-*
*"▩__ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ_,*
*"▩__(ترجمہ ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو بے عیب و پاک ہے، میں ہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والا ہوں۔*
*"❀_ پس جو مسلمان بھی اپنی کسی تکلیف یا تنگی میں خدا سے یہ دعا مانگتا ہے، خدا اُسے ضرور قبولیت بخشتا ہے_,*
*®_ (عمل اليوم والليلة باب ما يقول اذا نزل به كرب اوشدة)*
*"❀_حضرت ابن عباس علی اللہ کا بیان ہے کہ نبی کریم میں ہم جب کسی رنج و غم میں مبتلا ہوتے تو یہ دعا کرتے:-*
*"▩__ لا إلهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ_,*
*®_ (بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الكرب - ٦٣٤٦ ، ومسلم)*
*"▩__(ترجمہ )_ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ عرش عظیم کا مالک ہے، خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، وہ آسمان وزمین کا مالک ہے۔ عرش بزرگ کا مالک ہے۔“*
*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:-*
*"▩__ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.*
*"_یہ کلمہ نناوے (۹۹) بیماریوں کی دوا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا پڑھنے والا رنج وغم سے محفوظ رہتا ہے۔ (مشکو ہس: ۲۰۲)*
*✪_ (11)_ مصائب و حالات میں بھی موت کی تمنا نہ کیجئے:-*
*"❀_مصائب و حالات میں بھی موت کی تمنا نہ کیجئے اور نہ کبھی اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاک کرنے کی شرمناک حرکت کا تصور کیجئے۔ یہ بزدلی بھی ہے اور بدترین قسم کی خیانت اور معصیت بھی،*
*"❀_ ایسے اضطراب اور بے چینی میں برابر خدا سے یہ دُعا کرتے رہئے:-*
*"_ اللهمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيْوَةُ خَيْرًا لَي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًلى _,*
*®( بخاری، کتاب الدعوات باب الدعاء بالموت والحياة - ٦٣٥١ و مسلم)*
*"❀_( ترجمہ )_ خدایا ! جب تک میرے حق میں زندہ رہنا بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے حق میں موت ہی بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔“*
*"✪_(12)_ جب کسی کو کسی مصیبت میں مبتلا دیکھیں تو یہ دعا پڑھئے۔*
*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے بھی کسی کو کسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر یہ دعا مانگی ( انشاء اللہ ) وہ اس مصیبت سے محفوظ رہے گا:-*
*"❀_ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ اللهُ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلا_,"*
*®_ (ترمذی، ابواب الدعوات باب ما جاء ما يقول اذا راى مبتلى - ۳)*
*"❀_( ترجمہ )_ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچائے رکھا، جس میں تم مبتلا ہو اور اپنی بہت سی مخلوقات پر مجھے فضیلت بخشی_,*
*"❀_ لیکن اگر یہ دعا مبتلا کے سامنے پڑھے تو اس طرح پڑھے کہ وہ نہ سنے۔*
*📓 مدنی معاشرہ - 155 ,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DVebQi8m0ex8pmUPCFetos
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/JbQKfPmYz7sCCEircfTwjx
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
Post a Comment