0

  

                             ✭﷽✭

                  *✿_خلافت راشدہ_✿*

         *✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭* 

                    ▪•═════••════•▪                  

                 *┱✿_۔خلافت کا مسلہ -,*


★_ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا:-  اے عمر ! انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں اور خلافت کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں _,"

 یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر تشریف لائے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت اندر تھے، انہیں باہر بلوایا،  وہ  اندر کفن دفن کی تیاریوں میں مصروف تھے، لہزا کہلا بھیجا کہ میں اس وقت مصروف ہوں ،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر پھر پیغام بھیجا کہ ایک خاص بات پیش آئی ہے اس لئے باہر آکر سن لیں،

 حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، حضرت عمر نے کہا :- "_ کیا آپ کو معلوم ہے سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار جمع ہیں  اور خلافت کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ وہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں یا پھر ان کا کہنا ہے کہ ایک امیر مہاجرین میں سے ہو اور ایک انصار میں سے _,"


★_ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور تیزی سے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چل پڑے، راستے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ مل گئے، وہ بھی ان کے ساتھ ہو لئے ،


★_ سقیفہ بنی ساعدہ مشہور انصاری صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی اور بیٹھک کا کام دیتی تھی، انصاری حضرات وہاں جمع ہو کر آپس کے فیصلے کیا کرتے تھے، آج وہاں اس سلسلے میں  تقاریر ہو رہی تھی، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تقریر میں کہہ رہے تھے :-

"_ اے گروہ انصار ! دین میں تمہیں وہ برتری حاصل ہے اور اسلام میں تمہیں فضیلت حاصل ہے جو عرب میں کسی کو نہیں.. تم نے مشکل ترین وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا جب ان کے اپنے لوگ ان سے دشمنی کر رہے تھے،  تم نے مہاجرین کی مدد کی، اسلام کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا ، اب اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا اس حال میں کہ وہ تم سے بہت ہی خوش تھے لہذا خلافت تمہارا حق ہے..  اور کسی کا نہیں _,"


★_ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کو انصار نے پسند کیا تاہم ایک دو نے یہ سوال کیا :- "_ اگر مہاجرین نے اس بات کو پسند نہ کیا تو ؟  

 انصاری حضرات میں سے چند نے اس کا یہ جواب دیا :-  تب ہم  یہ تجویز پیش کریں گے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہو _,"


★_ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو ناپسند فرمایا ... اتنے میں یہ دونوں حضرات وہاں پہنچ گئے،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں راستے میں یہ سوچتا آیا تھا کہ وہاں جاکر کیا کہوں گا ؟ اپنی تقریر کا مضمون میں نے سوچ لیا تھا .. وہاں پہنچ کر میں نے چاہا اپنی تقریر شروع کروں...  میرا ارادہ بھانپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے :-  ذرا صبر کرو پہلے مجھے کہہ لینے دو پھر جو تمھارا جی چاہے کہنا _


★_ پھر انہوں نے تقریر شروع کی تو وہ ایسی تھی کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا اس سے بھی زیادہ بہتر انہوں نے کہہ دیا ،

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نے اس نازک موقع پر جو تقریر کی وہ یہ تھی :-


"_ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اور اپنی امت کا نگراں مقرر کرکے اس لئے مبعوث فرمایا تھا کہ صرف اس کی پرستش ہو اس کی وحدانیت ہو، حالاں کہ اس سے پہلے لوگ اللہ تعالی کے سوا مختلف معبودوں کی عبادت کرتے تھے،  دعویٰ کرتے تھے یہ معبود اللہ کے یہاں ان کی سفارش کرنے والے اور نفع پہنچانے والے ہیں حالانکہ وہ پتھر سے تراشے اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے :

(-ترجمہ  )...  اور اللہ کے سوا ایسوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، اور وہ کہتے ہیں یہ ہمارے معبود اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں (سورہ یونس- ١٠)_,"


"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیام عربوں کو ناگوار ہوا اور وہ اپنے آبائی دین کے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے،  اللہ تعالی نے آپ کی تصدیق کے لئے مہاجرین اولین کو مخصوص فرمایا ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے،  انہوں نے آپ  ﷺ کے ساتھ ہر حال میں رہنے کے لیے بیعت کا وعدہ کیا کیا اور باوجود اپنی قوم کی ایزاء رسانی اور تکزیب کے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا حالانکہ تمام لوگ ان کے مخالف تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے،  مگر تمام لوگوں کے ظلم اور ان کی سازشوں کے باوجود اپنی کم تعداد سے کبھی متاثر اور خائف نہیں ہوئے، اس طرح وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے اس زمین میں اللہ تعالی کی عبادت کی اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ولی اور خاندان والے ہیں اور ان کے بعد اس منصب امارت کے سب کے مقابلے میں وہی زیادہ مستحق ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس حق میں سوائے ظالم کے اور کوئی ان سے جھگڑا نہیں کرے گا، 


"_ اب رہے تم انصار ! کوئی شخص دین میں تمہاری فضیلت اور ابتدائی شرکت اور خدمت کا انکار نہیں کرسکتا،  اللہ تعالی نے اپنے دین اور اپنے رسول کی حمایت کے لیے تمہیں پسند کیا اور اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس ہجرت کر کے آئے،  اس وقت بھی ان کی ازواج اور اصحاب تمہارے یہاں رہتے ہیں، بے شک مہاجرین کے بعد تمہارے مقابلے میں ہماری نظر میں کسی اور کی قدر و منزلت نہیں ہے،  لہذا مناسب ہوگا کہ امیر ہم ہوں اور تم وزیر ،  ہر معاملے میں تم سے مشورہ کیا جائے گا اور بغیر تمہارے اتفاق رائے کے ہم کوئی کام نہیں کریں گے _,"


 ★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم ہونی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کہا :- 

"_  اے گروہ انصار ! تم وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے دین کی حمایت کی, اب ایسا نہ کرو کہ تم ہں دین میں بگاڑ پیدا کرو _," 

حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قسم کے الفاظ کہے ، ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اٹھے :-

"_ یہ عمر ہیں اور یہ ابو عبیدہ ہیں، تم ان میں سے جسے چاہوں امیر بلا لو _,"

یہ دونوں حضرات فوراً بولے :- 

"_ آپ کے ہوتے ہوئے ہم ہرگز اس منصب کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ آپ مہاجرین میں سب سے بزرگ ہیں، غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق رہے اور نماز کی امامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بن چکے ہیں ... اور نماز ہمارے دین کا سب سے بڑا رکن ہے ، اس لئے آپ کے ہوتے ہوئے یہ بات کسی کو زیب نہیں دیتی کہ وہ امیر بنے،  آپ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے بڑھائیے _,"


★_ اب جوں ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما بیعت کے لیے آگے بڑھے ان سے بھی پہلے حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بعیت کر لی، پھر تو سبھی بعیت کے لئے اٹھ آئے،  ہر طرف سے لوگ آ آ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے لگے ،


★_ بعیت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرات واپس لوٹے،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں شریک ہوئے، دفن کے وقت یہ اختلاف پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کہاں کیا جائے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے اس موقع پر فرمایا :-

"_ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے اور میں اسے بھولا نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ کسی نبی کی روح اسی جگہ  قبض کرتا ہے جہاں اسے دفن ہونا پسند ہوتا ہے،  لہذا تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی دفن کرو_,"

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ،


★_ پہلے دن جو بعیت ہوئی تھی وہ خاص لوگوں کے مجمے میں ہوئی تھی لہذا دوسرے دن مسجد نبوی میں   آم بعیت کا انتظام کیا گیا، سب مسلمان جمع ہوئے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ممبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا اور فرمایا :-

"_ میں امید کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے بعد تک زندہ رہیں گے لیکن اب وہ وفات پا گئے ہیں' بہرحال اللہ تعالی نے تمہارے سامنے ایک ایسا نور رکھ دیا ہے جس سے تم وہی ہدایت حاصل کر سکتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے تھے،  بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور غار کے رفیق ہیں،  مسلمانوں کی سر براہی کے لئے تم میں سب سے بہتر یہی ہیں،.. بس کھڑے ہو جاؤ اور ان سے بعیت کرو _,"


★_ یہ کہنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا :-  آپ منبر پر آ جائیں _,"

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی, ان سے کئی بار کہا گیا تب وہ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان سے بعیت کی، اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا، خلیفہ بننے کے بعد یہ ان کا پہلا خطبہ تھا ،


★_ طبقات ابن سعد میں ہے کہ ایسا خطبہ پھر کسی زبان سے سننے میں نہیں آیا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا :-

”_ لوگوں ! میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں, پس اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو اور میں اگر برا کروں تو مجھے سیدھا کرو، سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت،  تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک  طاقتور ہے جب تک میں اس کی شکایت دور نہ کر دوں اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق وصول نہ کر لوں ، جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالی اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصیبت نازل کر دیتا ہے،  میں جب تک اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت فرض نہیں،  اب نماز کے لیے اٹھو اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے "


★_سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں  یہ ذکر ملتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں لی تھی، ان میں ایک نام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا جاتا ہے،  عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چھ ماہ تک یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک بعیت نہیں کی اور گھر میں بیٹھے رہے ، پھر چھ ماہ بعد بعیت کی ،... لیکن یہ بات درست نہیں ،


 ★_  مستدرک حاکم  نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:-

"_ جبکہ ابو بکر ممبر پر بیٹھ  گئے تو انہوں نے لوگوں پر نظر ڈالی, حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر نہ آئے تو ان کے بارے میں پوچھا، اس پر کچھ انصاری اٹھے  اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے ، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی،  امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے _," ( مستدرک حاکم)


★_ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ایک بار پھر حضرت ابوبکر کی بیعت کی تھی مگر یہ دوسری بعیت اس وجہ سے تھی کہ وراثت کے معاملے میں جو علمی اشکال حضرت علی کو تھا وہ بھی جاتا رہا تھا،  مطلب یہ کہ خلافت کی سلسلے کی بیعت تو اسی دن کر لی تھی، یہ دوسری بیعت تجدید بیعت تھی اور علمی اشکال کے ختم ہونے کا کھلا اعلان تھی ،


★_ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات کہی جاتی ہے،  لیکن یہ بھی درست نہیں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی بعیت کی تھی ، ( مستدرک حاکم، جلد 3 صفحہ 66)


★_ اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی بیعت نہیں کی تھی ... یہ بھی غلط ہے کیونکہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خوشی سے بیعت کی تھی، معلوم ہوا کہ اسلام کے دشمن لوگ ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں، ان کی طرف کان نہیں دھرنا چاہیے،


 ★_ جس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے وہ مسلمانوں کے لیے نہایت نازک وقت تھا، سب سے بڑا صدمہ تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا تھا، اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں منافقوں کا ایک گروہ بھی موجود تھا،  یہ لوگ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی انہوں نے بار بار منافقت دکھائی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہوں نے خوب کھل کر کام کرنے کی ٹھان لی،


★_ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت کے حالات کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :-

"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطا فرما کر ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم ہلاک ہو جاتے _,"


★_ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں :-

"_ رسول اللہ صلی اللہ کی وفات ہوئی تو میرے والد پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے،  ایک طرف مدینہ منورہ میں منافق موجود تھے تو دوسری طرف عرب مرتد ہو رہے تھے _,"


★_ ان حالات میں ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ فرمایا تھا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے رک گیا تھا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ وہ اس لشکر کو روانہ کریں یا پہلے مرتد ہوجانے والوں کی طرف توجہ دیں،  اس وقت تمام صحابہ بہت گھبرائے ہوئے تھے ،

 

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-12*


 ╨─────────────────────❥     

 *★_  لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی _,*


★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان حالات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ دیا :-

"_  آپ دیکھ رہے ہیں حالات کیا ہیں، لے دے کر اب یہی مسلمان ہیں جو آپ کے سامنے ہیں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ عرب کا کیا حال ہے .... اس لئے مناسب نہیں کہ آپ اس وقت اس لشکر کو روانہ فرمائیں _,"


★_ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بھی تو کسی آم انسان کو نہیں بنایا تھا، وہ پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے، سب کی رائے سن کر بولے :-

"_ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے .. اس لشکر کو بھیجنے کے سلسلے میں اگر مدینہ اس طرح خالی ہو جائے کہ میں ہی اکیلا رہ جاؤں اور درندے اور کتے مجھے پھاڑ کھائیں تو بھی میں اسامہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس مہم پر روانہ کروںگا _,"


★_اب جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابوبکر صدیق کا  فیصلہ معلوم ہوگیا اور انہوں نے جان لیا کہ خلیفہ رسول ایسا کرکے رہیں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر یہ مشورہ دیا :-

"_  اے خلیفہ رسول ! اس لشکر میں عمر رسیدہ اور تجربے کار صحابہ شامل ہیں ...  جبکہ اسامہ نوجوان ہیں، اس لئے بہتر یہ رہے گا کہ کسی عمر رسیدہ  اور تجربے کار آدمی کو لشکر کا امیر مقرر فرما دیں_,"


★_ یہ رائے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے اور فرمایا :- 

"_  اے خطاب کے بیٹے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو لشکر کا امیر مقرر فرمایا ہے اور تم کہتے ہو میں ان کی جگہ کسی اور کو امیر مقرر کروں ایسا ہرگز نہیں ہوگا _,"


★_یہ مشورہ دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ دوسرے صحابہ کرام نے دیا تھا تھا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سن کر ان کے پاس واپس آئے اور انہیں برا بھلا کہا کہ ان کی وجہ سے انہیں خلیفہ رسول کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا _,


 ★_  اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا :-  

"_ جن لوگوں کو اسامہ کے لشکر میں شامل کیا گیا تھا جانے کے لیے تیار ہو جائیں، ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے ..  سب لوگ مقام جرف میں پہنچ جائیں  _,"


★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیار ہو کر وہاں پہنچ گئے، اب حضرت ابوبکر صدیق بھی وہاں تشریف لائے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روانگی کا حکم فرمایا، لشکر روانہ ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھوڑے کی لگام تھامے پیدل چل رہے ہیں.. اس  صورتِ حال سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پریشان ہوئے ،  چناچہ انہوں نے عرض کیا:- 

"_ اے خلیفہ رسول !  یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا میں گھوڑے سے اتر جاتا ہوں _,"

 اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، اس پر انسان جتنا بھی جھومے کم ہے ، ...  آپ نے فرمایا :- 

"_ اللہ کی قسم ! نہ تم اترو گے نہ میں سوار ہوں گا، کیا ہوا اگر اللہ تعالٰی کے راستے میں کچھ دیر کے لئے میرے پاؤں غبار آلود ہو گئے ، غازی کے ہر ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہے _",


★_ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :-

"_  اگر تم نامناسب نہ سمجھو تو عمر کو میرے پاس چھوڑ جاؤ،  مجھے ان کے مشورے کی ضرورت ہوگی _,"

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات خوشی سے مان لی، اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے لشکر کو روک کر نہایت اہم اور قیمتی ہدایت دی ،


★_ رخصت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا :_

"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جیسے حکم دیا تھا ویسے ہی کرنا اس کی تعمیل میں ذرہ برابر کوتاہی نہ ہو _,"

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں ان سے فرمایا تھا:-

"_ فلسطین کی سرزمین میں بلقا اور داروم کے جو علاقے ہیں اسلامی لشکر ان کو فتح کر کے آئے _,"

یہ لشکر تین ہزار مہاجرین اور انصار پر مشتمل تھا ان میں سے ایک ہزار سوار فوج تھی ،


 ★_ جب یہ لشکر عیسائیوں کے لشکر کے سامنے آیا  تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا :- 

"_ اے مجاہدین اسلام ؛ حملے کے لیے تیار ہو جاؤ , دشمن اگر بھاگ نکلے تو اس کا پیچھا نہ کرنا,  آپس میں متحد رہو اور اتفاق سے رہو ... ہلکی آواز سے بولو،  اللہ کو اپنے دلوں میں یاد کرو  اور تلواریں جب ایک بار نیام سے باہر نکالو تو پھر جب تک تم اپنے دشمنوں کے سر قلم نہ کر دو ان کو نیاموں میں نہ رکھنا _,*


★_ اس تقریر کے بعد حملہ شروع ہوا ، اس وقت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے اسی گھوڑے پر سوار تھے جس پر جنگ کرتے ہوئے وہ شہید ہوئے تھے، شدید لڑائی کے بعد آخر دشمن بھاگ نکلا، ان میں سے بے شمار قتل ہوئے اور لشکر اسامہ کامیاب رہا ،اس جنگ میں ایک بھی مسلمان شہید نہیں ہوا تھا ، 


★_ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کامیابی کی خبر مدینہ منورہ روانہ فرمائی،  مدینہ منورہ میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی،  جب لشکر مدینہ میں داخل ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سمیت مدینہ کے لوگوں نے اس کا زبردست استقبال کیا،  حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس وقت بھی اپنے والد کے گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے گھوڑے آگے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے چل رہے تھے اور یہ وہی پرچم تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند روز پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا تھا ،


★_ جب کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنانے پر اعتراض کیا تھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:-

"_ جس پرچم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خولا تھا ،  میں اسے کس طرح لپیٹ دوں _,"


★_ اس وقت مسلمانوں کی خوشی بے پایاں تھی، اس مہم کا سب سے اچھا نتیجہ یہ سامنے آیا  کہ قیصر روم  بد ہواس ہو گیا، وہ اس وقت حمص میں تھا، اس نے اپنے لوگوں سے کہا :-

"_ دیکھو یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں نے تمہیں خبردار کیا تھا لیکن تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا ... اب ذرا ان عربوں کی ہمت اور جرات دیکھو، ایک ماہ کے فاصلے پر آ کر تم پر حملہ کر دیتے ہیں اور صحیح سلامت واپس چلے جاتے ہیں _،"


★_ عرب اور شام کی سرحدوں پر جو قبائل آباد تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر باغی ہوگئے تھے،  اس فتح سے انہیں یقین ہوگیا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے،  ورنہ اس قدر فاصلے پر لشکر ہرگز روانہ نہیں کر سکتے تھے،  اس خیال نے ان پر مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی،


★_ یہ مہم ماہ ربیع الاول 11 ہجری میں روانہ کی گئی تھی اور اور روانہ ہونے کے بعد واپس آنے تک دو ماہ لگے تھے،  اس زبردست کامیابی کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ فرمایا جو زکوۃ کا انکار کر بیٹھے تھے، 

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-20*


 ╨─────────────────────❥     

★_ *"_منکرین زکوۃ سے اعلان جنگ _,*


★_ "_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ کے آس پاس آباد قبائل نے اعلان کر دیا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے، جن میں بنو کنانہ، بنو غطفان،  بنوں قرارہ، بنو عبس اور ذییان شامل تھے، انہوں نے اعلان کیا :- ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں دیں گے _,"

اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قبائل کے خلاف اعلان جنگ کیا تو ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکے ،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ پر اعتراض کرتے ہوئے عرض کیا :- "_  آپ ان لوگوں سے کس طرح جہاد کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ ...  لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ .. نہ کہیں ، لیکن جب وہ کلمہ پڑھ لیں گے تو ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہو جائیں گے _,"


★_ اس بات کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ،"_ نماز اور زکوۃ میں فرض ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں , چنانچہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوۃ کا ذکر ایک ساتھ ہے، اس کے علاوہ قرآن میں ارشاد ہے..  پس اگر یہ لوگ توبہ کرلیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کریں تو انہیں کچھ نہ کہو _,"


★_ اس کے علاوہ ایک دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں طائف کا ایک وفد آیا تھا، اس نے کہا تھا کہ ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم نماز نہیں پڑھی گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سختی سے ان کی بات رد فرمائی تھی اور فرمایا تھا ، بھلا وہ دین ہی کیا جس میں نماز نہیں ہو _,"

سو جب نماز کے بغیر دین نہیں تو زکوٰۃ  کے بغیر بھی دین نہیں _,"


★_ یہ جواب سن کر حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے اس بات کو درست تسلیم کر لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا :- تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے دیکھ لیا ، اللہ تعالی نے ابوبکر کا سینہ کھول دیا تھا _,"


★_ جو لوگ یہ بات کرنے کے لیے آئے تھے کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے وہ مایوس ہو کر لوٹ گئی، مدینہ منورہ سے رخصت ہوتے وقت ان لوگوں نے یہ بات صاف محسوس کر لی تھی کی مدینہ منورہ میں اس وقت تھوڑے مسلمان باقی ہیں زیادہ تر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ساتھ جا چکے ہیں، انہوں نے اپنے قبیلوں کو جمع کیا ، ساری صورتحال انہیں بتای کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے ... اس وقت مدینہ منورہ پر قبضہ کرنا  بہت آسان کام ہوگا _,


★_ ادھر یہ لوگ یہ منصوبہ بنا رہے تھے،  ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وقت کی نزاکت کو محسوس کر لیا اور مدینہ منورہ کی حفاظت میں لگ گئے ، پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ بڑے بڑے صحابہ حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کی سرکردگی میں  مدینہ منورہ کے مختلف راستوں پر حفاظتی دستے مقرر فرما دیے، 


★_  باقی جو لوگ مدینہ منورہ میں تھے ان پر مسجد کی حاضری ضروری قرار دی تاکہ ‌ ہنگامی حالت میں فوراً سب کو خبر ہو جائے، ساتھ ہی آپ نے سب لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا :-

مسلمانوں ! یہ جو وفد یہاں سے گیا ہے یہ تمہاری تعداد کی کمی کو دیکھ کر گیا .. یہ لوگ کسی بھی وقت  تم پر حملہ کر سکتے ہیں, یہ ہیں بھی آس پاس کے ،  انہیں مدینہ منورہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی، ہم نے ان کی بات نہیں مانی لہذا یہ حملہ ضرور کریں گے _,"


★_ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خیال بالکل درست ثابت ہوا،  زکوۃ کا انکار کرنے والے قبائل نے مدینہ منورہ پر حملہ کردیا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی حفاظتی دستے مقرر فرما دیے تھے، انہوں نے حملے کی اطلاع آپ کو بھیج دی، آپ نے انہیں پیغام بھیجا کہ اپنی جگہ ڈٹے رہو، میں آ رہا ہوں ،  پھر آپ نے مسلمانوں کو ساتھ لیا اور باغیوں کے مقابلے میں آئے، زوردار جنگ ہوئی ... باغی حملے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے،


★_ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، باغیوں نے  ذوحسی کے مقام پر پہنچ کر پناہ لی، وہاں ان کے ساتھ دوسرے باغی شامل ہوگئے،  ایک بار پھر یہ لوگ مدینہ منورہ پر حملہ کے لیے روانہ ہوئے ، ان حملہ کرنے والوں میں قبیلہ عبس، ذبیان، بنو مرة  اور بنو کنانہ وغیرہ کے لوگ شامل تھے ،


★_ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی جان  چکے تھے کہ یہ لوگ پھر حملہ کریں گے، لہذا انہوں نے جنگ کی تیاری جاری رکھی، فوج کی باقاعدہ تربیت کی، فوج کے دائیں بازو پر حضرت نعمان بن مقرن اور بائیں بازو پر حضرت عبداللہ بن مقرن رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ،  پھر اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچتا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی طرف بڑھے، ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، وہ ابھی سوئے پڑے تھے کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا،  وہ بدحواس ہو کر بھاگے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے  ذوالقصہ کے مقام پر پہنچ کر دم لیا، 


 لیکن باغیوں میں اب حملہ کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی، آپ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو وہاں چھوڑا اور مدینہ منورہ لوٹ آئے،  اسلامی لشکر کی اس شاندار کامیابی سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،  اس کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کی زکوٰۃ لے کر آنے لگے، یعنی پہلے زکوۃ کے انکاری تھے..  اب خود لے کر آگئے، اس سے مسلمانوں کی مالی حالت مضبوط ہو گئی ،

[

 ★_ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی جان  چکے تھے کہ یہ لوگ پھر حملہ کریں گے، لہذا انہوں نے جنگ کی تیاری جاری رکھی، فوج کی باقاعدہ تربیت کی ،  پھر اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچتا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی طرف بڑھے، ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، وہ ابھی سوئے پڑے تھے کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا،  وہ بدحواس ہو کر بھاگے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے  ذوالقصہ کے مقام پر پہنچ کر دم لیا، 


★_  لیکن باغیوں میں اب حملہ کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی، آپ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو وہاں چھوڑا اور مدینہ منورہ لوٹ آئے،  اسلامی لشکر کی اس شاندار کامیابی سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،  اس کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کی زکوٰۃ لے کر آنے لگے، یعنی پہلے زکوۃ کے انکاری تھے..  اب خود لے کر آگئے، اس سے مسلمانوں کی مالی حالت مضبوط ہو گئی ،

 

★_ اس دوران ایک واقعہ اور ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ذوالقصہ سے واپس لوٹ آئے تو قبیلہ عبس اور ذبیان نے وہاں موجود تھوڑے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور انہیں دھوکے سے قتل کر دیا، صدیق اکبر کو یہ خبر ملی تو قسم کھائی :-  جب تک ہم ان قبیلوں سے مسلمانوں کے ناحق خون کا بدلہ نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے _,"


*★_ اس دوران حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکر شاندار فتح حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گیا, اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور زیادہ اطمینان نصیب ہوگیا,  آپ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بناتے ہوئے ان سے فرمایا :- "_تم لوگ اب آرام کر لو_,"

پھر آپ نے خود ایک فوج لے کر ذوالقصہ کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تاکہ غدار قبیلوں کو سزا دیں اور مسلمانوں کا انتقام لے سکیں،


★_ اس پر چند بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان سے عرض کیا :-  اے خلیفہ رسول ! آپ نہ جائیے،  اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا یا آپ زخمی ہوگئے تو ہم لوگوں کا نظام باقی نہیں رہے گا،  جب کہ اگر آپ یہاں رہیں گے تو اس سے دشمن پر رعب رہے گا ،  آپ اپنے بجائے کسی اور کو بھیج دیں ،


 ★_ اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ انہوں نے آپ سے عرض کیا :- "_ اے خلیفہ رسول ! آپ کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔  اپنی جان کو خترے میں نہ ڈالیں _,"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے اصرار کے باوجود خود ہی جانا پسند فرمایا اور اور ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوگئے،  مقام ابرک میں پہنچ کر لوگوں پر حملہ کیا ، ان کے سردار حارث اور اوف تھے،  ان دونوں کو شکست دی ، بنو عبس اور بنو بکر خوفزدہ ہو کر بھاگے،  آپ نے چند دن ابرق میں آرام فرمایا ، پھر آگے بڑھے اور بنو ذبیان کو شکست دی اور ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ،  اس طرح  قبیلہ عبس اور ذبیان نے جن مسلمانوں کو شہید کیا تھا، ان سے انتقام لے لیا،  پھر فتح کا پرچم لہراتے ہوئے واپس آئے،  


★_ بنو ذبیان، عبس ، غطفان اور ان کے علاوہ دوسرے قبیلوں کی یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آخری جنگ تھی،  یہ قبیلے مدینہ منورہ کے قریب آباد تھے اور اعراب مدینہ کہلاتے تھے، چاہیے تو یہ تھا کہ اب یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اطاعت کو قبول کر لیتے،  زکاۃ کی فرضیت کے بھی قائل ہوجاتے اور پکے سچے مسلمان بن جاتے،  لیکن اب یہ مسلمانوں کے مقابلے میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ان کی صفوں میں شامل ہو گئے،


★_ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکر کچھ دنوں تک آرام کرنے کے بعد پھر سے تازہ دم ہو چکا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی طرف توجہ فرمائی،  آپ نے اسلامی فوج کو گیارہ حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر حصے کا ایک سالار مقرر فرمایا،  ان لشکروں کو روانہ کرنے سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب فرمایا،


★_ ان گیارہ لشکروں میں سے پہلا لشکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو طلحیہ اسدی اور مالک بن نویرہ کی طرف روانہ فرمایا ، طلحیہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، جب کہ مالک بن نویرہ زکوۃ کا منکر تھا ،


★_ طلحیہ بزاخہ میں ٹھہرا ہوا تھا،  ‌وہ ادھر ادھر کے قبیلوں کو ملا کر مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری میں مصروف تھا،  اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلا لشکر اس کی طرف روانہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کرتے وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:-  تم پہلے قبیلہ بنو طے کی طرف جاؤ، پھر بزاخہ کا رخ کرنا، وہاں سے فارغ ہو جاؤ تو پھر بطاح کی طرف رخ کرنا اور جب تم اس مہم سے فارغ ہو جاؤ تو میرا دوسرا حکم آنے تک وہی ٹھہرنا _,"


 ★_حضرت خالد رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی طے کی طرف روانہ ہوئے، آپ نے اپنی روانگی سے پہلے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو قبیلہ بنی طے کی طرف روانہ کیا، وہ مسلمان ہو چکے تھے اور اس قبیلے کے معزز آدمی تھے،  انہوں نے قبیلے کے لوگوں میں پہنچ کر کہا :-

"_ دیکھو ! خالد بن ولید ایک لشکر جرار لے کر تم لوگوں کی طرف روانہ ہوچکے ہیں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسلام قبول کرلو اور طلحیہ کا ساتھ چھوڑ دو ورنہ اسلامی فوج تم لوگوں کو تباہ و برباد کر دے گی _,"


★_ یہ سن کر وہ لوگ مذاق اڑانے لگے، تب حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے سخت لہجے میں کہا :- "_  تم ہو کس خیال میں ..  جو شخص تمہاری طرف لشکر لے کر آرہا ہے، وہ بہترین جنگجو ہے، میں نے تمہیں سمجھا دیا، اب تم جانو تمہارا کام جانے _,"

تب ان لوگوں نے کہا :-  اچھا آپ ذرا حضرت خالد کے لشکر کو ہم سے روکے رکھیں،  ہمارے جو بھائی طلحیہ کے پاس چلے گئے ہیں ہم ان کو بلا لیں،  ورنہ ہمارے مسلمان ہونے کی خبر سن کر طلحیہ انہیں قتل کرا دے گا _,"


★_ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ انہوں نے یہ بات مان لی اور مقام سنح میں آئے، یہاں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے،  انہوں نے آ کر کہا :-  آپ ذرا تین دن تک ٹھہرے رہیں .. اس دوران بڑے بڑے جنگجو آ کر آپ کے ساتھ مل جائیں گے _,"


★_ اور پھر یہی ہوا،  قبیلہ بنی طے کے وہ افراد جو طلحیہ کے پاس بزاخہ چلے گئے تھے واپس بلا لیے گئے، پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ انہیں لے کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا ، ساتھ ہی وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوگئے،  اس طرح حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی فوج میں ایک ہزار جنگ جو لوگوں کا اضافہ ہوگیا، اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہو گیا اور حضرت خالد رضی اللہ کی فوج میں ایک ہزار کا اور اضافہ ہوگیا،  اس پر حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی خوب تعریف ہوئی،


★_ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے  کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس بصیرت کے مالک تھے،  یہ انہی کی ہدایات تھی کہ پہلے قبیلہ بنی طے کی طرف جانا ... صرف اسی ہدایت کی وجہ سے دو ہزار افراد  نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ لشکر میں شامل بھی ہو گئے، 

اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بزاخہ کی طرف بڑھے، جہاں دشمن مقابلے کی زبردست تیاریاں کر رہا تھا _,

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-24*


 ╨─────────────────────❥     

★_ طلحیہ سے مقابلہ _,*


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر سے آگے جاسوسی کی غرض سے سے عکاشہ بن محصن  اور حضرت ثابت بن اقرم انصاری رضی اللہ عنہم کو روانہ کیا تھا،  راستے میں ان دونوں کو طلحیہ کا بھائی حبال مل گیا،  انہوں نے اس کو قتل کر دیا ، طلحیہ کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کی تلاش میں نکلا اور ان دونوں حضرات کو شہید کردیا،  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب اس مقام پر پہنچے تو اپنے دونوں ساتھیوں کی لاشوں کو دیکھ کر سخت رنجیدہ ہوئے،  اب آگے بزاخہ کا میدان تھا،  طلحیہ کے ساتھ اس وقت عینیہ بن محصن فزاری اپنے قبیلے کے سات سو بہادروں کے ساتھ تھا، ان کے علاوہ قبیلہ قیس اور بنو اسد بھی اس کے ساتھ تھے ،


★_ آخر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ انہوں نے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی،  وہ نہ مانے تو جنگ شروع کر دی، زبردست جنگ ہوئی،  طلحیہ اس وقت اپنے خیمے میں تھا،  عینہ اس کے پاس آیا اور بولا :- جنگ کے بارے میں کوئی وحی آئی ہے یا نہیں ؟

جواب میں اس نے کہا- ابھی کوئی وحی نہیں آئی, تم جنگ کرو، میں وہی کا انتظار کر رہا ہوں,

عینیہ پھر  میدان جنگ کی طرف لوٹ گیا ، اپنے ساتھیوں کو لڑاتا رہا، باقی لشکر بھی جنگ کی آگ میں کود چکا تھا،  مسلمان پورے جوش و جذبے سے لڑتے رہے ایسے میں عینیہ ایک بار پھر طلحیہ کے پاس اس کے خیمے میں آیا :- ہاں ! کیا خبر ہے , جبرائیل آئے یا نہیں ؟

"_ابھی نہیں آئے جنگ جاری رکھو_,"

 وہ پھر میدان جنگ میں لوٹ گیا، آخر لشکر میں شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے، وہ پریشان ہو کر تیسری بار پھر طلحیہ کے خیمے میں آیا اور پوچھا:-  وہی آئی یا نہیں _,"

"_ ہاں ! جبرائیل آئے تھے، طلحیہ نے فوراً کہا ، 

"_تب پھِر انہوں نے کیا کہا ؟

 انہوں نے کہا ہے،  یہ لڑائی تمہارے لیے چکی کا پاٹ ثابت ہوگئی،  عینیہ کے لئے یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرے گا _,"


★_ اس وقت عینیہ کو احساس ہو گیا کہ یہ شخص جھوٹا ہے،  اس نے میدان جنگ میں جاکر اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا :- اے بنی فزارہ .. طلحیہ جھوٹا ہے ، اس لیے بھاگ چلو_,"

 اپنے سردار کا حکم سنتے ہی وہ بھاگ نکلے ،ان کے بھاگ نکلتے ہی لڑائی کا رنگ بدل گیا،  باقی مرتد پہلے ہی حوصلہ ہار چکے تھے،  وہ بھاگتے ہوئے طلحیہ کے خیمے تک آئے اور اس سے کہا :- اب کیا حکم ہے ؟ 

وہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اپنی بیوی کو بھی سوار کرایا گھوڑے کو ایڑ لگا کر بولا - تم لوگ بھی بھاگ چلو _,"


★_ اس طرح مرتد دم دبا کر بھاگے، میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، طلحیہ وہاں سے بھاگ کر سیدھا شام پہنچا، کچھ دنوں بعد جب اسے معلوم ہوا کہ قبیلۂ اسد اور غطفان دونوں مسلمان ہو گئے ہیں، تو وہ بھی مسلمان ہو گیا، وہ بنوں کلب میں آ کر رہنے لگا،  کسی نے اس کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا، انہوں نے فرمایا کہ اب اس کے خلاف کچھ نہیں کیا جاسکتا ، وہ مسلمان ہو گیا ہے _, 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ،


 ★_ طلحیہ کی شکست کے بعد قبیلہ بنو اسد بنو قیس اور بنو فزارہ نے اسلام قبول کرلیا،  قبیلہ بنو عامر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے :- اب ہم نماز بھی پڑھیں گے اور زکوٰۃ بھی دیں گے _,"

گویا ان لوگوں نے بھی اطاعت قبول کرلی، عینیہ بن محصن فزاری اور اس کے خاص ساتھیوں کو گرفتار کرکے مدینہ منورہ بھیج دیا گیا،  مرتدوں کو عبرت ناک سزائیں دی گئیں ، فتح کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی،


★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بزاخہ میں ایک ماہ تک ٹھھرے رہے، ادھر میدان جنگ سے بھاگے ہوئے لوگ ایک عورت " ام زمل" کے گرد جمع ہوگئے،  ام زمل کی ماں" ام قرفہ" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک لڑائی میں گرفتار ہونے کے بعد قتل کر دی گئی تھی، ام زمل مسلمانوں سے اپنی ماں کا بدلہ لینے پر تلی ہوئی تھی، اس نے مسلمانوں سے انتقام کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا،  ان باغیوں کو لے کر یہ عورت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر نکلیں، اس وقت یہ اپنی ماں کے اونٹ پر بیٹھی تھی اور بہت فخر و غرور کا عالم اس پر طاری تھا ،


★_ حضرت خالد کو اس کے کوچ کا علم ہوا تو خود اس کے مقابلے پر نکلے، جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں نے ام زمل کے اونٹ کو گھیر لیا، اس طرح وہ ماری گئی، اس کے اونٹ کی حفاظت کے لئے سو سوار مقرر تھے، وہ بھی اس لڑائی میں مارے گئے،  اس فتح کی خبر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی،


★_ آس پاس کچھ اور لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان کی سازشوں کو بھی ختم کیا،  ان لڑائیوں میں جو بڑے بڑے سردار پکڑے گئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ منورہ بھیج دیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا، یہاں تک کہ عینہ نے اسلام قبول کرلیا یا تو اسے رہا کردیا گیا،  طلحیہ بھی مسلمان ہو گیا تھا اسے بھی معاف کر دیا گیا _,


