0
 ⚂⚂⚂.
        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *■ محسن انسانیت ﷺ ■* ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
                     ★ *پوسٹ–52_* ★
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥-- عرب کے ایک ممتاز مہذب اور اعلیٰ روایات رکھنے والے خاندان میں، سلیم الفطرت والدین کے قران السعدین سے ایک انوکھا سا بچہ یتیمی کے سائے میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک غریب مگر شریف ذات کی دایہ کا دودھ پی کر دیہات کے صحت بخش ماحول کے اندر فطرت کی گود میں پلتا ہے۔ وہ خاص انتظام سے صحرا میں تگ و دو کرتے کرتے زندگی کی جولان گاہ میں مشقتوں کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کرتا ہے اور بکریاں چرا کر گلہ بانی اقوام کی تربیت پاتا ہے۔*

*❀"_ بچپن کی پوری مسافت طے کرنے سے پہلے یہ انوکھا بچہ ماں کے سایہ شفقت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ دادا کی ذات کسی حد تک والدین کے اس خلاء کو شیر کرنے والی تھی لیکن یہ سہارا بھی چھین لیا جاتا ہے۔ بالآخر چچا کفیل بنتے ہیں۔ یہ گویا مادی سہاروں سے بے نیاز ہو کر ایک آقائے حقیقی کے سہارے گراں بہا فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی تیاری کرائی جارہی ہے۔*

*❀"_جوانی کے دائرے میں قدم رکھنے تک یہ انوکھا بچہ عام بچوں کی طرح کھلنڈرا اور شریر بن کر سامنے نہیں آتا، بلکہ بوڑھوں کی سی سنجیدگی سے آراستہ نظر آتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو انتہائی فاسد ماحول میں پلنے کے باوجود اپنی جوانی کو بے داغ رکھتا ہے۔ عشق اور نظر بازی اور بدکاری جہاں نوجوانوں کے لیے سرمایہ افتخار بنے ہوئے ہوں، وہاں وہ اپنے دامان نظر تک کو ایک آن بھی میلا نہیں ہونے دیتا۔*

*❀"_ جہاں گلی گلی شراب کشید کرنے کی بھٹیاں لگی ہوں، گھر گھر شراب خانے کھلے ہوں، جہاں مجلس مجلس دخت رز کے قدموں میں ایمان و اخلاق نچھاور کئے جاتے ہوں، اور پھر جہاں اپنی بلا نوشیوں کے چرچے فخریہ قصیدوں اور شعروں میں کئے جاتے ہوں، وہاں یہ جدا گانہ فطرت کا نوجوان کبھی قسم کھانے کو بھی شراب کا ایک قطرہ تک اپنی زبان پر نہیں رکھتا۔*

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 114,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–53_* ★
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ جہاں قمار قومی مشغلہ بنتا چلا آ رہا تھا وہاں یہ ایک مجسمہ پاکیزگی تھا کہ جس نے کبھی مہروں کو ہاتھ سے نہ چھوا، جہاں داستان گوئی اور موسیقی کلچر کا لازمہ بنے ہوئے تھے وہاں کسی اور ہی عالم کا یہ نوجوان لہو و لعب سے بالکل الگ تھلگ رہا۔ اور دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے بھی کہ یہ نوجوان ایسی مجالس تفریح میں جا پہنچا، لیکن جاتے ہی ایسی نیند طاری ہوئی کہ سمع و بصر کا دامن پاک رہا۔*

*❀"_جہاں بتوں کے سامنے سجدہ پاشی عین دین و مذہب قرار پا چکی تھی وہاں خانوادہ ابراہیمی کے اس پاکیزہ مزاج نوجوان نے نہ غیر اللہ کے سامنے کبھی اپنا سر جھکایا نہ اعتقادا کوئی مشرکانہ تصور اپنے اندر جذب کیا، بلکہ ایک مرتبہ بتوں کے چڑھاوے کا جانور پکا کر لایا گیا تو اس نے وہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔*

*❀"_ جہاں قریش نے زمانہ حج میں اپنے آپ کو عرفات جانے سے مستثنیٰ کر لیا تھا وہاں اس ممتاز مرتبے کے قریشی نے کبھی اس من گھڑت استثنیٰ سے فائدہ نہ اٹھایا۔ جہاں اولاد ابراہیم نے مسلک ابراہیمی کو بگاڑ کر دوسری خرابیوں کے ساتھ کعبہ کا طواف حالت عربانی میں کرنے کی ایک گندی بدعت پیدا کرلی تھی، وہاں اس حیا دار نوجوان نے کبھی اس بدعت کو اختیار نہ کیا۔*

*❀"_ جہاں جنگ ایک کھیل تھی اور انسانی خون بہانا ایک تماشا تھا، وہاں احترام انسانیت کا علمبردار یہ نوجوان ایسا تھا کہ جس کے دامن پر خون کی ایک چھینٹ نہ پڑی تھی۔۔۔ نو عمری میں اس نوجوان کو حرب فجار نامی جنگ عظیم میں شرکت کا موقع پیش آیا اور اگر چہ اس نے قریش کے بر سر حق ہونے کی بنا پر اس میں حصہ لیا لیکن پھر بھی کسی انسانی جان پر خود ہاتھ نہیں اٹھایا۔*

*❀"_ پھر اس پاکباز و عفیف نوجوان کی دلچسپیاں دیکھئے کہ عین بہک جانے والی عمر میں وہ اپنی خدمات اپنے ہم خیال نوجوانوں کی ایک اصلاح پسند انجمن کے حوالے کرتا ہے جو حلف الفضول کے نام سے غریبوں اور مظلوموں کی مدد اور ظالموں کی چیرہ دستیوں کے استیصال کے لیے قائم ہوئی تھی۔ اس کے شرکاء نے اس مقصد کے لیے حلفیہ عہد باندھا۔ آپ ﷺ دور نبوت میں اس کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے کہ: اس معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں اس سے نہ پھرتا۔ اور آج بھی ایسے معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں"*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 115,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–54_* ★
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ پھر اس نوجوان کی صفات اور صلاحیتوں کا اندازہ اس سے کیجئے کہ تعمیر کعبہ کے موقع پر حجر اسود نصب کرنے کے معاملے میں قریش میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور تلواریں میانوں سے باہر نکل آتی ہیں، لیکن تقدیر کے اشارے سے اس قضیے کو چکانے کا شرف اسی نوجوان کے حصے میں آتا ہے۔ انتہائی جذباتی تناؤ کی اس فضا میں یہ جج اور صلح کا علمبردار ایک چادر بچھاتا ہے اور اس پر پتھر کو اٹھا کر رکھ دیتا ہے اور پھر دعوت دیتا ہے کہ تمام قبیلوں کے لوگ مل کر اس چادر کو اٹھاؤ۔ چادر پتھر سمیت متحرک ہو جاتی ہے اور جب موقع پر جا پہنچتی ہے تو وہ نوجوان اس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کر دیتا ہے۔ جھگڑے کا سارا غبار چھٹ جاتا ہے اور چہرے خوشی اور اطمینان سے چمک اٹھتے ہیں۔*

*❀_ یہ نوجوان میدان معاش میں قدم رکھتا ہے تو تجارت جیسا پاکیزہ اور معزز مشغلہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بات تو اس نوجوان میں تھی کہ اچھے اچھے اہل سرمایہ نے یہ پسند کیا کہ یہ نوجوان ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے اور کاروبار کرے۔ پھر سائب، قیس بن سائب مخزومی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جن دوسرے لوگوں کو اس نوجوان کے حسن معاملت کا عملی تجربہ ہوا۔ انہونے اسے "تاجر امین" کا لقب دیا۔*.

*❀_ عبداللہ بن ابی الممساء کی گواہی آج بھی محفوظ ہے کہ بعثت سے قبل خرید و فروخت کے معاملہ میں اس تاجر امین سے طے ہوا کہ آپ ٹھہریں میں ابھی پھر آؤں گا۔ لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔ تیسرے روز اتفاقاً عبد اللہ کا گزر اسی مقام سے ہوا تو دیکھا کہ وہ تاجر امین وعدہ کی ڈوری سے بندھا اسی جگہ کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ" تم نے مجھے زحمت دی۔ میں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہوں“۔ (ابو داؤد)*

*❀_ پھر دیکھئے کہ یہ نوجوان رفیقہ حیات کا جب انتخاب کرتا ہے تو مکہ کی نو عمر شوخ و شنگ لڑکیوں کو ایک ذرا سا خراج نگاہ تک دیئے بغیر ایک ایسی خاتون سے رشتہ مناکحت استوار کرتا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاندان اور ذاتی سیرت و کردار کے لحاظ سے نہایت اشرف خاتون ہے۔ اس کا یہ ذوق انتخاب اس کے ذہن، اس کی روح، اس کے مزاج اور اس کی سیرت کی گہرائیوں کو پوری طرح نمایاں کر دیتا ہے۔ پیغام خود وہی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھیجتی ہیں۔ جو اس یکتائے روزگار نوجوان کے کردار سے متاثر ہوتی ہیں اور یہ نوجوان اس پیغام کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرتا ہے۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 115,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–55_* ★
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ پھر کسی شخص کے ذہن و سیرت کو اگر اس کے حلقہ احباب کا جائزہ لینے سے جانچا جا سکتا ہے تو آئیے دیکھئے کہ اس عربی نوجوان کے دوست کیسے لوگ تھے۔ غالباً سب سے گہری دوستی اور سب سے زیادہ بے تکلفانہ رابطہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تھا۔ ایک ہم عمری اوپر سے ہم مذاجی !*

*❀"_ اس نوجوان کے دوستوں میں ایک شخصیت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی تھی، جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور حرم کے منصب رفادہ پر فائز تھے۔ ہجرت کی آٹھویں برس تک یہ ایمان نہیں لائے۔ لیکن پھر بھی آنحضرت ﷺ سے گہری محبت رکھتے تھے اور اسی محبت کے تحت ایک مرتبہ پچاس اشرفیوں کا ایک قیمتی حلہ خرید کر مدینہ میں اگر پیش کیا۔ مگر آنحضور نے باصرار قیمت ادا کر دی۔*

*❀"_ پھر حلقہ احباب کے ایک رکن ضماد بن ثعلبہ ازدی تھے جو طبابت و جراحی کا کام کرتے تھے۔ اس نوجوان کے حلقہ احباب میں کیا کوئی ایک بھی دوں فطرت پست ذوق اور کمینہ مزاج آدمی دکھائی دیتا ہے؟ مکہ کے اشرار میں سے کسی کا نام اس فہرست میں ملتا ہے ؟ ظالموں اور فاسقوں میں سے کوئی اس دائرے میں سامنے آتا ہے؟*.

*❀"_ پھر دیکھئے کہ یہ یکتائے زمانہ نوجوان گھر بار کی دیکھ بھال، تجارت اور دنیوی معاملات کی گونا گوں مصروفیات سے فارغ ہو کر جب کبھی کوئی فرصت کا وقت نکالتا ہے، تو اسے تفریحات و تعیشات میں صرف نہیں کرتا اسے کوچہ گردی میں اور مجلس آرائیوں اور گپوں میں نہیں کھپاتا، اسے سو سو کر اور غفلت میں بے کار پڑے رہ رہ کر بھی نہیں گزارتا، بلکہ سارے ہنگاموں سے کنارہ کر کے اور سارے مشغلوں کو تج کر حرا کی خلوتوں میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کا ذکر اپنی فطرت مطہرہ کی راہنمائی کے مطابق کرتا ہے۔*

*❀"_ کائنات کی گہری حقیقتوں کو اخذ کرنے کے لیے اور انسانی زندگی کے غیبی رازوں کو پالینے کے لیے عالم انفس و آفاق میں غور و فکر کرتا ہے اور اپنی قوم اور اپنے ابناء نوع کو اخلاقی پستیوں سے نکال کر مرتبہ ملکوتی پر لانے کی تدبیریں سوچتا ہے۔ جس نوجوان کی جوانی کی فرصتیں اس تحنث میں صرف ہو رہی ہوں کیا اس کی فطرت کے بارے میں انسانی بصیرت کوئی رائے قائم نہیں کر سکتی۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 116,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–56_* ★
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ ہونے والا آخری نبی ﷺ اس نقشہ زندگی کے ساتھ قریش کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے اپنے ہی مکی معاشرے کی گود میں پلتا ہے، جوان ہوتا ہے اور پختگی کے مرتبے کو پہنچتا ہے۔ کیا یہ نقشہ زندگی بول بول کر نہیں بتا رہا تھا کہ یہ ایک نہایت ہی غیر معمولی عظمت رکھنے والا انسان ہے؟ کیا اس اٹھان سے اٹھنے والی شخصیت کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کی کچھ بھی گنجائش کسی پہلو سے ملتی ہے کہ نعوذ باللہ یہ کسی جھوٹے اور فریبی آدمی کا نقشہ ہو گا؟*

*❀"_ ہر گز نہیں! ہرگز نہیں! خود قریش نے اسے صادق و امین دانا و حکیم اور پاک نفس و بلند کردار تسلیم کیا۔ اور بار بار تسلیم کیا اس کے دشمنوں نے اس کی ذہنی و اخلاقی عظمت کی گواہی دی اور سخت ترین کشمکش کرتے ہوئے دی! دائی برحق کے نقشہ زندگی کو خود قرآن نے دلیل بنا کے پیش کیا, *"_ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ( آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ یونس ۔ ۱٦)*

*❀"_ لیکن اپنی قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا جب نبوت کے منصب سے کلمہ حق پکارتا ہے تو زمانہ کی آنکھوں کا رنگ معا بدل جاتا ہے اور اس کی صداقت و دیانت اور اس کی شرافت و نجابت کی قدر و قیمت بازار وقت میں یکا یک گرا دی جاتی ہے۔ کل تک جو شخص قوم کا مایہ ناز فرزند تھا آج وہ اس کا دشمن اور مخالف بن جاتا ہے۔*

*❀"_ کل تک جس کا احترام بچہ بچہ کرتا تھا، آج وہ ایک ایک قدردان کی نگاہوں میں مبغوض ٹھرتا ہے۔ وہ شخص جس نے چالیس سال تک اپنے آپ کو ساری کسوٹیوں پر کھرا ثابت کر کے دکھایا تھا، توحید نیکی اور سچائی کا پیغام سناتے ہی قریش کی نگاہوں میں کھوٹا سکہ بن جاتا ہے۔ کھوٹا وہ نہ تھا بلکہ ان کی اپنی نگاہوں میں ٹیڑھ تھی اور ان کے اپنے معیار غلط تھے!*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 117,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                   
                     ★ *پوسٹ–57_* ★
   *⚂_مکی دور- قریش کے وجوہ مخالفت ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ کیا قریش کی آنکھیں اتنی اندھی تھیں کہ وہ ماحول کی تاریکیوں میں جگمگاتے ہوئے ایک چاند کی شان نہیں دیکھ سکتی تھیں؟ کیا ان کی محفل میں وہ اونچے اخلاقی قدو قامت رکھنے والے ایک زعیم ( سردار) کو نہیں پہچان سکتی تھیں؟ کیا خار و خس کے ہجوم میں ایک گلدستہ شرافت و عظمت ان سے اپنی قدر و قیمت نہیں منوا سکا ہو گا؟*

*❀"_ نہیں نہیں قریش خوب پہچانتے تھے کہ محمد ﷺ کیا ہیں ؟ مگر انہوں نے جان بوجھ کر آنکھوں پر پٹی رکھ لی ! مفاد اور تعصبات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ جب کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے اندھا بن جاتا ہے تو اس سے بڑی بڑی مصیبتیں اور تباہیاں رونما ہوتی ہیں, "_ اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ (الاعراف : ۱۷۹)*

*❀"_ آج اگر کسی طرح ہم مشرکین مکہ سے بات کر سکتے تو ان سے پوچھتے کہ تمہارے خاندان کے اس چشم و چراغ نے جو دعوت دی تھی وہ فی نفسہ کیا برائی کی دعوت تھی؟ کیا اس نے تم کو چوری اور ڈاکے کے لیے بلایا تھا؟ کیا اس نے تمہیں ظلم اور قتل کے لیے پکارا تھا؟ کیا اس نے تمہیں بیواؤں اور کمزوروں پر جفائیں ڈھانے کی کوئی اسکیم پیش کی تھی؟ کیا اس نے تم کو باہم دگر لڑانے اور قبیلے قبیلے میں فساد ڈلوانے کی تحریک چلائی تھی؟ کیا اس نے مال سمیٹنے اور جائداد بنانے کے لیے ایک جماعت کھڑی کی تھی؟ آخر تم نے اس کے پیغام میں کیا کبھی دیکھی؟ اس کے پروگرام میں کون سا فساد محسوس کیا؟ کیوں تم پرے باندھ کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے؟*

*❀"_ قریش کو جس چیز نے جاہلیت کے فاسد نظام کے تحفظ اور تبدیلی کی رو کی مزاحمت پر اندھے جنون کے ساتھ اٹھا کھڑا کیا وہ یہ ہرگز نہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر و کردار میں کوئی رخنہ تھا یا آپ ﷺ کی دعوت میں کوئی خطرناک مفسدہ تھا ، بلکہ وہ چیز صرف کریش کی مفاد پرستی تھی !*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 118,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–58_* ★
   *⚂_مکی دور- قریش کے وجوہ مخالفت ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- قریش سالہا سال کے جمے ہوئے عربی معاشرے کے سانچے میں اپنے لیے ایک اونچا مقام قیادت حاصل کر چکے تھے، تمام سیاسی اور مذہبی مناصب ان کے ہاتھ میں تھے، اقتصادی اور کاروباری لحاظ سے ان کی سیادت کا سکہ رواں تھا۔ پوری قوم کی چودھراہٹ انہیں حاصل تھی۔ ان کی یہ چودھراہٹ اسی مذہبی و تمدنی و معاشرتی سانچے میں چل سکتی تھی جو جاہلی دور میں استوار تھا۔ اگر وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر مجبور تھے کہ اپنی چودھراہٹ کا تحفظ کریں تو پھر وہ اس پر بھی مجبور تھے کہ جاہلی نظام کو بھی ہر حملے اور ہر تنزل سے بچائیں۔*

*❀"_قریش جہاں سیاسی و معاشرتی لحاظ سے چودھری تھے وہاں وہ عرب کے مشرکانہ مذہب کے پروہت مذہبی استھانوں کے مہنت اور مجاور اور تمام مذہبی امور کے ٹھیکہ دار بھی تھے۔ یہ مذہبی ٹھیکہ داری، سیاسی و معاشرتی چودھراہٹ کی بھی پشتیباں تھی اور بجائے خود ایک بڑا کاروبار بھی تھی۔ اس کے ذریعے سارے عرب سے نذریں اور نیازیں اور چڑھاوے کھنچے چلے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی دامن بوسیاں ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے ان کے قدموں کو چھوا جاتا تھا۔*

*❀"_ مذہب جب ایک طبقے کا کاروبار بن جاتا ہے تو اس کی اصل روح اور مقصدیت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور گوناگوں رسمیات کا ایک نمائشی طلسم قائم ہو جاتا ہے۔ اصولی تقاضے فراموش ہو جاتے ہیں اور مذہبی کاروباریوں کی اپنی بنائی ہوئی ایک شریعت آہستہ آہستہ نشود نما پا جاتی ہے۔*

*❀"_ معقولیت ختم ہو جاتی ہے اندھی عقیدتیں اور فضول اوہام ہر طرف چھا جاتے ہیں۔ استدلال غائب ہو جاتا ہے اور جذباتی ہیجانات عقل کا گلا گھونٹ لیتے ہیں۔ مذہب کا عوامی و جمہوری مزاج کافور ہو جاتا ہے اور ٹھیکہ دار طبقے کا تحکم معاشرہ کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے۔ حقیقی علم مٹ جاتا ہے۔ ہوائی باتیں مقبول عام ہو جاتی ہیں۔ اعتقاد و احکام کی سادگی ہوا ہو جاتی ہے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 118,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
            
                     ★ *پوسٹ–59_* ★
   *⚂_مکی دور- قریش کے وجوہ مخالفت ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- جب کبھی مذاہب میں بگاڑ پیدا ہوا ہے تو ہمیشہ وہ اس نہج پر ہوا ہے۔ جاہلی عرب میں یہ بگاڑ بالکل اپنی انتہائی شکل پر پہنچا ہوا تھا۔ اسی بگاڑ پر قریش کی منت گری اور مجاوری کی ساری گدیاں قائم تھیں۔ یہ زرخیز گدیاں اپنی بقا کے لیے اس بات کی محتاج تھیں کہ فاسد مذہبیت کے ڈھانچے کو جوں کا توں قائم رکھا جائے۔ اور اس کے خلاف نہ کوئی صدائے احتجاج و اختلاف اٹھنے دی جائے اور نہ کسی دعوت تغیر و اصلاح کو برپا ہونے دیا جائے۔ پس قریش اگر دعوت محمدی ﷺ کے خلاف تلملا کر نہ اٹھ کھڑے ہوتے تو اور کیا کرتے؟*

*❀"_اور پھر حال یہ تھا کہ قریش کا کلچر نہایت فاسقانہ کلچر تھا۔ شراب اور بدکاری، جوا اور سود خواری عورتوں کی تحقیر و تذلیل اور بیٹیوں کا زندہ دفن کرنا آزادوں کو غلام بنانا اور کمزوروں پر ظلم ڈھانا, یہ سب اس کلچر کے لوازم تھے۔ قریش کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے اس اپنی تہذیبی قفس کو توڑ کر ایک نئی فضا میں پرواز کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انہیں فوراً محسوس ہو گیا کہ دعوت محمد ﷺ ان کی عادات ان کی خواہشات ان کے فنون لطیفہ اور ان کے محبوب کلچر کی دشمن ہے چنانچہ وہ جذباتی ہیجان کے ساتھ اس کی دشمنی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔*

*❀"_ در حقیقت یہی وجوہ و اسباب ہمیشہ دعوت حق کے خلاف کسی بگڑے ہوئے سماج کے ارباب اقتدار اور مذہبی ٹھیکہ داروں اور خواہش پرستوں کو متحدہ محاذ بنا کر اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔*

*❀"_ بعثت نبوی ﷺ سے قبل ذہین لوگوں میں اس مذہب اس معاشرے اور اس ماحول کے بارے میں نوامیس الہی کے تحت اضطراب پیدا ہو چکا تھا اور فطرت انسانی اس کے خلاف جذبہ احتجاج کے ساتھ انگڑائی لے رہی تھی۔ ہم ابھی اوپر جن حساس افراد کا ذکر کر چکے ہیں ان کی روحوں کے ساز سے تبدیلی کا دھیما دھیما نغمہ بلند ہونے لگا تھا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 119,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–60_* ★
*⚂_مکی دور- تاریک ماحول میں چند شرارے ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_تاریک ماحول میں چند شرارے :-*
*❀"_ قریش اپنے ایک بت کے گرد جمع ہو کر تقریب عید منا رہے تھے، اس خداوندہ سنگیں کی تعریف و تعظیم ہو رہی تھی، اس پر چڑھاوے چڑھائے جا رہے تھے، اس کا طواف ہو رہا تھا اور اس عالم میں چار آدمی یعنی ورقہ بن نوفل، عبید اللہ بن جحش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو بن نفیل اس ہنگامہ لا یعنی سے بیزار الگ تھلگ بیٹھے ایک خفیہ میٹنگ کر رہے تھے ۔*

*❀"_ ان لوگوں کے خیالات یہ تھے کہ ہماری قوم ایک بے بنیاد مسلک پر چل رہی ہے, اپنے دادا ابراہیم کے دین کو انہوں نے گنوا دیا ہے, یہ جس مجسمہ سنگیں کا طواف کیا جا رہا ہے یہ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ ضلع دے سکتا ہے۔ ساتھیو! اپنے دلوں کو ٹٹولو تو خدا کی قسم تم محسوس کرو گے کہ تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے، ملک ملک گھومو اور کھوج لگاؤ دین ابراہیم علیہ السلام کے سچے پیروؤں کا_," ( سیرت ابن ہشام -٢٤٢)*

*❀"_ بعد میں ان میں سے ورقہ بن نوفل عیسائی ہو گیا۔ عبداللہ بن جحش جیسا تھا ویسا ہی رہا مگر اس کے ذہن میں الجھن رہی۔ کچھ عرصے بعد اسلام لایا۔ پھر مہاجرین حبشہ کے ساتھ حبش میں ہجرت کی اور اس کے ساتھ اس کی اہلیہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا (بنت ابو سفیان) بھی ہجرت میں گئیں۔ وہاں جانے کے بعد عبید اللہ دوبارہ نصرانی ہو گیا اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی*

*❀"_ زید بن عمرو نے نہ یہودیت قبول کی نہ نصرانیت، لیکن اپنی قوم کا دین ترک کر دیا۔ بت پرستی چھوڑ دی، مردار اور خون اور استھانوں کے ذبیحوں سے پر ہیز شروع کر دیا۔ بیٹیوں کے قتل سے لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتا رہا اور کہا کرتا کہ میں تو ابراہیم کے رب کا پرستار ہوں۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 120,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–61_* ★
*⚂_مکی دور- تاریک ماحول میں چند شرارے ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے بوڑھے سردار زید بن عمرو کو کعبے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے دیکھا اور وہ کہہ رہا تھا۔ اے قریش کے لوگو! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں زید بن عمرو کی جان ہے۔ میرے سوا تم میں سے کوئی بھی ابراہیم کے دین پر قائم نہیں رہا۔ پھر کہنے لگا اے خدا ! اگر میں جانتا کہ تجھے کون سے طریقے پسند ہیں تو میں انہیں طریقوں سے تیری عبادت کرتا۔ لیکن میں نہیں جانتا۔ پھر ہتھیلیاں ٹیک کر سجدہ کرتا_," ( سیرتِ ابن ہشام- ٢٤٢)*

