⚂⚂⚂. ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁ ✮┣ ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮ ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*■ محسن انسانیت ﷺ ■* ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
★ *پوسٹ–01_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-ایک جھلک:-” یہ چہرہ ایک جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔" (عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ)*
*❀_"_دنیا میں عظیم کارنامے انجام دینے والی ہستیاں (خصوصاً انبیاء علیہم السلام) ہمیشہ غیر معمولی درجے کی شخصیتوں سے آراستہ ہوتی ہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ کی ایک غایت یہ بھی ہے کہ محسن انسانیت کی شخصیت کو سمجھا جاۓ۔ کسی بھی شخصیت کو سمجھنے میں اس کی وجاہت بہت بڑی مدد دیتی ہے۔ آدمی کا سراپا اس کے بدن کی ساخت اس کے اعضاء کا تناسب خاص اس کے ذہنی اور اخلاقی اور جذباتی مرتبے کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خصوصاً چرہ ایک ایسا قرطاس ہوتا ہے جس پر انسانی کردار اور کارناموں کی ساری داستان لکھی ہوتی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی ہم کسی کے مقام کا تصور کر سکتے ہیں۔*
*❀__ ہم بعد کے لوگوں کی یہ کو تاہی قسمت ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان کا روے زیبا ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہم عالم واقعہ میں سر کی آنکھوں سے زیارت کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم حضور ﷺ کے حسن و جمال کی جو کچھ بھی جھلک پا سکتے ہیں وہ حضور ﷺ کے پیغام اور کارنامے کے آئینے ہی میں پاسکتے ہیں۔*
*❀__حضور کی کوئی حقیقی شبیہ یا تصویر موجود نہیں ہے۔ خود ہی حضور ﷺ نے امت کو اس سے باز رکھا۔ کیونکہ تصویر کا فتنہ شرک سے دور نہ رہ سکتا۔ حضور ﷺ کی اگر کوئی تصویر موجود ہوتی تو نہ جانے اس کے ساتھ کیا کیا کرامات اور اعجاز منسوب ہو جاتے۔ اور اس کے اعزاز کے لیے کیسی کیسی رسمیں اور تقریبیں نمودار ہو چکی ہوتیں بلکہ بعید نہ تھا کہ اس کی پرستش ہونے لگتی۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 75,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕 *
★ *پوسٹ–02_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ لیکن حضور ﷺ کے صحابیوں نے کم سے کم الفاظ میں حضور ﷺ کی شبیہ کو مرتب کر دیا ہے اور اسے محفوظ حالت میں اصحاب روایت نے ہم تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں ہم اس لفظی شبیہ کو پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین حضور ﷺ کے کردار کا مطالعہ کرنے سے پہلے اس عظیم شخصیت کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ یہ گویا ایک نوع کی ملاقات ہے ۔۔۔ ایک تعارف!*
*❀__ حضور کے چہرہ اقدس، قد و قامت خد و خال چال ڈھال اور وجاہت کا جو عکس صدیوں کے پردوں سے چھن کر ہم تک پہنچتا ہے وہ بہرحال ایک ایسی شخصیت کا تصور دلاتا ہے جو ذہانت، شجاعت، صبر و استقامت، راستی و دیانت، عالی ظرفی سخاوت فرض شناسی وقار و انکسار اور فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف حمیدہ کا جامع تھا، بلکہ کہنا چاہیے کہ حضور کے جسمانی نقشے میں روح نبوت کا پر تو دیکھا جا سکتا ہے۔ اور آپ کی وجاہت خود آپ کے مقدس مرتبہ کی ایک دلیل تھی۔*
*❀__ اس موقع پر آپ کا ایک ارشاد یاد آیا۔ فرمایا ۔ خدا کا تقویٰ ہی چہروں کو روشن کرتا ہے۔ نبوت تو ایمان و تقویٰ کی معراج ہے۔ نبی ﷺ کا چہرہ تو نور افشاں ہونا ہی چاہیے۔ سو یہ ہے اس آفتاب حق کی ایک جھلک!*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 75,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–03_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ وجاہت:-*
*❀__میں نے جونہی حضور ﷺ کو دیکھا تو فورا سمجھ لیا کہ آپ کا چہرہ ایک جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ (عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ) میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر حاضر ہوا تو لوگوں نے دکھایا کہ یہ ہیں خدا کے رسول ! دیکھتے ہی میں نے کہا۔ واقعی یہ اللہ کے نبی ہیں_" ( شمائل ترمذی)*
*❀_ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہود کے ایک بڑے عالم تھے جن کا نام حصین تھا۔ سرور عالم ﷺ کے مدینے آنے پر یہ دیکھنے کو گئے دیکھتے ہی ان کو جو تاثر ہوا۔ بعد میں اسے انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ایمان لاۓ اور عبداللہ نام تجویز ہوا۔ (سيرة المصطفی از مولینا محمد ادریس کاندھلوی مرحوم (ج ۱ ص ۳۴۹- ۳۵۰)*
*❀_ مطمئن رہو، میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا، وہ کبھی تمہارے ساتھ بد معاملگی کرنے والا شخص نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا آدمی (اونٹ کی رقم) ادا نہ کرے تو میں اپنے پاس سے ادا کر دوں گی_," (ایک معزز خاتون)*
*❀__ مدینہ میں ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ حضور ﷺ کا اتفاقاً اس طرف گزر ہوا۔ ایک اونٹ کا سودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ ساتھ لے آۓ کہ قیمت بھجواۓ دیتا ہوں، بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی کہ بغیر جان پہچان کے معاملہ کر لیا۔ اس پر سردار قافلہ کی خاتون نے مذکورہ فقرہ کہا۔ یہ واقعہ طارق بن عبداللہ نے بیان کیا جو خود شریک قافلہ تھے بعد میں حضور ﷺ نے طے شدہ قیمت سے زیادہ مقدار میں کھجوریں بھجوا دیں۔ (سیرت النبی مولانا شبلی مرحوم جلد دوم ص ۳۸۰)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 76,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕 *
★ *پوسٹ–04_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ہم نے ایسا خوب رو شخص اور نہیں دیکھا . ...... ہم نے اس کے منہ سے روشنی سی نکلتی دیکھی ہے"۔ (ابو قرصافہ کی والدہ اور خالہ)۔*
*❀_"_”حضور ﷺ سے زیادہ خوب رو کسی کو نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا گویا آفتاب چمک رہا ہے" (ابو ہریرہ)*.*"_اگر تم حضور ﷺ کو دیکھتے تو سمجھتے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے"۔ (ربیع بنت معوذ)* *”_دیکھنے والا پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا_," (حضرت علی)*
*❀_”_میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور ﷺ کو دیکھ رہا تھا آپ اس وقت سرخ جوڑا زیب تن کئے ہوۓ تھے۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی آپ کو بالآخر میں اس فیصلے پر پہنچا کہ حضور اکرم ﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں_" (حضرت جابر بن سمرہ)*
*❀_”_خوشی میں حضور ﷺ کا چہرہ ایسا چمکتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ اس چک کو دیکھ کر ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے_," (کعب بن مالک)**"_ چہرے پر چاند کی سی چمک تھی_," (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__چہره --*
*"_”بدر کی طرح گولائی لیے ہوۓ ۔ (براء بن عازب)*
*"_ چہرہ بالکل گول نہیں تھا۔ ہلکی گولائی لئے ہوۓ_," (حضرت علی)*
*"_پیشانی کشادہ ۔ ابرو خمدار --- باریک اور گنجان_ (دونوں جدا جدا۔ دونوں کے درمیان میں ایک رگ کا ابھار جو غصہ آنے پر نمایاں ہو جاتا_," (ہند بن ابی ہالہ )*
*"_ مسرت پیشانی سے جھلکتی تھی" (کعب بن مالک)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 77,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕 *
*پوسٹ–05_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─*
❥❥_:---- رنگت ۔*
*❀_"_نہ چونے کی طرح سفیدی۔ نہ سانولا پن ۔ گندم گوں جس میں سفیدی غالب تھی_," (حضرت انس رضی اللہ عنہ)*
*”_سفید سرخی مائل_," (حضرت علی رضی اللہ عنہ)*
*”_سفید مگر ملاحت دار“۔ (ابوالطفیل رضی)*
*"_ گویا کہ چاندی سے بدن دھلا ہوا تھا_," (حضرت ابو ہریرہ رضی)*
*"سفید --- چمک دار“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__ آنکھیں:-"*
*”_آنکھیں سیاہ --- پلکیں دراز"۔ (حضرت علی رضی)**”_ پتلیاں سیاہ ---- نظریں نیچی --- گوشہ چشم سے دیکھنے کا حیادارانہ انداز" (ہند بن ابی ہالہ )**”_سفید حصے میں سرخ ڈورے ---- آنکھوں کا خانہ لمبا۔۔۔۔ قدرتی سرمگیں“۔ (جابر بن سمرہ)*
*❀__ناک__,*
*”_بلندی مائل ۔۔۔۔ اس پر نورانی چمک ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ابتدائی نظریں بڑی معلوم ہوتی“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__ رخسار ------,*
*"_ہموار اور ہلکے ۔۔۔۔ نیچے کو ذرا سا گوشت ڈھلکا ہوا"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__دہن ( منہ) ۔*
*"_ فراخ ۔۔۔!" (جابر بن سمره)*
*”_ بہ اعتدال فراخ _," (ہند بن ابی ہالہ)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 77,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–06_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دندان مبارک --------,*
*❀_"_ باریک ----- آبدار ۔۔۔۔ سامنے کے دانتوں میں خوش نما ریخیں“ (حضرت ابن عباس رضی)**"_ تکلم فرماتے تو دانتوں سے چمک سی نکلتی ہوئی“ (حضرت انس رضی)*
*❀__ ریش :-*
*"_بھر پور اور گنجان بال_," (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__گردن ۔۔,*
*"_ پتلی لمبی ۔۔۔ جیسے مورتی کی طرح خوب صورتی سے تراشی گئی ہو۔۔۔ گردن کی رنگت چاندی جیسی اجلی اور خوشنما۔" (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__ سر __,*
*"_ بڑا ۔۔۔ مگر اعتدال اور مناسبت کے ساتھ"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__ بال :-*
*"_ قدرے خم دار " (حضرت ابو ہریرہ رضی)*
*”نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے ---- نہ زیادہ پیچ دار"۔ ( قتادہ رضی)*
*”_ہلکل خم لیے ہوۓ_," (حضرت انس رضی)*
*"_گنجان ۔۔۔ کبھی کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک" (براء بن عازب رضی)**”_درمیان سے نکلی ہوئی مانگ“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀_”_بدن پر بال زیادہ نہ تھے ۔ ۔۔۔۔۔ سینہ سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر“۔ (حضرت علی۔ ہند بن ابی ہالہ)**"_ کندھوں بازوؤں اور سینہ کے بالائی حصہ پر تھوڑے سے بال تھے_," (ہند بن ابی ہالہ)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 78,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–07_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:--مجموعی ڈھانچہ ---------،*
*❀__"_ بدن گٹھا ہوا ۔۔۔۔ اعضاء کے جوڑوں کی ہڈیاں بڑی اور مضبوط"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*"_ بدن موٹا نہیں تھا"۔ (حضرت علی رض)**"_ قد --- نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ! میانہ". (حضرت انس رضی)*
