﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
*✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭*
*✿_ खिलाफते राशिदा _✿*
▪•═════••════•▪
*┱✿ *"_ خلافت عثمانیہ کا آغاز _,*
★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تنہائی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اقرار کرلیا ( کہ وہ جو فیصلہ کریں گے اسے خوشی سے قبول کرلیں گے), حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بیعت کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، ان کے بیعت کرتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوراً بیعت کر لی ،
★_ اس کے بعد وہاں موجود سب نے بیعت کر لی، اس کے بعد عام مسلمانوں کی باری آئی، لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے، اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہو گئے،
★_ خلافت کا اعلان ہونے کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - ہم نے اس شخص کو خلیفہ بنایا ہے جو اب زندہ لوگوں میں سب سے بہتر ہے اور ہم نے اس میں کوئی غلطی نہیں کی_,"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا - جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ہم نے ان سب سے بہتر شخص کو اپنا امیر بنایا ہے اور ہم نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی _,"
یہ الفاظ انہوں نے اپنے خطبے میں کئی بار دوہرایے، مدینہ منورہ سے کوفہ گیے تو وہاں کے لوگوں کو بھی انہیں الفاظ میں خطبہ دیا،
★_ یہ بعیت ٢٣ ہجری کی آخری شب میں ہوئی، یعنی یکم محرم 24 ہجری آپ کی خلافت کا پہلا دن تھا، خلافت ملنے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے سامنے یہ خطبہ دیا :-
"_ لوگوں ! تم سب حاضر ہو, عمر کا جو حصہ باقی ہے بس اسے پورا کرنے والے ہو، اس لیے تم جو زیادہ سے زیادہ نیکی کر سکتے ہو کرلو، بس یہ سمجھو کہ موت اب آئی کہ اب آئی، بہرحال اسے آنا ضرور ہے، خوب سن لو .. دنیا کا سارا تار و پود ہی مکرو فریب سے تیار ہوا ہے، اس لئے محتاط رہو، دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے جائے اور اللہ تعالی سے تمہیں غافل نہ کردے _,"
[10/30, 10:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ لوگوں ! جو لوگ گزر گئے ان سے عبرت حاصل کرو، کوشش کرتے رہو غفلت نہ برتو کیونکہ تم سے غفلت نہیں برتی جائے گی، آج کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی تھی، انہوں نے دنیا کو آباد رکھا تھا اور ایک مدت تک اس سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے، کیا نیا نے انہیں اپنے اندر سے نکال باہر نہیں کیا ؟ تم دنیا کو اس مقام پر رکھو جس پر اللہ تعالی نے اسے رکھا ہے اور آخرت کی طلب کرو... اللہ تعالی نے دنیا کی اور جو چیز بہتر ہے اس کی مثال یوں بیان فرمائی ہے :-
"_( ترجمہ) اے پیغمبر ! آپ لوگوں کو بتا دیجیے کہ دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی جیسی ہے جسے ہم آسمان سے نازل کرتے ہیں _," ( سورہ کہف )
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے کو جاری رکھا، اس طرح ان کے دور میں مزید فتوحات ہوئیں، جو فتوحات نامکمل رہ گئی تھی وہ مکمل ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی بحری جنگ نہیں ہوئی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے سمندر میں جنگ کا آغاز کیا ،
★_ اسکندریہ اس دور میں مصر کا دارالحکومت تھا ، رومی بادشاہ کی طرف سے اسکندریہ میں گورنر مقرر تھا اس کا نام نام مقوقس تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تو اس وقت مقوقس صلح کرنا چاہتا تھا لیکن شرائط طے نہ ہو سکی، اس لئے جنگ ہوئی اور اسکندریہ فتح ہو گیا ،
[10/31, 8:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ مصر کا دوسرا شہر فسطاط پہلے ہی فتح چکا تھا ( آج کل اس شہر کا نام قاہرہ ہے) قیصر روم ان فتوحات کی وجہ سے بہت غصے میں تھا لیکن موقع کی تلاشی میں تھا، اب ہوا یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو واپس بلا لیا، ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو گورنر مقرر کر دیا ،
