0

✾⊙✿
     *⚀•═════•✭﷽✭•════•⚀*                
    *👀_ جب - آنکھیں - کھلیں - گی _👀*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

       *⊙:➻ انسان پرگزرنے والے ادوار _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ _," (الانشقاق:۲)*
*"_ (ترجمہ) اے انسان ! تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک کوشش کر رہا ہے ، پھر اس سے جا ملے گا۔‘*

*✪__" حق تعالی شانہ نے ہمیں یہاں بہت مختصر وقت کے لئے بھیجا ہے ،اور یہ زندگی عمل کے لئے ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اچھا عمل کریں گے تو اچھا بدلہ ملے گا، اور خدا نخواستہ برا عمل کر یں گے ... تو پھر برا بدلہ ملے گا،*

*✪__"ہم پر کئی مرحلے گزر چکے ہیں اور کئی مرحلے ابھی باقی ہیں، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:-*
*"_ هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا_," (الدهر:1)*
*"_(انسان پر ایک بہت بڑا وقت گزر چکا ہے، جب کہ وہ قابل ذکر چیز نہیں تھا )*

*✪__"دوسرا دور ہمارے اوپر گزرا جب کہ ہم اپنی والدہ کے شکم میں آۓ ،اللہ تعالی نے عجیب نظام بنایا ،قربان جاؤں اس کی قدرت پر، اور قربان جاؤں اس کی رحمت و عنایت پر، ہم نے ہسپتالوں میں دیکھا جو بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں، ان کو ایک خاص قسم کا شیشہ ہوتا ہے، اس میں رکھتے ہیں، اب ہر آدمی جانتا ہے کہ اس پر کتنا خرچ ہوتا ہے، لیکن ماں کے پیٹ میں وہ سارا نظام اللہ تبارک وتعالی نے فٹ کر دیا ہے، کسی کو پتہ بھی نہیں، کوئی خرچ نہیں،*

*✪__" بہر حال جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے تو اس وقت ہماری حالت ایسی تھی کہ نہ ہمارے ماں باپ کو پتہ تھا کہ یہ کیا ہے، نہ خود ہمیں پتہ تھا، ہمیں تو کیا پتہ ہوتا ، چار مہینے تک مختلف شکلیں بدلتے بدلتے ہمارے اندر روح ڈالی گئی۔*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ چار ماہ گزرنے کے بعد رزق لکھ دیا جا تا ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿

*✪_حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بیان کیا، جو صادق و مصدوق ہیں, کہ:-*
*:➻ "_ بے شک تم میں سے ہر ایک کو اس کی ماں کے رحم میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں، اور چالیس دن تک جمے ہوۓ خون اور چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رکھا جا تا ہے۔ پھر اللہ تعالی فرشتے کو بھیجتے ہیں جو اس میں روح ڈالتا ہے، اور اسے ان چار چیزوں کے لکھنے کا حکم دیا جا تا ہے:-*
*:➻ "_ (۱) اس کا رزق کتنا ہوگا ؟*
*:➻ "_ (۲) اس کی زندگی کتنی ہوگی ؟*
*:➻ "_ ( ۳ ) اس کی موت کب اور کہاں واقع ہوگی؟*
*:➻ "_ ( ۴ ) اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا شقی و بد بخت.."*

*🗂️_ (صحیح مسلم ، ج:۲، ص:۳۳۲)*

*✪_ اب دیکھیں کہ ماں کے پیٹ میں چار مہینے گزرے ہوۓ ہمیں کتنا عرصہ ہوا، ابھی اللہ ہی جانتا ہے کہ مزید یہاں کتنار ہنا ہے، تو پہلے دن ہی اللہ تعالی نے رزق لکھ دیا کہ اس کا رزق کتنا ہے....؟ اور یہ کہ یہ بچہ کہاں کہاں پھرے گا....؟ وغیرہ وغیرہ, غرض موٹی موٹی باتیں ساری کی ساری لکھ دی جاتی ہیں، اور آخر میں فرشتہ اللہ تعالی سے پوچھتا ہے۔ پروردگار! یہ نیک بخت ہے یا بد بخت ہے؟*

*✪__ اب ہمارا نام کن لوگوں میں لکھا ہوا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے، فرشتہ یہ سب پوچھتا ہے اور پوچھنے کے بعد پھر بچے میں روح ڈال دی جاتی ہے، پانچ مہینے اس حالت میں آدمی گزارتا ہے _,"*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

         *⊙:➻ انسانی زندگی کا پہلا دور :-*
┏───────────────────┯ ✿

*✪_ ( بنی اسرائیل: ۱۳ ۱۴۶، ترجمہ) :- اور ہر انسان ، ہم نے لٹکا دیا ہے اس کی قسمت کا پروانہ اس کی گردن میں ۔ اور قیامت کے دن ہم اس کے لئے ایک کتاب کھولیں گے ( یہ اس کی نامہ اعمال کی کتاب ہوگی ) جس کو وہ پھیلا ہوا پاۓ گا اور کہا جاۓ گا : اپنی کتاب پڑھ، تو ہی کافی ہے آج کے دن اپنا حساب لینے والا _,"*

*✪_" اب آپ کی ، میری اور دنیا کے تمام انسانوں کی جو بھی قسمت ہے، اس کو اللہ تعالی نے پروانے کی شکل میں گردن میں لڑکا دیا، کتاب کیا ہے، ہمارے اپنے اعمال جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے، چھوٹا عمل ہو یا بڑا، تمام کا تمام لکھا ہوا ہے، اللہ اکبر ! یہ تو دوسرے جہان کی بات ہوئی۔*

*✪_"_میں نے عرض کیا کہ ایک دور ہم پر گزرا ہے، جس وقت مجھے اور آپ کو پتہ نہیں تھا کہ میں کون ہوں؟ پورے پانچ مہینے ماں کے پیٹ میں رہے ، روح ڈال لینے کے بعد، چار مہینے پہلے اور پانچ مہینے بعد، لیکن یہ دور جو گزرا میرے اوپر اور آپ کے اوپر اس کا مجھے بھی اور آپ کو بھی پتہ نہیں تھا، ہر حال اس کے بعد ہم دنیا میں آ گئے_,"*:               
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

   *⊙:➻ انسانی زندگی کا دوسرا دور _,*
┏───────────────────┯ ✿     
*✪_"_ اب یہاں سے دوسرا دور شروع ہو گیا، ایک دور تو تھا ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے کا، دوسرا دور تھا ماں کے پیٹ میں آنے کے بعد کا، تیسرا دور ہے پیدا ہونے کے بعد کا، یہاں ہم نے اس زمین پر قدم رکھا، کیسے قدم رکھا ؟ ..... تم جانتے ہو !*

*✪_"_ علامہ اقبال کا شعر ہے کہ::-*
*"_ یاد داری کہ وقت زیست تو،*
*"_ خنده بودند و تو گریاں _,"*
*(ترجمہ): تجھے یاد ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا، تو سارے ہنس رہے تھے اور تو رو رہا تھا۔ بچہ کیوں روتا ہے؟ یہ کوئی اس سے پوچھے صاحبزادے میاں روتے کیوں ہو؟ تم نے کبھی ڈاکٹروں کی دکانوں پر جا کر دیکھا ہوگا ،اس میں بچے کا نقشہ کیسا بنا ہوتا ہے، اس کا سر ٹانگوں میں دیا ہوا ہوتا ہے، اس حالت میں بے چارے نے ماں کے پیٹ کی ساری عمر گزاری لیکن جب پیدا ہوا تو رو رہا ہے اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے بہت اچھی چیز چھین لی گئی، بس اتنا ہی جانتا ہے،*

*✪_"_ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ تعالی معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کو کوئی ہنر نہیں آتا، آنکھیں کھولتا نہیں، اس وقت آنکھیں بھی بند ہوتی ہیں، تھوڑی تھوڑی کھولتا ہے دیر کے ساتھ، چند لمحوں کے بعد کھلتا ہے، بولنا نہیں آتا ،اپنے ساتھ کپڑا کوئی نہیں لایا، بھلا کوئی بچہ کپڑے ساتھ لاتا ہے..... بلکہ الف ننگا ہوتا ہے کوئی چیز بھی تو نہیں اس کے پاس، ماں کے پیٹ سے کچھ کما کے لایا ہے؟ مالک نے ماں کے پیٹ میں پانچ مہینے روح ڈالنے کے بعد رکھا، کل نو مہینے رکھا، نہ باپ کو کچھ پتہ، نہ ماں کو کچھ پتہ، نہ ان صاحبزادے صاحب کو کچھ پتہ لیکن حق تعالی شانہ نے کرم فرمائی کی، جب پیدا ہو گیا، اب بولنا نہیں جانتا، ہلنا نہیں جانتا، بل نہیں سکتا، اب اس کو صرف ایک رونے کا کام آتا ہے اور بس ..،*

*✪_"_ مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بچہ کو صرف ایک ہنر آتا ہے رونے کا اور کوئی ہنر نہیں آتا، بھوک لگے تو روئے گا ، دھوپ لگے تو روئے گا ،سردی لگے تو روئے گا، تکلیف ہوتو روئے گا، غرضیکہ بچہ کی تمام حاجتیں صرف ایک ذریعے سے پوری ہوتی ہیں اور وہ ہے ”رونا‘،*

*✪_"_ بچہ جب روتا ہے تو ماں سمجھ لیتی ہے کہ اس کو فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ یہ دور بھی گزرا اس کے بعد ہم آہستہ آہستہ رینگنے لگے اور پھر کچھ عرصے کے بعد چلنے لگے، پھر مختلف مرحلے طے کرتے ہوئے ہمارا بچپن گزر گیا اور ہم نے جوانی کی دہلیزر میں قدم رکھا۔*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

        *⊙:➻_انسانی زندگی کا تیسرا دور :_*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ حدیث میں ہے: "الشباب شعبة من الجنون . » یعنی جوانی جنون کی ایک شاخ ہے۔*
*"_جوانی آئی تو ہم نے سمجھا کہ نہ ماں باپ کو عقل ہے، نہ دوسرے لوگوں کو، دنیا بھر کی عقل صرف ہمارے پاس ہے، اور اتنی کہ اپنی اس عقل کے ذریعے سے اللہ اور اس کے سول کا بھی مقابلہ کرنے لگے،*

*✪_ یہ دور بھی گزر گیا، جوانی پختہ ہوئی تو عقل بھی پختہ ہوئی, چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو قوی میں انحطاط شروع ہو گیا ،اب چلتے چلتے بڑھاپے کی دہلیز میں پہنچے،*

*✪_اب رفتہ رفتہ یہی حال ہو رہا ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھنے کا کام نہیں کرتیں، کان ہیں لیکن سنائی نہیں دیتا، ٹانگیں ہیں مگر بوجھ نہیں اٹھاتیں، ہاتھ ہیں مگر کام نہیں کر تے، میدہ ہے لیکن ہضم نہیں کرتا، کبھی فلاں تکلیف ہے بڑے میاں کو اور کبھی فلاں !*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                 *⊙:➻ان دیکھی منزلیں_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_بڑھاپا بہت بڑی نعمت ہے، بڑھاپے میں جوانی کی ساری لذتیں چھوٹ جاتی ہیں، لوگ اس سے پریشان ہوتے ہیں لیکن عارفین کہتے ہیں کہ بڑھاپا پریشانی کی چیز نہیں، بلکہ نعمت کبری ہے ۔*

*✪_"_اول .. اس لئے کہ دنیا سے بے رغبتی اور اس کی لذتوں سے اعراض اللہ تعالی کو بہت محبوب ہے۔ ہم ایسے کہاں تھے کہ خود لذات دنیا کو ترک کرتے؟ اللہ تعالی نے احسان عظیم فرمایا کہ ہم سے آلات لذت چھین کر ہمیں دنیا کی لذتوں سے بے رغبتی کا مزہ چکھا دیا۔ سبحان اللہ ! کیا احسان ہے کہ ہم خود تارک الدنیا نہ ہے تو زبردستی ہم سے دنیا چھٹرا دی، جس طرح ماں زبردستی اپنے بچے کا دودھ چھٹرا دیتی ہے۔*

*✪_"_دوم ... یہ کہ اب ہم موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں، قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں، مرتے ہی ہم سے دنیا کی ساری لذتیں ہی نہیں بلکہ خود دنیا ہی چھوٹ جائے گی۔ بڑھاپے کے ذریعہ اللہ تعالی پہلے ہی اس کی مشق کرا دیتے ہیں، جس طرح دلہن کو مایوں بٹھایا جاتا ہے ۔*

*✪_"_سوم .... یہ کہ آدمی بوڑھا ہو کر آخرت کی تیاری شروع کر دیتا ہے، کیونکہ جانتا ہے کہ اب چل چلاؤ ہے، توبہ تلا کرتا ہے، گناہوں کی معافی مانگتا ہے، جو کوتاہیاں سرزد ہو چکی ہیں ان کی تلافی کرتا ہے، اور بڑھاپے کی بدولت ان چیزوں کی توفیق ہو جانا احسان عظیم ہے۔اس لئے عارفین کہتے ہیں:"الشيـب بـريـد الموت . یعنی بڑھاپا موت کا قاصد ہے، اور جب قاصد بلاوا لے کر آ جاۓ تو آدی کو چاہئے کہ سب کچھ چھوڑ کر سفر کی تیاری کر ے (اللہ تعالی توفیق عطافرماۓ ) ۔*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

      *⊙:➻ پہلی منزل موت - موت کا مرحلہ_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ یہاں تک کے مراحل تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے لیکن اس کے بعد کے جو مراحل ہیں وہ ابھی ہمارے سامنے نہیں، ان میں سب سے پہلے موت کا مرحلہ ہے، پھر قبر کا مرحلہ، پھر حشر کا مرحلہ ہے، پھر حساب و کتاب کا مرحلہ ہے، پھر پل صراط سے گزرنا ہے، اس کے بعد ہماری آخری منزل آنے والی ہے، جنت یا دوز خ !*

*✪_"_ ہماری یہ کمزوری ہے کہ جس حالت میں ہم ہوتے ہیں، اس کے آگے کی ہمیں سوچ نہیں آتی ۔سب کو معلوم ہے کہ مرنا ہے، پہلے لوگ بھی مرے ہیں، ہم بھی مریں گے، دنیا کی ہر چیز میں اختلاف ہے لیکن موت میں اختلاف نہیں ۔ تمام مسلمان اور کافر اس بات پر متفق ہیں کہ آدمی مرے گا لیکن اس میں پھر اختلاف ہوا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ اس میں پھر جھگڑا شروع کر دیا۔ تو ہماری سب سے بڑی جو بیماری ہے وہ یہ ہے کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، زندگی کے جس مرحلے سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں ہم ایسے الجھ کر رہ گئے کہ اگلے مراحل ہماری نظر سے اوجھل ہو گئے ۔*

*✪_"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے زندگی کے نقشے بھی کھولے، موت کے وقت کی حالت بھی بیان فرمائی ،مرنے کے بعد دوزخ میں انسان پر جو کچھ گزرتی ہے اس کو بیان فرمایا ،قبر کے عذاب کو اور ثواب کو بھی ذکر فر مایا، کن چیزوں سے آدمی کے لئے موت آسان ہو جاتی ہے؟ اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جن سے جان کنی مشکل ہو جاتی ہے؟ اس کو بھی ذکر فر مایا ۔ تو پہلا مرحلہ جو اس زندگی کے بعد آنے والا ہے وہ موت ہے ۔*                  
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                *⊙:➻ موت کا ذکر ,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا نقل کرتے ہیں کہ : لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔“*
*®_ (ترمذی ، ج:۲،ص:۵۴)*

*✪_"_دنیا کی ساری لذتیں اور ساری خوشیاں اس نا پائیدار زندگی تک محدود ہیں، جب روح و بدن کا رشتہ ٹوٹ جاۓ گا تو عیش وعشرت اور مسرت و شادمانی کے سارے اسباب دھرے رہ جائیں گے، انسان کی غفلت اور جھوٹی لذتوں پر قناعت کا سبب یہی ہے کہ موت کا بھیا نک چہرہ اس کی نظر سے اوجھل ہے،*.

*✪_ اگر غفلت کا غبار چھٹ جاۓ، موت اور موت کے بعد کا منظر اس کے سامنے رہے تو اسے دنیا کی کسی چیز سے دل بستگی نہ رہے، مرتے ہی یہ ساری چیزیں اس سے چھن جائیں گی اور وہ بیک بینی و دو گوش خالی ہاتھ گھر سے نکال دیا جاۓ گا۔*

*✪_ جس چہیتی بیوی کے لئے اپنے دین کو بگاڑا تھا، جس پیاری اولاد کے لئے اپنی آخرت برباد کی تھی، جن عزیز وا قارب کی خاطر اپنی عاقبت سے بے پرواہ تھا ،ان میں سے کوئی بھی تو ساتھ نہیں دے گا، نہ کوئی بنگلہ اور مال و دولت ساتھ جاۓ گی ،قبر کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اس کو تن تنہا جانا ہوگا، چند دن بعد اس کا جسم، جس کے بنانے سنوار نے پر گھنٹے لگاتا تھا گل سڑ جاۓ گا اور کیٹروں کی خوراک بنے گا،*

*✪_ یہ ہے موت کا ظاہری نقشہ ۔ باقی رہیں اس کی روحانی سختیاں، جان کنی کا عذاب، فرشتوں کا سامنا، قبر کے عذاب کی کیفیت، اس کا اندازہ تو چشم تصور سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ موت کو یاد رکھنا بہت ضروری بھی ہے اور بڑی عبادت بھی، یہ مرض غفلت کا تریاق بھی ہے اور دنیوی پریشانیوں سے نجات کا علاج بھی، یہ آدمی کے لئے تازیانہ عبرت بھی ہے اور کلید سعادت بھی۔ اس شخص سے بڑا بد نصیب کون ہو گا جوا پنی موت کو بھول جاۓ ؟ اللہ تعالی ہمیں صحیح بصیرت عطا کر یں ۔*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻موت کا ذکر -2,- اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ موت ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا نقل کرتے ہی کہ : جوشخص اللہ تعالی سے ملاقات کا اشتیاق رکھے ،اللہ تعالی اس کی ملاقات کو پسند فرماتے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات کو نا پسند کرے، اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو نا پسند فرماتے ہیں۔“*
*®_ (ترندی ، ج:۵۵:٢)*

*✪_"_ اس حدیث پاک کی تشریح انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمادی ہے، صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! موت کو تو ہم میں سے ہر شخص نا گوار سمجھتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ حق تعالی سے ملاقات کا ذریعہ تو موت ہے ،اور موت ہرشخص کو طبعاً نا گوار ہے، تو گو یا با لواسطہ حق تعالی سے ملاقات بھی نا گوار ہوئی ۔*

*✪_"_ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ! یہ مطلب نہیں، بلکہ جب مؤمن کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے حق تعالی کی رضامندی اور کرامت کی بشارت دی جاتی ہے، تب اس کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں رہتی، اور وہ حق تعالی سے ملاقات کا مشتاق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں۔اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالی کے عذاب وسزا کی خبر دی جاتی ہے ، اس وقت موت اور موت کے بعد کی حالت سے بڑھ کر اس کے لئے کوئی چیز نا پسند یدہ اور مکروہ نہیں ہوتی، تب وہ اللہ تعالی سے ملاقات کر نے کو نا پسند کرتا ہے اور اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کو پسند نہیں فرماتے ہیں_,"*
*®_ (صحیح بخاری ، ج:۲ : ۹۲۳)*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ موت کو یاد رکھو مگر موت کی تمنا نہ کرو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"دوسری بات یہ کہ حدیث پاک میں موت کی تمنا سے ممانعت فرمائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:: تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے، کیونکہ اگر وہ نیکو کار ہے تو شاید وہ اپنی نیکیوں میں اضافہ کر سکے اور بد کار ہے تو ممکن ہے اسے تو بہ اور معافی کی توفیق ہو جاۓ ۔“*
*®_( صحیح بخاری، ج: ۱۰۷۴ :۴۲)*

*✪__ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی سے موت نہ مانگا کرو، اور اگر سوال کرنا ہی ہو تو یوں دعا کیا کرو::..اے اللہ ! مجھے زندہ رکھیئے جب تک آپ کے علم میں میرے لئے زندگی بہتر ہو، اور مجھے وفات دیجئے جب آپ کے علم میں میرے لئے وفات بہتر ہو۔“*
*®_ (ترندی، ج:۱ ص:۱۱۹)*

*✪_"_ اس لئے مؤمن کی شان یہ ہونی چاہئے کہ وہ ہر دم موت کے لئے تیار اور حق تعالی شانہ سے ملاقات کا مشتاق رہے لیکن موت کی درخواست نہ کرے، بلکہ زندگی کی جو مہلت اسے میسر ہے اسے غنیمت سمجھے، اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے ،اور جو گناہ سرزد ہو گئے ان سے توبہ استغفار کرتا رہے، اور جو حقوق اس کے ذمے واجب الادا ہیں ان سے سبکدوش ہونے کی فکر کرے اور جو حقوق اب تک ضائع کر چکا ہے ان کی تلافی کی کوشش کرے، تا کہ جب بھی بلاوا آۓ تو جانے کے لئے بالکل تیار بیٹھا ہو حق تعالی توفیق عطافرمائے ۔*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ یہ سوچو کہ آج میری موت کا دن ہے_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"فرماتے ہیں کہ جب صبح کو اٹھو تو یہ سمجھو کہ آج میری موت کا وقت ہے، اور گویا کہ تم مردوں میں جاکر شامل ہوگئے ہو، نفس کا علاج ہو جائے گا، ساری رذالتوں کا علاج ہو جائے گا لیکن ہمارے دل میں یہ چیز نہیں بیٹھتی ہے_,"*

*✪_"_ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ نے کسی سے کہا تھا کہ تم سات دن میں مر جاؤ گے ، وہ سات دن میں نہیں مرا تو کہنے لگا کہ تم نے مجھے تو سات دن کا کہا تھا، فرمانے لگے کہ ساتویں دن میں ہی مرو گے، اس لئے کہ دن صرف سات ہی ہوتے ہیں،*