*"_ قامت مائل بہ درازی! ۔۔۔۔ مجمع میں ہوں تو دوسروں سے قد نکلتا ہوا معلوم ہو_," (برا بن عازب)*
*❀__"_پیٹ باہر کو نکلا ہوا نہ تھا _," (ام معبد)*
*"_ دنیوی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے والوں سے حضور ﷺ کا جسم (باوجود فقر و فاقہ کے) زیادہ ترو تازہ اور توانا تھا_," (المواہب ج ۱ ص۳۱۰)*
*❀__"_مشہور واقعہ ہے کہ حضور ﷺ نے عمرہ کیا تو سو اونٹ بہ نفس نفیس ہانکے اور ان میں سے ٦٣ کو بدست خود نحر کیا اور بقیہ کو حضرت علی کے سپرد کیا_,"*
*❀__”_میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی بہادر اور زور آور نہیں دیکھا۔" (ابن عمر رضی)*
*❀__"_ مکہ میں رکانہ نامی ایک پہلوان تھا جو اکھاڑوں میں کشتیاں لڑتا۔ ایک دن حضور ﷺ کسی ملحقہ وادی میں اس سے ملے اور اپنی دعوت دی۔ اس نے دعوت کے لیے کوئی معیار صدق طلب کیا۔ اس کے ذوق کے پیش نظر حضور ﷺ نے کشتی کرنا پسند کر لیا۔ تین بار کشتی ہوئی اور تینوں بار آپ ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا۔ اسی رکانہ پہلوان کے بیٹے ابو جعفر محمد کی یہ روایت حاکم نے مستدرک میں لی ہے، اور ابو داؤد اور ترمذی نے اسے پیش کیا ہے اور بہیقی نے سعید بن جبیر کی دوسری روایت کی ہے جس میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے بعض دوسرے لوگوں کو بھی کشتی میں پچھاڑا ہے جن میں ایک ابوالاسود جمعی بھی ہے_," (المواہب -ج ۱ ص ۳۔ ۳۰۲)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 78,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–08_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:--- کندھے اور سینہ :۔*
*❀__"_سینہ چوڑا - سینہ اور پیٹ ہموار“۔ (ہند بن ابی ہالہ)**"_ سینہ چوڑا“۔ (براء بن عازب)**"_مونڈھوں کا درمیانی فاصلہ عام پیمانے سے زیادہ"۔ (ہند بن ابی ہالہ۔ براء بن عازب)**"_ کندھوں کا درمیانی حصہ پر گوشت"۔ ' (حضرت علی رض)*
*❀___بازو اور ہاتھ :-*
*”_ کلائیاں دراز ۔۔۔ ہتھیلیاں فراخ ۔۔۔۔ انگلیاں موزوں حد تک دراز“۔ (ہند بن ابی ہالہ)**"_ ریشم کا دبیزیا بار یک کوئی کپڑا یا کوئی اور چیز ایسی نہیں جسے میں نے چھوا ہو اور وہ حضور ﷺ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و گداز ہو۔ (حضرت انس رضی)*
*❀___قدم :-*
*"_پنڈلیاں پر گوشت نہ تھیں ۔۔۔۔ ہلکی ہلکی شتی ہوئی_," (جابر بن سمرة)**”_ہتھیلیاں اور پاؤں پر گوشت - تلوے قدرے گہرے ۔۔۔۔۔ قدم چکنے کہ پانی نہ ٹھہرے_," (ہند بن ابی ہالہ)**"_ایڑیوں پر گوشت بہت کم".(جابر بن سمرة)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 80,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–09_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ ایک جامع لفظی تصویر :-*
*❀__"_یوں تو حضور ﷺ کے متعدد رفقاء نے حضور ﷺ کی شخصیت کے مرقعے لفظوں میں پیش کئے ہیں لیکن ام معبد نے جو تصویر مرتب کی ہے اس کا جواب نہیں،*
*❀__"_ وادی ہجرت کا سفر طے کرتے ہوۓ مسافر حق جب اپنیمنزل اول (غار ثور) سے چلا تو پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی اس نیک نہاد بڑھیا کا خیمہ راہ میں پڑا۔ حضور ﷺ اور آپ کے ہمراہی پیاسے تھے۔ فیضان خاص تھا کہ مریل سی بھوکی بکری نے اس لمحہ وافر مقدار میں دودھ دیا۔ حضور ﷺ نے بھی پیا ہمراہی نے بھی اور اور کچھ بچ رہا،*
*❀___ ام معبد کے شوہر نے گھر آکر دودھ دیکھا تو اچنبھے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا۔ ام معبد نے سارا حال بیان کیا۔ وہ پوچھنے لگا کہ اچھا اس قریشی نوجوان کا نقشہ تو بیان کرو۔ یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے۔ اس پر ام معبد نے حسین ترین الفاظ میں تصویر کھینچی ۔ ام معبد کو نہ تو کوئی تعارف تھا۔ نہ کسی طرح کا تعصب بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا۔ اصل عربی میں دیکھنے کی چیز ہے (ملاحظہ ہو: زاد المعاد جلد۱ ص ۳۰۷) اس کا جو ترجمہ مولف ” رحمتہ للعالمین ﷺ" نے کیا ہے اس کو ہم یہاں لے رہے ہیں۔*
*❀__"_جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:-*
*"ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے - (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) - نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی - اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے - وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے - بال نہایت سیاہ تھے - وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے - ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی - اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے - سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -" (زاد المعاد جلد۱ ص ۳۰۷)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 80,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–10_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-"_لباس:--*
*❀__آدمی کی شخصیت کا واضح اظہار اس کے لباس سے بھی ہوتا ہے, اس کی وضع قطع، قصر و طول رنگ معیار' صفائی اور ایسے ہی مختلف پہلو بتا دیتے ہیں کہ کسی لباس میں ملبوس شخصیت کس ذہن و کردار سے آراستہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے لباس کے بارے میں حضور ﷺ کے رفقاء نے جو معلومات دی ہیں وہ بڑی حد تک حضور ﷺ کے ذوق کو نمایاں کر دیتی ہیں۔*
*❀__ حضور ﷺ نے لباس کے معاملہ میں در حقیقت اس آیت کی عملی شرح پیش فرمائی ہے:- يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ _, ( اعراف، ۲٦)**"_ اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے ستر ڈھانکنے والا اور تمہیں زینت دینے والا لباس تمہارے لیے مقرر کیا ہے۔ اور لباس تقویٰ بهترین لباس ہے_,"*
*❀__ سو حضور ﷺ کا لباس ساتر تھا، زینت بخش تھا اور بائیں ہمہ لباس تقویٰ تھا۔ اس میں ضرورت کا بھی لحاظ تھا۔ وہ چند کڑے اخلاقی اصولوں کی پابندی کا مظہر بھی تھا اور ذوق سلیم کا ترجمان بھی۔حضور ﷺ کو کبر و ریا سے بعد تھا۔ اور ٹھاٹھ باٹھ سے رہنا پسند نہ تھا۔*
*❀__ فرمایا:- میں تو بس خدا کا ایک بندہ ہوں اور بندوں کی طرح لباس پہنتا ہوں_," ریشم دیبا اور حریر کو مردوں کے لیے آپ نے حرام قرار دیا۔ ایک بار تحفہ میں آئی ہوئی ریشمی قبا پہنی اور پھر فوراً اضطراب کے ساتھ اتار پھینکی (مشکوۃ)،*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 81,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–11_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ تہ بند، قمیض اور عمامہ کی لمبائی چو نکہ علامت کبر تھی اور یہ طریق لباس متکبرین میں رائج تھا، اس لیے اس سے سخت تنفر تھا۔ • ( بہت سی روایات ہیں، مثلاً سالم کی روایت اپنے والد سے، مندرجہ ابو داؤر' نسائی، ابن ماجہ، لباس شهرت پر وعید از ابن عمر۔ مندرجہ ترندی۔ احمد ، ابو داؤد. ابن ماجہ _,"*
*❀___ دوسری قوموں خصوصاً مذہبی طبقوں کے مخصوص فیشنوں کی تقلید اور نقالی کو بھی حضور نے ممنوع ٹھرایا_," ( مثلاً روایت ابن عمر مندرجہ احمد و ابو داؤد) تا کہ امت میں اپنی خودی اور عزت نفس برقرار رہے، نیز فیشن اور لباس کی تقلید نظریات و کردار کی تقلید پیدا کرنے کا سبب نہ بن سکے،*
*❀__ چنانچہ حضور ﷺ نے اسلامی تمدن کے تحت فیشن، آداب اور ثقافت کا ایک نیا ذوق پیدا کر دیا۔ لباس میں موسمی تحفظ ستر، سادگی نظافت و نفاست اور وقار کا حضور ﷺ کو خاص لحاظ تھا۔ اب ہم حضور ﷺ کے لباس پر ایک نگاہ ڈالیں،:-*
*❀__ کرتا (قمیض) بہت پسند تھا۔ کرتے کی آستین نہ تنگ رکھتے نہ زیادہ کھلی۔ درمیانی ساخت پسند تھی۔ آستین کلائی اور ہاتھ کے جوڑ تک پہنچتی۔ سفر (خصوصاً جہاں) کے لئے جو کرتا پہنتے اسکے دامن اور آستین کا طول ذرا کم ہوتا۔ قمیض کا گریبان سینہ پر ہو تا جسے کبھی کبھار (موسمی تقاضے سے) کھلا بھی رکھتے اور اسی حالت میں نماز پڑھتے،*
*❀__ کرتا پہنتے ہوۓ سیدھا ہاتھ ڈالتے پھر الٹا۔ رفیقوں کو اس کی تعلیم دیتے۔ داہنے ہاتھ کی فوقیت اور اچھے کاموں کیلئے داہنے ہاتھ کا استعمال حضور ﷺ کی سکھائی ہوئی اسلامی ثقافت کا ایک اہم عنصر ( بنیاد) ہے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 82,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–12_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- عمر بھر تہ بند (لنگی) استعمال فرمایا، جسے ناف سے ذرا نیچے باندھتے اور نصف ساق تک (نخنوں سے ذرا اونچا) سامنے کا حصہ قدرے زیادہ جھکا رہتا۔*
*★_ پاجامہ ( سراویل) دیکھا تو پسند کیا۔ آپ ﷺ کے صحابی پہنتے تھے ایک بار خود خرید فرمایا (اختلاف ہے کہ پہنا یا نہیں) اور وہ آپ کے ترکہ میں موجود تھا۔ اس کی خریداری کا قصہ دلچسپ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے ہوۓ حضور ﷺ بازار گئے اور بزازوں کے ہاں تشریف لے گئے۔ چار درہم پر پاجامہ خریدا۔ بازار میں اجناس کو تولنے کے لیے ایک خاص وزان مقرر تھا۔ وزن کرانے گئے اور اس سے کہا کہ اسے جھکتا ہوا تو لو، وزان کنے لگا کہ یہ الفاظ میں نے کسی اور سے کبھی نہیں سنے۔*.
*★_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے توجہ دلائی۔ تم اپنے نبی پاک کو پہچانے نہیں ؟ ۔ وہ ہاتھ چومنے کو بڑھا تو آپ ﷺ نے روکا کہ یہ عجمیوں کا (یعنی غیر اسلامی) طریقہ ہے, بہرحال وزن کرایا اور پاجامہ خرید کر لے چلے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ اسے پہنیں گے ؟ تعجب غالباً اس بنا پر ہوا ہو گا کہ ایک تو دیرینہ معمول میں ایسی نمایاں تبدیلی عجیب لگی۔ دوسرے پاجامہ اہل فارس کا پہناوا تھا۔ اور تشبہ سے حضور ﷺ کو اجتناب تھا (حالانکہ دوسرے تمدنوں کے اچھے اجزا کو حضور ﷺ قبول فرماتے تھے) آپ نے جواب دیا: "ہاں پہنوں گا۔ سفر میں بھی، حضر میں بھی، دن کو بھی رات کو بھی۔ کیونکہ مجھے حفظ ستر کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے زیادہ ستر پوش لباس کوئی نہیں۔"**®_( المواہب ج 1 ص ۶ - ۳۳٦)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 82,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–13_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_سر پر عمامہ باندھنا خاص پسند تھا، نہ بہت بھاری ہوتا تھا۔ نہ چھوٹا۔ ایک روایت کے لحاظ سے، گز لمبائی ہوتی تھی۔ عمامہ کا شملہ بالشت بھر ضرور چھوڑتے جو پیچھے کی جانب دونوں شانوں کے درمیان اڑس لیتے۔ تمازت آفتاب سے بچنے کے لیے شملہ کو پھیلا کر سر پر ڈال لیتے۔ اسی طرح موسمی حالات تقاضا کرتے تو آخری پل ٹھوڑی کے نیچے سے لے کر گردن کے گرد لپیٹ بھی لیتے۔ کبھی عمامہ نہ ہو تا تو کپڑے کی ایک رهجی (رومال) پٹی کی طرح سرسے باندھ لیتے. ” ( ایک رائے یہ ہے کہ ایسا بیاری خصوصاً درد سر کی حالت میں ہوا)*
*❀___ عمامہ کو تیل کی چکنائی سے بچانے کے لیے ایک خاص کپڑا (عربی نام قناع) بالوں پر استعمال کرتے، ۔ سفید کے علاوہ زرد ( غالباً مٹیلا، خاکستری مائل یا ستری) رنگ کا عمامہ بھی باندھا ہے۔ اور فتح مکہ کے موقع پر سیاہ بھی استعمال فرمایا۔*.