*❀"_ اپنے ملنے والوں کے سامنے وہ اکثر یہ اشعار پڑھتا :- ( ترجمہ) رب ایک ہونا چاہیے یا سینکڑوں رب بنا لیے جائیں؟ میں اس مذہب پر کیسے چلوں جب کہ مسائل حیات کئی معبودوں میں بانٹ دیئے گئے ہوں۔ میں نے لات و عزیٰ سب کو ترک کر دیا ہے اور مضبوط اور صبر کیش شخصیتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ مگر ہاں، اب میں اپنے رب رحمن کا عبادت گزار ہوں تاکہ وہ بخشش فرمانے والا آقا میرے گناہوں کو معاف کردے، سو تم اللہ ہی کے تقویٰ کی حفاظت کرو۔ جب تک اس صفت کو قائم رکھو گے کبھی گھاٹے میں نہ پڑو گے۔," (سیرت ابن ہشام- ۲۴۴)*

*❀"_ بچارے زید کی بیوی صفیہ بنت الحضرمی ہمیشہ اس کے پیچھے پڑی رہتی۔ بسا اوقات وہ خالص ابراہیمی دین کی جستجو کے لیے مکہ سے نکل کھڑے ہونے کا ارادہ کرتا، لیکن اس کی جورو خطاب بن نفیل کو آگاہ کر دیتی اور وہ اسے دین آپائی کے چھوڑنے پر سخت ست کہتا۔ زید کی والہیت کا عالم یہ تھا کہ سجدہ گاہ کعبہ میں داخل ہوتی تو پکار اٹھتا۔ لبیک , اے خداوند برحق میں تیرے حضور اخلاص مندانہ عبادت گزارنہ اور غلامانہ انداز سے حاضر ہوں۔ پھر کہتا۔ "میں کعبہ کی طرف منہ کر کے اسی ذات کی پناہ طلب کرتا ہوں جس کی پناہ ابراہیم علیہ السلام نے ڈھونڈی تھی" ( ایضا -٢٤٨)*

*❀"_ خطاب بن نفیل زید کے در پے آزار رہا۔ یہاں تک کہ مکہ کی ہلائی جانب شہر بدر کر دیا اور زید نے مکہ کے سامنے حرا کے پاس جا دھونی رمائی۔ پھر خطاب نے قریش کے چند نوجوانوں اور کچھ کمینہ خصلت افراد کو اس کی نگرانی پر مامور کر دیا اور ان کو تاکید کی کہ خبردار اسے مکہ میں داخل نہ ہونے دو۔*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 120,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
      
                     ★ *پوسٹ–62_* ★
*⚂_مکی دور- تاریک ماحول میں چند شرارے ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ چنانچہ تنگ آکر زید بن عمرو نے وطن چھوڑا اور موصل الجزیرہ اور شام وغیرہ میں ہے آمیز ابراہیمی دین کی جستجو میں مارا مارا پھرتا رہا۔ آخر کار وہ دمشق کے علاقہ بلقاء میں ایک صاحب علم راہب کے پاس پہنچا اور اس سے گم گشتہ مسلک ابراہیمی کا سراغ پوچھا۔*

*❀_"_ راہب نے کہا کہ "آج تجھے اس مسلک پر چلنے والا کوئی ایک شخص بھی نہ ملے گا۔ البتہ ایک نبی کے ظہور کا وقت آپہنچا ہے جو اسی جگہ سے اٹھے گا۔ جہاں سے نکل کر تو آیا ہے۔ وہ دین ابراہیمی کا علمبردار بن کے اٹھے گا, جا کر اس سے مل۔ ان دنوں اس کی بعثت ہو چکی ہے"۔*

*❀_"_ زید نے یہودیت و نصرانیت کو خوب دیکھ بھال لیا اور ان کی کوئی چیز اس کے دل کو نہ لگی۔ وہ راہب کی ہدایت کے مطابق مکہ کی طرف لپکا۔ بلاد لخم میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا_" ( سیرت ابن ہشام - ٥٠, ٢٤٩)*

*❀_"_ اس طرح کے حساس افراد کے ذہنی مدوجزر کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول ایک زندگی بخش پیغام کے لیے مضطرب ہو رہا تھا۔ تاریخ جس انقلابی قوت کو مانگ رہی تھی وہ اپنے ٹھیک وقت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی صورت میں کونپل نکالتی ہے۔*

*❀_"_ آپ ﷺ ایک منفی صدائے احتجاج بن کر اور اپنے انفرادی ذہن و کردار کی فکر لے کر نمودار نہیں ہوئے۔ بلکہ ایک جامع مثبت نظریہ و مسلک کے ساتھ ساری قوم اور سارے ماحول کی اجتماعی تبدیلی کے لیے میدان میں اترے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 121,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–63_* ★
      *⚂_مکی دور- دعوت کا خفیہ دور ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥-_دعوت کا پہلا خفیہ دور :-*

*❀"_ مقدمہ اور نبوت کے طور پر آنحضور رویائے صادقہ سے نوازے گئے۔ کبھی غیبی آوازیں سنائی دیتیں، کبھی فرشتہ دکھائی دیتا، یہاں تک کہ عرش الٰہی سے پہلا پیغام آ پہنچا۔ جبرائیل آتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ "اقرا باسم ربک الذی خلق" (پڑھو {اے نبی ﷺ} اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیقی کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ (العلق)*

*❀"_ وحی الٰہی کے اولین تجربے میں ہیبت و جلال کا بہت سخت بوجھ آپ ﷺ نے محسوس کیا۔ پھر حضرت جبرائیل نے آنحضرت کو سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر کہا پڑھو۔ غرض یہ کہ آخر کار آپ سہمے سہمے جبریل کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو دوہراتے رہے۔ یہاں تک کہ پہلا کلام وحی یاد ہو گیا۔*

*❀"_ گھر آکر اپنی رفیقہ رازداں سے واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے تسلی دی کہ آپ کا خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ ورقہ بن نوفل نے تصدیق کی کہ یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ بلکہ مزید یہ کہا کہ یقیناً لوگ آپ کی تکذیب کریں گے، آپ کو تنگ کریں گے آپ کو وطن سے نکالیں گے اور آپ سے لڑیں گے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں خدا کے کام میں آپ کی حمایت کروں گا"۔*.

*❀"_ اب گویا آپ خدا کی طرف سے دعوت حق پر باقاعدہ مامور ہو گئے۔ اور آپ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی۔ یہ دعوت سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے سامنے آئی اور وہی اس پر ایمان لانے والوں میں سے پہلی ہستی قرار پائیں۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 122,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
     
                     ★ *پوسٹ–64_* ★
      *⚂_مکی دور- دعوت کا خفیہ دور ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-پھر یہ کام خفیہ طور پر دھیمی دھیمی رفتار سے چلنے لگا۔ آپ کے بچپن کے ساتھی اور پوری طرح ہم مذاہ و ہم مزاج حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو آپ کے چچا ذاد بھائی تھے، ان کے سامنے جب پیغام حق آیا تو انہوں نے کسی تامل و توقف کے بغیر اس طرح لبیک کہی جیسے پہلے سے روح اسی چیز کی پیاسی تھی۔ علاوہ بریں زید رضی اللہ عنہ رفیق مسلک بنے جو آپ کے پروردہ غلام تھے اور آپ کی زندگی اور کردار سے متاثر تھے۔*

*❀"_ آپ پر قریب ترین لوگوں کا ایمان لانا آپ کے اخلاص اور آپ کی صداقت کا بجائے خود ایک ثبوت ہے۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جو کئی برس سے آپ کی پرائیویٹ اور پبلک لائف سے اور آپ کے ظاہر و باطن سے پوری طرح واقف تھیں۔ ان سے بڑھ کر آپ کی زندگی اور کردار اور آپ کے ذہن و فکر کو جاننے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ ان قریب ترین ہستیوں نے بالکل آغاز میں آپ کے بلاوے پر لبیک کہہ کر گویا ایک شہادت پہنچا دی، دعوت کی صداقت اور داعی کے اخلاص کی۔*

*❀"_حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تحریک محمدی کا سپاہی بنتے ہی اپنے حلقہ اثر میں زور شور سے کام شروع کر دیا اور متعدد اہم شخصیتوں، مثلاً حضرت عثمان، حضرت زبیر حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت سعد بن وقاص، حضرت طلحہ رضوان اللہ علیم اجمعین کو اس انقلابی حلقہ کا رکن بنا دیا۔*

*❀"_ حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت ارقم، حضرت سعد بن زید ( انہی زید بن عمرو کے بیٹے جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ یہ والد کی زندگی سے متاثر تھے) حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبیدہ، صہیب رومی رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسلامی تحریک کے ابتدائی خفیہ دور میں سابقین اولین کی صف میں آچکے تھے!*  

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 122,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
              
                     ★ *پوسٹ–65_* ★
      *⚂_مکی دور- دعوت کا خفیہ دور ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- نماز کا وقت آتا تو آنحضرت ﷺ کسی پہاڑ کی کھائی میں چلے جاتے اور اپنے رفقاء کے ساتھ چھپ چھپا کر سجدہ عبودیت بجا لاتے۔ صرف چاشت کی نماز حرم میں پڑھتے کیونکہ یہ نماز خود قریش کے ہاں بھی مروج تھی۔ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی درہ میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ آپ کے چچا ابو طالب نے دیکھ لیا۔ اس نئے انداز کی عبادت کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے اور بڑے غور سے دیکھتے رہے۔ نماز کے بعد آپ سے پوچھا کہ یہ کیا دین ہے جس کو تم نے اختیار کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارے دادا ابراہیم کا یہی دین تھا_, یہ سن کر ابو طالب نے کہا کہ میں اسے اختیار تو نہیں کر سکتا لیکن تم کو اجازت ہے اور کوئی شخص تمہارا مزاحم نہ ہو سکے گا"۔ (سیرت النبی علامہ شبلی ج ا ص ۱۹۳)*

*❀"_ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بھی تحریک اسلامی کے اسی خفیہ دور میں ایمان لائے، یہ بھی انہی مضطرب لوگوں میں سے تھے جو بت پرستی چھوڑ کر محض فطرت سلیم کی رہنمائی میں خدا کا ذکر کرتے اور اس کی عبادت بجا لاتے۔ ان تک کسی ذریعے سے آنحضور ﷺ کی دعوت کا نور پہنچ گیا۔ انہوں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کر صحیح معلومات لائیں۔*

*❀"_ انہوں نے آنحضور ﷺ سے ملاقات کی، قرآن سنا اور بھائی کو بتایا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا ہے۔ لوگ اسے مرتد کہتے ہیں، لیکن وہ مکارم اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور ایک عجیب کلام سناتا ہے جو شعر و شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا طریقہ تمہارے طریقے سے ملتا جلتا ہے،*

*❀"_ اس اطلاع پر خود آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اخفاء کے مشک حق کی خوشبو کو ہوا کی لہریں لے اڑی تھیں اور خدا کے رسول ﷺ کے لیے بد نام کن القاب تجویز کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا لیکن پھر بھی ماحول ابھی پر سکون تھا ابھی وہ خطرے " کا پورا پورا اندازہ نہیں کر پایا تھا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 124,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–66_* ★
      *⚂_مکی دور- دعوت کا خفیہ دور ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دیکھئے ، ایک اور اہم تاریخی حقیقت کہ تحریک کے ان اولین علمبرداروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اعلیٰ درجے کے مذہبی و قومی مناصب پر مامور ہو۔ یہ حضرات اغراض کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور مفاد کی ڈوریوں سے بندھے ہوئے نہ تھے۔ ہمیشہ ایسے ہی آزاد فطرت نوجوان تاریخ میں بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے اگلی صفوں میں آیا کرتے ہیں۔*

*"❀_ تحریک اپنے اس خفیہ دور میں قریش کی نگاہوں میں درخور اعتناء نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ چند نوجوانوں کا سر پھرا پن ہے، الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، چار دن میں دماغوں سے یہ ہوا نکل جائے گی، ہمارے سامنے کوئی دم مار سکتا ہے؟*

*"❀_ مگر بر سر اقتدار طبقہ تخت قیادت پر بیٹھا اپنے زعم قوت میں مگن رہا اور سچائی اور نیکی کی کونپل تخت کے سائے میں آہستہ آہستہ جڑیں چھوڑتی رہی اور نئی پتیاں نکالتی رہی، یہاں تک کہ تاریخ کی زمین میں اس نے اپنا ایک مقام بنا لیا۔*

*❀"_ قریش کا اعتقاد یہ بھی تھا کہ لات منات اور عزی جن کے آگے ہم پیشانیاں رگڑتے اور چڑھاوے پیش کرتے ہیں اور جن کے ہم خدام بارگاہ ہیں، اپنے احترام اور مذہب بت پرستی کی خود حفاظت کریں گے اور ان کی روحانی مار ہنگامہ کو ختم کر دے گی۔*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 126,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–67_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دعوت عام :- تین برس اسی طرح گزر گئے۔ لیکن مشیت الہی حالات کے سمندر کو بھلا یخ بستہ کہاں رہنے دیتی؟ اس کی سنت تو ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ باطل کے خلاف حق کو اٹھا کھڑا کرتی ہے اور پھر ٹکراؤ پیدا کرتی ہے۔ (مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں) (الانبیاء ۱۸) )*

*❀"_ اس سنت کے تحت یکایک دوسرے دور کے افتتاح کے لیے حکم ہوتا ہے۔ " پس اے نبی ! جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پرواہ نہ کرو, (الحجر: ۹۴)*

*❀"_ آنحضور ﷺ اپنی ساری ہمت و عزیمت کو سمیٹ کر نئے مرحلے کے متوقع حالات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر کے کوہ صفا پر آکھڑے ہوتے ہیں، اور قریش کو عرب کے اس خاص اسلوب سے پکارتے ہیں جس سے وہاں کسی خطرے کے نازک لمحے قوم کو بلایا جاتا تھا۔ لوگ دو ڑ کر آتے ہیں، جمع ہو جاتے ہیں اور کان منتظر ہیں کہ کیا خبر سنائی جانے والی ہے۔*

*❀"_ آپ ﷺ نے بآواز بلند پوچھا۔ ”اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آرہی سے تو کیا تم مجھے اعتبار کرو گے ؟ ہاں کیوں نہیں؟ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ بولتے پایا ہے"۔ یہ جواب تھا جو بالاتفاق مجمع کی طرف سے دیا گیا۔*
*"_تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا پر ایمان لاؤ۔۔۔۔ اے بنو عبد المطلب ! اے بنو عبد مناف ! اے بنو زہرا ! اے بنو تمیم ! اے بنو مخزوم ! اے بنو اسد ! ورنہ تم پر سخت عذاب نازل ہو گا"*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 127,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–68_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥ _ان مختصر الفاظ میں آپ ﷺ نے اپنی دعوت بر سر عام پیش کر دی۔ آپ کے چچا ابو لہب نے یہ سنا تو جل بھن کر کہا کہ "غارت ہو جاؤ تم آج ہی کے دن ! ۔۔۔ کیا یہی بات تھی جس کے لیے تم نے ہم سب کو یہاں اکٹھا کیا تھا ؟" ابو لہب اور دوسرے اکابر بہت برہم ہو کر چلے‌ گئے۔*

*"❀_ دیکھئے ! ابولہب کے الفاظ میں دعوت نبوی ﷺ کے صرف ناقابل اعتناء ہونے کا تاثر جھلک رہا ہے، ابھی کوئی دوسرا رو عمل پیدا نہیں ہوا۔ شکایت صرف یہ تھی کہ تم نے ہمیں بے جا تکلیف دی اور ہمارا وقت ضائع کیا؟*

*❀"_دعوت عام کی مہم کا دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ آنحضور ﷺ نے تمام خاندان عبد المطلب کو کھانے پر بلوایا۔ اس مجلس ضیافت میں حمزہ، ابو طالب اور عباس جیسے اہم لوگ بھی شریک تھے۔ کھانے کے بعد آپ ﷺ نے مختصر سی تقریر کی اور فرمایا کہ میں جس پیغام کو لے کر آیا ہوں یہ دین اور دنیا دونوں کا کفیل ہے، _اس مہم میں کون میرا ساتھ دیتا ہے؟*

*❀"_ بالکل ابتدائے دعوت میں آنحضور اس حقیقت کا شعور رکھتے تھے کہ وہ دنیا سے کٹا ہوا مذہب لے کر نہیں آئے بلکہ دنیا کو سنوارنے والا دین لے کے آئے ہیں۔ آپ ﷺ کی دعوت پر سکوت چھا گیا۔ اس سکوت کے اندر تیرہ برس کا ایک لڑکا اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ”اگرچہ میں آشوب چشم میں مبتلا ہوں، اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں، اگرچہ میں ایک بچہ ہوں، لیکن میں اس مہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو آگے چل کر اساطین تحریک میں شمار ہوئے۔*

*❀"_ یہ منظر دیکھ کر حاضرین میں خوب قہقہہ پڑا! اس قہقہے کے ذریعے گویا خاندان عبد المطلب یہ کہہ رہا تھا کہ یہ دعوت اور یہ لبیک کہنے والا کون سا کارنامہ انجام دے لیں گے۔ یہ سب کچھ ایک مذاق ہے ایک جنون ہے، اور بس! اس کا جواب تو صرف ایک خندہ استہزاء سے دیا جا سکتا ہے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 127,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
           
                     ★ *پوسٹ–69_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-اس دوسرے واقعہ پر ماحول کا سکون نہیں ٹوٹا, زندگی کے سمندر کے ننگوں اور گھڑیالوں نے کوئی انگڑائی نہیں لی۔ لیکن اس کے بعد یہ تیسرا قدم اٹھا تو اس نے معاشرہ کو ہسٹریا کے اس دورے میں مبتلا کر دیا جو آہستہ آہستہ شروع ہو کر روز بروز تند و تیز ہو تا گیا !*

 *❀"_اس تیسرے اقدام کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل ایک اور واقعہ کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ مخالف ماحول کی خطرناک سنگینی کی وجہ سے نماز چوری چھپے پڑھی جاتی تھی۔ آنحضور ﷺ اور رفقائے تحریک شہر سے باہر وادیوں اور گھاٹیوں میں جا جا کر نماز ادا کرتے۔*

*❀"_ ایک دن ایک گھائی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دوسرے رفقائے نبوی ﷺ کے ساتھ نماز میں تھے کہ مشرکین نے دیکھ لیا۔ عین حالت نماز میں ان مشرکین نے فقرے کسنے شروع کئے، برا بھلا کہا اور نماز کی ایک ایک حرکت پر پھبتیاں چست کرتے رہے، جب ان لا یعنی باتوں کا کوئی جواب نہ ملا تو زچ ہو کر لڑنے پر اتر آئے۔*

*❀"_ اس دنگے میں ایک مشرک کی تلوار نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو زخمی کر ڈالا۔ یہ تھی خون کی سب سے پہلی دھار جو مکہ کی خاک پر خدا کی راہ میں بہی ! یہ جاہلی معاشرے کا سب سے پہلا جنوں آمیز خونین رد عمل تھا اور اس رد عمل کے تیور بتا رہے تھے کہ مخالفت اب تشدد کے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 127,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–70_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ تحریک کی زیر سطح رو نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے چالیس موتی اکٹھے کر لیے تھے۔ اب گویا اسلامی جماعت ایک محسوس طاقت بن چکی تھی۔ کھلم کھلا کلمہ حق کو پکارنے کا حکم آ ہی چکا تھا۔ اس کی تعمیل میں آنحضور ﷺ نے ایک دن حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر توحید کا اعلان کیا۔*

*❀"_ لیکن مذہبیت جب بگڑتی ہے، تو اس کی اقدار اس طرح تہ و بالا ہو جاتی ہیں کہ وہ گھر جو پیغام توحید کے مرکز کی حیثیت سے استوار کیا گیا تھا آج اس کی چار دیواری کے اندر خدائے واحد کی وحدت کی پکار بلند کرنا اس مرکز توحید کی توہین کا موجب ہو چکا تھا۔ بتوں کے وجود سے کعبے کی توہین نہیں ہوتی تھی، بتوں کے آگے پیشانیاں رگڑنے سے بھی نہیں، ننگے ہو کر طواف کرنے، سیٹیاں اور تالیاں بجانے سے بھی نہیں، غیر اللہ کے نام پر ذبیحے پیش کرنے سے بھی نہیں، مجاوری کی فیس اور پر وہتی کا ٹیکس وصول کرنے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ لیکن اس گھر کے اصل مالک کا نام لیتے ہی اس کی توہین ہو گئی تھی!‌*

*❀"_کعبہ کی توہین حرم کی بے حرمتی! توبہ توبہ کیسی خون کھولا دینے والی بات ہے کیسی جذبات کو‌ مشتعل کر دینے والی حرکت ہے! چنانچہ کھولتے ہوئے خون اور مشتعل جذبات کے ساتھ چاروں طرف سے کلمہ توحید کو سننے والے مشرکین اٹھ آتے ہیں، ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ نبی ﷺ یہ گھیرے میں آجاتے ہیں،*

*❀"_حارث بن ابی ام ہالہ کے گھر میں تھے، شور و شغب سن کر آنحضور ﷺ کو بچانے کے لیے دوڑے لیکن ہر طرف سے تلواریں ان پر ٹوٹ پڑیں اور وہ شہید ہو گئے۔ عرب کے اندر اسلام اور جاہلیت کی کشمکش میں یہ پہلی جان تھی جو حمایت حق میں قربان ہوئی۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 127,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
 
                     ★ *پوسٹ–71_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دیکھا آپ نے! ایک دعوت جو معقول اور پر سکون انداز سے دی جا رہی تھی، اس پر غور کر کے رائے قائم کرنے اور استدلال کا جواب دلائل سے دینے کے بجائے اندھے جذباتی اشتعال سے دیا جاتا ہے۔*

*❀"_ سیدنا محمد ﷺ کلمہ حق آپنی تلوار سے منوانے نہیں اٹھتے۔ لیکن مختلف طاقت معا تلوار سونت کے آجاتی ہے۔ یہی ایک فاسد نظام کے مفاد پرست مخالفین کی علامت ہے کہ معقولیت کے جواب میں اشتعال اور دلیل کے جواب میں تلوار لیے میدان میں اترتے ہیں۔ مخالفین میں اتنا ظرف نہیں تھا کہ وہ کم سے کم چند ہفتے چند دن چند لمحے حرم سے اٹھنے والی صدا پر پر سکون طریقے سے غور و فکر کر سکتے۔*

*❀"_ یہ تسلیم کرتے کہ محمد ﷺ کو بھی ان کی طرح کسی نظریے فلسفے عقیدے پر ایمان رکھنے، کسی مذہب پر چلنے اور ان کی قائم کردہ صورت مذہب سے اختلاف کرنے کا حق ہے، کم سے کم امکان کی حد تک یہ مانتے کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر غلطی موجود ہو اور محمد ﷺ ہی کی دعوت سے حقیقت کا سراغ مل سکتا ہو۔ کسی نظام فاسد کے سربراہ کاروں میں اتنا ظرف باقی نہیں رہتا، ان میں اختلاف کے لیے قوت برداشت بالکل ختم ہو جاتی ہے، ان کی غور و فکر کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔*

*❀"_ذرا اندازہ کیجئے کہ کیسی تھی وہ فضا جس میں ہم سب کی دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دینے والا داعی حق بے سرو سامانی کے عالم میں اپنا فرض ادا کر رہا تھا؟*

*❀"_ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے پاکیزہ جذبات اور پاکیزہ حسرتوں اور تمناؤں کے مسالے سے بنے ہوئے حرم پاک کے اندر مکہ والوں کی اس حرکت کے وقوع نے آنے والے دور مستقبل کا ایک تصور تو ضرور دلا دیا اور ایک بے گناہ کے خون سے آئندہ ابواب تاریخ کی سرخی تو جمادی، لیکن یہ اصل زور تشدد کا افتتاح نہیں تھا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 128,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
   
                     ★ *پوسٹ–72_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_گندا پروپیگنڈہ:-۔ نی ﷺ کی دعوت کو پایہ اعتبار سے گرانے کے لیے گالی دینے کے کمینہ جذبہ کے ساتھ پروپیگنڈہ کے ماہر استادوں نے گوناں گوں القلاب گھڑنے شروع کئے۔ مثلاً یہ کہا جانے لگا کہ اس شخص کی بات کیوں سنتے ہو یہ تو (نعوذ باللہ ) " مرتد" ہے، دین اسلاف کہ جس کے ہم اجارہ دار ہیں یہ اس کے دائرہ سے باہر نکل گیا ہے اور اب اپنے پاس سے ایک انوکھا دین گھڑ لایا ہے۔*

 *❀"_کوئی استدلال نہیں بس اپنی گدیوں پر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تو "صابی" ہو گیا ہے صائیت چونکہ اس وقت کی مشرکانہ سوسائٹی میں ایک بدنام اور نا پسندیدہ مسلک تھا اس لیے کسی کا نام صابی دھر دینا ویسی ہی گالی تھا جیسے آج کسی مسلمان کو یہودی یا خارجی یا نیچری کہہ دیا جائے۔*

*❀"_ حق کے خلاف دلائل کے لحاظ سے بودے لوگ جب منفی ہنگامے اٹھاتے ہیں تو ان کی پرو پیگنڈے کی مہم کا ایک ہتھیار ہمیشہ اس طرح کے بد نام کن القاب، ناموں اور اصطلاحوں کا چسپاں کرنا ہوتا ہے۔ گلی گلی، مجلس مجلس مکہ کے پروپیگنڈسٹ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے تھے کہ دیکھو جی! یہ لوگ صابی ہو گئے ہیں، بے دین ہو گئے ہیں۔ باپ دادا کا دین دھرم انہوں نے چھوڑ دیا ہے، نئے نئے عقیدے اور نئے ڈھنگ گھڑ کر لا رہے ہیں،*

*❀"_ یہ آندھی جب اٹھ رہی ہو گی تو تصور کیجئے کہ اس میں راستہ دیکھنا اور سانس لینا عام لوگوں پر کتنا دو بھر ہو گیا ہو گا۔ اور داعیان حق کے مختصر سے قافلہ کو کس آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا ! مگر آندھیاں ارباب عزیمت کے راستے کبھی نہیں روک سکتیں!*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 129,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
         