★_ اس تبدیلی کی وجہ سے رومی بادشاہ نے سوچا کہ موقع اچھا ہے، اس نے 300 جہازوں کا بحری بیڑہ روانہ کیا، اس کا سالار مینول مقرر کیا گیا تھا ، مسلمان اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے، مقابلہ تو ہوا لیکن شکست کھا گئے اور بڑی تعداد میں شہادت ہوئی، اس طرح اسکندریہ پر رومیوں کا قبضہ ہوگیا ، یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے سال ٢٥ ہجری میں ہوا ،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو آپ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو پھر سے ان کے عہدے پر مقرر کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کریں_," حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کو لے کر اسکندریہ کی طرف بڑھے، نقویی کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے زبردست حملہ کیا ، دشمن اس حملے کی تاب نہ لا سکا اور پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا ، اسے زبردست جانی مالی نقصان اٹھانا پڑا، اس طرح مسلمان پھر اسکندریہ پر قابض ہوگئے،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی سرح کو حکم بھیجا کہ تیونس کی طرف پیش قدمی کریں_," انہوں نے تیونس پر حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے, اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن حضرت حسین حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عمر بن العاص حضرت عبداللہ بن جعفر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے صحابہ کو عبداللہ بن ابی سرح کی مدد کے لئے بھیجا،
[11/1, 9:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ عبداللہ بن سرح ان سب حضرات کو لے کر آگے بڑھے، رومیوں کا لشکر مقابلے پر سامنے آیا لیکن اس نے شکست کھائی، اسلامی لشکر آگے بڑھا تو رومیوں کے ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر نے تیونس کے مقام پر حملہ کیا، آخر رومیوں کو شکست ہوئی اور تیونس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور بے تحاشہ مالے غنیمت ہاتھ آیا،
★_ تیونس کی اس عظیم الشان فتح کے بعد عبداللہ بن ابی سرح شمالی افریقہ کی طرف بڑھے، انہوں نے مغرب سے مشرق کی طرف پیش قدمی جاری رکھی، راستے میں جو شہر یا قلعے ملتے فتح کرتے چلے گئے، اس طرح الجزائر فتح ہوگیا یہاں تک کہ جبل تارق پہنچ گئے، اس طرح مصر سے لے کر مراکش تک خلافت عثمانیہ کا پرچم لہرانے لگا، رومی فوجوں کا یہاں سے مکمل صفایا ہو گیا،
★_ مراکش کی فتح کے بعد اسپین کی طرف پیش قدمی آسان ہو گئی، 27 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن نافع بن حسین اور عبداللہ بن نافع بن عبد القیس کو لکھا کہ تم دونوں اندلس کی طرف پیش قدمی کرو ، اس معرکے میں بھی مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور یہ کامیابی بہت بڑی تھی، اس سے مسلمانوں کی شان و شوکت اور طاقت میں بہت اضافہ ہوا،
★_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قبرص پر حملے کی اجازت چاہی، اجازت ملتے ہی انہوں نے قبرص پر حملہ کر دیا، قبرص کے باشندوں نے سات ہزار سالانہ پر صلح کی، یہ صلح کئی سال تک جاری رہی، ٣٢ ہجری میں قبرص والوں نے رومیوں کی مدد کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور قبرص کو فتح کر کے اسے نئی آبادی بنا دیا _,"
[11/3, 7:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ جزیرہ روڑس صلیقہ _,"*
★_ قبرص کی فتح بحری جنگوں میں مسلمانوں کی پہلی فتح تھی اور یہ پہلا جزیرہ تھا جو اسلامی حکومت میں شامل ہوا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی سرح اسلام میں پہلے امیر البحر ہیں، بحری بیڑے کی شاندار قیادت ان کا عظیم کارنامہ ہے ،
★_ قبرص کی فتح کے دوسرے سال جزیرہ ارداد فتح ہوا یہ قسطنطنیہ کے قریب سمندر میں ایک جزیرہ ہے، اس کے علاوہ جزیرہ روڈس بھی فتح ہوا ، یہ اہم جزیرہ تھا اس کے بارے میں خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں خط لکھا :- سمندر( بحیرہ روم) میں ایک اور جزیرہ ہے اس کا نام روڑس ہے اسے بھی فتح کرنے کی اجازت دی جائے _,"
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجلسے شورا سے مشورہ کرکے اجازت دے دی، اجازت ملتے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بحری بیڑا لے کر روانہ ہوئے، جزیرہ روڈس کے لوگوں نے سمندر میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا، یہاں مال غنیمت تو بہت ملا لیکن آبادی نہیں ملی، جنگ سے جو لوگ بچ گئے تھے انہوں نے بھی خودکشی کر لی، جزیرہ اگرچہ فتح ہو گیا تھا لیکن ویران تھا،