*☞ _موت کے انتظار کا قصہ:-*

*✪_جس دن مولوی منیر احمد صاحب کے والد ماجد کا انتقال ہوا، بہاول نگر میں رات کو فرما رہے تھے کہ میں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ یا اللہ ! میری موت دوشنبہ کو ہو، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دوشنبہ کو ہوا تھا، تو جب سے مغرب کی اذان ہوئی اس وقت سے منتظر ہو گئے کہ ملک الموت آیا چاہتا ہے، کہنے لگے کہ چار پائی میری قبلہ رخ کر دو اور چشمہ لگایا اور بچوں سے کہا کہ کدھر سے آۓ گا فرشتہ؟*

*✪_"_ اس کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کدھر سے آئے گا فرشتہ؟ فرشتہ کو دیکھنے کے لئے چشمہ لگا لیا۔ رات کے گیارہ بجے مجھ سے فرما رہے تھے کہ آپ جا کر سو جائیں، میں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ اللہ تعالی مجھے دوشنبہ کی موت نصیب فرماۓ، اگر یہی دوشنبہ ہے تو وقت آ گیا ہوگا، اور اگر نہیں تو دوشنبے ( یعنی پیر کا دن ) تے ہی رہیں گے،*

*✪_"_ صبح فجر کی اذان ہوگئی اسی انتظار میں ہم نے ساری رات گزار دی، مولانا احمد صاحب نے خوش ہو کر کہا کہ ابا جی! وہ آپ کا دوشنبہ تو گیا، کیونکہ وہ خوش ہو گئے تھے کہ آج ابا جی نہیں مرتے کیونکہ رات گزر گئی، مگر وہ بڑی حسرت کے ساتھ فرمانے لگے کہ فکر نہ کرو، سورج غروب نہ ہونے دوں گا، دن کے گیارہ بجے انتقال ہوا، اور یہی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا وقت تھا ۔*

*✪_"_ تو میرے بھائی ! ہم سب نے سات دنوں میں مرنا ہے، کیونکہ ہفتہ میں سات ہی دن ہوتے ہیں، آٹھواں دن نہیں ہوتا صبح کرو تو ہمیشہ خیال کرو کہ شاید آج ہی کا دن میری موت کا دن ہے نفس بے لگام نہ ہوگا ۔*                   
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ موت کا فرشتہ اب تمہارے پیچھے ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا، اس میں ارشاد فرمایا کہ: اے ابن آدم ! بے شک موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ ہمیشہ تجھ کو چھوڑ کر دوسروں کے پاس جاتا رہا جب سے تو دنیا میں آیا ہے، اور بس یوں سمجھ لے کہ اب وہ دوسروں کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہے، اور وہ تیرے ارادے سے چلا ہے، لہذا اپنے بچاؤ کا سامان کرلو، اس کی تیاری کر لو، غفلت نہ کرو، اس لئے کہ تجھ سے غفلت نہیں کی جارہی۔ ابن آدم ! تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اپنی ذات سے غفلت کرے گا اور تیاری نہیں کرے گا تو دوسرا آدمی اس کے لئے تیاری نہیں کرے گا، اور اللہ تعالی سے ملاقات بہر حال ضروری ہے، سو اپنی ذات کے لئے حصہ لے اور اس کو دوسروں کے سپرد نہ کر ۔“*
*®_ ( کنز العمال، ج : ۱۵، حدیث:۴۲۷۹۰)*

*✪_"_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے تم پیدا ہوۓ ہو تم نے لوگوں کو مرتے دیکھا ہے ،موت کا فرشتہ تم پر بھی مقرر کیا گیا ہے، لیکن وہ تجھ کو چھوڑ کر دوسروں کے پاس جاتا رہا لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ اب تمہارا نمبر آ گیا، اب دوسروں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آئے گا مطلب یہ کہ فرشتے کا آنا کسی وقت بھی متوقع ہے، جو دوسروں کے پاس جا سکتا ہے، وہ تمہارے پاس بھی آ سکتا ہے، اور جب اس کا آنا حتمی اور لازمی ٹھہرا تو تمہیں اپنی تیاری کرنی چاہئے ، اپنا بوریا بستر تیار رکھو کہ جب موت کا فرشتہ تمہارے پاس آۓ تو چل پڑو ، اور اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔*

*✪_"_ ایک حدیث شریف میں چند نصیحتیں فرمائی گئی ہیں، ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی ہے: " _جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو یوں سمجھو کہ بس اب یہ تمہاری آخری نماز ہے (جتنی بنا سنوار کے پڑھ سکتے ہو پڑھ لو ) _,*
*®___( مشکوة : ۴۴۵ )*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ کیا تیجے، دسویں، چالیسویں اور قرآن خوانی سے تیری مغفرت ہو جاۓ گی؟*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ کیا خیال ہے کہ بعد والے تیسرے دن یہ قل شریف کروا کر تمہاری بخشش کروا لیں گے؟ تم نے قرآن مجید زندگی میں کبھی ختم نہیں کیا، اور نہ روزانہ تلاوت کی لیکن موت کے دن یا تیسرے دن تمہارے لئے قرآن کریم ختم کروا کے تم سمجھتے ہو کہ تمہارا قرضہ ادا ہو جاۓ گا ؟ بھلے آدمی ہم نے اپنے لئے کچھ نہیں کیا تو دوسرا تمہارے لئے کیا کرے گا؟ اگر تم اپنے لئے کچھ نہیں کرو گے تو دوسرا تمہارے لئے کچھ نہیں کرے گا، اور تمہیں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ تیجہ، ساتواں، دسواں، چالیسواں کرتے ہیں، اس سے بخشش ہو جاۓ گی، نہیں بھائی ! یہ تو محض رسمیں ہیں۔*

*✪_ قرآن خوانی کا حال:- لوگ کہتے ہیں کہ جی قرآن خوانی کروانی ہے، قرآن خوانی کا معنی ہے قرآن پڑھنا، پڑھنا آتا بھی ہے کہ نہیں ؟ پوچھ لوان سے کہ تمہیں قرآن پڑھنا آتا بھی ہے؟ اپنے خیال اور اپنے انداز سے قرآن پڑھتے ہیں، لیکن کبھی قرآن پڑھا اور سیکھا بھی تو ہو تو پڑھنا آئے، یہی وجہ ہے کہ قرآن خوانی والے ایک صفحے کو دود، آ دمی پڑھنے لگتے ہیں ،ایک ادھر سے ایک ادھر سے، میرے بھائی ! یہ تلاوت ہے یا تلاوت کا دھوکا ؟*

*✪_" یاد رکھو اللہ تعالی دھوکوں میں نہیں آتے اور اگر ہم تمہیں کہتے ہیں کہ بھائی عقل کی بات کرو، سمجھ کی بات کرو، طریقے کی بات کرو تو پھر کہتے ہو کہ ہمیں روکتے ہیں ! ہم تم کو نہیں روکتے بھائی ! تم کرو جو چاہو کرو لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا طرز عمل غلط ہے، کبھی حافظوں کو بٹھا لیتے ہیں اور ان کو اجرت دیتے ہیں ،اجرت لے کر قرآن مجید کا پڑھنا، اس کا تو ثواب ہی نہیں ملتا، دو چار دن یہ رسمی باتیں کرتے ہیں، قل کر لئے، تیجہ، دسواں کر لیا، چالیسواں کرلیا، پھر سال بہ سال برسی پر یاد آ گئے، پھر بھی ایک آدھ تقریب کر لی، دوست احباب کو اکٹھا کر لیا اور کھانا کھلا دیا تو گویا مرنے والے کا سارا فرض ہم نے ادا کر لیا، جس شخص کی ساٹھ سال یا ستر سال کی عمر ہوئی ہے کیا اس کے ذمہ اللہ تعالی کا بس اتنا ہی فرض تھا ؟ اور کیا وہ ان رسموں سے ادا ہو گیا ؟*      
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ آخرت کی تیاری کیا ہے؟_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ تو بھائی! اپنے لئے خود تیاری کرو، غفلت نہ کرو، آپ پوچھیں گے کہ تیاری کیا ۔۔؟ کیا تیاری کریں؟ بھائی ! جن لوگوں کے حقوق وفرائض تمہارے ذمے ہیں ان کا جائزہ لو اور ادا نہیں کئے تو ادا کرو ، فرائض کو ضائع کیا ہے تو اللہ تعالی سے توبہ کرو، اور آئندہ کے لیے ان فرائض کو ضائع نہ کرنے کا عہد کرو ،اگر نمازیں نہیں پڑھی تھیں تو نمازوں کی قضا کرو، روزیں نہیں رکھے تو روزے رکھو، پچھلے سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی تو حساب کر کے اس کو ادا کرو، حج نہیں کیا تو حج کرو، کسی سے رشوت لی ہے ،کسی کی کوئی چیز غصب کی ہے، کسی کے مالی حقوق غصب کئے ہیں اس سے معاف کرواؤ یا اس کو ادا کرو ۔*

*⊙:➻ _ آخرت کا مفلس :_*

*✪_"_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:- "_ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ عرض کیا گیا: ہم تو مفلس اس کو کہتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا ! فرمایا: نہیں! میری امت کا مفلس آدمی وہ ہے جو نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ اور بہت ساری نیکیاں لے کر آۓ لیکن کسی کا مال کھایا تھا، کسی کی بے آبروئی کی تھی ،کسی کو گالی دی تھی، اس کا ناحق مال کھایا تھا، اس کا ناحق خون بہایا تھا، اور اس کو مارا تھا، وغیرہ، پس اس کی نیکیوں سے ان ارباب حقوق کے حقوق ادا کئے جائیں گے اور کہا جاۓ گا کہ نمازیں وہ لے جاۓ، روزے یہ لے جاۓ ،زکوۃ یہ لے جاۓ، غرضیکہ ساری اس کی نیکیاں اہل حقوق لے جائیں گے اور یہ خالی کا خالی کھڑارہ جاۓ، پھر اس کے حقوق اگر نیکیوں سے پورے ہو گئے تو ٹھیک اور نہ پھر اہل حقوق کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے ،اور اس کو اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیا جاۓ گا ( یہ ہے میری امت کا مفلس ! )*
*®_ ( مشکواۃ - 435)*               

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻_اپنے اور دوسروں کے لئے بھی آخرت کا سامان کرے_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے ذمہ اللہ تعالی کے جو حقوق ہیں ان سے غفلت، بندوں کے جو حقوق ہمارے ذمہ ہیں ان سے غفلت، غرض غفلت ہی غفلت ہے اور اس کی فکر ہی نہیں، اور آگے کیا کیا منزلیں پیش آنے والی ہیں؟ ہمیں تو مرنے سے پہلے پہلے کی زندگی کی فکر کھاۓ جاتی ہے اور ستاۓ جاتی ہے کہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے، بچے کیا کھائیں گے؟ کیا کریں گے؟ کیا نہیں کر یں گے؟ زندگی کیسے گزاریں گے؟ ارے بھائی! یہ تو گزر ہی جائے گی، جیسے تیسے گزر ہی جاۓ گی، لیکن مرنے کے بعد جو زندگی شروع ہونے والی ہے اس کے لئے کیا ہوگا ؟ ہمیں اس کی بھی فکر کر نی چاہئے !!*

*✪_"_ مؤمن آدمی کو دوسروں کے لئے بھی سامان کرنا ہوگا, دعا، استغفار، ایصال ثواب کرنا ہو گا, ہمارے حضرت ڈاکٹر عبد لحئی عارفی قدس سرہ صاحب فرماتے ہیں کہ: اولاد کے ذمہ حق ہے کہ:- اولاد کے ذمہ حق ہے کہ وہ ہر آٹھویں دن اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے، والدین کی قبر کی زیارت کرے، ان کے لئے ایصال ثواب کرے، کچھ پڑھ کر بخشے ، تمام اہل ایمان کے لئے بخشش کی دعا کرے اور جتنے مسلمان مرد اور عورتیں زندہ ہیں ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے دعا کرے کہ یا اللہ ! ایمان سلامت رکھ، خاتمہ بالخیر فرما۔*

*✪_"_ ہم لوگ تو اپنی ہی تیاری سے غافل ہیں، دوسروں کے لئے کیا تیاری کریں گے؟ دوسروں کے لئے تیاری بھی دراصل اپنے لئے ہے، اس لئے کہ جب تم دوسروں کے لئے مانگو گے تو اللہ تعالی تمہیں پہلے عطا فرمائیں گے، تم اوروں کے لئے خیر مانگو گے تو اللہ تعالی تمہیں پہلے خیر عطا فرمائیں گے، دوسروں کے معافی مانگو گے تو تمہیں اللہ تعالی پہلے بھلائی عطا فرمائیں گے،*

*✪_"_ اس لئے کہ مسئلہ ہے کہ ۔ ۔ مغفرت اور بخشش کی دعا کرنی ہوتو یوں کہا جائے : یا اللہ ! میری بخشش فرما اور ایمان والے مردوں اور عورتوں کی بخشش فرما۔ اس مختصر سے فقرے میں گویا تمام اہل ایمان اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے، جو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں اور قیامت تک جائیں گے، سب کے سب کے لئے دعا ہو گئی ،*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

          *⊙:➻ اللہ تعالی سے ملاقات کا حال _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی سے ملاقات تو لازم ہے ! مرنے کے بعد اللہ تعالی کے سامنے جانا ہے، کوئی روشن چہرہ لے کر جاۓ اور کوئی نعوذ باللہ منہ کالا کر کے جاۓ، اللہ تعالی کی پناہ ! بہر حال جانا ہے اور بارگاہ خداوندی میں حاضری لازم ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ:-*

*✪__لیکن جب مؤمن کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس اللہ تعالی کی جانب سے ایک خوشخبری سنانے والا فرشتہ حاضر ہوتا ہے، اور جو کچھ اللہ تعالی کے ہاں اس کا اعزاز و اکرام ہونے والا ہے اس سے اس کو آگاہ کرتا ہے، تو اس کے نزدیک اللہ سے ملاقات سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی، پس وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں،* 

*✪__ رہا فاسق و فاجر ! جب اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس بھی ایک فرشتہ آتا ہے جو اسے وہ سب کچھ بتلاتا ہے جو اس کے ساتھ برا سلوک ہونے والا ہے، تو وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو نا پسند کرتے ہیں۔“*
*®_ (کنز العمال- ج : ۱۵، حدیث : ۴۲۱۹۸ )*

*✪_ یعنی نیک آدمی کی اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری ایسے ہوتی ہے جیسے کہ کوئی آدمی اپنے وطن سے دور تھا بچھڑا ہوا تھا، ایک عرصے کے بعد اپنے گھر میں آیا، جس طرح اس کو اپنے گھر والوں اور اہل وعیال سے مل کر خوشی ہوتی ہے،اسی طرح اس کو اللہ تعالی سے مل کر خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی کو اس سے مل کر بھی اتنی ہی خوشی ہوتی ہے۔ اور بدکار اور برے آدمی کی حاضری کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بھگوڑا غلام تھا، بھاگ گیا تھا، آقا نے آدمی دوڑاۓ اور کافی مدت تک وہ پریشان کرتا رہا لیکن آخر کار وہ پکڑا گیا اور اسے پکڑ کر آقا کی خدمت میں لایا گیا، تو جس طرح اس کو اپنے آقا کے سامنے سزا کے خوف سے جاتے ہوے ڈر لگتا ہے، فاجر بھی ایسے ہی ملاقات الہی سے گھبراتا ہے، تب اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔*

*✪_"_ اب تم دیکھو کہ اللہ تعالی کے سامنے تمہاری حاضری کیسے ہونے والی ہے؟ اس کا جائزہ لیتے رہو۔ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالی سے ملاقات تو ضروری ہے ،لہذا تم اپنی ذات کے لئے توشہ تو تیار کر لو، اور اس توشہ کی تیاری کو دوسروں کے سپرد نہ کرو، اس لئے کہ تم اپنا توشہ خود ہی باندھو گے تمہارا تو شہ دوسرے نہیں باندھیں گے۔*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

        *⊙:➻ نزع کا مرحلہ:-* _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ وقت کون کون سی تختیاں آتی ہیں؟ اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کے نزع کو آسان کر دیتی ہیں؟ سب آنحضرت نے بیان فرمادی ہیں ۔۔*

*⊙:➻ _ ماں کی بے ادبی کرنے والے نو جوان کا واقعہ:-*

*✪_"_ ایک بار آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی گئی کہ ایک نو جوان تین دن سے نزع کی حالت میں ہے، اس کی جان نہیں نکل رہی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے ۔ یہ نو جوان تکلیف میں تھا، اس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: اس کے ماں باپ زندہ ہیں؟ عرض کیا گیا کہ: اس کی ماں زندہ ہے ! فرمایا کہ: اس کو بلاؤ، اس کی والدہ آئی تو اس سے فرمایا: بڑی بی ! اس لڑکے نے تمہارے ساتھ کوئی گستاخی تو نہیں کی؟ کوئی بے ادبی تو نہیں کی؟ کہا نہیں! یہ بڑا فرماں بردار تھا، البتہ ایک دفعہ اس نے میرے تھپڑ مارا تھا۔*

*✪_"_( بہت سے بد بخت موذی ایسے ہیں جو اپنے ماں باپ کو مارتے ہیں ، ان کو گالی دیتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی شخص اپنے ماں باپ پر ہاتھ اٹھاۓ ؟ )، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: بڑی بی ! تم اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لئے معاف کر دو! کہنے لگی: میں تو معاف نہیں کروں گی! کیونکہ مجھے اس سے بہت صدمہ ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: لکڑیاں جمع کرو! وہ مائی کہتی ہے کہ لکڑیوں کا کیا کریں گے؟ فرمایا: تیرے بیٹے کو جلائیں گے! کہنے لگی ہاۓ ! میرے بیٹے کو جلائیں گے؟ فرمایا: اگر تم اس کو معاف نہیں کروگی تو اللہ تعالی اس کو جلائیں گے، اور ہمارا جلانا آسان ہے اور اللہ تعالی کا جلانا سخت ہے ۔ وہ اماں پھر کہنے لگی کہ: میں اس کو دل سے معاف کرتی ہوں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو فر مایا کہ: پڑھ کلمہ ! اس نے کلمہ پڑھا اور روح پرواز کرگئی۔*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ مومن کی روح آسانی سے نکل جاتی ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: نیک آدمی کی روح ایسے نکل جاتی ہے جیسے مشکیزہ سے قطرہ گرتا ہے، اور فرمایا کہ برے آدمی کی روح اس طرح نکلتی ہے جیسے دھنی ہوئی روئی ہو اور کانٹے دار چھڑی گیلی کر کے اس کے اوپر ماری جاۓ اور پھر پیٹ کر کے اس کو کھینچا جاۓ، اب وہ چھڑی تو اس روئی سے جدا نہیں ہو سکتی،*

*✪_ "_ یہی حال برے آدمی کے نزع کا ہے کہ اس کے رگ و ریشے میں روح سرایت کر جاتی ہے، ایک ایک رونگٹے میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے ، اس کو کھینچتے ہیں تو ایک ایک رونگٹے کو تکلیف ہوتی ہے ۔*


*✪_ _ یا اللہ ! ہمارے لئے نزع کو آسان فرمادے:- بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جن کے لئے اللہ تعالی اس وقت کو آسان فرما دیتے ہیں (اللہ تعالی ہمارے لئے بھی اس وقت کو آسان فرماۓ، ایمان پر خاتمہ فرمائے اور نزع کو آسان فرماۓ آمین ! )*

*✪_ "_ اور بہت سے بندے ایسے ہیں کہ نزع کے وقت ان کی ساری عمر کی لذت ختم ہو جاتی ہے, اللہ تعالی اس سے پناہ میں رکھیں۔*               
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ موت کی سختی کو یاد رکھو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ یہ موت کا پیالہ اتنا کڑوا ہے کہ کہ اس کی تلخی بعض لوگوں کو حشر تک باقی رہے گی ،اللہ تولی پناہ میں رکھے، ہم زندگی گزارتے ہوۓ اس طرح غافل ہو جاتے ہیں کہ کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اس کا اثر ہماری موت پر تو نہیں واقع ہوگا ؟*

*✪_"_ دنیا میں دوستی کرتے ہوئے، دنیا میں معاملات کرتے ہوۓ ، دنیا میں نقل و حرکت کرتے ہوۓ، چھپ کر یا اعلانیہ گناہ کرتے ہوۓ، ہم اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ اس کا انجام موت کے وقت کیا ہوگا ؟ مرنے والے کو لوگ کلمہ کی تلقین کر رہے ہیں، یعنی اردگرد بیٹھے ہوۓ لوگ اس کو کلمہ کی تلقین کرتے ہیں لیکن کسی کو پتا نہیں کہ وہ کہاں پھنسا ہوا ہوتا ہے؟*

*☞ _ شیخ عطار رحمۃ اللہ کا واقعہ:-*

*✪_"_شیخ عطار رحمۃ اللہ بہت بڑے بزرگ ہوۓ ہیں، دوا فروش اور پنساری تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص ان کی دکان پر آیا، کندھے کے اوپر گودڑی رکھی ہوئی تھی کبھی ادھر دیکھتا اور کبھی ادھر دیکھتا، شیخ عطار اس سے فرماتے ہیں کہ میاں! کیا دیکھتا ہے؟ کہنے لگا کہ: میں دیکھتا ہوں کہ جو روح اتنی شیشیوں میں پھنسی ہوئی ہے، یہ کیسے نکلے گی؟*

*✪_"_ شیخ اس وقت دنیادار آدمی تھے، اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے ان صاحب کو بھیجا تھا، بھٹا کر کہنے لگے کہ جیسے تیری نکل جاۓ گی ، ویسے ہماری نکل جاۓ گی ! اس نے کندھے پر رکھی ہوئی گودڑی بچھائی، لیٹ گیا اور کہا کہ: ہماری تو یوں نکل جاۓ گی ! ایک لمہ میں رخصت ہو گیا، شیخ پر اس واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ دکان لٹا دی اور اللہ تعالی کے راستہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوۓ ، بعد میں اللہ تعالی نے ان کو بڑے مراتب عطا فرماۓ ۔*

*✪_"_ بہر حال انسان پر موت کے مرحلہ کے بعد قبر کا مرحلہ آتا ہے اور عقلمند ہے وہ شخص جو اگلے مراحل کی تیاری کر کے جاۓ ۔*                   

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

            *⊙:➻ سب سے بڑی دانائی !_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ حضرت حسن رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و‌ ثنا کے بعد فرمایا: - لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو ! کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا غنیمت کی چیز ہے، اور سب سے ہوشیار اور دانا آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کرے، اور قبر کے اندھیرے کے لئے اللہ تعالی کے نور میں سے کچھ نور حاصل کر لے_,"*