 ★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دنوں میں کچھ لوگوں کو زکوۃ وصول کرنے کی غرض سے بھیجا تھا،  یہ لوگ قبیلہ بنو تمیم میں موجود تھے اور زکوۃ وصول کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا، اب ان حجرات میں ایک اختلاف پیدا ہوگیا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکوۃ کی رقم کا کیا کریں،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیجے یا یہی کے لوگوں میں تقسیم کر دیں _,


★_ اس قبیلے بنو تمیم کا ایک شخص مالک بن نویرہ تھا وہ ان کا اہم آدمی تھا، اس نے زکوۃ کی رقم کو  مدینہ بھیجنے سے انکار کردیا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو بھیجا تھا ان کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کی رقم مدینہ منورہ بھیجی جائے گی، بس اس بات پر یہ شخص مسلمانوں کے خلاف ہو گیا _,"


★_ ابھی یہ اختلافی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ عراق کے ایک علاقے الجزیر کی ایک عورت سجاح بنت حارث وہاں پہنچ گئی،  یہ نبوت کا دعوی کر چکی تھی، اس کے ساتھ ایک بڑا لشکر تھا،  اس لشکر میں عراق کے بنو تغلب شامل تھے، ان کے علاوہ قبیلہ ربیعہ، نمر، آیاد  اور شیبان کے تجربے کار لوگ شامل تھے،  خود سجاح بنو تمیم سے تھی یعنی جس قبیلے کا مالک بن نویرہ تھا،  سجاح کا تعلق بنو تمیم کے ساتھ ساتھ بنو تغلب سے بھی تھا اور یہ سب لوگ عیسائی تھے،  اب چونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کو اسلام سے دشمنی تھی اس لیے یہ چالاک عورت ان لوگوں کو اسلام کے خلاف ابھارا کر لے آئی تھی،  یہ عورت پہلے سے ہی موقے کی تلاش میں تھی، جوں ہی اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اپنا لشکر لے کر مدینہ کی طرف چل پڑی،  کہا جاتا ہے کہ ایران کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ ہے،


★_ اب یہ سیدھی مالک بن نویرہ کے پاس پہنچی تھی،  وہاں پہلے ہی زکوۃ کی رقم کے معاملے میں اختلاف ہو چکا تھا،  لہذا مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ سجاح کے لشکر میں شامل ہوگیا،  دونوں ایک ہو گئے،  مالک بن نویرہ نے سجاح کو مشورہ دیا کہ ابھی مدینہ منورہ پر حملے کا وقت نہیں ہے بلکہ ابھی آس پاس کے لوگوں کو اپنی نبوت کا قائل کرے ،  انہیں ساتھ لائے،  اس طرح ہماری طاقت اور بڑھ جائے گی،  سجاح نے مالک بن نویرہ کا مشورہ مان لیا _,


*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-28*


 ╨─────────────────────❥     

★_ مسیلمہ کزاب سے مقابلہ _,*


★_ ادھر یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا ، اس کے ساتھیوں میں کسرت ایسے لوگوں کے تھی جو اسے جھوٹا سمجھتے تھے لیکن دولت اور اقتدار کے لئے اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، سجاح کے بارے میں مسیلمہ کزاب کو معلوم ہوا  تو فکر مند ہوگیا ، اس نے سوچا اگر سجاح میرے ساتھ شامل ہو جائے تو ہماری طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا_،


★_ ادھر سجاح کو بھی یہی بات سوجھی، چنانچہ دونوں میں ملاقات ہوئی، اس طرح دونوں نے شادی کر لی، اب سجاح کی فوج بھی مسیلمہ کی فوج میں شامل ہو گئ، اس کے جھنڈے تلے 40 ہزار فوجی جمع ہوگئے،  شادی کے بعد سجاح اپنی قوم میں کچھ ضروری معاملات نمٹانے کے لئے چلی گئی، لیکن پھر واپس نہ آ سکی،  یہ بعد میں مسلمان ہو گئی تھی،


★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ طلحیہ کو شکست دے چکے تھے، انہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم ملا کہ اب تم یمامہ جا کر مسیلمہ کا مقابلہ کرو _،


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یہ حکم سن کر آگے بڑھے تو زکوٰۃ کے کچھ منکرین اپنی زکوۃ لے کر ان کی خدمت میں حاضر  ہوئے اور انہوں نے نئے سرے سے اسلام قبول کر لیا،   البتہ مالک بن نویرہ نہ آیا ، وہ ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی اس میں نہیں تھی، اس لئے اس نے اپنے لوگوں کو منتشر کر دیا تھا، خالد خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو میدان صاف تھا،  انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو لوگ نماز پڑھیں زکوۃ دیں انہیں کچھ نہ کہا جائے،  جو ایسا نہ کریں انہیں سزا دی جائے ،  اسلامی لشکر کے کچھ لوگ جب مالک بن نویرہ کے علاقے میں پہنچے تو انہوں نے اسے قتل کر دیا کیونکہ ابھی تک اس نے زکوٰۃ کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا تھا،  نہ زکوۃ لے کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تھا ،


★_ اب اسلامی لشکر یمامہ کی طرف بڑھا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے پہلے ایک لشکر عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسیلمہ کی طرف روانہ کیا تھا لیکن انہیں ہدایت دی تھی کہ جا کر ابھی حملہ نہ کریں، ان کی مدد کے لئے آپ نے دوسرا لشکر ثرحبیل بن حسنہ کی  قیادت میں روانہ فرمایا تھا ،


★_ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کردیا ثرحبیل رضی اللہ عنہ کے لشکر کا انتظار نہ کیا،  اس طرح انہوں نے مسیلمہ کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی،  کیوں کہ مسیلمہ تو اس وقت تک بہت طاقت پکڑ چکا تھا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو آپ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور انہیں ایک دوسرے محاذ پر جانے کا حکم دیا اور ثرحبیل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کے وہاں ٹھہریں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا انتظار کریں ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم پا کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یمامہ کی طرف بڑھے یہاں تک کہ حضرت ثرحبیل رضی اللہ عنہ سے آ ملے،  مسیلمہ کزاب اس وقت یمامہ کے علاقے کے عقرباء میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھا،  تاریخ کی کتابوں میں ان کی فوج کی تعداد 40 ہزار سے 60 ہزار تک لکھی ہے ،


★_ آخر دونوں لشکر ایک دوسرے کی طرف بڑھیں،  زبردست جنگ شروع ہوگئ مورخین نے لکھا ہے کہ اسلام میں یہ سب سے پہلی شدید ترین لڑائی تھی اور اس میں مرتدوں نے حیرت انگیز حد تک بہادری دکھائی،  مسلمانوں کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر ان کا حوصلہ اور بڑھ گیا،  لیکن جلد ہی مسلمانوں نے خود کو سنبھال لیا،  اب جنگ گھمسان کی ہونے لگی، ایسے میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو حکم دیا :-  ہر دستہ الگ الگ ہو کر لڑے _,"


★_ مسیلمہ کو اس کے محافظوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہ پوری طرح اس کی حفاظت کر رہے تھے، اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے محسوس کرلیا کہ جب تک مسیلمہ اور اس کا حفاظتی دستہ سلامت ہے، ان لوگوں کو شکست نہیں دی جاسکتی، چناچہ انہوں نے ایک زوردار نعرہ لگایا اور اس دستے پر ٹوٹ پڑے،  ان کی تلوار بجلی کی طرح حرکت کر رہی تھی ، اور مسیلمہ بھاگنے لگا ، اس کے دستے میں سے کسی نے کہا - یہ کیا مسیلمہ تو بھاگ رہا  ہے .. تو تو ہم سے فتح اورکامرانی کا وعدہ کرتا تھا ، وہ فتح کہاں ہے ؟

 یہ سن کر بھی وہ نہ روکا خود تو بھاگ رہا تھا لیکن اپنی فوج سے کہہ رہا تھا - اپنے حسب نسب کے لیے لڑو _,"

اس کی بات کا ان پر کیا اثر ہوتا جبکہ خود بھاگ رہا تھا، نتیجہ یہ کہ فوج کے پاؤں اکھڑ گئے، ان کے پیچھے ایک بہت بڑا قلعہ نما باغ تھا .. مسیلمہ اور اس کی ساری فوج اس باغ میں داخل ہوگی اور اور دروازہ بند کر لیا ،


 ★_ اس باغ کے گرد بہت مضبوط چاردیواری تھی،  یہ باغ دراصل مسیلمہ کا قلعہ تھا، مسیلمہ خود کو یمامہ کا رحمان کہتا تھا اس طرح اس باغ کا نام بھی رحمان باغ تھا، اس باغ کا دروازہ بند ہونے کے بعد مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا انہوں نے باغ کو گھیرے میں لے لیا،  اب سوال یہ پیدا ہوا کہ باغ کے اندر کس طرح داخل ہوں،  اس وقت حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک انوکھی تجویز پیش کی، انہوں نے کہا -  مسلمانوں یوں کرو کہ مجھے مل کر اٹھاؤ اور جھولا دے کر قلعے کی دیوار سے اونچا اچھال دو،  میں دوسری طرف جا کر گروں گا اور انشاء اللہ دروازہ کھول دوں گا _,


★_ مسلمانوں نے بار بار انکار کیا اور انہوں نے اصرار کیا ، آخر مجبور ہوکر مسلمانوں نے انہیں اپنے نیزوں پر اٹھایا اور اوپر کی طرف اچھال دیا ، یہ دیوار کے اوپر سے ہوتے ہوئے باغ کے اندر عین دروازے کے پاس گرے، وہاں ان گنت دشمن موجود تھے، یہ جو ان کے اوپر گرے، وہ بدحواس ہو گئے انہوں نے خیال کیا کہ نہ جانے ان پر کیا بلا آ گری، لہذا گھبرا کر ادھر ادھر ہو گئے، حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے اتنا موقع ہی کافی تھا، انہوں نے فوراً اٹھ کر دروازہ کھول دیا،  مسلمان باغ کے اندر داخل ہوگئے،  اس طرح ایک بار پھر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی، لاشوں کے انبار لگ گئے،


★_ ایسے میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ  نے کام دکھایا ،  یہ حضرت زبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ، غزوۂ احد میں ان کے ہاتھوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے،  اس کے بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے،   یہ نیزے پھینکنے میں بہت ماہر تھے اور اپنی ساری مہارت سے کام لے کر انہوں نے تاک کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا تھا ،  آج اسی مہارت سے کام لے کر انہوں نے مسیلمہ پر نیزہ پھینکا ،  اس وار سے مسیلمہ جہنم رسید ہو گیا اور اس کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی، وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے ،


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ انہوں نے میدان جنگ کا معائنہ کیا اور لاشوں کے ڈھیر میں پڑی مسیلمہ کی لاش کو دیکھ کر اطمینان ظاہر کیا، اس روز سے اس باغ کا نام موت کا باغ مشہور ہو گیا ،  مسیلمہ کے لشکر کی 10 ہزار سے زیادہ آدمی مارے گئے، جب کہ مسلمانوں میں سے بارہ سو شہید ہوئے،


★_ مرتدوں کے ساتھ جتنی برائیاں لڑیں گی یہ ان سب میں بڑی اور سخت جنگ تھی، اس جنگ میں بڑے بڑے نامور صحابہ شہید ہوئے لیکن چونکہ مسیلمہ اس وقت اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا اور اس کے خلاف یہ فیصلہ کن جنگ تھی ، اس لئے اس جنگ کے بعد مسلمانوں کے قدم جزیرۃ العرب میں جم گئے،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو گیارہ لشکر ترتیب دیے تھے ان میں سے ایک لشکر کا سالار حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا، انہیں آپ نے بحرین کی طرف روانہ فرمایا تھا، بحرین ایرانی حکومت کا علاقہ تھا ، یہ ایک ریگستانی علاقہ تھا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بحرین کے سردار منزر بن سادی کو خط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی تھی، اس دعوت کے نتیجے میں منزر اور بحرین کے صدر مقام ہجر کا گورنر مرزبان مسلمان ہو گئے تھے،  ان کے ساتھ جتنے قبیلے آباد تھے ان سب نے بھی اسلامی اسلام قبول کر لیا تھا،  یہ واقعہ   ٨ ہجری کا ہے ، 


★_ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد منزر بن سادی کا بھی انتقال ہو گیا، اب دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی بحرین کے لوگ بھی اسلام سے پھر گئے، وہاں ایک صحابی حضرت جارود بن بثر رضی اللہ عنہ تھے، یہ کچھ مدت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے، انہوں نے قبیلہ عبد قیس کو پھر سے اسلام  قبول کر لینے کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کر لیا،  باقی لوگ بنوبکر وغیرہ مرتد ہی رہے،  یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف روانہ فرمایا ،


★_ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یمامہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تھے، حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو لئے ایک صحرا سے گزر رہے تھے کہ شام ہو گئی، انہوں نے وہیں ٹھہر نے کا پروگرام بنایا تھا تاکہ رات کے وقت صحرا میں راستہ نہ بھول جائیں، اب وہاں عجیب اتفاق ہوا ، جن اونٹوں پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا وہ بدک کر بھاگ نکلے اور مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہا ، اب تو لشکر بہت پریشان ہوا، صحرا میں خوراک نہ ہوں تو جان پر بن جاتی ہے، انہیں اپنی موت کا یقین سا ہوگیا، ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگے،  تاہم حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا:- "_ اے لوگو ! کیا تم اللہ کے راستے میں نہیں ہو, یقین کرو اللہ تم جیسے لوگوں کو رسوا اور ذلیل نہیں کرے گا _,"


★_ اسلامی فوج جب صبح کی نماز سے فارغ ہوئی تو دور سے انہیں پانی کی چمک نظر آئی، ریگستان میں جب ایسی چمک نظر آئے تو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں پانی ہے لیکن وہاں جانے پر پتا چلتا ہے کہ ریت کی چمک تھی پانی کی نہیں، انہوں نے بھی یہی خیال کیا، تاہم فوج کے   ہر اول دستے نے آگے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا، وہاں پہنچے تو وہ پانی ہی تھا،  اب تو سب کے سب بہت خوش ہوئے،  سب نے پانی پیا غسل کیا اور پانی اپنے مشقیزوں میں بھر لیا ،  سورج ذرا بلند ہوا تو اونٹ بھی ادھر ادھر سے ان کے پاس آئے،  مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اب لشکر تازہ دم ہو کر آگے روانہ ہوا اور بحرین کے مقام پر پہنچ گیا ،


★_ بحرین کی فوج کے سالار کا نام مطعم بن جبیر تھا ، بحرین کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ تھی،  ایک رات اس لشکر میں شوروغل کی آوازیں سنائی دیں، حضرت علاء  رضی اللہ عنہ نے معلومات حاصل کرنے کے لیے چند فوجی روانہ کئے، انہوں نے آ کر بتایا کہ ایرانی سپاہی شراب پی کر نشے میں شور مچا رہے ہیں،  یہ سنتے ہی حضرت علاء رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر ان پر ٹوٹ پڑے،  بحرین کا لشکر بدحواس ہو گیا ، بہت سے قتل ہوئے، بے شمار گرفتار ہوئے اور بہت سے بھاگ نکلے،  مطعم بھی مارا گیا ، بھاگنے والے کشتیوں میں سوار ہوکر دارین پہنچ گئے ،


★_ دارین ایک جزیرہ تھا، یہاں عیسائی آباد تھے،  حضرت علاء رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کرنا چاہا  لیکن مسلمانوں کے پاس کشتیاں نہیں تھیں، تب حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے اپنے مجاہدین سے کہا :-  مسلمانوں !  کچھ خوف نہ کرو ، جس اللہ نے تمہاری خشکی میں مدد کی وہی سمندر میں بھی تمہاری مدد کرے گا _,"


★_ ان الفاظ کے بعد تمام لشکر نے اللہ سے دعا کی، نہایت عاجزی سے گڑگڑائے اور اپنے گھوڑے خچر اور یہاں تک کہ گدھے تک سمندر میں ڈال دیے،  اس طرح اسلامی لشکر نے سمندر پار کر لیا اور جزیرہ دارین کے ساحل پر پہنچ گئے ، 

علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا :-_

*"_ دست تو دست دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے،*

*"_ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے ،*


★_ اب  یہاں بھاگنے والوں کو بھی کسی اور طرف سے بھاگنے کا راستہ نہیں تھا، اس لئے وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے، آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی، اس جنگ میں بے حد مال غنیمت ہاتھ آیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فتح کی خوشخبری کا پیغام پہنچا دیا گیا _,"


نتائج کے اعتبار سے یہ جنگ یمامہ کی جنگ سے زیادہ اہم تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ یمامہ میں صرف ایک قوم سے جنگ تھی، جبکہ بحرین خلیج فارس پر واقع تھا اور ایران کی حکومت کے ماتحت تھا اس لیے یہ جنگ کسی ایک قوم سے نہیں  تھی، بہت سی قوموں سے تھی،  ان لوگوں میں یہودی عیسائی اور آتش پرست تھے، اس جنگ کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں کے لیے عراق کی فتح کی راہ ہموار ہو گئی ،


*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-32*


 ╨─────────────────────❥     

*★_عراق کی طرف لشکر _,*


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکمل طور پر مرتدوں کے خلاف کامیابی حاصل کر چکے تو آپ نے بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ دی،  اس وقت دو بڑی طاقتیں روم اور ایران اسلام کی دشمن تھیں، روم کے لوگ عیسائی تھے جبکہ ایرانی لوگ آگ کو پوجتے تھے، یہ مجوسی کہلاتے تھے، اس وقت  پورا شام رومی حکومت میں شامل تھا اور عراق ایرانی حقومت کا حصہ تھا ، ان دونوں حکومتوں کی سرحدیں عرب میں مل جاتی تھی،  یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی ہمت اور جرات تھی کہ ایک ہی وقت میں ان دونوں کے خلاف کارروائی شروع کی ، 


★_ ایرانیوں کو اپنی طاقت پر بہت ناز تھا ان کا خیال تھا کہ انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ، مسلمانوں کو تو وہ کچھ  سمجھتے ہی نہیں تھے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں آس پاس کے ملکوں کے بادشاہوں کو خطوط کے ذریعے اسلام کا پیغام بھیجا تھا ، ایک خط آپنے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو بھی ارسال فرمایا تھا،


★_ اس بد بخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھے بغیر پھاڑ دیا تھا اور غصے میں آکر یمن کے گورنر کو یہ پیغام بھیجا  تھا :- جس شخص نے مجھے یہ خط لکھا ہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو _,"

 جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ اس نے اپ کا  خط ٹکڑے ٹکڑے کردیا  تو ارشاد فرمایا :- اللہ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا _,"


★_ پھر ہوا یہ کہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے نے حکومت کے لالچ میں قتل کر دیا، اس کے بعد ایرانی آپس میں لڑنے لگے ، اس کی سرحدوں پر عرب قبیلے آباد تھے ، یہ ان پر بھی ظلم اور زیادتیاں کرتے تھے،  جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مرتدوں کے فتنے کو کچلینے میں کامیاب ہوگئے تو حضرت مشنی بن حارثہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے خلیفۂ رسول کو ایران کے حالات بتائے،  جو ظلم و ستم وہ توڑ رہے تھے اس کی تفصیلات بتائیں اور خود انہوں نے ایران کے خلاف  جو کاروائی اب تک کی تھی ان کی تفصیل بھی سنائی اور آخر میں مدد کی درخواست کی ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ارادہ پہلے ہی یہ تھا کہ اسلام کی دشمن طاقتوں کے خلاف لڑائی شروع کی جائے ،  چنانچہ آپ نے مشنی بن حارثہ سے فرمایا :-  تم واپس جاؤ  اور سرحدوں کے قریب آباد سارے عرب قبیلوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو ، ہم تمہاری مدد کےلیے جلد ہی فوج بھیج رہے ہیں _,"


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا :- فوراً عراق کی طرف روانہ ہو جاؤ اور مثنیٰ کو ساتھ ملا کر ایران کے ظالم مجوسیوں کے خلاف لڑائی شروع کرو _,

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس وقت یمامہ میں تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم ملتے ہی وہ دس ہزار  مجاہدین کے ساتھ عراق کی طرف بڑھے ، یہ واقعہ بارہ ہجری کا تھا ،


★_ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایات دیں :-

١_ عراق کی سرزمین پر پہنچ کر لوگوں کی دل جوئی کریں اللہ کی طرف انہیں دعوت دیں، اگر اس دعوت کو قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ طلب کریں، جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو پھر ان سے جنگ کریں_,

٢_ جو لوگ ساتھ جانے کے لئے تیار نہ ہو ان پر جبر نہ کریں_, 

٣_ جو لوگ مرتد ہوگئے تھے لیکن پھر مسلمان ہو گئے ان سے کسی قسم کی مدد طلب نہ کریں_,

٤_ جو مسلمان پاس سے گذریں انہیں ساتھ ملا لیں_,

٥_ اپنی جنگ کا آغاز  ابلہ سے کریں _,"


★_ یہ آخری حکم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے اس لیے دیا تھا کہ اس زمانے میں شاہ ایران کا سارا جنگی سامان ابلہ میں موجود تھا گویا اس کی فوجی چھاؤنی تھی،  یہ شہر بندرگاہ بھی تھا ، اس کے ذریعے عرب اور ہندوستان کے درمیان تجارتی تعلقات قائم تھے،


★_ اسلامی لشکر عراق کی طرف بڑھا اس وقت عراق کا گورنر " ہرمز " ایران کے بہت بڑے پہلوانوں میں شامل تھا،  یہ بہت ہی ظالم تھا، اس کے ظلم سے تنگ آ کر حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے ایرانی سرحدوں پر گوریلا کارروائیاں شروع کی تھیں ،


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کی حدود میں داخل ہوئے تو حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ آٹھ ہزار فوج کے ساتھ ان سے آ ملے،  اب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ کا سردار حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا،  دوسرے حصے کا سالار حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور تیسرا حصہ خود اپنے پاس رکھا ، سب سے آگے حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر روانہ ہوا، اس کے دو دن بعد حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کا اور تین دن بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر روانہ ہوا ،


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ہرمز کے نام خط بھی لکھا جس میں فرمایا :-  تو اسلام لے آآ،محفوظ رہے گا، ورنہ جزیہ ادا کر، یہ بھی منظور نہیں تو جنگ کے لئے تیار ہو جا،  میں تیری طرف ان لوگوں کو لے آیا ہوں جو موت کو اتنا محبوب رکھتے ہیں جتنا تم زندگی کو _,"


★_ ہرمز کو خط ملا ، ساتھ ہی اسے مسلمانی فوج کی کارروائی کی اطلاعات ملی تو اس نے ایران کے بادشاہ یزدگرد کو یہ تمام حالات لکھ بھیجے،  پھر اپنا لشکر لے کر تیزی سے حزیر کے مقام کی طرف بڑھا ، وہاں پہنچ کر اس نے پانی کے پاس پڑاؤ ڈال دیا،  حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر وہاں پہنچا تو انہیں یہ پریشان کن خبر ملی کہ ہرمز نے پانی پر قبضہ کر لیا اور ہمارے پاس پانی نہیں ہے ،


★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے ساتھ مل کر اللہ سے دعا کی،  بس پھر کیا تھا بارش شروع ہو گئی اور جل تھل ہو گیا،  دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں،  زبردست جنگ ہوئی،  مسلمانوں کو فتح ہوئی اور ہرمز مارا گیا ، ہرمز کے مارے جاتے ہی ایرانی حوصلہ ہار بیٹھے ، وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور دریائے فرات کے پل پر پہنچ کر ہی دم لیا ، اس مقام پر بعد میں شہر بصرہ آباد ہوا ، بے تحاشہ مال غنیمت ہاتھ آیا ، اس میں ایک ہاتھی بھی تھا،  مدینہ منورہ کے لوگوں نے زندگی میں کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا، یہ ان کے لیے عجیب جانور تھا ،


: ★_ اس جنگ سے فارغ ہوکر  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حیرا کی طرف بڑھے،  یہ خلیج فارس اور مدائن کے درمیان واقع تھا، ادھر یزدگرد کو  ایرانیوں کی عبرتناک شکست کی خبر ملی تو اس نے ایک لشکر روانہ کیا، پھر اس کی مدد کے لیے اس کے پیچھے ایک اور لشکر روانہ کیا، انہوں نے راستے میں ملنے والے قبائل کو بھی ساتھ ملا لیا، اس طرح ان دونوں لشکروں میں مسلمانوں کے خلاف بہت سے عیسائی شامل ہوگئے، ان سب نے مل کر دلیجہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ، دلیجہ دریا دجلہ اور فرات کے ملنے کی جگہ پر واقع تھا ، 


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایرانیوں کی تیاریوں کی اطلاع ملی تو پورے سازو سامان کے ساتھ روانہ ہوئے ، یہ جنگ آسان نہیں تھی، آخر جنگ شروع ہوگئی اور اسلامی لشکر کو فتح ہوئی ،


★_ جنگ کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ بہت نرم سلوک کیا ان سب کو امان دے دی ،


★_ اس وقت ایرانی حکومت کی طرف سے  حیرا کا گورنر ازازیاں تھا ، اسے اسلامی لشکر کی آمد کا پتہ چلا تو اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا، ساتھ ہی اس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا- اسلامی لشکر دریا پار کر کے اس طرف آئے گا تم دریا کا پانی کاٹ دو _,"


[ ★_ اس طرح دریا کا پانی خشک ہوتا چلا گیا اور اسلامی لشکر کی کشتیاں زمین سے لگ گئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنا ایک دستہ لے کر کشتیوں سے اترے اور آزازیہ کے لڑکے کو قتل کر دیا ،


★_ ایسے میں آپ آزازیہ کو ایران کے شہنشاہ کے مرنے کی خبر ملی، اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وہ بھاگ نکلا، حیرہ کے لوگ قلعہ بند ہو گئے، اسلامی لشکر نے حیرہ شہر کو گھیر لیا آخر حیرہ کے لوگ صلح پر مجبور  ہو گئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ 90 ہزار درہم سالانہ جزیہ پر صلح کی اور فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی،


★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں ایک بار اطلاع ملی تھی کہ دومتہ الجندل میں دشمنوں کی ایک بڑی فوج جمع ہو رہی ہے، یہاں اکیدر نانی شخص کو قیصر کی طرف سے دومۃ الجندل کا حاکم مقرر کیا گیا تھا، یہ ایک عربی سردار تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ہجری ماہ شوال میں اس کے مقابلے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تھا،


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے مدینہ منورہ لے آئے تھے اور یہ مسلمان ہو گیا تھا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دومۃ الجندل کے لوگوں پر مقرر فرما دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ مرتد ہوگیا تھا،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تھا،  یہاں تک کہ اس مہم میں ایک سال گزر گیا لیکن فتح نہ کرسکے ، اب انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مدد کا پیغام بھیجا، پیغام ملتے ہی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دومتہ الجندل کا رخ کیا، انہوں نے تین سو میل کا سفر دس دن سے بھی کم مدت میں طے کیا اور دومۃ الجندل پہنچ گئے ،

 

★_ اکیدر چونکہ پہلے ہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگی صلاحیتوں سے واقف تھا اس لیے اس نے دوسرے قبائل کو صلح کا مشورہ دیا، انہوں نے انکار کیا تو  یہ ان سے الگ ہو کر نکل بھاگا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کے فرار ہونے کی اطلاع ملی تو اس کے پیچھے ایک دستہ روانہ فرمایا ، مجاہدین اسے گرفتار کرکے لائے چونکہ یہ مرتد ہوگیا تھا اور باغی بھی تھا اس لیے اسے قتل کر دیا گیا،


★_ اب دشمن فوج کی سپہ سالاری جودی نامی سردار کے ہاتھ میں تھی، اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا تو دوسرا حضرت عیاض بن غنم کی طرف،  زبردست جنگ ہوئی، آخر مسلمانو کو فتح ہوئی،


★_ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ابھی دومۃالجندل ہی میں تھے کہ عراق کے عرب قبائل نے ان کی غیر موجودگی میں بغاوت کر دی ، شکست کھائے ہوئے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے،  حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ اگرچہ وہاں موجود تھے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑی فوج تھی اس لئے انہوں نے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا انتظار کرنے لگے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ بھی اطلاع ملتے ہی اس طرف روانہ ہوئے ، حیرہ  پہنچ کر انہوں نے بغاوت کرنے والوں کے خلاف حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ کو فوج دے کر بھیجا،  اس جنگ میں ایرانی سردار روزمہر اور روزیہ مارے گئے، بغاوت کی آگ بھڑکانے میں یہ دونوں آگے تھے ،  یہ جنگ حصید کے مقام پر لڑی گئی،


★_ اس مقام سے بھاگ کر ایرانی خنافس کے مقام پر جمع ہوئے ، اسلامی لشکر اس طرف بڑھا تو یہ لوگ وہاں سے بھاگ نکلے ، اب یہ لوگ ایک اور مقام پر جمع ہوگئے، اس جگہ کا سردار ہزیل تھا، اسلامی فوج نے ان سب پر کاروائی شروع کر دی،


★_ یہ سارا فتنہ برپا کرنے والے لوگ در اصل بنو تغلب کے تھے، یہی لوگ دوسروں کو جنگ پر ابھار رہے تھے، اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں سبق سکھانے کا پکا ارادہ کر لیا، انہوں نے حضرت قعقاع اور ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہم کو فوج دے کر مختلف راستوں پر بنو تغلب کی طرف روانہ کیا اور دونوں کو حملے کا وقت بتا دیا، پھر خود بھی روانہ ہوئے، اس طرح بنو تغلب پر ایک ہی وقت میں اچانک تین طرف سے حملہ کیا گیا، اس اچانک حملے سے وہ ایک دوسرے کو خبر بھی نہ دے سکے،


★_  ان تمام مہمات سے فارغ ہوکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فراض کا رخ کیا، یہ رومیوں کا علاقہ تھا ، رومیوں نے اسلامی لشکر کو دیکھا تو ان کے غصے کی حد نہ رہی ،


*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-43*


 ╨─────────────────────❥ 

*★_ شام کی مہمات کی تیاریاں _,*


★_ فراز عراق اور شام کی سرحد پر دریا فرات کے شمالی حصے میں واقع تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کی بغاوت کچلنے کے بعد فراز پہنچے، آپ نے اسلامی لشکر کو دریا فرات کے کنارے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، اب رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا، یہ پورا مہینہ ان کا وہی گزرا ، پھر ١٥ ذیقعدہ، ١٢ ہجری تک دونوں فوجیں اسی طرح آمنے سامنے پڑی رہیں، دونوں فوجوں کے درمیان میں دریا حائل تھا ،


★_ آخر رومیوں نے پہل کی اور دریا پار کر کے اس طرف آ گیے اور جنگ شروع ہو گئی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کو حکم دیا - دشمن کی فوج منتشر نہ ہونے دیں بلکہ انہیں چاروں طرف سے گھیر کر لڑو _,

مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور رومیوں اور عیسائیوں کے عظیم لشکر درہم برہم ہو گئے، 


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ان جنگوں کا زمانہ محرم 12 ہجری سے سفر 13 ہجری تک ایک سال ایک ماہ ہوتا ہے ، اس مختصر مدت میں ان کے ہاتھ جو فتوحات ہوئی وہ جنگوں کی تاریخ میں ایک عجوبہ واقعہ ہے، ان جنگوں کا دائرہ خلیج فارس سے لے کر شام کی سرحد تک وسیع ہے ،


★_ پھر یہ جنگیں کسی ایک قوم سے نہیں لڑی بلکہ ان میں ایرانی رومی اور عرب کے قبائل سب ہی شامل تھے، ہر موقع پر تعداد اور اسلحے کی زیادتی انہیں حاصل تھی اور اسلامی لشکر کی تعداد ہر موقع پر ان کے مقابلے پر بہت کم رہیں اور سازوسامان بھی بہت کم تھا، ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالی نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلامی لشکر کو عظیم الشان فتوحات سے نوازا، ان تمام معرکوں میں کسی ایک میں بھی مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی ،    


★_ لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کسی علاقے کو فتح کرتے ہی آگے نہیں چل دیتے تھے بلکہ فتح کیے ہوئے علاقوں کا باقاعدہ بندوبست کرتے تھے ، وہاں کا حاکم مقرر فرماتے تھے،   لوگوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا جاتا تھا، اسلامی تعلیمات سے انہیں روشناس کرایا جاتا تھا اور وہ اسلامی تعلیمات اور خوبیوں کے بہت جلدی دلدادہ ہو جاتے تھے،


★_ اس لحاظ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ترین فاتح بن کر سامنے آئے اور ان جیسی مثال پھر کوئی پیش نہ کرسکا، مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئے تھے، ان کے حوصلے بہت بلند تھے، ان کے لیے شام کی طرف بڑھنا بہت آسان ہوگیا تھا ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کے خلاف اعلان جنگ سے پہلے اس کے نام خط روانہ فرمایا، اس خط کے ذریعے آپ نے سب سے پہلے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،  اس پیغام کے جواب میں قیصر روم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، 


★_ تمام تیاریاں مکمل ہوگئی تو فوج کی روانگی کا وقت آ گیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا، ان چار لشکروں میں سب سے بڑا لشکر حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا تھا، دوسرے لشکر کے سالار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، تیسرا  لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا تھا اور چوتھا حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ کا تھا ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا - تو تبوک کے راستے دمشق پہنچوں_,"

 حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فلسطین کے لئے مقرر کیا ، انہیں حکم دیا - تم ایلہ کے راستے فلسطین جاؤ _,"

 باقی لشکر کو بھی آپ نے ان کے پیچھے ہی روانہ فرما دئیے،


★_ شام کے محاذ پر بارہ ہزار کا لشکر کافی نہیں ہو سکتا تھا، قیصر  نے بہت بڑے پیمانے پر تیاری کی تھی، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسلامی لشکر کے آگے پیچھے لشکر روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ، اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد تعداد 30 ہزار ہوگئی ،


★_ اسلامی لشکر سے پہلے  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قیصر کی تیاریوں کے سلسلے میں اطلاعات ملی تو آپ نے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو تیما کی طرف روانہ فرمایا تھا ، تیما شام کی سرحد پر واقع تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روانہ کرتے وقت یہ ہدایت دی تھی کہ تم وہاں پہنچ کر آس پاس کے لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرو ...  اور جب تک میرا حکم نہ پہنچے، اس وقت تک جنگ نہ کرو _,


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دراصل انہیں سرحد کی حفاظت کے لیے پہنچایا تھا کہ قیصر کی طرف سے حملہ ہوجائیے تو روک تھام کی جاسکے، انہوں نے قیصر کی فوج کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تو ابوبکر صدیق کو تفصیلات لکھ بھیجی،  ابھی اسلامی لشکر وہاں نہیں پہنچا تھا اور حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ اتنے بڑے لشکر کو روک نہیں سکتے تھے،  چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ انہوں نے حکم بھیجا - آگے بڑھو , لیکن دشمن سے لڑتے وقت اندر تک نہ گھستے چلے جانا،  ایسا نہ ہو کہ

 دشمنی تمہیں پیچھے سے دبا لے _,"

 حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے اس حکم توجہ نہ دی اور جوش میں آگے بڑھتے چلے گئے ،


★_ رومی فوج کا افسر سر باہان تھا اس نے اسلامی لشکر کو بڑھتے دیکھا تو فوج کا رخ تبدیل کر دیا، یہ اس کی جنگی چال تھی، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ آگے بڑھتے چلے گئے اور باہان نے پیچھے سے ان کو گھیر لیا، ان کے لیے پیچھے ہٹنا بھی ممکن نہ رہا، میدان جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے ، میدان جنگ سے پسپا ہو گئے اور مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام ذواالموہ پر پہنچ کر دم لیا، 


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو انہیں بہت رنج پہنچا، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار کا لشکر سرحدوں کی طرف روانہ فرما دیا تھا، چاروں لشکر الگ الگ تھے لیکن ان کے آپس میں رابطے تھے، آپس میں مشوروں کا سلسلہ برابر جاری تھا ، قیصر روم کو ان چاروں لشکروں کا علم ہو چکا تھا، اس کے پاس فوج بے شمار تھی اس لئے اسے پوری طرح یقین تھا کہ مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے،


★_ تیاریوں کے سلسلے میں قیصر خود حمص آیا، یہ شہر شام کی بہت بڑی فوجی چھاؤنی تھی، یہاں پہنچ کر اس نے بھی اپنے لشکر کے چار حصے کئے، ایک لشکر کا سالار اپنے بھائی کو مقرر کیا، اس شکر کی تعداد 90 ہزار تھی اس کے مقابلے میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا جن کی تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی،


★_ قیصر کے دوسرے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اس کے مقابلے میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا جن کی تعداد بھی ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی، تیسرا لشکر کی تعداد 90 ہزار تھی یہ لشکر حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آیا جن کی تعداد بھی ساڑھے سات ہزار تھی، قیصر نے چوتھا لشکر حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر بھیجا ،


★_ مسلمانوں کو رومیوں کی ان زبردست تیاریوں کا علم ہوا اور اپنی کم تعداد کا اندازہ ہوا تو فکرمند ہوگئے، ان حالات کی تفصیل مدینہ منورہ بھیجی گئی وہاں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم آیا :- اب تم سب الگ الگ نہیں بلکہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ,...  یعنی چار کی بجائے اپنا ایک لشکر بلالو، اپنی کم تعداد کا غم نہ کرو، تم اللہ کے دین کے مددگار ہو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا، تم سب مل کر یرموک میں جمع ہو جاؤ _,