★_ آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس جزیرے کو آباد کیا، وہاں مسلمانوں کو بسایا، ان کے لئے مسجدیں تعمیر کی، اس طرح یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط چھاؤنی بن گیا، بحیرہ روم کے درمیان میں ایک جزیرہ صقلیہ ہے، اسلام سے پہلے دنیا کی بڑی حکومتیں اس جزیرے کے لئے لڑتی رہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے 300 کشتیوں کا بیڑہ لے کر روانہ ہوئے، یہاں کے بادشاہ نے صلح کی پیشکش کی لیکن کوئی بات طے نہ ہو سکی، آخر جنگ شروع ہوگئی، لیکن بعض خوفناک اطلاعات کے پیش نظر اسلامی بحری بیڑے کو صقلیہ کو فتح کے بغیر پیچھے آ جانا پڑا ،
[11/3, 10:12 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ رومی سلطنت کے بحری مرکز بھی جب ان کے ہاتھوں سے نکلنے لگے تو قیصر روم ہرقل ٣٤ ہجری میں ایک عظیم بحری بیڑے کے ساتھ مسلمانوں پر حملے کی نیت سے روانہ ہوا, اس کا بحری بیڑا 1000 کشتیوں پر مستعمل تھا یہ تمام جہاز اسلحہ اور جنگی سازو سامان سے لدے ہوئے تھے ،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے فوراً حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا - تمہارے پاس جو شامی لشکر ہیں اسے لے کر رومیوں کے مقابلے کے لئے روانہ ہو جاؤ_,"
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت پورے شام کے گورنر تھے، ان کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر عبداللہ بن ابی سرح کو حکم بھیجا کہ مصر کا لشکر لے کر سمندر میں اترو ،
★_ ایک تیسرا خط حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم دونوں لشکروں کی مدد کرو _,"
ان احکامات کے مطابق مصر اور شام کی فوجی بیڑے سازوسامان کے ساتھ پہلے عکا پہنچے، وہاں سے اسلامی بحریہ کے یہ دونوں نامور کمانڈر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی سرح 500 جہازوں کا بیڑا لے کر سمندر میں اترے ،
*★_اسلامی فوج سمندر میں اتری ہی تھی کہ قیصر روم کا جنگی بیڑہ سامنے آگیا، اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی، اسلامی لشکر نے سامنے دیکھا تو قیصر روم کا عظیم الشان لشکر کالی گھٹا کی طرح کھڑا نظر آیا، سمندر بھی پرسکون نہیں تھا، موجیں اٹھتی نظر آرہی تھی، مسلمان یہ دیکھ کر اللہ کے حضور گڑگڑانے لگے، دعائیں کرنے لگے، اس پوری رات مسلمان عبادت کرتے رہے، جب کہ دوسری طرف رومی لشکر تمام رات شراب نوشی اور گانے بجانے میں مصروف رہا ،
★_ صبح ہوئی تو دونوں لشکروں کی فوجیں جنگ کی تیاری کرنے لگی ، اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے ان کو پیغام بھیجا کہ اگر مناسب سمجھیں تو ساحل پر چل کر طاقت آزما لیں، ہم میں جو کمزور ہو گا مارا جائے گا، لیکن رومی فوج نے اس پیشکش کو رد کر دیا، کہ اب جو کچھ ہوگا سمندر میں ہوگا۔
★_ آخر جنگ شروع ہوئی یہ اس قدر غضب اور گھمسان تھی کہ کہا گیا کہ ایسی جنگ کبھی دیکھی نہ سنی گئی، اس قدر خون بہا کہ سمندر کا پانی سرخ ہو گیا ، ایسے میں قدرت نے مدد فرمائی، رومی بادشاہ شدید زخمی ہوگئا، اس نے اپنے بیڑے کا لنگر اٹھا دیا، بادشاہ کا بیڑہ واپس بھاگتا ہوا نظر آیا تو رومی فوج حوصلہ ہار بیٹھی، ان کے پاؤں اکھڑ گئے، اس قدر بدحواس ہو کر بھاگے کہ کسی کی خبر نہ رہی،
★_ مسلمانوں کا بحری بیڑا فتح اورکامرانی کے پرچم اڑاتا عکا کے ساحل پر لنگر انداز ہوا ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوشخبری حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجی خط پڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے، انہوں نے سب مسلمانوں کو زبانوں کو یہ خط سنایا، سبھی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،
★_ بحری جنگوں کے لحاظ سے یہ فتح بہت اہم تھی، عربی میں یہ جنگ "مستولوں کی جنگ" کے نام سے مشہور ہے، اس جنگ کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے, عبداللہ بن ابی سرح بھی نوبیہ تک پہنچ گئے،
[11/5, 9:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ بلخیر کے شہید _,*
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے بارہ سالوں میں مراکش سے لیکر کابل تک اسلامی حکومت قائم ہو گیی، پورا فارس، خراسان سیستان، اور ایران کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا،
★_ سلمان بن ربیعہ اپنی عراقی فوج کے ساتھ آگے بڑھے، راستے میں جتنے چھوٹے موٹے قلعے یا شہر آتے گئے یہ ان سب کو فتح کرتے گئے یہاں تک کہ بلخیر نامی شہر تک پہنچ گئے، ان علاقوں کا بادشاہ رخ خاقان نامی شخص تھا، وھ مسلمانوں کے مقابلے میں 3 لاکھ فوج لے کر آیا اور مسلمان دس ہزار تھے،