                     ★ *پوسٹ–73_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-دلائل کے مقابلہ میں جب گالیاں لائی جارہی ہوں تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ دلائل تو اپنی جگہ جمے رہتے ہیں لیکن جو گالی مقابلے پر لائی جاتی ہے وہ جذباتی حد تک دو چار دن کام دے کر بالکل بے اثر ہو جاتی ہے اور انسانی فطرت اس سے نفور ہونے لگتی ہے, چنانچہ آنحضور ﷺ کے لیے ایک گالی اور وضع کی گئی۔ آپ کو ” ابن ابی کبشہ" کہا جاتا تھا۔*

*❀"_ ابی کبشہ ایک معروف مگر بد نام شخصیت تھی۔ یہ شخص تمام عرب کے دینی رجحانات کے خلاف "شعرای" نامی ستارے کی پرستش کرتا تھا۔ ابن ابی کبشہ کے معنی ہوئے ابی کبشہ کا بیٹا یا ابی کبشہ کا پیرو (نعوذ باللہ)، دل کا بخار نکالنے کے لیے مکہ کے مریضان جذباتیت نے کیا کیا ایجادیں نہیں کیں!*

*❀"_ کسی صاحب دعوت یا کسی نقیب تحریک کی ذات پر جب اس طرح کے وار کئے جاتے ہیں تو اصل مطلوب اس شخصیت کو کرب دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت گالی دی جاتی ہے اس نظریہ و مسلک کو اور اس کام اور تنظیم کو جس کی روز افزوں یلغار سے سابقہ پڑا ہوتا ہے، مگر کیا ایک اٹھتے ہوئے سیلاب کے‌ آگے گوبر کے پشتے باندھ کر اس کو روکا جا سکتا ہے!*

*❀"_مسشرکین مکہ دیکھ رہے تھے کہ وہ گندگی کے جو جو بند بھی باندھتے ہیں ان کو یہ دعوت بہائے لیے جارہی ہے اور ہر صبح اور ہر شام کچھ نہ کچھ آگے ہی بڑھتی جاتی ہے تو انہوں نے پروپیگنڈے کے دوسرے پہلو اختیار کئے۔ ایک نیا لقب یہ تراشا کہ یہ شخص (نعوذ بالله) در حقیقت پاگل ہو گیا ہے۔*

*❀"_ بتوں کی مار پڑنے سے اس کا سر پھر گیا ہے۔ یہ جو باتیں کرتا ہے وہ ہوش و حواس اور عقل و حکمت کی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مالیخولیا ہے کہ جس کے دورے پڑنے پر کبھی اسے فرشتے نظر آتے ہیں، کبھی جنت اور دوزخ کے خواب دکھائی دیتے ہیں کبھی وحی اترتی ہے اور کبھی کوئی انوکھی بات منکشف ہو جاتی ہے۔ یہ ایک سر پھرا آدمی ہے، اس لیے اس کی باتوں پر عام لوگوں کو دھیان نہیں دینا چاہیے اور اپنا دین ایمان بچانا چاہیے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 129,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
         
                     ★ *پوسٹ–74_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ہمیشہ سے یہ ہوا کہ داعیان حق کا زور استدلال توڑنے کے لیے یا تو ان کو پاگل کہا گیا ہے یا سفیعہ و احمق! ہوشمند تو بس وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی دنیا بنانے اور زمانے کی ہاں میں ہاں ملانے اور اپنی خواہشوں کا سامان تسکین کرنے میں منہمک رہیں، باقی وہ لوگ جو تجدید و اصلاح کی مہم اٹھا کر جان جوکھموں میں ڈالیں، ان کو دنیا پرست اگر احمق اور پاگل نہ کہیں تو آخر ان کی ڈکشنری میں اور کون سا لفظ موزوں ہو سکتا ہے۔*

*❀"_ مشرکین مکہ نے ایک اور طنر گھڑی۔ کہنے لگے کہ یہ مدعی نبوت در حقیقت جادو کے فن کی بھی سمجھ رکھتا ہے۔ یہ اس کا فنی کمال ہے کہ دو چار باتوں میں ہر ملنے والے پر اپنا جادو کر دیتا ہے، نظر بندی کی حالت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ذرا کوئی اس کی ہاتوں میں آیا نہیں کہ جادو کے جال میں پھنسا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے بھلے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں!*

*❀"_ ہاں مگر ایک سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا تھا کہ کبھی احمقوں، پاگلوں اور جادوگروں نے بھی آج تک مذہبی و تمدنی تحریکیں چلائی ہیں اور کبھی کاہنوں نے خدا پرستی اور توحید اور مکارم اخلاق کا درس دینے کے لیے فن ساحری کو استعمال کیا ہے؟ کبھی جادو کے زور سے دلوں اور دماغوں، روحوں اور سیرتوں کو بھی بدلنے کی کوئی مثال سامنے آئی؟*

*❀" لیکن یہ سکہ بند الزام ہے ایسا کہ ہر دور میں ہر صاحب دعوت پر لگایا گیا ہے۔ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خود دعوت میں صداقت نہیں کہ اس کی فطری کشش کام کرے۔ داعی کے استدلال میں کوئی وزن نہیں کہ جس سے قلوب مسخر ہو رہے ہوں بلکہ سارا کھیل کسی پر اسرار قسم کی فریب کاری اور ساحری پر مبنی ہے اور یہ اس کا اثر ہے کہ بھلے چنگے لوگ توازن کھو بیٹھتے ہیں۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 131,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                 
                     ★ *پوسٹ–75_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- لوگ اکابر قریش کے سامنے آنحضرت ﷺ کی الہامی تقاریر اور آیات قرآنی خصوصاً پیش بھی تو کرتے ہوں گے کہ یہ اور یہ باتیں کہی گئی ہیں۔ کلام کے وہ جو ہر شناس آخر یہ تو محسوس کر لیتے ہوں گے کہ خود یہ کلام موثر طاقت ہے۔ اس پر بہشیں ہوتی ہوں گی اور رائیں قائم ہوتی ہوں گی۔*.

*❀"_ اس کلام کے اعجاز کی توجیہہ کرنے کے لیے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ”اجی کیا ہے، بس شاعری ہے، الفاظ کا ایک آرٹ ہے ادیبانہ زور ہے۔ محمد ﷺ درجہ اول کے آرٹسٹ اور لسان خطیب ہیں، ان کی شاعری کی وجہ سے کچے ذہن کے نوجوان بہک رہے ہیں"۔* 

*❀"_اے قریش مکہ ! شاعر تو دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، کیا کوئی ایسا انوکھا شاعر کبھی پیدا ہوا جو اس بے داغ سیرت اور عظیم کردار کا حامل ہو جس کا مظاہرہ محمد ﷺ اور ان کے رفقاء کر رہے تھے۔ کیا شاعری کے طلسم‌ باندھنے والوں نے کبھی ایسی دینی مہمات بھی برپا کی ہیں جیسی تمہارے سامنے ہو رہی تھی؟*

*❀"_ قریش کے سامنے بھی یہ سوال تھا۔ اس کا جواب دینے کے لیے انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کہانت کا ایک اور الزام باندھا۔ کابن لوگ کچھ مذہبی انداز و اطوار رکھتے تھے، ایک عجیب پر اسراری فضا بناتے تھے۔ چلوں اور احتکانوں اور وظیفوں اور منتروں میں ان کی زندگی گزرتی تھی۔ کاہن کہنے سے قریش کا مدعا یہی تھا کہ آنحضور ﷺ نے بھی بس اسی طرح کا ایک ڈھکوسلہ بنا رکھا ہے۔ تاکہ لوگ آئیں، مرید بنیں، ان پر کہانت کا سکہ بھی چلے اور پیٹ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ (معاذ اللہ )*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 131,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                
                     ★ *پوسٹ–76_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اور قرآن اس سارے پروپیگنڈے کی دھواں دھاریوں کو محیط ہو کر آسمانی بلندیوں سے پکار کر کہہ رہا تھا کہ: "_ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ، وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ "*
*"_ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔ اور نہ یہ کسی کا ہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ (الحاقہ ۴۱ -۴۲)*

*❀"_انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ _ ,(الفرقان - ۹) "_ دیکھو یہ لوگ کیسے کیسے محاورے اور فقرے چست کرتے ہیں، کیسے کیسے نام دھرتے ہیں، کیا کیا تشبیہیں گھڑتے ہیں اور کہاں کہاں سے اصطلاحیں ڈھونڈ کے لاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ کر کے پھر یکا یک کیسا پلٹا کھاتے ہیں ؟ "*

*❀"_ دیکھئے ! اب ایک اور شوشہ تراشا جاتا ہے۔ دین ابراہیمی کے نام لیوا فرماتے ہیں کہ یہ کوئی جن ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر آتا ہے اور وہ آ کر عجیب عجیب باتیں بتاتا ہے یا یہ کہ وہ سکھا پڑھا جاتا ہے۔ کبھی مکہ کے ایک رومی و نصرانی غلام (جابر یا جبرا یا جبر) کا نام لیا جاتا ہے (جو آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین کی باتیں سنانے جاتا ہے اور تنہائی میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ وعظ اور لیکچر نوٹ کراتا ہے۔*

*❀"_ ایک موقع پر وفد اکابر قریش نے خود آنحضور سے کہا کہ: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یمامہ میں کوئی شخص "الرحمٰن" نامی ہے جو تمہیں یہ سب کچھ سکھاتا پڑھاتا ہے۔ خدا کی قسم ہم اس "الرحمٰن" پر ایمان نہیں لائیں گے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 132,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–77_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ان ہوائی شوشوں سے یہ ظاہر کرنا مطلوب تھا کہ یہ کسی بیرونی طاقت اور کسی غیر شخص کی شرارت ہے جو ہمارے مذہب اور معاشرے کو تباہ کرنے کے در پے ہے اور محمد ابن عبد اللہ تو محض آلہ کار ہے۔ یہ کسی طرح کی سازش ہے۔ دوسری طرف اس میں یہ تاثر بھی شامل تھا کہ کلام کا یہ حسن و جمال نہ محمد کا کمال ہے نہ خدا کی عطا و بخشش، یہ تو کوئی اور ہی طاقت گل کھلا رہی ہے۔ تیسری طرف اس کے ذریعے کذب اور افترا علی اللہ کا الزام بھی دائی حق پر چسپاں ہو رہا تھا۔*

*❀"_ اس کے جواب میں قرآن نے تفصیلی استدلال کیا ہے, مگر اس کا چیلنج قطعی طور پر مسکت ثابت ہوا کہ انسانوں اور جنوں کی مشترکہ مدد سے تم اس طرح کی کوئی سورۃ یا ایسی چند آیات ہی بنا کر لاؤ۔*

*❀"_ ضمنا مزید ایک دعویٰ یہ بھی سامنے آیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے، اصل میں پرانے قصے کہانیاں ہیں جن کا مواد کہیں سے جمع کر کے زور دار زبان میں ڈھالا جا رہا ہے، یہ ایک طرح کی افسانہ طرازی ہے اور داستان گوئی ہے،*

*❀"_ دعوت حق پر "اساطیر الاولین" کی پھبتی کسنے میں یہ طنز بھی شامل تھا کہ ”اگلے وقتوں کی ان کہانیوں کے ذریعے آج کے مسائل کی عقدہ کشائی کہاں ہو سکتی ہے ، زمانہ کہیں سے کہاں آ چکا ہے ،*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 132,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–78_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- واضح رہے کہ یہ ساری مہم کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سوچی سمجھی ہوئی شرارت کے طور پر چلائی جا رہی تھی، انہوں نے مل کر یہ قرار داد طے کی تھی کہ "_داعی کی بات سنو ہی نہیں، اس پر غور کرو ہی نہیں۔ کہیں خیالات میں تزلزل نہ آجائے۔ کہیں ایمان خراب نہ ہو جائے۔ بس ہاؤ ہو کا خوب شور مچا کر اس میں رخنہ اندازی کرو، اس میں گڑ بڑ ڈالو اور اسے مذاق پر دھر لو، اس طریقے سے قرآن کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اور آخری فتح تمہاری ہو گی_,"*

*❀"_عاص بن وائل نے آنحضور ﷺ کی دعوت و تحریک کی تحقیر کرتے ہوئے زہریلے کلمات کہے، طعنہ دیا گیا تھا آنحضور ﷺ کی اولاد نرینہ نہ ہونے پر اور عرب میں فی الواقع یہ طعنہ کچھ معنی رکھتا تھا،*

*❀"_مگر عاص جیسوں کی نگاہیں یہ نہیں سمجھ سکتیں کہ انبیاء جیسی تاریخ ساز ہستیوں کی اصل اولاد ان کے عظیم الشان کارنامے ہوتے ہیں، ان کے دماغوں سے نئے ادوار تہذیب جنم لیتے ہیں اور ان کی دعوت و تعلیم کی وراثت سنبھالنے اور ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے رفقاء اور پیرو کار گروہ در گروہ موجود ہوتے ہیں وہ جس خیر کثیر کو لے کے آتے ہیں اس کی طاقت اور اس کی قدر وقیمت کسی کی نرینہ اولاد کے بڑے سے بڑے شکر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔*

*❀"_ چنانچہ اس طعنہ کے جواب میں سورہ کوثر نازل ہوئی جس میں عاص اور اس کے ہم کیشوں کو بتایا گیا کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کو "کوثر " عطا کیا ہے اسے خیر کثیر کا سر چشمہ بنایا ہے، اسے قرآن کی نعمت عظمی دی ہے، اس پر ایمان لانے والوں اور اطاعت کرنے والوں، اس کے کام کو پھیلانے اور جاری رکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے اور اس کے لیے عالم آخرت میں حوض کوثر کا تحفہ مخصوص کر رکھا ہے۔*

*❀"_ جس سے ایک بار اگر کسی کو اذن نوش مل گیا تو وہ ابد تک پیاس نہ محسوس کرے گا۔ پھر فرمایا کہ اے نبی ﷺ ابتر تو ہیں تمہارے دشمن کہ جن کا باعتبار حقیقت کوئی نام لیوا اور پانی دیوا نہیں ہے اور جن کے مرجانے کے بعد کوئی بھول کے یاد بھی نہ کرے گا کہ فلاں کون تھا اور جن کے لیے تاریخ انسانی کے ایوان میں کوئی جگہ نہیں۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 133,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–79_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- جو لوگ آنکھوں دیکھتے ایک امر حق کو نہیں ماننا چاہتے وہ اپنے اور داعی کے درمیان طرح طرح کے نکتے اور لطیفے اور باتوں میں سے باتیں نکال نکال کر لاتے ہیں، اسلاف کی سکہ بند مذہبیت کے یہ مخالفین آنحضور ﷺ سے ایک تو بار بار یہ پوچھتے تھے کہ تم اگر نبی ہو تو آخر کیوں نہیں ایسا ہوتا کہ تمہارے نبی ہونے کی کوئی واضح نشانی تمہارے ساتھ ہو، کوئی ایسا معجزہ ہو جسے دیکھنے والوں کے لیے نبوت مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے۔*

*❀"_کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ۔ (الفرقان ۲۰) سیدھی طرح آسمان سے فرشتوں کے جھنڈ اتریں، ہمارے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیں، اور خدا تمہارے ذریعے پیغام بھیج کر اپنے آپ کو منوانے کے بجائے خود ہی کیوں نہ ہمارے سامنے آجائے اور ہم دیکھ لیں کہ یہ ہے ہمارا رب جھگڑا ختم ہو جائے۔*

*❀"_ پھر وہ یہ کہتے کہ جو کچھ تم پیش کر رہے ہو یہ اگر واقعی خدا کی طرف سے ہوتا تو چاہیے یہ تھا کہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہمارے دیکھتے دیکھتے آسمان سے اترتی بلکہ تم خود سیڑھی کے ذریعے کتاب لیے ہوئے اترتے اور ہم سر تسلیم خم کر دیتے کہ تم سچے نبی ہو۔*

*❀"_ اسی سلسلے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا تھا کہ قرآن خطبہ بہ خطبہ اور قطعہ بہ قطعہ کیوں نازل ہوتا ہے۔ سیدھی طرح ایک ہی بار پوری کی پوری کتاب کیوں نہیں نازل ہو جاتی؟*

*❀"_ دراصل انہیں یہ صورت بڑی کھلتی تھی کہ جتنے سوال وہ اٹھاتے تھے ، جو جو شرارتیں کرتے تھے ، جس جس پہلو سے مین میخ نکالتے تھے اس پر وحی کے ذریعے حسب موقع تبصرہ ہوتا اس کا تجزیہ کیا جاتا اور پورے زور استدلال سے ان کی مخالفانہ کاوشوں کی جڑیں کھود دی جاتیں۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 134,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–80_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-پھر وہ یہ پھبتی کستے کہ تم جو گوشت پوست کے بنے ہوئے ہماری طرح کے ایک آدمی ہو ، تمہیں بھوک لگتی ہے، معاش کے در پے ہو، روٹی کھاتے ہوں، گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، پھٹے حالوں رہتے ہو، تمہارے اوپر طرح طرح کی زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ کیسے یہ بات عقل میں آئے کہ تم اللہ کے پیارے اور اس کے معتمد نمائندنے اور دنیا کی اصلاح کے ذمہ دار بنا کر بھیجے گئے ہو۔*

*❀"_ تم واقعی اگر ایسے چیدہ روز گار ہوتے تو فرشتے تمہارے آگے آگے ہٹو بچھ کی صدا لگاتے باڈی گارڈ بن کر ساتھ چلتے جو کوئی . گستاخی کرتا لٹھ سے اس کا سر پھوڑ دیتے۔ تمہاری یہ شان اور یہ ٹھاٹھ دیکھ کر ہر آدمی بے چون و چرا مان لیتا کہ اللہ کا پیارا ہے اور نبی ہے۔ اتنا ہی نہیں تمہارے لیے آسمان سے خزانہ اترتا اور اس خزانہ کے بل پر تم شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ عیش کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ تمہارے بسنے کے لیے سونے کا ایک محل ہو تا، تمہارے لیے کوئی چشمہ جاری ہوتا کوئی نہر بہائی جاتی، تمہارے پاس پھلوں کا کوئی اعلیٰ درجے کا بالغ ہو تا آرام سے بیٹھے اس کی کمائی کھاتے۔ اس نقشے کے ساتھ تم نبوت کا دعوی لے کے اٹھتے تو ہم سب بسر و چشم مانتے کہ واقعی یہ کوئی منتخب زمانہ اور مقبول ربانی ہستی ہے۔*

*❀"_ برخلاف اس کے حال یہ ہے کہ ہم لوگ کیا مال کے لحاظ سے کیا اولاد کے لحاظ سے تم سے منزلوں آگے ہیں، اور تمہارا حال جو کچھ ہے وہ سامنے ہے، ایک تم ہی نہیں، تمہارے ارد گرد جو ہستیاں جمع ہوئی ہیں وہ سب ایسے لوگ ہیں جو ہماری سوسائٹی کے سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، کوتاہ نظر اور کم علم ہیں۔ تم لوگوں کو ہمارے مقابلے میں کوئی بھی تو وجہ فضیلت حاصل نہیں۔*

*❀"_ بتاؤ اے محمد ! کہ ایسی صورت میں کوئی معقول آدمی کیسے تمہیں نبی مان لے ! چنانچہ حال یہ تھا کہ جدھر سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہوتا۔ پھبتیاں کسی جائیں، انگلیاں اٹھا اٹھا کر اور اشارے کر کر کے کہتے کہ ذرا دیکھنا ان صاحب کو یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول مقرر فرمایا ہے! خدا کو کسی آدم زاد سے رسالت کا کام لینا ہی تھا تو کیا لے دے کے یہی شخص رہ گیا تھا ! کیا حسن انتخاب ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریک کے علمبرداروں پر بہ حیثیت مجموعی یہ فقرہ چست کیا جاتا تھا کہ_ " أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا_", (الانعام ۔۵۳) کیا یہی ہیں وہ ممتاز ہستیاں جنہیں اللہ نے مراتب خاص سے نوازنے کے لیے ہمارے اندر سے چھانٹ لیا ہے۔*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 136,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–81_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- پھر کہا جاتا کہ اے محمد! وہ جس عذاب کی روز روز تم دھمکیاں دیتے ہو۔ اور جس کے ذریعے اپنا اثر جمانا چاہتے ہو، اسے لے کیوں نہیں آتے؟ اسے آخر کس چیز نے روک رکھا ہے؟ چیلنج کر کر کے کہتے کہ,"_ فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ _," ( الشعراء۔ ۱۸۷) کیوں نہیں تم آسمان کا کوئی ٹکڑا توڑ گراتے ہم جیسے نافرمان کافروں پر ؟ اگر تم سچے ہو تو ہمارا خاتمہ کر ڈالو۔*

*❀"_ پھر یہ دین اسلاف کے ٹھیکہ دار یہ نکتہ چھانٹتے کہ اے محمد ! جب تم بتاتے ہو کہ خدا قادر و صاحب اختیار اور قاہر و جبار ہے تو کیوں نہیں وہ ہم کو اپنی طاقت کے زور سے اس ہدایت کے راستے پر چلاتا کہ جس پر چلنے کے لیے تم ہمیں کہتے ہو۔ وہ ہمیں موحد اور نیک دیکھنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں موحد بنا دے اور نیکی پر چلا دے، اس کو کس نے روک رکھا ہے۔* 

*❀"_ اسی طرح وہ قیامت کا مذاق اڑاتے۔ بڑے ڈرامائی انداز میں دریافت کرتے کہ ذرا یہ تو فرمائیے کہ یہ حادثہ کب واقعہ ہونے والا ہے ؟ کچھ اتا پتا دیجئے کہ اس اعلان کو کب پورا ہوتا ہے ؟ قیامت کب تک آپہنچنے والی ہے؟ کیا کوئی تاریخ اور کوئی گھڑی معین نہیں ہوئی؟ ان چند مثالوں سے جن کی تفصیل قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے، اندازہ کیجئے کہ دنیا کے سب سے بڑے محسن اور انسانیت کے عظیم ترین خیر خواہ کو کیسی فضا سے سابقہ آپڑا تھا۔*

*❀"_ عالم بالا کی طرف سے یقین دہانی کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے کلمات سے خود سامان تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ اس مرحلے سے گزرنے کے لیے بار بار ہدایات دی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک جامع ہدایت یہ آئی کہ "_خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ_," (اے نبی ﷺ نرمی و در گزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو_," (الاعراف 144)*

*❀"_ یعنی اعصاب کو جھنجھوڑ دینے والے اور دل و جگر کو چھید ڈالنے والے اس دور کے لیے آنحضور ﷺ کو تین تقاضوں کا پابند کر دیا گیا۔ ایک یہ کہ بد زبانیوں سے بے نیازی کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ حق بات کہنے کی ذمہ داری ہر حال میں پوری کی جائے گی۔ تیسرے یہ کہ کمینہ اور بد اخلاق اور جہالت زدہ اشخاص کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں! اور قرآن اور تاریخ دونوں گواہ ہیں کہ آنحضور نے ان ہدایات کی حدود سے بال برابر تجاوز کئے بغیر یہ پورا دور گزار دیا۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 137,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–82_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- کبھی کبھی قریش کو سوچ بچار سے کوئی عقلی قسم کی دلیل بھی ہاتھ آجاتی تھی۔ ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ ہم کب بتوں کو خداوند تعالٰی کے مقام پر رکھتے ہیں، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ جن بزرگوں کی ارواح کے منظر ہیں وہ اللہ کے دربار میں ہمارے لیے سفارش کرنے والے ہیں اور ان بتوں کے آگے سجدہ و قربانی کر کے ہم صرف اللہ کے حضور تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔*

*❀"_ اسی طرح ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے نزدیک زندگی صرف اسی دنیا کی زندگی ہے, کوئی اور عالم پیش آنے والا نہیں ہے اور نہ ہمیں دوبارہ زندہ کیا جانے والا ہے، پھر آخر ہم ایک ایسے دین کو کیونکر تسلیم کریں جو کسی دوسری دنیا کا تصور دلا کر اس دنیا کے مفاد اور اس کی دلچسپیوں سے ہمیں محروم کرنا چاہتا ہے۔*

*❀"_ اسی طرح ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہم دعوتِ محمد (ﷺ) کو مان لیں اور موجودہ مذہبی و معاشرتی نظام کو ٹوٹ جانے دیں اور اپنے قائم شدہ تسلط کو اٹھا لیں تو پھر تو ہم میں سے ایک ایک شخص کو دن دہاڑے چن چن کر اچک لیا جائے گا، "_(نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا) وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ (القصص- ٥٧)*

*❀"_یہ دو تین مثالیں اس امر واقعہ کو عرض کرنے کے لیے مجملا لے لی گئی ہیں، کہ شرارتوں اور خباثتوں کے بیچ بیچ میں وہ کچھ نہ کچھ دلیل بازی بھی کرتے جاتے تھے لیکن اس دلیل بازی کا تار تار قرآن الگ کر کے دکھا دیتا تھا اور اس کی ہر موقع پر دھجیاں اڑتی رہتی تھیں۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 138,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–83_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- گالم گلوچ کی یہ مہم قریش کے جنون و مخالفت کے تیز ہونے کے ساتھ غنڈہ گردی کا رنگ اختیار کرتی چلی جا رہی تھی۔ منفی شرارت کے علمبردار جب تضحیک و دشنام کو ناکام ہوتے دیکھتے ہیں تو پھر ان کا اگلا قدم ہمیشہ غنڈہ گردی ہوتا ہے۔ مکہ والوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو زچ کرنے کے لیے وہ کمینہ حرکتیں کی ہیں کہ صاحب رسالت ﷺ کے علاوہ کوئی اور داعی ہو تا تو بڑی سے بڑی اولوالعزمی کے باوجود اس کی ہمت ٹوٹ جاتی اور وہ قوم سے مایوس ہو کر بیٹھ جاتا۔*