★_ یرموک دراصل ایک دریا کا نام ہے یہ دریا جوران کے پہاڑوں سے نکلتا ہے،  یرموک کا دریا جہاں اردن  کے دریا سے ملتا ہے وہاں سے تیس چالیس میل کے فاصلے پر  واقوصہ نامی مقام ہے، یہ بہت وسیع علاقہ ہے تین طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، قیصر کی فوج نے اسی مقام پر پڑاؤ ڈال دیا تھا، مسلمان بھی دریا یرموک کو پار کر کے رومیوں کے مقابلے پر پہنچ گئے ، گویا اب رومی تین طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے سامنے جو راستہ تھا وہاں اسلامی لشکر  پڑاؤ ڈال چکا تھا، اس طرح رومی لشکر پہاڑوں کی وادی میں گھر کر رہ گیا ،


★_ یہ قدرتی صورت حال دیکھ کر حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور فرمایا :- مسلمانوں ! تمہیں مبارک ہو, رومی لشکر گھیرے میں آ گیا _,"


★_ دونوں لشکر دو ماہ تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے پڑے رہے ،  اس دوران معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں  پوری طرح جنگ شروع نہ ہوسکی،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان حالات کی خبر ملی تو آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ عراق میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کرکے یرموک پہنچیں _,


★_ اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایران کے دارالحکومت مدائن پر حملے کی تیاری کر رہے تھے، خلیفہ رسول کا حکم پا کر آپ فوراً یرموک کی طرف روانہ ہوگئے ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو حکم بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے :- "_  تم روانہ ہو جاؤں ، یہاں تک کہ یرموک میں جو مسلمان جمع ہیں ان سے جا ملوں، کیوں کہ وہ غم زدہ ہیں اور جب تم وہاں پہنچ جاؤں تو پھر لشکر کی کمان تم ہی سنبھالو _,"


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پوری اسلامی فوج کا جائزہ لیا اور اس کی صف بندی کی، ایک ایک دستے کے پاس خود گئے ان کے سامنے پرجوش تقریریں کی، اس جنگ میں مسلمان عورتیں بھی شامل تھی انہیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑا کیا تھا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان عورتوں سے فرمایا :- اگر کچھ مسلمان میدان چھوڑ کر بھاگیں تو انہیں غیرت دلانا.. شرمندہ کرنا _,"


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز کے بعد جنگ شروع کرنا چاہتے تھے کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا،  لیکن رومیوں نے آگے بڑھ کر ان پر حملہ کردیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خود اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حملہ شروع کیا، اسلامی فوج ایک جان ہو کر آگے بڑھیں اور اس قدر زبردست جوابی حملہ کیا کہ رومیوں کے اندر تک گھستے چلے گئے ،


★_ جنگ جاری رہی، دونوں لشکر جان توڑ کر لڑتے رہے، آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، اللہ اکبر کے نعروں سے میدان جنگ گونج اٹھا،  فتح کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا :- "_تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور میری آنکھوں کو فتح کی خوشخبری سے ٹھنڈا کردیا _,"

 یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات سے 24 دن پہلے کا ہے،



 ╨─────────────────────❥

     *★_ صدیق اکبر کی جانشینی _,*


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کی فتوحات کا سلسلہ یہی تک ہے، اس کے بعد جو فتوحات ہوئی ان کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے ہے ،


★_ جب صدیق اکبر کی بیماری کی شدت آئی تو آپ کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ خلیفہ کسے مقرر کیا جائے، اس سلسلے میں مشورہ کے لئے آپ نے  بڑے بڑے صحابہ کو بلایا اور حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں ان کی رائے معلوم کی،


★_ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا :- اے ابوبکر ! آپ کو معلوم ہے کہ عمر کے مجاز میں سختی ہے ، اس کے باوجود آپ انہیں اپنا جانشین بنا رہے ہیں، کل اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے ؟

اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں لیٹے ہوئے تھے ،  حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر آپ کو غصہ آگیا، بولے:-  مجھے بٹھا دو _,"


★_ لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا، تب آپ نے فرمایا :- "_ کیا مجھے میرے پروردگار سے ڈراتے ہو ؟ میں جب اپنے رب سے ملوں گا اور وہ اس سلسلے میں مجھ سے سوال کرے گا تو میں کہوں گا ، اے اللہ ! میں نے تیرے بندوں پر ایک ایسے شخص کو مقرر کیا ہے جو بہترین ہے _,"


★_ پھر جب سب چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:- "_ عمر کی جانشینی کا پروا نہ لکھیں _,"

وہ قلم دوات لے کر بیٹھ گئے،  تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- "_لکھو .. بسم اللہ الرحمن الرحیم .. یہ عہدنامہ ہے جو ابوبکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کے لئے لکھوایا ہے_,"

ابھی اتنا لکھوایا تھا کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی _,


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہلے سے معلوم تھا انہوں نے سوچا اگر بے ہوشی طویل ہوگئی اور اسی عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو یہ پروانہ نامکمل نہ رہ جائے اور ملک میں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے، چنانچہ خود ہی لکھ دیا :-  میں نے تم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے اور میں نے اس معاملے میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں کی _,"


★_ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوش میں آگئے آپ نے پوچھا - کیا لکھا ؟ انہوں نے عبارت کو پڑھ کر سنائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خوش ہو کر بول اٹھے - اللہ اکبر ! اللہ تمہیں جزا عطا فرمائے، اب یہ لوگوں کے درمیان سنا دو _,"


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی دعوت پر سب لوگ جمع ہو گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ رسول کا حکم پڑھ کر سنایا ، سب نے اس فرمان کو  خوشی سے قبول کیا،  اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود چھت پر تشریف لے آئے  اور فرمایا - لوگوں میں نے جس شخص کو خلیفہ مقرر کیا ہے ، میرا کوئی رشتے دار نہیں ہے ..  بلکہ وہ عمر ہے...  کیا تم انہیں قبول کرتے ہو ؟ سب نے ایک آواز ہو کر کہا - ہم نے سنا اور اطاعت کی_,"


★_ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ کو بلایا اور انہیں نصیحت فرمائی،  نصیحت کے بعد فرمایا :-  مثنیٰ بن حارثہ کی مدد کے لیے سب کام چھوڑ کر مزید فوج عراق روانہ کرنا _,"

پھر پوچھا :- جب سے میں خلیفہ بنانا ہوں اس وقت سے اب تک مجھے کتنا وظیفہ ملا ہے ؟ حساب کرکے انہیں بتایا گیا ، چھ ہزار درہم ، آپ نے فرمایا :- میری فلا زمین فروخت کر کے یہ رقم بیت المال میں جمع  کروا دی جائے _,"


★_ اس کے بعد فرمایا - میرے خلیفہ بننے کے بعد سے لے کر اب تک میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا ہے ؟ آپ کو بتایا گیا - ایک جنسی غلام ہے جو بچوں کو کھلاتا ہے اور تلواریں تیز کرتا ہے ایک اونٹنی ہے جس پر پانی لایا جاتا ہے ایک چادر ہے جس کی قیمت سوا روپے کے قریب ہے،  یہ سن کر ارشاد فرمایا - میری وفات کے بعد یہ چیزیں خلیفۂ وقت کو بھیج دی جائیں_,"


★_جب یہ چیزیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی گئی تو وہ رو پڑھے .. روتے جاتے اور کہتے جاتے - اے ابو بکر ! آپ اپنے جانشینوں کو بہت مشکل میں مبتلا کر گئے_,"


★_ پھر آپ نے اپنے گھریلو معاملات کے ذمہ دار حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا -  اے معیقیب ! تم میرے گھر کے منتظم ہو ، بتاؤ میرا اور تمہارا کیا حساب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا - میرے 25 درہم آپ کے ذمے ہیں وہ میں نے آپ کو معاف کئے،  یہ سن کر فرمایا - چپ رہو ! میرے توشہ آخرت میں قرض شامل نہ کرو _,"

پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور انہیں حکم فرمایا - معیقیب کو 25 درہم ادا کر دیئے جائیں _,"


★_ پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا -  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، آپ کو بتایا گیا- تین کپڑوں میں, حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت دو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا- بس تو پھر میرے یہ دو کپڑے تو ہیں ہی، تیسرا کپڑا بازار سے خرید کر مجھے کفن دے دینا _,"

یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا - ابا جان ! ہم آپ کے لیے تینوں نئے کپڑے خرید سکتے ہیں،  آپ نے فرمایا- بیٹی ! نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ہے_,"


★_ اب اپنی بیوی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو وصیت  کی - مجھے غسل تم دینا _",  وہ رو کر کہنے لگیں- یہ مجھ سے نہیں ہوگا، آپ نے فرمایا - تمہارا بیٹا عبدالرحمان تمہاری مدد کرے گا _,"

اس کے بعد پوچھا - آج کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے بتایا- آج پیر کا دن ہے , آپ نے پوچھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کونسے دن ہوئی تھی ؟ آپ کو بتایا گیا - پیر کے دن ،  آپ نے فرمایا - تب میں امید کرتا ہوں کہ میری وفات بھی آج ہی کے دن ہوگی ... میری قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ بنائی جائے _,"


★_ ان وصیتوں سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آپ پر موت کے آثار طاری ہوگئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حسرت بھرے انداز میں یہ شعر پڑھنے لگیں :- وہ پر نور صورت جس کے چہرے کا صدقہ دے کر کے بادلوں سے بارش مانگی گئی ... جو یتیموں پر مہربان ہو اور فقیروں کی پناہ ہو _,"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کانوں میں یہ شعر پڑا تو تو چونک اٹھے , کیونکہ یہ شعر شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا تھا ، چنانچہ فوراً بولے- یہ شان تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی,


★_ آخر موت کی گھڑی آ گئی، ایک بجلی آئی اور خلافت و امامت کا یہ آفتاب دنیا سے روپوش ہو گیا ، آپ کے آخری الفاظ یہ تھے :- اے رب تو مجھے مسلمان اٹھا اور صالحین کے ساتھ میرا حشر کر _,


★_ آپ کی وفات پائی22 جمادی الثانیہ 13 ہجری بروز پیر مغرب اور عشاء کے درمیان ہوئی، رات ہی میں آپ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے وصیت کے مطابق آپ کو غسل دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت طلحہ اور عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم قبر میں اترے آپ اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پہلو میں لٹا دیا ، اس طرح کہ آپ کا سر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ مبارک تک آ گیا تھا، اللہ اکبر ! مرنے کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احترام کہ آپ کے برابر نہیں لیٹے ،


★_ وفات کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بھی وفات کے وقت 63 برس تھی، آپ کی خلافت کی مدت دو برس تین مہینے اور گیارہ دن ہے، رضی اللہ عنہ و ارضاہ_,*


 ╨─────────────────────❥  

*★_ خلافت صدیقی _,*


★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد مسلمانوں کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات پہلا بڑا صدمہ تھا، اس صدمے میں مدینہ منورہ کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے، ایک لرزہ چھا گیا ، پورے جزیرہ نمائے عرب میں غم طاری ہوگیا، جو شخص ابوبکر صدیق رضی اللہ کے جتنا قریب تھا، اتنا ہی زیادہ غمزدہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات کی خبر سننے پر یہ الفاظ فرمائے :- آج خلافت نبوت ختم ہو گئی _,"


★_ پھر وہاں آئے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی میت موجود تھی، اس مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا:- اے ابوبکر ! اللہ تم پر رحم کرے , آپ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے اور قابل اعتماد ساتھی تھے , آپ ﷺ کے مشیر اور راز دار تھے, آپ سب سے پہلے اسلام لائے ، آپ سب سے زیادہ مخلص مومن تھے، آپ کا یقین سب سے زیادہ مضبوط تھا ،


★_ آپ سب سے زیادہ زیادہ اللہ کا خوف کرنے والے تھے، اللہ کے دین کے بارے میں سب سے زیادہ بے نیاز یعنی دوسروں کی پرواہ کرنے والے نہیں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ بابرکت ساتھ دینے میں ان سب سے بہتر ، فضیلت میں سب سے بڑھ کر، پیش قدمیوں میں سب سے افضل اور برتر، درجے میں سب سے اونچے اور قرب کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ ، سیرت اور عادت میں سب سے مہربان اور فضل میں سب سے زیادہ اونچے مرتبہ والے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم اور معتمد تھے، پس اللہ جل شانہٗ اسلام اور اپنے رسول کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ،


★_ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اس وقت کی جب لوگوں نے آپ صلی اللہ وسلم کو جھٹلایا ، اس لیے اللہ جل شانہ نے آپ کو اپنے کلام میں صدیق فرمایا ، یعنی یوں فرمایا- سچائی لانے والے محمد صلی اللہ وسلم ہیں اور ان کی تصدیق کرنے والے( ابو بکر) ہیں ( یہ سورہ زمر کی آیت ٣٣ کی طرف اشارہ ہے) آپ نے حضور ﷺ کے ساتھ اس وقت غمخواری کی جب لوگوں نے آپ ﷺ سے بخل کیا، آپ ناگوار باتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے رہے جب لوگ آپ صلی اللہ وسلم سے الگ ہو گئے، آپ نے سختیوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحبت اور رفاقت کا حق ادا کیا،


★_( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے فرمایا )_ آپ ثانی اثنین اور رفیق غار تھے اور آپ پر سکینت نازل ہوئی آپ ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، آپ آنحضرت ﷺ کے ایسے خلیفہ بنے کہ خلافت کا حق ادا کر دیا ، اس وقت خلیفہ بنے جب لوگ مرتد ہوگئے ، آپ نے خلافت کا وہ حق ادا کیا یا جو کسی پیغمبر کے خلیفہ نے نہیں کیا تھا، آپنے اس وقت چستی دکھائیں جبکہ دوسرے سست ہو گئے، آپ نے اس وقت جنگ کی جب دوسرے عاجز آگئے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو اس وقت تھامے رکھا جب لوگ پیچھے ہٹ گئے تھے،


★_ آپ بلا نزاع اور بلا تفرقہ (بغیر جھگڑے کے) خلیفہ تھے اگرچہ اس بات سے منافقوں کو غصہ تھا کفار کو رنج تھا اور حاسد کراہت میں مبتلا تھے اور باغیوں کو غصہ تھا( یعنی یہ لوگ آپ کی خلافت سے راضی نہیں تھے ) آپ اس وقت حق بات پر اڑے رہے جب لوگ بزدل ہو گئے, آپ اس وقت ثابت قدم رہے جب لوگ ڈگمگا گئے, آپ اللہ تعالی کے نور (قرآن) کو لیے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی پیروی میں لوگوں نے ہدایت پائی,


★_ آپ کی آواز ان سب سے نیچی تھی مگر آپ کا مرتبہ سب سے اونچا تھا، آپ کا کلام سب سے زیادہ سنجیدہ تھا آپ کی گفتگو سب سے زیادہ درست تھی، آپ سب سے زیادہ خاموش رہنے والے تھے، شجاعت میں سب سے زیادہ بڑے ہوئے تھے، معاملات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے... اور اللہ کی قسم دین کے سب سے پہلے سردار تھے، آپ مومنین کے لیے رحیم باپ تھے اور جس چیز کا لوگوں کو اندازہ بھی نہیں تھا وہ انہوں نے پالی، آپ کافروں کے لیے آگ کی مانند تھے مومنین کے لیے رحمت اور انسیت اور پناہ کی جگہ تھے، آپ کسی سے ذرا نہیں ڈرے، پہاڑ کی مانند تھے، 


★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ آپ دوستی اور مالی خدمات کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے ، آپ جسمانی اعتبار سے اگرچہ کمزور تھے لیکن اللہ کے معاملے میں قوی تھے، آپ میں عاجزی بہت تھی، آپ میں کوئی لالچ نہیں تھا نہ معاملات میں آپ کسی کی رعایت کرتے تھے، طاقتوروں سے کمزوروں کو ان کا حق دلاتے تھے، آپ دنیا سے اس وقت رخصت ہوئے جب کہ راستہ ہموار ہو گیا مشکل آسان ہو گئی، مخالفین شکست کھا گئے، دین مضبوط ہوگیا مسلمان ثابت قدم ہو گئے، آپ نے اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا، آپ خیر سے کامیاب ہوئے،


★_ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے فرمایا )_ آپ اس سے بلند و بالا ہیں کہ آپ پر رویا پیٹا جائے، آپ کی موت کو تو آسمان میں محسوس کیا جا رہا ہے ، ہم سب اللہ کے لئے ہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، اللہ کی قضا پر ہم راضی ہیں، ہم نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیا، ہم نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیا، اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی موت جیسا کوئی حادثہ مسلمانوں پر کبھی نازل نہیں ہوا، آپ دین کی عزت، جائے پناہ اور حفاظت گاہ تھے، اللہ آپ کو اپنے نبی سے ملا دے اور ہمیں آپ کے بعد آپ کے اجر سے محروم اور گمراہ نہ کرے، انا للہ وانا الیہ راجعون _,"

*( ریاضالنضرہ، کنزالعمال، مسند احمد بن حنبل )*


★_ جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ جاری رہا لوگ سنتے رہے، جب آپ خاموش ہوئے تو لوگ بے تحاشہ رونے لگے، خوب روئے، پھر سب نے کہا:- اے علی ! آپ نے سچ کہا، 


★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس خطبے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت کا سامان ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات کا جھوٹا پرچار کرتے ہیں، کیا کوئی اپنے مخالف کے بارے میں اتنی زبردست تعریفی باتیں کہہ سکتا ہے ؟


★_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے اس موقع پر فرمایا :-

"_ اے ابا جان ! اللہ آپ کو سرسبز و شاداب رکھے, آپ کو آپ کی بہترین کوششوں کا بدلہ دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی وفات کا حادثہ سب سے بڑا حادثہ ہے، لیکن اللہ کی کتاب ہمیں صبر کا حکم کرتی ہے، یہ صبر ہی آپ کی وفات کا سب سے اچھا بدلہ ہے اور میں امید کرتی ہوں وہ مجھے میرے صبر کا بدلہ دے گا، اے ابا جان ! آپ اپنی بیٹی کا آخری سلام قبول کیجئے جس نے آپ کی زندگی میں کبھی آپ کے ساتھ پر خاش نہیں رکھی اور آپ کی وفات پر وہ رو پیٹ نہیں رہی _,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ انہوں اندر آئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نعش کو مخاطب کرکے فرمایا :-

"_ اے خلیفہ رسول اللہ ! آپ نے دنیا سے رخصت ہو کر قوم کو سخت مشقت میں ڈال دیا , آپ کا سامنا کرنا تو درکنار اب تو کوئی ایسا بھی نہیں کہ آپ کی گرد ہی کو پہنچ سکے _,"


★_ یہ سب کچھ تو اس دنیا میں ہو رہا تھا اور دوسری دنیا میں اس وقت کیا ہو رہا تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت یہ ہے کہ،

"_ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی،

"_ (ترجمہ ) اے نفس مطمئنہ تو اپنے پروردگار کی طرف ہنسی خوشی چلی آ _," ( سورہ الفجر)

پھر عرض کیا - اے اللہ کے رسول ! یہ بھی کیا خوب ارشاد باری تعالی ہے _,"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہاں ! اے ابوبکر ! جب تمہیں موت آئے گی تو اس وقت جبریل آمین تم سے یہی کہیں گے _,"

╨─────────────────────❥

*★_ جمع قرآن اور فدک کا مسلہ _,*


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جو سب سے اہم کام ہوا وہ ہے قرآن کریم کا جمع کیا جانا ، اس کی تفصیل بھی بہت دلچسپ ہے ، جنگ یمامہ میں تقریباً بارہ سو مسلمان شہید ہو گئے یہ جنگ مسیلمہ کزاب یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کے خلاف لڑی گئی تھی، اس میں 39 بڑے صحابہ  اور حافظ قرآن بھی شام تھے،


★_ یہ صرف ایک جنگ کی تعداد ہے ، دوسری جنگوں میں بھی صحابہ کرام اور قرآن کریم کے حافظ شہید ہوئے،  اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے اور عرض کیا - اے خلفائے رسول  ! یمامہ کی جنگ میں قرآن کے قاری اور حافظ بہت شہید ہوئے ہیں اس لیے اگر آپ نے قرآن جمع کرنے کا انتظام نہ کیا  تو ڈر ہے قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے _,"


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنا ایک خاص مزاج تھا اور وہ یہ تھا کہ جو کام  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے تھے...  اپنے اسی مزاج  کی بنیاد پر انہوں نے فرمایا :-  جس کام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں _,"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے-  یہ کام تو خیر کا ہے_," 

 انہوں نے بار بار کہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار وہی جواب دیتے رہے،


★_ آخر اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ کام کیا جائے، اس وقت آپ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا -  تم جوان اور سمجھدار آدمی ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے، اس لیے قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو _,"


★_ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے ایک پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کا حکم دیتے تو وہ حکم  بھی اس حکم سے مشکل محسوس نہ ہوتا _," یعنی انہوں نے اس کام کو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانے سے بھی زیادہ مشکل محسوس کیا,

پھر عرض کیا - اے خلیفہ رسول !  میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا _,"


★_ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ کام کرو، اس طرح انہوں نے اس مشکل ترین کام کو شروع کیا _," 


★ قرآن کریم کے مختلف حصے کپڑوں پر کھجور کی چھالوں پر پتوں پر لکھے ہوئے مختلف صحابہ کرام کے پاس موجود تھے، قرآن مجید بہت سے صحابہ کے سینوں میں بھی موجود تھا ، انہوں نے پوری احتیاط سے تمام آیات جمع کیں، جس جس کے پاس آیات محفوظ تھی حاصل کی اور یہ سارا قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جمع کروایا،


★_ اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید جمع ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا :- اللہ ابوبکر پر رحمتیں نازل کرے قرآن مجید جمع کرانے میں ان کا اجر سب سے زیادہ ہے کیونکہ اس کام کی پہل انہوں نے ہی کی،


★_ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سورتوں کے نام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں ہی طے ہو گئے تھے، اس بات کے ثبوت میں بہت سے صحیح احادیث ہیں، ہعض اوقات کئی کئی آیات ایک ساتھ نازل ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حکم دیتے تھے کہ فلاں آیت فلاں صورت میں لکھوں فلاں آیت فلاں صورت میں لکھو،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد قرآن مجید کا کام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا، آپ نے قرآن کریم کے بہت سے نسخہ تیار کرائے ، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہی ایک نسخہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کرایا تھا، جب بہت سارے نسخہ تیار کر لیے گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایک نسخہ ایک ایک صوبے میں بھیج دیا ،


★_ مطلب یہ کہ بنیادی طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مجید جمع کرایا تھا اس سے مجید نسخہ تیار کرائے گئے تھے، پھر یہ نسخے ملک کے دوسرے صوبوں میں بھیجے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کی سات قرأتیں ( لہجے) مقرر کیے گئے، اس طرح امت کو سات قرأتوں پر جمع کر دیا گیا، یہ وہ قرأتیں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھی ، ان کے علاوہ جو قرأتیں تھی ان کو ترک کردیا گیا،

جب تک دنیا میں قرآن مجید پڑھنے والے کلمہ گو موجود ہیں وہ اس عظیم کام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے احسان مند رہیں گے،... یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک معمول یہ تھا کہ جب کوئی مسئلہ انہیں پیش آتا تو اللہ کی کتاب سے فیصلہ کرتے اس میں مسئلے کا حل نہ ملتا تو سنت رسول میں مسئلے کا حل تلاش کرتے ، اگر اس میں بھی کامیابی نہ ہوتی تو صحابہ کو جمع کرکے ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں سے کسی کو اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل معلوم ہے، اگر کسی کو معلوم ہوتا تو بتا دیتا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کا شکر ادا کرتے، اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ سے اس بارے میں مشورہ لیا جاتا، جس بات پر سب کا اتفاق ہو جاتا اس کو قبول کر لیتے ... اور اسی کے متعلق کرنے کا حکم فرماتے ،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مسئلہ فدک کا پیش آیا ، اس بارے میں آج تک کچھ حضرات باتیں کرتے ہیں لہذا مناسب ہوگا کہ یہاں اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ بات ذہنوں میں واضح ہو جائے،


★_ خیبر کی فتح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کو چھتیس حصوں میں تقسیم کیا، ان میں سے 18 حصے اپنے لیے خاص فرما لئے اور باقی حصہ دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیے، اس کام سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محیصہ بن مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام کی غرض سے فدک کی طرف روانہ کیا، فدک کے لوگوں کا سردار یوشع بن نون تھا، ان لوگوں نے صلح کی درخواست کی اور نصف زمین دینی منظور کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرما لیا،


★_ اس وقت یہ زمین آپ صلی اللہ وسلم کے لیے مخصوص ہو گیی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے حاصل آمدنی سے گزر بسر کرتے تھے، امہات المومنین رضی اللہ عنہم کا خرچہ اس سے پورا ہوتا تھا،


★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے خیبر اور فدک کی زمینوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ تھا اس کی وراثت کا مطالبہ کیا، یعنی یہ کہا کہ یہ ان کا حق ہے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوگا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں گے صدقہ ہوگا _,"

★_ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا- آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کو جس طرح کرتے تھے میں اسے اسی طرح کروں گا _,"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا ، انہوں نے فرمایا- خیبر اور فدک کی جائیدادیں دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف تھی, یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورتوں کے لئے تھی، اب ان کا معاملہ اس کے سپرد ہے جو خلیفہ ہو اور یہ دونوں آج تک اسی حالت اور حیثیت میں ہیں _,"


★_ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تھا ، اپنی خلافت کے دوران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ حق حاصل تھا کہ خیبر اور فدک کی آمدنی کو اپنی ذات اور اپنے بال بچوں کے لیے مخصوص کر لیں لیکن انہوں نے اس میں سے کچھ نہ لیا...  آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد احترام تھا اور اہل بیت سے محبت تھی لہذا انہوں نے اس آمدنی سے انہی کے اخراجات پورے کیے ، اپنے یا اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں لیا_,


★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اور اہل و عیال کے لیے لیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی معمول برقرار رکھا، آپ نے یہ فرمایا - جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے دار مجھے اس سے زیادہ عزیز ہیں کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کروں _,"


★_ آپ نے یہ بھی فرمایا - میں نے سنا ہے نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود میں ان سب کی سرپرستی کروں گا جن کی سرپرستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور ان سب پر خرچ کروں گا جن پر آپ خرچ کیا کرتے تھے _," *( مسند احمد بن حنبل, صحیح بخاری -٢, کتاب الفرائض)*


★_ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کے مسئلے پر آخر عمر تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض رہیں، اس بارے میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ہے کہ ایسی روایات صحیح نہیں ہیں، *( البدایہ والنہایہ، 5/ 289 )*


★_ اس سارے جھگڑے کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ کی یہ روایت ختم کرتی ہے ، آپ فرماتے ہیں :- 

"_ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا آپ اس میں خرچ کرتے تھے اور اسی میں سے بنو ہاشم کے فقراء پر خرچ کرتے تھے، ان کی بن بیاہی لڑکیوں کے نکاح کرتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ درخواست کی کہ آپ فدک ان کے نام کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا _," ( سنن ابی داؤد کتاب الفرائض )


★_ مطلب یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو وہی کیا تھا جو خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ، اس پر اعتراض کیسا ؟


★_ اب اس واقعہ میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے ارشاد نبوی سننے کے بعد اطمینان ہو گیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم پھر بھی مطالبہ کرتے رہے ، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک وارث کا معاملہ ہے ان دونوں حضرات کو بھی اطمینان تھا اور اس بات کا یقین آ گیا تھا کہ خیبر اور فدک وقف ہیں، لیکن وہ اس بات کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے کہ خلفائے وقت ہی اس کا متولی ہو، ان کا ذاتی خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں کو اس کا متولی ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ان حضرات کا خیال یہ بھی تھا کہ یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں کے لئے وقف ہے، نہ کہ تمام مسلمانوں کے لئے، ( یہ وضاحت بخاری میں ملتی ہے) 


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس شرط پر ان دونوں حضرات کو اس کا متولی مقرر فرما دیا تھا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی فدک مسلمانوں کے لئے وقت تھا،( یہ ابوداؤد کی روایت ہے)


╨─────────────────────❥     

*★_ سیرتِ صدیقی کے چند گوشے _،*


★_ اس دنیا میں انبیاء علیہ السلام کے بعد آپ کا مقام ہے، آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا  اور بار بار یہی حکم فرمایا  کہ ابو بکر ہی نماز پڑھائیں،


★_ اسلام میں سب سے پہلی مسجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بنائی، آپ سب سے پہلے خلیفۂ رسول ہیں،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے آپ کو دوزخ سے نجات کی خوشخبری سنائی،  آپ خلیفۂ رسول تو تھے ہی عاشق رسول بھی تھے،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے اعلان فرمایا - جس شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو یا جس کسی کا آپ کے ذمے کوئی قرض ہو وہ میرے پاس آئے _,"


★_ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا اپنے رشتے داروں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا کر مسجد سے نکلے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نظر آئے ، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، آپ نے انہیں کندھے پر اٹھا لیا ،


★_ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مال غنیمت مدینہ منورہ بھیجا، اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے ایک خوبصورت تحفہ بھی بھیجا،  آپ نے وہ تحفہ حضرت حسن بن علی رضی االلہ عنہ کو دے دیا ، آپ خود ہی ان کا خیال نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی کہتے تھے ، ان کا خیال رکھوں !


★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا - چلئے نماز جنازہ پڑھائیں،

اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا - آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں،  آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں،

چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ، ( کنزالعمال )

★_ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا جبکہ اس وقت تو ہر طرف بت پرستی ہو رہی تھی، آپ حد درجہ پاک تھے اور پاک مال کھانا پسند کرتے تھے، آپ کا غلام ایک مرتبہ کھانے کی کوئی چیز لایا ، آپ اس وقت بھوک کی حالت میں تھے لہذا اس کو کھا لیا ، لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ غلام سے اس بارے میں پوچھا ہی نہیں ،


★_ غلام نے بتایا ہے کہ میں جھوٹ موٹ جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا، کسی زمانے میں اس جھاڑ پھونک کے بہانے کسی کو شفا ہو گئی تھی , اس کا موازنہ انہوں نے آج دیا تھا , یہ سننا تھا کہ آپ نے اس چیز کو قے کر دیا ، قے کرنے میں آپ نے بہت تکلیف اٹھائی کیونکہ بھوک کی حالت میں کھائی ہوئی تھوڑی سی چیز آسانی سے قے نہیں ہو سکتی تھی، آپ نے پانی پی کر قے کیا اور فرمایا - اس کو نکالنے میں میری جان چلی جاتی تو بھی اس کو نکال کر رہتا _"


★_ آپ نے ایک مرتبہ ایک چڑیا کو درخت پر بیٹھے دیکھا تو فرمایا واہ واہ ! اے چڑیا تو کتنی خوش نصیب ہے کاش میں بھی تجھ جیسا ہوتا ، تو درخت پر بیٹھتی ہے پھل کھاتی ہے اور پھر اڑ جاتی ہے ، تجھ سے نہ کوئی حساب ہے اور نہ کتاب..,"

کبھی فرماتے کاش میں ایک تنکا ہوتا _,"

کبھی فرماتے- کاش میں ایک درخت ہوتا اونٹ میرے پاس سے گزرتا کتا اور مجھے چبا جاتا


★_ یعنی ایسا اللہ کے خوف سے فرماتے، کسی کو کبھی سخت لفظ کہہ بیٹھتے تو جب تک اس سے معافی مانگ لیتے چین سے نہ بیٹھتے، ایک مرتبہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا، حیران ہو کر پوچھا- یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ جواب میں فرمایا- اسی زبان نے مجھے تباہ کیا ہے ،


★_ ایک مرتبہ آپ نے پینے کے لئے پانی مانگا لوگوں نے پانی میں شہد ملا کر پیش کر دیا، آپ نے پیالہ منہ سے لگایا تو رونے لگے ، جو لوگ پاس موجود تھے وہ بھی رونے لگ گئے، تھوڑی دیر تک روتے رہے ، پھر چپ ہوگئے لیکن کچھ ہی دیر بعد پھر رونے لگے، لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا :-

"_ میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں ہے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو دھتکار رہے ہیں، میں نے پوچھا- اے اللہ کے رسول ! آپ کس چیز کو دھتکار رہے ہیں مجھے تو یہاں کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ..؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا- دنیا میرے سامنے جسم کی حالت میں میں آ گئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے سامنے سے ہٹ جا لیکن وہ پھر آ گئ اور کہنے لگی- آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ بچ کر نہیں جا سکیں گے_,"

یہ واقعہ بیان کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اس وقت مجھے یہی بات یاد آ گئی تھی ، مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ مجھ سے چمٹ نہ جائے _,


”★_ خلیفہ بننے سے پہلے آپ محلے کی بچیوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے آپ خلیفہ بن گئے تو ایک چھوٹی سی لڑکی پریشان ہوگی کہ اب اس کی بکری کا دودھ کون دوہا کرے گا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک اس کی بات پہنچی تو اس سے فرمایا :- میں خلیفہ بن گیا تو کیا ہوا میں اب بھی تمہاری بکریوں کا دودھ دوہا کرونگا خلافت مجھے خدمت خلق سے باز نہیں رکھ سکے گی _,"


★_ مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت تھی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے سوچا صبح سویرے جاکر اس کے گھر کے کام کر آیا کریں گے لیکن جب آپ صبح سویرے وہاں پہنچے تو دیکھا گھر کی صفائی ہوچکی تھی اور پانی کے برتن میں پانی بھرا ہوا تھا، یہاں تک کہ بیت الخلاء کی صفائی بھی کی گئی تھی، یعنی کوئی آ کر ان سے پہلے یہ سب کام کر گیا تھا،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوسرے دن اس وقت سے بھی پہلے اس کے گھر پہنچ گئے لیکن اس روز بھی سارے کام ہو چکے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت حیران ہوئے کہ آخر یہ کون شخص ہے جو اتنے منہ اندھیرے یہ سب کام کر جاتا ہے ، تیسرے دن آپ ابتدائی رات ہی سے چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ دیکھیں کون آتا ہے، ان کی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھا، اور اس وقت وہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے ،


★_ خلافت ملنے سے پہلے آپ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے ، خلیفہ بنے تو دوسرے دن کپڑے کے تھان کندھے پر رکھ کر بازار کی طرف چل پڑے، راستے میں حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہم مل گئے، انہوں نے کہا - اے خلیفہ رسول ! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا- بازار جا رہا ہوں, انہوں نے عرض کیا- اب مسلمانوں کے خلیفہ ہیں یہ کام کریں گے تو خلافت کا کام کیسے کر سکیں گے, ہم آپ کے لئے وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں _،"

صحابہ کرام نے مشورہ کیا اور آپ کا وظیفہ مقرر کردیا, یہ وظیفہ ایک عام آدمی کے مطابق تھا,


★_ لوگ آپ کی تعظیم کرتے تو شرم محسوس کرتے اور فرماتے مجھے تم لوگوں نے بہت بڑھا چڑھا دیا ہے ، کوئی آپ کی تعریف کرتا تو دل میں کہتے - اے اللہ ! تو مجھے ان لوگوں کے خیالات کے مطابق بنا دے ، میرے گناہوں کو معاف کر دے اور ان لوگوں کی بے جا تعریف پر میری پکڑ نہ کر_,"

آپ دوسروں کا تو معمولی سے معمولی کام بھی کر دیتے تھے لیکن خود دوسروں سے ذرا سا کام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے،

اونٹ پر سوار جا رہے ہوتے اور اونٹ کی نکیل گر پڑتی تو اسے بٹھا کر نیچے اترتے اور نکیل اٹھاتے، کسی گزرنے والے سے یہ نہ کہتے کہ بھائی ذرا یہ اٹھا دینا، لوگ آپ سے کہتے بھی کہ آپ اتنی زحمت کیوں گوارا کرتے ہیں یعنی پہلے اونٹ کو بٹھاتے ہیں پھر چیز اٹھاتے ہیں آپ ہم سے کہہ دیا کریں _,"

اس کے جواب میں فرماتے - میرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں _,"

╨─────────────────────❥

*"_ فکر صدیقی _,*


★_ آپ بیت المال سے اپنے لئے وظیفہ لیتے تھے لیکن اس کی مقدار کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کی زوجہ محترمہ کا جی چاہا کہ حلوا کھائیں، آپ سے فرمائش کی تو فرمایا- گنجائش نہیں, اب انھوں نے کیا کیا، روزانہ کا جو خرچہ ملتا ہے اس میں سے کچھ بچانے لگیں، یہاں تک کہ اتنے پیسے جمع ہوگئے جن سے حلوہ تیار ہو سکتا ہے ، ان سے حلوہ تیار کیا گیا ، جب اس بات کا پتا آپ کو چلا تو فرمایا - ہمارا روزمرہ کا کھرچا اتنا کم کر دینے سے بھی پورا ہو سکتا ہے _," چناچہ گھر کا وظیفہ اتنا کم کروا لیا،


★_ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، ہجرت کے سفر کے بعد جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو ان میں سے صرف پانچ ہزار رہ گئے وہ بھی سب اللہ کے راستے میں خرچ کردیا ، مدینہ منورہ میں آ کر تجارت شروع کی لیکن اس تجارت سے جو کمایا وہ سب کا سب غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ کے راستے میں دے دیا، خلافت ملی تو تجارت ختم ہو گئی، اب نہایت معمولی وظیفہ پر گزارا کرنے لگے، 