*✪_"_ بندے کو اس سے ڈرنا چاہئے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اس کو اندھا اٹھاۓ حالانکہ وہ دیکھنے والا تھا، حکیم اور دانا آدمی کے لئے چند مختصر کلمات کافی ہیں، اور بہرہ تو یوں لگتا ہے کہ وہ سنتا نہیں ہے ،خوب جان لو! کہ جس شخص کے ساتھ اللہ ہو ، وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا اور اللہ تعالی جس شخص کے مقابلے میں ہو وہ پھر اس کے بعد کس سے امید رکھے گا؟*
*®_ ( کنز العمال ، ج 16، حدیث 44251)*

*✪_"_ دوسری روایت میں فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالی سے ڈرو، تقوی اختیار کرو اس لئے کہ اللہ تعالی سے ڈرنا غنیمت ہے ۔* 

*✪_"_حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ: سب سے اونچی حکمت اور حکمت کا صلہ حکمت کی چوٹی اللہ سے ڈرنا ہے، جو شخص اللہ تعالی سے نہیں ڈرتا اس میں حکمت نہیں ہے ، اور یہی بنیاد ہے تمام نیک اعمال کی اور تمام برے اعمال سے بچنے کی ۔*              
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

        *⊙:➻ _عذابِ قبر کا خوف:-* _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مشکوۃ شریف میں حدیث ہے کہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کبھی کبھی قبرستان جاتے تو اتنا روتے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی ،عرض کیا گیا کہ : حضرت ! آپ جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اتنا نہیں روتے جتنا کہ قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو شخص یہاں نجات پا گیا وہ انشا اللہ آگے بھی نجات پا جاۓ گا، جو یہیں پھنس گیا اس سے آگے کی کیا توقع ہے، اس کے بارے میں کیا توقع ہے؟“*
*"®_(مشكوة ص:۲۲)*

*✪_"_ یہ تو پہلی منزل ہے ،قبر سے لے کر جنت تک برزخ کا فاصلہ، قیامت سے پہلے پہلے کا فاصلہ اور پھر قیامت کے دن کا پچاس ہزار سال کا فاصلہ اور خدا جانے اس میں کتنی منزلیں آنے والی ہیں، کیا کیا حالات پیش آنے والے ہیں، جو غریب پہلے مرحلے میں پکڑا گیا وہ آگے کیا کرے گا ؟ حق تعالی شانہ ہماری حفاظت فرماۓ، اللہ تعالی ہم سب کی قبروں کومنور فرماۓ ،قبر کے عذاب سے اور جو چیزیں عذاب قبر کوثابت کرنے والی ہیں ،اللہ تعالی ہمیں ان سے بچاۓ، آمین _,*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

           *⊙:➻عذاب قبر کے اسباب:_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"عذاب قبر سے متعلق ایک دوسری حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں : - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے فرمایا- یہ دوقبریں ہیں، ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے، کسی بڑی بات پر ان کو عذاب نہیں ہو ربا، ان میں سے ایک چغل خوری کیا کرتا تھا،*
*( آپ کی بات میرے پاس آ کر لگائی اور میری بات آپ کے پاس جا کر لگائی، یہ بیماری عام ہوگئی ہے ، جیسے طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے، یہ وہائی شکل چغل خوری کرنا اور غیبت کرنا یہ چیزیں موجب عذاب قبر ہے )*
*"_ یہ دوسرا آدمی پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔“*
*®_ ( بخاری ، ج: ال ۱۸۴۰)*

*✪_"_یہ جتنے پینٹ پہننے والے ہیں، سب ایسے ہی ہیں، ان کو نہ استنجے کی ضرورت پیش آتی ہے، نہ ڈھیلے کی، کھڑے ہوکر پیشاب کر لیتے ہیں ،اور پھر یوں ہی فوراً بند کر لیتے ہیں۔ تو جن دو آدمیوں پر عذاب ہو رہا تھا ان میں ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا، پیشاب آدمی کا ہو یا جانوروں کا، اس سے احتیاط لازمی ہے۔*

*✪_"_ اور دوسرا لگائی بجھائی کرتا تھا، یعنی ادھر کی ادھر، اور ادھر کی ادھر پہنچا کر چغل خوری کرتا تھا، یہ بہت بڑا جرم ہے اس سے احتیاط کرو کہ یہ عذاب قبر کا موجب ہے۔*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _قبر جنت کا باغیچہ یا جہنم کا گڑھا ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے، یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے_,"*

*✪_"نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ! اللہ تعالی ہماری قبروں کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنائے، دوزخ کے گڑھوں میں سے گڑھا نہ بناۓ _,"*

*☞ _" عذابِ قبر کا سوال حماقت ہے:-*

*✪_"آج کل بیوقوف لوگ یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ قبر میں عذاب ہوتا بھی ہے؟ اللہ کے بندو! تم کس چکر میں پڑ گئے ہو؟ شیطان نے تم کو کس چکر میں ڈال دیا ہے؟ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر اعتبار نہیں رہا ؟*   

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻_شکر کرو کہ عذاب قبر سنائی نہیں دیتا_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_کہتے ہیں کہ ہمیں سنائی کیوں نہیں دینا ؟ یہ اس محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی وجاہت کے طفیل ہے کہ عذاب قبر سنائی نہیں دیتا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے بن نہ پڑتی تمہاری زندگی اجیرن ہو جاتی ،اگر تم قبر کا عذاب سن لیتے_,"*

*✪_"_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- "اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو قبروں میں دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں سنا دے جو میں سنتا ہوں!“*
*®_ :( مشکوة : ۲۵)*

*✪_"_ قبر کا عذاب جو قبرستان میں ہو رہا ہے، اگر تمہیں سنائی دیتا تو تمہیں قبرستان میں قدم رکھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہ اس محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہے کہ اللہ تعالی نے پردہ ڈال دیا۔ اس پر شکر کرنے کی بجائے الٹا کہتے ہیں کہ ہمیں کیوں نہیں سنائی دیتا ؟ شیشے کے مکان میں آدمی بند ہو تو آواز آگے نہیں جاتی، وہ ادھر سے سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے، مگر آواز نہیں پہنچا سکتا تمہارا یہ شیشہ آواز کو روک دیتا ہے،*

*✪_"_ تو اگر اللہ تعالی نے برزخ کا پردہ ڈال دیا ہے اور وہ روک رہا ہے تو تمہیں کیوں تعجب ہو رہا ہے؟ تم کیوں اصرار کر رہے ہو کہ ہمیں دیکھنا چاہئے اور ہمیں سننا چاہئے تو ہم مانیں ! ذرا ٹھہر جاؤ ! تھوڑا وقت ہے، تم پر بھی یہ مرحلہ آۓ گا، پھر اچھی طرح تجربہ کر لینا، یہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے نہیں مانتے تو تجربہ ہو جاۓ گا ،فکر نہ کرو، اس میں جلدی کی کیا بات ہے؟ بلکہ فکر اس کی تیاری کی کرو، وہاں صرف نیک اعمال ہی کام آئیں گے_,"*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻قبر میں صرف نیک اعمال ہی کام آئیں گے_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: جانتے ہو تمہاری مثال اور تمہارے اہل و مال اور عمل کی مثال کیا ہے؟ عرض کیا: اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں؟ فرمایا - تم میں سے ایک کی مثال اور اس کے مال اور آل و اولاد اور عمل کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی کے تین بھائی تھے، جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے ایک بھائی کو بلایا اور کہا کہ: مجھ پر جو حالت طاری ہے، وہ تم دیکھ رہے ہو، بتاؤ! تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ: میں یہ کر سکتا ہوں کہ تیری تیمار داری کروں اور تیری جو حالت ہے اس پر دن رات کھڑا رہوں، جب تو مر جاۓ تو تجھے غسل دوں ،کفن پہناؤں اور اٹھانے والوں کے ساتھ تجھے اٹھاؤں کبھی اٹھاؤں اور کبھی کندھا ہٹا دوں، اور جب میں تجھے دفن کر کے واپس آ جاؤں تو لوگوں کے سامنے تیری تعریف کروں، جو بھی مجھ سے تیرے بارے میں پوچھے ( یہ بھائی اس کے گھر کے لوگ یعنی بیوی اور بچے ہیں )۔*

*✪_"_ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے سوال کیا کہ): تم اس بھائی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم نہیں سنتے کوئی ایسی چیز جس میں کوئی منفعت ہو ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر وہ اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں کہتا ہے کہ : مجھ پر جو حالت آئی ہے ،تم دیکھ ہی رہے ہو، بتاؤ! تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟ وہ کہتا ہے کہ: تمہارے لئے میرے پاس کوئی کام کی چیز نہیں، مگر جب تک تم زندوں میں شمار ہوتے ہو، جب تم مر جاؤ گے تو تمہارا راستہ دوسرا ہو گا، میرا راستہ دوسرا۔*

*✪_"_( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ) یہ اس کا دوسرا بھائی ہے، جس کو مال کہتے ہیں ، بتاؤ! تم اس کو کیسا دیکھتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کچھ کام کا نہیں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تیسرے بھائی سے کہتا ہے کہ مجھ پر جو حادثہ نازل ہوا ہے، اور میرے اہل خانہ نے اور میرے مال نے جو جواب دیا ہے، وہ تم نے سن لیا ہے، تم بتاؤ کہ تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟ وہ کہتا ہے کہ: میں تیرا رفیق رہوں گا تیری لحد میں، تیرا مونس اور تیرا غمخوار رہوں گا، تیری وحشت میں، اور میں بیٹھ جاؤں گا وزن کے دن تیرے ترازو میں (اور تیرے ترازو کو بھاری کردوں گا)_,"*

*✪_"_ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): یہ اس کا وہ بھائی ہے جس کو عمل کہتے ہیں، اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ! بہت ہی اچھا بھائی ہے اور بہت ہی اچھا رفیق ہے ! فرمایا کہ: پھر معاملہ یوں ہی ہے۔*
*®_ (کنزالعمال - جلد -١٥, حدیث ٤٢٩٨١)*                   
*✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت عبداللہ بن کرز رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، کہنے لگے: یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اس پر کچھ اشعار بنا کر پیش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرور ! وہ چلے گئے، ایک رات رہے، دوبارہ واپس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آۓ اور آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے، لوگ بھی جمع ہو گئے، انہوں نے نظم پڑھی کہ: بے شک میں اور میرے اہل خانہ اور وہ عمل جو میں نے آگے بھیجا اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے رفقا کو بلاۓ پھر وہ کہے اپنے تین بھائیوں سے کہ آج جو حال مجھ پر پیش آیا ہے، اس میں میری مدد کرو ! طویل جدائی ہے اور آئندہ کا کچھ معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوگا؟ اب جو حوادث میرے سامنے پیش آنے والے ہیں، بتاؤ! کہ تمہارے پاس اس کا کیا علاج ہے؟*

*✪_"_ ان میں سے ایک نے کہا کہ: میں تییرا رفیق ہوں، تیری اطاعت کروں گا، اور تو جو بھی کہے تیرا کہنا مانوں گا ،لیکن موت آنے سے پہلے پہلے، جب جدائی واقع ہو جاۓ تو ہمارے درمیان جو دوستی ہے وہ ختم، جو کچھ لینا چاہتا ہے مجھ سے اس وقت لے سکتا ہے، کیونکہ تیرا جب انتقال ہو جاۓ گا تو مجھے کسی دوسرے راستے میں لے جائیں گے، اگر تو مجھے باقی رکھنا چاہتا ہے تو باقی نہ رکھ، بلکہ مجھے خرچ کر دے، اور جلدی کر ،موت کے آنے سے پہلے پہلے مجھے خرچ کر دے۔*

*✪_"_ایک نے کہا کہ: میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں، اور لوگوں کے درمیان جب مقابلہ ہوتا ہے میں تمہیں ترجیح دیتا ہوں، میری خدمت یہ ہے کہ میں تیرے لئے دن رات خیر خواہی اور محنت کروں گا، جو بیماری اور پریشانی ہو، لیکن جب تو مرجاۓ گا تو تیرے اوپر روؤں گا اور بین کروں گا ،کوئی تیرا نام لے گا تو اس کے سامنے تیری تعریف کروں گا، جو تجھے رخصت کرنے جائیں گے میں ان کے ساتھ جاؤں گا، اور کندھا دینے والوں میں کندھا دینے کی مدد کروں گا، اور میری یہ خدمت قبر تک رہے گی جس میں تو داخل کیا جاۓ گا، جب تو اپنی قبر میں چلا جاۓ گا تو میں واپس آ جاؤں گا، کیونکہ میرے اور بہت سارے مشاغل ہیں ،اور میں تجھے ایسا چوڑ کر آ جاؤں گا کہ گویا میرے درمیان اور تیرے درمیان دوستی نہیں تھی اور نہ کوئی حسن معاملہ تھا، بس ! یہ آدمی کے گھر کے لوگ ہیں، بیوی بچے اور یہ ان کی خدمت ہے، اور یہ چیز اگر چہ وہ کتنے ہی حریص ہوں لیکن مفید نہیں ہے۔*
*✪_"_ان میں سے ایک نے کہا کہ: میں تیرا ایسا بھائی ہوں کہ مجھ جیسا بھائی مصائب کے نازل ہونے کے وقت نہیں دیکھا ہوگا ،تو قبر میں جاۓ گا تو تو وہاں مجھے بیٹھا ہوا پاۓ گا، تجھ سے منکر نکیر جھگڑا کریں گے تو میں جواب دوں گا، اور وزن کے دن میں اس پلڑے میں بیٹھ جاؤں گا جس میں تو ہوگا، اور اس پلڑے کو بوجھل کر نے کی کوشش کروں گا ،سو تو مجھے بھول نہیں اور میرے مرتبے کو پہچان لے، اس لئے کہ میں تجھ پر شفیق ہوں، تیرا خیر خواہ ہوں ،کسی وقت تیری مدد چھوڑ نے والا نہیں ہوں، بس یہ بھائی ہر وہ نیک عمل ہے جو تو نے آگے بھیجا تو اس کو پاۓ گا، اگر تو نے نیکی کی، ملاقات کے دن کے لئے_,"*

*✪_"_یہ ارشاد سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور صحابہ کرام بھی روۓ۔ حضرت عبداللہ بن کرز رضی اللہ عنہ جب بھی صحابہ کے کسی مجمع کے پاس سے گزرتے تھے، وہ حضرات ان کو بلواتے اور ان سے یہ اشعار پڑھواتے ، جب یہ شعر پڑھتے تو سب کے سب رو پڑتے ۔ (کنز العمال ، ج: ۱۵ حدیث: ۴۲۹۸۱)*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

    *⊙:➻_ ابن آدم کا مال:- بے وفا دوست _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ( جو پہلے گزر چکی) کہیں مختصر اور کہیں لمبی، بہت ساری کتابوں میں موجود ہے، اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کے مال اور اس کے اہل وعیال اور اس کے اعمال صالحہ کی مثال بیان فرمائی ہے، اس مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سمجھائی ہے کہ سب سے زیادہ بے وفا دوست مال ہے کہ تمہاری زندگی میں تو تمہارے کام کا ہے لیکن جب روح تن سے الگ ہو جائے تو دوسرے کے پاس چلا جا تا ہے تمہارے پاس رہتا ہی نہیں ۔*

*✪_ ایک حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: "_آدم کا بیٹا کہتا ہے کہ: میرا مال! میرا مال! آدم کے بچے ! تیرے مال میں سے صرف تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھا لیا اور کھا کرختم کر دیا، یا تو نے پہن لیا اور پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا تو نے آگے بھیج کر اپنے لئے جمع کرلیا ،اور ان تینوں چیزوں کے علاوہ باقی جتنا تیرا مال ہے تو اس کو دوسروں کے لئے چھوڑ کر چلا جاۓ گا ، وہ تیرا نہیں !*
*®_ ( مشکوۃ ص: ۴۴۰ )*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ اہل وعیال قبر میں کام نہ دیں گے_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ اور اہل وعیال کے بارے میں یوں فرمایا کہ قبر کے کنارے تک ساتھ دیتے ہیں، آدمی مرنے والا ہو، موت وحیات کی کشمکش میں ہوتو ہے یا اپنی حد تک اس کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، جو خدمت یہ کر سکتے ہیں اس کے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کسی کو نصیب ہے اور کسی کو نہیں، مر گیا تو غسل اور کفن کا انتظام کر دیا اور کندھے بدل بدل کر قبر تک پہنچا دیا، قبر میں لٹا کر اوپر ہزاروں من وزن ڈال دیا، تاکہ یہ بھاگ نہ آۓ، چند روز رو دھو لئے، کچھ اپنی رسم ورواج کے مطابق تقریبات کر لیں اور کوئی تعزیت کے لئے آیا تو اس کے سامنے تعریفیں کر دیں اور بس! اللہ اللہ خیر صلا ! قصہ ختم، لیکن قبر میں اس پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں ! اکبر الہ آبادی کے بقول : ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے؟ تہہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے!*

*"_بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ قبر پکی بنا دیتے ہیں ،اوپر مقبرہ بنا دیتے ہیں۔ بھلا مردے کو اس کا کیا فائدہ؟ کیا اس سے اس کی مغفرت ہو جاۓ گی یا اس کو ٹھنڈک پہنچے گی؟ الٹا خلاف شریعت کرنے سے اندیشہ تکلیف ہے۔*

*✪_"_ قبر پر ڈیرہ لگانا :- ایک روایت میں ہے کہ: کہتے ہیں کہ حضرت حسن بن حسن بن علی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو ان کی اہلیہ کو بہت صدمہ ہوا ، اور جا کر ان کی قبر پر ڈیرا لگا دیا، لوگوں نے بہت منع کیا ،مگر وہ مانی نہیں، کہنے لگی کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا، ایک سال تک قبر پر پڑی رہی پھر اٹھ کر چلی گئی، اور اس نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ: کیا جس کو انہوں نے گم پایا تھا کیا وہ ان کو مل گیا، دوسرے نے جواب دیا نہیں! بلکہ مایوس ہو کر لوٹ گئے ۔“(مشکوۃ بس:۱۵۲)*

*✪_"_یہ تمہاری آہ وزاری میت کے کچھ کام نہیں آئے گی، اس لئے کہ یہ تم اپنے لئے کرتے ہو، اس کے لئے کچھ نہیں، یہ تیجہ اور دسواں کرو، چہلم کرو یا برسیاں مناؤ یہ سب کچھ تم اپنے لئے کر رہے ہو، مرنے والے کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے، رواج یہ بھی ہے کہ کوئی تو با قاعدہ شادی کی طرح دعوت کرتے ہیں، تمام عزیز واقارب کو بلاتے ہیں، بکرے اور اسی طرح دوسرے جنور وغیرہ کاٹتے ہیں، بڑی ٹھاٹ کی دعوت کر تے ہیں ، غرضیکہ اہل وعیال بن ٹھن کر کے وہاں آ گئے ،میت کس حال میں ہے؟ اس پر کیا گزر رہی ہے؟ ان کی وہاں تک نہ رسائی ہے اور نہ کوئی ان کی خدمت کر سکتا ہے، اس کے لئے تو اب مشکلات شروع ہوئی ہیں ، اب پتہ نہیں ختم کب ہوگی _,"*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                *⊙:➻ قبر کی پکار _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ قبر آدمی کو روزانہ پکارتی ہے، ترمذی شریف کی یہ حدیث ہے، قبر کہتی ہے:-*
*:➻ "_ میں تنہائی کا گھر ہوں، میں وحشت کا گھر ہوں ، میں مٹی کا گھر ہوں، میں کیٹروں کا گھر ہوں!“*
*®_( ترندی ، ج:۲،ص:۲۹ )*

*✪_"_کہا جا تا ہے کہ قبر روزانہ پانچ مرتبہ پکارتی ہے ،اور تمہارے لئے روزانہ پانچ ہی نمازیں مقرر کی گئی ہیں، تا کہ تم آخری التحیات میں یہ دعا پڑھو:-*
*:➻ "_ اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمأثم والمغرم ومن فتنة القبر وعذاب القبر ومن فتنة الـنار ومن عذاب النار ومن شر فتنة الغنى وأعوذ بک مـن فـتـنة الـقبـر واعوذ بك من فتنة المسيح الدجال....“*

*:➻ (ترجمہ)"..اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں سستی سے، بڑھاپے سے، گناہوں سے، قرض سے ، قبر کے فتنہ سے، قبر کے عذاب سے، آگ کے فتنہ سے، دوزخ کے عذاب سے، مالداری کے فتنہ کے شر سے، اور میں پناہ مانگتا ہوں تنگدستی کے فتنہ سے اور میں پناہ مانگتا ہوں کا نے دجال کے فتنہ سے ۔“*
*®_( بخاری ، ج ۳ : ۹۴۳)*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

         *⊙:➻_عذاب قبر________ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ایک روایت میں ہے:- ":حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی‌ہیں : ایک دفعہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی، اس نے قبر کا ذکر چھیٹر دیا، پھر کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تجھے عذاب قبر سے پناہ عطا فرماۓ ( میں نے عذاب قبر کی بات کبھی نہیں سنی تھی، میں نے کہا: کیا عذاب قبر ہوتا ہے؟ )*

*"✪__ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاۓ تو میں نے قبر کے عذاب کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کا عذاب برحق ہے ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشادفرماتی ہیں کہ: اس واقعہ کے بعد مجھے یاد نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نماز پڑھی ہو اور اس میں عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو ۔‘*
*®_ مشکواۃ - 25,*

*✪_"_ تو غرض یہ کہ اس دوسرے بھائی اور رفیق سے مراد بیوی ہے، بچے ہیں، عزیز و اقارب ہیں، دوست احباب ہیں، یہ مردے کو قبر کے سپرد کر کے چلے آئے اور آ کر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس پر دو چار دن آنسو بہا لیتے ہیں ،اور کچھ لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کر دیتے ہیں کہ بہت اچھا آدمی تھا_,"*              
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _مردے کی بے جا تعریف پر عذاب _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ بعض اوقات تعریف بھی غیر واقعی کرتے ہیں، واقعی تعریف نہیں کرتے، یہ اتنا کماتا تھا، اتنا کھاتا تھا، یہ کرتا تھا، وہ کرتا تھا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اس کی تعریف کرتے ہیں اور جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں تو : اللہ تعالی مرنے والے پر دو فرشتے مقرر کر دیتے ہیں اور وہ دونوں مردے کو چو کے دے کر کہتے ہیں: تو ایسے ہی تھا؟“*
*®_ ( مشکوۃ ،ص:۱۵۲)*