*❀"_ لیکن رسول خدا ﷺ کی شرافت اور سنجیدگی، غنڈہ گردی کے چڑھے ہوئے دریا میں سے بھی پاک دامن کو کنول کی طرح صحیح سلامت لیے آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ وہ حرکات جو بالکل روز مرہ کا معمول بن گئیں، یہ تھیں کہ آپ کے محلہ دار پڑی جو بڑے بڑے سردار تھے بڑے اہتمام سے آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے۔ نماز پڑھتے وقت شور مچاتے اور ہنسی اڑاتے، حالت سجدہ میں اوجھڑیاں لا کے ڈالتے، چادر کو لپیٹ کر گلا گھونٹتے، محلے کے لونڈوں کو پیچھے لگا دیتے کہ تالیاں پیٹیں اور غوغا کریں۔ قرآن پڑھنے کی حالت میں آپ کو قرآن کو اور خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے۔*

*❀"_اس معاملے میں ابو لہب کے ساتھ ساتھ ابولہب کی بیوی بہت پیش پیش تھی۔ وہ بلاناغہ کئی سال تک آپ کے راستے میں غلاظت اور کوڑا کرکٹ اور کانٹے جمع کر کر کے ڈالا کرتی تھی اور آنحضور ﷺ روزانہ بڑی محنت سے راستہ صاف کرتے۔ آپ کو اس کمبخت نے اس درجہ پریشان رکھا کہ اللہ تعالی نے آپ کی تسکین کے لیے یہ خوشخبری سنائی کہ مخالف محاذ کی اس لیڈرہ کے شوہر نامدار کے ایذا رساں ہاتھ ٹوٹ جانے والے ہیں اور خود یہ بیگم صاحبہ بھی دوزخ کے حوالے ہونے والی ہیں۔*

*❀"_ ایک مرتبہ حرم میں آنحضور ﷺ مصروف نماز تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے چادر آپ کے گلے میں ڈالی اور اسے خوب مروڑ کر گلا گھونٹا۔ یہاں تک کہ آپ گھٹنوں کے بل گر پڑے، اسی شخص نے ایک مرتبہ حالت نماز میں آپ پر اوجھ بھی ڈالی تھی۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 139,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–84_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ایک مرتبہ آپ ﷺ راستہ چلتے جا رہے تھے کہ کسی شقی نے سر پر مٹی ڈال دی، اسی حالت میں آپ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ چپ چاپ گھر پہنچے، معصوم بچی فاطمہ نے دیکھا تو آپ کا سر دھوتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ مارے غم کے روتی جاتی تھیں۔ آپ نے اس ننھی سی جان کو تسلی دی کہ جان پدر! روؤ نہیں، خدا تیرے باپ کو بچائے گا -*

*❀"_ایک اور مرتبہ آپ حرم میں مصروف نماز تھے کہ ابو جہل اور چند اور رؤسائے قریش کو توجہ ہوئی۔ ابو جہل کہنے لگا : کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھالا تا تا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سجدہ میں جاتا تو اس کی گردن پر ڈال دیتا۔ عقبہ نے کہا کہ یہ خدمت انجام دینے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ اوجھ لائی گئی اور آپ کے اوپر حالت سجدہ میں ڈال دی گئی،*

*❀"_ اب ٹھٹھے مار مار کر ہنسی اڑائی جاری تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ہوئی تو آپ دوڑی آئیں اور پاکباز باپ کی معصوم بچی نے وہ سارا بار غلاظت آپ کے اوپر سے ہٹایا ساتھ ساتھ عقبہ کو بد دعائیں بھی دیتی جاتی تھیں۔*

*❀"_کانٹے بچھا کر چاہا گیا کہ تحریک حق کا راستہ رک جائے! گندگی پھینک کر کوشش کی گئی کہ توحید اور حسن اخلاق کے پیغام کی پاکیزگی کو ختم کر دیا جائے۔ آنحضور ﷺ کو بوجھ تلے دبا کر یہ توقع کی گئی کہ بس اب سچائی سر نہ اٹھا سکے گی۔ آپ کا گلا گھونٹ کر یہ خیال کیا گیا کہ بس اب وحی الٰہی کی آواز بند ہو جائے گی۔*

*❀"_ کانٹوں سے جس کی تواضع کی گئی وہ برابر پھول برساتا رہا! گندگی جس کے اوپر اچھالی گئی وہ معاشرے پر مسلسل مشک و عنبر چھڑکتا رہا! جس پر بوجھ ڈالے گئے وہ انسانیت کے کندھے سے باطل کے بوجھ متواتر اتارتا رہا۔ جس کی گردن گھونٹی گئی، وہ تہذیب کی گردن کو رسمیات کے پھندوں سے نجات دلانے میں مصروف رہا۔ غنڈہ گردی ایک ثانیہ کے لیے بھی شرافت کا راستہ نہ روک سکی،*  

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 140,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                         
                     ★ *پوسٹ–85_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_حمایتیوں کو توڑنے کی کوششیں :-*
*❀"_دعوت حق کے مخالفین جب پانی سر سے گزرتا دیکھتے ہیں تو ایک مہم یہ شروع کرتے ہیں کہ تحریک یا اس کے قائد اور علمبرداروں کو سوسائٹی میں ہر قسم کی موثر حمایت و ہمدردی سے محروم کرا دیا جائے۔ براہ راست اثر نہ ڈالا جا سکے تو بالواسطہ طریق سے دباؤ ڈال کر تبدیلی کے سپاہیوں کو بے بس کر دیا جائے۔*

*❀"_ ادھر داعی حق آنحضور ﷺ اپنے چچا ابو طالب کی سرپرستی میں تھے اور یہ سرپرستی جب تک قائم تھی گویا پورے ہاشمی قبیلہ کی عصبیت آنحضور ﷺ کے ساتھ تھی۔ مخالفین دعوت نے اب پورا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ کسی طرح ابو طالب پر دباؤ ڈال کر آنحضور ﷺ کو اس کی سر پرستی سے محروم کر دیا جائے،*

*❀"_ دباؤ ڈالنے کا یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ مگر مخالفین کو ہر بار ناکامی ہوئی۔ ایک زور کریش کا وفد آنحضور ﷺ کے چچا کے پاس پہنچتا ہے، یہ لوگ اپنا مدعا یوں بیان کرتے. ہیں:-*
*”_اے ابوطالب ! تیرا بھتیجا ہمارے خداوندوں اور ٹھاکروں کو گالیاں دیتا ہے، ہمارے مذہب میں عیب چھانٹتا ہے، ہمارے بزرگوں کو احمق کہتا ہے اور ہمارے اسلاف کو گمراہ شمار کرتا ہے، اب یا تو تم اس کو ہمارے خلاف ایسی زیادتیاں کرنے سے روکو یا ہمارے اور اس کے درمیان سے تم نکل جاؤ ۔ کیونکہ تم بھی (عقیدہ و مسلک کے لحاظ سے) ہماری طرح اس کے خلاف ہو۔ اس کی جگہ ہم تمہارے لیے کافی ہوں گے"*

*❀"_ابو طالب نے ساری گفتگو ٹھنڈے دل سے سنی اور نرمی سے سمجھا بجھا کر معاملہ ٹال دیا اور وفد کو رخصت کر دیا۔ آنحضور ﷺ بدستور اپنے مشن کی خدمت میں لگے رہے اور قریش پیچ و تاب کھاتے رہے!*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 141,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–86_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- مخالفین پھر آتے ہیں "اے ابو طالب ! تم ہمارے درمیان عمر شرف اور قدر و قیمت کے لحاظ سے ایک بڑا درجہ رکھتے ہو۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اپنے بھتیجے سے ہمیں بچاؤ لیکن تم نے یہ نہیں کیا۔ اور خدا کی قسم جس طرح ہمارے باپ دادا کو گالیاں دی جا رہی ہیں، جس طرح ہمارے بزرگوں کو احمق قرار دیا جا رہا ہے اور جس طرح ہمارے معبودوں پر حرف گیری کی جا رہی ہے، اسے ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ الا آنکہ تم اسے باز رکھو یا پھر ہم اس سے بھی اور تم سے بھی لڑیں گے۔ یہاں تک کہ ایک فریق کا خاتمہ ہو جائے۔*

*❀"_ ابو طالب نے آنحضور ﷺ کو بلایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ پھر لجاجت سے کہا کہ بھتیجے! مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کا اٹھانا میرے بس سے باہر ہو_,"*

*❀"_ اب ایسی صورت آگئی تھی کہ پاؤں جمانے کیلئے سہارے کا جو ایک پتھر حاصل تھا وہ بھی متزلزل ہوا جاتا تھا۔ بظاہر تحریک کے لیے انتہائی خطر ناک لمحہ آگیا تھا، لیکن دوسری طرف دیکھئے اس جذبہ صادقہ اور اس عزیمت مجاہدانہ کو کہ جس سے سرشار ہو کر آنحضور ﷺ یہ جواب دیتے ہیں:۔ چچا جان! خدا کی قسم۔ یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آسکتا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالٰی اس مشن کو غالب کر دے یا میں اسی جد و جہد میں ختم ہو جاؤں"*

*❀"_ یہاں وہ اصلی طاقت بول رہی ہے جو تاریخ کو الٹ پلٹ کے رکھ دیتی ہے اور مزاحمتوں اور شرارتوں کو کچلتی ہوئی اپنے نصب العین تک جا پہنچتی ہے، افسوس کہ قریش اسی طاقت کا راز نہ پاسکے! ابو طالب اسی طاقت کی سحر آفرینی سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ "بھتیجے ! جاؤ جو کچھ تمہیں پسند ہے اس کی دعوت دو میں کسی چیز کی وجہ سے تم کو نہیں چھوڑوں گا_"*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 143,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–87_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ایک اور وفد عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر پھر آتا ہے۔ اب کے یہ لوگ ایک اور ہی منصوبے کے ساتھ آتے ہیں۔ ابو طالب سے کہتے ہیں کہ دیکھئے یہ عمارہ بن ولید ہے جو قریش میں سے ایک مضبوط اور خوبصورت ترین جوان ہے, اسے لے لیجئے۔ اس کی عقل اور اس کی طاقت آپ کے کام آئے گی, اسے اپنا بیٹا بنا لیجئے اور اس کے عوض میں محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالے کر دیجئے۔ جس نے کہ آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔ اور آپ کی قوم کا شیرازہ درہم برہم کر دیا ہے۔ اور ان کے بزرگوں کو احمق ٹھرایا ہے, اسے ہم قتل کر دینا چاہتے ہیں۔ سیدھا سیدھا ایک آدمی کے بدلے میں ہم ایک آدمی آپ کو دیتے ہیں۔*

*❀"_ وفد کی گفتگو سن کر یقیناً ابو طالب کے جذبات پر بڑی چوٹ لگی اور کہا کہ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تمہارے بیٹے کو تو میں لے کر پالوں پوسوں اور میرے بیٹے کو تم لے جاکر تلوار کے نیچے سے گزار دو۔ ابد تک ایسا نہیں ہو سکتا۔*

*❀"_ معاملہ بڑھ گیا۔ کشمکش کی فضا گرم تر ہو گئی اور خود وفد کے اتفاق رائے کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء پر سختیاں کرنے کے لیے ان تمام قبائل کو اکسانا شروع کیا جن میں تحریک اسلامی کا کوئی فرد پایا جاتا تھا۔ مظلم ڈھائے جانے لگے، اسلام سے ہٹانے کے لیے ظلم وزیادتی سے کام لیا جانے لگا۔*.

*❀"_ لیکن اللہ نے اپنے رسول کو ابو طالب کی آڑ کھڑی کر کے بیچا رکھا تھا۔ ابو طالب نے قریش کے بگڑے تیور دیکھ کر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے سامنے آنحضور ﷺ کی پشت پناہی کے لیے اپیل کی۔ لوگ جمع ہوئے اور حمایت محمد ﷺ کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر ابولہب نے سخت مخالفت کی اور بات طے نہ ہو سکی۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 144,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–88_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- آگے چل کے جب تحریک حق نے مخالفین کی صفوں میں سے حمزہ اور عمر جیسی دو ہستیاں چن لیں تو پیچ و تاب کی نئی لہر اٹھی۔ محسوس کیا گیا کہ محمد ﷺ کی چلائی ہوئی ہوا تو اب گھر گھر میں نگہت پاش ہو رہی ہے، کچھ کرنا چاہیے۔ ابو طالب کی بیماری کی حالت میں یہ لوگ پھر پہنچے۔ اب کی اسکیم یہ تھی کہ معاہدہ ہو جائے۔ وفد نے کہا کہ جو کچھ صورت حالات ہے اسے آپ جانتے ہیں، اپنے بھتیجے کو بلوائیے، اس کے بارے میں ہم سے عہد لیجئے اور ہمارے بارے میں اس کا عمد دلوائیے۔ وہ ہم سے باز رہے ہم اس سے باز رہیں۔ وہ ہم سے اور ہمارے مذہب سے واسطہ نہ رکھے، ہم اس سے اور اس کے مذہب سے واسطہ نہیں رکھیں گے"۔*

*❀"_ رسول پاک ﷺ بلوائے جاتے ہیں، بات ہوتی ہے اور آپ سارا مطالبہ سننے کے بعد جواب دیتے ہیں، اے اشراف قریش میرے اس ایک کلمہ کو مان لو تو پھر عرب و عجم سب تمہارے زیر نگیں ہوں گے۔*

*"❀_ابو جہل نے تنک کر کہا۔ ”ہاں! تیرے باپ کی قسم ! ایک کیوں دس کلمے چلیں گے،" کوئی دوسرا بولا: یہ شخص تو خدا کی قسم تمہاری مرضی کی کوئی بات مان کر دینے کا نہیں اس کے بعد یہ لوگ مایوس ہو کر چلے گئے۔*

*❀"_ لیکن اس وفد کی گفتگو نے چند حقیقتوں کو نمایاں کر دیا۔ ایک یہ کہ اب تحریک اسلامی کو وہ ایک ایسی طاقت ماننے پر مجبور ہو گئے تھے جس کو اکھیڑنے کی سعی رائیگاں سے زیادہ بہتر سمجھوتہ کی کوئی راہ نکالنا تھا، دوسرے یہ کہ قریش ساری شرارتوں اور زیادتیوں کو آزمانے کے بعد اب اپنی بے بسی کو محسوس کر رہے تھے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 144,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–89_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- انسان اعظم (صلی اللہ علیہ و سلم) اولاد آدم کی جس سب سے بڑی خدمت میں مصروف تھے اس کو ناکام بنانے کے لیے مخالفین جن مختلف تدبیروں سے کام لے رہے تھے ان سب کے علی الرغم دعوت کا کام جاری تھا اور کلمہ حق کو نپلیں نکال رہا تھا۔*

 *❀"_مکہ مرکز عرب تھا اور ہر طرف سے قافلے آتے جاتے اور داعی حق کے لیے کام کا نت نیا میدان فراہم کرتے۔ سرداران مکہ کی جو دھونس خود باشندگان مکہ پر چلتی تھی وہ باہر سے آنے والوں پر نہیں چل سکتی تھی۔ تشویش ناک موقع اس پہلو کے لحاظ سے حج کا تھا۔ قبائل عرب جوق در جوق مع اپنے سرداروں کے مکہ میں اکٹھے ہوتے اور نبی اکرم ﷺ اپنا پیغام پھیلانے کے لیے خیمہ بہ خیمہ گردش میں مصروف ہو جاتے۔*

*❀"_ چنانچہ ایک سال موسم حج کی آمد آمد تھی کہ ولید بن مغیرہ کے ہاں قریشان کرام جمع ہوئے اور سر جوڑ کر سوچ بچار میں مصروف ہو گئے، جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے سازش کی جاتی ہے۔ دل جس بات کو نہیں مانتے اسی کو لے کر مخالفانہ ہنگامہ جاری رکھنے کی اسکیم بنتی ہے۔ چنانچہ اس مجلس میں طے ہو گیا کہ مختلف پارٹیاں مکہ کو آنے والے راستوں پر چوکیاں لگادیں۔ اور آنے والے ہر وفد کو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور آپ کی دعوت کے بارے میں چوکنا کر دیں۔*

 *❀"_چنانچہ اسی منصوبہ پر عمل کیا گیا، لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ آنحضور ﷺ کا چرچا عرب کے کونے کونے تک پھیل گیا اور جن کو کچھ نہیں معلوم تھا ان کو بھی معلوم ہو گیا کہ ایک نئی دعوت ایسی اٹھی ہے اور اس کی علمبردار شخصیت محمد ﷺ کی ہے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 147,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–90_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ربیعہ بن عبادہ کا بیان ہے کہ ”میں منیٰ میں اپنے باپ کے ساتھ موجود تھا جب کہ میں ایک نوخیز لڑکا تھا۔ اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عربی قبیلوں کی اقامت گاہوں میں جا جا کر رکتے اور فرماتے، ”اے بنی فلاں ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ اور کسی کو شریک نہ کرو اور اس کے علاوہ ان بتوں میں سے جس جس کی بھی عبادت کر رہے ہو اس سے الگ ہو جاؤ اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ میری تصدیق کرو اور میری حمایت کرو یہاں تک کہ میں اللہ کی طرف سے ساری بات کھول کر رکھ دوں جس کے ساتھ اس نے مجھے مامور کیا ہے"۔*

*❀"_ ایک شخص عدنی حلہ اوڑھے آنحضور کے ساتھ ساتھ لگا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ اپنی بات فرما چکتے تو یہ شخص اپنی ہانکنا شروع کر دیتا۔ کہ: اے بنی فلاں ! یہ شخص تم کو لات و عزیٰ سے ہٹا کر بدعت و گمراہی کی طرف کھینچ لے جانا چاہتا ہے۔ پس نہ اس کی سنو نہ اس کی بات مانو_," وہ نوجوان یہ منظر دیکھ کر اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے جو آنحضور ﷺ کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اور آپ کی بات کی تردید کر رہا ہے۔ جواب ملتا ہے کہ یہ آپ کا اپنا ہی چچا ابو لہب ہے۔"*

*❀"_ نبی اکرم ﷺ حج کی طرح میلوں کے اجتماعات میں بھی تشریف لے جاتے تھے، تا کہ انسانی اجتماع سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک مرتبہ بازار ذوالجاز میں پہنچے اور لوگوں کو حق کا پیغام سنا کر کلمہ طیبہ کی دعوت دی۔ ابو جهل ساتھ لگا تھا۔ کم بخت کو بغض و کینہ نے اتنا پست کر دیا تھا کہ مٹی اٹھا اٹھا کر آپ پر پھینکتا اور ساتھ ساتھ پکارتا کہ لوگو! اس کے قریب میں نہ آنا۔ یہ چاہتا ہے کہ لات و عزیٰ کی پرستش چھوڑ دو۔*

*❀"_ مخالفانہ پروپیگنڈہ کی اس طوفانی مہم سے ابو طالب کو تشویش بھی لاحق ہوئی کہ کہیں عرب کے عوام اجتماعی مخالفت پر نہ اتر آئیں۔ انہوں نے ایک طویل قصیدہ لکھ کر کعبہ میں آویزاں کیا جس میں ایک طرف یہ صفائی دی کہ میں نے دعوت محمد ﷺ کو قبول نہیں کیا، لیکن دوسری طرف یہ اعلان بھی کیا کہ کسی قیمت پر محمد کو نہیں چھوڑ سکتا اور اس کے لیے اپنی جان تک دے دوں گا۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 148,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–91_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- جب کبھی کوئی اہم شخصیت مکہ میں وارد ہوتی تو تحریک اسلامی کے مخالفین اس کو رسول اللہ ﷺ کے اثر سے بیچانے کے لیے پورا جتن کرتے، مگر بسا اوقات اثر الٹا ہوتا، اس قسم کے چند خاص واقعات کا تذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔*

*❀"_ طفیل بن عمرو دوسی ایک مرد شریف اور ایک شاعر لبیب تھا ۔ ایک مرتبہ وہ آیا، بعض افراد قریش اس کے پاس پہنچے ، کہنے لگے کہ طفیل ! دیکھو تم ہمارے شہر میں آئے ہو اور یہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سرگرمیاں ہمارے لیے ناقابل برداشت بنی ہوئی ہیں۔ اس شخص نے ہماری وحدت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور ہمارے مفاد کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ اس کی باتیں جادو گروں جیسی ہیں۔ اور یہ بیٹے اور باپ میں بھائی اور بھائی میں شوہر اور بیوی میں جدائی ڈلوا رہا ہے۔ ہمیں تمہارے اور تمہاری قوم کے بارے میں اندیشہ ہے کہ تم کہیں شکار نہ ہو جاؤ ۔ پس بہتر یہ ہے کہ اس شخص سے نہ تو بات کرنا اور نہ اس کی کوئی بات سننا۔*

*❀"_طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ میں پوری طرح قائل نہ ہو گیا کہ نہ بات کروں گا نہ سنوں گا، چنانچہ جب میں مسجد حرام کی طرف جاتا تو کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔*

*❀"_ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس عبادت میں کھڑے تھے تو میں بھی قریب جا کر کھڑا ہوا۔ میں نے بہت ہی خوب کلام سنا۔ پھر دل میں میں نے کہا کہ میری ماں مجھے روئے، خدا کی قسم میں ایک صاحب عقل آدمی ہوں، شاعر ہوں، برے بھلے کی پہچان کر سکتا ہوں۔ پھر کیا چیز مجھے ان باتوں کے سننے سے روک سکتی ہے جنہیں یہ کہتا ہے۔ جو پیغام یہ لایا ہے وہ اگر بھلا ہو گا تو میں قبول کر لوں گا، اگر برا ہو گا تو چھوڑ دوں گا۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 149,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
⊙                           
                     ★ *پوسٹ–92_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اسی سوچ بچار میں کچھ وقت گزر گیا۔ اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے، طفیل ساتھ ہو گیے، راستے میں سارا قصہ سنایا کہ مجھے پروپیگنڈہ کے کسی چکر میں ڈال رکھا گیا ہے۔ پھر مکان پر پہنچ کر درخواست کی کہ اپنا پیغام ارشاد فرمائیے۔*

*❀"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہے کہ "خدا کی قسم ! نہ اس سے بڑھ کر اچھا کلام میں نے کبھی سنا نہ اس سے بڑھ کر سچا پیغام۔*

*❀"_ اور پھر وہ بتاتے ہیں کہ میں اسلام لے آیا اور حق کی گواہی دی۔ ان طفیل دوسی رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ میں جاکر پر جوش طریق سے دعوت کا کام کیا اور پورا قبیلہ متاثر ہوا۔ ان کے تبلیغی جوش کا یہ عالم تھا کہ گھر پہنچ کر جونہی ضعیف العمر والد سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے کہ نہ آپ میرے نہ میں آپ کا ! انہوں نے پوچھا۔ ” بیٹے یہ کیوں؟“ جواب دیا کہ اب میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کر لیا ہے اور آپ کی پیروی کرلی ہے، والد نے کہا کہ بیٹے! جو تیرا دین ہے وہی میرا بھی ہو گا۔ فورآ نها کر اسلام قبول کیا۔*

*❀"_ طفیل رضی اللہ عنہ نے اسی طرح اپنی بیوی کو دعوت دی۔ اور اس نے بھی لبیک کی۔ پھر قبیلہ میں دعوت عام کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں آکر حضور ﷺ کی خدمت میں روداد بیان کی۔ اور اپنے قبیلہ کی خرابیاں بیان کر کے دعائے عذاب کی درخواست کی۔ مگر حضور ﷺ نے ہدایت کی دعا کی اور طفیل رضی اللہ عنہ کو تاکید کی کہ واپس جا کر اپنے لوگوں میں دعوت جاری رکھو اور خاص نصیحت کی کہ ان کے ساتھ نرمی بر تو،*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 150,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–93_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اعشیٰ بن قیس بھی ایک ممتاز شاعر تھا، اس نے رسول اللہ ﷺ کا چرچا سنا اور اس ارادے سے مکہ کا رخ کیا کہ جا کر اسلام قبول کرے۔ اس نے آنحضور ﷺ کی شان میں قصیدہ بھی کہا تھا۔ اب جونہی یہ مکہ کی حدود میں پہنچا ایک قریشی مشرک نے آ گھیرا اور ان کے مقصد کے بارے میں کھوج کرید کی۔*

*"❀_ اس نے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جا کر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر بات چل پڑی۔ مشرک حیلہ طراز نے اعشیٰ کی دکھتی رگوں کو ٹٹولنے کے لیے کہا کہ دیکھو محمد (ﷺ) تو زنا کو حرام ٹھراتا ہے۔ یہ وار اوچھا پڑا تو پھر کہا کہ وہ تو شراب سے بھی روکتا ہے۔ یہاں تک کہ باتوں باتوں میں اعشیٰ کے ارادے کو کمزور کر دیا۔*

*❀"_ چنانچہ اس نے یہ منوالیا کہ اس مرتبہ تو تم واپس چلے جاؤ اور اگلے برس آکر اسلام قبول کر لینا۔ اعشیٰ واپس چلا گیا اور قبل اسکے کہ وہ مکہ لوٹتا بد نصیب کی موت واقع ہو گئی۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 151,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–94_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- سب سے زیادہ دلچسپ واقعہ مرد اراشی کا ہے۔ یہ مکہ آیا' ساتھ اونٹ تھا جس کا سودا ابو جہل نے چکا لیا۔ مگر قیمت کی ادائیگی میں لیت و لعل کیا۔ اب یہ قریش کے مختلف لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی اونٹ کی قیمت اسے دلوا دے۔ وہاں ایک مجلس آراستہ تھی۔ اراشی نے اہل مجلس سے اپیل کی کہ آپ میں سے کوئی میری رقم ابو جہل سے دلوا دے، میں ایک مسافر بے وطن ہوں اور میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔*