★_ وفات سے پہلے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا - جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں اس وقت سے اب تک میں نے مسلمانوں کا کوئی ایک درہم بھی نہیں کھایا، مسلمان جو موٹا جھوٹا کھاتے ہیں وہی میں نے کھایا اور پہنا، اب میرے پاس جو کل اثاثہ ہے وہ ایک اونٹ ایک غلام اور ایک یہ چادر ہے ،


★_ یعنی اس حالت میں اپنی زندگی بسر کی،۔۔۔ لیکن غریبوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ سردی کے موسم میں کپڑے تقسیم کرتے تھے ،

╨─────────────────────❥

*شجاعت برداشت اور اخلاق _,*


★_ آپ شجاعت میں بھی سب سے آگے تھے، مکی زندگی میں جب کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھاتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہی فوراً آگے بڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ڈھال بن جاتے ، غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چھپر بنایا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھپر کے پاس موجود رہے اور جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنا چاہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،


★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم میں برداشت کا مادہ بھی بہت تھا، ایک شخص نے آپ کو منہ پر برا کہا ، آپ اس وقت خلیفہ تھے چاہتے تو اس کے خلاف کاروائی کر سکتے تھے لیکن اس کے خلاف کچھ نہ کیا، اس وقت آپ کے ایک ساتھی نے چاہا کہ اس شخص کی گردن اڑا دیں لیکن آپ نے اسے بھی روک دیا ،


★_ آپ اخلاق میں بھی دوسروں سے بڑھ چڑھ کر تھے، سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین کیا کرتے تھے کہ سلام میں پہل کرنے والے بنو، ایک مرتبہ دیکھا کہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سلام کرنے میں پہل کر رہے ہیں ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا - لوگ تمہیں سلام کرنے میں پہل کر رہے ہیں... تم کیوں پہل نہیں کرتے تاکہ تمہیں ثواب زیادہ ملے,-"

 اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول بن گیا کہ ہر کسی کو سلام میں پہل کیا کرتے تھے ،

╨─────────────────────❥

*"_ اطاعت اور حلیہ مبارک _,*


★_ دین کے احکامات کے معاملے میں آپ بہت سخت بھی تھے ، ایک مرتبہ کسی جنازے میں بہت سے لوگ آہستہ آہستہ جا رہے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اتنا آہستہ چلتے دیکھا تو کوڑا اٹھا لیا اور فرمایا - ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنازے میں تیز رفتار سے جایا کرتے تھے _,"


★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے آپ کا حلیہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا - ابوبکر گورے چٹے دبلے پتلے آدمی تھے، دونوں رخسار ستے ہوئے( یعنی ہموار ) تھے ، کمر ذرا خم دار تھی، جبڑے کی ہڈی ابھری ہوئی تھی، پیشانی بلند تھی، انگلیوں کے جوڑ گوشت سے خالی تھے، پنڈلیاں اور رانیں پر گوشت تھی، قد موزوں تھا، مہندی کا خضاب کیا کرتے تھے ، نہایت سادگی پسند تھے، کپڑے موٹے جھوٹے پہنتے تھے، کھانا سادہ کھاتے تھے، بعض اوقات فاقے کی نوبت آجاتی تھی ،


★_ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسجد میں دیکھا کہ بھوک سے بے قرار ہیں آپ نے فرمایا- میں بھی تمہاری طرح بھوکا ہوں _,"

ایک صحابی ابو الھیثم رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے کھانے کا انتظام کیا ،


★_ نماز میں آپ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے زمین میں لکڑی گاڑ دی ہو، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حق کا حد درجہ خیال رکھتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا - آج تم میں سے روزے دار کون ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے - اللہ کے رسول میں روزے سے ہوں ،

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا - تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی ہے ؟ جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے- میں نے اللہ کے رسول_,"

آپ نے پوچھا- آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟, پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے - میں نے اللہ کے رسول,

آپ نے پوچھا- کسی نے کسی مریض کی عیادت کی ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے- اے اللہ کے رسول میں نے کی ہے، اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا - جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں کی ہیں وہ یقینا جنت میں جائے گا _,"

╨─────────────────────❥

*"_ خاندان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ _,*


★_ آپ دل کے بہت نرم تھے، قرآن کریم پڑھتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، اس طرح بلخ بلخ کر روتے کہ دیکھنے والے بھی رونے لگتے، 12 ہجری میں جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے آپ کے پاس آئے، آپ کا حال یہ تھا کہ یہ حضرات تعزیت کرتے جاتے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روتے جاتے، بار بار سرد آہ بھرتے، اس قدر سرد آہیں بھر نے کی وجہ سے آپ کا نام ہی سرد آہ بھرنے والے مشہور ہو گیا تھا،


★_ آپ نےچار نکاح کیے ، دو اسلام سے پہلے دو اسلام کے بعد، اسلام سے پہلے قتیلہ بنت ابد العزی اور ام رومان رضی اللہ عنہ سے شادی ہوئی، اسلام کے بعد اسماء بنت عمیس اور حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، ان میں قتیلہ کے بارے میں معلوم نہیں کہ مسلمان تھی یا نہیں، ام رومان رضی اللہ عنہا مسلمان ہو گئی تھی، حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہما سے جب نکاح ہوا تو اس سے پہلے ہی یہ دونوں اسلام قبول کر چکی تھی ،


★_ آپ کے یہاں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئں، لڑکوں کے نام ابدالرحمان ، ابداللہ اور محمد ہیں، جبکہ بیٹیوں کے نام اسماء، عائشہ اور ام کلثوم ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ عظیم شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں،


★_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا وہ ہستی ہے جنہوں نے ہجرت کے موقع پر کمال جرأت کا ثبوت دے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد کے سفر کا انتظام کیا، 

 ان کی شادی مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ہوئی، ہجرت کے موقع پر ہی ان سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، 


★_ ام کلثوم آپ کی تیسری بیٹی تھیں , یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہ                                                 ٢,*


★_ عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آپ کے بڑے صاحبزادے ہیں ، حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ان کی والدہ ہیں ، غزوۂ بدر میں کفار کے لشکر میں شامل تھے، میدان جنگ میں یہ آگے بڑھے اور کسی مسلمان کو مقابلے پر آنے کی دعوت دی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مقابلے پر جانے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی ، اس کے بعد غزوہ احد میں بھی یہ کفار کے لشکر میں شامل تھے، یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام لائے اور مدینہ منورہ میں آکر اپنے والد کے ساتھ رہنے لگے،


★_ صلح حدیبیہ کے بعد جتنے غزوات پیش آئیں ان میں برابر شریک ہوتے رہے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور یہ سگے بہن بھائی تھے، دونوں کو ایک دوسرے سے بہت محبت تھی، ٥٣ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی وفات پر بڑے دردناک اشعار پڑھے تھے،


★_ آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے، قتیلہ ان کی والدہ تھیں، یہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا دونوں سگے بہن بھائی تھے، انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد ہی اسلام کو قبول کر لیا تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور غار ثور میں قیام فرمایا تو یہی تھے جو قریش کی خبریں خفیہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے رہے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے تب انہوں نے بھی حضرت ام رومان، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر ہجرت کی، 


★_ فتح مکہ، طائف ، حنین کے غزوات میں شریک رہے، طائف کے موقع پر انہیں ایک تیر لگا اس سے شدید زخمی ہوگئے، علاج کے بعد زخم ٹھیک تو ہو گیا تھا لیکن تقریباً ڈھائی سال بعد دوبارہ ہرا ہو گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چالیس روز بعد یہ اسی زخم سے وفات پا گئے ،

*"_ خاندان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ -٣,*


★_ محمد بن ابی بکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی تھی، اس طرح محمد بن ابی بکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آغوش میں پلے،


★_ کچھ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں یہ بھی شریک تھے لیکن مشہور محدث اور مورخ حافظ ابن عبدالبر اندلسی نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے خون سے محمد بن ابی بکر کا ذرا سا بھی تعلق نہیں ہے،


★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انہیں مصر کا والی مقرر فرمایا ، جب یہ مصر پہنچے تو ایک جنگ میں شہید ہو گئے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر ملی تو بہت رنج ہوا،  ان کے بیٹے قاسم کو اپنی تربیت میں لے لیا، قاسم بن  محمد رحمۃ اللہ  نے چونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تربیت حاصل کی تھی اس لیے یہ فقیہ بنے،  مدینہ منورہ کے سات مشہور فقہاء میں ان کا شمار ہوا ،


★_ خلفائے راشدین میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ فتوحات حضرت عمر رضی اللہ ہو تعالئ عنہ کے دور میں ہوئیں اور کئی لحاظ سے اصلاحات بھی سب سے زیادہ انہی کے دور میں ہوئیں،  لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت صرف سوا دو سال تک رہی، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو 10 برس کے قریب وقت ملا،  لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد  دراصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی رکھی تھی،


★_ اللہ تعالی نے انہیں وہ صلاحیتیں اور جرائتیں عطا فرمائی تھی کہ کمزور ہوتے ہوئے بھی ان سب کے خلاف مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ گئے اور وہ کام کر دکھائے کہ آج بھی لوگ حیرت زدہ ہیں اور رہتی دنیا تک حیرت زدہ رہیں گے،  اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں،  آمین _,"


 ╨─────────────────────❥  

 

✭﷽✭


                  *✿_خلافت راشدہ_✿*

         *✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭* 

             *✿_ खिलाफते राशिदा _✿*

                 ▪•═════••════•▪       

*┱✿ *"_ دور فاروقی کا آغاز _,*


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ کے سامنے ایران اور روم سے جنگے ہو رہی تھیں، خلافت کے پہلے دل سے ہی لوگ بیعت کے لئے آنے لگے، سلسلہ تین دن تک جاری رہا ، آپ نے موقع پا کر مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا جس میں اللہ کے راستے کے فضائل بیان فرمائے،


★_ روم اور ایران کے حکمران قیصر و کسریٰ کہلاتے تھے، یہ دونوں بہت بڑی سلطنتیں تھیں، یعنی اس وقت خود کو سوپر طاقت سمجھنے والی یہی تو طاقتیں تھیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کے تمام سرحدی علاقے فتح گر چکے تھے اور کچھ ہی دنوں میں عراق فتح کر سکتے تھے لیکن انہی دنوں شام کی مہم پیش آگئی، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کی طرف روانہ ہوں اور مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر جائیں، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوگئے، اس طرح عراق میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا،


★_ ایران کی ملکہ ان دنوں "پوران دخت" تھی, اس نے اپنے ملک کے ایک بہادر جرنیل رستم کو اپنا وزیر بنا لیا تھا، اس نے رستم کو حکم دیا کہ مسلمانوں کو عراق سے نکال دے، رستم نے جنگ کی تیاریاں شروع کر دی، اس نے اپنے لشکر کے دو حصے کیے، ایک حصے کا سالار جابان کو مقرر کیا جب کہ دوسرے حصے کا سالام شہزادہ نرسی کو بنایا،


★_ ادھر حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ رحمت اللہ حیرہ تک پہنچ چکے تھے ، دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، مسلمانوں میں غضب کا جذبہ دیکھنے میں آیا، آخر ان کے جذبے کے آگے ایرانی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے، دونوں سالار موقے پر گرفتار ہوگئے ،


★_ ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس معرکے کے بعد کسکر کا رخ کیا ، یہاں شہزادہ نرسی فوج لیے کھڑا تھا، مقاطیہ میں دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئیں ، نرسی ابھی جنگ شروع کرنے کے حق میں نہیں تھا، اسے خبر ملی تھی کہ اس کی مدد کے لیے مزید ایرانی فوجیں روانہ ہو چکے ہیں، وہ ان فوجوں کا انتظار کر رہا تھا اور ان کی آمد سے پہلے لڑائی شروع نہیں کرتا چاہتا تھا، 


★_ دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ رحمت اللہ کو بھی یہ اطلاعات مل گئی، انہوں نے دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور حملہ کر دیا ، بہت بڑا معرکہ ہوا اور آخر نرسی کو شکست ہوئی، ابو عبیدہ رحمۃ اللہ خود وہیں ٹھہرے اور فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے چاروں طرف روانہ کر دیے، تاکہ بھاگ نکلنے والے ایرانیوں کا پیچھا کیا جا سکے ہے اور ان کا جہاں تک ہو سکے صفایا کیا جا سکے،


★_ اس شکست کی خبر سن کر رستم بہت چراغ پا ہوا ، اس نے بہمن کو ایک لشکر دے کر روانہ کیا، مروحہ کے مقام پر آمنے سامنے آگئے ، دونوں لشکروں کے درمیاں دریا فرات تھا، بہمن نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم اس طرف آتے ہو یا ہم آئیں ؟ ابو عبیدہ بن جراح رحمۃ االلہ کے سالار نے انہیں مشورہ دیا کہ بہمن کو اپنے لشکر کے ساتھ اس طرف آنے کی دعوت دی جائے، مگر حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا - یہ تو بزدلی ہے، ادھر بہمن کے قاصد نے مسلمانوں کی باتیں سن کے کہا - ہم لوگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ عرب مرد میدان نہیں ہیں _," 


★_ اس نے مسلمانوں کو جوش دلانے کے لئے کہی تھی اور واقعی ابو عبیدہ رحمۃ اللہ عنہ اور جوش میں آگئے ، انہوں نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے اس قدم کے خلاف تھے، حضرت مسنی رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا :- اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ دریا پار کرنے سے فوج کو شدید نقصان ہوگا لیکن چونکہ سپہ سالار اس وقت آپ ہیں اور افسر کی حکم عدولی ہمارا طریقہ نہیں، اس لئے ہم تیار ہیں،_,


★_ اب کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج اس پل کے ذریعے دریا پار کر گئی، لیکن وہاں ایرانیوں نے اسلامی فوج کے لئے بہت تنگ جگہ چھوڑی تھی اسلامی فوج کو صف بندی کی جگہ بھی نہ مل سکی، دوسری طرف ایرانی فوج کے ساتھ خوفناک ہاتھی بھی تھے اور ان پر بڑے بڑے گھنٹے لٹکانے گئے تھے، جب یہ ہاتھی چلتے تو گھنٹے زور زور سے بجنے لگتے ، 


★_ مسلمانوں کے عربی گھوڑوں نے ایسے ہاتھی اور سمور کی ٹوپیوں والے فوجی پہلے نہیں دیکھے تھے، گھوڑے ان کو دیکھ کر بدک کر پیچھے ہٹ گئے ، جب ابو عبیدہ رحمۃ اللہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے مقابلے میں گھوڑے ناکارہ ثابت ہو رہے ہیں تو گھوڑے سے کود پڑے اور للکار کر اپنے ساتھیوں سے کہا- جاںبازوں ! ہاتھیوں کو درمیان میں لے لو اور ہودجوں کو سوار سمیت الٹ دو _,"


★_ اس اعلان کے ساتھ سب مسلمان گھوڑوں سے کود پڑھیں اور ہودجوں کی رسّیاں کاٹ کاٹ کر ہاتھی سواروں کو نیچے گرانے لگے ، اس کے باوجود ہاتھیوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہو رہا تھا، یہ صورتحال دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے سفید ہاتھی پر حملہ کیا ، یہ سب ہاتھیوں سردار تھا، انہوں نے ہاتھی کی سونڈ پر تلوار ماری ، ہاتھی کی سونگ کٹ گئی، ادھر ہاتھی غصے میں آگے بڑھا اور انہیں زمین پر گرا کر اپنا پاؤں ان کے سینے پر رکھ دیا اور وہ شہید ہوگئے،


★_ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لے لیا اور پرجوش انداز میں ہاتھی پر حملہ آور ہوئے ، اس نے حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ کی طرح سے انہیں بھی پاؤں کے نیچے کچل دیا، اس طرح سات آدمیوں نے باری باری علم ہاتھ میں لیا اور مارے گئے، یہ ساتوں خاندانِ ثقیف سے تھے،


★_ آخر حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے علم ہاتھ میں لیا، اس وقت تک جنگ کا نقشہ پلٹ چکا تھا اور ایرانی مسلمانوں کو دریا کی طرف دھکیل رہے تھے، ایسے میں کسی نے پل بھی توڑ دیا ، مسلمان اس قدر بدحواس ہوئے کہ ٹوٹا پل دیکھ کر دریا میں کود پڑے، ایسے میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے فوج کو سنبھالا، پل بندھوایا اور ‌ سواروں کے دستے کے زمے لگایا کہ پل پار کرتے لوگوں کی مدد کریں، خود ایک دستے کو ساتھ لے کر دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہے ، اس قدر جواں مردی اور ثابت قدمی سے لڑے کہ دشمن جو برابر بڑھتا چلا آ رہا تھا اس کا بڑھنا رک گیا،


★_ اس وقت تک نو ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین ہزار اپنی جانیں بچا کر دوسرے کنارے تک پہنچ سکے، ان تین ہزار کا بچاؤ بھی حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی سے ہوا ،

╨─────────────────────❥

*"_ بویب کا معرکہ _,*


★_ اسلامی تاریخ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، اس لڑائی میں جن مسلمانوں کی پسپائی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو شکست ہوئی تھی وہ مارے شرم کے اپنے گھروں میں نہ گئے، ادھر ادھر جنگلوں میں پھرتے رہتے تھے اور روتے رہتے تھے، مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو مسلمانوں کو بہت رنج ہوا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے حد غمگین ہو گئے، پھر بھی دوسروں کو تسلی دیتے رہے لیکن انہیں خود تسلی نہیں ہوتی تھی،


★_ مسلمانوں کی اس شکست نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ایک اضطراب طاری کر دیا، آپ نے زور شور سے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں، سارے عرب میں پرجوش تقریر کرنے والے حضرات بھیجے گئے ان کی تقریروں نے جزیرۃ العرب میں آگ لگا دی، ہر طرف سے عرب کے قبائل آنے لگے، ادھر خضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام سرحدی مقامات کی طرف پیغام بھیج دیے اور اس طرح ایک بڑی فوج جمع کر لی،


★_ اسلامی لشکر بویب کے مقام پر آ کر رکا، بویب کوفہ کے قریب واقع تھا، ادھر مہران اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوا ، بویب کے مقام پر پہنچ کر مہران نے دریا فرات کے کنارے پڑاؤ کیا ، صبح ہوتے ہی اس نے دریا پار کیا اور مسلمانوں کے لشکر کے سامنے صف بندی شروع کر دی، 


★_ حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے نہایت ترتیب سے اسلامی لشکر کی صف بندی کی، اسلامی فوج کا جنگ شروع کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سپہ سالار تین مرتبہ اللہ اکبر کہتا تھا، پہلی تکبیر پر فوج حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتی تھی، دوسری تکبیر پر فوج ہتھیار سنبھال لیتی تھی اور تیسری تکبیر پر حملہ کر دیا جاتا تھا ،


★_ حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ابھی دوسری تکبیر بھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا، زبردست جنگ شروع ہوئی مسلمانوں کے بڑے بڑے افسر شہید ہوئے لیکن حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے، ان کی ثابت قدمی کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح ہوئی ، مہران قتل ہوا، مہران کے قتل کی خبر نے ایرانی کے حوصلے ختم کر دیے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ فوراً اپنے دستے کے ساتھ پل پر پہنچ گئے تاکہ ایرانی بھاگ نہ سکیں، اس جگہ اتنے ایرانی قتل ہوئے کہ لاشوں کے انبار لگ گئے ، مورخوں نے لھا ہے کہ کسی لڑائی میں اتنی لاشیں نہیں گریں جتنی بویب کی لڑائی میں گریں، مدتوں بعد مسلمانوں کا ادھر سے گزر ہوا تو اس وقت بھی وہاں ہڈیوں کے انبار نظر آئے،

╨─────────────────────❥

*"_ قادسیہ کی طرف لشکر اسلام _,*


★_ اس معرکے کے بعد مسلمان تمام عراق میں پھیل گئے آج جہاں بغداد ہے وہاں اس زمانے میں بہت بڑا بازار لگتا تھا، حضرت مثنی بن حارثہ نے وہاں اس دن حملہ کیا جس دن بازار لگا تھا، سب لوگ جان بچانے کے لیے بھاگے، مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال آیا،


★_ ایران کے دارالحکومت میں یہ خبر پہنچی تو وہاں خلبلی مچ گئی، ایران کی ملکہ پوران دخت کو نااہل قرار دیا اور تخت سے اتار کر یزدگرد کو بٹھایا ، یزدگرد 16 سالہ نوجوان تھا، کسریٰ کے خاندان میں یہی رہ گیا تھا، اس طرح یزدگرد کی تخت نشینی سے ایرانی حکومت کے پاؤں ایک بار پھر جم گئے،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو آپ نے حضرت موثنیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا - فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ، ربیعہ اور مضر کے قبیلوں کو بھی طلب کر لو_,"

اس کے علاوہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہر طرف قاصد دوڑاے ، ہر طرف سے لوگوں کو بلایا گیا ،حج کا زمانہ تھا، خود بھی مکہ مکرمہ پہنچے، ابھی آپ حج سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہر طرف سے قبیلوں کے قافلے امڑ آئیے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج کر کے واپس آئے تو بڑی تعداد میں مجاہدین مدینہ منورہ میں جمع ہو چکے تھے، آپ نے حکم دیا- لشکر کو ترتیب دیا جائے, میں خود سپہ سالار بن کر جاؤں گا _,"


★_ جب لشکر ترتیب دیا جا چکا تو خود مدینہ منورہ سے نکل آئے اور عراق کی طرف روانہ ہوئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس طرح ساتھ چل پڑھنے سے مسلمانوں میں بے تحاشہ جوش پیدا ہو گیا ، مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر لشکر نے پڑاؤ کیا ، اس وقت بڑے بڑے صحابہ نے مشورہ کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا - اے امیر المومنین ! آپ لشکر کے ساتھ نہ جائیں... خدا نہ خواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو یہ اسلام کے لیے بہت بڑا سانحہ ہوگا _,"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو قبول فرما کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سپہ سالار بنایا ،


★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ لشکر کو لے کر روانہ ہوئے ، 17 18 منزلیں طے کر کے آپ ثعلبہ پہنچے یہاں پہنچ کر قیام فرمایا ، ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے، حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ 8 ہزار کے لشکر کے ساتھ ذی قار کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے ، انہیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لشکر کا انتظار تھا،


★_ وہ چاہتے تھے کہ لشکر کوفہ کی طرف بڑھے تو اس کے ساتھ شامل ہو جائیں، انہیں پل کی لڑائی میں شدید زخم آئے تھے اور زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے اور اس مقام پر ان زخموں کی تاب نہ لا کر وفات پائی ، یہ اتنے بڑے سالار تھے کہ صدیوں بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، جہاد میں زندگی ختم کردی اور آخری دم تک ایرانیوں کو ناکوں چنے چبواتے رہے ، اللہ ان پر رحم فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، آمین ،


★_ حضرت سعد رضی اللہ انہوں ابھی شراف کے مقام پر تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم آیا- شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ میں قیام کریں ... اور اس طرح مورچے بناؤ کے سامنے عجم کی زمین ہو اور کمر پر عرب کے پہاڑ ہوں تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے چلے جاؤ اور خدا نہ خاستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ لے سکو_,"


★_ قادسیہ ایک بہت محفوظ مقام تھا یہ شاداب علاقہ تھا اس میں نہریں اور پل بھی تھے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے تجارت وغیرہ کے لئے ان علاقوں سے گزرا کرتے تھے لہذا ان علاقوں سے خوب واقف تھے، اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ شراف سے چلے تو عزیب پہنچے ، یہاں عجمیوں کا اسلحہ خانہ موجود تھا ، وہ اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا، آخر قادسیہ پہنچے گیے ،


★_ ایرانی لشکر کا سپہ سالار رستم کو مقرر کیا گیا تھا یہ مداین سے روانہ ہوکر سابات میں ٹھہرا تھا ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع بھیجی، وہاں سے جواب آیا - جنگ سے پہلے کچھ سفیر ایرانیوں کی طرف بھیجے جائیں... انہیں اسلام کی دعوت دی جائے _,"

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے 14 قابل ترین ساتھیوں کو منتخب کیا، جن میں آصم بن عمر ، عمرو بن معدی کرب ، مغیرہ بن شعبہ ، معن بن حارثہ اور نعمان بن مقرن زیادہ مشہور ہیں ، یہ حضرات عقل، تدبیر اور سیاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے،


★_ یہ سفیر گھوڑوں پر سوار مداین پہنچے، راستے میں جدھر سے گزرتے لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی، ان کی ظاہر صورت یہ تھی کہ گھوڑوں پر زین نہیں تھی، ہاتھوں میں ہتھیار نہیں تھے، مگر بے باقی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی، دیکھنے والے فوراً متاثر ہو جاتے تھے ، ان کی سواری میں جو گھوڑے تھے وہ خوب صحت مند اور چاق و چوبند تھے ، ان کی زوردار ٹاپوں کی آواز یزدگرد تک پہنچی تو اس نے پوچھا- یہ کیسی آواز ہے ؟ اسے بتایا گیا کہ اسلامی لشکر کے سفیر آے ہیں _،"


★_ یہ اطلاع ملنے پر اس نے اپنا دروازہ سجایا، خوب سازوسامان سے اس کو آراستہ کیا تاکہ مسلمان سفیروں پر اس کی دھاک بیٹھ جائے، راستے کے دونوں طرف اپنے جنگجو کھڑے کیے .. ان کے درمیان سے گزر کر اسلامی سفیروں کو اس تک جانا تھا، یہ تمام انتظامات کرنے کے بعد اس نے ان سفیروں کو طلب کیا ،


★_ اسلامی سفیر عربی جبے پہنے ، کاندھوں پر چادریں ڈالے، ہاتھوں میں کوڑے لیے دربار میں داخل ہوئے، ... مسلمانوں کی مسلسل فتوحات نے ایرانیوں پر پہلے ہی دھاک بٹھا دی تھی ... یزدگرد نے سفیروں کی یہ شان دیکھی تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی ،


★_ (یہ تھی کسی زمانے میں مسلمانوں کی شان کہ دنیا کی سپر پاور کہلانے والی مملکتوں کے حکمران ان سے ڈرتے تھے،... آج کے مسلمان یہود و نصاریٰ سے ڈرتے ہیں اور مسلم حکمران ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں ، صد افسوس )


★_ یزدگرد نے ان سے پہلا سوال کیا - تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ اس جماعت کے امیر تھے انہوں نے پہلے تو اسلام کے بارے میں بتایا ، پھر فرمایا ، ہم تمام دنیا کے سامنے یہ چیزیں پیش کرتے ہیں، اسلام کو قبول کر لو یا جزیہ دینا قبول کر لو ورنہ پھر تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی_,"


★_ ان کی بات سن کر یزدگرد نے کہا - کیا تمہیں یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ کمزور اور بدبخت قوم کوئی نہیں تھی، تم جب ہم سے بغاوت کرتے تھے تو ہم سرحد کے زمینداروں کو بھیج دیتے تھے وہ تمہیں سیدھا کر دیتے تھے _,"


★_ ان کی یہ بات سن کر حضرت مغیرہ بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہوسکے انھوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا - یہ عرب کے رئیسوں میں سے ہیں،.. اپنی بردباری اور وقار کی وجہ سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے، انہوں نے جو کہا وہی مناسب تھا، لیکن کچھ باتیں رہ گئیں ... وہ باتیں میں بیان کر دیتا ہوں، اے بادشاہ ! یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے، آپس میں لڑتے مرتے رہتے تھے، اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن اللہ تعالی نے ہم میں ایک پیغمبر بھیجا، وہ حسب نسب میں ہم سے اعلیٰ تھا، شروع شروع میں ہم نے ان کی مخالفت کی لیکن رفتہ رفتہ اس کی باتوں نے دلوں پر اثر کیا،


"_ وہ جو کہتا تھا اللہ کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا اللہ کے حکم سے کرتا تھا، اس نے ہمیں حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو، جو اسلام لے آئیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں، جنہیں اسلام سے انکار ہوا اور جزیے پر رضامند ہوں وہ اسلام کی حمایت میں رہے اور جن لوگوں کو ان دونوں باتوں سے انکار ہو، ان کے لئے تلوار ہے _,"


★_ یزدگرد طیش میں آگیا ، اس نے کہا - اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہیں جاتا_," اب اس نے حکم دیا - ایک مٹی کا ٹوکرا لایا جائے_," جلد ہی مٹی کا ٹوکرا لایا گیا، اس نے حکم دیا- ٹوکرا ان میں سے کسی کے سر پر رکھ دو_," وہ ٹوکرا حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا گیا، اس نے اسی حالت میں انہیں واپس لوٹ جانے کو کہا ، یہ لوگ واپس روانہ ہوئے اور آخر اپنے لشکر میں پہنچ گئے ، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر انہوں نے کہا - فتح مبارک ہو دشمن نے اپنی زمین خود ہی ہمیں دے دی _,"،

╨─────────────────────❥

*★_ رستم کے دربار میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین _,*


★_ رستم ساتھ ہزار کا لشکر لے کر ساباط سے نکلا اور قادسیہ کے میدان میں جا پہنچا ، رستم کا لشکر جہاں سے بھی گزرا وہاں کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کرتا آیا، یہاں تک لوگوں میں یہ خیال عام ہو گیا کہ اب اجم کی سلطنت کے زوال کا وقت قریب ہے،


★_ کئی ماہ تک دونوں لشکر آمنے سامنے پڑے رہے ، رستم اب تک لڑنے سے جی چراتا رہا تھا، شاید اسے اپنی شکست کا پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا، اس نے ایک مرتبہ پھر صلح کی کوشش کی ، اس نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا - اپنا کوئی قاصد میرے پاس بھیجو... میں صلح کی بات کرنا چاہتا ہوں _,"


★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ اس انداز میں روانہ ہوئے کہ تلوار کے دستے پر چمڑے لپیٹ رکھے تھے اور لباس بالکل سادہ تھا، کمر میں رسی کا پٹکا تھا ، تلوار اس سے لٹک رہی تھی، 


★_ ادھر ایرانیوں نے انہیں اپنی شان و شوکت دکھانے کے لئے خوب تیاریاں کی ، دربار کو خوب سجایا ، دبا کا فرش بچھایا، ریشم کے پردے لٹکائے ، شاہی تخت کو سجایا بنایا، راستے کے دونوں طرف سپاہی کھڑے کئے، حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ ان کے درمیان میں چلتے دربار تک آئے، دبا کے فرس کے پاس گھوڑے سے اترے، اس کی باگ کو گاو تکیے سے لٹکایا، درباریوں نے باہر ہتھیار لینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ہتھیار اتارنے سے انکار کر دیا اور کہا - تم لوگوں نے بلایا ہے تو میں آیا ہوں .. اگر تمہیں اس حالت میں میرا دربار تک جانا منظور نہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں _,"


★_ درباریوں نے یہ بات رستم کو بتائی، اس نے اجازت دے دی اور ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نہایت لاپرواہی کی حالت میں آگے بڑھے ہاتھ میں نیزا تھا اس نیزے کو قالین میں گھونپتے چلے گئے اس طرح قالین جگہ جگہ سے کٹ گیا، تخت کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے اپنا نیزہ زمین میں مارا، نیزا زمین میں گڑ گیا، 


★_ اب بات چیت شروع ہوئی رستم نے پوچھا - اس ملک میں کیوں آئے ہو ؟ 

"_ ہم اس لئے آئے ہیں کہ مخلوق کی عبادت کے بجائے خالق کی عبادت کی جائے _,"

 اس پر رستم نے کہا - میں ارکانِ سلطنت سے مشورہ کرکے جواب دوں گا،

 اس دوران درباری بار بار اٹھ کر حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے لگے ان کے ہتھیار دیکھنے لگے، ان میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا - کیا ان ہتھیاروں سے ایران فتح کرنے کا ارادہ ہے ؟


★_ یہ سنتے ہی حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے نکالی، اس کی چمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کر گئی، انہوں نے کہا- اگر میری تلوار کی کاٹ دیکھنا چاہتے ہو تو ڈھال آگے کرو_,"

ایک سپاہی نے ڈھال آگے کردی، حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نے اس پر تلوار ماری، ڈھال دو ٹکڑے ہو گئی،


★_ حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ سے صلح کی بات چیت ناکام رہی، آخر میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گئے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر کر سیدھا رستم کی طرف گئے ، اس کے جانو سے جانو ملا کر بیٹھ گئے، ان کے نزدیک یہ گستاخی تھی، چوبداروں نے انہیں بازو پکڑ کر تخت سے اتار دیا، اب حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا - میں خود نہیں آیا ہوں تم نے بلایا ہے، مہمان کے ساتھ یہ سلوک ٹھیک نہیں _," ان کے الفاظ سن کر انہیں شرم محسوس ہوئی، رستم بھی شرمندہ ہوکر بول اٹھا - یہ ملازمین کی غلطی تھی میرے حکم سے ایسا نہیں ہوا _,"


★_ اب رستم نے بے تکلفی کے انداز میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ترکش میں سے تیر نکالے اور ان کو ہاتھوں میں لے کر کہا - ان تکلو سے کیا ہوگا ؟ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جواب میں بولے - آگ کی لو اگرچہ چھوٹی ہوتی ہے لیکن پھر بھی آگ ہے،

رستم نے ان کی تلوار کے نیام کو دیکھ کر کہا - یہ کس قدر بوسیدہ ہے _," جواب میں انہوں نے کہا - ہاں، لیکن تلوار کی دھار ابھی تیز کی گئی ہے _,"


★_ اب رستم نے کہا - میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں اب بھی وقت ہے واپس چلےجاؤ، ہم تمہیں نہیں روکیں گے، بلکہ کچھ انعام و اکرام دے کر رخصت کریں گے_,"

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا - ہماری بس تین باتیں ہیں ، اسلام کو قبول کرو یا جزیہ دینا منظور کرو ورنہ اس تلوار سے فیصلہ ہوگا _,"


★_ یہ سن کر رستم غصے میں بھڑک اٹھا ، اس نے چیخ کر کہا - سورج کی قسم ! میں کل سارے عرب کو برباد کر دوں گا _," 

اس طرح یہ بات چیت بھی ناکام ہوگئی , رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا رہا تھا لیکن اس بات چیت کے بعد اس قدر طیش میں آیا کہ اس نے اسی وقت فوجیوں کو تیاری کا حکم دے دیا ، درمیان میں ایک نہر تھی ، اس نے حکم دیا - صبح ہونے سے پہلے پہلے نہر کو پاٹ دیا جائے تاکہ راستہ صاف ہو جائے،


★_ صبح تک لہر کو پاٹا جا چکا تھا اور لشکر کے گزرنے کے لئے سڑک بنا دی گئی تھی، دوپہر تک تمام فوج نہر کے دوسری طرف جا چکی تھی، اب رستم نے دہری زرہ پہنی سر پر خود رکھا ، ہتھیار لگائے ، پھر اپنا خاص گھوڑا طلب کیا ، اس پر سوار ہو کر پرجوش لہجے میں بولا- میں سارے عرب کو چکنا چور کر دوں گا _,"

کسی سپاہی کے منہ سے یہ الفاظ نکل گیے، ہاں اگر خدا نے چاہا _," یہ سن کر اس نے کہا - اگر خدا نے نہ چاہا تو میں تب بھی عرب کو برباد کر دوں گا ،

╨─────────────────────❥

*"_ قادسیہ کی جنگ _,*


★_ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہو گئی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قائدے کے مطابق تین نعرے لگائے ، چوتھے نعرے میں جنگ شروع ہو گئی, دیر تک دونوں طرف سے بہادر میدان میں آتے رہے مقابلے ہوتے رہے, با قائدہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، 


★_ آخر دونوں فوجیں پوری طاقت سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئی ، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے ایک انوکھی تدبیر کی ، اسلامی لشکر میں ہاتھی نہیں تھے ، جبکہ ایرانیوں کے پاس ہاتھی تھے، ان کی وجہ سے اسلامی لشکر کے گھوڑے بدک جاتے تھے، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ کئی کئی اونٹوں کو ملا کر ان پر چادر ڈال دی، چادروں میں لپٹے یہ اونٹ جب اگے لائے گئے تو ہاتھی سے بھی زیادہ خوفناک جانور نظر آئے، ان کو دیکھ کر ایرانیوں کے گھوڑے بدکنے لگے، یہ تدبیر بھی خوب کارگر رہی ،


★_ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا عرب کی مشہور شاعرہ تھیں، وہ بھی اس جنگ میں شریک تھی، ان کے چار بیٹے تھے، چاروں اسلامی لشکر میں شامل تھے اور دشمن سے لڑ رہے تھے، لڑائی شروع ہونے پر انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا - پیارے بیٹوں ! جاؤ .. دشمن سے لڑو ... اور اخر تک لڑو _,"


★_ چاروں ایک ساتھ آگے بڑھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑے، جب لڑتے اس قدر دور نکل گئے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے کہا - اے اللہ ! میرے بیٹوں کی حفاظت فرما _,"

اس روز جنگ میں دو ہزار مسلمان شہید ہوئے ، ان کے مقابلے میں دس ہزار کے قریب ایرانی مارے گئے یا زخمی ہوئے، فتح اور شکست کا فیصلہ نہ ہو سکا ، سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی دونوں لشکر واپس پلٹ گئے ،