★_ تین لاکھ کا 10 ہزار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا، پھر بھی مسلمانوں نے زندگی پر شہادت کو ترجیح دی، سب کے سے بڑی بے جگری سے لڑے, اس قدر ثابت قدمی دکھائی کہ لڑتے لڑتے سب کے سب شہید ہو گئے، ان سب کی قبری آج بھی بخیر میں موجود ہیں ،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ بہت غمگین ہو گئے، آپ کی بے چینی میں نیند اڑ ہوگی _,"
[11/6, 9:52 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ سازش کی ابتداء _,*
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں، اسلامی مملکت کو زبردست وسعت حاصل ہوئی ، دولت بھی بےشمار آئی، لیکن آپ کی خلافت کے آخری چند سال زبردست پریشانی میں گزرے، سازش کرنے والوں نے فتنے کا بازار گرم کر دیا،
★_ مسلمانوں میں منافقوں کا ایک گروہ شروع سے چلا رہا تھا، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان لوگوں سے خبردار فرمایا ہے ، یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سازشیں کرتے رہتے تھے، لیکن اس وقت ان کی دال نہیں گلتی تھی،
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ لوگ اچانک اٹھ کھڑے ہوئے، یہ تین طرح کے لوگ تھے -نبوت کا دعوی کرنے والے، مرتد یعنی اسلام سے نکل جانے والے اور زکوٰۃ کا انکار کرنے والے ،
★_ ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے فوراً ان کے خلاف لشکر کشی کی اور کامیابی سے ان کا خاتمہ کیا، آپ کی کامیابی پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ انہوں نے یہ جملہ کہا :- حضرت ابوبکر نہ ہوتے تو زمین پر اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا _,"
[11/7, 9:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا، سازشی گروہ موقعے کی تلاش میں رہا اور آخر اس گروہ کی سازش سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا، شہادت سے پہلے خود حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے یہ خیال ظاہر فرمایا تھا کہ ان پر حملہ ایک سازشی کے تحت ہوا ہے،
★_ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ سازشی عناصر پہلے سے کام کر رہے تھے، اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انہوں نے اور زور پکڑ لیا، تینوں خلفاء کے دور میں جو فتوحات ہوئیں ان فتوحات کے نتیجے میں بے شمار غیر مسلم تو مسلمان ہو گئے اور پکے سچے مسلمان ہوئے تھے ،
★_ لیکن ان لوگوں کی بڑی تعداد غیر مسلم ہی تھی، یہ لوگ جزیہ دینے والے تھے یا پھر غلام تھے ، بہت سے صرف ظاہری طور پر مسلمان ہوئے تھے، یہ لوگوں کو بڑھانے کا کام کرتے تھے ،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے والوں میں سب سے اہم نام عبداللہ بن صباح کا ہے، یہ اصل سازش کرنے والا تھا، یہ شخص یہودی تھا یمن کا بادشاہ تھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا ، اس کا یہ اعلان دراصل اس سازش کا آغاز تھا، مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے بعد یہ مسلمانوں میں اپنے عجیب و غریب خیالات پھیلانے لگا ،
[11/8, 10:48 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ عبداللہ بن سباء کہتا - ایک وقت آئے گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر دنیا میں ظہور ہو گا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں آئیں گے کیوںکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ تو دوبارہ دنیا میں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نا آئیں ؟
اس کا یہ بھی کہنا تھا - حضرت علی کی ذات میں اللہ تعالیٰ موجود ہیں ( نعوذ باللہ )
★_ اس کے علاوہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بھی باتیں شروع کر دی، وہ کہتا تھا - خلافت کے حقدار تو علی تھے،.. ان کے ہوتے ہوئے حضرت عثمان کو خلافت کا کوئی حق نہیں پہنچتا _,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اور بھی کئی طرح کے اعتراضات کرتا تھا لیکن یہ سارا کام وہ خفیہ طور پر کرتا تھا اعلانیہ طور پر نہیں کرتا تھا,
★_ اس سلسلے میں یہ سب سے پہلے ہی حجاز گیا پھر کوفہ اور بصرہ گیا، اس کے بعد دمشق پہنچا، دمشق میں لوگوں نے اس کے خیالات سنے تو اسے دمشق سے نکال دیا، اب اس نے مصر کا رخ کیا، مصر میں اسے کامیابی ہونے لگی،... اس کے گروہ نے باقاعدہ سازشیں شروع کر دی،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے والوں میں سے ایک گروہ خارجی تھا، یہ خارجی لوگ بھی عبداللہ بن سباء کی قسم کے لوگ تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے خلاف تھے ، ان کا کام بھی سازش کرنا تھا ،