*❀___ عمامہ کے نیچے کپڑے کی ٹوپی بھی استعمال میں رہی۔ اور اسے پسند فرمایا۔ نیز روایات میں ہے کے عمامہ کے ساتھ ٹوپی کا یہ استعمال گویا اسلامی ثقافت کا مخصوص طرز تھا اور اسے آپ ﷺ نے مشرکین کے مقابلے پر امتیازی فیشن قرار دیا۔*
*❀___ عمامہ کے علاوہ کبھی خالی سفید ٹوپی بھی اوڑھتے ۔ گھر میں اوڑھنے کی ٹوپی سر سے چپٹی ہوئی ہوتی۔ سفر پر نکلتے تو اٹھی ہوئی باڑ والی ٹوپی استعمال فرماتے۔ سوزنی نما سلے ہوئے کپڑے کی دبیز ٹوپی بھی پہنی ہے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 83,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–14_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- اوڑھنے کی چادر ۴ گز لمبی سوا دو گز چوڑی ہوتی تھی۔ کبھی لپیٹ لیتے کبھی ایک پلو سیدھے بغل سے نکال کر الٹے کندھے پر ڈال لیتے، یہی چادر کبھی کبھار بیٹھے ہوئے ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیتے اور بعض مواقع پر اسے تہ کر کے تکیہ بھی بنا لیتے۔ معزز ملاقاتیوں کی تواضع کے لیے چادر اتار کر بچھا بھی دیتے۔ یمن کی چادر جسے جبرہ کہا جاتا تھا بہت پسند تھی، اس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے لیے سیاہ چادر (غالباً بالوں کی) بھی بنوائی گئی اسے اوڑھا تو پسینے کی وجہ سے بو دینے لگی۔ چنانچہ نظافت کی وجہ سے پھر اسے نہیں اوڑھا۔*
*❀_ نیا کپڑا خدا کی حمد اور شکر کے ساتھ بالعموم جمعہ کے روز پہنتے۔ فاضل جوڑے بنوا کر نہیں رکھتے تھے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے۔ ان کی مرمت کرتے، احتیاطاً گھر میں دیکھ لیتے کہ مجمع میں بیٹھنے کی وجہ سے (مجالس اور نمازوں میں میلے کچیلے لوگ بھی آتے تھے اور صفائی کا عام معیار بھی آپ ﷺ ہی نے مسلسل تربیت کر کر کے برسوں میں بلند کیا) کوئی جوں وغیرہ نہ آگسھی ہو۔*
*❀"_ جہاں ایک طرف فقر و سادگی کی وہ شان تھی۔ وہاں دوسری طرف آپ کو رہبانیت کا سدباب بھی کرنا تھا اور اس اصول کا مظاہرہ بھی مطلوب تھا کہ ”اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت (رزق) کا اثر اس کے بندے سے عیاں ہو،_," مختصر یہ کہ معمول عام سادگی تھا, سو حضور ﷺ نے کبھی کبھار اچھا لباس بھی زیب بدن فرمایا ۔ آپ ﷺ کا مسلک اعتدال تھا اور انتہا پسندی سے امت کو بچانا مطلوب تھا۔*
*❀_کپڑوں کے لیے سب سے بڑھ کر سفید رنگ مرغوب خاطر تھا۔ فرمایا ”حق یہ ہے کہ تمہارے لیے مسجدوں میں بھی اللہ کے سامنے جانے کا بہترین لباس سفید لباس ہے_," ( ابو داؤد، ابنِ ماجہ)*
*"_ فرمایا ۔ سفید کپڑے پہنا کرو اور سفید ہی کپڑے سے اپنے مردوں کو کفن دو کیونکہ یہ زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہیں_," ( عن سمرہ ( احمد) ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 83,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–15_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- سفید کے بعد سبز رنگ بھی پسندیدہ تھا۔ لیکن بالعموم اس شکل میں کہ ہلکی سبز دھاریاں ہوں۔ اس طرح خالص شوخ سرخ رنگ بہت ہی ناپسند تھا (لباس کے علاوہ بھی اس کے استعمال کو بعض صورتوں میں ممنوع فرمایا) لیکن ہلکے سرخ رنگ کی دھاریوں والے کپڑے آپ ﷺ نے پہنے، ہلکا زرد (مٹیالا یا شتری) رنگ بھی لباس میں دیکھا گیا۔*
*❀__ حضور ﷺ کا جوتا مروجہ عربی تمدن کے مطابق چپل یا کھڑاؤں کی سی شکل کا تھا، جس کے دو تسمے تھے۔ ایک انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کے درمیان رہتا۔ دوسرا چھنگلیا اور اس کے ساتھ والی انگلی کے بیچ میں۔ جوتے پر بال نہ ہوتے تھے۔ یہ ایک بالشت ۲ انگل لمبا تھا، تلوے کے پاس سے سات انگل چوڑا اور دونوں تسموں کے درمیان پہنچے پر سے دو انگل کا فاصلہ تھا۔*
*❀__ کبھی کھڑے ہو کر پہنتے، کبھی بیٹھ کر بھی، پہنتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں ڈالتے پھر بایاں اور اتارتے ہوۓ پہلے بایاں پاؤں نکالتے پھر دایاں۔*
*❀__ جرابیں اور موزے بھی استعمال میں رہے۔ سادہ اور معمولی بھی اور اعلی قسم کے بھی۔ شاہ نجاشی نے سیاہ رنگ کے سادہ موزے بطور تحفہ بھیجے تھے۔ انہیں پہنا اور ان پر مسح فرمایا ۔ دحیہ کلبی نے بھی موزے تحفہ میں پیش کئے تھے، ان کو آپ نے گھٹنے تک استعمال فرمایا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 83,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–16_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ چاندی کی انگوٹھی بھی استعمال فرمائی، جس میں کبھی چاندی کا نگینہ ہوتا تھا کبھی حبشی پتھر کا، بعض روایات میں آتا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پر چاندی کا پتر یا پالش چڑھا ہوا تھا۔ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ لوہے کی انگوٹھی (اور زیور) سے آپ نے کراہت فرمائی ہے۔*
*❀_ انگوٹھی بالعموم داہنے ہی ہاتھ میں پہنی۔ کبھی کبھار بائیں میں بھی۔ درمانی اور شہادت کی انگلی میں نہ پہنتے۔ چھنگلیا میں پہننا پسند تھا۔نگینہ اوپر کی طرف رکھنے کی بجاۓ ہتھیلی کی طرف رکھتے ۔ انگوٹھی پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ ترتیب وار نیچے سے اوپر کو تین سطروں میں کندہ تھے۔ اس سے حضور ﷺ خطوط پر مہر لگاتے تھے۔
*❀__ محققین کی یہ راۓ قرین صحت ہے کہ انگوٹھی مہر کی ضرورت سے بنوائی تھی۔ اور سیاسی منصب کی وجہ سے اس کا استعمال ضروری تھا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 85,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–17_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ وضع قطع اور آرائش:-*
*❀__ حضور ﷺ اپنے بال بہت سلیقے سے رکھتے، ان میں کثرت سے تیل کا استعمال فرماتے، کنگھا کرتے مانگ نکالتے، لبوں کے زائد بال تراشنے کا اہتمام تھا۔ اس معاملہ میں رفقاء کو تربیت دیتے۔ مثلاً ایک صحابی کو پراکنده مو دیکھا تو گرفت فرمائی۔ ایک صحابی کی ڈاڑھی کے بے ڈھب بال دیکھ کر فرمایا کہ ان کو سنوار کر رکھو۔*
*❀__ فرمایا کہ جو شخص سر یا ڈاڑھی کے بال رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ان کو سلیقے اور شائستگی سے رکھے۔ مثلاً ابو قتادہ کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا "ان کو سنوار کے رکھو_," (روایت ابو ہریرہ -ابو داؤد)*
*❀__ یہ تاکید یں حضور ﷺ نے اس لیے فرمائی تھیں کہ بسا اوقات مذہبی لوگ صفائی اور شائستگی کے تقاضوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً رنگ تصوف جب بڑھتا ہے اور رہبانیت ابھرتی ہے تو غلیظ اور غیر شائستہ رہنا علو مرتبت کی دلیل بن جاتا ہے۔ اس خطرے کا سد باب فرمایا ۔*
*❀__ سفر و حضر میں سات چیزیں ہمیشہ ساتھ رہتیں اور بستر کے قریب -(۱) تیل کی شیشی (٢) کنگھا (ہاتھی دانت کا بھی) (۳) سرمہ دانی (سیاہ رنگ کی) (۳) قیچی (۵) مسواک (٦) آئینہ (٧) لکڑی کی ایک پتلی کھبچی۔*
*❀__ سرمہ رات کو سوتے ہوۓ (تا کہ زیادہ نمایاں نہ ہو) تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگاتے۔ آخر شب میں حاجات سے فارغ ہو کر وضو کرتے لباس طلب فرماتے اور خوشبو لگاتے، ریحان کی خوشبو پسند تھی۔ مہندی کے پھول بھی بھینی خوشبو کی وجہ سے مرغوب تھے۔ مشک اور عود کی خوشبو سب سے بڑھ کر پسندیدہ رہی۔ گھر میں خوشبودار دھونی لیا کرتے، ایک عطر دان تھا جس میں بہترین خوشبو موجود رہتی اور استعمال میں آتی*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 85,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–18_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے دست مبارک سے خوشبو لگاتیں، مشہور بات ہے کہ آپ جس کوچے سے گزر جاتے تھے، دیر تک اس میں مہک رہتی تھی اور فضائیں بتاتی تھیں کہ "گزر گیا ہے ادھر سے وہ کاروان بہار“۔*
*❀_خوشبو ہدیہ کی جاتی تو ضرور قبول فرماتے اور کوئی اگر خوشبو کا ہدیہ لینے میں تامل کرتا تو ناپسند فرماتے۔ اسلامی ثقافت کے مخصوص ذوق کے ماتحت آپ نے مردوں کے لیے ایسی خوشبو پسند فرمائی جس کا رنگ مخفی رہے اور مہک پھیلے اور عورتوں کے لیے وہ جس کا رنگ نمایاں ہو، مہک مخفی رہے۔*
*❀__رفتار:-*
*❀_حضور ﷺ کی چال عظمت و وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی۔ چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے۔ ڈھیلے ڈھالے طریق سے قدم گھسیٹ کر نہیں۔ بدن سمٹا ہوا رہتا۔ دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے۔ قوت سے آگے کو قدم اٹھاتے۔ قامت میں آگے کی طرف قدرے جھکاؤ ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اونچائی سے نیچے کو اتر رہے ہیں' ہند بن ابی ہالہ کے الفاظ میں ہے کہ گویا زمین آپ ﷺ کی رفتار کے ساتھ لپٹی جا رہی ہے"۔*
*❀__ رفتار تیز ہوتی، قدم کھلے کھلے رکھتے، آپ ﷺ معمولی رفتار سے چلتے مگر بقول حضرت ابو ہریرہ ”ہم مشکل سے ساتھ دے پاتے۔ حضور کی رفتار یہ پیغام بھی دیتی جاتی تھی کہ زمین پر گھمنڈ کی چال نہ چلو۔ (سورہ -لقمان ۱۸:- اور نہ زمین میں اکڑ کر چل)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 86,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–19_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ تکلم :-*
*❀__ تکلم انسان کے ایمان کردار اور مرتبے کو پوری طرح بے نقاب کر دیتا ہے۔ موضوعات اور الفاظ کا انتخاب، فقروں کی ساخت، آواز کا اتار چڑھاؤ لہجہ کا اسلوب اور بیان کا زور یہ ساری چیزیں واضح کرتی ہیں کہ متکلم کس پاۓ کی شخصیت کا علمبردار ہے۔*
*❀__ حضور ﷺ کے منصب اور ذمہ داریوں کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کا بھاری بوجھ اگر کسی دوسری شخصیت پر ڈالا گیا ہوتا۔ تو وہ تفکرات میں ڈوب کر رہ جاتا اور اسے خلوت محبوب ہو جاتی۔ لیکن حضور ﷺ کے کمالات خاص میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک طرف آپ تفکرات اور مسائل مہمہ کا پہاڑ اٹھاۓ ہوۓ ہوتے اور طرح طرح کی پریشانیوں سے گزرتے، لیکن دوسری طرف لوگوں میں خوب گھلنا ملنا بھی رہتا اور دن رات گفتگوؤں کا دور چلتا۔ مزاج کی سنجیدگی اپنی جگہ تھی اور تبسم و مزاح اپنی جگہ ۔*
*❀__ اضداد میں عجیب توازن تھا جس کی مظہر حضور ﷺ کی ذات تھی۔ ایک عالمی تحریک کی ذمہ داری ایک سلطنت کے مسائل ایک جماعت اور معاشرہ کے معاملات اور پھر اپنے خاصے بڑے کنبے کی ذمہ داریاں اچھا خاصا پہاڑ تھیں، جنہیں حضور ﷺ کے کندھے اٹھاۓ ہوۓ تھے۔*
*❀__ چنانچہ امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ کے حوالہ سے بتاتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم متواتر پریشانیوں میں رہتے۔ ہمیشہ مسائل پر غور کرتے، کبھی آپ ﷺ کو بے فکری کا کوئی لمحہ نہ ملا۔ دیر دیر تک خاموش رہتے اور بلا ضرورت فضول بات چیت نہ کرتے ۔" ( شمائل ترندی۔ باب كيف كان كلام رسول اللہ ﷺ)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 87,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕
★ *پوسٹ–20_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂* ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ لیکن آپ ایک داعی تھے۔ اور ایک تحریک کے سربراہ، اس لیے تبلیغ و تعلیم اور تزکیہ اور سیاسی انتظام چلانے کے لیے لوگوں سے رابطہ ضروری تھا جس کے لیے سب سے اہم ذریعہ تکلم ہے۔ لہذا دوسری صورت حال حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یوں رہتی کہ”_ جب ہم دنیوی معاملات کا ذکر کر رہے ہوتے تو حضور ﷺ بھی اس ذکر میں حصہ لیتے، جب ہم آخرت پر گفتگو کرتے تو حضور بھی ہمارے ساتھ اس موضوع پر تکلم فرماتے۔ اور جب ہم لوگ کھانے پینے کی کوئی بات چھیڑتے تو حضور بھی اس میں شامل رہے_," ( شمائل ترندی۔ باب كيف كان كلام رسول الله صلى الله علیہ و سلم).*