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شام سے ساد سوں سوار بھیجے تھے، وہ بھی پہنچ گئے، ان کے پہنچنے پر خوب نعرے گونجے ، شام سے آنے والے دستے کے سالانہ ہشام تھے، انہوں نے آتے ہی فوج سے خطاب کیا :- تمہارے بھائیوں نے شام فتح کرلیا ہے، ایران کی فتح کا جو وعدہ تم سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ بھی پورا ہوگا _,"


★_ پھر جنگ کا آغاز ہوا ، ایرانیوں کی فوج میں دو ہاتھی بہت بڑے خوفناک تھے ، باقی ہاتھی ان کے پیچھے چلتے تھے، مسلمانوں کے گھوڑے سب سے زیادہ ان دو ہاتھوں سے ڈر رہے تھے ، ان سب کا جائزہ لینے کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت قعقع رضی اللہ عنہ اور ان کے خاص ساتھیوں کو بلا کر کہا - ہاتھیوں کی مہم اب تمہارے ہاتھ میں ہے، ان کی آنکھیں پھوڑ دو اور سونڈیں کاٹ دو ، یہ بیکار ہو جائیں گے _,"


★_ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے کچھ سوار پیدل مجاہد ہاتھیوں کی طرف روانہ کئے ، اس کے بعد خد آگے بڑے، ہاتھ میں نیزا تھا، ان دو بڑے ہاتھیوں میں سے ایک کی طرف برے ، عاصم رحمت اللہ ان کے ساتھ ساتھ تھے، دونوں نے ایک ساتھ تاک کر نیزے مارے ، دونوں نیزے ہاتھی کی دونوں آنکھوں میں لگے ، ہاتھی نے ایک زبردست جھرجھری لی اور پیچھے ہٹا، ساتھ ہی تلوار زور سے اس کی سونڈ پر ماری کہ سونڈ کٹ کر گر گئی،


★_ دوسری طرف ان کے ساتھیوں نے دوسرے ہاتھی پر حملہ کیا، وہ بھی زخمی ہوا اور الٹا بھاگا، اب تمام ہاتھی بھی ان دونوں ہاتھیوں کے پیچھے بھاگے، اس طرح اسلامی فوج کو اس سیاہ مصیبت سے نجات ملی، اب انہیں گھوڑے بدکنے کی پریشانی نہیں رہی تھی، اس زور کی جنگ ہوئی کہ نعروں کی گونج سے زمین ہلنے لگی ،


★_ دونوں لشکروں پر جوش کا ایک ایسا عالم طاری ہوچکا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد بھی لڑائی بند نہ ہو سکی یہاں تک کہ رات ہوگئی، لڑائی پھر بھی نہ رکی، آخر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے چند بہادروں کو ساتھ لیا اور رستم کی طرف رخ کیا ، رستم اس وقت اپنے تخت پر بیٹھا تھا، اس نے انہیں اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو تخت پر بیٹھا نہ رہ سکا، نیچے اترا ، اس نے بھی اپنی تلوار سونت لی اور مردانہ وار جنگ کرنے لگا، بہت دیر تک لڑتا رہا یہاں تک کے زخموں سے چور ہو گیا اور بھاگ نکلا ،


★_ بلال نامی ایک صحابی نے اس کا پیچھا کیا، ایسے میں ایک نہر سامنے آگئی ، رستم کود پڑھا کہ تیر کر نکل جائیں، بلال بھی گھوڑے سے کود پڑے، اسے ٹانگوں سے پکڑ کر نہر سے نکال لائے، پھر تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا، انہوں نے لاش کھچر کے پیروں کے پاس ڈال دی اور خود تخت پر چڑھ کر پکار اٹھے - میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے _,"


★_ ایرانیوں نے تخت کی طرف دیکھا، اس پر رستم نہ تھا، بس پھر کیا تھا پوری فوج میں بھگدڑ مچ گئی، مسلمانوں نے دور تک ان کا پیچھا کیا، 


★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خبر سننے کو بری طرح بے چین تھے، بے چینی کے عالم میں آپ روزانہ صبح سویرے سے باہر نکل آتے اور قاصد کی راہ دیکھتے رہتے، جب قاصد کے آنے کی امید نہ رہ جاتی تب واپس لوٹتے ،


★_ اسی طرح ایک دن قاصد کے انتظار میں دور تک نظر جمائے کھڑے تھے کہ ایک سوار آتا نظر آیا ، وہ اونٹ پر سوار تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے نزدیک آنے کا انتظار نہ کیا، خود اس کی طرف دوڑ پڑے ، وہ حضرت سعد کا قاصد تھا، سیدھا میدان جنگ سے چلا آ رہا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا- کہاں سے آرہے ہو ؟ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتا نہیں تھا چنانچہ لاپرواہی کے عالم میں بولا - قادسیہ سے آ رہا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بےتابانہ پوچھا - جنگ کی کیا خبر ہے ؟, اس نے بتایا- اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی _,"


★_ یہ کہتے ہوئے وہ آپ کے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گیا، اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگے، ساتھ ساتھ جنگ کے حالات پوچھتے جاتے تھے اور دوڑتے جاتے تھے، یہاں تک کہ اسی حالت میں قاصد مدینہ منورہ میں داخل ہوگیا ، اب جو لوگ سامنے آرہے تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فوراً کہا - امیرالمومنین ! اسلام علیکم... امیرالمومنین ! اسلام علیکم _,"


★_ اب قاصد کو معلوم ہوا کہ یہ شخص اتنی دور سے اس کے اونٹ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا آ رہا ہے وہ تو مسلمانوں کے حکمران ہیں یعنی دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں جن سے قیصر و کسریٰ تھر تھر کانپ رہے ہیں، یہ معلوم ہوتے ہی وہ لرز گیا، فوراً اپنے اونٹ سے نیچے اتر آیا، پریشانی کے عالم میں بولا - امیرالمومنین ! مجھے معاف کر دیجیے، میں آپ کو پہچانتا نہیں تھا _,"

"_ کوئی حرج نہیں ، تم فکر نہ کرو بس جنگ کے حالات سناتے رہو اور اونٹ پر سوار ہو جاؤ میں اسی طرح تمہارے ساتھ ساتھ چلوں گا _,"


★_ چنانچہ اسے پھر اونٹ پر سوار ہونے پر مجبور کر دیا، آپ اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے جنگ کے بارے میں پوچھتے رہے یہاں تک کہ گھر آ گیا ، اب آپ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فتح کی خوشخبری سنائی، ایک زبردست تقریر مسلمانوں کے سامنے کی، آخر میں فرمایا :- "_ مسلمانوں ! میں بادشاہ نہیں کہ تمہیں غلام بنانا چاہتا ہوں، نہیں ! میں تو خود اللہ تعالی کا غلام ہوں, البتہ خلافت کا بوجھ میرے سر پر رکھ دیا گیا ہے، اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوو تو یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے اور اگر میں یہ خواہش کروں کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو یہ میرے لئے بدبختی کی بات ہوگی، میں تمہیں تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے نہیں ، عمل سے .._,"

╨─────────────────────❥

*"_ مدائن کی فتح اور صحابہ کا دریا دجلہ میں گھوڑے ڈال دینا _,*


*★_ ادھر ایرانی قادسیہ سے بھاگے تو بابل پہنچ کر دم لیا ، یہ ایک محفوظ اور بڑا مقام تھا ، یہاں آکر ایک بار پھر انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کر دی، فروزان کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کر لیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ ١٥ ہجری میں بابل کی طرف بڑھے، بابل میں ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اس کے باوجود یہ لوگ اسلامی لشکر کے پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے، 


★_ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بابل میں ٹھہرے، البتہ کچھ فوج آگے روانہ کر دی، اس کا سالار انہوں نے زہرہ کو مقرر فرمایا، ایرانی فوج بابل سے فرار ہوکر کوسی پر پہنچ گئی ، یہاں ایرانیوں کا سالار شہریار تھا ، زہرہ کوسی کے مقام پر پہنچے اور شہریار کو شکست دے کر آگے بڑھے،


★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن کے لئے روانہ ہوئے، آگے بڑھے تو ان کے سامنے دریا دجلا تھا اس پر جہاں جہاں پر پل بنے ہوئے تھے ایرانیوں نے مسلمانوں کی آمد کی خبر پا کر سب توڑ دیے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب دریا کے کنارے پہنچے تو وہاں نہ کوئی پل تھا نہ کشتی ،


★_ آپ نے فوج سے مخاطب ہو کر کہا :- برادران اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے, تم یہ مہم بھی سر کر لو پھر میدان صاف ہے_,"

یہ کہہ کر آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا, انہیں دیکھ کر فوج نے بھی ہمت کی اور سب دریا میں اتر گئے، دریا میں بہت طغیانی تھی اور وہ موجیں مار رہا تھا، موجیں گھوڑوں سے آکر ٹکراتی رہیں اور یہ رقاب سے رقاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ فوج کی ترتیب تک میں فرق نہ آیا _,


★_ دوسری طرف ایرانی حیرت زدہ انداز میں یہ منظر دیکھ رہے تھے، فوج جب کنارے کے قریب پہنچیں تو انہیں خیال آیا، یہ انسان نہیں ہیں، چناچہ چلا اٹھے - دیو آ گئے ... دیو آ گئے _," 

یہ کہتے ہوئے خوف زدہ ہو کر بھاگے،


★_ ان کے سپہ سالار خزاؤں کی فوج نے مسلمانوں پر تیروں کی بارش شروع کر دی، مسلمانوں نے ان تیروں کی کوئی پرواہ نہ کی اور برابر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ تیر اندازوں کو ملیامیٹ کردیا ، یزدگرد نے جب یہ خبر سنی تو شہر چھوڑ کر نکل بھاگا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا _,"

╨─────────────────────❥

*"_مدائن کی فتح اور مال غنیمت _,*


★_ فوج نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی، اس طرح یہ وہاں پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا، اسلامی لشکر کو وہاں سے بہت مال غنیمت ہاتھ آیا ، نوشیروان سے لے کر موجودہ دور تک کی تمام قیمتی چیزیں لا کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈھیر کر دی گئی،


★ ان میں ہزاروں زرہیں ، تلواریں، خنجر، سونے کے تاج اور شاہی لباس تھے، سونے کا ایک گھوڑا بھی تھا اس پر چاندی کی زین کسی ہوئی تھی، سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے، چاندی کی ایک اونٹنی تھی، اس پر سونے کی پالان تھی ، اس کی مہار میں یاقوت پروئے ہوئے تھے، سوار بھی سر سے لے کر پاؤ تک جواہرات سے اٹا پڑا تھا، ان سب سے زیادہ عجیب ایک قالین تھا ، ایرانی اس قالین کو بہار کے نام سے پکارتے تھے، اس قالین پر درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے یعنی پورا باغ تھا اور یہ سب کا سب جواہرات سے تیار کیا گیا تھا، یعنی سونے چاندی اور موتیوں سے تیار کیا گیا تھا،


★_ یہ سب کا سب سامان مجاہدین کو ملا تھا لیکن کیا مجال کہ کسی نے اس میں سے کوئی چیز خود اٹھائیں ہو ، جو چیز جس حالت میں پائی سالار کے آگے رکھ دی، جب یہ سارا سامان لا کر سجایا گیا یا تو دور دور تک میدان جنگ جگمگا اٹھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ حیرت زدہ رہ گئے،


★_ مال غنیمت قاعدہ کے مطابق تقسیم کیا گیا اور پانچواں حصہ دربار خلافت کو بھیج دیا گیا ، فرش اور قدیم یادگاریں جوں کی توں بھیج دیی گئیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ سارا سامان چنا گیا تو آپ کو بھی فوج کی دیانت پر حیرت ہوئی ،


مدینہ میں ایک شخص محالم نامی رہتا تھا وہ بہت لمبے قد تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا - نوشیرواں کے لباس لا کر محالم کو پہنائے جائیں،

 یہ لباس مختلف حالتوں کے تھے سواری کا الگ، دربار کا الگ، جشن کا الگ ، مبارک بادی کا الگ ،


★_ چنانچہ باری باری یہ سب اسے پہنائے گئے، جب اسے خاص لباس پہنا کر تاج سر پر رکھا گیا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئی بہت دیر تک اسے حیرت زدہ انداز میں دیکھتے رہے،

قالین کے بارے میں لوگوں کی رائے تھی کہ اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے لیکن پھر کاٹ کر تقسیم کر دینے کا فیصلہ ہوا ،


★_ مدائن کے بعد صرف جلولہ باقی رہ گیا تھا، مدائن سے بھاگ کر ایرانی یہاں جمع ہو گئے تھے اور جنگ کی تیاری کر رہے تھے، خرزاد رستم کا بھائی اس کا سالار تھا، اس نے شہر کے گرد خندق تیار کرا دیں، راستوں اور گزرگاہوں پر دو گوکھرد ( لوہے کی کیلے ) بچھوادی ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا ، وہاں سے حکم آیا - ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائے _,"


★_ اس طرح ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر جلولہ کی طرف بڑھے، چار دن بعد وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا ، آخر ایک دن ایرانی خوب تیاری کے ساتھ باہر نکلے ، مسلمانوں نے خوب جم کر ان کا مقابلہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی فرمائی، ایک زبردست آندھی آئی، جس سے گھپ اندھیرا ہو گیا ، ہزاروں ایرانی اندھیرے کی وجہ سے خندق میں گر گئے، ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا، اس کا اندازہ تین کروڑ لگایا گیا ،


★ _ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوش خبری کے ساتھ مال غنیمت کا پانچواں ہسہ مدینہ منورہ بھجوایا ، یہ خوش خبری لے کر زیاد رح گیے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ انسے جنگ کے حلات سنے، فر تمام مسلمانو کو جمع ہونے کا حکم فرمایا اور زیاد رح.سے فرمایا - میں سب کے سامنے تمام واقعات بیان کریں" انہوں نے بھرے مجمع کو حالات سنانے اور اس طرح بیان کیا کہ پورا منظر لوگو کو نظر آنے لگا ، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے - خطیب اسے کہتے ہیں _ ، "


 ★ _ مال غنیمت کا مسجد کے سہن میں ڈھیر کر دیا گیا .. لکین اس وقت تک اندھیرا پھیل چکا تھا چنانچہ صبح تسمیم کرنے کا فیصلہ ہوا ، سبح کے وقف لوگو کے سامنے مال غنیمت سے چادر ہٹائی گئی ، درہم و دینار کے علاواہ جواہیرات کے بھی امبار لگے ہوئے تھے ، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انو بے ساختہ رو پڑے ،


 ★_ لوگ انکے رونے پر بہت ہیران ہوئے کہ یہ رونے کا کونسا موقع ہے ، یہ تو خوشی کا موقع ہے ، لوگوں کو ہیراں دیکھ کر اپنے فرمایا - جہان مال و دولت آتی ہے ، وہان رشک و حسد بھی ساتھ آتا ہے _ ، "


 ★ _ یزدگرد کو جلولا میں ایرانیوں کی شکشت کی کھبر ملی تو وو حلوان کو چھوڑ کر رے کی ترف چالا گیا ، حلوان میں چند دستے فوج کے چھوڈ گیا ، اسکا سالار خسرو شانوم کو مقرر کیا تھا ،

 اب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت قعقع رضی اللہ تعالی عنہ کو حلوان کی ترف روانہ کیا ، یہ حلواں سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ خسرو خود آگے بڑھ آیا ، پہلے تو اسنے ڈٹ کر مقابلہ کیا لکین پھر شکشت کے آسار دیکھ کر بھاگ نکلا ، اس طرح حلوان بھی مسلمانو کے قبضے میں آ گیا ،


★ _ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے امن کا اعلان کرا دیا ، اس طرح چارو طرف سے ایرانی انکی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور جزیہ قبول کر نے لگیں ، اس طرح یہ لوگ اسلام کی حمایت میں آ گئے ، اس مقام پر عراق کی حد ختم ہو جاتی تھی ، اس علاقے کے فتح کے ساتھ ہی ہورا ایراں فتح ہو گیا ، اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایران کے فتوحات کا سلسلہ مکممل ہو گیا ،


★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شام کے فتوحات کا سلسلہ جاری تھا اور دمشق فتح ہو چکا تھا، دمشق کی فتح نے رومیوں میں آگ سی لگا دی، دمشق کی فتح کے بعد مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا، اس لئے رومیوں نے اردن کے شہر بسان میں فوج جمع کر لی، اس طرح وہاں چالیس ہزار کے قریب رومی لشکر جمع ہوگیا، اس لشکر کے سالار کا نام سکر تھا ،


★_ شام کا ملک چھ ضلعوں میں تقسیم تھا ان میں دمشق ہمس، اردن اور فلسطین ضلعے مشہور تھے ،


★_ رومیوں نے وہاں جس قدر بھی نہریں تھی ان سب کے بند توڑ دئے، اس طرح وہاں پانی ہی پانی ہوگیا ، کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب بھلا ان سے کب رک سکتا تھا، اسلامی لشکر پھر بھی بسان پہنچ گیا، ان کی یہ مضبوطی دیکھ کر عیسائی لشکر نے صلح کا پیغام بھیجا لیکن صلح نہ ہوسکی، جنگ شروع ہوئی، تقریبا ایک گھنٹہ جنگ جاری رہی، آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بری طرح بدحواس ہو کر بھاگے،


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوشخبری مدینہ منورہ بھیجیں اور امیرل مومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معلوم کروایا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ، ادھر سے جواب آیا - رعایا کو ذمی قرار دیا جاے اور زمین بادستور زمین داروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے، 


★_ اس عظیم الشان فتح کے بعد اردن کے تمام شہر آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، ہر مقام پر یہ لکھ کر دیا گیا - فتح کیے گئے لوگوں کی جان ومال گرجے اور دوسری عبادت گاہیں سب کی سب محفوظ رہیں گی، صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کسی قدر زمین لی جائے گی _,"

یعنی کسی کے ساتھ بھی کوئی ناگوار سلوک نہیں کیا گیا, جبکہ رومی اور ایرانی فتح کیے گئے علاقوں کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے تھے ،

╨─────────────────────❥

*"_حمص کی فتح _*


★ _ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا ، شام کے تمام ضلعو میں یہ ایک بڑا ضلع تھا ، پرانا شہر تھا ، اردن کے بعد صرف تین شہر باقی ری گیے تھے ، ان تینوں کے فتح ہونے کا متلب تھا پورا شام فتح ہو گیا ، ی تینوں شہر بیت المقدس ، حمص اور انطاکیہ ، انطاکیہ میں خد ہرقل موجود تھا ، ان تینوں شہروں میں حمص زیادہ قریب تھا ، اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پہلے اسی کا رخ کیا،


 ★_ حمص کے نزیدک رومیو نے خود آگے بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا ، ایک بڑی فوج حمص سے نکلی ، جوسیہ کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سمنے آ گیں ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے،


 ★ _ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نی مصیرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کی طرف روانہ کیا ، راستے میں رومیوں کی شکست کھائی ہوئی فوج سے مقابلہ ہوتا رہا ، ان مقابلوں میں بھی مسمانو کو فتح ہوئی ،


 ★ _ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا ، حمص کو گھیرے میں لیا گیا ، موسم بہت سرد تھا ، رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان سردی کا مقبلہ نہیں کر سکیں گے ، ہرقل کا بھی انہیں پہنچ چکا تھا کہ بہت جلدی مدد پہنچ جایگی اور ہرقل ایک بڑا لشکر روانہ بھی کر چکا تھا ، لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی لللہ عنہ نے اس لشکر کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے اسلامی لشکر بھیج دیا ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس وقت عراق کی مہم پر تھے ، انکے لشکر نے رومی فوج کو وہیں روک لیا اور وہ حمص نہ پہنچ سکی ،


★_ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، راستے میں جو علاقے آتے گئے وہ آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ لازکیہ تک پہنچ گئے ، لازکیہ بہت پرانا شہر تھا، اس کی مضبوطی کو دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فاصلے پر پڑاؤ کیا،


★_ یہاں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عجیب حکمت عملی اپنائی، آپ نے میدان میں کھائیاں خدوای ، یہ اس طرح خودی گئی کہ دشمن کو پتہ نہ چل سکا، پھر ایک دن فوج کو کوچ کا حکم دے دیا ، رومیوں نے لشکر کو واپس جاتے دیکھ لیا، وہ سمجھے کہ مسلمان مایوس ہو کر چلے گئے، لیکن ہوا صرف یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں اسلامی لشکر نہایت خاموشی سے لوٹ آیا تھا اور کھائیوں میں چھپ گیا تھا،


★_ ادھر رومی اس لمبے محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمان جا چکے ہیں تو شہر کے دروازے کھول کر باہر نکل آئے اور روز مرہ کے کاموں میں بے فکری سے مشغول ہو گئے، یہی وقت تھا جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا، وہ کھائیوں سے نکل آئے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا، اس طرح شہر فوراً فتح ہوگیا،


★_ حمص کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے پایہ تخت کا رخ کرنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم آیا کہ اس سال اور آگے نہ بڑھو، چناچہ روانگی روک دی گئی، فتح کیے علاقوں میں بڑے بڑے افسروں کو بھیج دیا گیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دمشق چلے گئے ، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اردن میں قیام کیا ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ خود حمص میں ٹھہرے،

╨─────────────────────❥

*"_ یرموک کی تیاری_,*


★_ دمشق اور حمص سے شکست کھا کر رہی یہودی انطاکیا پہنچے، انہوں نے ہرقل سے فریاد کی کہ عربوں نے تمام شام فتح کرلیا ہے ، ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور ان سے کہا - عرب تم سے تاق میں اور سازوسامان میں کم ہیں... پھر بھی تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکے ؟


★_ ان کے سر شرم سے جھک گئے ، کوئی کچھ نہ بولا، آخر ایک بوڑھے نے کہا - عربوں کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں ، وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بھائیوں کی طرح ملتے ہیں ، کوئی خود کو دوسرے سے بڑا نہیں سمجھتا جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ شراب پیتے ہیں ، بدکاری کرتے ہیں ، عہد کی پابندی نہیں کرتے، دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش پایا جاتا ہے، ہم میں جوش اور جذبہ نہیں ہے ،


★_ اس بات چیت کے بعد قیصر نے روم قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیا غرض ہر طرف احکامات بھیجے کہ تمام فوجیں پایہ تخت انطاکیہ میں ایک مقررہ تاریخ کو جمع ہو جائیں، اس نے تمام ضلعوں کے افسروں کو لکھا کہ جس قدر آدمی جہاں سے بھی مہیا ہو سکیں ، روانہ کر دیے جائیں، ان احکامات کے پہنچتے ہی ہر طرف سے انسانوں کا سیلاب انطاکیہ کی طرف چل پڑا ، انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی تھی فوجیں ہی فوجیں نظر آتی تھی ،


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر مل چکی تھی، انہوں نے سب کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی ، اس تقریر میں آپ نے فرمایا - مسلمانوں ! اللہ تعالی نے تمہیں بار بار چانچا .. تم ہر بار اس کی جانچ میں پورے اترے ، اس کے بدلے اللہ تعالی نے بھی تمہیں کامیابیاں عطا فرمائیں.. اب تمہارا دشمن اس سازوسامان سے تمہارے مقابلے میں آیا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے ،... اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو ؟


★_ آخر کار یہ مشورہ ہوا کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق کی طرف روانہ ہو جائیں ، وہاں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور عرب کی سرزمین وہاں سے قریب ہے، 

جب یہ بات طے ہوگئی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے حبیب بن مسلمہ کو بلایا، یہ افسر خزانہ تھے ، آپ نے ان سے فرمایا :-

"_ ہم عیسائیوں سے جزیہ لیتے رہے ہیں اس کے بدلے ان کی حفاظت کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے، لہذا اس وقت تک ان سے جتنا جزیہ لیا ہے، وہ سب کا سب انہیں واپس کر دیں اور ان سے کہہ دیں کہ ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے اس لئے جزیہ واپس کرتے ہیں، کیونکہ جزیہ دراصل حفاظت کرنے کا معاوضہ ہوتا ہے _,"


★_ جب یہ لاکھوں کی رقم واپس کی گئیں تو عیسائیوں پر اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ رونے لگے، روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے :- خدا تمہیں واپس لائے _,"

یہودیوں پر بھی بہت اثر ہوا انہوں نے کہا - تورات کی قسم ! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا_,"


★_اور پھر انہوں نے شہر کے دروازے بند کرلئے.. جگہ جگہ پہرے بٹھا دئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ سلوک صرف حمص والوں ہی سے نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ، ہر جگہ لکھ بھیجا - جزیہ کی جس قدر رقم وصول کی ہے ساری کی ساری واپس کر دی جائے _,"


★_ غرض اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے، انہوں نے ان تمام حالات کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کر دی ، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص چھوڑ کر چلے آئے ہیں تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ فوج کے تمام افسران کا فیصلہ یہی تھا تب انہیں اطمینان ہوا ، آپ نے فرمایا- اللہ تعالی نے کسی مصلحت کے تحت ہی تمام مسلمانوں کو اس رائے پر جمع کیا ہوگا _,"


★_ پھر آپ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا :- "_ میں مدد کے لئے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیج رہا ہوں لیکن فتح اور شکست فوج کی زیادتی پر نہیں ہے _,"

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا، ابھی مشورہ ہو رہا تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قاصد خط لے کر پہنچا، خط کا مضمون یہ تھا :- "_ اردن کے ضلعوں میں عام بغاوت پھیل گئی ہے، رومیوں کی ہر طرف سے آمد نے ہر طرف ہلچل مچا دی ہے افراتفری پھیل گئی ہے ، حمص چوڑ کر چلے آنے سے بہت نقصان ہوا ہے، ہمارا رعب اٹھ گیا _,"


★_ اس خط کے جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے لکھا :- "_ ہم نے حمص کو ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصد یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں وہ سب ایک جگہ جمع ہو جائیں، .. اور آپ وہیں ٹھہرے ، ہم آرہے ہیں _,"

دوسرے دن انہوں نے اردن کی حدود میں پہنچ کر یرموک کے مقام پر قیام کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی ان سے یہی آ ملے _,"


★_ یہ مقام جنگ کے لئے اس وجہ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد یہاں سے قریب ترین تھی ، اسلامی لشکر کو یہ فائدہ تھا کہ جہاں تک چاہتے ہٹ سکتے تھے، حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بھی ایک ہزار کا لشکر لے کر وہاں پہنچ گئے ،


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک اور خط حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا، اس کے الفاظ یہ تھے :- رومی خشکی اور سمندر سے ابل پڑے ہیں حالانکہ ان کے جوش کا یہ عالم ہے کہ فوج جس راستے سے گزرتی ہے وہاں کے راہب اور پادری بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے جا رہے ہیں، ان لوگوں نے کبھی بھی عبادت خانوں سے قدم باہر نہیں نکالے تھے، یہ سب مل کر اپنی فوج کو جوش دلا رہے ہیں _,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خط ملا تو انہوں نے تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کرلیا اور انہیں پڑھ کر سنایا، تمام صحابہ بے اختیار رو پڑے اور نہایت پر جوش انداز میں پکار اٹھے :- اے امیر المومنین ! ہمیں اجازت دیجئے ہم بھی جاتے ہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر دین پر نثار ہوتے ہیں _,"

 اب تو مہاجرین اور انصار کا جوش بےتحاشا بڑھ گیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے نام ایک جوردار خط لکھا اور قاصد سے فرمایا - تم خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنا نا _,"


★_ قاصد خط لے کر پہنچا، اس نے ایک ایک صف میں جاکر خط سنایا ،اس سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا، انہونے پرجوش انداز میں تیاری شروع کر دی، دوسری طرف رومی لشکر بھی خوب سازوسامان سے لیس ہو کر آگے بڑھے، ان کی تعداد دو لاکھ سے کہیں زیادہ تھی، کل فوج کی چوبیس صفیں تھی، فوج کے آگے مذہبی پیشوا پادری وغیرہ ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلا رہے تھے، آخر دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں اور یرموک کا میدان تھا،


★_ رومی باری باری اپنے لشکر سامنے لاتے رہے، انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے دستوں کے مقابلے میں الگ الگ فوجیں آگے بھیجیں، لیکن ان سب نے باری باری شکست کھائی ،


★_ رومی سپہ سالار باہان نے رات کے وقت اپنے سرداروں کو جمع کیا اور کہا :- عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ گیا ہے... بہتر یہ ہے کہ مال و دولت دے کر انہیں ٹالا جائے _," 

اس رائے سے سب نے اتفاق کیا, دوسرے دن انہوں نے ایک قاصد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا، اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا - "_ہمارے سپہ سالار چاہتے ہیں آپ بات چیت کے لئے کسی افسر کو بھیجیں_,"


★_ اس وقت مغرب کی نماز کا وقت ہو چلا تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے ٹھکرایا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں ، وہ انہیں نماز پڑھتے ہوئے حیرت زدہ انداز میں دیکھتا رہا، نماز ہو چکی تو اس نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا - "_ حضرت عیسیٰ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے ؟

جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیات 171 تلاوت کی :-


"_ (ترجمہ ) _ اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی شان میں سوائے پکی بات کے نہ کہو، بے شک مسیحی عیسیٰ مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کا ایک کلمہ ہیں جنہیں اللہ نے مریم تک پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہیں، سو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں، اس بات کو چھوڑ دو، تمہارے لیے بہتر ہو گا، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کارساز کافی ہے ، مسیحی خدا کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہیں کرے گا اور نہ مقرب فرشتے اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا اللہ تعالٰی ان سب کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا _,"


★_ مترجم نے جب اس آیت کا ترجمہ قاصد کے سامنے کیا تو وہ بے اختیار پکار کر بولا - بے شک عیسٰی علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے _,"

 یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا .. ساتھ ہی اس نے کہا :- بس اب میں اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جاؤں گا _,"


★_ اس پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے قاصد سے کہا - اس طرح رومی کہیں گے کہ مسلمانوں نے بے عہدی کی.. ہمارے قاصد کو روک لیا .. لہذا تم اس وقت تو چلے جاؤ.. کل جب ہمارا قاصد وہاں سے آے تم اس کے ساتھ چلے آنا _," اس نے یہ بات مان لی,


★_ دوسرے دن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رومیوں کے لشکر میں پہنچے، رومیوں نے انہیں اپنی شان و شوکت دکھانے کے زبردست انتظامات کر رکھے تھے، راستے کے دونوں طرف سواروں کی صفیں قائم کی تھی، وہ سر سے لے پیر تک لو لوہے میں غرق ھے لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ ذرا بھی ان سے مرعوب نہ ہوئے، الٹا حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے گزرتے چلے گئے، بالکل ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے شیر بکریوں کے ریوڑ کو چرتا آگے بڑھ رہا ہے، ( غور کرو مسلمانوں کبھی ہمارا یہ حال تھا .. آج ہم دین کی محنت کو چھوڑ کر کس حال میں پہنچ گئے ہیں )


★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ باہان کے خیمے کے پاس پہنچی تو اس نے بہت احترام سے آپ کا استقبال کیا اور اپنے برابر بٹھایا ، مترجم کے ذریعے بات چیت شروع ہوگئ، پہلے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف کی پھر قیصر کے بارے میں بولا :- ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے ...," ابھی وہ یہاں تک کہہ پایا تھا کہ حضرت خالد بول اٹھے :- تمہارا بادشاہ ضرور ایسا ہوگا، لیکن ہم نے جس شخص کو اپنا سردار بنا رکھا ہے اگر اسے ایک لمحے کے لیے بادشاہت کا خیال آجائے تو ہم فوراً اسے معزول کر دیں _," 


★_ باہان نے ان کے خاموش ہونے پر پھر اپنی تقریر شروع کی :- اے اہلِ عرب ! تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے ، ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کیا ، ہمارا خیال تھا ہمارے اس سلوک کی وجہ سے پورا عرب ہمارا شکر گزار ہوگا لیکن اس کے خلاف تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے، اب تم چاہتے ہو کہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو، تم نہیں جانتے اس سے پہلے بھی بہت قوموں نے ایسا کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے، اب تم آئے ہو ، تم سے زیادہ جاہل اور بے ساز و سامان قوم اور کوئی بھی نہیں ، اس پر تم نے یہ جرائت کی، .. خیر .. درگزر کرتے ہیں .. اگر تم یہاں سے چلے جانا منظور کر لو تو ہم انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار دینار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دینگے _,"

 باہان یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گیا،


★_ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا :- بے شک تم دولت مند ہو ، حکومت کے مالک ہو .. تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی ہمیں معلوم ہے .. لیکن یہ تم نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ یہ تمہارا اپنے دین کی اشاعت کا طریقہ تھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ عیسائی ہوگئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہیں ... یہ بھی درست ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے، ہمارا حال یہ تھا کہ طاقتور کمزور کو کچل دیتا تھا، قبائل آپس میں لڑ لڑ کر مر جاتے تھے، ہم نے بہت سے خدا بنا رکھے تھے انہیں پوچھتے تھے، اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے،


★_ اللہ تعالی نے ہم پر رحم فرمایا اور ہم میں ایک پیغمبر بھیجا، وہ خود ہماری قوم سے تھے، سب سے زیادہ شریف پاکباز اور سخی تھے، انہوں نے ہمیں توحید کا سبق دیا، ہمیں بتایا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد، وہ بالکل یکتا ہے، انہوں نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کریں... جو ان کو مان لے وہ مسلمان ہے ، ہمارا بھائی ہے، جو انکار کرے وہ جزیہ دینا قبول کرے، ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، .. جو ان دونوں باتوں سے انکار کرے گا اس سے ہم جہاد کریں گے _," 


★_ باہاں نے یہ سن کر سرد آہ بھری اور بولا :- ہم کسی قیمت پر بھی جزیہ نہیں دیں گے ... ہم تو جزیہ لیتے ہیں، دیتے نہیں _,"

اس طرح کوئی بات طے نہ ہو سکی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ واپس آگئے، چنانچہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی گئی،


★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے بولا :- تم نے سنا، یہ کیا کہہ گئے ہیں .. ان کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ، جنگ نہیں ٹل سکتی .. کیا تمہیں ان کی غلامی منظور ہے ؟_,"

 وہ سب کے سب پرجوش انداز میں بول اٹھے :- ہم مر تو جائیں گے، ان کی غلامی قبول نہیں کریں گے _," چنانچہ جنگ کا فیصلہ کرلیا گیا،


★_ دوسری صبح رومی لشکر اس قدر سازوسامان کے ساتھ سامنے آیا کہ مسلمان حیران رہ گئے، اسلامی فوج کی تعداد 36 ہزار تھی، جب کہ رومیوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کے 36 حصے کیے اور آگے پیچھے ان کے صفین قائم کر دی، اس طرح ان کی 36 صفے بن گئیں، فوج کے قلب یعنی درمیان پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ، دائیں حصے پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ، جب کہ بائیں بازو پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ، ان کے علاوہ ہر صف کا بھی ایک افسر تھا ، اس طرح 36 افسر مقرر کیے،


★_ اسلامی لشکر کی تعداد اگرچہ دشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن ان میں چنے ہوئے حضرات تھے، ان میں سو صاحبہ وہ تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں حصہ لیا تھا، بدری صحابہ کا تو اپنا مقام ہے، قبیلہ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی، قبیلہ ہمدان ، خولان، لحم، جذام وغیرہ کے مشہور بہادر بھی شامل تھے، ایک خاص بات یہ تھی کہ اسلامی لشکر میں خواتین بھی شامل تھیں جو مجاہدین کو مختلف خدمات اور مرہم پٹی وغیرہ پر مامور تھیں، 


★_ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی آواز بہت دلکش تھی، وہ فوج کے آگے سورہ انفال پڑھتے جاتے تھے، 

آخر جنگ شروع ہوئی، ابتدا رومیو کی طرف سے ہوئی، صحابہ نے اس موقع پر اس شدت سے جنگ کی کہ رومیوں کی صفیں درہم برہم ہو گئی، 


★_ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے کفار کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ چکے تھے، یہ ابوجہل کے بیٹے تھے ، انہوں نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور پکارے - عیسائیوں ! میں کسی زمانے میں مسلمانوں سے لڑتا رہا ہوں ، آج تمہارے مقابلے میں بھلا کس طرح پیچھے ہٹ سکتا ہوں _,"

 یہ کہہ کر اپنی فوج کی طرف رخ کرکے بولے - آؤ .. آج موت پر کون بیعت کرتا ہے ؟ چار سو مجاہدین نے موت پر ان سے بعیت کی، ان میں ضرار بن ازد بھی تھے، یہ ثابت قدمی سے لڑے یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہو گئے، یہ حضرات اگرچہ شہید ہوگئے لیکن انھوں نے رومیو کے ہزاروں آدمی کاٹ کر رکھ دیے تھے، اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حملوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ انہیں دباتے چلے گئے ،


★_ قباث بن اشیم، سعید بن جبیر زبیر ، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص ، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہم جم کر لڑے، قباث بن اشیم کا حال یہ تھا کہ نیزیں اور تلواریں ان کے ہاتھوں سے ٹوٹ کر گر رہے تھے مگر ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے تھے، نیزا ٹوٹ کر گرتا تو کہتے :- کوئی ہے جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے اللہ سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا _," لوگ فوراً تلوار یا نیزا انہیں پکڑا دیتے، وہ شیر کی طرح دشمن پر جھپٹ پڑتے ،


ابوالا نور نے تو یہاں تک کیا کہ گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے دستے سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے :- صبر اور استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبیٰ ( آخرت) میں رحمت .. دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے جانے نہ پائے_,"

اسی طرح یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بڑی بے جگری اور ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے، یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے، ایسے میں ان کے والدہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ان کی طرف نکل آئے، یہ مسلمانوں میں جوش دلاتے پھر رہے تھے، بیٹے پر نظر پڑی تو کہنے لگے :- بیٹا ! اس وقت ہر ایک بہادری کے جوہر دکھا رہا ہے، تو سپاہ سالار ہے .. تجھے شجاعت دکھانے کا زیادہ حق ہے، فوج کا ایک سپاہی بھی اگر تجھ سے بازی لے گیا تو یہ تیرے لیے شرم کی بات ہوگی _,"


★_ حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ رومیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، یہ ان کے درمیان پہاڑ کی طرح جمے کھڑے تھے، لڑ رہے تھے اور قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرتے جاتے تھے :- 

"_ ( ترجمہ ) اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے اور اللہ کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں ؟"

 فوج کو ساتھ لے کر آگے بڑھے اور رومیوں کی پیش قدمی کو روک کر رکھ دیا، 


★_ عورتوں نے بھی اس موقع پر کمال کی بہادری دکھائی، وہ بھی رومیوں کے مقابلے پر ڈٹ گئیں، ان سے بھی مسلمانوں کو بہت ہمت ملی ، عورتوں نے چلا چلا کر یہ الفاظ کہے :- میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا _,"


★_ اب تک جنگ برابر کی جاری تھی، دونوں لشکر پوری طرح ڈٹے ہوئے تھے بلکہ رومیو کا پلہ قدر بھاری تھا، ایسے میں اچانک حضرت قیس بن بہیرہ لشکر کے پیچھے سے نکل کر سامنے آئے، انہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کے ایک حصے پر افسر مقرر کر رکھا تھا، انہیں اس حصے کے لشکر میں پچھلی طرف رہنے کا حکم تھا، وہ اس موقع پر آگے آئے اور اس طرح رومیوں پر ٹوڈے کہ رومی خود کو سنبھال نہ سکے، 


★_ رومیوں نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کر ڈالی، ایڑی سے لے کر چوٹی کا زور لگا ڈالا مگر قیس بن بہیرہ کے حملے سے سے ان کے اکھڑے قدم جم نہ سکے یہاں تک کہ ان کی صفیں درہم برہم ہوگئی، ان کے ساتھ ہی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے لشکر کے قلب سے نکل کر حملہ کیا ، رومی پیچھے ہٹتے چلے گئے، ان کی پشت پر ایک نالہ تھا، وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے اس نالے کے کنارے تک پہنچ گئے ، اب جنگ اس نالے کے پاس ہونے لگی، رویوں کی لاشیں اس میں اس قدر گرنے لگیں کہ نالا بھر گیا ،


★_ ایسے میں ایک خاص واقعہ بھی ہوا ، گھمسان کی جنگ میں حباص بن قیس بڑی بہادری سے لڑ رہے تھے ، اسی دوران کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار کا وار کیا، ان کا پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا ، انہیں پتہ تک نہیں چلا کہ پاؤں کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا، کچھ دیر بعد جب پتہ چلا تو میدان جنگ میں تلاش کرنے لگے کہ میرا پاؤں کہاں ہے ؟ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعے پر فخر کیا کرتے تھے,


★_ قیس بن بہیرہ کے حملے کے بعد رومیوں کے جو پاؤں اکھڑے تو پھر جم نہ سکے، وہ بھاگتے چلے گئے ، رہی سہی کسر نالے نے پوری کر دی، مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب رومی مارے گئے اور مسلمان تین ہزار کے قریب شہید ہوئے، رومیوں کا بادشاہ قیصر اس وقت انطاکیہ میں تھا، اسے اپنے لشکر کی شکست کی خبر وہیں ملی، اس نے اسی وقت وہاں سے چلنے کی ٹھانی اور چلتے وقت یہ الفاظ کہے :- الوداع اے شام !