[11/9, 7:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ سازش کرنے والے باغیوں میں کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اپنے لئے کوئی عہدہ طلب کیا تھا لیکن آپ نے انہیں عہدہ نہیں دیا، تو ایسے لوگ بھی سازشیوں کا ساتھ دینے لگے تھے، کچھ وہ لوگ تھے جنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی جرم پر کوئی سزا دی تھی، اس قسم کے لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ ان جیسے لوگ مصر میں جمع ہو رہے ہیں تو وہ بھی وہاں پہنچ گئے، اس طرح مصر ان لوگوں کی سازشوں کا مرکز بن گیا ،
★_ سازش کرنے والوں میں نمایاں نام یہ تھے - جندب بن کعب، صعصعہ بن حنابی اور عمیر بن حنابی، یہ لوگ کوفہ کے رہنے والے تھے ، یہ لوگ کوفہ میں نت نئی نہیں شرارتیں کرتے رہتے تھے، شر اور فتنہ پھیلانا ان کا کام تھا ، کوفہ کے لوگوں ان سے بہت تنگ تھے، لوگوں نے ان کی شکایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کی اور درخواست کی کہ انہیں کوفہ سے نکال دیا جائے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ سے نکال کر شام بھجوا دیا، وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے ،
★_ اس قسم کے سب لوگوں نے مل کر پہلے افواہیں پھیلائی پھر دبی زبان میں اعتراضات شروع کیے، جب ان کا گروہ بڑا ہوگیا تو یہ لوگ کھلم کھلا اعتراضات کرنے لگے، ان لوگوں کے بڑے بڑے اعتراضات یہ تھے :-
*١_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اکابر صحابہ کو معزول کرکے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو عہدوں پر مقرر کر دیا ہے،
*٢_ اپنے عہدے داروں کی بد عنوانیوں پر انہیں کچھ نہیں کہتے،
*٣_حکم بن عاص رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا تھے, ان سے کوئی راز ظاہر کرنے کا جرم سرزد ہو گیا تھا، اس جرم کی سزا کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ سے جلاوطن کرکے طائف بھیج دیا تھا، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں واپس مدینہ بلا لیا اور ان پر انعام و اکرام کی بارش کر دی،
[11/10, 10:27 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ اعتراضات کے جوابات _,*
★_ 4- عبداللہ بن سعد بن ابی سرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دودھ شریک بھائی تھے یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وحی کی کتابت سپرد فرمائی لیکن یہ قرآن میں تحریف کرنے لگا اور مرتد ہو گیا، فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سفارش کر کے اس کی جان بخشی کروائی، بعد میں یہ دوبارہ اسلام لے آیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اسے مصر کا گورنر بنا دیا،
★_ 5- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے خاندان بنی امیہ کے لوگوں کو بڑی بڑی رقمیں بغیر کسی شرعی حق کے انعام میں دے دیتے ہیں،
*★_ ان بڑے الزامات کے علاوہ کئی الزامات اور ہیں، لیکن وہ اعتراضات فقہ قسم کے تھے، مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مینی میں قصر نماز کے بجائے چار رکعت پڑھتے ہیں، وغیرہ ۔۔۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک یہ اعتراضات پہنچے تو آپنے تمام اعتراضات کے واضح جوابات ارشاد فرمائے ،
★_ پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے بڑے بڑے صحابہ کو معزول کر کے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ان عہدوں پر فائز کیا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے شکایت رہی کہ مصر بہت سرسبز و شاداب علاقہ ہے زرخیز ملک ہے اس کا خراج جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں آرہا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ کو بھی یہ شکایت پیدا ہوئی، آپ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس طرف توجہ دلائی لیکن خراج پھر بھی زیادہ نہ ہوا ، اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مصر سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مقرر کر دیا،
[11/11, 8:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریقے سے ہٹ کر شمالی افریقہ کے مال غنیمت کے خمس کا خمس ( پانچواں حصہ) عبداللہ بن سعد کو بطور انعام میں دے دیا جس کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا، یعنی مال غنیمت کی یہ تقسیم قرآن، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے خلاف ہے ،