*❀_ اس کے باوجود آپ ﷺ نے خدا کی قسم کھا کر یہ اصولی حقیقت بیان فرمائی کہ میری زبان سے حق کے ماسوا کوئی بات ادا نہیں ہوتی، قرآن نے بھی وما ينطق عن الهوى کی گواہی دی۔ یعنی آنحضور ﷺ اپنی خواہش نفس سے شرعی احکام نہیں دیتے تھے۔*
*❀_ گفتگو میں الفاظ اتنے ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے کہ سننے والا آسانی سے یاد کر لیتا بلکہ الفاظ ساتھ ساتھ گنے جا سکتے تھے۔ ام معبد نے کیا خوب تعریف بیان کی کہ گفتگو جیسے موتیوں کی لڑی پروئی ہوئی، الفاظ نہ ضرورت سے کم نہ زیادہ ---- نہ کوتاہ سخن نہ طویل گو"۔ تأکید ، تفہیم اور تسہیل حفظ کے لیے خاص الفاظ اور کلمات کو تین بار دہراتے تھے۔*
*❀_ بعض امور میں تصریح سے بات کرنا مناسب نہ سمجھتے تو کنایہ میں فرماتے مکروہ اور فحش اور غیر حیا دارانہ کلمات سے تنفز تھا۔ گفتگو میں بالعموم ایک مسکراہٹ شامل رہتی۔ عبداللہ بن حارث کا بیان ہے کہ "میں نے حضور سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا_,"*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 87,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵💕 ★ *پوسٹ–21_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- بات کرتے ہوئے بار بار آسمان کی طرف دیکھتے ۔ گفتگو کے دوران میں کسی بات پر زور دینے کے لیے ٹیک سے اٹھ کر سیدھے ہو بیٹھتے اور خاص جملوں کو بار بار دہراتے، حاضرین کو کسی بات سے ڈراتے تو تکلم کے ساتھ ساتھ زمین پر ہاتھ مارتے۔ بات کی وضاحت کے لیے ہاتھوں اور انگلیوں کے اشارات (Gestures) سے بھی مدد لیتے۔ مثلاً دو چیزوں کا اکٹھا ہونا واضح کرنے کے لیے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملا کر دکھاتے،*
*❀_ کبھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم دگر آرپار کر کے مضبوطی یا جمعیت کا مفہوم نمایاں کرتے، کسی شے یا سمت میں اشارہ کرنا ہوتا تو پورا ہاتھ حرکت میں لاتے۔ کبھی ٹیک لگاۓ ہوۓ اہم معاملات پر بات کرتے تو سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھ کر انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیتے۔*
*❀_ تعجب کے موقعوں پر ہتھیلی کو الٹ دیتے کبھی سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے اندرونی حصے پر مارتے کبھی سر ہلاتے اور ہونٹوں کو دانتوں سے دباتے۔ کبھی ہاتھ کو ران پر مارتے ۔*
*❀_حضور ﷺ کے کلام کا جہاں ادبی معیار بہت بلند تھا۔ وہاں اس میں عام فہم سادگی بھی تھی اور پھر کمال یہ کہ کبھی کوئی گھٹیا اور بازاری لفظ استعمال میں نہیں لیا اور نہ کبھی مصنوعی طرز کی زبان پسند فرمائی، کہنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے اپنی دعوت اور اپنے مشن کی ضروریات سے خود اپنی ایک زبان پیدا فرمائی تھی۔ ایک اسلوب بیان تھا۔*
*❀_ ایک مرتبہ بنو فہد کے لوگ آۓ تو گفتگو ہوتی رہی۔ جس کے دوران میں آنے والوں نے تعجب سے کہا۔ ”اے اللہ کے نبی ! ہم آپ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، ایک ہی مقام میں پرورش پاتے ہیں، پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ ایسی عربی میں بات کرتے ہیں کہ جس (کی لطافتوں) کو ہم میں سے اکثر نہیں سمجھ سکتے؟ فرمایا اور خوب فرمایا "میری لسانی تربیت خود الله عز وجل نے فرمائی ہے۔ اور میرے ذوق ادب کو خوشتر بنا دیا۔ نیز میں نے قبیلہ سعد کی فصاحت آموز فضا میں پرورش پائی ہے_,"*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 88,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–22_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ ایک موقعے پر کسی ملاقاتی سے بات ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تعجب سے سن رہے تھے۔ پوچھا اس شخص نے آپ سے کیا کہا اور آپ نے کیا فرمایا؟ حضور ﷺ نے وضاحت کی۔ اس پر جناب صدیق کہنے لگے۔ ”میں عرب میں گھوما پھرا ہوں اور فصحاء عرب کا کلام سنا ہے۔ لیکن آپ سے بڑھ کر کلام فصیح کسی اور سے نہیں سنا_,"*
*❀_اس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بار کہنے لگے۔ ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا بات ہے کہ آپ فصاحت میں ہم سب سے بالا تر ہیں۔ حالانکہ آپ ہم سے کبھی الگ نہیں ہوۓ۔ فرمایا "میری زبان اسمعیل علیہ السلام کی زبان ہے جسے میں نے خاص طور سے سیکھا ہے اسے جبریل مجھ تک لاۓ اور میرے ذہن نشین کر دی_,"*
*❀_مطلب یہ ہے کہ حضور کی زبان معمولی عربی نہ تھی۔ بلکہ خاص پیغمبرانہ زبان تھی جس کا جوڑ اسماعیلی زبان سے ملتا تھا اور جبریل علیہ السلام جس زبان میں قرآن لاتے تھے وہ بھی وہی پیغمبرانہ زبان تھی۔*
*❀_ حضور ﷺ کی امتیازی شان یہ تھی کہ آپ کو "جوامع الکلم " عطا کئے گئے تھے۔ خود فرمایا کہ "اعطیت بجوامع الكلم _," جوامع الکلم حضور ﷺ کے وہ مختصر ترین کلمے ہیں جو معنوی لحاظ سے بڑی وسعت رکھتے ہیں۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی پیش کرنے میں سرور عالم اپنی مثال آپ تھے، اور اسے خصوصی عطیات رب میں شمار کیا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 89,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–23_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__خطابت :-*
*❀"_وعظ و تکلم ہی کا ایک اہم جز خطابت ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم پیغام کے حامل تھے۔ اور اس کے لیے خطابت ناگزیر ضرورت تھی۔ خطابت یوں بھی عربوں کی دولت تھی۔ پھر قریش تو اس صفت سے خاص طور پر مالا مال تھے۔ عرب اور قریش کے خطیبانہ ماحول سے حضور بہت بلند رہے، فریضہ قیادت نے جب بھی تقاضا کیا آپ کی زبان کبھی نسیم سحر کی طرح کبھی آب جو کی طرح اور کبھی تیغ برق دم کی طرح متحرک ہو جاتی۔*
*❀_ وعظ و تقریر کی کثرت سے آپ نے پرہیز کیا۔ اور معاشرہ کی ضروریات اور اس کے ظرف کو دیکھ کر اعتدال سے قوت خطابت کا استعمال کیا۔ مسجد میں خطابت فرماتے تو اپنے چھڑی پر سہارا لیتے اور میدان جنگ میں تقریر فرمانا ہوتی تو کمان پر ٹیک لگاتے۔ کبھی کبھار سواری پر سے خطاب کیا ہے۔*
*❀_ تقریر میں جسم دائیں بائیں جھوم جاتا۔ ہاتھوں کو حسب ضرورت حرکت دیے، تقریر میں بعض مواقع پر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یا محمد کی جان ہے کہہ کر قسم کھاتے، لہجے میں بھی اور چہرے پر بھی دل کے حقیقی جذبات جھلکتے اور سامعین پر اثر انداز ہوتے۔ دلوں کو ہلا دیتے تھے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ ,93 ,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–24_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- حنین و طائف کے معرکہ کے بعد حضور ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ تو مؤلفۃ القلوب کی قرآنی مد کے تحت نو مسلم رؤسائے مکہ کو اس میں بہت سا حصہ دیا تا کہ ان کے دل مزید نرم ہوں اور وہ احسان کے رشتے سے اسلامی ریاست کے ساتھ مربوط تر ہو جائیں، انصار میں کچھ لوگوں نے عجیب سے احساسات کی رو دوڑا دی کہا گیا کہ : " رسول اللہ نے قریش کو خوب انعامات دیئے اور ہمیں محروم رکھا، مشکلات میں ہم یاد آتے ہیں اور حاصل غنیمت دوسرے لوگ لے جاتے ہیں"۔*
*❀_ یہ چرچے حضور کے کانوں تک بھی پہنچے۔ ایک چرمی خیمہ نصب کیا گیا۔ اور اس میں انصار کا اجتماع بلایا گیا۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں نے ایسی باتیں کہی ہیں؟ جواب ملا کہ” آپ نے جو سنا وہ صحیح ہے مگر یہ باتیں ہم میں سے ذمہ دار لوگوں نے نہیں کہیں، کچھ نوجوانوں نے ایسے فقرے کہے ہیں"*
*❀_ واقعہ کی تحقیق کے بعد آپ ﷺ نے یہ تقریر کی: کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ پہلے گمراہ تھے، خدا نے میرے ذریعے سے تم کو ہدایت دی؟ تم منتشر اور پراگندہ تھے خدا نے میرے ذریعے سے تم کو متحد اور متفق کیا ؟ تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعے سے تم کو آسودہ حال کیا؟ ( ہر سوال پر انصار کہتے جاتے تھے کہ بلاشبہ اللہ اور رسول کا بہت بڑا احسان ہم پر ہے)۔*
*❀"_نہیں تم یہ جواب دو کہ اے محمد ! تم کو جب لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تمہاری تصدیق کی، تم کو جب لوگوں نے چھوڑ دیا تو ہم نے پناہ دی۔ تم جب مفلس ہو کر آئے تھے تو ہم نے ہر طرح کی مدد کی۔ تم جواب میں یہ کہتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو۔ لیکن اے گروہ انصار ! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد کو لے کر اپنے گھروں کو جاؤ"*
*❀_ کلام کا اتار چڑھاؤ دیکھئے ، خنجر خطابت کی اس دھار کو دیکھئے جو نازک جذبات سے صیقل کی گئی تھی، پھر اس کی روانی دیکھئے مطالب کے موڈ دیکھئے، پھر یہ غور کیجئے کہ کس طرح خطیب نے بالآخر مطلوبہ کیفیت سامعین میں پوری طرح ابھار دی ۔ انصار بے اختیار چیخ اٹھے کہ ”ہم کو صرف محمد درکار ہیں"۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 94,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–25_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ابتدائی دور دعوت میں کوہ صفا کے خطبہ کے علاوہ متعدد بار آپ نے قریش کے سامنے تقاریر فرمائی ہیں۔ اس دور کے ایک خطبہ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو: :- قافلے کا دیدبان اپنے ساتھیوں کو کبھی غلط اطلاع نہیں دیا کرتا۔ خدا کی قسم اگر (بفرض محال) میں اور سب لوگوں سے جھوٹ کہنے پر تیار بھی ہو جاتا تب بھی تم سے غلط بات ہرگز نہ کہتا۔ اگر (بفرض محال) میں دوسرے تمام لوگوں کو ہلاکت و خطرہ سے دو چار کر دیتا تو بھی تم کو کبھی خطرہ میں مبتلا نہ کرتا۔*
*❀"_ اس خدا کی قسم جس کے سوا اور کوئی الہ نہیں، میں تمہاری طرف خصوصیت سے اور تمام انسانوں کی طرف جامع طور سے خدا کا مقرر کردہ رسول ہوں۔ بخدا تم کو لازماً مرنا ہے جیسے کہ تم سو جاتے ہو اور پھر مرنے کے بعد تم کو جی اٹھنا ہے۔ جیسے کہ تم نیند سے بیدار ہو جاتے ہو، تم سے لازماً تمہارے کاموں کا حساب لیا جانا ہے اور تمہیں بھلے کا بدلہ بھلا اور برے کا بدلہ برا ضرور ملتا ہے پھر یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہو گی یا پیشہ کے لیے دوزخ "۔*
*❀"_کیا ہی سادہ انداز بیان ہے, کتنی عقلی اور جذباتی اپیل ہے۔ داعی کی خیر خواہی ایک ایک لفظ سے ٹپکی پڑتی ہے۔ پھر یقین کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ چھوٹے سے اس خطبے میں تمثیل ( مثال) سے بھی کام لیا گیا ہے" توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی دعوت پوری طرح سموئی ہوئ ہے۔*
*❀"_ حضور کے معرکۃ الآرا خطبے دو اور ہیں جن میں سے ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دوسرا حجتہ الوداع کے موقع پر دیا گیا، ان خطبوں کا مزاج انتہائی انقلابی ہے اور ان میں ایمان اخلاق اور اقتدار تینوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حجتہ الوداع کا خطبہ تو گویا ایک دور نو کے افتتاح کا اعلان ہے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 94,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–26_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ عام سماجی رابطہ :-*
*❀"_ بڑے بڑے کام کرنے والے لوگ بالعموم رابطہ عام کے لیے وقت نہیں نکال سکتے اور نہ ہر طرف توجہ دے سکتے ہیں۔ بعض بڑے لوگوں میں خلوت پسندی اور خشکی مزاج پیدا ہو جاتی ہے اور کچھ کبر کا شکار ہو کر اپنے لیے ایک عالم بالا بنا لیتے ہیں۔ مگر حضور ﷺ انتہائی عظمت کے مقام پر فائز ہو کر اور تاریخ کا رخ بدلنے والے کارنامے انجام دے کر عوامی حلقوں سے پوری طرح مربوط تھے ۔ اور جماعت اور معاشرہ کے افراد شخصی اور نجی تعلق رکھتے تھے ،*