*❀"_ اہل مجلس میں سے کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ ابو جہل سے جاکر ایک مسافر کا حق دلوائیں۔ اس لیے بات ٹالنے کے لیے اشارہ کر کے کہنے لگے کہ وہ دیکھتے ہو ایک شخص (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) بیٹھا ہے۔ اس کے پاس جاؤ وہ وصولی کرا دے گا۔ دراصل یہ ایک طرح کا استہزاء تھا۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ سلم سے ابو جہل کو جو‌ عدادت تھی وہ ظاہر تھی۔*

*❀"_ اراشی آنحضور ﷺ کے پاس پہنچا اور اپنا ماجرا بیان کر کے مدد طلب کی۔ آنحضور ﷺ اٹھے اور فرمایا میرے ساتھ آؤ۔ وہ لوگ دیکھنے لگے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ حرم سے نکل کر ابو جہل کے گھر پر آئے۔دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی۔ کون ہے؟ فرمایا: محمد ! باہر آؤ میرے پاس ! ابو جمل نکلا۔ چہرے کا رنگ بالکل اڑا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا۔ اس شخص کا حق اسے دے دو۔ چنانچہ بے چون و چرا ابو جہل نے ادائیگی کر دی۔*

*❀"_ اراشی خوش خوش حرم کی اس مجلس کی طرف پلٹا اور واقعہ سنایا۔ یہ اثر تھا اس عظیم کیریکٹر کا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جلوہ گر تھا۔ اس کا اعتراف خود ابو جہل نے کیا۔ اور اہل مجلس سے آکر کہا۔ کہ اس ( محمد ) نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے اس کی آواز سنی۔ اور یکا یک ایک رعب مجھ پر طاری ہو گیا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 151,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–95_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- مہاجرین جش کے ذریعے اسلام کا پیغام ایک نئے علاقے میں جا پہنچا تو وہاں سے ۲۰ عیسائیوں کا ایک وفد مکہ آیا۔ یہ لوگ مسجد حرام میں آنحضور ﷺ کی خدمت میں آئے، بیٹھے بات کی اور سوالات پوچھے۔ آنحضور ﷺ نے قرآن سنایا اور دعوت حق پیش کی۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اللہ کی پکار کو قبول کیا۔ ایمان لائے اور نبی اکرم ﷺ کی تصدیق کی۔*

*"❀_ جب یہ اٹھ کر نکلے تو باہر قریشی مخالفین مسجد کے گرد منڈلا رہے تھے۔ ابو جہل نے اس گروہ کو نشانہ علامت بنالیا کہ تم بھی کیا احمق لوگ ہو جو اپنے دین کو خیر باد کہہ دیا۔ وفد والوں نے جواب دیا: "آپ لوگوں کو ہماری طرف سے سلام عرض ہے ہمیں آپ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرنا۔ ہمارا راستہ الگ، آپ کا راستہ الگ ! ہم اپنے آپ کو ایک بھلائی سے محروم نہیں رکھنا چاہتے"۔*

*"❀_ بیعت عقبہ ثانیہ کی ساری کارروائی رات کی تاریکی میں بڑے اہتمام اخفا کے ساتھ اسی وجہ سے عمل میں لائی گئی تھی کہ اشرار مکہ کی طرف سے سخت مزاحمت تھی۔ اہل وفد جب بیعت کی مجلس سے فارغ ہو کر قیام گاہوں میں پہنچے تو سرداران قریش نے ان کو وہاں جا لیا۔ ان کی مخبری کا نظام ایسا مضبوط تھا کہ انہوں نے بیعت کا قصہ بیان کر کے کہا کہ تم ہمارے آدمی (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو نکال لے جانا چاہتے ہو اور اس کے ہاتھ پر تم نے ہمارے خلاف جنگ کرنے کا پیمان باندھا ہے۔خوب سمجھ لو کہ تم لوگ اگر ہمیں اور اہل عرب کو لڑا دو گے تو تم سے بڑھ کر قابل نفرت ہماری نگاہوں میں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا"۔*

*"❀_ انصار نے بات کو چھپانے کی کوشش کی، چنانچہ اس وقت تو بات ٹل گئی اور انصاری قافلہ روانہ ہو گیا۔ لیکن قریش بعد میں برابر تجس میں لگے رہے۔ اور پوری اطلاع پالی۔ انصاری قافلہ کا تعاقب کیا گیا اور سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو ان کے ہاتھ آگئے۔ یہ دونوں اپنے اپنے قبیلوں پر دوران بیعت نقیب مقرر ہوئے تھے۔ منذر تو تھے ہی کمزور آدمی سعد بن عبادہ کو قریش نے پکڑ لیا۔ اور ان کے ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دیئے اور گرفتار کر کے مکہ لے گئے، مکہ پہنچ کر خوب مارا۔ ان کے بال پکڑ کر جھنجھوڑا ۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 151,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                         
                     ★ *پوسٹ–96_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا بیان ہے کہ اسی حالت میں قریش کا ایک آدمی آیا جس کا چہرہ روشن اور وجاہت دار تھا۔ لمبا اور خوب صورت! میں نے دل میں کہا کہ اگر اس قوم میں کوئی خیر باقی ہے تو اس کی توقع اسی شخص سے کی جاسکتی ہے۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر زور سے مجھے تھپڑ لگایا۔ اب دل میں میں نے سمجھ لیا کہ اس گروہ میں بھلائی کی کوئی رمق باقی نہیں۔*

*❀"_ آخر ایک شخص نے نرمی کے ساتھ پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی آدمی قریش میں ایسا نہیں کہ جس سے تمہارا کوئی بھائی چارہ یا کوئی عہد و پیمان ہو؟ میں نے جبیر مطعم اور حارث بن حرب کے نام لیے۔ اس نے کہا کہ پھر پکارو ان کے نام اور جو تعلق ان کے ساتھ ہے اسے بیان کرو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہی شخص انہیں ڈھونڈنے نکلا۔ وہ دونوں پاس ہی مل گئے اور انہوں نے آکر مجھے چھڑایا۔*

*❀"_ اسلام کی مخالفت کی مہم کا ایک سرخیل نفر بن حارث بھی تھا۔ یہ اپنی تجارت کے لیے اکثر فارس جاتا۔ وہاں سے شاہان عجم کے تاریخی قصص بھی جمع کر لاتا۔ اور ادبی انداز کی کہانیاں بھی۔ چنانچہ اس نے مکہ میں قرآن کے انقلابی ادب کے مقابلے پر حجم کے سفلی ادب کا اڈہ قائم کیا اور لوگوں کو دعوت دیتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے عاد و ثمود کے پھیکے قصے کیا سنتے ہو آؤ میں تم کو رستم و اسفند یار کی سرزمین کی چٹ پٹی کہانیاں سناؤں۔*.

*❀"_ نفر بن حارث کو ایک مستقل انسانی کردار بنا کر قرآن نے ہمارے سامنے یوں رکھا ہے کہ:- وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا،(لقمان ۲)*
*"_ اور لوگوں میں ایک کردار ایسا بھی ہے جو دل بہلاوے کے افسانوں کا خریدار ہے تا کہ ان کے ذریعے (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بغیر سمجھے بوجھے بہکائے اور اس کا مذاق اڑائے۔"*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 152,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–97_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- یہ نفر بن حارث وہ ہے جس نے ایک مجلس میں ابو جہل کے سامنے دعوت محمدی کے موضوع پر یہ تقریر کی تھی:۔ اے گروہ قریش! تمہارے اوپر ایک ایسا معاملہ آپڑا ہے کہ آگے چل کر اس کے خلاف تمہارا کوئی حیلہ کارگر نہ ہو گا۔ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تمہارے درمیان ایک من موہنا نوخیز لڑکا تھا، تم سب سے بڑھ کر راست گو تم سب سے بڑھ کر امانت دار ! یہاں تک کہ جب اس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور اس نے تمہیں اپنا وہ پیغام دیا تو اب تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے، کہتے ہو کہ وہ کا ہن ہے ۔۔۔۔ کہتے ہو کہ وہ شاعر ہے ۔۔۔۔۔ اور کہتے ہو کہ وہ دیوانہ ہے ۔۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں ہے ۔ اے گروہ قریش! اپنے موقف پر غور کرو۔ کیونکہ بخدا تمہارے سامنے ایک امر عظیم آچکا ہے"۔*

*❀"_نفر بن حارث کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ وہ دعوت محمدی ﷺ کی عظمت کو بھی سمجھتا تھا۔ اور محسن انسانیت کے کردار کی رفعت سے بھی آگاہ تھا۔ وہ اپنے ضمیر کو پامال کر کے حضور ﷺ کے پیغام کی مخالفت کے لیے شیطانی ترکیبیں نکالتا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ ایک بامقصد تحریک کے سنجیدہ پیغام کے مقابلے میں عام لوگوں کے لیے سفلی ادب میں زیادہ کشش ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس نے سفلی ادب کے ایک مکتب کی ابتداء کر دی۔*

*"❀_ نفر بن حارث کہا کرتا تھا کہ ”_میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ دلچسپ کہانیاں پیش کرتا ہوں۔ پھر جب وہ‌ عجمی داستانیں بیان کرتا تو کہتا کہ آخر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی باتیں کس پہلو سے میری باتوں سے زیادہ خوش آئند ہیں۔ دوسری طرف وہ حضور کے کلام پر اساطیر الاولین کی پھبتی کستا۔*

*"❀_ اتنا ہی نہیں اس نے گانے بجانے والی ایک فنکار لونڈی بھی خرید کی تھی۔ لوگوں کو جمع کر کے کھانے کھلاتا۔ پھر اس لونڈی سے گانے سنواتا۔ جس نوجوان کے متعلق معلوم ہو جاتا کہ وہ اسلام کی طرف راغب ہو رہا ہے تو اس کے ہاں اس فن کار لونڈی کو لے جاتا اور اسے ہدایت کرتا کہ ذرا اسے کھلا پلا اور موسیقی سے شاد کام کر۔ آرٹ اور کلچر کے ایسے مظاہرے کے بعد طنزاً کہتا کہ محمد (ﷺ) جس کام کی طرف بلاتے ہیں، وہ مزیدار ہے یا یہ ؟*
*®_(سیرت المصطفی از مولانا ادریس کاندھلوی ج ا ص ۱۸۸)*

*"❀_ لیکن پیغام حق اور ایک با مقصد تحریک کے مقابلے میں یہ سب نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ چار دن ہما ہمی رہی اور پھر یہ سارے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے۔*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 153,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–98_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- چنانچہ اپنے اس حربے میں ناکام ہو کر یہی نفر بن حارث سرداران قریش کے مشورے سے یہودیوں کے مولویوں کے پاس مدینہ پہنچا کہ تم علم رکھتے ہو تو ہم بے علموں کو بتاؤ کہ ہم تحریک اسلامی سے کیسے عہدہ برآ ہوں۔ اور کیسے داعی حق کو زچ کریں۔ علمائے یہود نے سکھایا کہ اس شخص سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرو اور روح کی حقیقت پوچھو۔ چنانچہ فیصلہ کن انداز سے یہ سوالات رکھے گئے۔ وحی ربی نے اطمینان بخش جواب دے دیئے۔ لیکن کفر کی ہٹ کا کیا علاج!*

*❀"_ابتدائی خفیہ مرحلے سے نکلنے کے بعد اسلامی تحریک جب تیزی سے پھیلنے لگی۔ اور پھر آگے چل کر جب پرو پیگنڈے اور تشدد کی مختلف تدبیریں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ تو پھر ایسی کوششیں ہونے لگیں۔ کہ کسی طرح سمجھوتہ کی راہ نکلے اور کچھ مان کر اور کچھ منوا کر قضیہ ختم کیا جاسکے۔ مگر اصولی تحریکوں میں اتنی لچک ہوتی ہی نہیں کہ لین دین کر کے کوئی درمیانی راہ پیدا کر لی جائے۔*

*❀"_ ان کی ایک شرط مصالحت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اصنام و آلہ کے خلاف زبان نہ کھولیں اور ان کے مذہب سے تعرض نہ کریں۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ وعظ بھی کرنا چاہیں اور جیسی کچھ اخلاقی نصیحتیں فرمانا چاہیں گوارا کر لی جائیں گی۔ یعنی "لا الہ " نہ کہیں محض اللہ کا نام لینے کی گنجائش ہو سکتی ہے۔*

*❀"_اسی طرح ان کی طرف سے خواہش کی گئی کہ : "_ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ _," (يونس -۱۵) یعنی اس قرآن کو تو بالائے طاق رکھ دو اور کوئی دوسرا قرآن لاؤ۔ یا اس میں رد و بدل کر لو ( تا کہ کچھ ہمارے تقاضوں کے لیے بھی گنجائش نکلے),*

*❀"_ اس کا جواب وحی الہی کے الفاظ میں حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ دلوایا گیا کہ "میرا یہ اختیار نہیں۔ کہ اس (قرآن) کو بطور خود بدل لوں۔ جو کچھ مجھ پر وحی کیا جاتا ہے، اس کے ماسوا کسی اور چیز کی پیروی نہیں کر سکتا۔ میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو یوم عظیم (قیامت) کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو کوئی غلط بات (اپنی طرف سے گھڑ کر) اللہ تعالی سے منسوب کر دے _," (یونس ۱۵)*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 153,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–99_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے مخالفین تحریک نے حضور ﷺ کے سامنے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا کہ اگر آپ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں، ہمارے غلاموں اور کل کے لونڈوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپ کے پاس آ کے بیٹھیں اور آپ کی تعلیمات کو سنیں، آخر موجودہ حالت میں ہمارے مرتبے سے یہ بعید ہے کہ ہم کوئی استفادہ کر سکیں۔ پنچ لوگوں نے ہمارا راستہ روک رکھا ہے۔ یہاں ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ تحریک کے خواص بنے بیٹھے ہیں۔ اور ان کو بڑی قربت حاصل ہے۔ انہی لوگوں کے بارے میں وہ اکثر طنزاً کہا کرتے تھے کہ یہ ہیں وہ ہستیاں جو قیصر و کسریٰ کی جانشین بننے والی ہیں۔*

*❀"_۔ قبل اس کے کہ حضور ﷺ کے دل پر اس فریب کارانہ خواہش کا کوئی اثر ہوتا قرآن نے آپ پر واضح کیا کہ یہ تو معاندین کی محض ایک چال ہے جیسی کہ وہ جملہ انبیاء کے خلاف چلتے رہتے ہیں۔ مثلا ٹھیک ایسی ہی بات نوح علیہ السلام کے سامنے بھی رکھی گئی تھی (ہود۔ ۲۷) پس آپ ان ساتھیوں کو معاندین کی خوشنودی کے لیے اپنے قریب سے ہرگز محروم نہ کریں جو صبح و شام خدا کا نام پکارنے والے ہیں (الانعام ۔ ۵۲)*

*❀"_ بلکہ ہدایت دی گئی کہ اخلاص کے یہ پیکر جو طرح طرح کی مصیبتیں اٹھا رہے ہیں، ان کو اپنے سایہ شفقت میں رکھو۔ "_وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ_," اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں، ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ۔ (الشعراء ۳۱۵)*

*❀"_ بلکہ ایک موقع پر ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کرتے ہوئے حضور ﷺ نے ایک نابینا رفیقی (ابن ام مکتوم) کی مداخلت کو نا پسند کیا تو اتنی سی بات پر تنبیہ آگئی۔ (سورہ عبس ۱ تا ۱۰)*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 154,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                   
                     ★ *پوسٹ–100_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اسی سلسلے میں ایک بار معاندین قریش کی مجلس میں غور و فکر ہو رہا تھا۔ اور دوسری طرف رسول خدا ﷺ حرم میں تنہا تشریف فرما تھے۔ عقبہ بن ربیعہ نے اہل مجلس سے کہا کہ اگر تم لوگ پسند کرو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر بات کروں اور اس کے سامنے ایسی صورتیں پیش کروں جن میں سے ممکن ہے کہ کسی کو وہ چاہے تو قبول کر لے۔ اور پھر ہم اسے اپنا کر دیں۔ اور وہ ہمارے مقابلے سے باز آجائے۔*

*❀"_ یہ صریح طور پر سودا بازی کی ایک تجویز تھی۔ اور یہاں تک اگر قریش آپہنچے تھے تو در حقیقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے اور تحریک کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے زچ ہو کر آپہنچے تھے۔ مجلس کی رضا مندی سے عقبہ نے حضور سے جا کر یوں گفتگو کی :-*

*"❀_اے برادر زادے! تمہارا جو کچھ مرتبہ ہمارے درمیان ہے وہ تم خود جانتے ہو، خاندان بھر میں تمہارا مقام بلند ہے اور نسب کے لحاظ سے تم ایک شان رکھتے ہو"۔ اس خوشامد آمیز مگر مبنی بر حقیقت باتوں کے بعد عتبہ نے شکایت کی کہ تم نے قوم کو بڑی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے، ان کے اکابر کو احمق قرار دیا ہے، ان کے معبودوں اور ان کے دین میں عیب لگایا ہے۔ ان کے گزرے ہوئے آبا و اجداد کی تکفیر کر ڈالی ہے۔ اب میری بات سنو اور میں جو جو کچھ پیش کش کرتا ہوں، ان ساری صورتوں پر غور کرو۔ شاید کہ تم ان میں سے کوئی بات قبول کر لو۔*

*"❀_ حضور نے فرمایا۔ ” تم کہو اے ابو الولید! میں سنوں گا۔ " عقبہ نے حسب ذیل صورتوں کی پیش کش کی: اگر اس سارے ہنگامے سے تمہارا مقصود دولت ہو تو پھر ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیں کہ تم ہم سب سے بڑھ کر مالدار ہو جاؤ۔*
*"_اگر تم اس کے ذریعے سرداری و قیادت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنے اوپر سردار مقرر کیے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ تمہارے بغیر ہم کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔*

*❀"_ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کیئے لیتے ہیں۔ اور اگر یہ اس وجہ سے ہے کہ تم پر کسی جن وغیرہ کا سایہ ہوتا ہے اور وہ تم پر مسلط ہو جاتا ہے تو پھر ہم کچھ چندہ وغیرہ کر کے تمہارے لیے علاج کا سامان کریں۔ پھر یا تو تمہیں اس سے نجات دلا دیں یا ناکامی ہو تو معذور سمجھیں۔*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 155,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
            
                     ★ *پوسٹ–101_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- پوری پیش کش کو سن کر حضور نے فرمایا:۔ " ابو الولید! کیا تم اپنی بات کہہ چکے ؟" اس نے کہا۔ "ہاں"۔ فرمایا "تو اب میری سنو۔ اس نے کہا۔ "کہو ! حضور ﷺ نے پوری پیش کش کو ایک طرف ڈال کر قرآن کی آیات سنانی شروع کیں ( حم السجده ١ تا ٥)*

*❀_"_حضور ﷺ جب تک سناتے گئے، عقبہ دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ان پر ٹیک لگائے ہوئے چپ چاپ توجہ سے سنتا رہا۔ حضور ﷺ نے سجدہ تلاوت آنے پر قرأت رو کی اور سجدہ کیا۔ پھر فرمایا۔ "ابو الولید ! تم نے سن لیا جو کچھ سنا۔ اب تو جانے اور یہ "۔*

*"❀__عقبہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ انہوں نے نظر پڑتے ہی کہا کہ عقبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے۔ اب وہ رنگ نہیں جو جاتے وقت تھا۔ تشویش کے ساتھ انہوں نے ماجرا پوچھا۔ عقبہ نے کہا :۔ "ماجرا یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ جیسا کبھی نہیں سنا۔ بخدا نہ وہ شعر ہے، نہ جادو ہے اور نہ کہانت ہے۔ اے گروہ قریش! میری بات مانو اور اس کی ذمہ داری مجھ پر رہنے دو۔ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس کے پیچھے نہ پڑو، خدا کی قسم جو کلام میں نے اس سے سنا ہے اس سے یقیناً کوئی بڑا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اگر اہل عرب نے اس سے نمٹ لیا تو دوسروں کے ذریعے تمہیں اس سے نجات ہو جائے گی اور اگر وہ عرب پر چھا گیا تو اس کی سلطنت تمہاری سلطنت ہوگی۔ اور اس کی طاقت تمہاری طاقت ہو گی۔ اور تم اس کے واسطے سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر خوش نصیب ہو جاؤ گے"*

*❀_"_ عقبہ کی بات سن کر مجلس میں یوں مذاق اڑایا گیا کہ ابو الولید اس کی زبان کا جادو تو تم پر بھی چل گیا _,"*
*"_ عقبہ نے کہا کہ اس کے متعلق میری رائے تو یہی ہے جو میں نے کہہ دی۔ اب تم جو چاہو کرو۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 157,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                  
                     ★ *پوسٹ–102_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-ایک کوشش اس سلسلے میں اور کی گئی۔ بڑے بڑے زعماء ---- عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو سفیان بن حرب، نفر بن حارث، ابو البختری بن ہشام، اسود بن مطلب، زمعہ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابو جہل بن ہشام، عبد اللہ بن ابی امیہ' عاص بن وائل۔ نبیہ اور منبہ ابنائے حجاج (بنو سہم) امیہ بن خلف... غروب آفتاب کے بعد کعبہ کے پاس جمع ہوئے انہوں نے رسول خدا کو بلوا بھیجا۔ حضور ﷺ اچھی توقعات کے ساتھ جلد جلد آپہنچے۔ انہوں نے اپنی اسی پیش کش کو جو پہلے عقبہ کے ذریعے پہنچائی گئی تھی، ایک بار پھر دہرایا۔ اسے سن کر حضور نے یہ جواب دیا:-*

*"❀_ تم لوگ جو کچھ کہہ رہے ہو، میرا معالمہ اس سے مختلف ہے۔ میں جو دعوت تمہارے سامنے لے کے اٹھا ہوں۔ اسے اس لیے نہیں پیش کر رہا کہ اس کے ذریعے تم سے مال و دولت حاصل کروں یا تمہارے اندر سرداری حاصل کروں یا تمہارے اوپر بادشاہت قائم کروں۔ مجھے تو خدا نے تمہارے سامنے اپنا پیغامبر بنا کر اٹھایا ہے۔ اس نے مجھ پر کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لیے بشیر و نذیر بنوں،*

*❀"_ سو میں نے خدا کی ہدایات تم تک پہنچا دی ہیں اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کیا ہے۔ اب جو کچھ میں لایا ہوں اگر اسے تم قبول کر لو تو وہ تمہارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور اگر تم اسے میری طرف واپس پھینک دو تو میں اللہ کے حکم کے انتظار میں صبر دکھاؤں گا۔ یہاں تک کہ خدا میرے اور تم لوگوں کے درمیان اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ “*

*❀"_ یہ جواب سن کر جب انہوں نے دیکھا کہ آگے بڑھنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ تو طرح طرح کی حجتیں نکالنا شروع کیں۔ مثلاً یہ کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہماری یہ سر زمین بہت ہی تنگ ہے۔ اس میں پانی کی کمی ہے اور یہاں کی زندگی بہت کٹھن ہے۔ تم خدا سے کہو کہ وہ ان پہاڑوں کو ہٹا دے اور ہماری زمین کو کشادہ کر دے اور اس میں شام و عراق کی طرح دریا چلا دے۔ پھر یہ کہا کہ خدا ہمارے آباؤ اجداد کو اٹھا کھڑا کرے۔ اور ان میں قصی بن کلاب ضرور شامل ہو کیونکہ وہ مرد بزرگ بڑا راست باز تھا۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 158,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–103_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ ہم اس سے تمہاری دعوت کے بارے میں دریافت کریں گے کہ یہ حق ہے یا باطل؟ پھر ہمارے اسلاف کرام زندہ ہو کر اگر تمہاری تصدیق کر دیں اور تو وہ باتیں کر دکھائے جن کا مطالبہ ہم نے کیا ہے تو ہم تمہاری تصدیق کریں گے اور خدا کے ہاں تمہارا یہ مرتبہ ہمیں تسلیم ہو گا کہ اس نے تمہیں واقعی رسول بنا کے بھیجا ہے۔*.

*❀"_ پھر کہا کہ یہ بھی نہیں کرتے تو ہم پر عذاب ہی وارد کرا دو۔ حضور ﷺ مطالبات پر بار بار اپنی وہی بات دوہراتے چلے گئے اور کہتے گئے کہ: ان کاموں کے لیے مجھے نہیں اٹھایا گیا،*.