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یرموک کی خبر کے انتظار میں مسلسل جاگ رہے تھے، سو نہیں سکے تھے، فتح کی خبر ملی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فوراً سجدے میں گر پڑے،


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ یرموک سے واپس حمص آ گئے، انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تنصرین کی طرف بھیجا اور آپ نے حلب کا رخ کیا، دونوں علاقے فتح ہوگئے، حلب کے بعد انطاکیہ کی باری آئی، یہ قیصر کا خاص دارالحکومت تھا، رومیو اور عیسائیوں نے بڑی تعداد میں آ کر یہاں پناہ لی تھی، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہر طرف سے انطاکیہ کا محاصرہ کر لیا، چند روز بعد مجبور ہو کر عیسائیوں نے صلح کی پیشکش کی، ان مقامات کی فتح نے مسلمانوں کا رعب قائم کر دیا ،


★_ انطاکیہ کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دی، اس طرح چھوٹے چھوٹے علاقے آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، خون کا ایک قطرہ بھی نا بہانہ پڑا ، اسی طرح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کیا اور فتح کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے آس پاس کے تمام شہر فتح کرلئے،


★_ اب وہ فلسطین کی طرف متوجہ ہوئے، عیسائی قلعہ بند کر بیٹھے گئے، اس وقت تک حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے قریب قریب تمام ضلع فتح کر چکے تھے، چنانچہ فارغ ہوکر انہوں نے فلسطین کا رخ کیا، اب عیسائی ہمت ہار گئے اور انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور شرط یہ رکھی مسلمانوں کے خلیفہ خود آ کر ان سے صلح کریں، صلح نامہ ان کے ہاتھ سے لکھا جائے،

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیشکش کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، جس کے الفاظ یہ تھے :- اگر آپ خود تشریف لے آئیں تو بیت المقدس جنگ کے بغیر فتح ہو سکتا ہے، عیسائیوں نے پیشکش کی ہے کہ آپ خود آ کر صلح کریں اور صلح کی شرائط آپ خود لکھیں،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام ملا تو آپ نے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع فرما لیا ، ان سے مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا - انہوں نے بلایا ہے تو آپ کو جانا چاہیے _,"

آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کو پسند فرمایا اور سفر کے لیے تیار ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا، 


★_ آپ رجب 16 ہجری میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اس انداز سے روانہ ہوئے کہ نہ تو کوئی فوجی دستہ ساتھ لیا نہ بوڈی گارڈ، نہ خدمتگزار کی فوج ساتھ لی، نہ کسی اور قسم کا سازوسامان ساتھ لیا، یہاں تک کہ خیمہ بھی ساتھ نہ لیا ، سواری کے لئے اونٹ تھا اور صرف چند مہاجرین اور انصار ساتھ تھے،


★_ آپ نے فوج کے سالاروں کو پیغام بھیجا کہ جابیہ کے مقام پر ان سے آ ملیں، چنانچہ حضرت یزید بن ابی سفیان اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے اسی مقام پر آپ کا استقبال کیا ، آپ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی، دشمن کے بلندوبالا دلکش مکانات آپ کے سامنے تھے،


★_ جابیہ میں کچھ دن قیام فرمایا، عیسائیوں کو آپ کی آمد کی خبر مل چکی تھی، چنانچہ اب وہ بھی اسی مقام پر پہنچ گئے، یہ لوگ شہر کے رئیسوں میں سے تھے ، جب یہ لوگ پہنچے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے، مسلمانوں نے ان کو آتے دیکھا تو خیال کیا کہ یہ لوگ حملے کی نیت سے آگے بڑھتے چلے آ رہے ہیں چناچہ انہوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لیے،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا - کیا بات ہے تم نے ہتھیار کیوں سنبھال لیے ؟ انہوں نے آنے والوں کی طرف اشارہ کیا ، ان کے کندھوں پر تلواریں لٹک رہیں تھیں، ان کی طرف دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - گھبراؤ نہیں.. یہ لوگ تو ایمان طلب کرنے کے لئے آ رہے ہیں_,"


★_ اسی طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہوا ، اس پر دستخط کیے گئے، معاہدہ ہو چکا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فلسطین میں داخل ہونے کے ارادے سے اٹھے، ان کے لیے ایک عمدہ نسل کا گھوڑا لایا گیا، آپ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخی دکھانے لگا، آپ اس پر بھی سوار نہ ہوئے اور پیدل بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے،


★_ بیت المقدس نزدیک آیا تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے سالار استقبال کے لئے آئے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لباس بہت معمولی تھا، اس لیے اس کو دیکھ کر ان حضرات نے سوچا - آپ کا لباس قیمتی ہونا چاہیے تاکہ بیت المقدس کے لوگوں پر اثر پڑے، چنانچہ ترکی گھوڑے کے ساتھ قیمتی پوشاک بھی پیش کی، اس کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اللہ نے ہمیں جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے.. اور ہمارے لئے یہی کافی ہے _,"


★_ غرض اسی حالت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے، سب سے پہلے مسجد میں گئے، محراب کے پاس جا کر سورہ ص کی آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کیا، پھر عیسائیوں کے گرزے میں آئے، ادھر ادھر گھوم کر اس کو دیکھا ،

╨─────────────────────❥

*"_حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی شکایت اور اذان_,*


★_ بیت المقدس میں آپ نے کئی دن تک قیام فرمایا، ضرورت کے احکامات جاری کیے ، اس دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ شکایت کی کہ - اے امیرالمومنین ! ہمارے افسر پرندوں کا گوشت اور معدے کی روٹیاں کھاتے ہیں .. لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا_,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے افسروں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا - امیرالمومنین ! اس ملک میں تمام چیزیں مل سکتی ہیں,.. جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجوریں ملتی ہیں یہاں اسی قیمت میں پرندے کا گوشت اور معدہ مل جاتا ہے _,"

یہ سن کر آپ نے حکم فرمایا - مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا خانہ بھی مقرر کیا جائے _,"


★_ ایک دن نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آج آپ اذان دیں _," حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا - میں عزم کر چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دوں گا، .. پھر بھی آپ کی فرمائش کو بھی ٹال نہیں سکتا ، چناچہ صرف آج اذان دے دیتا ہوں _,"


★_ جب انہوں نے اذان شروع کی تو تمام صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک یاد آگیا، سب پر غم طاری ہوگیا ، حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تو روتے روتے بیتاب ہو گئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی ہچکیاں بندھ گئیں، دیر تک یہ اثر باقی رہا _,"


★_ اسی طرح کا واقعہ ایک بار مدینہ منورہ میں پیش آیا، جب حضرت حسنین رضی اللہ عنہم کی درخواست پر آپ نے اذان دی,


★_ ایک دن مسجد اقصیٰ آئے ، وہاں کعب بن احبار رح کو بلایا اور ان سے پوچھا - نماز کہاں پڑھی جائے _," یہ پہلے یہودی تھے اس بنیاد پر ان سے پوچھا کیونکہ انہیں مسجد اقصیٰ کے بارے میں زیادہ معلوم تھا, انہوں نے عرض کی سخرہ کے پاس پڑھیں، مسجد اقصیٰ میں بھی حجر اسود کی طرح ایک پتھر ہے، یہ پتھر انبیاء علیہ السلام کی یادگار ہے، اس پتھر کو سخرہ کہتے ہیں _,"


★_اسلامی فتوحات کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا اس لیے ہمسایہ سلطنتوں کو خوف محسوس ہوا کہ اب ہماری باری بھی آئے گی, چنانچہ جزیرہ کے لوگوں نے قیصر کو لکھا - نئے سرے سے ہمت کریں, ہم ساتھ دینے کو تیار ہیں_,"

ان کا پیغام سن کر قیصر نے ایک بڑی فوج حمص کی طرف روانہ کی، جزیرہ والے 30 ہزار کی فوج کے ساتھ حمص کی طرف بڑے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے مقابلے کی تیاری شروع کر دی،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تمام حالات کی اطلاع دی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھی، ہر مقام پر 4-4 ہزار گھوڑے ہر وقت تیار رہتے تھے تاکہ کوئی فوری ضرورت پیش آجائے تو ہر جگہ فوجیں روانہ ہو کر موقع پر پہنچ سکے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا خط ملتے ہی آپ نے ہر طرف گھوڑے دوڑا دیئے،


★_ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ لشکر کی مدد کے لیے کوفہ سے چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے، وہ ابھی راستے میں تھے کہ جنگ چھیڑنے کی خبر سنی، لہذا فوراً لشکر سے الگ ہو کر ١٠٠ گھڑسوار کے ساتھ آگے بڑھے اور اسلامی لشکر تک پہنچ گئے اور میدان جنگ میں کود پڑے،


★_ مسلمانوں کے پہلے ہی حملے میں عرب قبائل پسپا ہو گئے جیسا کہ انہوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا ، بس ان کے پسپا ہوتے ہیں عیسائیوں کے بھی چھکے چھوٹ گئے، اس کے بعد تو بس وہ بہت تھوڑی دیر میدان میں ٹھہر سکے پھر بدحواس ہو کر بھاگے, شام کے عیسائیوں کے ساتھ یہ صحابہ کرام کی آخری جنگ تھی، اس کے بعد عیسائیوں کو مزید لڑنے کی ہمت نہ ہوئی،


★_ ان فتوحات کے دوران ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سے ہٹا دیا تھا اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سونپ دی تھی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ فر بھی ایک افسر کی حیثیت سے اسلامی لشکر میں شامل رہے تھے،


★_ یہ بات نہیں کہ انہیں بلکل ہی اسلامی لشکر سے الگ کر دیا تھا جیسا کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں، اس سلسلے میں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی پہلا حکم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا دیا تھا ،_جبکہ یہ بات بلکل غلط ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ 13 ہجری میں خلیفہ بنے تھے جب کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو 17 ہجری میں سپہ سالاری سے ہٹایا گیا، اگرچہ ان کی ایک تجربہ کار افسر کی حیثیت باقی رہی تھی، 


★_ اس بارے میں بہت سی مختلف روایات تاریخ کتابوں میں درج ہیں، اس سلسلے میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ آپ پڑھ لیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد جب مدینہ منورہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا :- خالد ! اللہ کی قسم تم مجھے محبوب ہو, میں تمہاری عزت کرتا ہوں_,"


★_ اس کے بعد آپ نے تمام گورنروں کو یہ پیغام ارسال فرمایا :- میں نے خالد کو کسی ناراضی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دیکھتا تھا لوگ اس خیال پر پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو فتح خالد کی سپہ سالاری کی وجہ سے ہو رہی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، فتوحات تو ہمیں اللہ تعالی عطا کر رہے ہیں، بس میں لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے _,"

معلوم ہوا کہ اصل مصلحت یہ تھی، لہذا ہمیں اختلافی روایات میں پڑ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف سے دل میں کسی بدگمانی کو جگہ نہیں دینا چاہیے،

╨─────────────────────❥

*"_حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات_,"*


★_ 18 ہجری میں شام مصر اور عراق میں طاعون کی وبا پھیلی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس وبا کے پھیلنے اور بڑی تعداد میں لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو انتظامات کے لئے خود روانہ ہوئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بیماری کا زور بڑھتا ہی جا رہا ہے، اس پر آپ نے مہاجرین اور انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف مشورے دئے ، ایک صاحب نے کہا - آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں_,"

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا - ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے_," 


★_ ان کی یہ بات سن کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا - "_ اے عمر ! اللہ کی تقدیر سے بھاگ ر پے ہو _,"

_ جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ہاں ! تقدیر الہی سے بھاگتا ہوں .. مگر بھاگتا بھی تو تقدیر ہی کی طرف ہوں _,"

 اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلے آئے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا - مجھے آپ سے کچھ کام ہے آپ کچھ دن کے لیے مدینہ منورہ چلے آئیں _,"


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس وبا کے خوف سے مدینہ منورہ میں بلا رہے ہیں_, چنانچہ جواب میں لکھ بھیجا :- میں مسلمانوں کو یہاں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے نہیں آؤں گا _,"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ خط پڑھ کر رو پڑے اور پھر انہیں لکھا :- اس وقت فوج جہاں موجود ہے، ... وہ نشیب میں ہے اور مرطوب ہے، آپ لشکر کو لے کر کسی اور جگہ چلے جائیں _,"

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں چلے گئے، .. وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس بیماری کی زد میں آگئے، آپ نے لوگوں کو جمع کیا، انہیں نصیحتیں فرمائیں، آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ سپہ سالار مقرر فرمایا، اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا، چنانچہ ان سے کہا - آپ نماز پڑھائیں _,"

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی, ۔۔ ادھر سلام پھیرا، ادھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا نام عامر بن عبداللہ بن جراح تھا ، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی یہ ان 10 صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت ملی، اسلام لانے میں آپ کا نواں نمبر ہے یعنی اسلام لانے میں بھی سب سے پہلو میں شامل ہیں، آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے، پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ،


★_ تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ررہے،آپ کے والد ایمان نہیں لائے تھے، آپ نے غزوہ بدر میں ان سے بھی جنگ کی، اس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے سورہ المجادلہ کی یہ آیت نازل ہوئی :-

( ترجمعہ) اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ خدا اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہیں اگرچہ ان کے ماں باپ ہوں یا اولاد یا بھائی یا رشتے دار ہوں _,"


★_ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک میں خود کی دو کڑیاں گڑ گئ تھی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تھا، اس کوشش میں آپ کے سامنے کے دو دانت نکل گئے تھے، وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھاون سال تھی، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، آمین ۔


★_ آپ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے, اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں_," *( بخاری , مسلم و مشکواۃ )*

╨─────────────────────❥

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتظامات _,*


★_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام یرفا کے علاوہ ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، ایک مقام ایلہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری س اتر گئے، اس پر غلامی کو بٹھا دیا، خود اونٹ پر سوار ہو گئے، راستے میں کوئی پوچھتا - امیرالمومنین کہاں ہیں ؟ تو جواب میں فرماتے - تمہارے آگے ہیں_,"


★_ اسی طرح ایلہ میں داخل ہوے، یہاں دو دن ٹھہرے، آپ کا کرتا سفر کے دوران سواری کے کجاوے سے رگڑ کھا کر پھٹ گیا تھا ، اسے مرمت کے لیے ایلہ کے پادری کو دیا، اس نے اپنے ہاتھ سے پیوند لگا دیا ساتھ میں ایک نیا کرتا آپ کو پیش کیا، آپ نے اپنا کرتا پہنا اور فرمایا - اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے_,"


★_ آپ ایلہ سے دمشق آئے، اس کے ضلعوں میں دو دو چار چار دن قیام فرماتے رہے ، مناسب انتظام فرماتے رہے، جو لوگ وبا سے ہلاک ہوگئے تھے ان کے وارثوں کو بلا کر ان کی جایداد وغیرہ ان کے حوالے کی، .. وبا کی وجہ سے جو جگہ خالی ہو گئی تھی ان جگہوں پر نئے آدمی مقرر کیے،


★_ اس سال سخت قحط پڑا، آپ نے قحط کے دنوں میں اس قدر زبردستی انتظامات کیے کہ لاکھوں لوگوں کو بھوک سے بچا لیا گیا، اسی سال آپ نے مہاجرین ، انصار اور دوسرے قبائل کی تنخواہیں مقرر کیں،


*"_ کھوزستان کا معرکہ _,*


★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بعد آپ نے اسلامی لشکر کی ذمہ داری حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو سونپی، انہیں قیسار کی مہم پر روانہ کیا، یہ شہر فلسطین کے ضلعوں میں شمار تھا اور اس زمانے میں بڑا شہر تھا، اس میں تین سو بازار تھے،


★_ یہاں پہنچ کر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، انہوں نے لشکر پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کو مقرر فرمایا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سازو سامان کے ساتھ قیسار کا محاصرہ کیا، شہر کے لوگ شہر سے نکل کر حملہ کرتے رہیں، جب انہیں شکست ہونے لگتی تو فوراً شہر میں چلے جاتے اور دروازے بند کر لیتے، اس طرح شہر فتح ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا،


★_ ایک دن ایک یہودی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس کا نام یوسف تھا، اس نے ایک سرنگ کے بارے میں بتایا، وہ شہر کے اندر تک جاتی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے چند بہادروں کو سرنگ کے ذریعے قلعے کے اندر جانے کا حکم دیا، انہوں نے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا، دروازہ کھلتے ہی اسلامی فوج اندر داخل ہوئی اور فتح ہوئی ،


★_ فتوحات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ٢١ ہجری میں اصفہان، ٢٣ ہجری میں فارس، کرمان، سیستان، خراسان فتح ہوئے اور 26 ذالحجہ ٢٣ ہجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا, اس کی تفصیل یہ ہے *( انشاءاللہ اگلے پارٹ میں )*

╨─────────────────────❥

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت _,*


★_ مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی نہاوند فتح ہوا تو یہ قیدیوں میں شامل تھا اور اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا گیا تھا، ایک روز یہ شخص امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے عرض کیا - میرے آقا مغیرہ بن شعبہ( رضی اللہ عنہ) نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کر رکھا ہے، آپ کم کروا دیجئے _,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا - اچھا تمہیں کتنا محصول دینا پڑتا ہے ؟ 

 اس نے بتایا - مجھے روزانہ دو درہم ( ٤٣ پیسے) دینا پڑتے ہیں، 

 آپ نے اس سے پوچھا - تم کیا کام کرتے ہو ؟

 اس نے کہا - میں نقاشی اور آہن گری کا کام کرتا ہوں_،

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا - اس کام کے مقابلے میں تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے _,"


★_ فیروز آپ کا جواب سن کر ناراض ہو گیا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا - تم میرے لیے بھی ایک چکی بنا دو_,"

 جواب میں اس نے کہا - آپ کے لئے تو میں ایسی چکی بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گے_,"

 یہ کہہ کر وہ چلا گیا... آپ نے آس پاس موجود لوگوں سے فرمایا - یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے _,"


★_ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے نکلے، فیروز ان سے پہلے ہی مسجد میں آ چکا تھا، اس کے پاس ایک کھنجر تھا وہ اس نے اپنی آستین میں چھپا رکھا تھا،  

وہ مسجد کے ایک کونے میں دبکا ہوا تھا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ امامت کرانے کے لئے آگے آئے۔۔ اس وقت تک صفیں درست ہو چکی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صفیں درست کرانے کے لئے کچھ لوگ مقرر کر رکھے تھے،


جونہی آپ نے نماز شروع کی.. فیروز اچانک گھات سے نکلا اور آپ پر کھنجر کے چھ وار کیے، ان میں سے ایک وار ناف کے نیچے لگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود گر پڑے،


★_ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی میں پڑے تڑپ رہے تھے، فیروز وار کر کے بھاگا، کچھ لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے ان پر بھی وار کیے ، کچھ لوگ زخمی ہوئے، فیروز نے جب دیکھا کہ اسے گھیر لیا گیا ہے اس نے وہی خنجر اپنے پیٹ میں گھونپ کر خود کشی کرلی ،


★_ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر گھر لاے، اس وقت تک ان کا خیال تھا کہ زخم معمولی ہیں، چنانچہ ایک طبیب کو بلایا گیا اس نے شہد اور دودھ منگوایا، آپ کو پلایا گیا تو دونوں چیزیں زخموں کے راستے باہر نکل آئیں، اس وقت لوگوں کو احساس ہوا کہ آپ بچ نہیں پائیں گے،


*★ _حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہوش میں آنے کے بعد پوچھا میرا قاتل کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا - فیروز پارسی، آپ نےکہا- ا اللہ کا شکر ہے میں کسی مسلمان کے ہاتھوں نہیں مارا گیا _,"


★_ اب آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا - عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ ان سے کہو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے _,"

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ بری طرح رو رہی تھی, انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا ، آپ نے فرمایا - اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں_,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام، عراق، جزیرہ خوزستان عجم آرمینیہ آزراہائی جان، فارس، کرمان خراسان اور مکران فتح ہوئے ، بلوچستان کا کچھ حصہ بھی فتح ہوا ، 


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جو ان کی رائے ہوتی تھی اکثر وہی بات پیش آجاتی تھی، یہاں تک کہ ان کی بہت سی آراء مذہب کے احکام بن گئی، کئی موقعوں پر خود اللہ تعالی نے ان کی رائے کی تائید فرمائی،


★_ نماز کے اعلان کے لئے جب ایک طریقہ طے کرنے کا مسئلہ سامنے آیا تو لوگوں نے مختلف مشورے دیے، کسی نے کہا نے ناقوس بجا لیا جائے، کسی نے نقارہ بجانے کی رائے دی، کسی نے آگ جلانے کی بات کہی، لیکن اس وقت حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے یہ رائے دی کیوں نہ ایک آدمی مقرر کیا جائے ت

جو نماز کی منادی کیا کرے_,"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اذان دیں، چنانچہ یہ پہلا دن تھا جب اذان کا طریقہ شروع ہوا اور درحقیقت اذان سے بہتر کوئی اور طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا _,"


★_ بدر کے قیدیوں کا معاملہ پیش آیا تو جو رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی وحی بھی اسی کے مطابق نازل ہوئی، 


★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پہلے شرعی پردہ نہیں کرتی تھی کیونکہ پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بار بار اس بات کا خیال آیا, آخر انہوں نے عرض کر ہی دیا کہ اے اللہ کے رسول پردہ کروایا کریں, دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں وحی کا انتظار تھا، آخر پردے کی آیت نازل ہوئی اور تمام مسلمان عورتوں پر پردہ فرض ہو گیا _,"


★_ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چاہا کہ نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روکا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے آیت نازل ہوئی، اس میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ رائے دی :- اے امیرالمومنین میری رائے ہے کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں وہ کام کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا، آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ حضرت عمر کی رائے دوست ہے ، تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا - قرآن کو ایک جگہ جمع کرو _,"


★_ اس قسم کے کئی اور بھی واقعات پیش آئے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے ہی درست ثابت ہوئی، آپ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا بہت لحاظ رکھتے تھے ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم کے روزینے مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا روزینہ سب سے پہلے مقرر کیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - نہیں! سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین کے مقرر کیے جائیں گے _,"


★_ چنانچہ سب سے پہلے بنو ہاشم سے شروع کیے گئے، ان میں بھی حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم سے ابتدا کی گئی، بنو ہاشم کے بعد آنحضرت صلی اللہ سے نسبت میں قریب ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے، تنخواہوں میں بھی اسی طرح کا لحاظ رکھا گیا ، سب سے زیادہ تنخواہیں اصحاب بدر کی تھی ،


★_ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اگرچہ بدر میں شامل نہیں تھے، یہ بدر کی لڑائی کے وقت بہت چھوٹے تھے لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں اور یہ سب سے زیادہ مقدار تھی، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مقرر کی، اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا اور کہا - آپ نےمیری تنخواہ اسامہ بن زید سے کم مقرر کی ہے... ؟

 جواب میں آپ نے فرمایا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے_,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کے بغیر خلافت کا کام انجام نہیں دیتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہایت دوستانہ انداز میں پورے خلوص سے مشورہ دیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بیت المقدس جانا پڑا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر گئے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حد درجہ پاس اور لحاظ رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا، یہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی ،

╨─────────────────────❥

*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حال _,*


★_ اپنی پوری خلافت کے دوران ان کا حال ایک طرف تو کچھ اس طرح تھا کہ روم اور شام کی طرف فوجیں بھیج رہے ہیں، قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے بات چیت کر رہے ہیں، اسلامی لشکر کے سپہ سالاروں سے پوچھ کچھ کر رہے ہیں، گورنروں کے نام احکامات لکھ رہے ہیں، 


★_ دوسری طرف حال یہ تھا کہ بدن پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہیں، صحرا کی ریت پر کوڑے کا تکیہ بنائیں سو رہے ہیں اور پسینہ ریت پر بہہ رہا ہے ، سر پر پھٹا ہوا عمامہ ہے پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہیں، اور کاندھے پر پانی کی مثک اٹھائے جا رہے ہی کہ بیوہ عورتوں کے گھروں کا پانی بھرنا ہے ،


★_ راتوں کو شہر کا گشت لگایا جا رہا ہے ، کسی بدو کی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے تو اپنی زوجہ محترمہ کو اس کے گھر پہنچانے جا رہے ہیں، رات کو کسی بیوہ کے بچے بھوک سے روتے سنائ دے گئے تو گھر سے کھانے پینے کا سامان بوری میں ڈال کر اپنی کمر پر لاد کر اس گھر تک پہنچانے جا رہے ہیں ، خادم خود اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نہیں اٹھانے دیتے، 


★_ خلافت کے کام کرتے کرتے تھک گئے تو مسجد کے فرش پر ہی لیٹ گئے، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا سفر کرنا پڑ گیا تو کوئی خیمہ یا شامیانہ ساتھ نہیں لے جا رہے، کسی درخت کے نیچے چادر بچھائی اور لیٹ گئے ، طبقات ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق روزانہ کا خرچ دو درہم تھا ،

★_ احناف بن قیس اور عرب کے رئیسوں نے ایک بار آپ سے ملاقات کا پروگرام طے کیا، وہاں گئے تو دیکھا آستین چڑھا رکھی ہے اور ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، احناف بن قیس پر نظر پڑی تو بولے - آؤ ، تم بھی میری مدد کرو.. بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے .. اور تم جانتے ہو کہ ایک اونٹ میں کتنے غریب کا حصہ ہوتا ہے ؟

ایسے میں ایک شخص نے کہہ دیا - اے امیر المومنین ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.. کسی غلام سے کہہ دیں، وہ ڈھونڈ لائے گا،

اس کے جواب میں آپ نے فرمایا - مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے ؟


★_ شام کے سفر میں قضاء حاجت کے لئے سفر سے اترے، آپ کے غلام اسلم ساتھ تھے، واپس لوٹے تو ان کے اونٹ پر سوار ہو گئے، ادھر اہل شام استقبال کے لیے آرہے تھے، جو آتا ، پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا ، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے، لوگوں کو حیرت ہوتی تھی، آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے کہ یہ کیسے امیرالمومنین ہیں .., اس پر آپ نے فرمایا - ان لوگوں کی نظریں در اصل عجمی شان و شوکت کو تلاش کر رہی ہیں لیکن وہ یہاں انہیں کہاں نظر آئے گی ؟_,"


★_ ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے، اس میں فرمایا - لوگوں ! میں ایک زمانے میں اس قدر غریب تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر دیا کرتا تھا، وہ اس کے بدلے میں مجھے چھوارے دے دیتے تھے، وہی کھا کرو اپنا پیٹ بھرتا تھا _,"

کہاں اور ممبر سے اترے ... لوگوں کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ بھی کوئی بتانے کی بات تھی، اس پر وضاحت کرنے کے لیے فرمایا - بات دراصل یہ ہے کہ میری طبیعت میں غرور آگیا تھا .. یہ میں نے اس کا علاج کیا ہے _,"


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی نکاح کیے، آپ کے ہاں اولاد بھی کسرت سے ہوئی، ان میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اس لئے ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں شامل ہوئ، نرینہ اولاد میں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت مشہور ہوئے یہ بہت بڑے فقیہ تھے، آگے چل کر ان کے بیٹے سالم بن عبداللہ فقیہ ہوئے ، وہ مدینہ منورہ کے سات بڑے فقیہوں میں سے ایک تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ کے بیٹے عاصم رضی اللہ عنہ بھی بہت بڑے عالم فاضل ہوئے،


★_ آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں اگر ایک عمر اور پیدا ہو جاتا تو ساری دنیا میں اسلام عام ہوتا،.. غرض آپ کی خوبیوں کو شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، اللہ تعالی ان پر کروڑوں ہا کروڑ رحمتیں نازل فرمائے، آمین .


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد چھ صحابہ کرام کے نام تجویز فرمائے تھے اور ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لینا، وہ چھ نام یہ ہیں :- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ،


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم میں سے شخص ایک کے نام کی سفارش کرے _," 

یہ تجویز سب نے منظور کی, حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا نام تجویز کیا، 


★_ اس لئے خلافت کے لئے تین نام رہ گئے، اس میں سے بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں اپنا نام واپس لیتا ہوں، آپ دونوں اپنا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں، جسے میں خلافت کے لیے منتخب کروں دوسرے حضرات اسے خوشی سے قبول کر لیں،


*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)- *

          ▪•═════••════•▪       

 

﷽✭


                  *✿_خلافت راشدہ_✿*

         *✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭* 

             *✿_ खिलाफते राशिदा _✿*

                 ▪•═════••════•▪       

*┱✿ *"_ خلافت عثمانیہ کا آغاز _,*


★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تنہائی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اقرار کرلیا ( کہ وہ جو فیصلہ کریں گے اسے خوشی سے قبول کرلیں گے),  حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بیعت کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، ان کے بیعت کرتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوراً بیعت کر لی ،


★_ اس کے بعد وہاں موجود سب نے بیعت کر لی، اس کے بعد عام مسلمانوں کی باری آئی، لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے،  اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہو گئے،


★_ خلافت کا اعلان ہونے کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - ہم نے اس شخص کو خلیفہ بنایا ہے جو اب زندہ لوگوں میں سب سے بہتر ہے  اور ہم نے اس میں کوئی غلطی نہیں کی_,"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا - جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ہم نے ان سب سے بہتر شخص کو اپنا امیر بنایا ہے اور ہم نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی _,"

 یہ الفاظ انہوں نے اپنے خطبے میں کئی بار دوہرایے، مدینہ منورہ سے کوفہ گیے تو وہاں کے لوگوں کو بھی انہیں الفاظ میں خطبہ دیا،


★_ یہ بعیت ٢٣ ہجری کی آخری  شب میں ہوئی، یعنی یکم محرم 24 ہجری آپ کی خلافت کا پہلا دن تھا،  خلافت ملنے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے سامنے یہ خطبہ دیا :- 

"_ لوگوں ! تم سب حاضر ہو,  عمر کا جو حصہ باقی ہے بس اسے پورا کرنے والے ہو، اس لیے تم جو زیادہ سے زیادہ نیکی کر سکتے ہو کرلو،  بس یہ سمجھو کہ موت اب آئی کہ اب آئی،  بہرحال اسے آنا ضرور ہے، خوب سن لو .. دنیا کا سارا تار و پود ہی مکرو فریب سے تیار ہوا ہے،  اس لئے محتاط رہو، دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے جائے اور اللہ تعالی سے تمہیں غافل نہ کردے _,"

[10/30, 10:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ لوگوں ! جو لوگ گزر گئے ان سے عبرت حاصل کرو، کوشش کرتے رہو غفلت نہ برتو کیونکہ تم سے غفلت نہیں برتی جائے گی،  آج کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی تھی، انہوں نے دنیا کو آباد رکھا تھا اور ایک مدت تک اس سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے،  کیا نیا نے انہیں اپنے اندر سے نکال باہر نہیں کیا ؟  تم دنیا کو اس مقام پر رکھو جس پر اللہ تعالی نے اسے رکھا ہے اور آخرت کی طلب کرو...  اللہ تعالی نے دنیا کی اور جو چیز بہتر ہے اس کی مثال یوں بیان فرمائی ہے :- 

"_( ترجمہ) اے پیغمبر ! آپ لوگوں کو بتا دیجیے کہ دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی جیسی ہے  جسے ہم آسمان سے نازل کرتے ہیں _," ( سورہ کہف )


★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے کو جاری رکھا،  اس طرح ان کے دور میں مزید فتوحات ہوئیں، جو فتوحات نامکمل رہ گئی تھی وہ مکمل ہوئی،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی بحری جنگ نہیں ہوئی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے سمندر میں جنگ کا آغاز کیا ،


★_ اسکندریہ اس دور میں مصر کا دارالحکومت تھا ، رومی بادشاہ کی طرف سے اسکندریہ میں گورنر مقرر تھا اس کا نام نام مقوقس تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تو اس وقت مقوقس صلح کرنا چاہتا تھا لیکن شرائط طے نہ ہو سکی، اس لئے جنگ ہوئی اور اسکندریہ فتح ہو گیا ،

[10/31, 8:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ مصر کا دوسرا شہر فسطاط پہلے ہی فتح چکا تھا ( آج کل اس شہر کا نام قاہرہ ہے)  قیصر روم ان فتوحات کی وجہ سے بہت غصے میں تھا لیکن موقع کی تلاشی میں تھا، اب ہوا یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو واپس بلا لیا، ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو  گورنر مقرر کر دیا ،


★_ اس تبدیلی کی وجہ سے رومی بادشاہ نے سوچا کہ موقع اچھا ہے، اس نے 300 جہازوں کا بحری بیڑہ روانہ کیا، اس کا سالار مینول مقرر کیا گیا تھا ، مسلمان اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے، مقابلہ تو ہوا لیکن شکست کھا گئے  اور بڑی تعداد میں شہادت ہوئی، اس طرح اسکندریہ پر رومیوں کا قبضہ ہوگیا ،  یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے سال ٢٥ ہجری میں ہوا ،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو آپ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو پھر سے ان کے عہدے پر مقرر کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کریں_,"  حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کو لے کر اسکندریہ کی طرف بڑھے،  نقویی کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے زبردست حملہ کیا ، دشمن اس حملے کی تاب نہ لا سکا اور پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا ، اسے زبردست جانی مالی نقصان اٹھانا پڑا،  اس طرح مسلمان پھر اسکندریہ پر قابض ہوگئے،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی سرح کو حکم بھیجا کہ تیونس کی طرف پیش قدمی کریں_," انہوں نے تیونس پر حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے,  اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن حضرت حسین حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عمر بن العاص حضرت عبداللہ بن جعفر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے صحابہ کو عبداللہ بن ابی سرح کی مدد کے لئے بھیجا،