*✪_"_ لیجئے اہل وعیال، بیوی بچے اور دوست احباب اب بھی اس غریب کا پیچھا نہیں چھوڑتے، بلکہ کہتے ہیں کہ اس نے گھر کے لئے یہ یہ چیز یں خریدی تھیں، ٹیلی ویژن لاۓ تھے، فلاں چیز لائے تھے، دوبئی گئے تھے، بہت بڑی مشین لائے تھے اور فلاں فلاں چیزیں لے کر آئے تھے ،قبر میں ان چیزوں کو پوچھیں گے، تعریفیں تو کرتے ہیں مگر ایسی فضول ومہمل اور بالکل لغو، جس سے اس غریب کی تکلیف میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے،*

*✪_"_ ان کے منہ سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ تہجد کی نماز پڑھتے تھے، ان کے منہ سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ سحر کے وقت میں اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑاتے تھے، اللہ تعالی کے سامنے رویا کرتا تھا، کسی کا حق نہیں مارتا تھا ، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتا تھا، فرائض شرعیہ کا پابند تھا، اللہ تعالی کا نیک بندہ تھا، یہ با تیں ان کے منہ سے نہیں نکلتیں،*         
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _مردے کی واقعی اچھائیاں بیان کرو! _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ اگر یہ باتیں کریں تو ان کی یہ باتیں کرنا اور تعریف کرنا اللہ تعالی کے یہاں شہادت بن جاتی ہے۔ وہ مشہور حدیث ہے :- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا، فرمایا: واجب ہوگئی ! ایک اور جنازہ گزرا ،فرمایا: واجب ہوگئی !*
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- ( یا رسول اللہ ! دو جنازے گزرے، دونوں پر آپ نے فرمایا: واجب ہوگئی! ) کیا واجب ہو گئی؟*

*✪_ "_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پہلا جنازہ گزرا تو تم لوگوں نے اس کی اچھی تعریف کی کہ یہ بہت اچھا آدمی ہے، نیک آدمی ہے، میں نے کہا کہ واجب ہو گئی، یعنی جنت واجب ہوگئی اور جب دوسرا جنازہ گزرا تو تم نے دوسری قسم کی راۓ کا اظہار کیا، منافق تھا، بڑا ظالم تھا، میں نے کہا کہ: واجب ہوگئی، یعنی جہنم واجب ہوگئی۔ تم اللہ تعالی کے گواہ ہو زمین میں ،یعنی تمہاری شہادت کے مطابق اللہ تعالی فیصلہ فرمائیں گے “*
*®_ مشکواۃ - 145,*               

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

       *⊙:➻ _اعمال صالحہ کی وفاداری _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_اس نے تیسرے دوست کو بلا یا، تیسرے رفیق کو بلایا، یہ اس کاعمل تھا، اس سے کہا کہ : مجھ پر جو حالت طاری ہے تم دیکھ ر ہے ہو، نزع کا سامنا ہے، روح اور بدن کی علیحدگی ہو رہی ہے، اور ایک بالکل نیا سفر درپیش ہے، نہایت طویل سفر اور ان دیکھے راستے، بہت ہی پریشانی اور بے چینی ہے کہ میرا کون ساتھ دے گا ؟ یہ جو میرے مال نے جواب دیا وہ بھی تم نے سن لیا ہے، اور میرے اہل وعیال نے جو جواب دیا ہے وہ بھی تم نے سن لیا ہے، انہوں نے صاف صاف جواب دے دیا ہے کہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے، نہ آپ کے ساتھ رفاقت کریں گے، نہ آپ کے ساتھ جائیں گے، نہ آپ کے ساتھ قبر میں اتریں گے، تم بتاؤ ! کہ تم کیا کرو گے؟*

*✪_ "_ کہنے لگے کہ تم اگر مجھے ساتھ لے جاؤ تو پہلی بات یہ ہے کہ ہر موقع پر تمہاری مدد کروں گا، نزع سے لے کر میزان تک، قیامت کے دن، حشر کے دن، میزان یعنی ترازو جو رکھی جائے گی اس وقت تک میں تیری مدد کروں گا، تیرے ساتھ رہوں گا اور تیرا مونس و غمخوار بنوں گا، تیری تنہائی پر اکیلے پن کو دور کروں گا، مجھ سے ہو سکا تو روشنی بھی کروں گا، کوئی تجھ پر حملہ آور ہوگا تو جواب بھی دوں گا، مدافعت بھی کروں گا،*

*✪_ منکر نکیر سوال کریں گے تو سوال و جواب کی بھی کفایت کروں گا، اور قیامت کے دن اس پلڑے میں بیٹھ جاؤں گا جس پلڑے کو تو بھاری دیکھنا چاہتا ہے، اور جتنی میری ہمت ہوگی، جتنا میرا وزن ہوگا میں اپنا پورا وزن تیرے پلڑے میں ڈال دوں گا، یہاں تک کہ تجھے جنت میں پہنچا دوں گا۔*               
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

        *⊙:➻ قبر میں برے اعمال کی شکل _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: بد کار آدمی کے سامنے نہایت ڈراؤنی شکلیں آتی ہیں، اور وہ ان کو دیکھ کر گھبراتا ہے، گھبراہٹ تو پہلے ہی موجود ہے، تنہائی اور وحشت ہے، چناںچہ یہ چلاتے ہوۓ پر یشانی کا اظہار کرتے ہوۓ کہتا ہے کہ: خدا تمہارا ناس کرے تم کون ہو؟*

*✪_"_ تو وہ کہتا ہے کہ تم فکر نہ کرو، میں تمہارا وہ برا عمل ہوں جو تونے کیا تھا، اس کے بعد اب سارے کے سارے اعمال بد پر باندھ کے آ جاتے ہیں، چڑیلوں کی شکل میں، بد روحوں کی شکل میں، بھیڑیوں کی شکل میں، جنگل کے درندوں کی شکل میں، سانپوں اور بچھوؤں کی شکل میں، وہ اس کے ساتھ آ کر لپٹ جاتے ہیں، اناللہ وانا الیہ راجعون!*

*✪__ کہتے ہیں نا کہ قبر میں سانپ اور بچھو ہوں گے، وہ یہی اپنے عمل ہیں ۔*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

     *⊙:➻ قبر میں اعمال صالحہ کا منظر :-*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_اور نیک آدمی ہوتا ہے تو اس کے اعمال صالحہ نہایت ہی حسین شکل میں اس کے سامنے آتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ: اللہ تعالی تمہارا بھلا کرے ! میں تو بہت تنہائی میں تھا، میں وحشت محسوس کر رہا تھا تم لوگ کون ہو جو میرے انس کے لئے اور میری وحشت کو دور کر نے کے لئے آ گئے؟*
*"_ وہ کہتے ہیں کہ: آپ کے نیک اعمال ہیں !*

*:➻ "_ اعمال صالحہ عذاب قبر سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں:-*

*✪_"_ یوں بھی آتا ہے کہ جب عذاب کے فرشتے آتے ہیں مارنے کے لئے، تو نماز فلاں طرف ہو جاتی ہے، صدقہ فلاں طرف ہو جا تا ہے ،قرآن کریم کی تلاوت فلاں طرف ہوجاتی ہے، اور دوسرے اعمال صالحہ ایک طرف ہو جاتے ہیں ، چاروں طرف سے اس کو نیک اعمال گھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: مارنے نہیں دیں گے، عذاب قبر کو ٹال دیتے ہیں_,"*

*✪__ سورۂ ملک کے بارے میں فرمایا ہے کہ : یہ میت کو اس طرح اپنے پروں کے نیچے لے لیتی ہے جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے لے لیتی ہے، اور عذاب قبر سے اس کو بچاتی ہے۔ یہ اس کے اعمال صالحہ ہیں جو مرتے وقت بھی اس کے ساتھ قبر میں بھی اس کے ساتھ اور حشر میں بھی اس کے ساتھ ہوں گے۔*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ بد کار کا اپنے اعمال بد پر اظہار حسرت _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_قرآن کریم میں ہے کہ اپنے برے عمل کو دیکھ کر کہے گا کہ :-*
*"_ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ _," (الزخرف: ۳۸ )*
*"_(ترجمہ)- کاش! کہ میرے درمیان اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا، تو بہت ہی برا ساتھی ہے ۔“*

*✪_"_ فاصلہ کیسے ہوتا ؟ تو نے تو خود کیا تھا، جھوٹ خود بولے تھے، ظلم خود کیا تھا، بد کاریاں اور بے حیائیاں خود کی تھیں ،عورتیں ننگے سر اپنے اختیار سے چلی تھیں ،اور آج کہتے ہو کہ مغرب و مشرق کا فاصلہ ہوتا ؟*

*✪_"_جب تمہیں کہا گیا کہ: یہ گناہ کی باتیں ہیں تم نے مانا ہی نہیں ، تم نے تو سوچا کہ زندگی ان باتوں کے بغیر کیسے گزر سکتی ہے ،موت آنے دو تمہیں خود پتہ چل جائے گا کہ یہ جو تم نے لعنت گھروں میں ڈالی ہوئی ہے، ٹی وی اور اس طرح موویاں وغیرہ بناتے ہو، کیمرے رکھے ہوئے ہیں ، یہ تصویریں لٹکائی ہوئی ہیں ، اور یہ بچوں کے کھلونے بتوں کی شکل میں رکھے ہوئے ہیں، اور تم جو غلط کاریاں کر تے ہو تمہیں خود پتہ چل جائے گا کہ یہ کیا چیز ہے؟*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ اس وقت رونا کوئی کام نہیں دے گا _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ آج تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر یقین نہیں لاتے، تب آنکھ سے دیکھ کر یقین لاؤ گے اور اس وقت کوئی علاج کارگر نہیں ہوگا،*.

*✪_"_ حدیث شریف میں آتا ہے: دوزخی لوگ ایک ہزار سال تک آنسوؤں کے ساتھ روئیں گے، ایک ہزار سال تک آنکھوں سے خون نکلے گا اور ایک ہزار سال تک پیپ نکلتی رہے گی ۔“ ( اللہ حفاظت فرمائے)*

*✪_"_ آج اللہ تعالی اور اس کے رسول کی بات سن کر تم اس کو ملائیت کہتے ہو، ذرا وقت آنے دو! تمہیں معلوم ہو جاۓ گا کہ تمہارے نیچے گھوڑا تھا یا گدھا تھا ؟* 

*✪_"_ غرض یہ کہ جتنا جتنا کسی کا نفع ہے، آدمی اس سے اتنا ہی تعلق رکھے ،عقل کا قاعدہ یہی ہے، اور اس عقل کا ہم دنیا میں استعمال بھی کرتے ہیں لیکن آخرت کے معاملات میں ہماری عقل بیکار ہو جاتی ہے، اس عقل کو ہم دنیا میں استعمال بھی کرتے ہیں لیکن آخرت کے معاملات میں ہماری عقل بیکار ہو جاتی ہے ،عقل کے سامنے اندھیرا آ جا تا ہے _,"*

*✪_"_عقل کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں کی روشنی، یہ اندر کی روشنی اس وقت کام دیتی ہے جبکہ باہر بھی روشنی ہو، ہم دیکھنے کے لئے دو روشنیوں کے محتاج ہیں، عقل کی روشنی اس وقت کام دیتی ہے جبکہ دل میں ہدایت کی روشنی بھی ہو، نور ہدایت بھی ہو اور ہم نے تو چراغ ہدایت پھونک مار کر بجھا دیا ہے، آخرت کے معاملے میں بالکل اندھے ہو گئے ہیں، دنیا کے معاملات میں تو ہماری عقل کام کرتی ہے، آخرت کے معاملات میں کام ہی نہیں کرتی، کیسے کرے؟ دیکھیں کیسے؟ وہ تو نور نبوت رہنمائی کرے گا تو ہماری عقل بھی دیکھے گی ۔*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ دنیا و آخرت میں کام آنے والی شئے سے تعلق چاہئے : -*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ یہ قاعدہ ہے کہ جتنی چیز مفید ہوتی ہے، آدمی اس کو اختیار کرتا ہے، ہونا یہ چاہئے کہ اعمال صالحہ کا اہتمام ہو، اس کے ساتھ رفاقت ہو۔*

*✪_"_ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گھر میں تشریف لاتے تھے تو گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے، جیسے گھر میں کام ہوتا ہے لیکن جوں ہی اذان کی آواز سنتے اس طرح کھڑے ہو جاتے تھے جیسے ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں ۔ (فضائل نماز باب سوم ص: ۸۸ )*

*✪_"_ ہونا یہ چاہئے کہ حکم الہی آجاۓ تو تمہاری جان پہچان سب کے ساتھ ختم ہو جاۓ ۔* 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

      *⊙:➻مال کا نفع خرچ کرنے میں ہے:_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ مال تو ایی بیکار چیز ہے کہ جب تک اس کو خرچ نہ کرو نفع نہیں دے گی، ڈھیر لگا لگا کر رکھتے رہو، کچھ فائدہ نہیں۔*

*✪_"_ حاجی عبدالستار نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے، کہ ایک سیٹھ تھا، اپنے خزانے کی سیر کرنے کے لئے گیا، دیر ہوگئی تو وہ نظر نہیں آیا، اس کے نوکروں چاکروں نے دروازہ بند کر دیا اور چلے گئے، سیٹھ جی اندر ہی تڑپ تڑپ کر مر گیا ،اگلے دن روازہ کھلا تو سیٹھ جی مرے پڑے ہیں، حالانکہ خزانہ موجود تھا، کیونکہ وہ کھانے پینے اور بھوک پیاس بجھانے کا کام نہیں دیتا، ہاں ! اس کو خرچ کر کے کھانے پینے کی اشیا حاصل کی جاسکتی ہیں،*

*✪_"_غرض یہ کہ مال اور خزانے کسی کام کے نہیں ہیں، جب تک تم ان کو خرچ نہ کرو اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، لیکن ہم نے معاملہ الٹ کر لیا، ہمارا جتنا تعلق پیسے سے ہے، اتنا اہل و یال سے بھی نہیں ہے، دوست احباب سے بھی نہیں، ماں بیٹی کی لڑائی اور باپ بیٹے کی لڑائی، بھائی بھائی کی لڑائی کس چیز پر ہے؟ پیسے پر ہے!*

*✪_"_ یہ پیسہ سب چیزوں پر غالب آ گیا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پیسے کو ان پر خرچ کیا جاتا لیکن آج ہو یہ رہا ہے کہ ان رشتوں کو اس پر خرچ کیا جا رہا ہے، اور مال کے لئے، اہل وعیال کے لئے اپنا دین بھی قربان کر دیا، اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ نصیب فرماۓ ، اور اللہ تعالی ہمیں ایسے اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرماۓ جو نزع کے وقت بھی ہمارے کام آئیں ،قبر میں بھی ہمیں کام دیں، حشر میں بھی ہمیں کام دیں۔*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _عالم برزخ ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_حق تعالی شانہ نے اپنی رحمت فرمائی ہے ، وہ جوا گلا جہاں ہے جسے عالم برزخ کہتے ہیں اور جو مرنے کے بعد مجھ کو اور آپ کو پیش آنے والا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:- ”_اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم جان لو وہ چیز جس کو میں جانتا ہوں, تو تم کم ہنسا کرو اور زیادہ رویا کرو اور دھاڑیں مارتے ہوۓ جنگلوں کی طرف نکل جاؤ_" ( مشکوه بس:۲ ۴۵، ۴۵۷ )*

*✪_"_اگر وہ منظر ہمارے سامنے آ جاۓ تو وہ اتنا ہولناک ہے کہ ہم اپنے مردے دفنانا چھوڑ دیں، کسی کی ہمت ہی نہ پڑے کہ قبروں میں مردوں کو دفن کر سکے، یہ تو حق تعالی شانہ کا احسان ہے کہ ہم پر غفلت کا پردہ ڈال دیا ہے، کہ استحضار نہیں اور خیال ہی نہیں کہ ہمیں یہ مرحله پیش آنے ولا ہے،*

 *✪_"_حدیث میں ہے کہ، امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب قبر کا تذکرہ کرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی، لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں ،مگر اتنے نہیں روتے، جتنا کہ قبر کے تذکرے پر روتے ہیں، فرمایا کہ: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ: قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر انسان یہاں کامیاب ہوا، تو اگلی منزلوں میں بھی کامیاب ہو جائے گا ، اور اگر یہاں ناکام ہوا تو اگلی منزلوں میں کامیابی کی کیا صورت اور کیا امید کی جا سکتی ہے*

*✪_"_ اور ارشادفرمایا کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے یہ بھی سنا ہے کہ میں نے جتنے مناظر دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک قبر کا منظر ہے ۔“*
*"®_ (مشکوۃ ص:۲۲)*  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

           *⊙:➻ اگلے جہان کی تیاری کرو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__آدمی یہاں تو یہ سمجھتا ہے کہ میں یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہوں ،کوئی تیاری کرنے کی فکر ہی نہیں، اللہ تعالی ہمیں اگلے جہان کی تیاری کی توفیق عطا فرماۓ ،بعض حضرات اور بعض بندے تو ایسے ہوں گے، جن کو اپنی آخرت کی تیاری کی، اپنی اگلی منزل کی تیاری کی فکر ہوگی کہ مجھے جانا ہے، اور جا کر حساب و کتاب دینا ہے،*

*✪_"_ ایک تو بڑا حساب کتاب ہے، جو قیامت کے دن ہوگا، وہ تو بعد کی چیز ہے، یہ جو پہلا حساب ہے اور جو مرنے کے بعد کا مرحلہ ہے، اس کی فکر ہوگی کہ اتنی سی جگہ ہوتی ہے، جس میں آدمی کو لٹا دیتے ہیں، اور پھر اوپر سے اس کو بند کر دیتے ہیں اور منوں مٹی ڈال دی، تاکہ بھاگ کر نہ آ جائے حالانکہ وہ بے جان محض نہیں ہوتا بلکہ اس میں روح ڈالی جاتی ہے اور وہ اپنے دفن کرنے والوں کی جوتیوں کی آہٹ سنتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:-*

*✪_"_ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مردہ کو ابھی دفنانے والے کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ہی ہوتی ہے، یعنی جب وہ دفنا کر واپس ہوتے ہیں ان کے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں جن کو منکر نکیر کہتے ہیں۔ ( بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کو مبشر بشیر کہتے ہیں) _,"*
*®_( مشکوۃ ص:۲۴ ،۲۵ )* 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

            *⊙:➻ قبر میں تین سوالات_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس سے بہت آسان سے تین سوال کرتے ہیں :- حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اس آدمی کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اس کو قبر میں بٹھاتے ہیں، پھر وہ دونوں فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ: تیرا رب کون ہے؟ (اگر تو وہ نیک آدمی ہوتا ہے تو ) کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔*
*"_ پھر وہ دونوں فرشتے اس نیک آدمی سے سوال کرتے ہیں کہ: تیرا دین کیا ہے؟ وہ نیک آدمی جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ آدمی کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا؟ وہ آدمی کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی تھی، اس پر میں نے یقین کیا تھا اور میں نے تصدیق کی تھی ..،*

*✪_"_ (اگر کوئی بد کارآدمی ہوتا ہے تو) اس سے فرشتے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے مجھے معلوم نہیں، مجھے معلوم نہیں ۔ پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے مجھے معلوم نہیں، مجھے معلوم نہیں ۔ پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ آدمی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں، مجھے معلوم نہیں_,"*
*®_ مشکواۃ - ٢٥,*       

*✪_"_ ایک سوال یہ کہ تیرا رب کون ہے؟ دوسرا یہ کہ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیسرا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ تو ان کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ آنحضرت ﷺ نے جب اس کو بیان فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول ﷺ ! اس وقت ہمارے ہوش وحواس ہوں گے؟ فرمایا کہ ہوش حواس ہوں گے ،اور ایسے ہی ہوں گے جیسے اب ہیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا کہ پھر ہم نمٹ لیں گے انشا اللہ ۔*

*✪_"_ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حوصلہ تھا، اور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نمٹ لیں گے مگر سوچیں کہ جہاں کوئی غم خوار، کوئی مددگار نہیں ہوگا، نہ کوئی تلقین کر نے والا ہوگا، اور نہ کوئی بندے کی دستگیری کرے گا، وہاں وہ ان سوالوں کا جواب کیسے دے گا ؟*

*✪_"_ ہاں اگر اللہ تعالی کی توفیق بندے کی دستگیری کرے، تو پھر وہ ان کا صحیح صحیح جواب دے گا، اور کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اس لئے کہ اس کا دنیا میں یقین بنا ہوا تھا کہ اللہ تعالی میرا رب ہے ، وہاں جھوٹ تو چلے گا نہیں ، سچ پر وہاں نجات ہوگی ،جھوٹ پر نجات نہیں ہوگی ۔*           
*✪"_ دوسرا سوال ہوگا کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا : اسلام !*
*"_ کیا ہم نے ن اسلام کو دین مانا ہوا ہے ؟ کیا ہم نے دین اسلام کو مان کر داڑھی منڈوائی ہوئی ہے؟ غرض جتنی تعلیمات رسول اللہ ﷺ نے دی تھیں، ہم نے ان پر عمل کیا تھا ؟ اسلام کے معنی ہیں جھک جانے کے، کیا ہم اللہ تعالی کے اور رسول اللہ ﷺ کے حکموں کے سامنے جھکے تھے؟*

*✪_"_ اور تیسرا سوال ہوگا کہ ان صاحب ( حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ حافظ ابنِ حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا نام نہیں بتایا جاۓ گا، ویسے ہی فرشتے پوچھیں گے کہ ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟*

*✪_"_ بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ مردے کے درمیان اور آنحضرت ﷺ کے درمیان کے سارے پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی زیارت کروائی جاتی ہے، حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو یہ بہت ہی بڑی سعادت ہے لیکن ایسی روایت مجھے کہیں نہیں ملی، بہر حال رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ان کو رسول مان کر اپنے آپ کو امتی سمجھتے ؟ رسول اور امتی کا تعلق تم نے صحیح طور پر نبھایا تھا؟*