*❀"_ علیحدگی پسندی یا کبر یا پیوست کا شائبہ تک نہ تھا، آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اور سلام کہنے میں پہل کرتے۔ کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے۔ کسی کا سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اور لانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے۔ ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا۔ عورتوں کی جماعت کے قریب سے ہو کر نکلے تو ان کو سلام کیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے ۔*
*❀"_ احباب سے معانقہ بھی فرماتے اور مصافحہ بھی۔مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا۔ مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔ مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے۔ کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے۔ فرمایا ۔ اسی طرح بیٹھتا ہوں، جس طرح خدا کا ایک بندہ بیٹھتا ہے،*
*❀"_ اپنے زانو ساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے کوئی آتا تو اعزاز کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے۔ آنے والا جب تک خود نہ الٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 94,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–27_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ اہل مجلس کی گفتگو میں غیر متعلق موضوع نہ چھیڑتے بلکہ جو سلسلہ کلام چل رہا ہوتا اسی میں شامل ہو جاتے۔ چنانچہ نماز صبح کے بعد مجلس رہتی اور اس میں صحابہ سے خوب باتیں ہوتیں۔ جاہلیت کے قصے چھڑ جاتے اور ان پر خوب ہنسی بھی ہوتی۔*
*❀_ صحابہ شعر بھی پڑھتے۔جس موضوع سے اہل مجلس کے چہروں سے اکتانے کا اثر محسوس ہوتا اسے بدل دیتے۔ ایک ایک فرد مجلس پر توجہ فرماتے تاکہ کوئی یہ نہ محسوس کرے کہ کسی کو اس پر آپ نے فوقیت دی ہے۔ دوران تکلم کوئی شخص غیر متعلق سوال چھیڑ دیتا تو اسے نظر انداز کر کے گفتگو جاری رکھتے اور سلسلہ پورا کر کے پھر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے۔*
*❀_ خطاب کرنے والے کی جانب سے اس وقت تک رخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود منہ نہ پھیر لیتا۔ کان میں کوئی سرگوشی کرتا تو جب تک وہ بات پوری کر کے منہ نہ ہٹا لیتا آپ برابر اپنا سر اسی کی طرف جھکائے رکھتے۔ کسی کی بات کو کبھی نہ کائتے۔ الا یہ کہ حق کے خلاف ہو۔ اس صورت میں یا تو ٹوک دیتے یا چہرے پر ناگواری آجاتی یا اٹھ کر چلے جاتے۔*
*❀_ ناپسند تھا کہ کھڑے کھڑے کوئی اہم بحث چھیڑ دی جائے۔ نا پسندیدہ باتوں سے یا تو اعراض فرماتے ورنہ گرفت کرنے کا عام طریقہ یہ تھا کہ براہ راست نام لے کر ذکر نہ کرتے ۔ بلکہ عمومی انداز میں اشارہ کرتے یا جامع طور پر نصیحت کر دیتے۔*
*❀_ انتہائی تکدر کی صورت میں جو فقط دینی امور میں ہوتا تھا احباب کو احساس دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ یہ طریق اظہار تھا کہ یا تو شخص متعلق کے آنے پر سلام قبول نہ کرتے یا عدم التفات دکھاتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 95,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–28_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ ناپسندیدہ آدمی کے آنے پر بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ چنانچہ ایک بار کوئی آیا جسے آپ ﷺ اپنے گروہ کا برا آدمی سمجھتے تھے۔ مگر آپ نے بے تکلفی سے بات چیت کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس پر تعجب ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:-*
*"_ قسم ہے کہ قیامت کے دن خدا کے حضور وہ شخص بدترین آدمی کا مقام پائے گا جس سے لوگ اس کی بد سلوکی کے ڈر سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیں"( المواہب ج ا ص ۲۹١ بخاری)*
*❀"_ کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اطلاع دینے اور اجازت لینے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے۔ جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس چلے آتے۔ رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اور سو رہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔*
*❀"_ بدن یا لباس سے کوئی شخص تنکا یا مٹی وغیرہ ہٹاتا تو شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے مسح الله عنک مانکرہ (خدا تم سے ہر اس شے کو دور کرے جو تمہیں بری لگے)*
*❀"_ ہدیہ قبول کرتے اور جواباً ہدیہ دینے کا خیال رکھتے۔ کسی شخص کو اتفاقاً کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو اسے بدلہ لینے کا حق دیتے اور کبھی عوض میں کوئی ہدیہ دیتے۔ کوئی شخص نیا لباس پہن کر سامنے آتا تو فرماتے:- خوب سے خوب دیر تک پہنو بوسیدہ کرو, بد سلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے۔*
*❀"_ دوسرے کے قصور معاف کر دیتے تو اطلاع کے لیے اپنا عمامہ علامت کے طور پر بھیج دیتے،*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 96,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–29_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ کوئی پکارتا تو خواہ وہ گھر کا آدمی ہو یا رفقاء میں سے ہمیشہ "لبیک" (حاضر ہوں) کہتے۔ بیماروں کی عیادت کو اہتمام سے جاتے۔ سرہانے بیٹھ کر پوچھتے۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے؟ بیمار کی پیشانی اور نبض پر ہاتھ رکھتے۔ کبھی سینے اور پیٹ پر دست شفقت پھیرتے اور کبھی چہرے پر،*
*❀"_ کھانے کو پوچھتے۔ بیمار کسی چیز کی خواہش کرتا تو اگر مضر نہ ہوتی تو منگوا دیتے۔ تسلی دیتے اور فرماتے- "فکر کی کوئی بات نہیں۔ خدا نے چاہا تو جلد صحت یاب ہوں گے، شفا کے لیے دعا فرماتے۔*
*❀"_ حضرت سعد کے لیے تین بار دعا کی۔ مشرک چچاؤں کی بیمار پرسی بھی کی۔ ایک یہودی بچے کی عیادت بھی فرمائی (جو ایمان لے آیا) اس کام کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر نہ تھا۔ جب بھی اطلاع ملتی اور وقت ملتا تشریف لے جاتے۔*
*❀"_ ایک بار حضرت جابر بیمار پڑے۔ رسول خدا ﷺ اپنے رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لئے ہوئے پیدل خاصی دوری تک چل کر گئے، حضرت جابر بے ہوش پڑے تھے۔ آپ نے دیکھا۔ پھر وضو کیا۔ پانی کے چھینٹے دیئے، دعا کی اور مریض کی حالت سنبھلنے لگی، چنانچہ حضرت جابر نے بات چیت کی اور اپنے ترکہ کے متعلق مسائل پوچھے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 96,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–30_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_تواضع کی انتہا یہ تھی کہ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی تک کی عیادت فرمائی۔ جب کسی شخص کی وفات ہو جاتی تو تشریف لے جاتے، عالم نزع میں بلایا جاتا یا از خود اطلاع پا کر پہنچتے تو توحید اور توجہ الی اللہ کی تلقین کرتے۔ میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے، صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اور پکا کرنے سے روکتے۔*
*❀"_ سفید کپڑوں میں اچھا کفن دینے کی تاکید کرتے اور تجہیز و تکفین میں جلدی کراتے۔ جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے۔ مسلمانوں کے جنازے خود پڑھاتے اور مغفرت کے لیے دعا کرتے۔ کوئی جنازہ گزرتا۔۔ تو چاہے وہ غیر مسلم کا ہو ۔ کھڑے ہو جاتے (بیٹھے رہنے کی روایت بھی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیام کا طریقہ منسوخ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ ملاحظہ ہو زادالمعاد ج ۱ ص ۱۳۴۵),*
*❀_ تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لیے لوگ کھانا پکوا کر بھجوائیں ( آج یہ الٹی رسمیت مسلط ہے کہ میت والے گھر میں دوسروں کی ضیافت ہوتی ہے) نا پسند تھا کہ باقاعدہ مجلس تعزیت کا سلسلہ ایک رسمی ضابطے کے طور پر کئی کئی روز جاری رہے۔*
*❀_ کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اور حاضری دیتا تو اس سے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے, کسی کو سفر کے لیے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ محبت آمیز بے تکلفی میں کبھی کبھی احباب کے ناموں کو مختصر کر کے بھی پکار لیتے، جیسے یا ابا ہریرہ کی بجائے ”ابا ہر" حضرت عائشہ کو کبھی کبھار "عائش" کہہ کر پکارتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 97,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–31_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- بچوں سے بہت دلچسپی تھی۔ بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے پیار کرتے دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لے لیتے۔ ان کو بہلانے کے لیے عجیب سے کلمے فرماتے، ایک معصوم بچے کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا " یہ بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں،*
*❀_ بچوں کے نام تجویز کرتے، بچوں کو قطار میں جمع کر کے انعامی دوڈ لگواتے کہ دیکھیں کون ہمیں پہلے چھو لیتا ہے، بچے دوڑتے ہوئے آتے تو کوئی سینہ پر گرتا کوئی پیٹ پر ۔ بچوں سے دل لگی بھی کرتے۔ مثلاً حضرت انس کو کبھی کبھی پیار سے کہا "یا ذالاذنين" ! (او دوکانوں والے)،*
*❀_ عبد اللہ بن بشیر کے ہاتھ ان کی والدہ نے ہدیہ کے طور پر انگور حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجے۔ صاحبزادے میاں راستے میں کھا گئے۔ بعد میں معاملہ کھلا تو آپ پیار سے عبد اللہ کے کان پکڑ کر کہتے "یا غدر ! یا غدر": (او دھو کے ہاز او دھوکے باز)*
*❀_ سفر سے آرہے ہوتے تو جو بچہ راستے میں ملتا اسے سواری پر بٹھا لیتے، چھوٹا ہوتا تو آگے بڑا ہوتا تو پیچھے، فصل کا میوہ پہلی بار آتا تو دعائے برکت مانگ کر کم عمر بچے کو دے دیتے، آپ کے پیش نظر تھا کہ یہی نئی پود آئندہ تحریک اسلامی کی علم بردار ہو گی۔*
*❀"_ بوڑھوں کا احترام فرماتے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ضعیف العمر والد کو (جو بینائی سے بھی محروم ہو چکے تھے) بیعت اسلام کے لیے آپ کی خدمت میں لائے۔ فرمایا۔ انہیں کیوں تکلیف دی۔ میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 98,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–32_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے وہ فرماتے ہیں: میں دس برس تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہی۔ کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا۔ اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا۔*
*❀_ یہی معاملہ آپ کا خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا۔ آپ نے ان میں سے کسی کو کبھی نہیں مارا۔ اس کی تصدیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ازواج یا خادموں میں سے نہ کبھی کسی کو مارا نہ کسی سے کوئی ذاتی انتقام لیا ۔*
*❀_ خالص نجی زندگی: اکثر بڑے لوگ وہ کہلاتے ہیں جو پبلک لائف کے لیے ایک مصنوعی کردار کا چغہ پہنے رکھتے ہیں جو نجیزندگی میں اتر جاتا ہے۔ باہر دیکھئے تو بڑی آن بان ہے گھر پہنچے تو انتہائی پستی میں جا گرے۔ باہر سادگی اور تواضع دکھائی، گھر کو پلٹے تو عیش وعشرت میں ڈوب گئے۔*
*❀_ حضور ﷺ کو دیکھئے تو ایک ہی رنگ گھر میں بھی ہے اور گھر سے باہر بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول خدا اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا:-*