[11/1, 9:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ عبداللہ بن سرح ان سب حضرات کو لے کر آگے بڑھے، رومیوں کا لشکر مقابلے پر سامنے آیا لیکن اس نے شکست کھائی، اسلامی لشکر آگے بڑھا تو رومیوں کے ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر نے تیونس کے مقام پر حملہ کیا، آخر رومیوں کو شکست ہوئی اور تیونس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور بے تحاشہ مالے غنیمت ہاتھ آیا،


★_ تیونس کی اس عظیم الشان فتح کے بعد عبداللہ بن ابی سرح شمالی افریقہ کی طرف بڑھے، انہوں نے مغرب سے مشرق کی طرف پیش قدمی جاری رکھی،  راستے میں جو شہر یا قلعے ملتے فتح کرتے چلے گئے، اس طرح الجزائر فتح ہوگیا یہاں تک کہ جبل تارق پہنچ گئے، اس طرح مصر سے لے کر مراکش تک خلافت عثمانیہ کا پرچم لہرانے لگا، رومی فوجوں کا یہاں سے مکمل صفایا ہو گیا،


★_ مراکش کی فتح کے بعد اسپین کی طرف پیش قدمی آسان ہو گئی، 27 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن نافع بن حسین اور عبداللہ بن نافع بن عبد القیس کو لکھا کہ تم دونوں اندلس کی طرف پیش قدمی کرو ،  اس معرکے میں بھی مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور یہ کامیابی بہت بڑی تھی، اس سے مسلمانوں کی شان و شوکت اور طاقت میں بہت اضافہ ہوا،


★_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے  قبرص پر حملے کی اجازت چاہی، اجازت ملتے ہی انہوں نے قبرص پر حملہ کر دیا، قبرص کے باشندوں نے سات ہزار سالانہ پر صلح کی، یہ صلح کئی سال تک جاری رہی،  ٣٢ ہجری میں قبرص والوں نے رومیوں کی مدد کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور قبرص کو فتح کر کے اسے نئی آبادی بنا دیا _,"


[11/3, 7:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ جزیرہ روڑس صلیقہ _,"*


★_ قبرص کی فتح بحری جنگوں میں مسلمانوں کی پہلی فتح تھی اور یہ پہلا جزیرہ تھا جو اسلامی حکومت میں شامل ہوا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی سرح اسلام میں پہلے امیر البحر ہیں، بحری بیڑے کی شاندار قیادت ان کا عظیم کارنامہ ہے ،


★_ قبرص کی فتح کے دوسرے سال جزیرہ ارداد فتح ہوا یہ قسطنطنیہ کے قریب سمندر میں ایک جزیرہ ہے، اس کے علاوہ جزیرہ روڈس بھی فتح ہوا ، یہ اہم جزیرہ تھا اس کے بارے میں خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں خط لکھا :- سمندر( بحیرہ روم) میں ایک اور جزیرہ ہے اس کا نام روڑس ہے اسے بھی فتح کرنے کی اجازت دی جائے _,"


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجلسے شورا سے مشورہ کرکے اجازت دے دی، اجازت ملتے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بحری بیڑا لے کر روانہ ہوئے، جزیرہ روڈس کے لوگوں نے سمندر میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا، یہاں مال غنیمت تو بہت ملا لیکن آبادی نہیں ملی، جنگ سے جو لوگ بچ گئے تھے انہوں نے بھی خودکشی کر لی، جزیرہ اگرچہ فتح ہو گیا تھا لیکن ویران تھا،


★_ آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس جزیرے کو آباد کیا، وہاں مسلمانوں کو بسایا، ان کے لئے مسجدیں تعمیر کی، اس طرح یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط چھاؤنی بن گیا، بحیرہ روم کے درمیان میں ایک جزیرہ صقلیہ ہے، اسلام سے پہلے دنیا کی بڑی حکومتیں اس جزیرے کے لئے لڑتی رہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے 300 کشتیوں کا بیڑہ لے کر روانہ ہوئے، یہاں کے بادشاہ نے صلح کی پیشکش کی لیکن کوئی بات طے نہ ہو سکی، آخر جنگ شروع ہوگئی، لیکن بعض خوفناک اطلاعات کے پیش نظر اسلامی بحری بیڑے کو صقلیہ کو فتح کے بغیر پیچھے آ جانا پڑا ،

[11/3, 10:12 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ رومی سلطنت کے بحری مرکز بھی جب ان کے ہاتھوں سے نکلنے لگے تو قیصر روم ہرقل ٣٤ ہجری میں ایک عظیم بحری بیڑے کے ساتھ مسلمانوں پر حملے کی نیت سے روانہ ہوا, اس کا بحری بیڑا 1000 کشتیوں پر مستعمل تھا یہ تمام جہاز اسلحہ اور جنگی سازو سامان سے لدے ہوئے تھے ،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے فوراً حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا - تمہارے پاس جو شامی لشکر ہیں اسے لے کر رومیوں کے مقابلے کے لئے روانہ ہو جاؤ_,"

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت پورے شام کے گورنر تھے، ان کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر عبداللہ بن ابی سرح کو حکم بھیجا کہ مصر کا لشکر لے کر سمندر میں اترو ،


★_ ایک تیسرا خط حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم دونوں لشکروں کی مدد کرو _,"

 ان احکامات کے مطابق مصر اور شام کی فوجی بیڑے سازوسامان کے ساتھ پہلے عکا پہنچے، وہاں سے اسلامی بحریہ کے یہ دونوں نامور کمانڈر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی سرح 500 جہازوں کا بیڑا لے کر سمندر میں اترے ،


*★_اسلامی فوج سمندر میں اتری ہی تھی کہ قیصر روم کا جنگی بیڑہ سامنے آگیا، اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی، اسلامی لشکر نے سامنے دیکھا تو قیصر روم کا عظیم الشان لشکر کالی گھٹا کی طرح کھڑا نظر آیا، سمندر بھی پرسکون نہیں تھا، موجیں اٹھتی نظر آرہی تھی، مسلمان یہ دیکھ کر اللہ کے حضور گڑگڑانے لگے، دعائیں کرنے لگے، اس پوری رات مسلمان عبادت کرتے رہے، جب کہ دوسری طرف رومی لشکر تمام رات شراب نوشی اور گانے بجانے میں مصروف رہا ،


★_ صبح ہوئی تو دونوں لشکروں کی فوجیں جنگ کی تیاری کرنے لگی ، اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے ان کو پیغام بھیجا کہ اگر مناسب سمجھیں تو ساحل پر چل کر طاقت آزما لیں، ہم میں جو کمزور ہو گا مارا جائے گا، لیکن رومی فوج نے اس پیشکش کو رد کر دیا، کہ اب جو کچھ ہوگا سمندر میں ہوگا۔ 


★_ آخر جنگ شروع ہوئی یہ اس قدر غضب اور گھمسان تھی کہ کہا گیا کہ ایسی جنگ کبھی دیکھی نہ سنی گئی، اس قدر خون بہا کہ سمندر کا پانی سرخ ہو گیا ، ایسے میں قدرت نے مدد فرمائی، رومی بادشاہ شدید زخمی ہوگئا، اس نے اپنے بیڑے کا لنگر اٹھا دیا، بادشاہ کا بیڑہ واپس بھاگتا ہوا نظر آیا تو رومی فوج حوصلہ ہار بیٹھی، ان کے پاؤں اکھڑ گئے، اس قدر بدحواس ہو کر بھاگے کہ کسی کی خبر نہ رہی،


★_ مسلمانوں کا بحری بیڑا فتح اورکامرانی کے پرچم اڑاتا عکا کے ساحل پر لنگر انداز ہوا ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوشخبری حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجی خط پڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے، انہوں نے سب مسلمانوں کو زبانوں کو یہ خط سنایا، سبھی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،


★_ بحری جنگوں کے لحاظ سے یہ فتح بہت اہم تھی، عربی میں یہ جنگ "مستولوں کی جنگ" کے نام سے مشہور ہے، اس جنگ کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے, عبداللہ بن ابی سرح بھی نوبیہ تک پہنچ گئے،

 ╨─────────────────────❥

 *"_ بلخیر کے شہید _,*


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے بارہ سالوں میں مراکش سے لیکر کابل تک اسلامی حکومت قائم ہو گیی، پورا فارس، خراسان سیستان، اور ایران کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا،


★_ سلمان بن ربیعہ اپنی عراقی فوج کے ساتھ آگے بڑھے، راستے میں جتنے چھوٹے موٹے قلعے یا شہر آتے گئے یہ ان سب کو فتح کرتے گئے یہاں تک کہ بلخیر نامی شہر تک پہنچ گئے، ان علاقوں کا بادشاہ رخ خاقان نامی شخص تھا، وھ مسلمانوں کے مقابلے میں 3 لاکھ فوج لے کر آیا اور مسلمان دس ہزار تھے، 


★_ تین لاکھ کا 10 ہزار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا، پھر بھی مسلمانوں نے زندگی پر شہادت کو ترجیح دی، سب کے سے بڑی بے جگری سے لڑے, اس قدر ثابت قدمی دکھائی کہ لڑتے لڑتے سب کے سب شہید ہو گئے، ان سب کی قبری آج بھی بخیر میں موجود ہیں ،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ بہت غمگین ہو گئے، آپ کی بے چینی میں نیند اڑ ہوگی _,"

[11/6, 9:52 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ سازش کی ابتداء _,*


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں، اسلامی مملکت کو زبردست وسعت حاصل ہوئی ، دولت بھی بےشمار آئی، لیکن آپ کی خلافت کے آخری چند سال زبردست پریشانی میں گزرے، سازش کرنے والوں نے فتنے کا بازار گرم کر دیا، 


★_ مسلمانوں میں منافقوں کا ایک گروہ شروع سے چلا رہا تھا، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان لوگوں سے خبردار فرمایا ہے ، یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سازشیں کرتے رہتے تھے، لیکن اس وقت ان کی دال نہیں گلتی تھی،


★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ لوگ اچانک اٹھ کھڑے ہوئے، یہ تین طرح کے لوگ تھے -نبوت کا دعوی کرنے والے، مرتد یعنی اسلام سے نکل جانے والے اور زکوٰۃ کا انکار کرنے والے ،


★_ ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے فوراً ان کے خلاف لشکر کشی کی اور کامیابی سے ان کا خاتمہ کیا، آپ کی کامیابی پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ انہوں نے یہ جملہ کہا :- حضرت ابوبکر نہ ہوتے تو زمین پر اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا _,"

[11/7, 9:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا، سازشی گروہ موقعے کی تلاش میں رہا اور آخر اس گروہ کی سازش سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا، شہادت سے پہلے خود حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے یہ خیال ظاہر فرمایا تھا کہ ان پر حملہ ایک سازشی کے تحت ہوا ہے،


★_ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ سازشی عناصر پہلے سے کام کر رہے تھے، اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انہوں نے اور زور پکڑ لیا، تینوں خلفاء کے دور میں جو فتوحات ہوئیں ان فتوحات کے نتیجے میں بے شمار غیر مسلم تو مسلمان ہو گئے اور پکے سچے مسلمان ہوئے تھے ،


★_ لیکن ان لوگوں کی بڑی تعداد غیر مسلم ہی تھی، یہ لوگ جزیہ دینے والے تھے یا پھر غلام تھے ، بہت سے صرف ظاہری طور پر مسلمان ہوئے تھے، یہ لوگوں کو بڑھانے کا کام کرتے تھے ،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے والوں میں سب سے اہم نام عبداللہ بن صباح کا ہے، یہ اصل سازش کرنے والا تھا، یہ شخص یہودی تھا یمن کا بادشاہ تھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا ، اس کا یہ اعلان دراصل اس سازش کا آغاز تھا، مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے بعد یہ مسلمانوں میں اپنے عجیب و غریب خیالات پھیلانے لگا ،

[11/8, 10:48 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ عبداللہ بن سباء کہتا - ایک وقت آئے گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر دنیا میں ظہور ہو گا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں آئیں گے کیوںکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ تو دوبارہ دنیا میں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نا آئیں ؟

 اس کا یہ بھی کہنا تھا - حضرت علی کی ذات میں اللہ تعالیٰ موجود ہیں ( نعوذ باللہ )


★_ اس کے علاوہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بھی باتیں شروع کر دی، وہ کہتا تھا - خلافت کے حقدار تو علی تھے،.. ان کے ہوتے ہوئے حضرت عثمان کو خلافت کا کوئی حق نہیں پہنچتا _,"

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اور بھی کئی طرح کے اعتراضات کرتا تھا لیکن یہ سارا کام وہ خفیہ طور پر کرتا تھا اعلانیہ طور پر نہیں کرتا تھا, 


★_ اس سلسلے میں یہ سب سے پہلے ہی حجاز گیا پھر کوفہ اور بصرہ گیا، اس کے بعد دمشق پہنچا، دمشق میں لوگوں نے اس کے خیالات سنے تو اسے دمشق سے نکال دیا، اب اس نے مصر کا رخ کیا، مصر میں اسے کامیابی ہونے لگی،... اس کے گروہ نے باقاعدہ سازشیں شروع کر دی، 


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے والوں میں سے ایک گروہ خارجی تھا، یہ خارجی لوگ بھی عبداللہ بن سباء کی قسم کے لوگ تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے خلاف تھے ، ان کا کام بھی سازش کرنا تھا ،

[11/9, 7:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ سازش کرنے والے باغیوں میں کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اپنے لئے کوئی عہدہ طلب کیا تھا لیکن آپ نے انہیں عہدہ نہیں دیا، تو ایسے لوگ بھی سازشیوں کا ساتھ دینے لگے تھے، کچھ وہ لوگ تھے جنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی جرم پر کوئی سزا دی تھی، اس قسم کے لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ ان جیسے لوگ مصر میں جمع ہو رہے ہیں تو وہ بھی وہاں پہنچ گئے، اس طرح مصر ان لوگوں کی سازشوں کا مرکز بن گیا ،


★_ سازش کرنے والوں میں نمایاں نام یہ تھے - جندب بن کعب، صعصعہ بن حنابی اور عمیر بن حنابی، یہ لوگ کوفہ کے رہنے والے تھے ، یہ لوگ کوفہ میں نت نئی نہیں شرارتیں کرتے رہتے تھے، شر اور فتنہ پھیلانا ان کا کام تھا ، کوفہ کے لوگوں ان سے بہت تنگ تھے، لوگوں نے ان کی شکایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کی اور درخواست کی کہ انہیں کوفہ سے نکال دیا جائے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ سے نکال کر شام بھجوا دیا، وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے ،


★_ اس قسم کے سب لوگوں نے مل کر پہلے افواہیں پھیلائی پھر دبی زبان میں اعتراضات شروع کیے، جب ان کا گروہ بڑا ہوگیا تو یہ لوگ کھلم کھلا اعتراضات کرنے لگے، ان لوگوں کے بڑے بڑے اعتراضات یہ تھے :- 


*١_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اکابر صحابہ کو معزول کرکے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو عہدوں پر مقرر کر دیا ہے، 

*٢_ اپنے عہدے داروں کی بد عنوانیوں پر انہیں کچھ نہیں کہتے، 

*٣_حکم بن عاص رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا تھے, ان سے کوئی راز ظاہر کرنے کا جرم سرزد ہو گیا تھا، اس جرم کی سزا کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ سے جلاوطن کرکے طائف بھیج دیا تھا، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں واپس مدینہ بلا لیا اور ان پر انعام و اکرام کی بارش کر دی،


[11/10, 10:27 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ اعتراضات کے جوابات _,*


★_ 4- عبداللہ بن سعد بن ابی سرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دودھ شریک بھائی تھے یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وحی کی کتابت سپرد فرمائی لیکن یہ قرآن میں تحریف کرنے لگا اور مرتد ہو گیا، فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سفارش کر کے اس کی جان بخشی کروائی، بعد میں یہ دوبارہ اسلام لے آیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اسے مصر کا گورنر بنا دیا، 


★_ 5- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے خاندان بنی امیہ کے لوگوں کو بڑی بڑی رقمیں بغیر کسی شرعی حق کے انعام میں دے دیتے ہیں،


*★_ ان بڑے الزامات کے علاوہ کئی الزامات اور ہیں، لیکن وہ اعتراضات فقہ قسم کے تھے، مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مینی میں قصر نماز کے بجائے چار رکعت پڑھتے ہیں، وغیرہ ۔۔۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک یہ اعتراضات پہنچے تو آپنے تمام اعتراضات کے واضح جوابات ارشاد فرمائے ،


★_ پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے بڑے بڑے صحابہ کو معزول کر کے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ان عہدوں پر فائز کیا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے شکایت رہی کہ مصر بہت سرسبز و شاداب علاقہ ہے زرخیز ملک ہے اس کا خراج جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں آرہا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ کو بھی یہ شکایت پیدا ہوئی، آپ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس طرف توجہ دلائی لیکن خراج پھر بھی زیادہ نہ ہوا ، اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مصر سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مقرر کر دیا،

[11/11, 8:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریقے سے ہٹ کر شمالی افریقہ کے مال غنیمت کے خمس کا خمس ( پانچواں حصہ) عبداللہ بن سعد کو بطور انعام میں دے دیا جس کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا، یعنی مال غنیمت کی یہ تقسیم قرآن، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے خلاف ہے ،


★_ اس اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیے :- عبداللہ بن سعد بن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا تھا لیکن مرتد ہو گیا تھا، فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار افراد کو قتل کا حکم صادر فرمایا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھا، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے توبہ کی نئے سرے سے اسلام قبول کیا، اس طرح ان کی جان بخشی ہوگی ،


★_ اس شخص کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کا گورنر مقرر نہیں کیا تھا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہ مصر کے بالائی حصے کا گورنر تھا، اس وقت مصر کے دو حصے تھے، بالائی حصے کا گورنر یہ تھا اور زیریں حصے کے گورنر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے، جب کم خراج کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو معزول کیا تو اسے مصر کے باقی حصے کی گورنری بھی سونپ دی،


★_ اب اس پورے معاملے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس اعتراض کی بھلا کیا گنجائش ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک مرتد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور اس نے اسلام قبول کیا، یہ تو بہت بڑا نیکی کام ہے کہ ایک مرتد کو اسلام کی طرف لے آیا جائے، توبہ کرنے سے اسلام سابقہ گناہ معاف کر دیتا ہے یا نہیں؟

[11/12, 11:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اسلام کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، بے شمار لوگوں نے اسلام سے دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے، لیکن جب وہ لوگ اسلام لے آئے مسلمان ہوگئے تو ان کے سب گناہ معاف ہو گئے، اور اس کی مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ملاحظہ فرمائیں :-


★_ اشعث بن قیس نے نبوت کا دعویٰ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب مرتدوں کے خلاف جنگ شروع کی تو یہ گرفتار ہوا، اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اپنی بہن ام فروہ کا نکاح بھی اس کے ساتھ کر دیا _,"


★_ اسی طرح عبداللہ بن سعد کو معافی ملی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسے مصر کے ایک حصے کا گورنر مقرر کیا یعنی گورنر کے عہدے پر تو پہلے ہی تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو صرف اتنا کیا تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی معزولی کے بعد اسے سارے مصر کا گورنر مقرر کر دیا تھا اور یہ بات ثابت ہے کہ اس میں صلاحیتیں تھیں، اس نے بحری جنگیں لڑیں، اب اگر یہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رشتہ دار تھا تو کیا اس بنیاد پر اس کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا ،


★_ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مال غنیمت کے پانچویں حصے کا پانچواں حصہ بطورِ انعام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے دے دیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ افریقہ کو فتح کرنا اس وقت مشکل ترین مہم تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حوصلہ افزائی کے لئے عبداللہ بن سعد سے وعدہ کیا تھا کہ افریقہ فتح ہوگیا تو میں مال غنیمت کے خمس کا خمس تمہیں دوں گا چنانچہ افریقہ کی فتح کے بعد عبداللہ بن سعد نے یہ حصہ مال غنیمت سے اپنے پاس رکھ لیا اور باقی مدینہ منورہ بھیج دیا، جب لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا - عبداللہ بن سعد نے جو کچھ کیا وہ میرے حکم سے کیا ہے لیکن اگر آپ لوگوں کو اس پر اعتراض ہے تو میں یہ مال واپس لے لوں گا _,"


★_ چنانچہ آپ نے عبداللہ بن سعد کو اس بارے میں لکھا، اس نے مال غنیمت کا وہ حصہ واپس کردیا, *(دیکھئے تاریخ طبری - ٢/٢٥٣ )*

[11/13, 10:12 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اب گور کیجیے، اس واقعہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض والی کوئی بات ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیے :- 

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے ، ان کی زوجہ محترمہ شدید بیمار تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مال غنیمت سے ایک مجاہد کا پورا حصہ عطا فرمایا، اس مثال کے ہوتے ہوئے کیا ان لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس اعتراض کا کوئی حق تھا ؟ ہرگز نہیں، اس کے باوجود جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے وہ رقم واپس لے لی اور بیت المال میں جمع کرا دی،


★_ دوسرا الزام یہ لگا کہ آپ نے بڑے بڑے صحابہ کو معزول کرکے اپنے رشتے داروں کو ان عہدوں پر مقرر کردیا ، اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے -

 24 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کی گورنری سے معزول کرکے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، لیکن دو سال بعد ہی حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ بنو امیہ کے ایک نوجوان ولید بن عقبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا، 


★_ اعتراض کرنے والوں نے اس پر دو طرح کے اعتراض کیے، ایک یہ کہ جلدی جلدی گورنروں کو معزول کرنا انتظامی معاملات میں ناکامی کی دلیل ہے ، دوسرے یہ کہ ایک جلیل القدر صحابی کو معزول کرکے ان کی جگہ اپنے خاندان کے ایک نوجوان کو مقرر کیا، ان دونوں اعتراضات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ، 


★_ کوفہ اور بصرہ ان دونوں شہروں کے لوگ عجیب مزاز کے لوگ تھے، شکایت پر شکایت کرتے رہنا ان کی عادت تھی، ان دونوں شہروں کے حالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی خراب چلے آرہے تھے، جو شخص بھی یہاں گورنر بن کر آتا یہ کچھ دن تو ان کی اطاعت کرتے پھر کسی نہ کسی بہانے سے اس کے خلاف اعتراض شروع کر دیتے، یہ گویا ان لوگوں کا شوق تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک ان سے تنگ آگئے تھے، ایک مرتبہ تو آپ نے فرمایا تھا :- اللہ کی پناہ ! کوفہ کے لوگ بھی عجیب و غریب لوگ ہیں, اگر ان پر کوئی مضبوط حاکم مقرر کرتا ہوں تو یہ لوگ اس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں اور اگر کسی کمزور کو حاکم بنا تا ہوں تو یہ اسے ذلیل کرتے ہیں ،

[11/14, 10:16 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ کوفہ کی طرح بصرہ کا حال بھی ایسا ہی تھا، چناچہ جس زمانے میں مغیرہ بن شعبہ یہاں کے گورنر تھے اس وقت بھی یہاں کے لوگوں نے ان پر زنا کا الزام لگا دیا تھا، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک یہ مقدمہ پہنچایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شکایت پکڑ لی تھی ، اس کے باوجود انتظامی معاملات کی وجہ سے آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو وہاں سے ہٹا دیا ،


★_ مطلب یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے ناراض تھے، آپ نے مغیرہ بن شعبہ کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے کہا - ابو موسیٰ ! میں تمہیں ایک ایسے شہر کا گورنر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں جہاں شیطان نے گھونسلا بنا رکھا ہے_," 


★_ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کیا ذکر ہے، کوفہ اور بصرہ کے حالات تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے خراب چلے آ رہے تھے کہ کوئی گورنر وہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا تھا ، اسی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک مجبور تھے کہ جلد سے جلد گورنر تبدیل کریں، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنا پڑا تو اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے ؟


★_ آپ نے ولید بن عقبہ کو وہاں کا گورنر مقرر کیا، اس لئے کہ یہ بہت سخت مزاج تھے، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ماں شریک بھائی تھے، جس دن مکہ فتح ہوا اس روز اسلام لائے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنی مصطلق کے صدقات کا انچارج بنا کر بھیجا تھا، بہت سوجھ بوجھ والے تھے ارادے کے پکے تھے، ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں جزیرہ العرب کا اعلیٰ افسر مقرر کیا تھا ، اب اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو الزام لگایا گیا کہ آپ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو عہدے دیئے، کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟

[11/15, 7:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اب حکم بن آس کے بارے میں بھی پڑھ لیجئے، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور مدینہ منورہ میں رہنے لگے، ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ،۔۔۔ یہ بات کو راز نہیں رکھ سکتے ، راز کی باتوں کو بیان کر دیتے ہیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طائفہ بھیج دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک یہ وہی رہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہیں مدینہ واپس بلا لیا، یہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے ، 


★_ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے طائف جلاوطن کردیا تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ انہوں نے واپس مدینہ بلا لیا، اس میں بھلا اعتراض کی کیا بات تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا راز فاش کر سکتے تھے بھلا, ان پر الزام تو یہی تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے راز فاش کر دیا کرتے تھے، 


★_ ایک الزام یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے رشتے داروں کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں اور جاگیر بطور انعام دے دیتے ہیں، اس سلسلے میں عبداللہ بن سعد کو مال غنیمت کے پانچویں حصے کا پانچواں حصہ دینے کا الزام لگایا تھا، اس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ ان لوگوں کے اعتراض کرنے پر آپ نے وہ مال ان سے واپس لے کر بیت المال میں جمع کرادیا تھا،


★_ مروان بن حکم کے بارے میں الزام لگایا گیا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں افریقہ کے مال غنیمت کا پانچواں حصہ دیا لیکن تاریخ کی روایات اس بات کو غلط قرار دیتی ہیں، مشہور ترین مورخ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ وہ حصہ مروان بن حکم نے پانچ لاکھ دینار میں خرید لیا تھا، بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بطور عطیہ دیا تھا، یہ کہنا صحیح نہیں ہے، *( تاریخ ابن خلدون -2/129),*

[11/16, 10:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بہت زیادہ دولت مند تھے، اور یہ دولت مندی انہیں اسلام سے پہلے سے حاصل تھی، پھر سخی بھی بہت تھے ان کی سخاوت کی روایات بے شمار ہیں، ایسا شخص بیتل المال کا خزانہ کیوں بلا وجہ دوسروں کو دینے لگا، وہ تو اپنے پاس سے بھی دے سکتے تھے، چنانچہ جب ملک میں فساد بڑا تو آپنے لوگوں کے مجمعے میں فرمایا :- 


★_ "_ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ سے محبت کرتا ہوں اور انہیں دیتا ہوں، ہاں ! میں ان سے محبت کرتا ہوں لیکن ان کی محبت مجھے ناانصافی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ میرے اہل بیت پر جو دوسروں کے حقوق ہیں میں ان سے دلواتا ہوں، رہا انہیں کچھ دینا تو میں انہیں اپنے مال سے دیتا ہوں اور مسلمانوں کا مال تو نہ میں اپنے لیے حلال سمجھتا ہوں ہو نہ کسی اور شخص کے لئے، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بڑے بڑے عطیات اپنی کمائی سے دیتا رہا ہوں _,"


★_"_ یہ لوگ جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم ! میں نے کسی شہر پر خراج کا کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالا اور جو کچھ بھی وصول ہوا ہے وہ سب کا سب میں نے مسلمانوں پر ہی خرچ کیا ہے، پھر میرے پاس جو کچھ آیا ہے مال غنیمت کا پانچواں حصہ آیا ہے، اس مال میں سے میرے لیے کوئی چیز حلال نہیں تھی، مسلمانوں کو اختیار تھا کہ میرے مشورے کے بغیر جہاں چاہیں خرچ کریں، اللہ تعالی کے مال میں سے ایک پیسے کے برابر بھی کوئی چیز ادھر ادھر نہیں ہوئی اور میں نے اس میں سے کوئی چیز حڑپ نہیں کی، میں جو کچھ کھاتا ہوں اپنے مال میں سے کھاتا ہوں _,"

*( تاریخ طبری - ٤/٣٤٧)*


★_ سب نے یہ تقریر سنیں اور کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ سب نے ان باتوں کو تسلیم کیا، سب نے کہا - ہم تسلیم کرتے ہیں آپ نے سچ کہا_,"

 کوئی ایک آواز بھی مخالفت میں نہ اٹھی اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر کسی طور پر بھی کسی بھی اعتراض کی کوئی ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی _,"

[11/17, 7:38 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اعتراض کرنے والوں نے ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی چراگاہوں میں اپنے جانور چراتے ہیں دوسرے لوگوں کے مویشی ان چراگاہوں میں نہیں جا سکتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں اس اعتراض کا جواب بھی دیا، چنانچہ فرمایا :-


★_ یہ لوگ چراگاہوں میں اپنے جانور چرانے کا الزام لگاتے ہیں، سن لو ! میں نے وہی چراگاہیں مخصوص کی ہیں جن کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے مخصوص کیا تھا، ان چراگاہوں کو صدقات کے جانوروں کے لئے مقرر کردیا گیا ہے، تاکہ صدقات وصول کرنے والوں میں اور دوسرے لوگوں میں کوئی جھگڑا نہ ہو، اس کے باوجود اگر دوسرے لوگوں میں سے کوئی اپنے جانور لے کر ان چراگاہوں میں آ جاتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جاتا، نہ ان کے جانوروں کو ہٹایا جاتا ہے، بہر حال یہ جو بھی انتظامات ہیں سرکاری جانوروں کے لئے ہیں میرے ذاتی جانوروں کے لئے نہیں ہیں، میرا حال تو یہ ہے کہ جب میں خلیفہ ہوا تھا اس وقت وقت اونٹ بکریاں سب سے زیادہ میرے پاس تھے، لیکن آج عالم یہ ہے کہ لے دے کر اب میرے پاس صرف ایک بکری اور دو اونٹ ہیں، یہ اونٹ بھی میرے حج کے لئے ہیں_," 


★_ یہ فرمانے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، کیا ایسا نہیں ہے ؟ 

سارا مجمع ایک آواز ہو کر بولا، بے شک ایسا ہی ہے، 

آپ غور کریں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تو اس وقت اپنے دو اونٹ اور ایک بکری کے علاوہ کوئی جانور تھا ہی نہیں، وہ مدینہ منورہ کی چراگاہوں کو اپنے جانور چرانے کے لئے کس طرح مقرر کر سکتے تھے _,"


★_ ایک اعتراض یہ تھا کہ نوجوانوں کو بڑے بڑے عہدے دیے جا رہے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا - اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے، اگر ایک نوجوان میں صلاحیت ہے تو اسے عہدہ ملنا چاہیے، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے صحابہ پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو نو عمری کے باوجود لشکر کا سالار مقرر نہیں فرمایا تھا،  

یہ فرما کر آپ نے پوچھا - کیا ایسا نہیں ہے ؟

 سب نے ایک زبان ہو کر کہا - بے شک ایسا ہی ہے _,"


★_ ایک اعتراض یہ تھا کہ عرب سے باہر اپنے لوگوں کو آپنے زمین کے ٹکڑے دے دیے ہیں، اس اعتراض کے جواب میں آپ نے فرمایا - جو زمینیں فتح ہوتی گئی، وہ مہاجرین اور انصار میں مشترکہ رہیں، پھر ان میں سے جو حضرات فتح کی گئی زمینوں میں آباد ہو گئے وہیں رہنے لگے لیکن ان میں سے جو حضرات بلادے عرب میں واپس آگئے، میں نے فتح کیے گئے علاقوں ان کی خالی پڑی زمینوں سے ان لوگوں کی بلادے عرب کی زمینوں سے تبادلہ کر دیا جو وہاں جا کر آباد ہونا چاہتے تھے، بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اسی لئے اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے، مطلب یہ ہے کہ انہیں وہ زمینی تبادلے میں دی گئی ہیں _,"

       ─┉●┉─

*┱✿ جعلی خط کا مسلہ -1,*


★_ ان اعتراضات میں سب سے بڑا اور اہم جو اعتراض لگایا گیا اس کا پس منظر ملاحظہ ہو ، 

 اعتراض کرنے والے مصری لوگوں کا ایک وفد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، اس میں کوفے اور بصرہ کے لوگ بھی شامل تھے، ان کے کچھ مطالبات تھے یہ اپنے مطالبات زبردستی منوانے کے لیے آئے تھے، تھے بھی مسلح، یہ لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا کہ انہیں سمجھاآئیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے ملاقات کی انہیں سمجھایا،.. اور آخر وہ واپس جانے پر آمادہ ہوگئے تھے یعنی مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ واپس روانہ ہو گئے _," 


★_ ابھی یہ راستے میں تھے کہ ان لوگوں کو ایک شخص ملا، انہوں نے اس سے پوچھا تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے بتایا میرے پاس خلیفہ کا ایک خط ہے یہ خط مجھے مصر کے گورنر کو پہنچانا ہے, وفد نے اس کی تلاشی لی اور خط برآمد کرلیا، اس خط پر مروان بن حکم کا نام تھا یعنی وہ خط مروان بن حکم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے لکھا تھا، اس خط میں لکھا تھا کہ جب یہ وفد مصر پہنچے تو ان سب کی گردنیں اڑا دی جائیں_,"


★_ یہ خط پڑھ کر وفد کو بہت غصہ آیا لہذا واپس جانے کے بجائے پھر مدینہ منورہ کی طرف لوٹ پڑے اور مدینہ منورہ میں داخل ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا، مطلب یہ کہ ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہم سے بد عہدی کی ہے اور انہیں دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جب انہوں نے اس خط کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا تو آپ نے کہا - اللہ کی قسم ! یہ خط میں نے نہیں لکھا نہ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم ہے _,"


★_ اس خط کا معاملہ بہت اہم ہے، مروان بن حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے سرکاری خطوط لکھتا تھا اور اس خط پر اسی کا نام لکھا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ نے اسے یہ خط لکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ خط کس نے لکھا، اگر مروان نے لکھا تب بھی اس نے یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے نہیں لکھا تھا اور اگر خط مروان نے نہیں لکھا تو پھر کس نے لکھا تھا، اس کی تحقیق کی ضرورت تھی ،


[11/20, 6:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ بات دراصل یہ تھی کہ وہ خط بلکل جعلی تھا اس سازش کا ایک حصہ تھا، عبداللہ بن سبا یا اس کی جماعت کے کسی آدمی نے لکھا تھا اور مروان سے سے اس خط کا کوئی تعلق نہیں تھا ،


★_ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اسی قسم کا ایک خط ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ملا تھا، اس خط میں ان لوگوں کو واپس مدینہ کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا ، چنانچہ جب یہ لوگ مدینہ واپس آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ خلیفہ کے پاس چلیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اللہ کی قسم میں تم لوگوں کے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا, یہ سن کر وہ لوگ بگڑ گئے اور بولے - اگر آپ ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں تو پھر آپ نے ہم نے ہمیں خط کیوں لکھا تھا، ان کی یہ بات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا - نہیں ! اللہ کی قسم میں نے تم لوگوں کو کوئی خط نہیں لکھا _,"


★_ اس واقعے سے صاف ظاہر ہے جن سازشی لوگوں نے مروان کے نام والا خط لکھا انہیں لوگوں نے ایک خط حضرت ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی لکھا تھا، یہ بات بالکل صاف نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک طرف تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ انہوں نے بھی یہی فرمایا، اب یہ دونوں شخصیات ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ جھوٹ بول سکتی ہیں، صاف ظاہر ہے کہ یہ سازش عبداللہ بن سبا کے گروہ کی تھی،


★_ مشہور مورخ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :- اس جماعت نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر صحابہ کی طرف سے بھی اسی قسم کے جعلی خطوط لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجے تھے، اسی جماعت نے یہی چال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں چلی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں جنگ کرا دی تھی_,"

[11/20, 9:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ ان دنوں میں ایک اہم واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی کا کنویں میں گرنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک روز " اریس" کے منڈیر پر کھڑے تھے، انگوٹھی آپ کی انگلی سے نکل کر کنویں میں گر گئی، آپ نے کنویں میں انگوٹھی کو خوب تلاش کرایا لیکن انگوٹھی نہ ملی، آپ نے اس پر انعام بھی مقرر کیا مگر انگوٹھی نہ مل سکی، 


★_ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ساتوے سال پیش آیا، اس زمانے میں فساد کرنے والے اپنی سازش شروع کر چکے تھے، لہذا اس بات کا زبردست امکان ہے کہ انگوٹھی کنویں سے نکالے جانے والے پانی میں سے کسی سازشی نے چرا لیا ہو اور اس طرح یہ انگوٹھی عبداللہ بن سبا کے پاس پہنچ گئی ہو ،


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ اگر یہ یہ خط آپ نے نہیں لکھا تو اس خط پر مہر کیسے لگی ہوئ ہے، اس سوال کا جواب انگوٹھی والا واقعہ دے رہا ہے، مہر لگانے والی انگوٹھی ضرور کسی سازش کے ہاتھ لگی تھی اور جعلی خطوط پر مہر اس سے لگایئ گئی تھی، 