*✪_"_ بند و مؤمن ہو، تو ان تین سوالوں کا صیح صحیح جواب دے دیتا ہے، زیادہ مشکل سوال نہیں ہیں ،اور ان ہی تین سوالوں میں پوری زندگی آ گئی ہے,*                  
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ حضرت رابعہ بصریہ اور فرشتوں کے سوالات _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا انتقال ہوا، جب ان کو دفن کر دیا گیا تو ان کے پاس منکر نکیر آۓ ،اور ان سے بھی تین سوال کئے ،تو کہنے لگیں کہ کہاں سے آئے ہو؟ فرشتوں نے کہا کہ آسمان سے آۓ ہیں، رابعہ بصری رحمہا اللہ نے کہا تم آسمان سے یہاں تک آۓ اور تم اپنے رب کو بھول گئے؟ اور رابعہ کے بارے میں خیال ہے کہ زمین سے صرف ڈیڑھ گز نیچے پہنچ کر بھول گئی ہوگی؟ جاؤ اپنا کام کرو۔*

*✪_"_ عام طور پر آدمی جب مرتا ہے تو لوگ لا الہ الا اللہ کی تلقین کیا کرتے ہیں، تو لوگ معمول کے مطابق ان کو بھی تلقین کرنے لگے مسکرا کر فرمانے لگیں کہ : ساری عمر اس وقت کے لئے تو محنت کی تھی، اب تم مجھے کیا سکھاتے ہو؟*

*✪_"_ تو جو لوگ صیح صحیح جواب دے دیتے ہیں، تو حکم ہوتا ہے کہ ان کے لئے جنت کا لباس لاؤ، جنت کا بستر بچھاؤ، اور حدیث میں فرمایا کہ قبر اس کے لئے اتنی وسیع کر دی جاتی ہے، جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے۔*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

        *⊙:➻ ہماری منزل کون سی ہے ؟ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ اور دوسرا آدمی جس نے دنیا میں ایمان و یقین نہیں بنایا تھا، وہ ہر سوال کے جواب میں کہے گا : “_ مجھے نہیں معلوم، مجھے نہیں معلوم، تب اللہ تعالی کی طرف سے فر مایا جائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے ساری عمر کبھی یہ کام کیا ہی نہیں تھا۔*

*✪_ "_ میرے بھائیو! اللہ تعالی کو پہچانو، اور اپنے دین کو پہچانو، اپنے رسول کو پہچانو ،اور ان کی تعلیمات کو پہچانو، اور تعلیمات کو پہچاننے کے بعد ان پرعمل کرو، یہ جو آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے، جو ہمارے بزرگ آگے چلے گئے ہیں ،ان کو تو یہ پیش آ گئی ہے ، اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے؟ اور ادھر ہمارے سر پر یہ منزل کھڑی ہے، مگر ہم یہاں اس سے غافل اپنے کاروبار میں لگے ہوۓ، خوشیاں ہو رہی ہیں ، کہیں ہانکی جارہی ہیں ۔*

*✪_ "_ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ آدمی کھلکھلاتا ہے یعنی ہنستا ہے حالانکہ اس کا کفن دھوبی سے دھل کر آ چکا ہے، سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہم اس بات کو جانیں اور پہچانیں کہ ہماری منزل کون سی ہے؟*               
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

       *⊙:➻ احساس ندامت کی برکت _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اتنا برا آدمی تھا کہ کوئی اس کی وفات کا سن کر اس کے گھر نہیں آیا، عام طور پر وفات ہو جاتی ہے تو لوگ جمع ہو جاتے ہیں ،مگر وہاں کوئی نہ آیا ، تو اس کی بیوی نے چار مزدور لئے اور لا کر قبرستان کے پاس پہنچا دیا ،_قبرستان کے قریب ایک میدان تھا، جہاں لوگ جنازہ پڑھتے تھے، وہاں پہنچا دیا گیا،*

*✪_"_ اس علاقے کے ایک مشہور بزرگ تھے، ان کو الہام ہوا کہ ایک ولی اللہ کا انتقال ہو گیا ہے اور کوئی اس کا جنازہ پڑھنے کے لئے نہیں آیا، آب جا کر جنازہ پڑھو، وہ جنازہ کے لئے نکلے تو ان کو دیکھ کر بے شمار لوگ ٹوٹ پڑے ، جنازہ کی نماز اور تد فین ہو گئی، اس کے جنازہ سے فارغ ہوکر وہ بزرگ اس کے گھر آۓ اور اس کی بیوی سے پوچھنے لگے کہ اس کا کون سا عمل ایسا تھا کہ جس کی بنا پر اس کا اکرام کیا گیا ؟*

*✪_"_اس عورت نے کہا کہ اور تو میں کچھ نہیں جانتی، البتہ دو عمل اس کے مجھے یاد ہیں، ایک تو یہ تھا کہ وہ رات کو شراب پیتا تھا اور ساری رات اس نشے میں دھت پڑا رہتا تھا، آخری رات میں اس کا نشہ ٹوٹتا اور اللہ تعالی کو خطاب کر کے ہمیشہ کہتا رہتا کہ یا اللہ تو مجھے جہنم کے کس کونے میں ڈالے گا؟ ساری رات اسی طرح کرتا رہتا، یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو جاتا، فجر ہو جاتی تو پھر یہ غسل کرتا، نئے کپڑے پہنتا اور نماز پڑھتا، اس کا ایک تو یہ عمل تھا۔*

*✪_"_ اور اس کا دوسرا عمل یہ تھا کہ اس کا گھر کبھی یتیم سے خالی نہیں ہوا، ہمیشہ کسی یتیم کو اپنے گھر میں رکھتا تھا، وہ بچہ بڑا ہوتا، اس کی شادی کراتا، پھر دوسرا بچہ لے آتا، اس پر اللہ تعالی نے ان کی نجات کر دی،*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ مرنے والے سے عبرت حاصل کرو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو سامنے کی چیز نفع نہ دیں ، اور اس سے وہ عبرت نہیں پکڑتا تو جو چیزیں اس سے غائب ہیں، پوشیدہ ہیں وہ ان کے بارے میں زیادہ اندھاپن اختیار کرے گا_," (البدایہ والنہایہ، ج : ۷ ص: ۳۰۸ )*

*✪_ مرنے والے مر رہے ہیں، ہمیں ان سے عبرت پکڑنا چاہئے کہ ایک دن ہمیں بھی مرنا ہے، مرنے والا اپنے بیوی بچوں، گھر بار، اور کاروبار کو چھوڑ کر چلا گیا، اب نہ کوئی اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے اور نہ مرنے والے کو کوئی واپس لاسکتا ہے، دوسروں کو چاہئے کہ اس سے عبرت حاصل کریں اور سوچیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے!*

*✪_ میرے بھائی! ہمیں تو رات کو بھی لیٹتے ہوۓ بھی خیال نہیں آیا کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ اسی طرح صبح کو اٹھتے وقت بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا، بھائیو ! دنیا کی سب باتیں غلط ہو سکتی ہیں، موت غلط نہیں ہوسکتی، موت برحق ہے، روزانہ کئی جنازے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن ہم عبرت حاصل نہیں کرتے،*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

         *⊙:➻ میدان حشر کی ہولنا کی:_ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ ہم لوگ قبر کے حالات سنتے ہیں، اس سے کوئی عبرت نہیں لیتے، قیامت کے دن کے احوال سنتے ہیں، اس کی ہولناکیاں سنتے ہیں، وہاں کا حساب و کتاب ، حقوق کا دلایا جانا، لوگوں کا مارے مارے پھرنا وغیرہ، مگر پھر بھی ہم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے، میدان حشر کی ہولناکی کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا ہے :- (عبس :۳۴ تا ۳۷ )*
*"_ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ، وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ، وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ، لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ _,"*

*✪__ (ترجمه)... جس دن بھاگے گا آدمی اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے، اور اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے، ہر آدمی کے لئے ایک ایسی حالت ہوگی جو اس کو کفایت کرے گی، دوسری طرف متوجہ نہیں ہوسکتا ۔،*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ میدان حشر میں ایک نیکی بھی کوئی نہیں دے گا_,"*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__حدیث شریف میں مشہور قصہ ذکر فرمایا گیا ہے:- قیامت کے دن ایک ایسے آدمی کو لایا جاۓ گا جس کے گناہ اور نیکیاں برابر ہوں گی، اللہ تعالی محض اپنے فضل سے اسے فرمائیں گے : جاؤ ! کسی سے ایک نیکی مانگ لاؤ تاکہ تیری نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوجاۓ اور تجھے جنت میں داخل کر دیں ۔*

*✪_"_ وہ میدان حشر میں نیکی کی تلاش میں چکر لگاۓ گا ،اور ہر ایک سے ایک نیکی کا سوال کرے گا، مگر اس سلسلہ میں اس سے کوئی بات نہیں کرے گا، ہر ایک کو یہ خوف دامن گیر ہوگا کہ کہیں میری نیکیوں کا پلڑا ہلکا نہ ہو جاۓ اور مجھے ایک نیکی کی ضرورت نہ پڑ جاۓ، یوں ہر ایک اپنی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر اسے ایک نیکی دینے سے انکار کر دے گا، وہ مایوس ہو جاۓ گا،*

*✪_"_ کہ اتنے میں اس کی ایک آدمی سے ملاقات ہو گی جو اسے کہے گا: کیا تلاش کر رہے ہو؟ یہ کہے گا کہ: ایک نیکی تلاش کر رہا ہوں! پورے خاندان اور قوم سے ملا ہوں، ہزاروں نیکیاں رکھنے کے باوجود کوئی ایک نیکی دینے کا روادار نہیں، سب نے ایک نیکی دینے سے بخل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ شخص اسے کہے گا کہ: میرے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی نیکی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ایک نیکی مجھے کوئی نفع نہیں دے گی، لہذا یہ نیکی آپ میری طرف سے بطور ہبہ قبول کیجئے!*

*✪_"_ وہ شخص ایک نیکی لے کر خوش و خرم بارگاہ الہی میں حاضر ہوگا، تو اللہ تعالی با وجود عالم الغیب ہونے کے اس سے پوچھیں گے: کہاں سے لاۓ ؟ وہ اپنا پورا قصہ کہہ سناۓ گا، پھر اللہ تعالی اس ایک نیکی والے کو بلا کر فرمائیں گے: میرا کرم و احسان تیری سخاوت سے وسیع تر ہے! اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور دونوں جنت میں جاؤ۔ یوں وہ دونوں جنت میں چلے جائیں گے ۔*
*®_ بیروت ،ص:۳۷۱،رسائل غزالي تحت الدرة الفاخرة في كشف علوم الآخــیرة ،امام غزالی ج: ۱۳۶، ۱۳۷، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،*           
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

      *⊙:➻ _ دنیا عبرت کی جا ہے !* _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ دراصل ہمارا آخرت پر ایمان نہیں رہا اور آخرت سے پہلے قبر پر بھی ایمان نہیں، خواجہ محبوب رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:- "_جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے! یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے!*

*✪_"_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: نیک بخت ہے وہ شخص جو دوسروں کے حال سے عبرت پکڑے ! شیخ سعدی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: حکیم لقمان سے لوگوں نے پوچھا کہ: آپ نے ادب کس سے سیکھا ؟فرمایا کہ: بے ادبوں سے سیکھا ! لوگوں نے کہا: وہ کیسے؟ فرمایا: جو بات میں نے کسی کے اندر ایسی دیکھی جو میری نظر میں اچھی نہیں تھی تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ مجھ سے یہ بات باعمل نہیں صادر ہوگا، اس کو تو کچھ نہیں کہا ،البتہ اپنی اصلاح کر لی، اس کو کہتے ہیں دوسروں سے عبرت پکڑ نا !*

*✪_"_ تو جو شخص آنکھوں دیکھی چیز سے عبرت نہیں پکڑتا، وہ کانوں سنی سے کیا عبرت پکڑے گا ؟ اس کے سامنے دوزخ کے حالات بیان کرو، اس کے سامنے قیامت کی ہولناکیاں بیان کرو، اس کے سامنے قبر کی باتیں بیان کرو، اس کے لئے یہ سب بے سود ہے۔ کیونکہ غفلت کے پردے آنکھوں پر پڑے ہیں، جو سفر آگے طے کرنا ہے اس سے غافل ہیں ،*

*✪_"_ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: "_ اور بے شک کہ تم کو حکم کیا گیا ہے کوچ کرنے کا، اور تم کو بتا دیا گیا ہے تو شہ لینے کا، خوب سن رکھو ! کہ سب سے زیادہ خوفناک چیز جس کا میں اندیشہ کرتا ہوں تمہارے حق میں وہ دو ہیں: ایک لمبی لمبی امیدیں رکھنا ، اور دوسرے خواہش نفس کی پیروی کرنا۔*

*✪_"_ رہا امیدوں کا لمبا ہونا، یہ آخرت کو بھلا دیتا ہے، اور رہا خواہش کی پیروی کرنا یہ آدمی کو حق سے دور کر دیتا ہے ۔*

*✪_"_خوب سن رکھو ! کہ دنیا پشت پھیر کر جارہی ہے، اور آخرت ہماری طرف متوجہ ہوکر تیزی سے آ رہی ہے، اور ان دونوں کے کچھ بیٹے ہیں، سو اگر تم سے ہو سکے تو آخرت کے بیٹوں میں سے بنو! دنیا کے بیٹوں میں سے نہ بنو، کیونکہ آج کا دن عمل کا ہے حساب کا نہیں ،اور کل کو حساب ہوگا عمل نہیں ہو گا ۔“*
 *(البدایہ والنہایہ، ج: ۷، ص: ۳۰۸)*                  
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

          *⊙:➻ _کوچ کا نقارہ بج چکا _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ فرمایا کہ: ایک بات یاد رکھو ! کہ تمہارے لئے کوچ کا نقارہ بج چکا ہے۔ اور تمہیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ توشہ ساتھ لے کر جانا ہے، کیا توشہ لے کر جانا ہے؟*

*✪_"_ نماز جنازہ میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی، کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں اذان اور اقامت کہہ دی جاتی ہے، اور بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کا معنی یہ ہے کہ اس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ جلدی کر اذان ہو چکی ہے، اقامت ہو چکی ہے ،امام نیت باندھنے والا ہے، بس اتنی مہلت ہے تیرے پاس !*

*✪_"_ کیونکہ قد قامت الصلوة، قد قامت الصلوة، الله اكبر الله أكبر، لا إله الا اللہ تکبیر کے بعد امام کی نیت باندھنے میں جتنی دیر لگتی ہے، بس اتنی فرصت ہے تیرے پاس، جلدی کر لے جو کرنا ہے، یہ ہے کو چ کا نقارہ ،*

*✪_"_فرماتے ہیں کہ کوچ کا نقارہ بج چکا ہے، اور تمہیں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ تو شہ ساتھ لے کر جانا ہے ۔ کیا تو شہ لے کر جاتا ہے؟*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                 *⊙:➻ _ بوجھ ہلکا کرو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ شیخ عطار رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ: تیرا وجود اور جثہ بہت کمزور ہے، ذرا اپنا بوجھ ہلکا کر لو، یہ جو تم نے خوبصورت پتھروں کی گٹھڑیاں باندھ باندھ کر رکھ لی ہیں، ذرا اپنا بوجھ ہلکا رکھو، تمہیں معلوم ہے کہ کمر پر لاد کے لے جانا ہے ،تم تو بہت ہلکا سا ،کمزور سا وجود رکھتے ہو، اپنا بوجھ ہلکا رکھو، ورنہ راستے میں تم اپنا معاملہ بڑا سخت دیکھو گے، یہ بوجھ خود ہی اٹھانا پڑے گا، وہاں قلی نہیں ملتے، وہاں تو یہ معاملہ ہو گا کہ: دست خود دهن خود، یعنی اپنا ہاتھ اور اپنا منہ ۔ خود ہی نمٹو، جو توشہ لے کر جانا ہے اس کی فکر نہیں کر رہے اور جو بوجھ نہیں اٹھانا ہے اس کو باندھ ر ہے ہو ۔*

*✪_"_: آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں ! سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں!*

*✪_"_۔ ہماری خواہش نفس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی شریعت کا مسئلہ یا شریعت کی کوئی بات ہماری خواہش نفس کے مطابق ہوگی تو ہم عمل کر یں گے، ورنہ کہہ دیں گے کہ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے ! بس نفس کی خواہش پوری ہونی چاہئے ،اللہ اور اللہ کے رسول کا فرمان پورا ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس چیز سے ہمیں بحث نہیں ! بس ہماری خواہش نفس پوری ہونی چاہئے ۔ اللہ حفاظت کرے،*    

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

             *⊙:➻ آخرت کے بیٹے بنو _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ ارشادفرمایا کہ: دنیا جارہی ہے، آخرت آ رہی ہے، اور دونوں کے‌ بیٹے ہیں۔ کچھ بیٹے ہیں دنیا کے، کچھ بیٹے ہیں آخرت کے، آپ کو معلوم ہے کہ بیٹا جس باپ کا ہوتا ہے اس کی طرف منسوب ہوتا ہے، بیٹا تو ایک ہی باپ کا ہوتا ہے، دو کا تو نہیں ہوتا،۔ تو بعض لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے بیٹے ہیں، ان کا اور کوئی باپ نہیں ہے اور کچھ ہیں جو آخرت کے بیٹے ہیں،*

*✪__ قرآن کریم میں ارشاد ہے: " (الکہف:۱۰۴،۱۰۳) ترجمہ: (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ تمہیں بتائیں کہ عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ (اکثر سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے اعمال کے اعتبار سے کون ہیں؟) یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری محنت ضائع ہوگئی گم ہوگئی دنیا کی زندگی میں، اور یہ لوگ گمان کر رہے ہیں کہ یہ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔“*

*✪__ دنیا کے بیٹے آخرت کے بیٹے کا مذاق اڑاتے ہیں, دنیا والے ملاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ دنیا کا کام نہیں جانتے ،اللہ والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ،غریب غربا کامذاق اڑاتے ہیں فقیروں کا مذاق اڑاتے ہیں، جن کے پاس دنیا نہیں ہے ان کا مذاق اڑاتے ہیں ،اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہم ہنرمند ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، آج کل اسی کو تعلیم یافتہ کہتے ہیں جو دنیا کمانا حرام کمانا زیادہ جانتا ہو۔*

*✪_ ارشاد فرمایا کہ دنیا جار ہی ہے، آخرت آرہی ہے، اور دونوں کے بیٹے ہیں، سو تم ا بناۓ دنیا نہ بنو، ابناۓ آخرت بنو، کیونکہ آج عمل ہے، حساب نہیں، کر لو جو کرنا ہے، عمل کی مہلت دے دی عمل کرلو، حساب بعد میں کر لیں گے ،لیکن آج کا دن ختم ہوگا، کل کا دن آۓ گا تو عمل نہیں ہو گا حساب ہوگا، اس کو کیا جائے گا کہ پورا کرو حساب! کہے گا کہ کہاں سے پورا کروں؟*               

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ تمہیں کمزوروں کی برکت سے رزق ملتا ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص اپنے چھوٹے بھائی کی شکایت لے کر آیا ، بڑا بھائی کما تا تھا اور چھوٹا بھائی کماتا نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا، تو بڑے بھائی نے شکایت کی کہ حضرت ! یہ یہیں پڑا رہتا ہے، کوئی کام دھندہ نہیں کرتا۔ وہ بیچارہ تو خاموش رہا، آخر بڑے بھائی کو کیا جواب دیتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔*
*"_ تمہاری جو مدد کی جاتی ہے اور تم کو جو رزق دیا جا تا ہے، وہ ان کمزوروں کی وجہ سے دیا جا تا ہے _", "( مشکوۃ ص: ۴۴۷ )*

*✪"_ گھر میں جو بوڈھے ماں باپ ہوتے ہیں، جو سب سے کمزور ہیں اور جو بیچارے کمائی میں سب سے پھسڈی ہوتے ہیں، اللہ تعالی اس کی برکت سے تمام گھر والوں کو پال رہے ہیں، آخرت کے بیٹے ہیں لیکن دنیا نہیں کما سکتے، کیا کریں ؟ جن کو تم کہتے ہو کہ یہ خیرات کی روٹیوں پر پلتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ تم ان کی وجہ سے پل رہے ہو، اللہ تعالی تم کو ان کی وجہ سے پال رہا ہے، وہ نہ ہوتے تو اللہ تمہیں نہ پالتا ،تم ان کو نہیں پال رہے، بلکہ ان کا ضعف، ان کی کمزوری تمھیں پال رہی ہے، وہ اللہ کی رحمت کو کھینچ رہی ہے۔*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _میدان حشر میں دنیا کے بیٹوں کا حال _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: ایک آدمی قیامت کے دن ذلیل و رسوا کر کے اللہ تعالی کے سامنے لایا جاۓ گا، اللہ تعالی بندے سے پوچھیں گے کہ : میں نے تو بہت سارا مال دیا تھا تونے کیا کیا ؟ وہ کہے گا کہ: یا اللہ! میں نے اس کو خوب بڑھایا تھا، (ایک کی دو دکانیں بنالی تھیں، ایک کی چار فیکٹریاں بنالی تھیں ، وغیرہ وغیرہ) بہت زیادہ میں نے کاروبار کو بڑھا لیا تھا، بڑی ترقی دی تھی کاروبارکو، اگر آپ کو چاہئے تو مجھے واپس بھیج دیجئے میں لا کر آپ کو دے دیتا ہوں !*

*"_ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ نہیں ! مجھے ضرورت نہیں ہے، وہ تو تمہیں یہاں بھیجنے کے لئے دیا تھا تمہارے کام یہاں آتا_,"*
*( مشکوۃ ص:۴۴۳ )*