*❀_ آپ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے۔ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود ہی کر لیتے۔ بکری کا دودھ خود دو ہتے اور اپنی ضرورتیں خود ہی پوری کر لیتے۔ نیز اپنے کپڑوں کو خود ہی پیوند لگا لیتے۔ اپنے جوتے کی مرمت کر لیتے اور یہ کہ اپنے ڈول کو ٹانکے لگا لیتے, بوجھ اٹھاتے، جانوروں کو چارہ ڈالتے، کوئی خادم ہوتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرا دیتے (مثلاً) اسے آٹا پسوا دیتے۔ کبھی اکیلے ہی مشقت کر لیتے۔ بازار جانے میں عار نہ تھی۔ خود ہی سودا سلف لاتے اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر اٹھا لاتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 98,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–33_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_لوگوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ رسول خدا ﷺ جب گھر میں ہوتے تو کیا رنگ رہتا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں : (سب سے زیادہ نرم خو، متبسم، خندہ جبیں) اور کبھی کسی خادم کو جھڑکا نہیں" حق یہ ہے کہ رسول خدا سے بڑھ کر کوئی بھی اپنے اہل و عیال کے لیے شفیق نہ تھا۔(مسلم)*
*❀"_ایک بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ گھر میں آتے تو اپنا وقت تین طرح کی مصروفیتوں میں صرف کرتے۔ کچھ وقت خدا کی عبادت میں صرف ہوتا۔ کچھ وقت اہل و عیال کے لیے تھا اور کچھ وقت اپنے آرام کے لیے۔ پھر انہی اوقات میں سے ایک حصہ ملاقاتیوں کے لیے نکالتے جن میں مسجد کی عام مجالس کے علاوہ خصوصی گفتگو کرنے والے احباب یا مہمان آ آکر ملتے یا کچھ لوگ ضروریات و حاجات لے کر آتے_," (شمائل ترندی) دیکھا جائے تو آرام کے لیے بہت ہی کم وقت رہ جاتا تھا۔*
*❀"_ ازواج مطہرات کے نان و نفقہ اور مختلف ضروریات کا انتظام بھی آپ کو کرنا ہوتا پھر ان کی تعلیم و تربیت بھی آپ کے ذمہ تھی۔ پھر انہی کے ذریعے طبقہ خواتین کی اصلاح کا کام جاری رہتا۔ عورتیں اپنے مسائل لے کر آتیں اور ازواج مطہرات کی معرفت دریافت کرتیں۔*
*❀"_ اس کے باوجود گھر کی فضا کو آپ نے کبھی خشک اور بو جھل نہ بننے دیا۔ اور نہ اس میں کوئی مصنوعی انداز پیدا ہونے دیا۔ گھر ایک انسانی گھر کی طرح تھا جس کی فضا میں فطری جذبات کا مدو جزر رہتا، حضور آتے تو نسیم کے جھونکے کی طرح آتے اور ایک عجیب شگفتگی پھیل جاتی۔ بات چیت ہوتی، کبھی کبھی قصہ گوئی بھی ہوتی، اور دلچسپ لطائف بھی وقوع میں آتے،*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 99,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–34_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ گھریلو زندگی کے اس فطری اتار چڑھاؤ کو بعض لوگ اسلامیت کے تصور سے فروتر پاتے ہیں اور خصوصاً نبی کریم ﷺ کے گھر کا نقشہ کچھ ایسا ذہن میں رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر انسانی پلتے رہتے تھے جن میں نہ کوئی جذبہ تھا نہ خواہش ۔۔۔۔ حالانکہ وہ گھر انسانوں کا گھر تھا۔ اور اس میں سارے انسانی جذبات کام کرتے تھے، مگر اس گھر میں معصیت نہ تھی۔ اس لحاظ سے وہ نمونے کا گھر تھا۔*
*❀"_ راتوں کو جب حضور بستر پر ہوتے تو اہل و عیال سے عام باتیں ہوتیں۔ کبھی گھریلو امور کبھی عام مسلمانوں کے مسائل پر ۔ یہاں تک کہ کبھی قصہ کہانی بھی سناتے۔ ایک بار آپ نے حضرت عائشہؓ سے ام زرع کی کہانی بیان کی۔ اس کہانی میں گیارہ عورتیں اپنے اپنے خاوندوں کا کردار آپس میں بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک عورت ام زرع اپنے خاوند ابو زرع کا من موہنا کردار پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی ادبی لحاظ سے بڑی دلچسپ ہے۔ خاتمے پر حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں بھی تمہارے حق میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ ابو زرع ام زرع کے لیے تھا۔*
*❀"_ اسی طرح کسی دوسرے موقع پر کوئی قصہ سنایا تو سننے والیوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ تو خرافہ کے قصوں جیسا ہے (عرب میں خرافہ کی ایک روایتی شخصیت تھی جس سے بہت سے حیرت ناک قصے منسوب تھے) حضور نے کہا کہ جانتی بھی ہو کہ خرافہ کی کیا حقیقت تھی۔ پھر آپ نے خرافہ کی روایتی شخصیت کا قصہ بھی بیان کیا کہ بنو عذرہ کے اس آدمی کو جن پکڑ کر لے گئے تھے اور کچھ عرصہ کے بعد واپس چھوڑ گئے۔ (شمائل ترمذی)۔*
*❀"_ عمر بھر معمول رہا کہ رات کے دوسرے نصف حصے کے اوائل میں بیدار ہو کر مسواک اور وضو کے بعد تہجد ادا فرماتے۔ ( زادالمعاد)*
*"_ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے بعض اوقات اتنا لمبا قیام فرماتے کہ قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ (شمائل ترمذی)۔*
*"_ صحابہ نے اس مشقت پر عرض کیا کہ اللہ تعالی نے تو آپ کو غفران خاص سے نوازا ہے۔ پھر اس قدر حضور ﷺ جان کیوں گھلاتے ہیں۔ فرمایا: "۔ کیا میں خدا کا احسان شناس اور شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (شمائل ترمذی)۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 100,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–35_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ گھر اور اس کے ساز و سامان کے متعلق آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ زندگی اس طرح گزاری جائے۔ جیسے مسافر گزارتا ہے، فرمایا کہ میری مثال اس مسافر کی سی ہے جو تھوڑی دیر کے لیے سائے میں آرام کرے اور پھر اپنی راہ لے۔ مراد یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو منتہا بنائیں اور دنیوی زندگی کو ادائے فرض یا امتحان کے طور پر گزاریں۔ اور جنہیں یہاں کسی بڑنے نصب العین کے لیے جد و جہد کرنی ہو ان کے لیے کیا موقع ہے کہ اعلیٰ درجہ کے مسکن بنائیں اور ان کو ساز و سامان سے آراستہ کریں اور پھر ان میں مگن رہ کر لطف اٹھائیں۔*
*❀"_ چنانچہ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے نہ اعلیٰ درجہ کی عمارتیں بنائیں۔ اور نہ ان میں اسباب جمع کئے اور نہ ان کی زینت آرائش کی۔ ان کے گھر بس "بہترین مسافرانہ قیام گاہیں تھیں"۔ ان میں گرمی سردی سے بچنے کا اہتمام تھا، جانوروں کی مداخلت سے بچاؤ کا انتظام تھا پردہ داری کا بندوبست تھا۔ اور حفظان صحت کے ضروری پہلو ملحوظ تھے۔*
*❀"_ حضور ﷺ نے مسجد کے ساتھ ازواج کے لیے حجرات (چھوٹے چھوٹے کمرے) بنوا لیے تھے۔ بجز صفائی کے اور کسی طرح کی آرائش نہ تھی۔ صفائی میں ذوق نبوت یہاں تک تھا کہ صحابہ کو تاکید فرمائی ۔ گھروں کے آنگن صاف رکھو" ( ترمذی)*
*❀"_ سازو سامان میں چند برتن نہایت سادہ قسم کے تھے۔ مثلاً ایک لکڑی کا پیالہ (بادیہ) تھا۔ جس پر لوہے کے پتر لگے تھے اور کھانے پینے میں اس کا بکثرت استعمال ہوتا تھا۔ خوراک کا سامان جمع تو کیا ہوتا روز کا روز بھی کافی مقدار میں میسر نہ ہوا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ ,101 ,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–36_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ بستر چمڑے کے گدے پر مشتمل تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ بان کی بنی ہوئی چار پائی رکھتے۔ ٹاٹ کا بستر بھی استعمال میں رہا۔ جو دوہرا کر کے بچھایا جاتا۔ ایک بار چو ہرا کر کے بچھایا گیا تو صبح دریافت فرمایا کہ آج کیا خصوصیت تھی کہ مجھے گہری نیند آئی اور تہجد چھوٹ گئی۔ معلوم ہونے پر حکم دیا کہ بستر کو پہلے ہی حال پر رہنے دیا جائے۔*
*❀"_ زمین پر چٹائی بچھا کر بھی لیٹنے کا معمول تھا۔ بعض اوقات چارپائی کے نشانات بدن پر دیکھ کر رفقائے خاص (مثلا حضرت عمر و عبداللہ بن مسعود) رو دیئے۔ ذرا حضرت عمر کا چشم دید نقشہ سامنے لائیے۔ واقعہ ایلاء کے زمانے میں انہوں نے حضور کو اس عالم میں دیکھا کہ : ” آپ کھری چارپائی پر لیٹے ہیں اور جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھا تو ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے ہیں۔ ایک کونے میں کسی جانور کی کھال کیلی سے لٹک رہی ہے، یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے"۔*
*❀"_ حضور ﷺ نے رونے کا سبب پوچھا تو عرض کیا کہ قیصر و کسرئی تو عیش کریں اور آپ کا یہ حال رہے"۔ فرمایا " عمر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ وہ دنیا لے جائیں اور ہمیں آخرت ملے"۔ ( المواہب اللدنیہ ج ا ص ۳۴۰ نیز صحیح مسلم باب في الرجل يطلق امراته روایت عبد اللہ، ابن عباس)*
*❀"_کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا۔ گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، نیز پہلو کی ہڈی پسند تھی، شرید (گوشت کے شوربے میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر یہ مخصوص عربی کھانا تیار کیا جاتا تھا) تناول فرمانا مرغوب تھا۔ پسندیدہ چیزوں میں شہد، سرکہ، خربوزہ ککڑی لوکی کھچڑی، مکھن وغیرہ اشیاء شامل تھیں۔ دودھ کے ساتھ کھجور (بہترین مکمل غذا بنتی ہے) کا استعمال بھی اچھا لگتا اور مکھن لگا کے کھجور کھانا بھی ذوق میں شامل تھا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 102,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–37_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ مریضوں کی پر ہیزی غذا کے طور پر حریرہ کو اچھا سمجھتے اور تجویز بھی فرماتے۔ میٹھا پکوان بھی مرغوب خاص تھا۔ اکثر جو کے ستو بھی استعمال فرماتے۔ ایک مرتبہ بادام کے ستو پیش کئے گئے تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ امراء کی غذا ہے۔ گھر میں شوربا پکتا تو کہتے کہ ہمسائے کے لیے ذرا زیادہ بنایا جائے۔*
*❀"_ پینے کی چیزوں میں نمبر ایک پر میٹھا پانی تھا۔ اور بطور خاص دو روز کی مسافت سے منگوایا جاتا۔ دودھ پانی ملا دودھ (جسے کچی لسی کہا جاتا ہے) اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فرماتے۔*
*❀"_ مشکیزے یا پتھر کے برتن میں پانی ڈال کر کھجور بھگو دی جاتی اور اسے متواتر دن بھر استعمال کرتے لیکن وقت زیادہ ہونے پر چونکہ نشہ ہونے کا اندیشہ ہو جاتا لہذا پھکوا دیتے۔ بہ روایت ابو مالک اشعری یہ فرمایا بھی کہ میری امت میں سے بعض لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دیں گے،*
*❀"_ افراد کا الگ الگ بیٹھ کر کھانا نا پسند تھا، اکٹھے ہو کر کھانے کی تلقین فرمائی، میز کرسی پر بیٹھ کر کھانے کو اپنی شان فقر کے خلاف سمجھتے، اسی طرح دستر خوان پر چھوٹی چھوٹی پیالیوں اور طشتریوں میں کھانا رکھا جانا بھی خلاف مزاج تھا۔ سونے چاندی کے برتنوں کو بالکل حرام فرما دیا تھا۔ کانچ مٹی تانبے اور لکڑی کے برتنوں کو استعمال میں لاتے رہے۔ دستر خوان پر ہاتھ دھونے کے بعد جوتا اتار کر بیٹھتے۔*
*❀"_ سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اور اپنے سامنے کی طرف سے لیتے۔ برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ ٹیک لگا کر کھانا پینا بھی خلاف معمول تھا, دو زانو یا اکڑوں بیٹھتے۔ ہر لقمہ لینے پر بسم اللہ پڑھتے۔ نا پسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے خاموشی سے چھوڑ دیتے۔ زیادہ گرم کھانا نہ کھاتے، کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے اور ان کو لتھڑنے نہ دیتے۔ کبھی کبھار میوہ یا پھل کھڑے ہو کر یا چلتے ہوئے بھی کھا لیا۔ دو پھل اکٹھے بھی کھائے۔ مثلاً ایک ہاتھ میں خربوزہ لیا اور دوسرے میں کھجور، کھجور کی گٹھلی الٹے ہاتھ سے پھینکتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 103,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–38_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دعوت ضرور قبول فرماتے اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا آدمی (بات چیت کرتے ہوئے یا کسی اور سبب سے) ساتھ ہوتا تو اسے لے تو جاتے مگر صاحب خانہ سے اس کے لیے اجازت لیتے۔ مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ۔*
*❀"_ کھانے کی مجلس سے بہ تقاضائے مروت سب سے آخر میں اٹھتے ۔ دوسرے لوگ اگر پہلے فارغ ہو جاتے تو ان کے ساتھ ہی آپ بھی اٹھ جاتے۔ فارغ ہو کر ہاتھ ضرور دھوتے۔ دعا کرتے جس میں خدا کی نعمتوں کے لیے ادائے شکر کے کلمات ہوتے، نیز طلب رزق فرماتے اور صاحب خانہ کے لیے برکت چاہتے۔*