*❀"_ آخر جب حضور ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ ہی ساتھ عبد اللہ بن ابی (جو حضور ﷺ کا پھوپھی زاد بھائی تھا) بھی اٹھ کھڑا ہوا اور آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تمہاری قوم نے تمہارے سامنے کچھ باتیں رکھیں۔ لیکن تم نے کوئی پیش کش بھی مان کر نہیں دی۔ اب تو خدا کی قسم میں تمہارے اوپر ایمان نہیں لانے کا خواہ تم آسمان پر سیڑھی لگا کر اس پر چڑھتے ہوئے دکھائی کیوں نہ دے جاؤ اور پھر آنکھوں کے سامنے اترو اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آکر تمہاری صداقت کی گواہی کیوں نہ دے دیں۔ خدا کی قسم اگر میں ایسا کروں بھی تو میرا قطعاً یہ خیال نہیں کہ میں حقیقتاً تمہاری تصدیق کروں گا۔*

*❀"_ ایسے ہی واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ سفر طائف کے بعد جب حضور ﷺ نے مکہ سے نکل کر آس پاس کے قبائل میں میں پیغام پہنچانا شروع کیا تو ایک بار قبیلہ بنو عامر بن صعصہ کے ہاں بھی پہنچے اور سردار قبیلہ بحیرہ بن فراس سے ملاقات کی۔ اس نے حضور ﷺ کی دعوت سنی۔ پھر ساتھیوں سے کہنے لگا۔ ”بخدا اگر قریش کا یہ نوجوان میرے ہاتھ آجائے تو میں اس کے ذریعے سارے عرب کو مٹھی میں لے لوں" پھر آپ کو خطاب کر کے پوچھا کہ اگر ہم لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں اور تم مخالفین پر غالب آجاؤ تو کیا یہ وعدہ کرتے ہو کہ تمہارے بعد یہ سارا سلسلہ میری تحویل میں آجائے گا؟*
*"_ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ :- یہ تو خدا کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے گا میرے بعد مقرر کرے گا"*

*❀"_بخیرہ نے اس پر یہ کہا کہ کیا خوب! اس وقت تو عرب کے سامنے ہم سینہ سپر ہوں اور جب تمہارا کام بن جائے تو مفاد کوئی دوسرا حاصل کر لے جائے۔ جاؤ ہم کو اس سلسلے سے کوئی مطلب نہیں"*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 159,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–104_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- براه راست آنحضور ﷺ کے خلاف تو ہر گھڑی اور ہر ہر سانس گونا گوں زیادتیاں کی ہی جاتی رہیں۔ لیکن آپ کے رفقاء کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں وہ بھی بالواسطہ آپ ہی کے حساس قلب کو چھلنی کرنے والی تھیں۔ اب دیکھئے کہ کس پر کیا گزری؟*

*❀"_ خباب بن الارت تمیمی رضی اللہ عنہ جاہلیت کے دور میں غلام بنا کر بیچ ڈالے گئے تھے۔ اور ام نمار نے ان کو خریدا تھا۔ یہ جس وقت ایمان لائے قریش نے جلتے انگارے بچھا کر ان کو اس بستر آتشیں پر لٹایا۔ اور چھاتی پر ایک شخص کھڑا ہو گیا تا کہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ انگارے پیٹھ کے نیچے ہی ٹھنڈے ہو گئے۔*

*❀"_ بعد میں خباب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ پیٹھ دکھائی تو برص کی طرح کے سفید داغ اس پر نمایاں تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے یہ لوہار تھے۔ اسلام لانے کے بعد جب انہوں نے لوگوں سے واجب الوصول اجرتوں کا تقاضا کیا تو جواب ملا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرو گے، ایک کوڑی بھی نہیں ملے گی۔ یہ گویا معاشی چوٹ لگائی جارہی تھی۔ مگر حق کا یہ سپاہی کہتا کہ تم لوگ جب تک مر کر زندہ نہ ہو جاؤ ایسا نہیں ہو سکتا۔*

*❀"_ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بن رباح حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ جب سورج ٹھیک نصف النہار پر آجاتا تو عرب کی تپتی ریت پر ان کو لٹایا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ امیہ اس حالت میں ان سے کہتا کہ اسلام سے باز آجاؤ ورنہ اسی طرح ختم ہو جاؤ گے۔ حضرت بلال جواب میں صرف احد ! احد" پکارتے۔*

*❀"_ امیہ کا غصہ اور بھڑک گیا۔ اس نے آپ کے گلے میں رسی ڈال کر شہر کے لونڈوں کو ساتھ لگا دیا۔ وہ آپ کو گلی گلی گھسیٹتے پھرتے لیکن یہ عاشق جانباز اسی طرح احد ! احد " ! پکارتا پھرتا۔ کبھی آپ کو گائے کی کھال میں لپیٹا جاتا، کبھی اپنی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھایا جاتا۔ حضرت ابو بکر نے امیہ بن خلف سے ایک غلام کے عوض میں خرید کر آزاد کر دیا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 161,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                         
                     ★ *پوسٹ–105_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ قحطانی الاصل تھے۔ ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ ایک گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے تھے۔ دو بھائی تو واپس چلے گئے اور یاسر ابو حذیفہ مخزومی سے حلیفانہ تعلقات قائم کر کے مکہ میں ہی رہ پڑے اور یہیں شادی کر لی۔*

*❀"_ یاسر رضی اللہ عنہ سمیت تقریباً سارا ہی گھرانا اسلام لے آیا۔ چونکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا کوئی قبیلہ مکہ میں نہ تھا اس لیے ان پر خوب ستم ڈھائے جاتے۔ انہیں قبول اسلام کے جرم کی سزا یوں دی جاتی کہ ان کو بھی جلتی زمین پر لٹایا جاتا۔ اور قریش ان کو اتنا مارتے کہ بار بار بے ہوش ہو جاتے۔ ان کے والدین پر بھی اسی طرح طبع آزمائی کی جاتی۔*

*❀"_ پانی میں ان کو غوطے بھی دیے جاتے۔ اور انگاروں پر بھی تڑپایا جاتا ۔ حضور ﷺ ان کے سر پر دست شفقت پھیر کر خاص دعا کرتے اور بشارت دیتے۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے کہ عمار سر سے پیر تک ایمان سے بھرا ہوا ہے۔*

*❀"_ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کو اسلام لانے پر ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریق سے برچھی مار کر ہلاک کر دیا ۔ یہی اولین خاتون ہے جو راہ حق میں شہید ہوئی۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد تھے وہ بھی ظلم سہتے سہتے شہید ہو گئے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 161,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                  
                     ★ *پوسٹ–106_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- صہیب رضی اللہ عنہ بھی عمار کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ان کو اس بے دردی سے مارا جاتا تھا کہ دماغی توازن بار بار درہم برہم ہو جاتا۔ دور ہجرت میں قریش نے ان کو اس شرط پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اپنا سارا مال و اسباب دے جائیں۔ انہوں نے بخوشی منظور کیا اور خالی ہاتھ نکل گئے۔*

*"❀_ ابو فکہیہ جہنی رضی اللہ عنہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ اور اسلام لانے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہمعصر۔ امیہ کو اطلاع ہوئی تو پاؤں میں رسی ڈلوا کر لوگوں سے کہا کہ تپتی ریت پر لٹانے کے لیے گھسیٹ کر لے جاؤ۔ راستے میں ایک گیبریلا دکھائی دیا۔ تو امیہ نے ان سے کہا کہ "یہی تو تیرا خدا نہیں"۔ انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔کہ میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالٰی ہے۔*

*"❀_ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھوٹا کہ لوگ یہ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ مگر بچ گئے۔ ایک بار اتنا بھاری پتھر ان کے سینے پر لاد دیا کہ بے حال ہو جانے کی وجہ سے زبان باہر نکل آئی، کبھی ان کو لوہے کی بیٹریاں پہنا کر جلتی زمین پر الٹا لٹایا جاتا۔ ان کو بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کرا دیا۔*

*"❀_حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو عمر کے لحاظ سے بھی قابل احترام تھے اور مال و جاہ رکھتے تھے, جب اسلام لائے تو ان کے اپنے چچا نے رسی سے باندھ کر پیٹا۔*
*"_حضرت زہیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی سزا دینے کے لیے ان کے چچا چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیتے تھے ۔ مگر وہ پوری عزیمت سے فرماتے۔ میں کفر تو اب ہرگز نہیں کروں گا"۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 162,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–107_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو (یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسیوں میں باندھ دیا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ظالمانہ کارروائیاں روا رکھی گئیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے پر حرم میں پہلی مرتبہ بآواز بلند قرآن پڑھا۔ سورہ رحمٰن کی تلاوت آپ نے شروع ہی کی تھی کہ کفار ٹوٹ پڑے اور منہ پر طمانچے مارے گئے۔ مگر پھر بھی تلاوت جاری رکھی اور زخمی چہرے کے ساتھ واپس ہوئے۔*

*❀"_ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ولید بن مغیرہ کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے ابتداء مامون تھے۔ لیکن رسول خدا کے اصحاب پر جو امتحانی گھڑیاں گزر رہی تھیں ان کو دیکھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کے دل میں احساس پیدا ہوا کہ میں ایک مشرک کے سایہ حمایت میں امن چین سے کیوں رہوں جب کہ میرے ساتھی یہ کچھ بھگت رہے ہیں۔*

*❀"_ انہوں نے ولید بن مغیرہ سے بات کی کہ میں پناہ واپس کرتا ہوں۔ ولید نے سمجھایا کہ" بھتیجے میری قوم کا کوئی فرد تمہارے ساتھ بد سلوکی نہ کر بیٹھے "۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں تو اللہ کی پناہ میں رہوں گا اور اس کے ماسوا اور کسی کی پناہ مجھے گوارا نہیں۔ کعبہ میں جاکر انہوں نے بآواز بلند ولید بن مغیرہ کی پناہ واپس کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد قریش کی مجلس میں جا بیٹھے۔*

*❀_اس پر ایک شخص اٹھا اور اس نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو ایک تھپڑ ایسا مارا کہ ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ اس پر ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم اگر میری پناہ میں رہتے تو آنکھ سے یوں ہاتھ نہ دھو بیٹھتے۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری جو آنکھ بچ رہی ہے وہ بھی قربان ہونے کو تیار ہے۔ میں اس ہستی کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ صاحب عزت و مقدرت ہے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 163,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–108_* ★
              *⚂_مکی دور- دعوت عام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے دعوت حق کو قبول کیا تو انقلابی روح سے سرشار ہو کر سیدھے حرم پہنچے اور وہاں جا کر بآواز بلند اپنے نئے عقیدے کا اعلان کیا۔ قریش سٹ پٹا گئے اور کہنے لگے کہ یہ کون بے دین ہے، مارو اسے۔ چنانچہ مار پیٹ شروع ہو گئی۔ ارادے یہ تھے کہ ان کو جان سے مار دیا جائے ۔ مگر حضور ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا اتفاقاً گزر ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو قبیلہ غفار کا آدمی ہے اور تمہیں تجارت کے لیے اسی قبیلہ کی حدود سے ہو کر جانا ہوتا ہے۔ کچھ ہوش کرو۔ لوگ باز آگئے۔*
*"_ دوسرے روز انہوں نے پھر عقیدے کا اعلان کیا۔ اور پھر مار کھائی۔*

*"❀_حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا ایمان لائیں تو ان کے اعزہ و اقارب نے انہیں چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا۔ اس حالت میں وہ ان کو کھانے کے لیے روٹی کے ساتھ شہد دیتے اور پانی نہ پلاتے تا کہ حدت کا دو گونہ عذاب بھگتیں۔ تین دن مسلسل اسی عالم میں گزر گئے۔ انتہائی کرب کے لمحوں میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام کو چھوڑ دو۔ ان کے حواس اس درجہ متاثر ہو چکے تھے کہ وہ اس بات کو سمجھ تک نہ سکتی تھیں۔ پھر ظالموں نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خدائے واحد کا انکار کر دو. جب وہ مدعا سمجھ گئیں تو کہا کہ خدا کی قسم میں تو اپنے عقیدہ پر قائم ہوں۔*

*❀"_ خالد بن العاص کے قبول اسلام پر ان کے باپ نے اس قدر مارا کہ سر زخمی ہو گیا۔ ان کو فاقہ کا عذاب بھی دیا گیا۔غرضیکہ کون تھا جسے اس بھٹی میں نہ ڈالا گیا ہو ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن العاص نے رسیوں میں جکڑ دیا ۔ یہی سلوک طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔*

*"❀_ ولید رضی اللہ عنہ بن ولید، عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ اور سلمہ رضی اللہ عنہ بن ہشام کو انتہائی از یتیں دی گئیں اور پھر ان کو ہجرت سے بھی روکا گیا۔ جور و استبداد کا انتہائی مظاہرہ وہ بھی تھا جو اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روا رکھا۔*

*"❀_ ایک طرف اس زہرہ گداز سلسلہ تشدد کو دیکھئے اور دوسری طرف تحریک اسلامی کے علمبرداروں کی استقامت ملاحظہ فرمائیے۔ کہ مرد عورتیں، غلام اور لونڈیاں جو بھی اس مئے حق سے سرشار ہو گیا، پھر اس کا قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ مظالم کسی ایک فرد کو بھی ارتداد کی راہ پر نہ ڈال سکے۔ جو کوئی اسلام کی پکار پر لبیک کہہ دیتا۔ اس کے اندر سے بالکل ایک نیا انسان نمودار ہو جاتا اور اس کے سینے میں نئی قوتیں جاگ اٹھتیں۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 164,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
           
                     ★ *پوسٹ–109_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥ - ہجرت حبشہ :-*
*"_ ہر مصیبت کی برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔ امتحان کی جن کٹھن گھڑیوں سے تحریک اسلامی کے علمبرداروں کو سابقہ در پیش تھا ان کو برداشت کرنے میں انہوں نے ہمیشہ کے لیے یاد گاری نمونہ قائم کر دیا۔ لیکن ظلم و استبداد کی رد کہیں تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔ بلکہ روز بروز زور پکڑتی جارہی تھی۔*

*❀"_ حضور ﷺ اپنے رفقاء کا حال دیکھ دیکھ کر کڑھتے، مگر کوئی زور نہیں چلتا تھا۔ سہارا تھا تو خدا کے ایمان کا تھا۔ آخرت کے یقین کا تھا سچائی کی آخری فتح کی قوی امیدوں کا تھا، سوز بھری دعاؤں کا تھا۔ حضور ﷺ اپنے رفیقوں کو تسلی ولاتے کہ خدا کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔ حالات بتا رہے تھے کہ نظام حق کی تاسیس یہاں نہیں ہونے کی۔ بلکہ کسی دوسرے گوشہ زمین کو یہ سعادت ملنے والی ہے۔*

*"❀_ تحریک اسلامی کی تاریخ میں پہلے بھی ہمیشہ ہجرت کا باب ضرور شامل رہا ہے۔ سو اندازہ ہو چلا تھا کہ محسن انسانیت اور اس کے رفیقوں کو بھی وطن چھوڑنا ہو گا۔ ایک علاقے کے لوگ اگر نا اہل ثابت ہوں تو دعوت کسی دوسری آبادی کو مخاطب بنا لیتی ہے۔ لیکن جب تک خدا کی طرف سے واضح طور پر اذن نہ ہو جائے، انبیاء کی یہ شان نہیں ہوتی ہے کہ اولین مرکز دعوت کو چھوڑ دیں۔*

*❀"_ تاہم حضور ﷺ جبر اور صبر کی آویزش کو ایسے مراحل میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے جہاں انسانی صبر کا پیمانہ چھلک سکتا ہے۔ مسلمان بے چین تھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان حالات میں حضور نے صحابہ کو مشورہ دیا کہ ”زمین میں کہیں نکل جاؤ خدا جلد ہی تم کو کسی جگہ یکجا کر دے گا"۔ پوچھا گیا کہ کدھر جائیں۔ حضور نے ملک حبش کی طرف اشارہ کیا۔*

*❀"_ دراصل رسول خدا ﷺ کے علم میں تھا کہ وہاں کی بادشاہت انصاف پر قائم ہے اور عیسائیت کی مذہبی بنیادوں پر چل رہی ہے۔ آپ کے سامنے یہ امکان تھا کہ شاید یہی علاقہ دار الہجرت بننے کے لیے موزوں ہو۔ اسی لیے آپ نے اس ملک کے بارے میں فرمایا کہ وه سرزمین راستی ہے،*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 164,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–110_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- نبوت کے پانچویں سال حضور ﷺ کی انقلابی جماعت کے گیارہ مردوں اور چار عورتوں کا قافلہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت رات کی تاریکی میں حبشہ کو روانہ ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ یعنی رسول خدا ﷺ کی صاحبزادی جناب رقیہ رضی اللہ عنہا بھی اس اولین سفر ہجرت پر نکلیں۔ حضور ﷺ نے اس مبارک جوڑے کے متعلق فرمایا۔ لوط اور ابراہیم (علیہما السلام) کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جس نے خدا کی راہ میں وطن چھوڑا۔*

*❀"_ اس قافلے کے نکلنے کے بعد جب قریش کو خبر ہوئی تو تعاقب میں آدمی دوڑے، مگر جب وہ بندرگاہ (جدہ) پہنچے تو معلوم ہوا ان کو عین وقت پر کشتیاں تیار مل گئی تھیں اور وہ رسائی سے باہر ہیں۔ یہ مہاجرین تھوڑا عرصہ (رجب سے شوال تک) حبشہ میں ٹھرے۔ ایک افواہ پہنچی کہ قریش نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ یہ سب پلٹ آئے۔ مگر مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ افواہ غلط تھی۔*

*❀"_ اب سخت مشکل پیش آگئی کچھ لوگ چھپ کر شہر میں آئے اور کچھ کسی کی حمایت حاصل کر کے داخل ہوئے۔ اس طرح لوٹ آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ پہلے سے بڑھ کر استبداد ہونے لگا۔ دوبارہ بہت بڑا قافلہ جس میں ۸۵ مرد اور ۱۷ عورتیں شامل تھیں، حبشہ جا پہنچا، وہاں ان کو پر امن فضاء ملی اور وہ اطمینان سے اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے لگے۔*

*❀"_ اب دیکھئے کہ دشمنان حق کا کینہ کہاں تک پہنچتا ہے۔ ان لوگوں نے ایک مجلس میں سارے معاملے پر غور کر کے منصوبہ بنایا اور عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفارت کے لیے مامور کیا کہ یہ شاہ حبش سے جا کر بات کریں اور مہاجرین کو واپس لائیں۔ اس مقصد کے لیے نجاشی اور اس کے درباریوں کے لیے گراں بہا تحائف تیار کئے گئے۔ اور بڑے سرو سامان کے ساتھ سفارت روانہ ہوئی۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 165,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–111_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_جبشہ پہنچ کر یہ لوگ درباریوں اور پادریوں سے سازش کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اور ان کو رشوتیں دیں۔ ان کے سامنے معاملہ کی یہ صورت رکھی کہ ہمارے شہر میں چند سر پھرے لوگوں نے ایک مذہبی فتنہ اٹھا کھڑا کیا ہے۔ اور یہ تمہارے مذہب کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ہمارے آبائی دھرم کے لیے ، ہم نے ان کو نکال دیا تھا تو اب یہ یہاں آپ کی پناہ میں آپڑے ہیں۔ ان کو یہاں لگنے نہیں دینا چاہیے۔ اس مقصد میں آپ ہم سے تعاون کریں۔*
۔
*❀"_ ان کی اصل کوشش یہ تھی کہ دربار میں سارا قضیہ زیر بحث نہ آنے پائے۔ اور مہاجرین کو سرے سے بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ بادشاہ یک طرفہ بات سن کر ان کو ہمارے حوالے کر دے۔ اسی مقصد کے لیے رشوت اور ساز باز کے طریقے اختیار کئے گئے تھے۔ یہ لوگ جب درباریوں کو روغن قاز مل چکے تو نجاشی کے سامنے تحائف لے کر پیش ہوئے۔*

*❀"_ پھر اپنی غرض بیان کی کہ مکہ کے اشراف نے ہم کو آپ کی خدمت میں اس لیے بھیجا ہے کہ آپ ہمارے آدمیوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں۔ درباریوں اور پادریوں نے بھی تائید کی۔ مگر نجاشی نے یک طرفہ دعوے پر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ اور صاف کہا کہ ان لوگوں سے دریافت احوال کئے بغیر میں ان کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔ دوسرے دن دربار میں دونوں فریق طلب کئے گئے۔*

*❀"_ مسلمانوں کو جب طلبی کا پیغام پہنچا تو ان کے در میان مشورہ ہوا کہ بادشاہ عیسائی ہے اور ہم لوگ اپنے اعتقاد اور مسلک میں اس سے اختلاف رکھتے ہیں تو آخر کیا کہا جائے۔ لیکن فیصلہ یہی ہوا کہ ہم دربار میں وہی کچھ کہیں گے جو کچھ خدا کے نبی ﷺ نے ہم کو سکھایا ہے۔ اور اس میں ایک سرمو فرق نہ لائیں گے ۔۔۔۔۔ جو ہو سو ہو۔*

 *❀"_اندازہ کیجئے کہ ان لوگوں کا ایمان کیسا محکم تھا۔ اتنے سنگین حالات میں حق اور راستی پر قائم رہنے کا عزم خدا کی دین ہے۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 166,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–112_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- پھر جب یہ حضرات دربار میں پہنچے تو مقررہ آداب کے مطابق نجاشی کو سجدہ کرنے سے اجتناب کیا۔ درباریوں نے اس طرز عمل پر بُرا منایا ۔ اور سوال کیا گیا کہ آخر تم لوگوں نے سجدہ کیوں نہیں کیا۔*

*❀"_ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ( متکلم وفد) نے پوری جرأت سے جواب دیا کہ ہم لوگ سوائے اللہ کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ اور خود رسول اللہ ﷺ کو بھی سیدھے سادے طریق سے سلام ہی کہتے ہیں۔*
*❀"_ غور کیجئے کن نازک حالات میں سچی توحید کا یہ انقلابی مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ حریف جس طاقت کے سامنے چاپلوسی کر رہے تھے، یہ لوگ اس کے رو برو اصول پسندانہ خود داری کا رنگ دکھا رہے تھے۔*

*❀"_ اب سفارت مکہ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہ مہاجرین ہمارے بھگوڑے مجرم ہیں۔ انہوں نے ایک نیا دین گھڑ لیا ہے اور ایک تخریبی طوفان اٹھا کھڑا کیا ہے۔ لہذا ان کو ہمارے حوالے کیا جائے۔*

*❀"_ نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ اور عیسائیت اور بت پرستی کے علاوہ وہ کون سا دین ہے جو تم لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے ترجمان بن کے اٹھے اور انہوں نے نجاشی سے اجازت طلب کی کہ پہلے وہ سفارت مکہ سے کچھ سوالات کر لیں۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 166,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–113_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اجازت ملنے پر یوں مکالمہ ہوا۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ - کیا ہم کسی کے غلام ہیں جو آقا سے بھاگ آئے ہوں؟ اگر ایسا ہو تو ہمیں واپس کیا جانا چاہیے" عمرو بن العاص- نہیں، یہ لوگ کسی کے غلام نہیں۔ آزاد شرفا ہیں"۔*
*❀"_ حضرت جعفر "کیا ہم کسی کو ناحق قتل کر کے آئے ہیں؟ اگر ایسا ہو تو آپ ہمیں اولیائے مقتول کے حوالے کر دیں"۔*
*"_عمرو بن العاص- نہیں۔ انہوں نے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بھایا۔*

*❀"_حضرت جعفر- "کیا ہم کسی کا کچھ مال لے کر بھاگے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم اس کی ادائیگی کرنے کو تیار ہیں"۔ عمرو بن العاص- نہیں۔ ان کے ذمہ کسی کا ایک حبہ بھی نہیں"،*
*❀"_ اس جرح سے جب مسلمانوں کی اخلاقی پوزیشن پوری طرح صاف ہو گئی۔ تو حضرت جعفر نے یہ تقریر کی:-*

*❀"_ اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے ۔ بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، قوی لوگ کمزوروں کو کھا جایا کرتے تھے۔ اسی اثنا میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت، سچائی اور دیانت سے ہم لوگ پہلے سے آگاہ تھے، اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی۔ اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں، خونریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے ر رکھیں۔ صدقہ دیں۔*

*❀"_ ہم اس پر ایمان لائے۔ شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے باز آئے۔ اس جرم میں ہماری قوم ہماری جانوں کی دشمن ہو گئی۔ اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ پھر اسی گمراہی میں لوٹ جائیں۔ پس ہم اپنا ایمان اور اپنی جانیں لے کر آپ کی طرف بھاگ کر آئے ہیں۔ اگر ہماری قوم ہم کو وطن میں رہنے دیتی تو ہم نہ نکلتے۔ یہ ہے ہماری روداو !"*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 167,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                  
                     ★ *پوسٹ–114_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ بات سچی ہو اور کہنے والا دلی جذبات کے ساتھ اسے کہے تو لازماً وہ اثر کرتی ہے۔ نجاشی جیسے خدا ترس بادشاہ کا دل موم ہو گیا۔ اب وہ کہنے لگا کہ ذرا اس کتاب کا بھی کوئی حصہ سناؤ ۔ جو تم لوگوں پر اتری ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کا ایک حصہ پڑھا۔*

*"❀_ آیات الہی کو سن کر بادشاہ کے دل پر رقت طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ وہ بے اختیار پکار اٹھا۔ "خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہا کہ محمد ﷺ تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیح نے دی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس رسول کا زمانہ ملا۔ ساتھ ہی فیصلہ دیا کہ مہاجرین کو واپس نہیں کیا جا سکتا۔ کارروائی ختم ہو گئی۔ اور سفارت ناکام لوٹی۔*

*"❀_ بعد میں ان لوگوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک کوشش اور کی جانی چاہیے۔ نجاشی عیسائی ہے اور اگر حضرت عیسیٰ کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ دربار میں نمایاں کرایا جائے تو ممکن ہے کہ بادشاہ کے اندر مذہبی تعصب کی آگ بھڑک اٹھے۔*

*"❀_ دوسرے دن عمرو بن العاص پھر دربار میں پہنچے اور نجاشی کے کان بھرنے کے لیے یہ الزام تراشا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت خراب عقیدہ رکھتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مسلمانوں کو طلب کر لیا۔ ان کو جب صورت حالات معلوم ہوئی تو کچھ تردد ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے "ابن اللہ " ہونے کا انکار کرنے پر نجاشی کا رد عمل نہ جانے کیا ہو۔ لیکن عزیمت نے کہا کہ جو امر حق ہے اسے صاف صاف پیش کر دو۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 168,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                 
                     ★ *پوسٹ–115_* ★
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ : ہمارے پیغمبر نے بتایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ اور کلمتہ اللہ ہیں"۔ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ واللہ ! جو تم نے کہا ہے عیسیٰ اس سے اس تنکے بھر بھی زیادہ نہیں ہیں۔*

*❀"_ پادری جو سازش کا شکار اور رشوت اور ہدایا سے مسخر تھے، دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نتھنوں سے سانس کی خرخراہٹ سنائی دینے لگی۔ نجاشی نے ان کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ حکم دیا کہ تمام تحائف واپس کر دیئے جائیں۔ مکہ کا وفد پوری طرح خائب و خاسر ہو کر لوٹا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 168,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                   
                     ★ *پوسٹ–116_* ★
               *⚂_ حضرت عمر کا اسلام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- عمر رضی اللہ عنہ مفتوح ہو جاتے ہیں:-*
*❀"_ تشدد کی اس داستان کا وہ باب سب سے ممتاز ہے، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غیظ و غضب سے مرتب ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ستائیسویں سال میں تھے جب کہ نبوت محمدی ﷺ کا علم بلند ہوا۔ اسلام جلد ہی آپ کے گھرانے میں نفوذ کر گیا۔ آپ کے بہنوئی سعید رضی اللہ عنہ پہلے پہل اسلام لائے، ان کے اثر سے آپ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی مسلمان ہو گئیں۔*

*❀"_خاندان کی ایک اور با اثر شخصیت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی دعوت حق پر لبیک کہی۔ اول اول ان کو اسلام کے اس نفوذ کا حال معلوم نہیں ہو سکا' جونہی علم ہوا تو یہ آپے سے باہر ہو گئے اور اسلام لانے والوں کے دشمن بن گئے۔ لبینہ رضی اللہ عنہا ان کے خاندان کی کنیز تھیں، ان کو مارتے مارتے تھک جاتے تو دم لینے کے لیے الگ ہوتے، پھر تازہ دم ہو کر مارنا شروع کر دیتے۔ آخر ایک دن تہیہ کر لیا کہ کیوں نہ اصل دائی حق ﷺ ہی پر ہاتھ صاف کر لیا جائے۔*

*❀"_ وہ تلوار لے کر چلے، راستے میں نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مد بھیٹر ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور بہن اور بہنوئی سے نمٹ لو، پھر کسی اور طرف جانا۔ فوراً پلیٹے اور بہن کے گھر پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ آہٹ ہوئی تو خاموش ہو گئیں اور قرآن کے اوراق چھپا لیے۔*

*❀"_ حضرت عمر نے پوچھا کہ یہ کیا پڑھا جا رہا تھا۔ بہن نے ٹالا، کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تم دونوں مرتد ہو چکے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی پر ٹوٹ پڑے۔ بہن بچ بچاؤ کے لیے آئیں تو ان کو مارا۔ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا۔ لیکن ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ عزیمت مندانہ انداز سے کہنے لگیں۔ عمر! جو کچھ کر سکتے ہو، کرو! لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا"۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 168,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
           
                     ★ *پوسٹ–117_* ★
              *⚂_ حضرت عمر کا اسلام _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ایک خاتون اور وہ بھی بہن، ایک پیکر جذبات ! جسم زخمی! کپڑے خون آلود ۔ آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ عزیمت مندانہ بول ! اندازہ کیجئے کہ اسلام نے کیسی روح اندر تک پیدا کر دی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ کی قاہرانہ طاقت نے اس مظلومانہ منظر کے سامنے ہار مان لی۔ ہیرے کا جگر پھول کی پتی سے کٹ گیا۔*.