*✪__شرح الصدور میں حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے ایک واقع نقل کیا ہے کہ: ابن ابی قلابہ کہتے ہیں کہ میں شام سے بصرہ کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں رات کو ایک خندق میں اتر کر وضو کیا، دو رکعت نفل ادا کی اور قبر پر سر رکھ کر سو گیا، خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ قبر والا مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ رات پھر آپ نے مجھے ( قبر پر سر رکھنے کی وجہ سے) ایزا دی، پھر کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے اور ہم جانتے ہیں، مگر عمل نہیں کر سکتے، بے شک وہ دو رکعتیں جو تو نے ادا کی ہیں، دنیاو مافیہا سے بہتر ہیں، پھر اس نے کہا کہ: اللہ تعالی دنیا والوں کو جزائے خیر دے، آپ ان کو میرا سلام کہئے اور ان کو بتلایئے کہ ان کی دعائیں ہماری قبروں میں نور کے پہاڑوں کی طرح داخل ہوتی ہیں ۔“( شرح الصدور ص: ۳۰۵ طبع بیروت )*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خطبہ: قبر ،حشر اور محشر کے بیان میں_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک جنازے کے ساتھ اس کو رخصت کرنے کے لئے تشریف لے گئے، جب میت کو اس کی لحد میں رکھا گیا تو اس کے متعلقین اہل وعیال چلانے اور رونے لگے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا: روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم ! ان کی میت نے یعنی ان کے مردے نے جس چیز کو دیکھ لیا ہے یعنی آلم برزخ کو، اگر تم لوگ دیکھ لیتے اس چیز کو تو پھر مردے کو بھول جاتے اور اپنی فکر میں پڑ جاتے_,"*

*✪__ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کی ہولناکیاں اور قبر کے نقشے ان کے سامنے آجاتے تو ان کو اپنا مردہ بھول جاتا، اور پھر فرماتے ہیں کہ یہ موت تو بار بار تمہارے گھر کا پہرہ دے گی، بار بار آئے گی، یہاں تک کہ ایک آدمی کو بھی نہیں چھوڑے گی، جتنے گھر میں آدمی ( مرد اور عورت) ہیں موت سب کو ایک ایک کر کے لے کر جائے گی_,"*

*✪__ فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرنے کی، جس اللہ نے تمہارے لئے مثالیں بیان کر دی ہیں، نیک لوگوں کی مثالیں بھی بیان کر دی ہیں، اور برے لوگوں کی بھی۔ فرعون کی بھی مثال بیان کردی، موسیٰ علیہ السلام کی بھی مثال بیان کر دی، اشرار کی بھی، ابرار کی بھی، ہر ایک کی مثال بیان کر دی، سخاوت کرنے والوں کی بھی مثال بیان کر دی، بخیلوں کی بھی مثال بیان کر دی، ماں باپ کے نافرمان کی بھی مثال بیان کر دی، اور فرمانبرداروں کی بھی مثال بیان کر دی، ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے لئے اللہ نے اپنے پاک کلام میں مثالیں نہ بیان کر دی ہوں، اور اسی طرح تمہارے لئے میعادیں بھی مقرر کر دی ہیں۔*

*✪__ ہر ایک آدمی کی قسمت کا پروانہ اور اس کے گئے ہوئے دن، اس کی گردن میں لٹکا کر کے بھیجے ہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا( بنی اسرائیل: ۱۳) ترجمہ : ہر ایک کی قسمت کا پروانہ ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے۔“*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁
     *⊙:➻ حضرت ام حبیبہ کی دعا_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دعا کر رہی تھیں :- یا اللہ ! مجھے میرے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے، میرے والد ابوسفیان کے ذریعے سے اور میرے بھائی معاویہ کے ذریعہ سے نفع دیجئے ، (مطلب یہ کہ یہ زندہ رہیں، اللہ ان کی زندگی لمبی کرے، اور ان کا سایہ دراز فرمائے اور میرے سر پر قائم رکھے )*

*✪"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز مانگ رہی ہے، اور ان میعادوں کے بارے میں سوال کر رہی ہے جن کی تعیین کی جاچکی ہے، اور ان رزقوں کے بارے میں مانگ رہی ہے جن کو تقسیم کر کے دیا جاچکا ہے، اور ان سانسوں کے بارے میں سوال کر رہی ہے جن کو گن کر شمار کر لیا گیا ہے ( کہ اتنے سانسیں فلاں صاحب کے لیے )، اللہ تعالیٰ ان اعجال اور انفاس کو نہ مؤخر کریں گے نہ مقدم کریں گے، اگر تو نے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ تجھے دوزخ سے پناہ عطا فر ما ئیں اور قبر کے عذاب سے پناہ عطا فر ما ئیں تو یہ افضل ہوتا اور بہتر ہوتا۔“*
*®_ (صحیح مسلم، ج:، ص: ۳۳۸)*
 
*✪"_یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مانگنے کی چیز تو یہ تھی مگر تو کچھ اور مانگ رہی ہے ! الگ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے رزق سانسیں مقرر کی ہوئی ہیں، ہر ایک کی میعادیں مقرر ہیں، اس لئے اپنے اور دوسروں کے لئے دوزخ سے پناہ مانگی جائے اور جنت کے حصول کا سوال کیا جائے ، یہ ہمارے حق میں بہتر ہے ،*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

      *⊙:➻ انعامات الہیہ کا استحضار _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ اس کے بعد فرمایا :- تمہیں کان دیئے ہیں، آنکھیں دی ہیں، دل دیئے ہیں، کان دیئے ہیں تا کہ کانوں میں جو بات پڑتی ہے، اس کو تم ذرا سمجھ لو ۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کان اس لئے دیئے ہیں تا کہ تم گانے سنو ؟*

*✪"_ گانے کے بغیر رہ نہیں سکتیں، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے، بچپن سے ایسی عادت پڑ گئی، گویا گانے گھٹی میں ڈال دیئے گئے ہیں، گانے سننے سے تمہاری طبیعت بد مزہ نہیں ہوتی؟ تم کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ دل میں ظلمت آرہی ہے، تم کو خیال نہیں آتا کہ ہمارے کانوں کے ذریعہ سے اندر کیا انڈیلا جا رہا ہے؟*

*✪"_ آنکھوں کی نعمت : اور تم کو نظریں دی ہیں، آنکھیں دی ہیں، تاکہ تم اس کے پردے کو ہٹاؤ اور عبرت کی نظر سے دیکھو۔ آنکھیں اس لئے دی ہیں تاکہ تم ان آنکھوں سے نظر عبرت کے ساتھ دیکھو،*

*✪"_ اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے دل عطا فرمائے ہیں تا کہ تم ان حوادث اور مسائل کو سمجھو جو تمہیں پیش آنے والے ہیں,* 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

       *⊙:➻ _انسان اور جانور میں فرق _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ تم میں اور جانور میں یہی فرق ہے کہ تم مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اس کا تحفظ کیا کرتے ہو، اور جانور بے چارہ جو سامنے آتا ہے کھا لیتا ہے، آگے کی اس کو فکر نہیں,*

*✪"_ تم تدبر اور تدبیر کیا کرتے ہو، تدبر کے معنی ہیں انجام کو سوچنا اور تدبیر کے معنی ہیں: انجام کے لئے کوئی سامان کرنا کہ یہ چیز پیش آنے والی ہے، اس کا کیا بندوبست کیا جائے؟ اس کو تدبیر کہتے ہیں، کسی چیز پر غور وفکر کرنا تد بر کہلاتا ہے، اپنے انجام کوسوچنا تد بر کہلاتا ہے، اور اس انجام کی بھلائی کے اسباب مہیا کرنے کی فکر کرنا تد بیر کہلاتا ہے،*

*✪"_ انسان کو حق تعالی شانہ نے تدبر بھی دیا ہے اور تدبیر بھی دی ہے، حیوانات کو یہ چیز نہیں دی، اور یہ تدبر اور تدبیر دلوں کا کام ہے، اور یہ دماغ اس کی مشینری دل ہے۔*

*✪"_ اگر دل میں تقویٰ ہو تو دماغ تقویٰ کی بات سوچے گا، اور اگر دل میں خباثت اور نجاست ہو تو قلب میں لوگوں کی ایذا رسانی کی تدبیریں گردش کریں گی، قلب میں نیکی اور پارسائی ہو تو دماغ اس کا بندو بست سوچے گا، اور دل میں خدا کا خوف نہ ہو تو پھر دماغ اس کے مطابق تدبیریں کرے گا،*                  

*🗂️_جب آنکھیں کھلیں گی _92,"*
*( حضرت یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ)،* •┄┄┅┅━━═۞═━━┅┅┄┄•
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
    http://www.haqqkadaayi.com  
*👆🏻ہماری پچھلی پوسٹ سائٹ پر دیکھیں,* 
https://chat.whatsapp.com/G4jPyrKn8AoGHNzXXaeaue
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے لنک کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
[11/23, 6:47 AM] Haqq Ka Daayi Official: ✾⊙✿
     *⚀•═════•✭﷽✭•════•⚀*                  

    *👀_ جب - آنکھیں - کھلیں - گی _👀*

                    *▒ پوسٹ↝61 ▒*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                     *⊙:➻ _دل کی نعمت _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ تو حکم تو چلتا ہے دل کا، چاہت اور ناچاہت تو دل کا کام ہے، نیکی اور بدی دل کا کام ہے، اسی طرح خباثت یا طہارت یہ قلب کی صفت ہے، دماغ تو اس کی مشین ہے، جس طرف دل کہے گا اسی طرح کرے گا، جو حاکم کہے گا ما تحت اس کی تعمیل کریں گے۔*

*✪"_ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو دل بخشے ہیں تا کہ آئندہ جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی فکر کرو، اس لئے تم لوگ یوں نہ سمجھو کہ اللہ نے تمہیں پیدا کر کے مہمل چھوڑ دیا ہے، تم سے کوئی حساب و کتاب نہیں لے گا،*

*✪"_ اور یہ بھی نہ سمجھو کہ چونکہ تم نے کانوں میں ڈاٹ دے لئے ہیں، آنکھیں بند کر لی ہیں اور دلوں کو اللہ کی نصیحت سے پھیر لیا ہے، تو اللہ‌ تعالیٰ بھی تم سے نصیحت پھیر لیں گے، نہیں! اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور نصیحت کرنے کا اپنا فضل تمہاری طرف متوجہ رکھیں گے تم سنو تب بھی، نہ سنو تب بھی، عبرت حاصل کرو تب بھی اور عبرت کی آنکھیں بند کر لو تب بھی، اللہ تعالی تمہارے سامنے نصیحت کرتے رہیں گے۔*     

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _احسانات الہی اور اعمال کی جزا و سزا _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھو ( آنکھ، کان، زبان، دل و دماغ، ہاتھ پیر ) کہ اللہ تعالیٰ نے کامل ترین نعمتیں تم کو عطا فرمائی ہیں، اور چھوٹی بڑی تمام حاجتیں تم کو دیں، تمہاری زندگی کے لئے تم کو جو سامان چاہئے وہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا، اب تم بھی تو کچھ کرو گے نا !*

*✪"_ کتنی نعمتیں تم نے اڑائیں وہ اللہ کے علم میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو احسانات تمہارے ساتھ کئے وہ اللہ کے علم میں ہیں، اور تم جو اس کے مقابلے میں اچھے اور برے اعمال بجا لاتے ہو وہ بھی اللہ کے علم میں ہیں، اور یہ بات خوب یاد رکھو کہ نیک اعمال ہوں یا برے اعمال ہوں، وہ تم نے خوشی میں کئے ہوں یا تنگی میں کئے ہوں، صحت میں کئے ہوں یا بیماری میں کئے ہوں، بہر حال ان اعمال کی اور ان اعمال کے مناسب جو جزا و سزا ہے وہ دیں گے ۔*

*✪"_ اللہ کے بندو ! تلاش میں محنت کرو اور وہ چیز جو تمام خواہشات کے گھروندے کو چکنا چور کر دیتی ہے اور جو تمام لذتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے، یعنی موت، اس کے آنے سے پہلے پہلے عمل کر لو، ورنہ بازی ہار جاؤ گے۔*               
*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ ہار جیت کا میدان تو محشر ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ آج کل تو پوری قوم لگی ہوئی ہے کھیل کے میدان کو دیکھنے کے لئے, مجھے ایک نوجوان نے لکھا کہ ٹی وی دیکھنا گناہ ہے یہ تو ٹھیک ہے چونکہ میں کھیل دیکھنے کا شوقین ہوں، مجھے کھیل کا بہت شوق ہے، تو میں کبھی کبھی ٹی وی پر میچ دیکھ لیتا ہوں، ماشا اللہ ! بہت اچھا مقابلہ ہوا، فلاں جیت گیا فلاں ہار گیا،*

*✪_ کیا اسی ہار اور جیت کو تم نے ہار اور جیت سمجھ لیا، ہار اور جیت کا اصل میدان تو آگے آنے والا ہے، میرے بھائی ! قرآن کریم نے جس کو : يومُ التَّغابن فرمایا ہے، در اصل ہار جیت کا دن اور ہار جیت کا میدان تو میدان محشر ہے،*

*✪_ تو میرے بھائی ! محنت کرو، کوشش کرو، ابھی تم میں صحت ہے، قوت ہے, موت کے آنے سے پہلے پہلے اعمال کر لو، اس لئے کہ جس دنیا میں تمہارا دل اٹک گیا ہے، اس کی نعمت دائم نہیں رہتی، اور کیا معلوم یہاں کون سا حادثہ کس وقت پیش آ جائے ؟ اس بارے میں کوئی اطمینان نہیں ہے۔*           
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

            *⊙:➻_موت کے بعد کا نقشہ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ اس کے بعد پھر نقشہ بیان فرمایا ہے کہ آگے تمہیں معلوم ہے کہ تمہیں آگے کیا پیش آنے والا ہے؟ قبر کے اندر تو جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ آنے والا ہے لیکن قبروں کے بعد صور پھونک دیا جائے گا، قبریں اکھاڑ دی جائیں گی محشر کی طرف سب لوگوں کو ہانک ہانک کر لے جایا جائے گا اور حساب کے کٹہرے میں لوگوں کو کھڑا کر دیا جائے گا، حساب لینے والا وہ ہوگا جس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ہوگی۔*

*✪"_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا کہ: اے ابوذر! توشہ ساتھ لے کر جانا سفر بڑا لمبا ہے۔ اپنا بوجھ ذرا ہلکا رکھنا، اس لئے کہ گھائی بڑی دشوار ہے، اس پر چڑھنا بڑا مشکل ہے اور اپنا عمل ذرا کھرا لے کر جانا، عمل تمہاری پونجی ہے ،*

 *✪"_صبح کھاتے ہو شام کی فکر کرتے ہو اور وہ جو قبر میں پڑے ہوئے ہیں ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ سب یہ قیامت تک تو وہیں رہیں گے اور قیامت کے بعد اٹھائے جائیں گے، وہ پچاس ہزار سال کا دن ہوگا, اس کے لئے بھی کچھ سامان کی ضرورت ہے کہ نہیں ؟*

*✪"_ اپنا عمل کھرا لے کر جانا، سکہ کھوٹا نہیں ہونا چاہئے کھرا ہونا چاہئے اس لئے کہ پر کھنے والا بڑا باریک بین ہے،*

*✪"_اسی کو فرما رہے ہیں کہ پھر تمہیں حساب و کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا، اور تم اس شان سے لائے جاؤ گے کہ:" ایک ہانکنے والا ہوگا جو ڈنڈے کے ساتھ ہانک رہا ہوگا، جیسے گائے بھینسوں کو ہانکا جاتا ہے۔*                
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

          *⊙:➻ _عدالت الہی کے گواہ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ساتھ ایک گواہی دینے والا ہوگا یہ دونوں گواہی دیں گے، ایک ہانکنے والا گواہ، ایک دوسرا گواہ۔ اور حضرات علما فرماتے ہیں کہ یہ دو گواہ دائیں اور بائیں والے ہیں جن کو کرامن کاتبین کہتے ہیں تمہارے نامہ اعمال کا کاتب کہے گا: " یہ اس کا دفتر ہے جو میرے پاس تیار رکھا ہے، انکار کر دے گا تو گواہی دیں گے، جب اس پر بھی انکار کرے گا، کہے گا کہ جھوٹ بولتے ہیں ، غلط بولتے ہیں، میں نے یہ کام نہیں کیا۔*

*✪"_چنانچہ مشکوۃ شریف میں ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے، آپ مسکرائے اور فرمایا تم کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں مسکرایا ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ ! ارشاد فرمائیے ! فرمایا : بندہ قیامت کے دن کہے گا کہ یا اللہ ! کیا یہ بات نہیں ہے کہ آپ نے مجھ کو ظلم سے امن دیا ہے، یعنی تجھ پر ظلم نہیں ہوگا، بالکل بے پرواہ رہو، اگر تم کسی چیز سے نڈر ہونا چاہتے ہو تو پھر صرف ایک نڈر ہونے کی چیز ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بالکل ٹھیک ہے، میرا وعدہ ہے کہ تجھ پر ظلم نہیں ہوگا ، تو وہ کہے گا کہ اگر آپ کا وعدہ ہے کہ ظلم نہیں ہوگا تو میں ان میں سے کسی کی گواہی کو تسلیم نہیں کرتا۔“*

*✪"_ احمق یہ سمجھے گا کہ شاید اس سے میری جان چھوٹ جائے گی، فرمایا: بہت خوب ! بالکل ٹھیک ہے، وہ جو سورہ یسین میں فرمایا: بالکل ٹھیک ہے، وہ جوسورہ یسین میں فرمایا: اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بالکل ٹھیک ہے، منہ پر مہر لگا دی جائے گی ، ہاتھ گواہی دیں گے کہ ہم نے یہ یہ کیا تھا، اور پاؤں گواہی دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب تو ٹھیک ہے، اب تو کوئی اور گواہی نہیں دے رہا، اب تو تم خود ہی اپنے اوپر گواہی دے رہے ہو، کسی کی شہادت ہم تمہارے حق میں قبول نہیں کرتے لیکن تم اپنے ہاتھ اور پاؤں کی شہادت تو تم مانو گے کہ نہیں؟*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ تمام اعضاء جسم گواہی دیں گے_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__قرآن کریم میں ارشاد فرمایا -( حم السجدہ ۲۱):- (ترجمہ) وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم میرے خلاف کیوں گواہی دیتی ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں بلوا دیا ہے اس نے جس نے ہر چیز کو بلوا دیا ہے، جس نے ہر چیز کو گویائی عطا فرمائی ہے۔“*

*✪__ جو زبان کو بلوا سکتا ہے وہ ہاتھ کو بھی بلواسکتا ہے، وہ چھڑی کو بھی بلوا سکتا ہے، جب تمہارے وہ اعضا جنہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا وہ بول کے بتائیں گے پھر کیا رہے گا ؟ اب کچھ پردہ ڈھکا ہوا تھا، مگر جب اس بندہ نے جو کچھ کیا اور کراماً کاتبین نے لکھا کہ اس نے زنا کیا ہے، یہ تو اس نے مانا نہیں، اب اگر اس کی شرمگاہ بول کر بتائے پھر تو کچھ شرم آئے گی، اس کی آنکھیں یہ بول کر بتائیں کہ میرے ساتھ اس نے یہ کیا، اگر کراماً کاتبین کی گوہی کو نہیں مانو گے،*

*✪__ یہ اللہ تعالیٰ کے معصوم فرشتے جو تمہارے نامہ اعمال لکھنے پر مقرر ہیں، اور وہ دیوان اور دفتر تمہارا پھیلا دیا جائے گا، اس کو نہیں مانو گے تو پھر اپنی ( ہاتھ، پیر ، زبان، آنکھیں، شرمگاہ ) گواہی تو مانو گے۔*                   
*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

             *⊙:➻ میدان حشر کا نقشہ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان محشر کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:-*
*"_ بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے کلام کرے گا، بندہ اور اس کے رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ بندہ دائیں جانب دیکھے گا تو اس کے عمل پھیلے ہوئے ہوں گے، بائیں جانب دیکھے گا تو اس کے اعمال پھیلے ہوئے ہوں گے، آگے کو دیکھے گا تو آگ سامنے ہوگی_,"*

*✪"_ ( گویا چاروں طرف دیکھے گا، پیچھے تو دیکھ نہیں سکتا، اور ہر طرف اس کے اعمال پھیلے ہوئے ہوں گے، کوئی ایک آدھ ورقہ تھوڑا ہی ہے، ہم نے پوری زندگی میں کراماً کاتبین کے کتنے کاغذ سیاہ کروائے ہیں، یہ نقشہ بیان کر کے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-*
*"_ جو شخص اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی استطاعت رکھتا ہے، چاہے کھجور کی ہی ایک پھانک ہی دینی پڑے تو وہ ایسا کرے، ( آدھا حصہ کھجور کا اس کو بھی معمولی چیز نہ سمجھو، یہ بھی دوزخ سے بچانے والی چیز ہے)۔*
*®_ ( ترندی، ج:۲ ص ٦٤,)*

*✪"_ غرضیکہ یہ کہ تمہارے اعمال کا نقشہ ہے، تو اور کیا کہیں آگے پورے کوائف ذکر فرمائے ، سورج بے نور ہو جائے گا، چوپائے تک جمع کر دیئے جائیں گے، دل کے بھید کھل کر سامنے آجائیں گے، دل کانپ رہے ہوں گے، چہرے اداس ہوں گے، کہیں چھپنے کی جگہ نہیں، کہیں بناہ کی جگہ نہیں، کوئی سایہ نہیں، کوئی پینے کو پانی نہیں ، یہ میدان محشر ہے، اگر یہ ساری چیزیں برحق ہیں، تو تم کس غفلت میں بھولے ہوئے ہو اور تمہیں یہاں کی زندگی نے کیوں فریب دے رکھا ہے، کیوں دھو کہ میں ڈال رکھا ہے۔*      
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

               *⊙:➻ _دوزخ کا نقشہ _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ پھر اللہ تعالی فضل فرمائے، اللہ تعالیٰ بچائے دوزخ سے، دوزخ میں کنڈیاں ہیں جن میں آدمی پھنس جائے تو نکل نہ سکے، جیسے کانٹا ڈالا جاتا ہے دریا میں مچھلیوں کو پھانسنے کے لئے، مچھلیاں اس کانٹے کو نگل تو لیتی ہیں، پھر اگل نہیں سکتیں، اس کے لئے کنڈیاں ہوں گی اور شور مچا رہی ہوں گی، چلا رہی ہوں گی، دھاڑیں مار رہی ہوں گی، اتنا شور کہ اس شور سے آدمی کے ہوش اڑ جائیں گے اور ایسی کڑک جیسے بجلی کی کڑک ہوتی ہے، ایسی لپٹ کہ آدمی کو جھلسا دے گی،*