★_ اس اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیے :- عبداللہ بن سعد بن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا تھا لیکن مرتد ہو گیا تھا، فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار افراد کو قتل کا حکم صادر فرمایا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھا، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے توبہ کی نئے سرے سے اسلام قبول کیا، اس طرح ان کی جان بخشی ہوگی ،
★_ اس شخص کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کا گورنر مقرر نہیں کیا تھا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہ مصر کے بالائی حصے کا گورنر تھا، اس وقت مصر کے دو حصے تھے، بالائی حصے کا گورنر یہ تھا اور زیریں حصے کے گورنر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے، جب کم خراج کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو معزول کیا تو اسے مصر کے باقی حصے کی گورنری بھی سونپ دی،
★_ اب اس پورے معاملے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس اعتراض کی بھلا کیا گنجائش ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک مرتد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور اس نے اسلام قبول کیا، یہ تو بہت بڑا نیکی کام ہے کہ ایک مرتد کو اسلام کی طرف لے آیا جائے، توبہ کرنے سے اسلام سابقہ گناہ معاف کر دیتا ہے یا نہیں؟
[11/12, 11:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اسلام کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، بے شمار لوگوں نے اسلام سے دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے، لیکن جب وہ لوگ اسلام لے آئے مسلمان ہوگئے تو ان کے سب گناہ معاف ہو گئے، اور اس کی مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ملاحظہ فرمائیں :-
★_ اشعث بن قیس نے نبوت کا دعویٰ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب مرتدوں کے خلاف جنگ شروع کی تو یہ گرفتار ہوا، اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اپنی بہن ام فروہ کا نکاح بھی اس کے ساتھ کر دیا _,"
★_ اسی طرح عبداللہ بن سعد کو معافی ملی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسے مصر کے ایک حصے کا گورنر مقرر کیا یعنی گورنر کے عہدے پر تو پہلے ہی تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو صرف اتنا کیا تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی معزولی کے بعد اسے سارے مصر کا گورنر مقرر کر دیا تھا اور یہ بات ثابت ہے کہ اس میں صلاحیتیں تھیں، اس نے بحری جنگیں لڑیں، اب اگر یہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رشتہ دار تھا تو کیا اس بنیاد پر اس کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا ،
★_ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مال غنیمت کے پانچویں حصے کا پانچواں حصہ بطورِ انعام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے دے دیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ افریقہ کو فتح کرنا اس وقت مشکل ترین مہم تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حوصلہ افزائی کے لئے عبداللہ بن سعد سے وعدہ کیا تھا کہ افریقہ فتح ہوگیا تو میں مال غنیمت کے خمس کا خمس تمہیں دوں گا چنانچہ افریقہ کی فتح کے بعد عبداللہ بن سعد نے یہ حصہ مال غنیمت سے اپنے پاس رکھ لیا اور باقی مدینہ منورہ بھیج دیا، جب لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا - عبداللہ بن سعد نے جو کچھ کیا وہ میرے حکم سے کیا ہے لیکن اگر آپ لوگوں کو اس پر اعتراض ہے تو میں یہ مال واپس لے لوں گا _,"
★_ چنانچہ آپ نے عبداللہ بن سعد کو اس بارے میں لکھا، اس نے مال غنیمت کا وہ حصہ واپس کردیا, *(دیکھئے تاریخ طبری - ٢/٢٥٣ )*
[11/13, 10:12 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اب گور کیجیے، اس واقعہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض والی کوئی بات ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیے :-
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے ، ان کی زوجہ محترمہ شدید بیمار تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مال غنیمت سے ایک مجاہد کا پورا حصہ عطا فرمایا، اس مثال کے ہوتے ہوئے کیا ان لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اس اعتراض کا کوئی حق تھا ؟ ہرگز نہیں، اس کے باوجود جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے وہ رقم واپس لے لی اور بیت المال میں جمع کرا دی،