*"❀__ فرمایا۔ ”جو تم پڑھ رہی تھیں، مجھے بھی لا کر سناؤ"۔ وہ گئیں اور اجزائے قرآن نکال لائیں۔ جب یہ الفاظ سامنے آئے کہ امنوا بالله و رسوله" تو بے اختیار پکار اٹھے۔ "اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمداً عبده و رسوله" ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر تحریک حق کے مرکز خانہ ارقم کی طرف چلے۔ وہاں جا کر خدا کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔*

*"❀__ اس واقعہ پر مسلمانوں نے مارے خوشی کے ایسا نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کا سارا ماحول گونج اٹھا۔ داعیان حق اٹھے اور مکہ میں پھیل گئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی قوت بڑھ گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لاتے ہی کعبہ میں پہلی مرتبہ علانیہ نماز با جماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا۔*

*❀_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکہ کے نوجوانوں میں اپنے جوش اور ذہانت کی وجہ سے امتیازی مقام رکھتے تھے۔ ان کا کردار روح اخلاص سے مملو تھا۔ وہ جاہلیت کے دور میں تھے تو پورے اخلاص سے تحریک اسلامی کے دشمن تھے نہ کہ کسی ذاتی مفاد کی بنا پر۔ اور جب حقیقت کھل گئی اور فطرت سلیمہ سے پردے اٹھ گئے تو پوری شان اخلاص سے تحریک اسلامی کا علم اونچا کر دیا۔*        

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 169,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                         
                     ★ *پوسٹ–118_* ★
              *⚂_ حضرت عمر کا اسلام _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت سچائی کے پیغام پر لبیک کہے اور پھر کوئی نیا مدو جزر پیدا نہ ہو، یہ کیسے ممکن تھا انہوں نے تہیہ کر لیا کہ ایک بار فضا کو چیلنج کر کے رہیں گے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ (جو اس وقت لڑکے تھے مگر معاملات کو سمجھتے تھے) کا بیان ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو معلوم کیا کہ قریش کا کون سا آدمی بات کو اچھی طرح نشر کر سکتا ہے۔ انہیں جمیل بن معمر جمحی کا نام بتایا گیا۔ وہ علی الصباح اس کے ہاں پہنچے اور میں بھی ساتھ گیا کہ دیکھوں کیا کرتے ہیں۔*

*❀"_ اس سے جا کر کہنے لگے کہ اے جمیل تمہیں معلوم ہے کہ میں اسلام لاچکا ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے دین میں شامل ہو گیا ہوں۔ وہ اپنی چادر تھامتے ہوئے مسجد حرام کے دروازے پر پہنچا۔ اور وہاں گلا پھاڑ کر اعلان کیا کہ اے گروہ قریش ! سنو ! عمر بن خطاب صابی ہو گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے سے آپہنچے اور انہوں نے پکار کر کہا۔ غلط کہتا ہے۔ میں مسلمان ہوا ہوں اور میں نے اعلان کیا ہے کہ ایک اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔*

*❀"_ اہل قریش ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ والد سے خوب لڑے۔ اور والد ان سے لڑے اور اسی ہاتھا پائی میں سورج سر پر آگیا۔ اسی اثنا میں ایک قریشی سردار یمنی حلہ اوڑھے ہوئے نمودار ہوا۔ اور اس نے پوچھا۔ قصہ کیا ہے؟ اس نے بات سنی اور کہا کہ "اس شخص نے اپنے لیے ایک راستہ پسند کر لیا ہے، تو اب تم کیا چاہتے ہو؟ سوچو تو سہی کہ کیا بنو عدی بن کعب اپنے آدمی کو یوں تمہارے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں۔ چھوڑ دو اسے۔ یہ تھے عاص بن وائل، انہوں نے حضرت عمر کو اپنی پناہ میں لے لیا _" (سیرت ابن ہشام - ١/٣٧٠-٧١)*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 172,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
               
                     ★ *پوسٹ–119_* ★
              *⚂_ حضرت عمر کا اسلام _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اس کے ساتھ ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جوش ایمانی نے اپنے اظہار کا ایک راستہ اور بھی نکالا۔ انہوں نے ایمان لانے کی پہلی ہی رات کو سوچا کہ رسول خدا ﷺ کی مخالفت میں انتہائی متشدد کون ہے؟ معلوم ہوا کہ ابو جہل سے بڑھ کر سخت کوئی دوسرا نہیں۔*

*❀"_ صبح ہوتے ہی ابو جہل کے ہاں بھی جا پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا ابو جہل نکلا اور خوش آمدید کہہ کر مدعا پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں یہ اطلاع دینے آیا ہوں کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لے آیا ہوں۔ اور آپ کے پیغام کی سچائی کو تسلیم کر چکا ہوں۔ ابو جہل نے بھنا کر دروازہ بند کر لیا۔ اور کہا کہ خدا کی مار تجھ اور تیری اس اطلاع پر "۔*

*❀"_ تیسری طرف انہوں نے تحریک اسلامی کا ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ۔ مار تو کھائی مگر اس کے جواب میں حرم میں علی الاعلان نماز ادا کرنے کا آغاز کر دیا۔ بقول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ : ”ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے قبل اس پر قادر نہ تھے کہ کعبہ میں نماز ادا کر سکیں۔ عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑ کر کعبہ میں نماز ادا کی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی۔*

*❀"_ ایک طرف تشدد کا وہ زور دیکھئے اور دوسری طرف یہ سماں ملاحظہ ہو کہ اسلام کے دشمنوں میں سے بہترین عنصر کو چھانٹ رہا تھا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 173,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
               
                     ★ *پوسٹ–120_* ★
              *⚂_ حضرت حمزه کا اسلام _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ایسا ہی واقعہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ مکہ کا یہ نوجوان ذہانت، شجاعت اور اثر کا مالک تھا۔ حضور ﷺ کے چاچاؤں میں سے جناب ابو طالب کے بعد ایک یہی چاچا ایسے تھے جن کو اختلاف کے باوجود آپ سے محبت تھی۔ عمر میں بھی صرف دو تین برس زیادہ تھی اور ہم عمری کی وجہ سے بچپن میں چچا بھتیجا ہم جولی رہے تھے۔*

*❀__ ایک دن کا واقعہ ہے کہ کوہ صفا کے پاس ابو جہل نے حضور ﷺ پر دست درازی کی اور بہت دریدہ دہنی سے کام لیا۔ حضور ﷺ نے صبر سے اس اذیت کو برداشت کیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ حضرت حمزہ شکار پر گئے ہوئے تھے۔ کمان اٹھائے ہوئے واپس آئے تو اس لونڈی نے قصہ سنایا اور کہا کہ "ہائے اگر تم خود دیکھ سکتے کہ تمہارے بھیجے پر کیا گزری؟ یہ سن کر حمزہ کی حمیت جاگ اٹھی۔*

*❀__ سیدھے قریش کی مجلس میں پہنچے جہاں ابو جمل بیٹھا تھا۔ حرم میں جا کر ابو جہل کے سر پر کمان ماری اور کہا کہ کیا تم نے محمد (ﷺ) کو گالی دی تھی۔ اگر ایسا ہے تو میں بھی اس کے دین پر ہوں اور جو کچھ وہ کہتا ہے وہی کچھ میں بھی کہتا ہوں۔ اب اگر ہمت ہے تو میرے مقابلے پر آؤ"۔*

*❀__ ابو جہل کی حمایت میں بنی مخزوم کا ایک شخص مجلس سے اٹھا مگر ابو جہل نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ جانے دو میں نے ابو عمارہ کے بھتیجے کو بہت گندی گالیاں دی ہیں۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام پر ڈٹ گئے اور قریش نے محسوس کر لیا کہ رسول خدا ﷺ کی قوت بڑھ گئی ہے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 173,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
            
                     ★ *پوسٹ–121_* ★
           *⚂ _بائیکاٹ اور نظر بندی _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دشمنان حق یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ حق کا سیلاب آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور بڑی بڑی اہم شخصیتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اس پر ان کا اضطراب اور بڑھ جاتا۔ محرم ٧ نبوی میں مکہ کے تمام قبائل نے مل کر ایک معاہدہ کیا کہ خاندان بنو ہاشم سے بائیکاٹ کیا جائے اور کوئی شخص نہ ان سے قرابت رکھے نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق رکھے۔ نہ لین دین کرنے، نہ ان سے ملے جلے۔ اور نہ کھانے پینے کا کوئی سامان ان تک پہنچنے دے۔ الا آنکہ بنو ہاشم محمد (ﷺ) کو ہمارے سپرد کر دیں اور ان کو قتل کرنے کا ہمیں حق دے دیں۔*

*"❀_ قبائلی دور کے لحاظ سے یہ فیصلہ انتہائی سنگین تھا اور ایک آخری کارروائی کی نوعیت رکھتا تھا۔ بنو ہاشم بے بس ہو کر شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہو گئے۔ گویا پورا خاندان تحریک اسلامی کے داعی کی وجہ سے ایک طرح کی قید اور نظر بندی میں ڈال دیا گیا۔ اس نظر بندی کا دور تقریباً تین برس تک طویل ہوا۔ اور اس دور میں جو احوال گزرے ہیں ان کو پڑھ کر پتھر بھی پگھلنے لگتا ہے۔*

*❀"_ درختوں کے پتے نگے جاتے رہے۔ اور سوکھے چمڑے ابال ابال کر اور آگ پر بھون بھون کر کھائے جاتے رہے۔ حالت یہ ہو گئی کہ بنو ہاشم کے معصوم بچے جب بھوک کے مارے بلکتے تھے تو دور دور تک انکی درد بھری آوازیں جاتی تھیں۔ قریش ان کی آوازوں کو سنتے تو مارے خوشی کے جھوم جھوم جاتے۔*

*❀"_ ناکہ بندی اتنی شدید تھی کہ ایک مرتبہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے) نے کچھ گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ چوری چھپے بھیجا، راستہ میں ابو جہل نے دیکھ لیا اور گیہوں چھیننے کے در پے ہوا۔ اتفاق سے ابو البختری بھی آ گیا۔ اس کے اندر کسی اچھے انسانی جذبے نے کروٹ لی۔ اور اس نے ابو جہل سے کہا کہ چھوڑو بھی ایک بھتیجا ہے تو تم اسے بھی اب روکتے ہو،*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 174,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                    
                     ★ *پوسٹ–122_* ★
           *⚂ _بائیکاٹ اور نظر بندی _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اسی طرح ہشام بن عمرو چوری چھپے کچھ غلہ بھیج دیتے تھے۔ یہی ہشام بن عمرو اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف داعی اول بنے۔ پہلے یہ زہیر بن ابی امیہ کے پاس گیے۔ اس سے بات کی کہ کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ تم کھاؤ پیو، کپڑا پہنو، شادی بیاہ کرو اور تمہارے ماموؤں کا یہ حال ہو کہ وہ نہ خرید و فروخت کر سکیں، نہ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کر سکیں۔ اگر معاملہ ابوالحکم ابن ہشام کے ماموں اور ننہال کا ہوتا اور تم نے اسے ایسے معاہدے کی دعوت دی ہوتی تو وہ کبھی اس کی پرواہ نہ کرتا۔*

*"❀_ _ یہ سن کر زہیر نے کہا۔ ”میں کیا کروں، میں تو اکیلا آدمی ہوں۔ خدا کی قسم ! اگر کوئی دوسرا میرے ساتھ ہوتا تو میں اس معاہدے کی منسوخی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور اسے ختم کر کے دم لیتا"۔ ہشام بن عمرو نے کہا۔ کہ دوسرا ساتھی تو تمہیں مل گیا ہے"۔ زہیر نے پوچھا کون؟" ہشام نے کہا۔ " میں "!*

*"❀_ _ پھر ہشام مطعم بن عدی کے پاس پہنچے اور اسی طرح تحریک کی۔ اس نے بھی وہی جواب دیا ۔ کہ ”اکیلا ہوں کیا کروں ؟" ہشام نے وہی جواب دیا کہ دوسرا میں ہوں، مطعم نے کہا ۔ کہ اب کسی تیسرے کو ڈھونڈنا چاہیے۔ ہشام نے بتایا کہ وہ تو میں نے مہیا کر لیا ہے، اس نے پوچھا کون؟ ہشام نے بتایا کہ زہیر بن ابی امیہ، مطعم کہنے لگا کہ پھر کسی چوتھے کو حاصل کرنا چاہیے,* 

*"❀_ _اس طرح ابو البختری اور زمعہ بن الاسود تک پہنچ کر ہشام نے بات کی۔ غرض بائیکاٹ کے معاہدے کے خاتمے کی تحریک اندر ہی اندر جب کام کر چکی تو ان سب لوگوں نے ایک جگہ بیٹھ کر طریق کار طے کیا۔ اسکیم یہ بنی کہ بر سر عام ہشام ہی بات چھیڑے گا۔ چنانچہ ہشام نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا۔ پھر لوگوں کی طرف آیا اور کہا کہ مکہ والو! کیا یہ زیبا ہے کہ ہم کھانے کھائیں اور لباس پہنیں، اور بنو ہاشم بھوک سے تڑپ رہے ہوں، نہ وہ کچھ خرید سکیں اور پھر اس نے اپنا عزم ان الفاظ میں پیش کر دیا:۔ خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا جب تک کہ تعلقات کو توڑ دینے والی اس ظالمانہ تحریر کو چاک چاک نہ کرلوں"۔*

*"❀_ _ ابو جہل بھنا کر اٹھا اور چیخ کر بولا۔ " جھوٹے ہو تم۔ خدا کی قسم تم اسے چاک نہیں کر سکتے"۔ زمعہ بن الاسود نے ابو جہل کو جواب دیا۔ "تم خدا کی قسم ! سب سے بڑھ کر جھوٹے ہو۔ یہ معاہدہ معلوم ہے جس ڈھب سے لکھا گیا ہے ہم اسے پسند نہیں کرتے" ابو البختری بھی بول اٹھا " سچ کہا زمعہ نے ہم کو پسند نہیں جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے اور نہ ہم اس کو مانتے ہیں"۔ مطعم نے بھی تائید مزید کی۔ " تم دونوں ٹھیک کہہ رہے ہو اور غلط کہتا ہے جو اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے"۔ ہشام نے بھی یہی بات کہی۔ اکثریت کو یوں مخالف پا کر ابو جہل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اور معاہدہ چاک کر دیا گیا۔ لوگ جب اسے دیوار کعبہ سے اتارنے لگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہ اسے دیمک چاٹ چکی تھی۔ صرف "باسمک اللهم" کے الفاظ سلامت تھے_,"*
*"_®(سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۲۹ - ۱۳)*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 175,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
              
                     ★ *پوسٹ–122_* ★
                  *⚂_ سال اندوه _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ دور نظر بندی کا خاتمہ ہو گیا۔ اور ایک بار پھر خدا کے نبی ﷺ اپنے گھرانے سمیت آزادی کی فضا میں داخل ہوے ۔ لیکن اب اس سے بھی سخت تر دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال میں اولین سانحہ یہ پیش آیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کی وفات ہو گئی۔ اس طرح وہ ایک ظاہری سہارا بھی چھن گیا جو حضور ﷺ کو اپنے سایہ شفقت میں لیے ہوئے دشمنوں کے لیے پوری استقامت سے آخر دم تک مزاحم رہا تھا۔*

*"❀__اسی سال دو سرا صدمہ حضور ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رحلت کا اٹھانا پڑا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا محض حضور ﷺ کی بیوی ہی نہ تھیں۔ بلکہ سابقون الاولون میں تھیں۔ اور انہوں نے دور رسالت سے قبل بھی موانست و غمگساری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اور اولین وحی کے نزول سے لے کر تا دم آخر راہ حق میں حضور ﷺ کے ساتھ سچی رفاقت کا حق ادا کر کے دکھلا گئیں۔*

*❀_ تحریک حق کی حمایت میں مال بھی خرچ کیا۔ قدم قدم پر مشورے بھی دیئے اور دلی جذبے سے تعاون دکھایا۔ بجا طور پر کہا گیا ہے کہ "وہ حضور ﷺ کے لیے وزیر تھیں ،*

*"❀__ ایک طرف تو یکے بعد دیگرے یہ دو صدمے حضور ﷺ کو سہنے پڑے اور دوسری طرف ان ظاہری سہاروں کے ہٹ جانے کی وجہ سے مخالفت کا طوفان اور زیادہ چڑھاؤ پر آگیا۔ انہیں غم انگیز حالات کی وجہ سے یہ سال سال اندوہ یا عام الحزن کے نام سے موسوم ہوا۔*        

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 176,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–123_* ★
                       *⚂_ غم کا سال _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اب قریش انتہائی ذلیل حرکتوں پر اتر آئے۔ لونڈوں کے غول پیچھے لگا دیئے جاتے جو شور مچاتے اور حضور ﷺ نماز پڑھتے تو وہ تالیاں پیٹتے۔ راستہ چلتے ہوئے حضور ﷺ پر غلاظت پھینک دی جاتی۔ دروازے کے سامنے کانٹے بچھائے جاتے۔ کھلم کھلا گالیاں دی جاتیں۔ پھبتیاں کسی جاتیں۔ آپ کے چہرہ مبارک پر خاک پھینکی جاتی۔ بلکہ بعض خبیث بد تمیزی کی اس آخری حد تک پہنچے کہ آپ کے رخ انور پر تھوک دیتے۔*

*❀__ ایک بار ابو لہب کی بیوی ام جمیل پتھر لیے حضور کی جستجو میں حرم تک اس ارادے سے آئی کہ بس ایک ہی وار میں کام تمام کر دے۔ مگر حضور ﷺ اگرچہ حرم میں سامنے ہی موجود تھے لیکن خدا نے اس کی نگاہ کو رسائی نہ دی۔ اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے دل کا بخار نکال کر چلی آئی۔*
 
*❀__ اس طرح ایک بار ابو جہل نے پتھر سے حضور ﷺ کو ہلاک کر دینے کا ارادہ کیا۔ اور اسی ارادے میں حضور ﷺ تک پہنچا بھی۔ مگر خدا نے ابو جہل کو خوف و مرعوبیت کے ایسے عالم میں ڈالا کہ وہ کچھ کر نہ سکا۔*.

*❀__ ایک بار دشمنان حق بیٹھے یہی تذکرہ کر رہے تھے کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے معاملے میں ہم نے جو کچھ برداشت کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران حضور تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا تم ایسا کہتے ہو۔ حضور ﷺ نے پوری اخلاقی جرأت سے فرمایا۔ ہاں! میں ہوں جو یہ اور یہ کہتا ہے! بس یہ کہنا تھا کہ چاروں طرف سے دھاوا بول دیا گیا۔*.

*❀__ عبد اللہ بن عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ قریش کی طرف سے اس سے بڑھ کر حضور ﷺ کے خلاف میں نے کوئی دراز دستی نہیں دیکھی۔ حملہ آور رک گئے تو خدا کے رسول ﷺ نے پھر اسی فوق الانسانی جرأت سے کام لے کر ان کو ان الفاظ سے متنبہ کیا کہ "میں تمہارے سامنے یہ پیغام لایا ہوں کہ تم ذبح ہو جانے والے ہو۔ یعنی استبداد کی یہ چھری جو تم مجھ پر تیز کر رہے ہو، تاریخ میں کام کرنے والا قانون الہٰی بالآخر اس سے خود تم کو ذبح کر ڈالے گا۔ تمہارا یہ زور و اقتدار جو ظلم کے رخ پڑ گیا ہے، یہ یکسر ختم ہو جانے والا ہے۔*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 177,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–124_* ★
                      *⚂_غم کا سال _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ عقبہ بن معیط ابو جہل اور امیہ بن خلف حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب حضور ﷺ ان کے سامنے سے گزرتے تو وہ کلمات بد زبانوں پر لاتے ۔ تین بار ایسا ہی ہوا۔*

*❀"_ آخری مرتبہ حضور ﷺ نے چہرہ متغیرہ کے ساتھ کہا کہ بخدا تم بغیر اس کے باز نہ آؤ گے کہ خدا کا عذاب جلد تم پر ٹوٹ پڑے"۔*

*❀"_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہیبت حق تھی کہ یہ سن کر ان میں سے کوئی نہ تھا جو کانپ نہ رہا ہو۔ یہ فرما کر حضور ﷺ اپنے گھر کو چلے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگ ساتھ ہو لیے۔*

*❀"_ اس موقعہ پر حضور ﷺ نے ہم سے خطاب کر کے فرمایا: تم لوگوں کو بشارت ہو۔ اللہ تعالی یقیناً اپنے دین کو غالب کرے گا اور اپنے کلمہ کی تکمیل کرے گا۔ اور اپنے دین کی مدد کرے گا۔ اور یہ لوگ جنہیں تم دیکھتے ہو اللہ تعالی بہت جلد تمہارے ہاتھوں سے ذبح کرائے گا۔*

*❀"_ غور کیجئے کہ بظاہر کس انگیز ماحول میں یہ بشارت دی جا رہی تھی اور پھر کس شان سے یہ بہت ہی جلد پوری ہوئی ۔۔۔۔ گویا تحریک حق نے ہتھیلی پر سرسوں جما دی۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 177,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–125_* ★
              *⚂_طائف میں دعوت حق _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ایک روز رسول اکرم ﷺ علی الصباح گھر سے نکلے اور خدا کا پیغام سنانے کے لیے مکہ کے مختلف کوچوں میں گھومے پھرے لیکن وہ ایک دن پورا ایسا گزرا کہ آپ کو ایک آدمی بھی ایسا نہ ملا جو بات کو سنتا۔*

*"❀_ نئی اسکیم یہ اختیار کی گئی تھی کہ آپ کو جب آتے دیکھا جائے۔ تو لوگوں کو چاہیے کہ ادھر ادھر سٹگ جائیں۔ باتیں سننے سے بات پھیلتی ہے اور مخالفت کرنے سے اور بحشیں چھیڑنے سے وہ اور زیادہ ابھرتی ہے۔ اسکیم کامیاب رہی۔ جو لوگ ملے بھی انہوں نے استہزاء اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا۔*.