*❀"_ کھانے کی کوئی چیز آتی تو حاضر دوستوں کو باصرار شریک کرتے اور غیر حاضر دوستوں کا حصہ رکھ دیتے۔ پھل وغیرہ کھانے کی مجلس میں ایک ایک دانہ لینے کی تربیت آپ نے دی۔*
*❀"_ پانی غٹ غٹ کی آواز نکالے بغیر پیتے اور بالعموم تین بار پیالہ منہ سے الگ کر کے سانس لیتے اور ہر بار آغاز " بسم اللہ" سے اور اختتام "الحمد لله والشکرللہ" پر کرتے۔ عام طریقہ بیٹھ کر پانی پینے کا تھا۔ مگر کبھی کبھی کھڑے ہو کر بھی پیا ہے۔ پینے کی چیز مجلس میں آتی تو بالعموم داہنی جانب سے دور چلاتے اور جہاں ایک دور ختم ہوتا دوسرا وہیں سے شروع کرتے۔*
*❀"_ بڑی عمر کے لوگوں کو ترجیح دیتے مگر داہنے ہاتھ والوں کے مقررہ استحقاق کی بنا پر ان سے اجازت لے کر ہی ترتیب توڑتے، احباب کو کوئی چیز پلاتے تو خود سب سے آخر میں پیتے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا ان کو سونگھنا نا پسند تھا۔ سانس میں بو کا ہونا چونکہ خلاف مزاج تھا اس لیے کچی پیاز اور لہسن کا استعمال ہمیشہ نا پسند رہا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 104,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–39_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانکنے کا حکم دیا ہے۔ کوئی نیا کھانا سامنے آتا تو کھانے سے پہلے اس کا نام معلوم فرماتے۔ زہر خورانی کے واقعہ کے بعد معمول ہو گیا تھا کہ اگر کوئی اجنبی شخص کھانا کھلاتا تو پہلے ایک آدھ لقمہ خود اسے کھلاتے۔*
*❀_ ذوق کی اس نفاست کے ساتھ دوسری طرف اکثر اوقات فقر و فاقہ کا عالم در پیش رہا۔ جس کی تفصیل ہم دوسری جگہ دیں گے۔ فرمایا- میرا کھانا پینا ایسا ہے جیسے (خدا کے) کسی بندے کا ہونا چاہیے۔*
*❀_ نشست و برخاست:- کبھی اکڑوں بیٹھتے، کبھی دونوں ہاتھ زانوؤں کے گرد حلقہ زن کر لیتے، کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑا (چادر وغیرہ) لپیٹ لیتے۔ بیٹھے ہوئے ٹیک لگاتے تو بالعموم الٹے ہاتھ پر ۔ فکر یا سوچ کے وقت بیٹھے ہوئے زمین کو لکڑی سے کریدتے۔*
*❀_ سونے کے لیے سیدھی کروٹ سوتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنا رخسار رکھ لیتے۔ کبھی چت بھی لیٹتے اور پاؤں پر پاؤں بھی رکھ لیتے۔ مگر ستر کا اہتمام رکھتے۔ پیٹ کے بل اوندھا لیٹنا سخت نا پسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے۔ ایسے تاریک گھر میں سونا پسند نہ تھا جس میں چراغ نہ جلایا گیا ہو۔ کھلی چھت پر جس کی پردے کی دیوار نہ ہو سونا اچھا نہ سمجھتے،*
*❀_ وضو کر کے سونے کی عادت تھی اور سوتے وقت مختلف دعائیں پڑھنے کے علاوہ آخری تین سورتیں (سورہ اخلاص اور معوذتین) پڑھ کر بدن پر دم کر لیتے۔ رات میں قضائے حاجت کے لیے اٹھتے تو فارغ ہونے کے بعد ہاتھ منہ ضرور دھو لیتے۔ سونے کے لیے ایک تہ بند علیحدہ تھا۔ کرتا اتار کر لٹکا دیتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 104,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–40_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- بشری حاجات:-*
*"_ضرورت کے لیے چونکہ اس دور میں گھروں میں بیت الخلاء نہ تھے اس لیے حضور ﷺ جنگل جاتے۔ عموماً اتنی دور تک جاتے کہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے۔ ایسی نرم زمین تلاش کرتے کہ چھینٹے نہ اڑیں۔*
*❀_"_ موقع حاجت پر پہلے بایاں قدم رکھتے پھر دایاں۔ بیٹھتے ہوئے زمین کے بالکل قریب ہو کر مقام ستر سے کپڑا کھولتے۔ کسی ٹیلے وغیرہ کی آڑ ضرور لیتے۔*
*❀_"_ ضرورت کے لیے ہمیشہ جوتا پہن کر اور سر ڈھک کر نکلتے۔ قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے سے اجتناب تھا۔ رفع حاجت کے وقت انگوٹھی الگ کر دیتے۔(واضح رہے کہ اس پر خدا اور رسول کے اسماء کندہ تھے), آب دست بالالتزام بائیں ہاتھ ہی سے کرتے۔ جائے ضرورت سے الگ ہوتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں اٹھاتے پھر بایاں۔*
*❀_"_ غسل کے لیے پردہ ضروری قرار دیا تھا۔ گھر میں نہاتے تو کپڑے کا پردہ تانا جاتا۔ کبھی بارش میں نہاتے تو تہ بند باندھ لیتے۔ چھینک پست آواز سے لیتے اور ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 105,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–41_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ سفر:- سفر کے لیے جمعرات کو روانگی زیادہ پسند تھی۔سواری کو تیز چلاتے۔ پڑاؤ سے صبح کے وقت کوچ کرنا معمول رہا۔ سفر میں جو اجتماعی کام در پیش ہوتے ان میں ضرور حصہ لیتے۔*
*❀"_ چنانچہ ایک بار کھانا تیار کرنے کی مہم تھی۔ سارے ساتھیوں نے کام تقسیم کئے۔ آپ نے بھی لکڑیاں چننا اپنے ذمہ لیا۔ کہا گیا کہ آپ تکلیف نہ کریں، ہم سب اس کام کے لیے کافی ہیں۔ فرمایا کہ مجھے امتیاز پسند نہیں،*
*❀"_ سفر میں اپنی سواری پر باری باری کسی نہ کسی پیادہ ساتھی کو شریک کرتے، سفر سے رات میں واپس آنا پسند نہ تھا۔ آتے، تو سیدھے گھر جانے کے بجائے مسجد میں جا کر نفل ادا کرتے۔ گھر میں اطلاع ہو جانے کے بعد اطمینان سے جاتے۔*
*❀"_ جذبات : انسانیت کا کوئی تصور ہم جذبات کو الگ رکھ کر نہیں کر سکتے۔ حضور ﷺ میں بھی انسانی جذبات بہترین اسلوب پر کار فرما تھے ۔ آپ بہت ہی صاحب احساس ہستی تھے اور خوشی میں خوشی اور غم میں غم سے متاثر ہوتے۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 106,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–42_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ حضور ﷺ ان نام نہاد بڑے لوگوں میں سے نہ تھے۔ جو دنیا جہان کے غم میں گھلے جاتے ہیں لیکن گھر کے لیے سنگ دل اور تغافل کیش ثابت ہوتے ہیں۔ باہر کی زندگی پر ہنگامہ ہوتی ہے۔ گھر کی پھیکی اور بد مزہ، آپ کو ازواج کے ساتھ سچی محبت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک ہی پیالہ میں پانی پیتے اور جہاں وہ منہ لگاتیں، وہیں منہ لگاتے۔*
*❀"_ انصار کی بچیوں کو بلواتے تاکہ وہ ان کے ساتھ کھیلیں۔ حبشیوں کے ورزشی کرتب اس انداز سے دکھائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ٹھوڑی آپ کے کندھے پر تھی۔ بار بار پوچھتے کہ کیا تم سیر ہو گئی ہو؟" وہ کہتیں ”ابھی نہیں! دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔*
*❀"_ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرانے کے لیے آپ ﷺ اپنا گھٹنا بڑھا دیتے اور اس پر آنجناب اپنا پیر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔ ایک مرتبہ سفر میں ناقہ کا پاؤں پھسلا اور حضور ﷺ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا دونوں گر پڑے۔ ابو طلحہ ساتھ تھے۔ دوڑے ہوئے آپ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے خاتون کی طرف توجہ کرو،*
*❀"_ اسی محبت کی وجہ سے ایک بار شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی، جس پر عتاب آیا کہ "حلال شے کو حرام نہ کرو _"*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 106,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–43_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ اپنے بچوں کے لیے بھی حضور ﷺ کے جذبات بڑے گہرے تھے۔ حضرت ابراہیم کو رضاعت کے لیے ایک لوہار کے گھر میں مدینہ کے بالائی حصے میں رکھا گیا تھا۔ ان کو دیکھنے کے لیے خاصہ فاصلہ چل کر تشریف لے جاتے۔ گھر میں دھواں بھرا ہوتا مگر وہاں بیٹھتے اور بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے۔*
*❀"_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آتیں تو اٹھ کر استقبال کرتے۔ خود تشریف لے جاتے۔ اپنی کہتے، ان کی سنتے، ان کے صاحبزادوں حضرت حسن و حسینؓ سے بہت ہی پیار تھا۔ ان کو گود میں لیتے ان کو کندھوں پر سوار کرتے، ان کے لیے گھوڑا بنتے۔ حالت نماز میں بھی ان کو کندھوں پر بیٹھنے دیتے،*
*❀"_ ایک بار اقرع بن حابس نے آپ کو جناب حسن کا بوسہ لیتے دیکھا تو تعجب سے کہا کہ میرے تو دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا مگر آپ بوسہ لیتے ہیں۔ فرمایا "جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا"۔*
*❀"_ حضرت ابراہیم صاحبزادے کی وفات ہوئی تو صدمہ سے آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اسی طرح ایک صاحبزادی کی وفات آپ ﷺ کی موجودگی میں ہوئی۔ ام ایمن (کنیز) چلا چلا کے رونے لگیں۔ حضور ﷺ نے منع فرمایا۔ تو وہ کہنے لگیں کہ آپ خود بھی تو رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا رونا منع نہیں ہے۔ یہ رونا جس رقت کی وجہ سے ہے وہ اللہ کی ایک رحمت ہے۔*
*❀"_ اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عثمان بن مظعون کی میت کے سامنے بھی آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں اور آپ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اپنے رونے کی کیفیت کو خود بیان فرمایا۔ "آنکھیں اشک آلود ہیں، دل غم زدہ ہے، مگر ہم اپنی زبان سے اس کے ماسوا کچھ نہیں کہتے جو ہمارے رب کو پسند ہے"۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 106,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–44_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ غم کی حالت میں اکثر زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے "حسبی الله نعم الوکیل"، رونے میں اونچی آواز نہ نکلتی، بلکہ ٹھنڈا سانس لیتے۔ اور ہانڈی کے ابلنے جیسی آواز سینے سے نکلتی۔*
*❀_"_ایک بار عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمائش کر کے قرآن سنا۔ وہ جب سورہ نساء کی اس آیت پر پہنچے۔ "فكيف اذا .. ( النساء - ۴۱) (اس وقت کیا حال ہو گا جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کو اٹھا کر کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر تمہیں گواہ بنا کے لائیں گے ) تو آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا_,"*
*❀_"_ یہ رقت سر چشمہ ہے ان جذبات ہمدردی و شفقت کا جو حضور ﷺ کو ساری انسانیت سے تھی۔ اور خصوصاً اسلامی جماعت کے افراد سے ! حیرت ہے کہ اس نزاکت احساس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ نے مشکلات و مصائب کے مقابلے میں کس درجہ کے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔*
*❀_"_ذوق مزاح:- ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خندہ روئی کی صفت سے متصف تھے، بلکہ فرمایا:- تیرا اپنے بھائی کے سامنے مسکراتے ہوئے آنا بھی ایک کار خیر ہے،*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 107,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–45_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- آپ کی یہ شان بھی بیان ہو چکی ہے۔ کہ عظیم کارنامے انجام دینے والی شخصیت کے لئے لازمی وصف ہے کہ وہ فرائض حیات کے بوجھ کو اپنے تبسم سے گوارا بنا دے اور ساتھیوں کے دلوں میں گھر کر لے۔ آپ کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے بے تکلفانہ انداز مزاح سے پیش آتے تھے کہ رفقاء کے دلوں میں آپ کی محبت رچ بس گئی تھی۔*
*❀"_ آپ ہنسی دل لگی کی باتیں کرتے۔ اور مجلس میں شگفتگی کی فضا پیدا کر دیتے۔ مگر توازن و اعتدال ہمیشہ ملحوظ رہتا، مزاع کا رنگ آٹے میں نمک کی طرح ہلکا رہتا اور اس میں بھی نہ تو خلاف حق کبھی کوئی بات شامل ہوتی، نہ کسی کی دلآزاری کی جاتی اور نہ ٹھٹھے لگا کر ہنسنا معمول تھا۔ غنچوں کا سا تبسم ہوتا جس میں زیادہ سے زیادہ دانتوں کے کیلے دکھائی دیتے حلق نظر نہ آتا۔*
*❀"_ ایک بار تعجب سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ "آپ ہم سے مذاق بھی فرما لیتے ہیں؟ ارشاد فرمایا۔" ہاں مگر میں خلاف حق کوئی بات نہیں کہتا"*