★_ دوسرا الزام یہ لگا کہ آپ نے بڑے بڑے صحابہ کو معزول کرکے اپنے رشتے داروں کو ان عہدوں پر مقرر کردیا ، اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے -
24 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کی گورنری سے معزول کرکے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، لیکن دو سال بعد ہی حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ بنو امیہ کے ایک نوجوان ولید بن عقبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا،
★_ اعتراض کرنے والوں نے اس پر دو طرح کے اعتراض کیے، ایک یہ کہ جلدی جلدی گورنروں کو معزول کرنا انتظامی معاملات میں ناکامی کی دلیل ہے ، دوسرے یہ کہ ایک جلیل القدر صحابی کو معزول کرکے ان کی جگہ اپنے خاندان کے ایک نوجوان کو مقرر کیا، ان دونوں اعتراضات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ،
★_ کوفہ اور بصرہ ان دونوں شہروں کے لوگ عجیب مزاز کے لوگ تھے، شکایت پر شکایت کرتے رہنا ان کی عادت تھی، ان دونوں شہروں کے حالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی خراب چلے آرہے تھے، جو شخص بھی یہاں گورنر بن کر آتا یہ کچھ دن تو ان کی اطاعت کرتے پھر کسی نہ کسی بہانے سے اس کے خلاف اعتراض شروع کر دیتے، یہ گویا ان لوگوں کا شوق تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک ان سے تنگ آگئے تھے، ایک مرتبہ تو آپ نے فرمایا تھا :- اللہ کی پناہ ! کوفہ کے لوگ بھی عجیب و غریب لوگ ہیں, اگر ان پر کوئی مضبوط حاکم مقرر کرتا ہوں تو یہ لوگ اس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں اور اگر کسی کمزور کو حاکم بنا تا ہوں تو یہ اسے ذلیل کرتے ہیں ،
[11/14, 10:16 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ کوفہ کی طرح بصرہ کا حال بھی ایسا ہی تھا، چناچہ جس زمانے میں مغیرہ بن شعبہ یہاں کے گورنر تھے اس وقت بھی یہاں کے لوگوں نے ان پر زنا کا الزام لگا دیا تھا، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک یہ مقدمہ پہنچایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شکایت پکڑ لی تھی ، اس کے باوجود انتظامی معاملات کی وجہ سے آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو وہاں سے ہٹا دیا ،
★_ مطلب یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے ناراض تھے، آپ نے مغیرہ بن شعبہ کی جگہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے کہا - ابو موسیٰ ! میں تمہیں ایک ایسے شہر کا گورنر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں جہاں شیطان نے گھونسلا بنا رکھا ہے_,"
★_ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کیا ذکر ہے، کوفہ اور بصرہ کے حالات تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے خراب چلے آ رہے تھے کہ کوئی گورنر وہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا تھا ، اسی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک مجبور تھے کہ جلد سے جلد گورنر تبدیل کریں، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنا پڑا تو اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے ؟
★_ آپ نے ولید بن عقبہ کو وہاں کا گورنر مقرر کیا، اس لئے کہ یہ بہت سخت مزاج تھے، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ماں شریک بھائی تھے، جس دن مکہ فتح ہوا اس روز اسلام لائے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنی مصطلق کے صدقات کا انچارج بنا کر بھیجا تھا، بہت سوجھ بوجھ والے تھے ارادے کے پکے تھے، ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں جزیرہ العرب کا اعلیٰ افسر مقرر کیا تھا ، اب اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو الزام لگایا گیا کہ آپ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو عہدے دیئے، کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟
[11/15, 7:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اب حکم بن آس کے بارے میں بھی پڑھ لیجئے، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور مدینہ منورہ میں رہنے لگے، ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ،۔۔۔ یہ بات کو راز نہیں رکھ سکتے ، راز کی باتوں کو بیان کر دیتے ہیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طائفہ بھیج دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک یہ وہی رہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہیں مدینہ واپس بلا لیا، یہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے ،