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب یہ فرمایا تھا :- ان لوگوں نے اس جیسی انگوٹھی بنا لی ہے _,"

 اس کی مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ملاحظہ فرمائیے، آپ کے دور میں ایک شخص موعن بن زائدہ نے مہر خلافت جیسی ایک مہر بنا لی، وہ اس کے ذریعے خراج کی بڑی بڑی رقمیں وصول کیا کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اس کے فریب کا پتہ چلا تو آپ نے کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ اس شخص کو فوراً گرفتار کیا جائے اور سزا دی جائے، 


★_ ان باتوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خط مروان نے نہیں لکھا تھا، نہ ہی خلافت کے عملے میں سے کسی کا یہ کام تھا بلکہ یہ سب کچھ عبداللہ بن سبا کی سازش تھی،

╨─────────────────────❥

*"_ فتنوں کی آگ _,*


★_ غرض باغیوں کے تمام اعتراضات بالکل بے بنیاد تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم مجازی کی وجہ سے دلیر ہو رہے تھے، آپ بہت صلح پسند تھے، کوفہ سے سعید بن العاص اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مصر سے ان لوگوں کے بارے میں اطلاعات آپ کو بھیجتے رہے اور ان کے خلاف کارروائی کی اجازت طلب کرتے رہے تھے لیکن آپ جواب میں یہی ہدایت دیتے رہے کہ فتنہ پسندوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر بھیج دیں لیکن انہیں سزا کی اجازت آپ نے کبھی نہ دی، مختلف ذریعوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، اس وقت بڑے بڑے صحابہ یا تو مدینہ منورہ میں رہے نہیں تھے مختلف شہروں میں جا بسے تھے، یا پھر بہت بوڑھے ہوگئے تھے، اس کے علاوہ حالات سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی، 


★_ ان باغیوں میں مختلف گروہ شامل تھے، مصر کے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عقیدت مند تھے، بصرہ کے لوگ لوگ طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پسند کرتے تھے اور کوفہ کے لوگ حضرت زبیر بن عوام کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے، ایک جماعت سرے سے عرب حکومت ہی کے خلاف تھی، مطلب یہ کہ ان میں آپس میں اگرچہ اختلافات تھے لیکن سبھی گروہ اس پر اکٹھے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کیا جائے، 


★_ بصرہ کوفہ اور مصر فتنوں کا مرکز تھا، عبداللہ بن سبا ان کی سازشوں کا سردار تھا ،اس نے سب کو ہدایت دی تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہر ممکن طریقے سے بد نام کرو اور رسوا کرو، اس کی ہدایتوں کا سختی سے عمل کیا گیا، اس کے اس پروپیگنڈے نے تینوں جگہ آگ بھڑکا دی، 


★_ یہ خبر جب مدینہ منورہ پہنچے تو لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ صورتحال معلوم کرنے کے لیے وہاں کچھ لوگ بھیجے جائیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بصرہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مصر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو شام روانہ کیا،

[11/22, 10:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ حضرت عثمان رضی اللہ انہوں نے تمام شہروں میں ایک حکم بھیجا جس میں لکھا تھا - مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کو عہدے داروں سے شکایت ہے کہ بعض گورنر یا دوسرے عہدے داروں سے زیادتی کرتے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو میں اعلان کرتا ہوں کہ حج کے موقعے پر سب حکام مکہ میں جمع ہوں گے جس جس شخص کو بھی کوئی شکایت ہو وہ آ کر مجھ سے ملے، میرے یا میرے عاملوں کے ذمے جو نکلتا ہو وہ وصول کرلیں _," 


★_ جب لوگوں کو یہ پیغام ملا تو وہ رو پڑے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دعائیں دینے لگے، لوگوں کو تو آپ نے یہ پیغام بھیجا دوسری طرف تمام عہدے داروں کو یہ پیغام بھیجا - آپ سب ایوان خلافت میں حاضر ہوں _,"


★_ یہ حکم ملنے پر عبداللہ بن آمر، حضرت امیر معاویہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح وہاں پہنچ گئے، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت سعید بن عاص کو بھی مشورے میں شریک کیا گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم مشورہ دو کہ ان حالات میں کرنا کیا چاہیے ؟ 


★_ حضرت سعید بن عاص نے کہا - وہ صرف چند آدمی ہیں جو پوشیدہ طور پر غلط باتیں مشورہ کرکے سیدھے سادے عوام کو ورغلا رہے ہیں، بہکا رہے ہیں، ان کا علاج یہ ہے کہ آپ ان لوگوں اور جو ان کا سرغنہ ہو، ان کے سر قلم کردیجئے_,"

[11/23, 8:28 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا - عمرو تمہاری کیا رائے ہے ؟

 انہوں نے جواب میں کہا - آپ ان فتنہ پرواز لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر رہے ہیں، آپ نے انہیں بہت ڈھیل دے رکھی ہے ، آپ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے طریقے پر عمل کریں، سختی کی جگہ سختی اور نرمی کی جگہ نرمی کو اپنائیں _," 


★_ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - آپ حضرات نے جو مشورے دیے ہیں وہ میں نے سنے، اصل بات یہ ہے کہ ہر معاملے کا ایک دروازہ ہوتا ہے اس سے وہ اندر داخل ہوتا ہے، یہ فتنہ جو عمت کو پیش آنے کو ہے اس کو نرمی اور موافقت ہی سے بند کیا جا سکتا ہے، البتہ سزاؤں کی بات اور ہے سزا والا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا _,"


"_ مجھ پر کوئی شخص یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ میں نے لوگوں کے ساتھ اور اپنے ساتھ بھی بھلائی کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے، فتنہ کی چکی تو اب گھوم کر رہے گی لیکن میں خود کو اس صورت میں خوش نصیب خیال کروں گا کہ میں اس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ کہ اس چکی کو میں نے حرکت نہیں دی، پس آپ ان حضرات کو فتنہ پروازوں سے روکیں، جو ان کے حقوق ہیں وہ ادا کرنے میں سستی نہ کریں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں_,"


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو یہ پیغام تمام شہروں میں بھیجا تھا اس سے لوگوں کو بہت خوشی ہوئی تھی اور سب کا خیال تھا کہ 35 ہجری کا سال امن و امان اور سکون سے گزرے گا لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا، وہ ایسے کہ کوفے میں سخت فساد ہو گیا، ( اس کی تفصیل اگلے پارٹ میں )

[11/25, 6:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ کوفہ کے گورنر سعید بن عاص تھے، یہ نہایت لائق سوجھ بوجھ والے اور مجاہد نوجوان تھے لیکن تھے قریشی، کوفہ کے لوگ شروع میں تو ان سے خوش رہے، ان کی تعریف کرتے رہے لیکن ایک مرتبہ ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا - کوفہ قریش کا چمن ہے _,"


★_ اس مجلس میں دوسرے قبیلوں کے علاوہ یمنی لوگ بھی تھے ان کا سردار قریش کا شدید مخالف تھا، وہ قریش سے بہت بغض رکھتا تھا یہ جملہ سنتے ہی سعید بن عاص پر بگڑ گیا اور بولا - قریش میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ کوفہ ان کا چمن ہو، وہ تو سب مسلمانوں کا ہے_," 

اس وقت وہاں پولیس کا ایک افسر بھی موجود تھا اس نے غصے میں کہا - گورنر صاحب سے تہزیب میں رہ کر بات کریں،


★_ اس پر یعنی لوگوں نے اس افسر کو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہوگیا، پھر انہوں نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، سعید بن عاص اور قریش کی خوب برائیاں کی، اس کے ساتھ ہی ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب سعید بن عاص کو گورنر نہیں رہنے دیں گے، چنانچہ ان لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری کو گورنر مقرر کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قریش نہیں تھے اور ان کی رشتہ داریاں یمن سے تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شر دور کرنے کے خیال سے ان کی بات مان لی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کر دیا ،


★_ اس فیصلے کا اثر الٹا ہوا، آپ ان لوگوں کے حوصلے بڑھ گئے، ان کے ساتھ ہیں مصر اور بصرہ کے لوگ بھی خلافت کے خلاف اٹھنے کے لیے تیار ہوگئے، ان لوگوں نے ایک جلسہ کیا اس میں اپنا ایک نمائندہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ عبداللہ تمیمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، یہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا، سخت کلامی کی اور خلافت سے سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کیا ،

[11/25, 8:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شام سے وہاں آئے ہوئے تھے، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں، وہاں کے حالات ٹھیک ہیں_,"

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - چاہے میری گردن اڑا دی جائے میں کسی قیمت پر بھی رسول اللہ صلی اللہ کا قرب اور ہمسایگی نہیں چھوڑ سکتا _,"


★_ اس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بولے - اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو مجھے اجازت دیجئے کہ میں شام کا ایک لشکر بھیج دوں، وہ مدینہ کے پچھلے حصے میں ٹھہرا رہے گا، اگر ان لوگوں نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی تو وہ لشکر آپ کی کی مدد کرے گا_,"

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز بھی منظور نہ فرمائی اور فرمایا - اس طرح مدینہ منورہ کے لوگ پریشانی میں مبتلا ہوں گے, میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا _,"


★_ اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بولے - تب‌ پھر اے امیر المومنین ! آپ کے ساتھ غدر والا معاملہ ہو جائے گا_,"

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا -

حسبی اللہ ونعمل وکیل ( اللہ ہی میرے لیے کافی ہے اور وہی بہترین مددگار ہے )


★_ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اجازت لی اور شام کی طرف روانہ ہوگئے ، سازش کرنے والوں کو اب مناسب وقت کا انتظار تھا اور ان کے لیے سب سے بہترین وقت حج کے دن تھے کیونکہ زیادہ تر لوگ حج کے لیے چلے جاتے تھے، مدینہ منورہ میں ان دنوں بہت کم لوگ ہوتے تھے، ان دنوں میں ان کے خلاف کوئی بڑی رکاوٹ پیش نہیں آ سکتی تھی، چنانچہ ایک خفیہ قرار کے مطابق کوفہ بصرہ اور مصر تینوں شہر سے فتنہ پروازوں کی جماعت ایک ہی وقت میں مدینہ میں روانہ ہوئی_,"

  *

                          ─┉●┉─

*┱✿ باغیوں کا مدینہ پہنچنا -


 ★_ ان تینوں جماعتوں کی تفصیل اس طرح ہے،... مصر کے لوگوں کی تعداد چھ سو سے ایک ہزار کے درمیان تھی، یہ چار ٹولیوں میں تقسیم تھے، کوفہ کے لوگ بھی تعداد میں مصر کے برابر تھے اور یہ بھی چار ٹولیوں میں تقسیم تھے، بصرہ کے باغیوں کی تعداد بھی قریب قریب اتنی ہی تھی، یہ بھی چار ٹولیوں میں تقسیم تھا،


★_ جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو راستے میں ان لوگوں کے ہم خیال لوگ بھی شامل ہوتے چلے گئے، مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ کر یہ لوگ تین حصوں میں بٹ گئے، یہاں پہنچ کر ان لوگوں نے مشورہ کیا کہ آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہے کہ اس سلسلے میں مدینہ کے لوگوں کے خیالات اور احساسات معلوم کر لیے جائیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے دو نمائندے ضیاد بن نظر اور عبداللہ بن عصم کو مدینہ منورہ بھیجا ، 


★_ ان دونوں نے ازواج مطہرات، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی، اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، انہوں نے کہا - ہم چاہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت چھوڑ دیں کیونکہ ان کے بعض معاملوں نے اندھیر مچا رکھا ہے _," 

اس پر ان سب حضرات نے ان کی شدید مخالفت کی اور یہ بھی کہا کہ ہم تم لوگوں کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے _,"


★_ یہ جواب سن کر دونوں واپس لوٹ گئے اور اپنے باغی ساتھیوں کو صورت حال بتا دی، اب ان لوگوں نے ان حضرات سے الگ الگ ملاقات کرنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ مصر کے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے آپ کو ان کی جگہ خلیفہ بنانا چاہتے ہیں _,"

حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر خوب بگڑے، انہیں برا بھلا کہا اور فرمایا - چلے جاؤ یہاں سے _,"

★_ اسی طرح بصرہ کے لوگ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے اور کوفہ کے لوگ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ملے، انہوں نے بھی انہیں خوب برا بھلا کہا اور فرمایا - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راستوں سے آنے والے لشکروں پر لعنت بھیجی ہے یعنی تم لوگوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ہمیں خبردار کردیا تھا، لہزا فوراً واپس چلے جاؤ_,"


★_ ہر طرف سے لعنت ملامت سن کر ان لوگوں نے واپس لوٹ جانے میں ہی خیر جانی، یہ اس جگہ لوٹ گئے جہاں ان کے تینوں لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، یہاں انہوں نے پھر مشورہ کیا اور طے کیا کہ اس مقام سے کچھ دور ہٹ کر رک جاتے ہیں اور اہل مدینہ کے حج کے لئے رخصت ہو جانے کا انتظار کرتے ہیں، جب سب لوگ حج کے لئے چلے جائیں گے تب حملہ آور ہوں گے _,"


★_ ادھر باغیوں کے چلے جانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں مشورہ دیا - آپ کے خلاف جو باتیں ہو رہی ہیں بہتر ہوگا آپ لوگوں کے سامنے ایک تقریر کریں، اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کریں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے واپس بھیج دیا ہے وہ پھر واپس نہ آ جائیں _,


★_ یہ مشورہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اس خطبے میں آپ نے وعدہ فرمایا کہ آئندہ کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے، آپ نے فرمایا :- میرا دروازہ ہر شخص کے لئے ہر وقت کھلا ہے جس کو بھی کوئی شکایت ہو وہ بلا تکلیف میرے پاس آجائے اور اپنی شکایت بیان کرے، یہی نہیں جب میں ممبر سے اتروں تو آپ لوگوں میں جو بلند مرتبہ حضرات ہیں وہ میرے پاس آئیں، اس مسئلے میں مجھے مشورہ دیں _,"

 ★_ آپ میں یہ خطبہ اس قدر درد بھرے انداز میں دیا کہ لوگ رو پڑے، بعض لوگوں کی تو حچکی بندھ گئی لیکن جو لوگ فساد برپا کرنے پر تلے ہوئے تھے ان پر بھلا کیا اثر ہوتا، اس خوشگوار خطبے کے اثرات لوگوں کے ذہنوں پر باقی تھے کہ ایک دن اچانک مدینہ منورہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھا، ایک شور گونجا - باغی مدینہ منورہ میں گھس آئے _,"


★_ باغیوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو یہ تینوں حضرات مدینہ منورہ کے اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ان باغیوں سے ملے، انہوں نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے لوگوں سے باری باری ملاقات کی لیکن ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا، اب یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیرا ڈال کر وہاں پڑے رہے،


★_ شروع شروع میں یہ گھیرا نرم تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں آجاتے تھے اور نماز کی امامت کراتے تھے خود یہ فسادی لوگ بھی آپ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، ایک دن ان فسادیوں نے حضرت علی اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم آپ کی موجودگی میں خلیفہ سے بات کرنا چاہتے ہیں _," 


★_ دونوں حضرات نے ظہر کے بعد کا وقت طے کر لیا اور ٹھیک وقت پر ان کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے اور باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا - میں وہ قمیز نہیں اتاروں گا جو اللہ تعالی نے مجھے پہنائی ہے_,"

 یہ کہنے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں خلافت نہیں چھوڑوں گا جو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوئی ہے _,"

★_ مصر کے لوگوں نے کہا کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہم آپ کو خلافت سے الگ نہ کردیں یا قتل نا کر دیں، اگر آپ کے ساتھیوں نے ہمارے راستے میں آنے کی کوشش کی تو ہم ان سے جنگ کریں گے یہاں تک کہ ہم آپ تک پہنچ جائیں گے _,"


★_ ان کی بات کے جواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - مجھے قتل ہو جانا منظور ہے، خلافت کے راستے سے دستبردار ہونا منظور نہیں، تمہارا یہ کہنا کہ تم میرے ساتھیوں سے جنگ کرو گے تو سن لو، میں انہیں جنگ کرنے ہی نہیں دوں گا _,"


★_ اس پر یہ بات چیت ختم ہو گئی اور وہ لوگ ان کے پاس سے لوٹ گئے، ان کے جانے کے بعد امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا - آپ مصریوں کو میری طرف سے مطمئن کریں کہ ان کی جائز شکایت اور مطالبات پر غور کیا جائے گا _,"

حضرت علی رضی اللہ انہوں نے جواب میں عرض کیا - اب اس کا کوئی فائدہ نہیں .. یہ لوگ مطمئن نہیں ہوں گے_,"


★_ اس دوران ایک اور سخت نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جمعے کی نماز کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے، یہاں مصری وفد موجود تھا، نماز معمول کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور مصری وفد سے مخاطب ہوئے :- 


★_ اے دشمنوں ! اللہ تعالی کے قہر اور غضب سے ڈرو، اہل مدینہ خوب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر لعنت کی ہے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی تم لوگوں کے بارے میں پیش گوئی فرما چکے ہیں اور تم پر لعنت بھیج چکے ہیں ) پس تم نے جو خطائیں کی ہیں ان کی تلافی نیک اعمال سے کرو، کیوں کہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ نیکیوں کے ذریعے گناہوں کو مٹاتا ہے _,"

**

                          ─┉●┉─

*┱✿ باغیوں کا حملہ -,*

★_ آپ نے ابھی یہ الفاظ فرمائے ہی تھے کہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بول اٹھے - آپ نے بالکل سچ کہا, میں اس کا گواہ ہوں _,"


★_ جونہی حضرت مسلمہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا مصری وفد ان پر حملہ کرنے کے لیے بڑھا، اس پر مدینہ منورہ کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، دونوں گروہوں میں جھڑپ ہو گئی، مصری کنکر پتھر اٹھا کر ان پر پھینکنے لگے، یہاں تک کہ اس لڑائی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے بلکہ بے ہوش ہوگئے، بے ہوشی کی حالت میں آپ کو گھر پہنچایا گیا , 


★_ صحابہ کرام میں اس وقت ق حضرت زید بن ثابت، سعد بن مالک، ابو ہوریرا اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم موجود تھے، انہوں نے مصریوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا، مصری اس وقت مسجد سے نکل چکے تھے، ایسے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہوش آگیا، انہیں بتایا گیا کہ صحابہ کرام ان لوگوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں، تو فوراً کہلا بھیجا - " مصریوں کا تعاقب نہ کیا جائے _,"


★_ اس واقعہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مصری لوگ فتنہ اور فساد برپا کرنے کی قسم کھا چکے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں اور فوج کے سالاروں کو ان حالات کی اطلاع دی اور انہیں ہدایت دی کہ وہ یہاں آ جائیں _,"

: ★_ یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اپنے گورنروں اور سالاروں کو پیغامات بھیجے اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ آئیں اور فساد برپا کرنے والوں سے جنگ کریں، جی نہیں ! حضرت عثمان عثمان رضی اللہ عنہ کو تو ہرگز ہرگز کسی مسلمان کا خون بہانا گوارا نہیں تھا, اس اقدام سے آپ کا مقصد صرف اتنا تھا کہ باغی اپنی جانیں بچانے کے خیال سے بھاگ جائیں ،


★_ آپ کی طرف سے پیغام ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعض معاملات کی وجہ سے فوراً روانہ نہ ہو سکے البتہ شام سے حبیب بن مسلمہ بصرہ سے مجاشع بن مسعود لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ روانہ ہو گئے، یہ حضرات ابھی مدینہ منورہ سے تین میل دور تھے کہ انہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی ، ( ابنِ کثیر ) 


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ تقریباًًً ایک ماہ تک جاری رہا، اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے رہے نماز پڑھاتے رہے، اس کے بعد باغیوں نے آپ کو مسجد میں آنے سے روک دیا، اب ان کا ایک ساتھی امیر غافقی نماز پڑھانے لگا ،


★_ باغیوں نے یہ جو سختی اختیار کی اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اپنے گورنروں اور امیروں کو پیغامات بھیجے، انہیں اس کا پتہ چل گیا تھا، اس سختی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ حج کے دن ختم ہونے کے قریب تھے، انہوں نے سوچا حاجیوں کے آنے سے پہلے پہلے انہیں اپنے منصوبے کو پورا کر ڈالنا چاہیے ورنہ پھر اپنے منصوبے پر عمل نہیں کر سکیں گے،

★_ اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گئے، اس حالت میں باغیوں نے گھر میں گھسنے کی کوشش کی لیکن آپ کے گھر پر 600 کے قریب جانثار پہرہ دے رہے تھے،  ان میں بڑے بڑے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن، حضرت حسین، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے، ان حضرات نے باغیوں کو اندر آنے نہ دیا،


★_ ان حالات کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج کے لئے بھی نہیں جا سکتے تھے ، آپ اس سے پہلے ہر سال جاتے رہے تھے، وہاں آپ اپنے گورنروں سے ملاقات کرتے تھے ہر ایک سے ان کے علاقے کے حالات معلوم کرتے تھے عوام سے ان کے سکھ دکھ معلوم کرتے تھے، اس طرح حالات سے لوگوں کے مسائل سے باخبر رہنے کی پوری کوشش کرتے تھے، اب چونکہ اس مرتبہ آپ نہیں جاسکے اس لیے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا -  اس مرتبہ آپ میری طرف سے حج کو چلے جائیں _,"


★_ حضرت عبداللہ بن عباس نے عرض کیا - اے امیر المومنین ! ان باغیوں سے جہاد کرنا میرے نزدیک حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے _,"

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اصرار کیا اور انہیں جانے پر مجبور کیا تب حج کے لیے گئے، جب باغیوں نے آپ کو گھر میں قید کر دیا تو ایک دن آپ اپنی چھت پر آئے اور باغیوں سے یوں خطاب کیا :-


★_ تم لوگوں کو قسم دے کر پوچھتا ہوں، سچ کہو ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر بئیر رومہ خرید کر اس کا پانی تمام مسلمانوں کے لئے وقف نہیں کر دیا تھا ؟ اس پر سب نے کہا - ہاں ! یہ ٹھیک ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا -  مسجد نبوی کی جگہ تنگ ہو گئی تھی ، اس میں سب نمازی نہیں آ سکتے تھے، تو کیا میں نے اس کے ساتھ والی زمین خرید کر مسجد میں شامل نہیں کی تھی ؟

 سب نے جواب دیا - ہاں یہی بات ہے .

  آپ نے پھر ارشاد فرمایا - غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امداد کی اپیل کی تھی تو کیا میں نے لشکر کے لیے سامان نہیں دیا تھا اور کیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر مجھے جنت کی بشارت نہیں دی تھی ؟

 سب ایک آواز ہو کر بولے - ہاں ایسا ہی ہے,

اب آپ نے فرمایا - اور پھر اللہ کے رسول نے تین بار فرمایا تھا :- اللہ تو گواہ رہ _,"

: ★_ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا-  کیا  تم لوگوں کو معلوم نہیں ہے  کہ ایک مرتبہ حرا پہاڑ پر رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسل، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور میں،  ہم تینوں کھڑے تھے، ایسے میں پہاڑ  لرزنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا - اے حرا ٹھہر جا، اس وقت تیری پشت پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید ہے ، بتاؤ .. بتاؤ،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یا نہیں ؟

 ان سب نے ایک آواز ہو کر کہا - ہاں ! بے شک _," 


★_ اس تقریر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ضمیر کو جگانا چاہتے تھے، انہیں یہ سوچنے پر آمادہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کیسے شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لیکن ان کے ضمیر تو مر چکے تھے ، ہر سوال کا جواب انہوں نے ہاں میں دیا،  لیکن اپنے مطالبے پر پھر بھی ڈٹے رہے، ان کا کہنا یہ تھا کہ یا تو آپ خلافت چوڑ دیں ورنہ ہم آپ کو قتل کر دیں گے ،


★_ آپ نے باغیوں سے یہ بھی فرمایا - کیا تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو ہو تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے ، میں نے تو اسلام سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پی، زنا نہیں کیا ، کسی کو قتل نہیں کیا، یاد رکھو ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر اس کے  بعد کبھی تم میں باہم محبت نہیں رہے گی, تم ہمیشہ آپس میں لڑتے ہی رہو گے، تمہاری عزت اجتماعیت ختم ہو جائے گی _," 


★_ ان پر آپ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ، اس وقت حالات بہت نازک ہو چکے تھے،  وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  باغیوں سے فرما چکے تھے ،وہ کسی صورت کسی شخص کو بھی یہ اجازت نہیں دینگے کہ ان کی طرف سے جنگ کریں، وہاں جتنے بھی جانثار موجود تھے، ان سب ہی نے  بار بار یہ درخواست کی تھی کہ ہمیں باغیوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی جائے لیکن آپ نے انہیں اجازت نہیں دی،


*"_ شہادت کی تیاری _,*


★_ اب انہوں نے محاصرہ اس قدر تنگ کر دیا کہ کوئی مکان کے اندر نہیں جا سکتا تھا اور نہ مقام سے باہر آ سکتا تھا، یہاں تک کہ مکان میں پانی کا داخلہ بھی بند کر دیا، ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا کا علم ہوا تو آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے آئیں لیکن باغیوں نے انہیں بھی اندر جانے نہ دیا اور ان کے ساتھ بھی سخت گستاخی سے پیش آئے، یہاں تک کہ آپ کی سواری کے کھچر کو بھی زخمی کر دیا، چند آدمی جو وہاں موجود تھے انہوں نے آپ کو وہاں سے نکالا _,


★_ مدینہ منورہ میں اس وقت خوف کا عالم تھا، بہت سے کمزور اور بوڑھے اصحاب تو گوشہ نشین ہوگئے کچھ مدینہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے، آخری مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا تو باغیوں نے ان کا بھی راستہ روک لیا، آپ نے قاصد کو اپنا عمامہ اتار کر دیا اور فرمایا جو حالات تم دیکھ رہے ہو جا کر بیان کر دینا _ء


★_ ایسے میں خبر پہنچی کہ عراق سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لئے جو لوگ روانہ ہوئے تھے وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور شام سے روانہ ہونے والے بھی مدینہ منورہ کے نزدیک وادی القراء پہنچ گئے ہیں، ان لشکروں کے آنے کی خبر پہنچی تو جوش اور بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور حضرت زبیر بن حارث رضی اللہ عنہ نہ مکان کے پاس آئے اور پکارے - انصار دروازے پر موجود ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ ہم مدد کے لئے موجود ہیں حکم فرمائیں_,"

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا - اگر مقصد جنگ کرنا ہے تو میں اجازت نہیں دوں گا_,"

 ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا- میرا سب سے مددگار وہ ہوگا جو اپنا ہاتھ اور ہتھیار روکے رہے _,"


★_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا - امیرالمومنین جنگ کی اجازت دیجئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - ابو ہریرہ کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ تم مجھے اور سب لوگوں کو قتل کرو ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ انہوں نے جواب دیا- نہیں! اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا- اگر تم ایک آدمی کو بھی قتل کرو گے تو گویا یا سب ہی کو قتل کر دیا _,*

 ان کے بعد حضرت عبداللہ بن جبیر حاضر ہوئے اور زور ڈال کر کہا - آپ بھائیوں سے جنگ کیجئے اللہ کی قسم اللہ تعالی نے آپ کے لئے ان لوگوں سے جنگ کرنا حلال کر دیا ہے _,"

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی وہی جواب دیا اور جنگ کے لئے اجازت نہ دی ، *( طبقات ابن سعد -٣/٤٨)*


: ★_ اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ بھی آئیں انہوں نے کہا - اے امیر المؤمنین ! آپ امت کے امام ہیں، خلیفہ برحق ہیں، اس وقت جو حالات ہیں ان میں تین صورتیں ہیں آپ ان میں سے کوئی ایک اختیار کر لیں، ایک یہ ہے کہ آپ کے پاس کافی طاقت ہے اس کے ساتھ ان دشمنوں کا مقابلہ کیجئے، آپ حق پر ہیں اور وہ باطل پر، دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے مکان کے دروازے پر اس وقت باغیوں کا ہجوم ہے ہم پچھلی طرف سے ایک دروازہ نکال دیتے ہیں آپ اس سے نکل کر سواری پر بیٹھ جائیں اور مکہ مکرمہ چلیے، وہاں حرم میں یہ لوگ جنگ نہیں کر سکیں گے، تیسری صورت یہ ہے کہ اس دروازے سے نکل کر شام چلے جائیں وہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور شام کے لوگ وفادار بھی ہیں _,"


★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تینوں تجویز منظور نہ فرمائیں، جواب میں ان سے فرمایا - میں مقابلہ نہیں کروں گا کیوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جس کے ہاتھوں امت میں خونریزی کا آغاز ہو, دوسرا یہ کہ میں مکہ بھی نہیں جاؤں گا کیونکہ یہ فسادی وہاں بھی خونریزی سے باز نہیں آئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے کہ قریش کا ایک شخص مکہ کی حرمت اٹھائے گا, میں وہ شخص نہیں بننا چاہتا, رہا شام جانا وہاں کے لوگ ضرور وفادار ہیں اور معاویہ بھی وہاں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس اور دارالہجرت سے جدائی اور دوری مجھے کسی صورت منظور نہیں _,"


★_ ادھر جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی روشنی میں اپنی شہادت کا یقین ہو چلا تھا اور آپ نے اپنی شہادت کی تیاری شروع کر دی تھی، چنانچہ جس دن یہ سانحہ پیش آیا اس روز آپ نے روزہ رکھا وہ دن جمعہ کا تھا، آپ پر اس حالت میں نیند کی کیفیت طاری ہو گئی اس کیفیت سے ہوشیار ہوئے تو فرمایا - میں نے نیم خوابی کے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہا کو دیکھا ہے آپ فرما رہے تھے - عثمان آج کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کرنا _,"


★_ اس روز آپ روزے سے تو تھے ہی آپ نے بیس غلام بھی آزاد فرمائے، آپ کے پاس ایک پاجاما تھا اس کو آپ نے کبھی پہنا نہیں تھا اس روز وہ پاجاما آپ نے پہنا _,"


★_ آپ اپنے جانثاروں کو ہتھیار اٹھانے سے منع کر چکے تھے لیکن باغیوں نے جب مدینہ کے نزدیک لشکروں کی آمد کی خبر سنی تو غصے میں آپے سے باہر ہوگئے، آپ کے مکان کے دروازے کی طرف بڑھے اور اس کو آگ لگا دی، اندر جو حضرات موجود تھے باہر نکل آئیں، انکی فسادیوں سے جھڑپ ہوئی، اس جھڑپ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم زخمی ہوئے، کچھ لوگ شہید بھی ہوئے _,"

 ( تاریخ طبری -4/352 )


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت _,*


*★_ آپ کے مکان کے پڑوس میں حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کا مکان تھا اس مکان کی ایک کھڑکی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں کھلتی تھی، دروازے پر جب یہ جھڑپ ہوئی تو فسادیوں میں سے کچھ اس کھڑکی کے ذریعے اندر آگئے، 


★_ اور وہ وقت عصر کے بعد کا تھا، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ آپ کے پاس بیٹھی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے قرآن کھلا ہوا تھا اور آپ اس کی تلاوت کر رہے تھے، اسی حالت میں ایک فسادی نے آگے بڑھ کر آپ کی داڑھی مبارک کو پکڑ لیا اور سخت بد کلامی سے پیش آیا، اس کے ہاتھ میں خنجر تھا، وہ خنجر اس نے آپ کی پیشانی پر مارا، پیشانی سے خون کا فوارہ بہہ نکلا، خون سے آپ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو گئی، اس وقت آپ کی زبان مبارک سے نکلا، "_ بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ _," ( ترجمہ - اللہ کے نام سے، اللہ ہی پر بھروسہ ہے ),


★_ ساتھ ہی آپ بائیں کروٹ گر گئے، قرآن مجید آپ کے سامنے کھلا ہوا تھا، آپ اس وقت سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے، پیشانی سے نکل کر خون ڈاڑھی تک آیا اور ڈاڑھی سے قرآن کریم پر بہنے لگا یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچ کر رک گیا ، 

*"_ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ _,*

( ترجمہ - پس عنقریب اللہ تعالی ان لوگوں سے آپ کو بے نیاز کر دے گا اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے - سورہ البقرہ 137)


★_ اب سب مل کر آپ پر ٹوٹ پڑے، کناتہ بن بشر بن عتاب نے لوہے کی سلاخ ماری، سودان بن حمران نے تلوار کا وار کیا اور عمرو بن حمق نے سینے پر بیٹھ کر نیزے سے مسلسل کئی وار کیے، اس کے ساتھ ہی آپ کی روح جسم مبارک سے جدا ہو گئی، إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ _,"


: ★_ آپ کی بیوی حضرت نائلہ نے آپ پر جھک کر سودان بن حمران کی تلوار کا وار اپنے ہاتھ پر روکا تو ان کی انگلیاں کٹ گئیں، اس کے بعد ان قاتلوں نے گھر میں لوٹ مار کی، جس کے ہاتھ جو چیز آی اٹھائیں اور چلتا بنا ،


★_ یہ پر ہول سانحہ عصر اور مغرب کے درمیان جمعہ کے روز 18 ذی الحجہ ٣٥ ہجری کو ہوا، باغیوں کی وجہ سے پورے شہر مدینہ میں خوف پھیل گیا تھا ایک طرح سے پورا شہر ان بلوائیوں کے قبضے میں تھا، لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے، بلوائ شہر میں دن دانتے پھر رہے تھے،


★_ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کفن دفن کا انتظام کیسے کیا جائے؟ مراکش سے لے کر کابل تک کا حکمران آج اس حالت میں بے گور و کفن پڑا تھا کہ کوئی اس کے کفن دفن کے لئے نہیں آیا تھا ،


★_ رات کے وقت کچھ حضرات خاموشی سے آئے اور آپ کی نعش اٹھا کر باہر لے آئے، یہاں پر تاریخی روایات میں بہت زیادہ اختلاف ہے، کچھ روایات کی رو سے جنازے میں ١٧ آدمی تھے, ابن سعد کی روایت کی رو سے جنازے میں کل چار افراد تھے، ان کے نام یہ ہیں - حضرت جبیر بن مطعم، حضرت حکیم بن حزام ، حضرت ابوجہم بن حذیفہ اور حضرت نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہم،


یہ حضرات اب کا زنازہ جنت البقیع میں لاے، جنت البقیع کے پہلو میں " حش کو کب " نام کا ایک نخلستان تھا, یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھا, اسی میں آپ کی قبر بنائی گئی اور جن کپڑوں میں آپ کو شہید کیا گیا تھا ان ہی کپڑوں میں آپ کو دفن کیا گیا، جنازے کی نماز حضرت جبیر بن مطعم نے پڑھائی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ آئے تو آپ نے " حش کو کب" کے درمیان جو دیوار تھی اس کو گرا دیا، اس طرح "حش کو کب " بھی جنت البقیع میں شامل ہوگیا _,"


_ شہادت کے بعد _,*


★_ شہادت کے وقت آپ کی عمر 82 سال تھی, آپ بارہ برس تک خلیفہ رہے، صحابہ کرام ان باغیوں کی وجہ سے اپنے گھروں میں بند تھے، انہیں فوری طور پر اس سانحہ کا پتا بھی نہ چل سکا، در اصل انہیں یہ امید نہیں تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی، صحابہ کو یہ ہولناک خبر ملی وہ رونے لگے، بےقرار ہو گئے،


★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا - اے اللہ ! تو گواہ رہ, میں عثمان کے خون سے بری ہوں _,"

آپ نے یہ بھی فرمایا - حضرت عثمان کی شہادت سے میری کمر ٹوٹ گئی_,"

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت حج کے لئے گئی ہوئی تھی وہ حج کے بعد واپس آ رہی تھیں کہ اس سانحے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا - اللہ کی قسم ! عثمان مظلوم قتل کیے گئے ہیں، میں ان کے قاتلوں سے بدلے کا مطالبہ کروں گی _,"


★_ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر فرمایا - اسلام میں اتنا بڑا اشگاف پیدا ہوگیا ہے کہ پہاڑ بھی اسے بند نہیں کر سکتا _," ثمامہ بن عدی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا - امت محمدیہ کی خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا ، اب ملوکیت اور زبردستی کی حکومت کا دور دورہ ہوگا،جو شخص جس چیز پر غالب آئے گا اسے ہڑپ کر لے گا,"


★_ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں، آپ نے یہ خبر سن کر فرمایا - میں اب کبھی نہیں ہنسوں گا اور تمام عمر فلاں فلاں کام نہیں کروں گا _,"

حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو لوگوں نے بے تحاشہ روتے دیکھا، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر فرمایا - آج عرب تباہ ہو گیا _," 

حضرت ذید بن صومان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - مسلمانوں کے دل قیامت تک ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے _,"


: ★_ ام سلیم رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ ہیں انہوں نے فرمایا :- اب مسلمانوں میں باہم خون خرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا_,"

حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- تم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس پر احد پہاڑ کو گر جانا چاہیے _,"

ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرفرمائے :- قاتلین عثمان کا انجام وہی ہوگا جو قوم ثمود کا ہوا تھا کیونکہ خلیفہ کا قتل ایک اونٹنی کے قتل سے کہیں زیادہ بڑا گناہ ہے_,"


★_ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دوسرے شاعر حضرات نے اپنے اشعار میں غم کا اظہار کیا، ان میں سے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے :- عثمان دنیا کے سب سے زیادہ امن پسند تھے... تو کیا اب ان کے بعد بھی امت خیر کی امید کر سکتی ہے _,"