*✪"_ یہ جہنم میں داخل ہونے سے پہلے کا نقشہ ہے، خدا محفوظ فرمائے، اللہ تعالیٰ بچائے، ایک لمحہ کے لئے بھی دوزخ میں اللہ پاک نہ بھیجے، ( آمین)*

*✪"_ غفلت کی زندگی نہ گزارو، اپنی آخرت کی تیاری کرو، یہ موت, موت کے بعد قبر کی زندگی، قبر کے بعد پھر حشر اور اس کے بعد دوزخ، یہ ہولناکیاں اور فتنہ سامانیوں سے بچنے کے لئے اللہ سے ڈرو اور نیک اعمال کا ذخیرہ تیار کرو، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین)*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻_قیامت کے دن کے پانچ سوالات:_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪__ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندے کے قدم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس سے نہیں ہلیں گے یہاں تک کہ اس سے سوال کیا جائے پانچ چیزوں کے بارے میں:-*
*"_( ا.)_ اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے عمر کو کس چیز میں فنا کیا؟*
*(٢) ... اور اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس نے اس کو کس چیز میں گزارا ؟*
*(٣)_ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے کہاں سے حاصل کیا ؟ (٤)_ اور یہ کہ مال کس چیز میں خرچ کیا ؟*
*(٥)... اور جو چیزیں ( علم ) اس کو معلوم تھیں ان میں سے کن چیزوں پر عمل کیا ؟“*
*®_ ( ترمذی ، ج:۲، ص: ۶۴)*

*✪_"_ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں بٹیں گے یہاں تک کہ اس سے ( چند چیزوں کے بارے میں ) سوال کیا جائے، ( اور وہ ان کا معقول جواب دے، (اوّل) اس کی عمر کے بارے میں (سوال کیا جائے گا) کہ کس چیز میں ختم کی؟( دوم ) اس کے علم کے بارے میں کہ اسے کس چیز میں استعمال کیا ؟ ( سوم ) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا ؟ اور کس چیز میں خرچ کیا؟ اور (چہارم ) اس کے بدن کے بارے میں کہ اس (کی قوتوں) کو کس چیز میں کمزور کیا ؟“*
*®- ( ترندی، ج:۲، ص: ۶۴)*

*✪_"_ یعنی بندے کو اپنی عمر، اپنے مال، اپنے علم اور اپنی بدنی قوتوں کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی کہ آیا ان تمام چیزوں کا استعمال صحیح ہوا یا غلط؟ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہوا یا ان کے خلاف؟*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻حساب و کتاب کا مرحلہ بہت ہی دشوار ہے _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ اگر آدمی اپنی زندگی کے ایک دن کا حساب چکانے بیٹھے تو سوچا جا سکتا ہے کہ اس میں کتنی پریشانی ہوگی! اور یہاں تو ایک آدھ دن کا قصہ نہیں بلکہ پوری زندگی کا حساب چکانا ہوگا، یہ ایسی ہولناک حقیقت ہے کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،*

*✪"_ لیکن ہماری غفلت لائق تعجب ہے کہ مسکین انسان کو حساب و کتاب کا یہ مرحلہ پیش آنے والا ہے مگر وہ نشہ غفلت میں مدہوش اس مرحلے سے بالکل غافل اور بے خبر ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو یوم الحساب کے آنے سے پہلے اپنا میزانیہ درست کر لیں ، اپنے نفع و نقصان کا موازنہ کرلیں، اور جو لغزشیں اور کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں، مرنے سے پہلے ان کا کچھ تدارک کرلیں ۔*

*✪_ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے حال پر نہایت شفقت ہے کہ جو امتحانی پرچہ اسے قیامت کے دن حل کرنا ہے، اور جن چیزوں کا حساب بے باق کرنا ہے، اس کی اطلاع پہلے سے کر دی ، تاکہ ہر شخص فکرمندی کے ساتھ اس کی تیاری کرے اور اسے وقت پر پریشانی کا سامنا نہ ہو،*

*✪"_ حق تعالیٰ شانہ اپنی رحمت و عفو سے اس دن کی پریشانیوں سے محفوظ فرما ئیں، اور ہمارے عجز وضعف پر نظر فرما کر ہمارے عیوب کو اپنی مغفرت سے ڈھانک لیں۔* 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ حقوق العباد کو ضائع کرنے والا قیامت کے دن مفلس ہوگا_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہم میں مفلس وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ اور مال و متاع نہ ہو_,"*

*✪"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ لے کر ایسی حالت میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی تھی ،کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا، کسی کو مارا پیٹا تھا، پس یہ تمام لوگ اپنے حقوق کا بدلہ اس کی نیکیوں سے وصول کریں گے، اس کے ذمے جو لوگوں کے حقوق ہیں، اگر ان کے پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اہل حقوق کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔“*

*✪"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری حدیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جس کے ذمے اس کے بھائی کا کوئی غصب کردہ حق ہو، خواہ اس کی عزت و آبرو کے متعلق، یا اس کے مال کے متعلق، تو وہ اس کے پاس جا کر اس سے معاف کرالے، اس سے قبل کہ وہ (قیامت کے دن ان حقوق کی وجہ سے ) پکڑا جائے ، اور وہاں کوئی درہم و دینار تو ہوگا نہیں، صرف نیکی اور بدی کا سکہ چلے گا اور انہی کے ذریعے وہاں حقوق کی ادائیگی ہوگی )*

*✪"_ پس اس شخص کے پاس اگر کچھ نیکیاں ہوئیں تو اس کی نیکیوں سے معاوضہ لیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہو ئیں تو لوگ( اپنے حقوق کے بدلے میں ) اس پر اپنے گناہ ڈال دیں گے۔“*
*®_ (ترندی ، ج:۲، ص: ٦٤)*
*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ قیامت کی رسوائی سے بچیں _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ ہم جود وسروں کی غیبتیں کرتے ہیں، ان کو گالی گلوچ کرتے ہیں، کسی کی تحقیر کرتے ہیں، کسی کو جسمانی یا ذہنی ایذا پہنچاتے ہیں، یا کسی کا مال ہضم کر جاتے ہیں، دراصل یہ اس کا نقصان نہیں بلکہ ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں ان کا معاوضہ اپنی نیکیاں دے کر ادا کرنا ہوگا۔ جب ایک ایک نیکی کا بندہ محتاج ہوگا،*

*✪"_ اکابر فرماتے ہیں کہ حقوق العباد کا معاملہ ایک لحاظ سے حقوق اللہ سے زیادہ سنگین ہے، کیونکہ حق تعالیٰ شانہ غنی مطلق ہیں، معاف بھی کر دیں گے لیکن بندے محتاج ہیں، ان سے یہ توقع نہیں کہ وہ معاف کر دیں، الا ماشاء اللہ!*

*✪"_ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا معاملہ صرف انسانوں تک محدود نہیں، بلکہ حیوانات تک پھیلا ہوا ہے، باوجود یہ کہ حیوانات احکام شرعیہ کے مکلف نہیں لیکن اگر ایک بکری نے دوسری بکری سے زیادتی کی ہوگی تو اس کا بدلہ بھی دلایا جائے گا،*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

    *⊙:➻ حقوق کی تلافی کی صورتیں _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ قیامت کے دن حقوق سے عہدہ برا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اول تو آدمی کسی کا حق اپنے ذمے نہ رکھے، بلکہ پوری دیانت وامانت کے ساتھ اپنے معاملات کو صاف رکھے ، اور کسی کی غیبت وغیرہ سے پر ہیز کرے، اور اگر غفلت و کوتاہی کی وجہ سے اس کے ذمے کچھ حقوق لازم ہوں تو ان کی تلافی و تدارک کی کوشش کرے۔*

*✪_"_ اور تلافی کی تفصیل یہ ہے کہ حقوق یا مالی ہوں گے یا عزت و آبرو سے متعلق، اور دونوں صورتوں میں صاحب حق معلوم ہوگا یا نہیں ؟ پس یہ کل چار صورتیں ہوئیں۔*
*"_ اول :- حق مالی ہو اور صاحب حق معلوم ہو، اس صورت میں اس کا حق ادا کر دے، اور اگر ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، تو اس سے معاف کرالے۔*

*✪_"_ دوم : حق مالی ہو اور صاحب حق معلوم نہ ہو، مثلاً کسی شخص سے کوئی چیز خریدی تھی، اس کے دام ادا نہیں کئے تھے اور وہ شخص کہیں غائب ہو گیا، اب اس کا کچھ اتا پتا نہیں چلتا ۔ یا وہ شخص مر گیا اور اس کا کوئی وارث بھی معلوم نہیں تو اس صورت میں اتنی رقم اس کی طرف سے صدقہ کر دے۔*

*✪_"_ سوم ...اگر حق غیر مالی ہو اور صاحب حق معلوم ہو، مثلاً کسی کو مارا تھا یا اسے گالی دی تھی، یا اس کی غیبت کی تھی یا اس کی تحقیر کی تھی تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے۔*

*✪_"_ چہارم ...اگر حق غیر مالی ہو اور اصحاب حقوق معلوم نہ ہوں، یعنی یہ یاد نہیں کہ زندگی بھر میں کس کس کو گالی دی؟ کس کس کو ستایا ؟ کس کس کی غیبتیں کیں؟ وغیرہ وغیرہ ، تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ ان سب کے لئے دُعا و استغفار کرتا رہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کچی تو بہ وندامت کے ساتھ یہ دعا کرتا رہے کہ: یا اللہ ! میرے ذمے تیرے بہت سے بندوں کے حقوق ہیں، اور میں ان کو ادا کرنے یا اصحاب حقوق سے معافی مانگنے پر بھی قادر نہیں ہوں، یا اللہ ! ان تمام لوگوں کو آپ اپنے خزانہ رحمت سے بدلہ عطا فرما کر ان کو مجھ سے راضی کر دیجئے۔“*

*✪_"_ یہی تدبیر اس صورت میں اختیار کی جائے جب صاحب حق تو معلوم ہو، مگر اس سے معافی مانگنا ممکن نہ ہو یا دینی مصلحت کے خلاف ہو، یا کسی کا مالی حق اس کے ذمے ہو ، مگر یہ اس کے ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔*

*✪_"_ الغرض ! حقوق کی ادائیگی یا تلافی کا بہت ہی اہتمام ہونا چاہئے، ورنہ قیامت کا‌معاملہ بہت ہی مشکل ہے۔ حق تعالیٰ اس روسیاہ پر بھی رحم فرما ئیں اور اس کی حماقتوں اور غفلتوں کی وجہ سے جن حضرات کے حقوق اس کی گردن پر ہیں، ان کو اپنی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرما کر اس گناہگار کی گلو خلاصی کی صورت پیدا فرمادیں تو ان کی رحمت سے کچھ بعید نہیں !*              
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ قیامت کے دن کے پسینے کا بیان _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ: جب قیامت کا دن ہو گا، سورج بندوں کے قریب لایا جائے گا، یہاں تک کہ میل یا دو میل کے فاصلے پر ہوگا_,"*

*✪"_ سلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس میل کا ارادہ فرمایا، آیاز مین کی مسافت کا؟ یا وہ میل (یعنی سرمہ کی سلائی ) جس سے آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا ہے؟ پس آفتاب ان کی چربی پگھلا دے گا، پس لوگ اپنے اعمال کے بقدر پسینے میں نہائے ہوئے ہوں گے، کسی کا پسینہ ٹخنوں تک ہوگا، کسی کا گھٹنوں تک کسی کا کمر تک، اور کسی کا منہ تک پہنچا ہوا ہو گا۔*

*✪"_ حضرت مقدا د رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ بعض کا پسینہ ان کے منہ کو لگام دیئے ہوئے ہو گا ۔“*
*®_ ترندی، ج:۲، ص: ٢٤ ,٢٥)*

*✪"_ ایک حدیث میں ہے: قیامت کے دن لوگوں کو اس قدر پسینہ آئے گا کہ ان کا پسینہ زمین میں ستر گز تک جائے گا، اور ان کے منہ میں لگام کی طرح ہوگا، یہاں تک کہ ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا۔ ( بخاری )*

*✪"_ احادیث سے مدعا یہ ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہو کر اس خوفناک دن کے لئے جو بہر حال ہر شخص کو پیش آنے والا ہے، تیاری کریں، ان اسباب کو اختیار کریں جن کے ذریعے ان اہوال سے چھٹکار انصیب ہو، ہم سے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں جتنی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، ان سے تو بہ کر کے ان کی تلافی و تدارک کا اہتمام کریں اور کریم آقا کی بارگاہ میں ہمیشہ التجا کرتے رہیں کہ محض اپنے لطف و احسان سے ہمیں قیامت کے دن کی ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھیں، دنیا کی آلائشوں سے پاک صاف کر کے وہاں لے جائے‌اور قیامت کے دن اپنے مقبول بندوں کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے _," ( آمین)*
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                   *⊙:➻ حشر کا بیان _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: لوگوں کو جمع کیا جائے گا قیامت کے دن ایسی حالت میں کہ بر ہنہ پا، بر ہنہ بدن اور غیر مختون ہوں گے، جیسا کہ پیدائش کے وقت تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: "_ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ_" ( الانميا : ۱۰۴)*
*"_( جیسا کہ سرے سے بنایا تھا ہم نے پہلی بار، پھر اس کو دُہرائیں گے، وعدہ ضرور ہو چکا ہے ہم پر، ہم کو پورا کرنا ہے )۔*

*✪"_ اور مخلوق میں سے پہلے شخص جن کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرات ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہوں گے، اور میرے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کو دائیں جانب اور بعض کو بائیں جانب (یعنی دوزخ کی طرف) لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا کہ: یا اللہ ! یہ تو میرے اصحاب ہیں_,"*
*"_ پس کہا جائے گا کہ: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ آپ جب سے ان سے جدا ہوئے یہ ہمیشہ مرتد رہے۔*

*✪"_ پس میں کہوں گا جیسا کہ نیک بندے ( حضرت عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام) نے کہا: یا اللہ ! اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر آپ ان کی مغفرت فرمادیں تو آپ زبر دست ہیں، حکمت والے ہیں_,"*

*®__(ترندی ج ۲ ص ٦٥)*             

*✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: لوگ ننگے پاؤں، برہنہ بدن، اور غیر مختون اُٹھائے جائیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ اس سے کہیں سخت ہو گا کہ کسی کو اس کا خیال بھی آئے (صحیح بخاری)*
*"_ ایک روایت میں ہے کہ : عائشہ! معاملہ اس سے کہیں سخت ہوگا کہ کوئی کسی کو دیکھے۔ (صحیح مسلم)*

*✪_"_ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نئے کپڑے منگوا کر پہنے، پھر فرمایا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ:- مرنے والے کو انہی کپڑوں میں اُٹھایا جائے گا جن میں مرے گا۔“ ( ابوداؤد- ج:۲ ص: ۸۸)*

*✪_"_ بعض اہل علم کے نزدیک حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں تیاب (کپڑوں) سے مراد اعمال ہیں، یعنی جن اعمال میں آدمی کی موت آتی ہے اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، یہ مضمون دُوسری احادیث میں بھی وارد ہوا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس کو شہداء کے ساتھ مخصوص کیا ہے، کیونکہ جن کپڑوں میں وفات ہو، شہید کو انہی کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے وہ کپڑے اُتار لئے جاتے ہیں اور کفن پہنایا جاتا ہے۔*

*✪_"_ بہر حال قبروں سے اُٹھتے وقت لوگوں کے بدن پر لباس نہیں ہوگا، بلکہ ہر شخص کی حیثیت ومرتبے کے مطابق اسے بعد میں لباس پہنایا جائے گا۔* 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ _وہ کون لوگ ہونگے جن کو حوض کوثر سے روک دیا جائے گا _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ حدیث پاک میں یہ بیان ہوا ہے کہ کچھ لوگوں کو بائیں جانب یعنی جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں ! فرمایا جائے گا کہ: آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا ؟ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے_,"*
*"_ یہ گفتگو غالباً حوض کوثر پر ہوگی، کیونکہ متعدد احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت حوض کوثر پر حاضر ہوگی تو کچھ لوگوں کو روک دیا جائے گا، اس پر یہ گفتگو ہوگی۔*

*✪"_ صحیح بخاری (ج:1 ص:۴۹۰ ) میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد فریری رحمہ اللہ نے امام بخاری کے حوالے سے ان کے شیخ قبیصہ بن عقبہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتد ہو گئے تھے اور جن سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کیا۔*
*"_ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : بحمد اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی مرتد نہیں ہوا، مرتدین اکھڑ قسم کے دیہاتی بدوی تھے، ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا بھی موقع نہیں ملا تھا، اور جو چند افراد حاضر خدمت بھی ہوئے انہوں نے بھی محض ظاہری اطاعت قبول کی تھی حقیقت ایمان ان کے دل میں راسخ نہیں ہوئی تھی ۔*

*✪"_ بعض حضرات فرماتے ہیں: اس سے منافقین مراد ہیں، اور بعض نے کہا: اس سے اہل کبائر یا اہل بدعت مراد ہیں۔*
*"_ صحیح بخاری ( ج ۲ ص: ۹۷۵) میں ہے کہ حضرت ابن ابی ملیکہ تابعی رحمہ اللہ جب اس حدیث کو روایت کرتے تو یہ دعا کیا کرتے تھے: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَّرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نفْتَنَ عَنْ دِينِنَا_, (ترجمہ ): اے اللہ ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں لوٹ جائیں، یا اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں مبتلا ہو جائیں ۔“*

*✪"_ صحیح بخاری کے حاشیہ میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ وہ تمام لوگ جو دین سے پھر گئے یا انہوں نے دین میں ایسی بات ایجاد کی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نا پسندیدہ تھی اور جس کی اجازت نہیں تھی، یہ لوگ حوض کوثر سے ہٹا دیئے جائیں گے اور اس سے دور رکھے جائیں گے، ان میں سر فہرست وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کے خلاف رہے، جیسے خارجیوں، رافضیوں اور معتزلیوں کے تمام فرقے، کیونکہ یہ سب لوگ دین کو بدلنے والے ہیں۔ اسی طرح وہ ظالم و مسرف جو جور و ستم کے مرتکب تھے، حق کو مٹاتے اور اہل حق کو قتل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔*
*"_ نیز جو لوگ کبیرہ گناہوں کا علانیہ ارتکاب کرتے اور گناہوں کو ہلکی چیز سمجھتے تھے ، یہ لوگ بھی حوض کوثر سے محروم رہیں گے۔*
*"_ یا اللہ ! ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائیے، اور ہمیں ان کامیاب لوگوں میں سے بنا دیجئے جن پر نہ کوئی خوف ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور ہمیں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر سے سیراب کیجئے، برحمتک یا ارحم الراحمین!*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

      *⊙:➻ قیامت کے دن کی پیشی _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، پہلی دو پیشیوں میں تو بحث، جھگڑا اور عذر معذرتیں ہوں گی، اور تیسری پیشی نامۂ اعمال ( کے نتائج ) ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے، پس کوئی داہنے ہاتھ میں لے گا، اور کوئی بائیں ہاتھ میں ۔“ ( ترندی، ج:۲، ص: ٦٥)*

*✪"_ یعنی پہلی دو پیشیوں میں تو یہ ہوگا کہ جب مجرموں کے سامنے ان کے نامۂ اعمال پیش کئے جائیں گے تو وہ انکار وگریز کی کوشش کریں گے، بھی یہ کہیں گے کہ یہ ہمارے اعمال ہی نہیں ! ہمارے نام جھوٹ موٹ لکھ دیئے گئے ہیں، کبھی کہیں گے کہ : ”ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، ہم تو بالکل بے خبر تھے، کبھی کہیں گے کہ : ”ہمارے بڑوں نے ہمیں گمراہ کیا، ہم تو ان کے تابع تھے، ہمارا کوئی قصور نہیں ! کبھی کہیں گے کہ: ہمیں دُنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے، ہم نیک اور فرمانبردار بن کر آئیں گے۔“*

*✪"_ الغرض! اس طرح سو سو عذر اور بہانے کر کے جان بچانے کی کوشش کریں گے مگر یہ سارے بہانے بے کار جائیں گے، اور ان کی ساری حجتیوں کو ایک ایک کر کے توڑ دیا جائے گا ، بالآخر جب مجرموں کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہے گی تو تیسری پیشی میں ہر ایک کی قسمت کا آخری فیصلہ کر دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کے مطیع وفرمانبردار بندوں کو نہایت عزت و اکرام کے ساتھ جنت کا پروانہ ان کے دائیں ہاتھ میں عطا کیا جائے گا، جسے پڑھ کر وہ باغ باغ ہو جائیں گے اور ساری تکلیفیں اور مشقتیں بھول جائیں گے، اور مجرموں اور نافرمانوں کو لعنت کا طوق پہنا کر ان کی سزا کا فیصلہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ بصد ذلت وخواری واصل جہنم ہوں گے۔*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

           *⊙:➻ حساب کتاب کا بیان:-* _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : جس شخص سے حساب میں مناقشہ کیا گیا، وہ ہلاک ہو گیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ تو ارشاد فرماتے ہیں: سوجس کو ملا اعمال نامہ اس کا داہنے ہاتھ میں تو اس سے حساب لیں گے آسان حساب ۔( الانشقاق ۵، ترجمه شیخ الہند ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد اعمال نامہ پیش ہونا ہے۔“*
*®_ ترمذی - ٢/٦٥,*

*✪"_ تشریح:- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شبہ یہ تھا کہ آیت کریمہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا حساب آسان ہوگا وہ رحمت و مغفرت کا مورد ہوں گے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا بھی حساب ہوا، وہ ہلاک ہوا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں جس آسان حساب کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ بندے کا اعمال نامہ اس کے سامنے پیش کر کے ( کہ تو نے فلاں فلاں وقت، فلاں فلاں اعمال کئے ) اس سے چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کیا جائے، اس کے کسی عمل پر کوئی بحث اور باز پرس نہ کیا جائے کہ یہ کیوں کیا ؟ یا کیوں نہیں کیا ؟ لیکن جس شخص سے یہ باز پرس ہوگئی وہ مارا گیا۔ کیونکہ اس باز پرس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔*

*✪"_ قیامت کے دن کریم آقا کا معاملہ ہر شخص کے ساتھ اس کے حسب حال ہوگا، بعض سعادت مندوں کے بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل کئے جانے کا اعلان فرما دیا جائے گا، بعض کے ساتھ حساب پیر کا معاملہ ہوگا کہ ان کا نامہ عمل ان کے سامنے پیش کر کے ان سے عفو و مغفرت کا معاملہ فرمایا جائے گا۔ بعض کے ساتھ مزید لطف و احسان یہ ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کر کے فرمایا جائے گا کہ: " ان گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا جائے۔*

*✪"_ اس بے پایاں فضل و احسان کو دیکھ کر بندہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ : "یا اللہ ! میرے بڑے بڑے گناہ تو ابھی باقی ہیں، وہ تو ابھی پیش ہی نہیں ہوئے ۔ " سبحان اللہ ! کیا شان کرم ہے کہ گناہ گاروں کو ان کے قصوروں پر سزا کے بجائے انعام مل رہا ہے، اور مجرم نشہ رحمت سے سرشار ہو کر اپنے جرائم کا خود اظہار کر رہے ہیں،*                  

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

*⊙:➻ قیامت کے دن زمین کی پشت انسان پر گواہ ہوگی_,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: " يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (اس دن بیان کرے گی زمین اپنی خبریں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی پر گواہی دے گی، جس شخص نے جو عمل اس کی پشت پر کیا تھا، یوں کہے گی کہ فلاں شخص نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں عمل کیا تھا۔*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس کا حکم دیا ( اور وہ حکم الہی سے بیان کرے گی )۔*
*®_ ترمذی - 2/65,*

*✪"_ تشریح:- انسان جو نیک یا بد عمل کرتا ہے تو اس کا ایک ریکارڈ تو علم الہی میں موجود ہے اور دوسرا لوح محفوظ میں محفوظ ہے، تیسرا کراماً کاتبین کے نامہ اعمال میں ثبت ہو رہا ہے، چوتھا انسان کے اعضاء و جوارح میں ریکارڈ ہورہا ہے، پانچواں زمین کی سطح میں ریکارڈ ہورہا ہے، جس طرح ٹیپ ریکارڈر انسان کی آواز ریکارڈ کرتا ہے، اور جس طرح ٹیلی ویژن کے آلات سے اس کی ایک ایک حرکت و سکون کو محفوظ کر لیا جاتا ہے، اسی طرح زمین بھی انسان کے اچھے بُرے اعمال کو ریکارڈ کر رہی ہے،*.