*"❀_ اس روز آپ پورا دن گزار کر جب پلٹے تو اداسی کا ایک بھاری بوجھ آپ کے سینے پر لدا ہوا تھا۔ سخت تھکن تھی ۔۔۔۔ ایسی گھٹن جو کسی کی خیر خواہی کرنے والے کو اس وقت ہوتی ہے کہ جس کی وہ خیر خواہی کر رہا ہو، وہی خود محسن کشی پر اتر آئے۔*

*"❀_۔ شاید اسی دن سے آپ کے دل میں یہ رجحان پیدا ہو گیا تھا کہ اب مکہ سے باہر نکل کر کام کرنا چاہیے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر سرور عائم مکہ سے پیدل چلنے اور راستے میں جو قبائل آباد تھے ان سب کے سامنے خدا کا پیغام پیش کیا۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 178,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–126_* ★
              *⚂_طائف میں دعوت حق_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- طائف ایک بڑا سر سبز قطعہ تھا۔ پانی' سایہ کھیتیاں، باغات نسبتا ٹھنڈا مقام۔ لوگ بڑے خوشحال تھے اور دنیا پرستی میں بری طرح مگن۔ انسان ایک مرتبہ معاشی خوشحالی پا لے تو پھر وہ خدا فراموشی اور اخلاق باختگی میں دور تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اہل طائف کا تھا۔ مکہ والوں میں تو پھر بھی مذہبی سربراہی اور ملکی قیادت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے کسی قدر اخلاقی رکھ رکھاؤ ہو سکتا تھا لیکن طائف کے لوگ پوری طرح لا ابالی ڈھب کے تھے۔ اور پھر سود خواری نے ان کے اچھے انسانی احساسات کو بالکل ملیا میٹ کر دیا تھا۔*

*"❀_ حضور ﷺ گویا مکہ سے بد تر ماحول میں قدم رکھ رہے تھے۔ محسن انسانیت ﷺ طائف میں پہنچے تو پہلے ثقیف کے سرداروں سے ملاقات کی۔ یہ تین بھائی تھے ۔۔۔۔ عبد یالیل، مسعود اور حبیب۔ ان میں سے ایک کے گھر میں قریش ( بنی جمح) کی ایک عورت تھی۔ اس وجہ سے ایک طرح کی لحاظ داری کی توقع ہو سکتی تھی۔*

*"❀_ حضور ﷺ ان کے پاس جا بیٹھے۔ ان کو بہ طریق احسن اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا۔ اور اپنی دعوت پر گفتگو کی اور ان سے اقامت حق کے کام میں حمایت طلب کی۔ اب جواب سنئے جو تینوں کی طرف سے ملتا ہے:-*
*"_ایک :۔ "اگر واقعی خدا نے ہی تم کو بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔"*

*❀"_ دوسرا بولا: "ارے کیا خدا کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور مناسب آدمی نہ مل سکا۔ تیسرا بولا : " خدا کی قسم! میں تجھ سے بات بھی نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر تو اپنے کہنے کے مطابق واقعی اللہ کا رسول ہے، تو پھر تجھ ایسے آدمی کو جواب دینا سخت خلاف ادب ہے۔ اور اگر تم نے خدا پر افتراء باندھا ہے تو اس قابل نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے"۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 179,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
               
                     ★ *پوسٹ–127_* ★
              *⚂_طائف میں دعوت حق_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے جو انسانیت کے محسن کے سینے میں پے در پے پیوست ہوتے چلے گئے۔ آپ نے تحمل سے اپنے دل پر سارے زخم سہہ لیے اور ان کے سامنے آخری بات یہ رکھی کہ تم اپنی یہ باتیں اپنے ہی تک رکھو اور کم سے کم عوام کو ان سے متاثر نہ کرو۔ مگر انہوں نے اپنے ہاں کے گھٹیا اور بازاری لونڈوں اور نوکروں اور غلاموں کو ہلا کر آپ کے پیچھے لگا دیا۔ کہ جاؤ اور اس شخص کو بستی سے نکال باہر کرو۔*

*❀"_ ایک غول کا غول آگے پیچھے ہو لیا۔ یہ لوگ گالیاں دیتے شور مچاتے اور پتھر مارتے تھے۔ حضور ﷺ جب نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے۔ لیکن طائف کے غنڈے آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیتے۔ اور پھر ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بے تحاشا بہہ رہا تھا، اور جوتیاں اندر اور باہر سے لتھڑ گئیں۔*

*"❀_ اس نادر تماشا کو دیکھنے کے لیے بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ غنڈوں کا غول اس طریقے سے آپ کو شہر سے نکال کر ایک باغ کے احاطے تک لے آیا۔ جو ربیعہ کے بیٹوں عقبہ اور شیبہ کا تھا۔ آپ نے بالکل بے دم ہو کر انگور کی ایک بیل سے ٹیک لگا لی۔ باغ کے مالک آپ کو دیکھ رہے تھے اور جو کچھ آپ پر بیتی اس کا بھی کچھ مشاہدہ کر چکے تھے۔*

*❀"_یہی وہ موقع تھا جب کہ دوگانہ پڑھنے کے بعد آپ کے ہونٹوں سے ذیل کی درد بھری دعا نکلی: الہٰی اپنی قوت کی کمی اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ درماندہ بیکسوں کا پروردگار تو ہی ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے۔ کیا اس حریف بیگانہ کے جو مجھ سے تر شروئی روا رکھتا ہے یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملے پر قابو رکھتا ہے۔ لیکن اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو پھر مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ بس تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ میں اس بات کے مقابلے میں کہ تیرا غضب مجھ پر پڑے یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو تیرے ہی نور و جمال کی پناہ طلب کرتا ہوں جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے ذریعے دین و دنیا کے جملہ معاملات سنور جاتے ہیں، مجھے تو تیری رضامندی اور خوشنودی کی طلب ہے ۔ بجز تیرے کہیں سے کوئی قوت و طاقت نہیں مل سکتی"*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 180,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                         
                     ★ *پوسٹ–128_* ★
              *⚂_طائف میں دعوت حق_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-اتنے میں باغ کے مالک بھی آپہنچے، ان کے دلوں میں ہمدردی کے جذبات امڑ آئے تھے۔ انہوں نے اپنے نصرانی غلام کو پکارا۔ اس کا نام عداس تھا۔ پھر ایک طشتری میں انگوروں کا خوشہ رکھوا کر بھجوایا۔ عداس انگور پیش کر کے آنحضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے ہاتھ انگور کی طرف بڑھاتے ہی "بسم اللہ " کہا، عداس کہنے لگا! " خدا کی قسم! اس طرح کی بات اس شہر کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے"۔*

*"❀_ آنحضرت ﷺ نے پوچھا۔ کہ " تم کس شہر کے آدمی ہو ۔ اور تمہارا دین کیا ہے ؟" اس نے بتایا کہ میں نصرانی ہوں اور نینوا کا باشندہ۔ آپ نے فرمایا " تو تم یونس بن متی جیسے مرد صالح کی بستی کے آدمی ہو ؟" عداس نے حیرت سے پوچھا۔ "آپ کو کیسے معلوم کہ یونس بن متی کون ہے ؟" آپ نے کہا۔ ”وہ میرا بھائی ہے، وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں"۔*

*❀"_ یہ سنتے ہی عداس آپ کے ہاتھ پاؤں کو چومنے لگا۔ ربیعہ کے بیٹوں میں سے ایک نے یہ ماجرا دیکھا تو اس نے عداس کے واپس جانے پر ملامت کی کہ یہ کیا حرکت تم کر رہے تھے۔ تم نے اپنا دین خراب کر لیا ہے۔ عداس نے گہرے تاثر کے ساتھ جواب دیا۔ ”میرے آقا! اس سے بڑھ کر زمین میں کوئی چیز بھلی نہیں۔ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا"۔*

*❀"_ در حقیقت اب جناب ابو طالب کی وفات کے بعد مکہ میں آپ ظاہری لحاظ سے بالکل بے سہارا تھے اور دشمن شیر ہو گئے تھے۔ آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ طائف میں سے شاید کچھ اللہ کے بندے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہاں یہ صورت پیش آئی۔ وہاں سے پھر آپ نخلہ میں قیام پذیر رہے، وہاں سے واپس آئے اور غار حرا میں تشریف فرما ہوئے۔ یہاں سے مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا کہ کیا تم مجھے اپنی حمایت میں لے سکتے ہو ؟ "*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 180,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                        
                     ★ *پوسٹ–129_* ★
              *⚂_طائف میں دعوت حق_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_عرب کے قومی کردار کی ایک روایت یہ تھی کہ حمایت طلب کرنے والے کو حمایت دی جاتی تھی۔ خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ، مطعم نے پیغام قبول کر لیا۔ بیٹوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر حرم میں چلو خود رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لایا۔ اور مکہ میں آ کر اونٹ پر سے اعلان کیا کہ میں نے محمد (ﷺ) کو پناہ دی ہے۔ مطعم کے بیٹے آپ کو تلواروں کے سائے میں حرم میں لائے۔ پھر گھر میں پہنچایا۔*

*"❀_ طائف میں حضور ﷺ پر جو کچھ گزری اسے مشکل ہی سے روایات کے الفاظ ہم تک منتقل کر سکتے ہیں۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ "یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی سخت دن کوئی گزرا ہے؟*
*"_ فرمایا:۔ تیری قوم کی طرف سے اور تو جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں، مگر سب سے بڑھ کر سخت دن وہ تھا جب میں نے طائف میں عبدیالیل کے بیٹے کے سامنے دعوت رکھی اور اس نے اسے رد کر دیا اور اس درجہ صدمہ ہوا کہ قرن اشعالب کے مقام تک جا کر بمشکل طبیعت سنبھلی"*
*®_ المواجب، جلد ا ص ۵۶،*

*❀"_زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے آپ ﷺ کے نڈھال اور بے ہوش ہو جانے پر طائف سے کندھوں پر آپ کو اٹھا کر شہر کے باہر پہنچایا، دل اندوہ گیں کے ساتھ عرض کرنے لگے کہ آپ ان لوگوں کے لیے خدا سے بد دعا کریں۔ فرمایا:۔ "میں ان کے لیے کیوں بد دعا کروں۔ اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور خدائے واحد کی پرستار ہوں گی"*

*"❀_اسی سفر میں جبریل علیہ السلام آتے ہیں اور اطلاع دیتے ہیں کہ پہاڑوں کا انچارج فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اگر آپ اشارہ کریں تو وہ ان پہاڑوں کو آپس میں ملا دے جن کے درمیان مکہ اور طائف واقع ہیں اور دونوں شہروں کو پیس کر رکھ دے۔*

*"❀_اسی پاس انگیز فضا میں جنوں کی جماعت آ گر قرآن سنتی ہے اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لاتی ہے۔ اس طرح سے خدا نے یہ حقیقت واضح کی کہ اگر تمام انسان دعوت حق کو رد کر دیں تو ہماری مخلوقات ایسی موجود ہیں کہ آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔*     

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 181,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                     ★ *پوسٹ–130_* ★
                  *⚂_ _ سفر معراج __⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:"_ طائف کے تجربہ کے بعد گویا حضور ﷺ اس آخری امتحان سے گزر گئے۔ قانون الہٰی کے تحت ناگزیر تھا کہ اب نئے دور کے دروازے کھل جائیں اور طلوع سحر کی بشارت دی جائے۔ یہی بشارت دینے کے لیے حضور ﷺ کو معراج سے سرفراز کیا گیا۔*

*❀"_معراج کی حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ کو قرب الٰہی کا انتہائی بلند مقام نصیب کیا گیا۔ سابق انبیاء کو بھی موقع بہ موقع شرف دیا جاتا رہا تھا کہ وہ غیبی حقائق کا مشاہدہ کریں اور قرب خداوندی میں پہنچ کر عنایات خاص سے بہرہ مند ہوں۔ قرآن میں جہاں ایک طرف ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کو ملکوت السموات والارض کا مشاہدہ کرایا گیا تھا وہاں موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلایا گیا اور وہاں خداوند تعالیٰ نے ایک نور افگن درخت کی اوٹ سے "انی انا اللہ" کہہ کر ہم کلامی سے سرفراز کیا۔ اور پھر دوسرے موقع پر ایسے ہی لمحہ قرب میں شریعت کے احکام تفویض کئے ۔*

*❀"_ گویا کسی نہ کسی نوع کی معراج جلیل القدر انبیائے سلف کو بھی حاصل ہوتی رہی تھی۔ حضور کی معراج اپنے اندر شان کمال رکھتی ہے۔ واقعہ طائف اور ہجرت کے درمیان اس واقعہ سے زیادہ اہم اور ممتاز واقعہ کوئی دوسرا پیش نہیں آیا۔*

*❀"_ اس کی جب اطلاع آپ نے دی تو مکہ بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ آپ نے مجمع عام میں اپنے مشاہدات بیان کئے۔ بیت المقدس کا پورا نقشہ کھینچ دیا۔ راستے کی ایسی قطعی علامات بتائیں کہ جن کی بعد میں تصدیق ہو گئی۔ اس لمحہ قرب میں جو خاص وحی کی گئی وہی سورہ بنی اسرائیل کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے۔ اس سورہ کا آغاز ہی واقعہ اسراء کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ اور پھر پوری سورہ میں معراج کی روح رچی بسی ہے۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 182,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–131_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- طائف قریب تھا اور دور ہو گیا۔ یثرب ( مدینہ منورہ) دور تھا مگر قریب آگیا۔*

*❀"_ یثرب اس روز بالکل قریب آگیا جس روز (نبوت کے گیارہویں سال) چھ انقلابیوں کے ایک جتھے نے حضور ﷺ سے پیمان وفا باندھا۔ پھر دوسرے سال ۱۱٢ افراد نے تحریک اسلامی کی علمبرداری کے لیے باقاعدہ گفت و شنید کرکے پہلی بیعت عقبہ کی گرہ باندھی اور اسلامی توحید اور اخلاقی حدود کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے سر لی۔*

*❀"_ پھر حج کے موقع پر ایک بڑی جماعت حاضر ہوئی اور اس نے رات کی تاریکی میں ایک خفیہ مجلس کے اندر دوسری بیعت عقبہ استوار کی جو پوری طرح سیاسی روح سے مملو تھی۔ اسی میں حضور ﷺ کا ہجرت کر کے مدینہ منورہ جانا طے ہوا اور اس والہانہ پیش کش کے ساتھ طے ہوا کہ انصار مدینہ آپ کے لیے دنیا جہان سے لڑائی مول لینے کو تیار ہیں۔*

*❀"_ شاید یہی دور ---- سفر طائف تا ہجرت ہے, جس میں سورہ یوسف نازل ہوئی تھی اور جس نے حدیث دیگراں کے پردے میں علمبردار حق کو بشارت دی اور اس کے مخالفین کو ان کے گھٹیا اور ظالمانہ طرز عمل سے آگاہ کر کے ان کا انجام ان کے سامنے رکھ دیا۔*      

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 183,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–132_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ آخری بیعت عقبہ (یعنی ذی الحجہ ۱۳ بعد بعثت) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ اللہ عزو جل نے اب تمہارے لیے بھائی پیدا کر دیے ہیں اور ایک ایسا شہر فراہم کر دیا ہے جہاں تم امن سے رہ سکتے ہوں_," (ابن ہشام بحوالہ ابن اسحاق)*

*❀"_ یہ حکم ملتے ہی سب سے پہلے حضرت عامر بن ربیعہ العنزی اپنی بیوی لیلی بنت ابی حسمہ کے ساتھ لکلے۔ پھر حضرت عمار بن یاسر اور حضرت بلال اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے ہجرت کی، پھر حضرت عثمان بن عفان اپنی اہلیہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر مہاجرت کا ایک سلسلہ چل ۔ پڑا اور لوگ پے در پے اس نئے دارالہجرت کی طرف جانے گئے ، حتیٰ کہ پورے پورے کنبے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔*

*❀"_ رفقاء کو مدینہ بھیجنے کے باوجود آنحضور ﷺ نے اپنے مقام دعوت کو نہیں چھوڑا۔ اذن الہٰی کے منتظر رہے، اب کوئی مسلمان بھی مکہ میں نہیں رہا تھا، سوائے ایسے لوگوں کے جنہیں قریش نے روک رکھا تھا یا ابتلا میں ڈال رکھا تھا۔ البتہ رفقائے خاص میں حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما باقی تھے۔*

*❀"_ ان حالات میں قریش نے اندازہ کر لیا کہ اب جب کہ مسلمانوں کو ایک ٹھکانہ مل گیا ہے اور ایک ایک کر کے سب لوگ جاچکے ہیں، قریب ہے کہ محمد ﷺ بھی ہاتھ سے نکل جائیں۔ اور پھر ہمارے دائرہ اثر سے باہر رہ کر قوت پکڑیں اور سارا پچھلا حساب چک جائے۔ یہ لوگ مکہ کے پبلک حال دار الندوہ میں جمع ہوئے اور سوچنے لگ گئے کہ اب محمد ﷺ کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔*        

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 186,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                           
                     ★ *پوسٹ–133_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- مختلف رائے کے بعد ابو جہل نے یہ تجویز کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک مضبوط اور معزز نوجوان لیا جائے اور سب کو تلواریں دی جائیں۔ پھر یکبارگی اس (محمد ﷺ) پر حملہ کر کے کام تمام کر دیں۔ بس ہمیں اس طرح سے چھٹی مل سکتی ہے۔ اس طریقے سے محمدؐ کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف اتنے سارے قبائل سے بدلہ لینے کی جرأت نہ کر سکیں گے۔ بس اس پر اتفاق آراء ہو گیا اور یہ سازشی میٹنگ برخاست ہو گئی۔*

*❀"_ اسی میٹنگ کی کارروائی پر قرآن نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:۔ "_اور یاد کرو اس گھڑی کو جب کہ کفار تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید میں ڈالیں یا قتل کر دیں یا باہر نکال دیں۔ وہ اپنی سی تدبیر لڑاتے ہیں اور اللہ جواباً دوسری تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے"۔ (الانفال ۔ ۳۰)*

*"❀_ آنے والی پر اسرار رات سامنے تھی۔ حضور ﷺ اپنے محبوب ترین رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی‌اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ جاکر راز دارانہ طریق سے اطلاع دی کہ ہجرت کی اجازت آگئی ہے۔ جناب صدیق نے معیت کی درخواست کی جو پہلے سے قبول تھی۔ اس سعادت کے حصول پر فرط مسرت‌سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔*

*❀"_ انہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں پہلے سے خوب اچھی طرح فربہ کر رکھی تھیں پیش کش کی کہ حضور ﷺ دونوں میں سے جسے پسند فرمائیں ہدیہ ہے۔ مگر حضور ﷺ نے باصرار ایک اونٹنی (جس کا نام جدعاء تھا) قیمتاً لی۔*       

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 187,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
                     ★ *پوسٹ–134_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- رات ہوئی تو حضور ﷺ بحکم الہی اپنے مکان پر نہ سوئے۔ اور دوسرے محبوب ترین رفیق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر بلا خوف سو جانے کی ہدایت فرمائی۔ ساتھ ہی لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کیں کہ صبح کو یہ مالکوں کو ادا کر دی جائیں۔ اس اخلاق کی کتنی ایک مثالیں تاریخ کے پاس ہیں کہ ایک فریق تو قتل کی سازش کر رہا ہے۔ اور دوسرا فریق اپنے قاتلوں کو امانتوں کی ادائیگی کرنے کی فکر میں ہے۔*

*❀"_ پھر حضور ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے ۔ جناب اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا نے جلدی سے اپنا کمر بند پھاڑا اور ایک ٹکڑے میں کھانے کی پوٹلیاں باند ھیں اور دوسرے ٹکڑے سے مشکیزہ کا منہ باندھا_ دو مسافران حق کا یہ قافلہ رات کی تاریکی میں گامزن ہو گیا۔*

*❀"_ آج دنیا کا سب سے بڑا محسن و خیر خواہ (ﷺ) بغیر کسی قصور کے بے گھر ہو رہا تھا! محسن انسانیت ﷺ کلیجہ کٹا ہو گا، آنکھیں ڈبڈبائی ہوں گی، جذبات امڑے ہوں گے ، مگر خدا کی رضا اور بندگی کا مشن چونکہ اس قربانی کا بھی طالب ہوا اس لیے انسان کامل نے یہ قربانی بھی دے دی۔ آج مکہ کے پیکر سے اس کی روح نکل گئی تھی، آج اس چمن کے پھولوں سے خوشبو اڑی جارہی تھی، آج یہ چشمہ سوکھ رہا تھا۔ آج اس کے اندر سے با اصول اور صاحب کردار ہستیوں کا آخری قافلہ روانہ ہو رہا تھا۔*

*❀"_ دعوت حق کا پودا مکہ کی سرزمین سے اگا۔ لیکن اس کے پھلوں سے دامن بھرنا مکہ والوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پھل مدینہ والوں کے حصہ میں آئے، ساری دنیا کے حصہ میں آئے؟ مکہ والے آج دھکیل کر پیچھے ہٹائے جا رہے تھے ۔ اور مدینہ والوں کے لیے اگلی صف میں جگہ بنائی جارہی تھی۔ جو اپنے آپ کو اونچا رکھتے تھے ان کو پستی میں دھکیلنے کا فیصلہ ہو گیا اور جن کو مقابلتاً نچلے درجے پر رکھا جاتا تھا وہی لوگ اٹھا کر اوپر لائے جا رہے تھے۔*

*❀"_ حضور ﷺ نے آخری نگاہ ڈالتے ہوئے مکہ سے یہ خطاب فرمایا :: خدا کی قسم، تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے۔ اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب، اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا_," ترمذی اور مسند کی روایت ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت حضور ﷺ حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور بڑے درد کے ساتھ فرمایا ۔ (سیرت سرور عالم ج ۲ ص ۷۲۴)*    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 188,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                     
                     ★ *پوسٹ–135_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-چند لمحوں بعد حضور ﷺ غار ثور میں تھے۔ راستہ خود حضور ﷺ نے تجویز فرمایا تھا اور عبداللہ بن اریقط کو اجرت دے کر گائیڈ مقرر کیا۔ تین روز آپ غار میں رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ رات کو مکہ کی ساری خبریں پہنچا آتے۔ عامر بن فہیرہ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام) بکریوں کا ریوڑ لے کے اسی طرف نکلتے اور اندھیرا ہو جانے پر غار کے سامنے جا پہنچتے تا کہ دونوں مہاجر ضرورت کے مطابق دودھ لے لیں۔*

*❀"_ ادھر قریش نے حضور ﷺ کے مکان کا محاصرہ رات بھر رکھا۔ اور پورے شہر کی ناکہ بندی کا کڑا انتظام بھی کیا۔ مگر جب اچانک ان کو یہ معلوم ہوا کہ جس کی تلاش تھی وہ تو نکل گیا ہے، تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ حضور ﷺ کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پا کر بہت سٹپٹائے اور ان پر غصہ نکال کر چلے گئے۔*

*❀"_ تلاش کے لیے چاروں طرف آدمی دوڑائے، کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک گروہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے عین غار ثور کے دروازے پر آپہنچا۔ ان کے قدم اندر دکھائی دینے لگے۔ کتنا نازک تاریخی لمحہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تشویش ہوئی کہ اگر یہ لوگ غار میں داخل ہو گئے تو گویا پوری تحریک خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایسے لمحات میں صحیح انسانی فطرت کے اندر جیسا احساس پیدا ہونا چاہیے ، ٹھیک ایسا ہی احساس جناب صدیق کا تھا۔*

*"❀_ مگر چونکہ حضور ﷺ کے ساتھ حق تعالیٰ کے کچھ وعدے تھے اور اس کی طرف سے حفاظت و نصرت کی یقین دہانی تھی اس لیے پردہ غیب کے پیچھے تک دیکھنے والا دل جانتا تھا کہ خدا ہمیں صحیح سلامت رکھے گا۔ پھر بھی ٹھیک اسی طرح وحی سکینت نازل ہوئی جیسی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، ارشاد ہوا ۔"_ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا _," فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے (التوبہ ۴۰)۔*

*❀"_ چنانچہ آنے والا گروہ غار کے دہانے ہی سے واپس لوٹ گیا۔ تین روز غار میں رہنے کے بعد حضور ﷺ جناب صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں اپنے رہبر اور عامر بن فہیرہ کو لے کر نکلے۔ تعاقب سے بچنے کے لیے عام راستہ چھوڑ کر ساحل کا لمبا راستہ اختیار کیا گیا۔*.    

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 188,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                     ★ *پوسٹ–136_* ★
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ ادھر مکہ میں اعلان کیا گیا کہ دونوں مہاجروں میں سے جس کسی کو بھی کوئی شخص قتل کر دے یا گرفتار کر لائے، اس کے لیے سو اونٹ کا انعام ہے۔ لوگ برابر تلاش میں تھے,*

*"❀_ سراقہ بن مالک بن جعشم کو خبر ملی کہ ایسے ایسے دو آدمی ساحل کے راستہ پر دیکھے گئے ہیں۔ اس نے نیزہ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔ قریب آکر سراقہ جب تیزی سے جھپٹا تو اس کے گھوڑے کے اگلے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ سراقہ نے دو تین بار کی ناکام کوشش کے بعد عفو چاہی، نیز درخواست کی کہ ایک تحریر امان لکھ دیجئے۔ گویا اس نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ان ہستیوں کے طفیل ایک نیا دور نمودار ہونے والا ہے۔ امان لکھ دی گئی اور فتح مکہ کے دن کام آئی۔*

*❀"_ اسی موقع پر حضور ﷺ نے سراقہ کو ایک بشارت بھی دی کہ "اے سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہو گی جب تو کسریٰ کے کنگن پہنے گا“۔*
*"_یہ پیش گوئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں فتح ایران کے موقع پر پوری ہو گئی۔*

*❀"_ اسی سفر میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کاروان تجارت کے ساتھ شام سے واپس آتے ہوئے ملاقی ہوئے۔ انہوں نے حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں کی خدمت میں سفید لباس ہدیہ کیا۔*
*"_ اسی سفر میں بریدہ اسلمی بھی ستر ہمراہیوں کے ساتھ سامنے آئے۔ یہ بھی درحقیقت انعام کے لالچ میں نکلے تھے۔ جب سامنا ہوا تو بریدہ کے دل کی کایا پلٹ گئی۔ تعارفی گفتگو ہی میں جب حضور ﷺ نے ایک کلمہ بشارت "خرج سهمک" (تیرا حصہ نکل آیا) فرمایا تو بریدہ مع ستر ساتھیوں کے ایمان لے آئے،*

*❀"_ پھر بریدہ رضی اللہ عنہ نے یہ خواہش کی کہ حضور ﷺ مدینہ میں داخلے کے وقت آپ کے آگے آگے ایک جھنڈا ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے اپنا عمامہ نیزے پر باندھ کر بریدہ کو دیا اور اس جھنڈے کو لہراتے ہوئے یہ قافلہ دارالہجرت میں داخل ہوا۔*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 189,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DeZ80Gay7LWExbH7ceZOBF
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
 https://chat.whatsapp.com/LV8KS9l627sKt8cJMIcdqC
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

 
Top