*"_ ایک بار کسی سائل نے سواری کا اونٹ مانگا۔ فرمایا ہم تمہیں اونٹنی کا ایک بچہ دیں گے، سائل نے حیرت سے کہا کہ میں اسے لے کر کیا کروں گا۔ فرمایا: ہر ایک اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔*
*❀"_ ایک بڑھیا نے آکر عرض کی کہ میرے لیے دعا کیجئے کہ خدا مجھے جنت عطا فرمائے، حضور ﷺ نے مزاحا کہا۔ "اے ام فلاں ! جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جا سکتی"۔ وہ روتی ہوئی اٹھ کر جانے لگی۔ حاضرین سے فرمایا۔ اسے کہو کہ خدا تعالٰی اسے اس بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اس کا ارشاد ہے کہ جنت میں جانے والیوں کو اللہ تعالٰی جوانی سے سرفراز فرمائے گا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 108,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–46_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_زاہر (یا زہیر) نامی ایک بدوی تھے۔ ان سے بے تکلفی تھی۔ آپ ﷺ اپنے اس بدوی دوست کو شہر سے متعلق کاموں میں امداد دیتے اور وہ دیہات سے متعلق حضور ﷺ کے کام کر لاتا۔ نیز مخلصانہ جذبے سے ہدیے دیتا (جن کی قیمت حضور ﷺ با صرار ادا فرماتے) چنانچہ فرماتے کہ زاہر دیہات میں ہمارا گماشتہ ہے اور ہم شہر میں اس کے گماشتہ ہیں۔*
*❀__"_ یہی زاہر ایک دن بازار میں اپنا کچھ سودا بیچ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے پیچھے سے جا کر چیکے سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے اور پوچھا بتاؤ میں کون ہوں۔ وہ پہلے تو کچھ نہ سمجھے۔ پھر جب معلوم ہوا تو فرط اشتیاق میں حضور ﷺ کے سینے سے اپنے کندھے ملتے رہے۔ پھر حضور ﷺ نے مزاحا کہا کہ کون اس غلام کو خرید تا ہے۔ زاہر کہنے لگے- یا رسول اللہ ! مجھ جیسے ناکارہ غلام کو جو خریدے گا۔ گھاٹے میں رہے گا۔ فرمایا تم خدا کی نگاہ میں ناکارہ نہیں ہو۔*
*❀__"_ ایک موقع پر مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ مزاح کے طور پر گٹھلیاں نکال نکال کر حضرت علی کے آگے ڈالتے رہے۔ آخر میں تھلیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے ان سے کہا کہ تم نے تو بہت کھجوریں کھائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گٹھلیوں سمیت نہیں کھائیں۔*
*❀__"_ بعد کے لوگوں کو اس رنگ مزاح کا حال سن کر تعجب ہوتا تھا کیونکہ ایک تو مذہب کے ساتھ تقشف کا تصور ہمیشہ موجود رہا ہے اور خدا پرستوں اور متقیوں کی ہمیشہ رونی صورتیں اور خشک طبیعتیں لوگوں کے سامنے رہی ہیں، دوسرے حضور ﷺ کی عبادت رب، حضور ﷺ کی خشیت، حضور ﷺ کی بھاری ذمہ داریوں اور حضور ﷺ کے تفکرات کا خیال کرتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس نمونہ انسانیت نے ان مسکراہٹوں کے لیے زندگی کے نقشے میں کیسے جگہ پیدا کی۔*
*❀__"_ چنانچہ ابن عمر سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ کے رفقاء بھی ہنسا کرتے تھے ؟" انہوں نے فرمایا ”ہاں بنستے تھے اور ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ بڑا ایمان تھا۔ (یعنی ہنسی دل لگی ایمان و تقویٰ کی نقیض نہیں ہے)_"*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 109,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–47_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ تفریحات : متوازن زندگی کا ایک لازمی جزء تفریحات (جائز حدود میں) بھی ہیں۔ مزاح کی طرح یہ جزء ساقط ہو جائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور جس نظام حیات میں تفریحات کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو اسے کوئی معاشرہ دیر تک اٹھا نہیں سکتا۔ حضور ﷺ کو بھی بعض تفریحات پسند تھیں اور جائز حدوں میں ان کے لیے راستے نکالے۔*
*❀__" شخصی طور پر آپ کو باغوں کی سیر کا شوق تھا۔ کبھی تنہا اور کبھی رفقاء کے ساتھ باغوں میں چلے جاتے اور وہیں مجلس آرائی بھی ہو جاتی۔*
*❀__" تیرنے کا مشغلہ بھی تھا۔ اور احباب کے ساتھ کبھی کبھار تالاب میں تیرا کرتے، دو دو ساتھیوں کے جوڑ بنائے جاتے اور پھر ہر جوڑ کے ساتھی دور سے تیر کر ایک دوسرے کی طرف آتے۔ ایک موقع پر اپنا ساتھی حضور ﷺ نے جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پسند کیا۔*
*❀__" وقفے کے بعد بارش پڑتی تو تہ بند باندھ کر پھوار میں نہایا کرتے۔ کبھی تفریحا کسی کنوئیں میں پاؤں لٹکا کے اس کے دہانے پر بیٹھتے۔ دوڑوں اور تیر اندازی کے مقابلے کراتے اور اکھاڑے میں خود پوری دلچسپی سے شریک رہتے ایسے موقعوں پر ہنسی بھی ہوتی۔*.
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 110,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–48_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ مسرت کے موقعوں پر پسند تھا کہ دف بجائی جائے یا بچیاں گیت گا لیں۔ چنانچہ عید کی تقریب پر حضرت عائشہ کے پاس دو لڑکیاں گیت گا رہی تھیں۔ حضور ﷺ قریب ہی لیٹے تھے۔ ابوبکر صدیق آئے تو غصے میں ڈانٹا کہ خدا کے رسول کے گھر میں یہ کیا شیطانی ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ انہیں گانے دو۔ *® (_ روایت عائشہ، مسلم - باب ما يقول الجواري في العيد ملاحظہ ہو)*
*❀_"_ ایسی ہی ایک بزم عروسی میں بچیاں گا رہی تھیں, حضرت عامر بن سعد نے بعض حاضرین اسے بطور اعتراض کہا کہ اے صحابیان رسول! اے شرکائے بدر ! تمہارے سامنے یہ کچھ ہو رہا ہے؟ جواب ملا۔ جی چاہے تو بیٹھ کر سنو ورنہ چلے جاؤ۔ ہمیں رسول اللہ نے اس کی اجازت دی ہے"*
*®_ ( مشکوۃ باب اعلان نکاح)*
*❀_"_ تفریحات میں ایک دروازہ گناہ اور تعیش کی طرف کھلتا ہے۔ اس کا حضور ﷺ نے سد باب کیا۔ یہاں گانے کا ذکر ہے۔ عرب میں رباب بکثرت رائج تھا مگر اس کا نام نہیں لیا، صرف دف کا نام لیا۔ گانے کا مضمون دیکھئے تو کوئی شوخی نہیں کوئی جنسیت نہیں، گناہ کی بات نہیں، صرف محبت کے سادہ کلمے ہیں۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ کسی قینہ (گانے والی لونڈی) یا گویے کو یا کوئی طائفہ بلا لیتے۔ نہیں صرف چھوٹی بچیوں میں سے کہا کہ کسی مناسب لڑکی کو بلوا لیتے۔*
*❀_"_ وہ لوگ زیادتی کرتے ہیں جو استثنیٰ کو پھیلا کر کلی اصول بنا لیتے ہیں اور انتہا پسندانہ باتیں کرتے ہیں۔ ایسے اجتہادات کی گنجائش حضور ﷺ نے نہیں چھوڑی۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 110,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–49_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ازاں جملہ حضور ﷺ نے شعر سے بھی دلچسپی لی ہے۔ عرب میں جو شعر پرستی رائج تھی، اس سے تو آپ کو بعد تھا۔ آپ کو نغمہ الہام کی جاذبیتیں اتنا موقع ہی نہ دیتیں تھیں کہ شعر و سخن کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ مگر دوسری طرف ذوق شعر سے قدرت نے محروم نہیں رکھا۔ اچھے شعر (بلحاظ مقصد) کی قدر فرماتے تھے بلکہ کہنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے ایک نیا ذوق معاشرے کو دیا۔ اور ایک نیا معیار نقد مقرر فرمایا ۔*
*❀"_ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک سو سے زیادہ مجالس میں شریک ہوا ہوں، جن میں جاہلیت کے قصے بھی ہوتے تھے اور صحابہ شعر بھی سنایا کرتے، شاعران عرب کے کلام میں سے ایک بار لبید کا یہ مصرعہ پسندیدگی سے پڑھا :- الاكل شيني ما خلا الله باطل". ( آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے) دوسرا مصرعہ ہے:۔ وكل نعيم لا محالة زائل". (دنیا کی ساری نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں)*
*❀"_حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے ایک سفر میں یکے بعد دیگرے فرمائش کر کر کے امیہ ابن ابی ملت کے سو شعر سنے۔۔ آخر میں فرمایا کہ یہ شخص اسلام لانے کے قریب پہنچ گیا تھا۔*
*❀"_ بعض اوقات خود بھی (خصوصاً میدان جنگ میں) بلا ارادہ شعر کے انداز پر کلمات فرمائے ہیں۔ حضرت حسان اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے دشمنان اسلام کے ہجویہ اشعار کے جواب میں شعر کہلاتے اور کبھی کبھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے منبر پر بٹھا کر ان سے پڑھواتے اور کہتے کہ یہ اشعار دشمنوں کے حق میں تیر سے زیادہ سخت ہیں, یہ بھی فرمایا کہ "مومن تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی"۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 110,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–50_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- چند متفرق ذوقیات :- آخر میں ہم بعض ایسے خاص ذوقیات و اطوار کا ذکر کرتے ہیں۔ جنہیں کسی دوسرے عنوان کے تحت نہیں لیا جا سکا۔ کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے۔ خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے بسم اللہ لکھواتے۔ پھر مرسل کا نام اور اس کے نیچے مرسل الیہ کا نام ہوتا ۔ اس کے بعد اصل مضمون لکھا جاتا۔ خاتمے پر مہر لگواتے۔*
*❀"_ حضور اوہام پسندی سے پاک تھے اور شگون نہ لیتے تھے۔ البتہ اشخاص اور مقامات کے اچھے نام پسند آتے۔ برے نام پسند نہ کرتے۔ سفر میں اقامت کے لیے ایسا ہی مقام انتخاب کرتے جس کے نام میں خوشی یا برکت یا کامیابی کا مفہوم ہوتا۔ اسی طرح جس شخص کے نام میں لڑائی جھگڑے یا نقصان کا معنی شامل ہوتا اسے کام نہ سونپتے۔ ایسے آدمیوں کو نامزد کرتے جن کے ناموں میں خوشی یا کامیابی کا مفہوم پایا جائے۔ بہت سے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا۔*
*❀"_ سواریوں میں سے گھوڑا بہت پسند تھا۔ فرماتے گھوڑے کے ایال میں قیامت تک کے لیے خیرو برکت ہے۔ گھوڑے کی آنکھ منہ ناک کو اہتمام سے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے۔*
*❀"_شور ہنگامہ اور ہڑبونگ اچھی نہ لگتی۔ ہر کام میں سکون و وقار اور نظم و ترتیب چاہتے، نماز تک کے بارے میں کہا کہ تمہارے لیے سکون و وقار لازم ہے، یوم عرفہ کو ہجوم تھا بڑا شور و ہنگامہ تھا۔ لوگوں کو اپنے تازیانہ سے اشارہ کرتے ہوئے نظم و سکون کا حکم دیا اور فرمايا - جلدی مچانے کا نام نیکی نہیں ہے_" ( بخاری و مسلم)*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 111,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
★ *پوسٹ–51_* ★
*⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ اخلاق :- حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بیان یہاں کسی ضمنی عنوان کے تحت کیا نہیں جا سکتا۔ وہاں تو پوری زندگی حسن خلق ہی کی تفسیر ہے۔ جس کے متعلق حضرت عائشہ نے فرمایا تھا۔ "کان خلقه القرآن" انس بن مالک کا یہ قول بہت ہی جامع ہے کہ " احسن الناس ہونے کی کیفیت یہ تھی کہ کسی کو عمر بھر تکلیف نہیں پہنچائی۔ ماسوا ان باتوں کے جو حکم الہی کے تحت تھیں اور دوسروں کی زیادتیوں پر کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہر کسی سے عفو فرمایا۔ یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے بے داد گروں کو معاف کیا اور منافقین و اشرار سے در گزر کیا۔*
*❀"_ اجود الناس ہونے کا عالم یہ تھا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ بھی کسی نے مانگا آپ نے کبھی نہ نہیں کی۔ موجود ہوا تو دے دیا، کبھی قرض لے کر دیا۔ نہیں موجود ہوا تو دوسرے وقت آنے کو کہا، یا سکوت اختیار کیا،*
*❀"_ اشجع الناس ہونے کے لیے فی الجملہ یہ امر کافی ہے کہ نظریہ حق کو لے کر تن تنہا اٹھے اور زمانے بھر کی مخالفتوں اور مظالم کے مقابلے میں جمے کھڑے رہے۔ کبھی کسی خطرناک ترین موقع پر بھی خوف یا کمزوری کا اظہار نہ کیا۔ غار ثور ہو یا احد و حنین کے معرکے ہر موقع پر یقین محکم کا مظاہرہ فرمایا۔*
*📔 محسن انسانیت ﷺ , 112,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DVebQi8m0ex8pmUPCFetos
*👆🏻 واٹس ایپ پر لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
Post a Comment