*✪"_ اور قیامت کے دن وہ اپنا تمام ریکارڈ اُگل دے گی، اور انسان کے ایک ایک عمل پر گواہی دے گی کہ اس نے فلاں وقت نماز نہ پڑھی تھی، چوری کی تھی، کسی نامحرم کو بُری نظر سے دیکھا تھا، وغیر ذالک۔ حق تعالی شانہ اپنی شان کریمی سے بندے کی پردہ پوشی فرمائیں تو اس کی رحمت ہے، ورنہ جب انسانی اعضاء و جوارح اور زمین کے اجزا بھی اس کے خلاف شہادت دینے لگیں تو اس کی ذلت و رسوائی کا کیا ٹھکا نہ ہے!*                 

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

             *⊙:➻ صور پھونکنے کا بیان _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں کیسے خوش ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور اپنے منہ میں لے رکھا ہے اور حکم الٰہی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، اور وہ منتظر ہے کہ اسے کب صور پھونکنے کا حکم کیا جاتا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہت ہی بھاری گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: یوں کہا کرو: حَسبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا (اللہ تعالیٰ ہم کو کافی ہیں اور بہترین کارساز ہیں، ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے )*
*®_ ۔ (ترندی، ج ۲ ص ۲۵)*

*✪_"_ تشریح:- صور پھونکنے کا ذکر قرآن کریم میں بہت کی جگہ آیا ہے، صور دو بار ہوگا، پہلے جب اللہ تعالیٰ اس عالم کو نا کرنا چاہیں گے تو اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا، وہ صور پھونکیں گے، شروع میں اس کی آواز نہایت دھیمی اور سریلی ہوگی، جو تدریجا بڑھتی جائے گی جس سے انسان، جنات، چرند، پرند سب سراسیمہ ہو کر مدہوشی کے عالم میں بھاگیں گے اور آواز کی شدت اور بڑھے گی تو سب کے جگر پھٹ جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور روئی کی طرح اُڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، بالآخر آسمان وزمین فنا ہو جائیں گے اور ذات الٰہی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ۔*

*✪_"_ کچھ عرصے بعد ( جس کی مقدار بعض روایات میں چالیس سال آئی ہے ) اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کر کے انہیں پھر صور پھونکنے کا حکم دیں گے, جس سے پورا عالم دوبارہ وجود میں آجائے گا، مردے قبر سے اُٹھیں گے اور میدان محشر میں حساب و کتاب کے لئے سب لوگ جمع ہوں گے۔*                 

*✪_ قیامت کا صور پھونکا جانا نہایت ہولناک چیز ہے کہ آسمان و زمین اور پہاڑ بھی اس کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور چونکہ یہ منظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہتا تھا اس لئے فرمایا کہ: میں کس طرح خوش ہوں جبکہ صور پھونکنے والا فرشتہ اسے منہ میں لئے منتظر کھڑا ہے کہ اسے کب صور پھونکنے کا حکم ہوتا ہے۔*

*✪_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے: - جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں معلوم ہو جاتا تو تم بہت کم ہنسا کرتے، بہت زیادہ رویا کرتے، اور تمہارا کھانا پینا چھوٹ جاتا، اور تم بستروں پر نہ سو سکتے، اور عورتوں کو چھوڑ دیتے اور تم روتے اور گڑگڑاتے ہوئے باہر سڑکوں پر نکل آتے، اور میرا جی چاہتا ہے کہ کاش! اللہ تعالیٰ نے مجھے درخت پیدا کیا ہوتا جسنے کاٹ لیا جاتا۔ (یہ آخری فقرہ غالباً حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی کی حدیث کا ہے) ۔*
*®_(مستدرک حاکم، ج ۴، ص ۵۷۹)*

*✪"_ متدرک حاکم کی حدیث میں ہے کہ صور پھونکنے والا فرشتہ جب سے اس پر مقرر ہوا ہے اس نے جب سے آنکھ نہیں جھپکی، بلکہ اس کی نظریں برابر عرش کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ مبادا آنکھ چھپکنے سے پہلے ہی اس کو صور پھونکنے کا حکم ہو جائے، گویا اس کی آنکھیں چمکدار ستارے ہیں۔*

*✪"_حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ النہایہ فی الفتن و الملاحم میں لکھتے ہیں:- صور کا پھونکا جانا تین بار ہوگا، اوّل سے لوگ گھبرا جائیں گے، اور دوسرے سے بے ہوش ہو جائیں گے، اور‌ تیسرے سے دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔“ ( النيابية في الفتن و الملائم، ج:۱ ص:۲۷۹)*

*✪"_ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے فتح الباری میں ابن العربی سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ (فتح الباری ج:۱۱ ص:۳۶۹)*                  
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                *⊙:➻پل صراط کا بیان _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اہل ایمان کا شعار پل صراط پر رب سلم سلم ہو گا ( یعنی اے رب ! سلامتی سے پار کر دیجئے ) ۔*
*®_ ( ترندی ، ج:۲، ص: ٦٦)*

*✪"_ تشریح :- پل صراط جہنم کی پشت پر قائم ہوگا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، سب لوگوں کو اس پر سے گزرنا ہوگا، ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی،*

*✪"_ کوئی بجلی کی سی تیزی سے گزرے گا، کوئی طیاروں یا پرندوں کی اڑان کی طرح کوئی نہایت تیز رفتار گھوڑے کی طرح کوئی آدمی کے دوڑنے کی رفتار سے، کوئی آدمی کی معمولی رفتار سے، کوئی شیر خوار بچے کی طرح رینگتا جائے گا اور کوئی کٹ کٹ کر جہنم میں گرے گا،*                  

*✪_ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ضرور کروں گا ! میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! پھر آپ کو کہاں تلاش کروں؟ فرمایا: سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا: اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے تو ؟ فرمایا: تو پھر میزان کے پاس تلاش کرنا، میں نے عرض کیا: اگر میزان کے پاس بھی آپ سے نہ مل سکوں تو ؟ فرمایا: پھر حوض کوثر پر مجھے تلاش کرنا، کیونکہ میں ان تین جگہوں سے چوتھی جگہ نہیں ہوں گا_,"*
*®_ (ترندی، ج ۲ ص ۲۲)*

*✪"_تشریح:- اس حدیث پاک میں دو چیزیں غور طلب ہیں، ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے پل صراط پر، پھر میزان پر اور اس کے بعد حوض کوثر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کا حکم فرمایا، جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ پل صراط کا مرحلہ میزان سے پہلے اور حوض پر حاضری میزان کے بعد ہے،*                 

*✪_ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تین مواقع ایسے ہیں جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک بار دوزخ کو یاد کر کے رورہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا کہ: میں جہنم کو یاد کر کے رونے لگی۔ پھر عرض کیا کہ : کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر کے لوگوں کو بھی یاد رکھیں گے ؟*

*✪_"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-"_ تین موقعوں پر تو کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا، ایک تو میزان کے پاس، یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ اس کی میزان ہلکی ہوتی ہے یا بھاری ؟ دوسرے نامہ اعمال ہاتھوں میں دیئے جانے کے وقت، یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ اس کا نامہ اعمال کس ہاتھ میں دیا جاتا ہے، دائیں ہاتھ میں یا پشت کے پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں؟ اور صراط کے پاس جبکہ وہ جہنم کی پشت پر رکھا جائے گا۔“*
*®_مشکوۃ ص : ٤٨٦,*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

          *⊙:➻ نبی کریم ﷺ کی شفاعت - _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دعوت میں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا، پس دستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی اور گوشت کا یہ حصہ آپ کو بہت مرغوب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں سے ایک بار نوچ کر اسے تناول فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا، جانتے ہو ایسا کیوں ہوگا‌ ؟ اللہ تعالیٰ تمام اولین و آخرین کو ایک صاف میدان میں جمع کریں گے، پس پکارنے والا ان کو آواز سنا سکے گا اور نظر ان سے آر پار ہوگی، اور آفتاب ان کے قریب ہوگا، پس لوگوں کو غم اور بے چینی اس حد تک لاحق ہوگی کہ ان کی طاقت اور حد برداشت سے باہر ہوگی،*

*✪_"_ پس لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ تمہاری پریشانی کا کیا عالم ہے؟ کیا تم کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھتے جو تمہارے رب کے پاس تمہاری سفارش کرے؟*
*"_ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ( اس مقصد کے لئے ) آدم علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ: حضرت ! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ میں اپنی (طرف سے ) روح ڈالی، اور فرشتوں کو سجدہ کا حکم فرمایا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں، آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیسی پریشانی لاحق ہے؟*

*✪_"_ یہ سن کر حضرت آدم علیہ السلام فرما ئیں گے کہ : آج میرا رب ایسا غضب ناک ہے کہ نہ آج سے پہلے کبھی ایسا غضب ناک ہوا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضب ناک ہوگا، اور اس نے مجھے درخت سے منع کیا تھا لیکن میں اس کا یہ حکم پورا نہیں کر سکا, نفسی نفسی نفسی, تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔*

*✪_ چنانچہ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے، ان سے عرض کریں گے کہ : آپ پہلے رسول ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام " شکر گزار بندہ " رکھا ہے، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں، آپ دیکھتے نہیں کہ ہمیں کیسی پریشانی لاحق ہے؟*
*"_ حضرت نوح علیہ السلام فرمائیں گے کہ: میرا رب آج ایسا غضب ناک ہے کہ نہ آج سے پہلے کبھی ایسا غضب ناک ہوا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضب ناک ہوگا، اور میرے لئے ایک مخصوص دُعا تھی جو میں نے اپنی قوم پر بددعا کر کے پوری کر لی۔ نفسی نفسی نفسی ! تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔*

*✪_"_ چنانچہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ: آپ اہل زمین پر اللہ کے نبی اور اس کے خلیل تھے، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرما ئیں گے کہ: میرا رب آج ایسا غضب ناک ہے کہ نہ کبھی آج سے پہلے ایسا غضب ناک ہوا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضب ناک ہوگا، اور میں نے تین باتوں میں تو ریہ کیا تھا۔ ( ابو حیان راوی نے حدیث میں ان تین باتوں کا ذکر کیا ہے)۔ نفسی انفسی انفسی ! تم کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔*

*✪_"_ چنانچہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے، ان سے عرض کریں گے کہ : آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغامات اور بلا واسطہ کلام کے ساتھ لوگوں پر فضیلت دی تھی، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟*
*"_ وہ فرمائیں گے کہ : آج میرا رب ایسا غضب ناک ہے کہ نہ آج سے پہلے کبھی ایسا غضب ناک ہوا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضب ناک ہوگا، اور میں نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں ہوا تھا, نفسی نفسی نفسی! تم لوگ کسی دوسرے کے پاس جاؤ, تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔*

*✪_ چنانچہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ : آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کلمتہ اللہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی طرف ڈالا تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی روح ہیں، اور آپ نے گہوارے میں باتیں کی تھیں، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟*
*"_ وہ فرمائیں گے کہ: میرا رب آج ایسا غضب ناک ہے کہ نہ آج سے پہلے کبھی ایسا غضب ناک ہوا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضب ناک ہوگا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا کوئی قصور ذکر نہیں کریں گے، نفسی نفسی! نفسی! تم لوگ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔*

*✪"_ چنانچہ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( اور ایک روایت میں ہے کہ میرے پاس ) آئیں گے، پس کہیں گے کہ : آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے سب اگلے پچھلے قصور معاف کر دیئے ہیں، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کیجئے ! آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ چنانچہ میں ( سفارش کے لئے ) چلوں گا، پس عرش کے نیچے پہنچ کر اپنے رب کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا ، پس اللہ تعالیٰ مجھ پر حمد و ثنا کے وہ مضامین کھولیں گے جو مجھ سے پہلے کسی پر نہیں ھولے ہوں گے۔*

*✪"_ پھر فرمایا جائے گا کہ: اے محمد ! سر اُٹھائیے، مانگئے جو مانگنا چاہتے ہیں آپ کو عطا کیا جائے گا، اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت سنی جائے گی۔ پس میں سجدے سے سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اے رب میری اُمت ! اے رب میری امت! اے رب میری اُمت! پس حق تعالی شانہ ارشاد فرمائیں گے کہ: اے محمد ! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کے ذمے حساب نہیں، جنت ! کے دائیں دروازے سے داخل کیجئے اور یہ لوگ دوسرے دروازوں کے ساتھ شریک ہیں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! جنت کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازے کے دو کواڑوں کے درمیان فاصلہ اتنا ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر اور مکہ اور بصری کے درمیان کا فاصلہ ہے _,"*

*®_ ترمذی -2/66,*                

                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

                        *⊙:➻ تشریح:- _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیائے کرام علیہم السلام اور ملائکہ کا شفاعت کرنا برحق ہے، اور اس کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، اور یہ شفاعت کئی قسم کی ہوگی:-*

*✪_"_ (1)_ اول شفاعت کبری ... یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے کہ محشر کے دن کی ہولنا کیوں اور حساب و کتاب کے بند ہونے کی وجہ سے اہل محشر اس قدر پریشان ہوں گے کہ لوگ یہ آرزو کریں گے کہ حساب و کتاب کھل جائے خواہ انہیں دوزخ میں ہی بھیج دیا جائے۔ اس وقت حق تعالی شانہ اہل ایمان کے دل میں یہ بات ڈالیں گے کسی برگزیدہ ہستی سے اس بندش کو کھلوانے کی سفارش کی جائے، چنانچہ باری باری عضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ نبینا وعلیہم اسلام ) کی خدمت میں حاضر ہوں گے،*

*✪_"_ اور یہ سب حضرات جلال الہی کے روعب سے اس پر آمادہ نہیں ہوں گے، بالآخر سید المرسلین و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شفاعت کی درخواست کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس درخواست کو قبول فرما کر بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوں گے، طویل سجدے کے بعد آپ کو شفاعت کا حکم ہو گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے حساب و کتاب شروع ہو جائے گا،*

*✪_"_ یہی وہ ” مقام محمود" ہے جس کا قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے, چونکہ یہ شفاعت تمام اہل محشر کے حق میں ہوگی ، اس لئے تمام اولین و آخرین اس پر آپ کی مدح و ثنا کریں گے۔*                

*✪_(1)_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے بہت سے لوگوں کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے کی شفاعت فرمائیں گے، جس کا بیان اسی حدیث بالا کے آخر میں ہے اور بعض اکابر کے نزدیک یہ شفاعت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔*

*✪_(3)_ بہت سے اہل جنت کو آپ صلی اللہ علیہ نام کی شفاعت سے ان کے درجے سے بڑھ کر مقامات عالیہ اور درجات رفیعہ عطا کئے جائیں گے۔*

*✪_(4)_ بہت سے لوگ جن کی نیکی اور بدی کا پلہ مساوی ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔*

*✪_(5)_ بہت سے لوگ جو اپنے اعمال کے لحاظ سے جہنم کے مستحق ہوں گے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے معاف کر دیا جائے گا اور جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔*

 *✪_(6)_ بہت سے گنہ گار جو جہنم میں جا چکے ہوں گے ان کے حق میں شفاعت ہوگی اور انہیں جہنم سے نکال لیا جائے گا، یہ شفاعت تمام انبیائے کرام، ملائکہ عظام اور صلحاء کے درمیان مشترک ہے۔*

*✪_(7)_ بعض اہل دوزخ کے عذاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے تخفیف ہوگی، جیسا کہ ابوطالب کے بارے میں احادیث میں وارد ہے۔*

*✪_(8)- جنت کا دروازہ کھولنے کے لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے، اور سب سے پہلے آپ ہی کے لئے کھولا جائے گا۔*
*"_ان شفاعتوں کے علاوہ بعض خاص اعمال والوں کے لئے بھی وعدہ شفاعت احادیث میں آیا ہے، مگر یہ مندرجہ بالا صورتوں ہی میں داخل ہے۔*
*®_ (تفصیل کے لئے دیکھئے: فتح الباری، کتاب الرقاق، باب صفته الجنة والنار )*                 
                    ▁▁▂▃︽▃▂▁▁

               *⊙:➻ حوض کوثر کا بیان _,*
┏───────────────────┯ ✿
*✪_"_ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے حوض میں آسمان کے ستاروں کی تعداد میں کوزے ہوں گے ۔“ (ترمذی، ج:۲، ص: ۶۷)*

*✪_"_ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے لئے ایک حوض ہوگا، اور انبیاء علیہم السلام آپس میں فخر کریں گے کہ ان میں سے کس کے حوض پر زیادہ لوگ آئیں گے، اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ۔" ( ترندی ، ج:۲، ص: ۶۷ )*

*✪_"_ تشریح:- میدان محشر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حوض کوثر عطا کیا جائے گا، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا، جس کو اس کا ایک گھونٹ نصیب ہو گا وہ ہمیشہ کے لئے سیراب ہو جائے گا، اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی_,"*                

*✪"_ ابو سلام الحبشی کہتے ہیں کہ : حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ نے مجھے بلا بھیجا، چنانچہ مجھے ڈاک کی سواری پر سوار کیا گیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا: امیر المؤمنین ! ڈاک کی سواری پر سوار ہونا میرے لئے بڑی مشقت کا باعث ہوا۔ فرمایا: ابو سلام ! میرا مقصد آپ کو مشقت میں ڈالنا نہیں تھا، لیکن مجھے ایک حدیث پہنچی جو حوض کوثر کے بارے میں آپ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، میں وہ حدیث آپ سے بالمشافہ سننا چاہتا تھا۔*

*✪"_ ابوسلام نے کہا کہ : میں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا حوض عدن سے عمان بلقا ء تک ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، اس کے کوزے آسمان کے ستاروں سے زیادہ تعداد میں ہیں، جو شخص اس سے ایک گھونٹ پی لے گا اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔*

*✪"_ سب سے پہلے جو لوگ میرے حوض پر آئیں گے وہ فقراء مہاجرین ہوں گے، جن کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور کپڑے میلے کچیلے ہیں، جو ناز و نعمت میں پلی ہوئی عورتوں سے نکاح نہیں کرتے، اور جن کے لئے گھروں کے دروازے نہیں کھولے جاتے ( یعنی ان کو گھروں میں آنے کی اجازت نہیں ملتی ) ۔*

*✪"_ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا لیکن میں نے تو ناز پروردہ عورتوں سے نکاح کیا ہے اور میرے لئے گھروں کے دروازے بھی کھولے جاتے ہیں، میں نے عبد الملک بن مروان خلیفہ کی بیٹی شہزادی فاطمہ سے نکاح کر رکھا ہے، میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک بال پراگندہ نہ ہو جائیں سر نہیں دھویا کروں گا، اور جب تک کپڑے میلے کچیلے نہ ہو جا ئیں کپڑے صاف نہیں کیا کروں گا۔“ (ترندی ، ج ۲ میں ٦٧)*                 

*✪_ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! حوض کوثر کے کوزوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کہ اس کے جام اس سے زیادہ تعداد میں ہیں جس قدر کہ تاریک اور صاف رات میں آسمان پر ستارے نمودار ہوتے ہیں، یہ جنت کے جام ہوں گے، جو شخص ان سے پی لے گا مدة العمر کبھی اس کو پیاس نہیں لگے گی ۔ حوض کوثر کا عرض اتنا ہے جتنی کہ عمان سے ایلیہ تک کے درمیان مسافت ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے۔“*

*✪"_تشریح:- حوض کوثر کے طول و عرض کے بارے میں احادیث شریفہ میں مختلف تعبیریں آئی ہیں، ان سے مقصود اس کے طول و عرض کی کثرت کو بیان کرنا ہے، تحدید مقصود نہیں_,"*

*"_ الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,"*                  

*🗂️_جب آنکھیں کھلیں گی _"*
*( حضرت یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ)،* •┄┄┅┅━━═۞═━━┅┅┄┄•
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
    http://www.haqqkadaayi.com  
*👆🏻ہماری پچھلی پوسٹ سائٹ پر دیکھیں,* 
https://chat.whatsapp.com/L6o3tUyfIBS9yQS99CdvLY
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے لنک کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

 
Top