★_ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے طائف جلاوطن کردیا تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ انہوں نے واپس مدینہ بلا لیا، اس میں بھلا اعتراض کی کیا بات تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا راز فاش کر سکتے تھے بھلا, ان پر الزام تو یہی تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے راز فاش کر دیا کرتے تھے،
★_ ایک الزام یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے رشتے داروں کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں اور جاگیر بطور انعام دے دیتے ہیں، اس سلسلے میں عبداللہ بن سعد کو مال غنیمت کے پانچویں حصے کا پانچواں حصہ دینے کا الزام لگایا تھا، اس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ ان لوگوں کے اعتراض کرنے پر آپ نے وہ مال ان سے واپس لے کر بیت المال میں جمع کرادیا تھا،
★_ مروان بن حکم کے بارے میں الزام لگایا گیا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں افریقہ کے مال غنیمت کا پانچواں حصہ دیا لیکن تاریخ کی روایات اس بات کو غلط قرار دیتی ہیں، مشہور ترین مورخ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ وہ حصہ مروان بن حکم نے پانچ لاکھ دینار میں خرید لیا تھا، بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بطور عطیہ دیا تھا، یہ کہنا صحیح نہیں ہے، *( تاریخ ابن خلدون -2/129),*
[11/16, 10:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بہت زیادہ دولت مند تھے، اور یہ دولت مندی انہیں اسلام سے پہلے سے حاصل تھی، پھر سخی بھی بہت تھے ان کی سخاوت کی روایات بے شمار ہیں، ایسا شخص بیتل المال کا خزانہ کیوں بلا وجہ دوسروں کو دینے لگا، وہ تو اپنے پاس سے بھی دے سکتے تھے، چنانچہ جب ملک میں فساد بڑا تو آپنے لوگوں کے مجمعے میں فرمایا :-
★_ "_ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ سے محبت کرتا ہوں اور انہیں دیتا ہوں، ہاں ! میں ان سے محبت کرتا ہوں لیکن ان کی محبت مجھے ناانصافی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ میرے اہل بیت پر جو دوسروں کے حقوق ہیں میں ان سے دلواتا ہوں، رہا انہیں کچھ دینا تو میں انہیں اپنے مال سے دیتا ہوں اور مسلمانوں کا مال تو نہ میں اپنے لیے حلال سمجھتا ہوں ہو نہ کسی اور شخص کے لئے، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بڑے بڑے عطیات اپنی کمائی سے دیتا رہا ہوں _,"
★_"_ یہ لوگ جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم ! میں نے کسی شہر پر خراج کا کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالا اور جو کچھ بھی وصول ہوا ہے وہ سب کا سب میں نے مسلمانوں پر ہی خرچ کیا ہے، پھر میرے پاس جو کچھ آیا ہے مال غنیمت کا پانچواں حصہ آیا ہے، اس مال میں سے میرے لیے کوئی چیز حلال نہیں تھی، مسلمانوں کو اختیار تھا کہ میرے مشورے کے بغیر جہاں چاہیں خرچ کریں، اللہ تعالی کے مال میں سے ایک پیسے کے برابر بھی کوئی چیز ادھر ادھر نہیں ہوئی اور میں نے اس میں سے کوئی چیز حڑپ نہیں کی، میں جو کچھ کھاتا ہوں اپنے مال میں سے کھاتا ہوں _,"
*( تاریخ طبری - ٤/٣٤٧)*
★_ سب نے یہ تقریر سنیں اور کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ سب نے ان باتوں کو تسلیم کیا، سب نے کہا - ہم تسلیم کرتے ہیں آپ نے سچ کہا_,"
کوئی ایک آواز بھی مخالفت میں نہ اٹھی اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر کسی طور پر بھی کسی بھی اعتراض کی کوئی ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی _,"
[11/17, 7:38 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اعتراض کرنے والوں نے ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی چراگاہوں میں اپنے جانور چراتے ہیں دوسرے لوگوں کے مویشی ان چراگاہوں میں نہیں جا سکتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں اس اعتراض کا جواب بھی دیا، چنانچہ فرمایا :-
★_ یہ لوگ چراگاہوں میں اپنے جانور چرانے کا الزام لگاتے ہیں، سن لو ! میں نے وہی چراگاہیں مخصوص کی ہیں جن کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے مخصوص کیا تھا، ان چراگاہوں کو صدقات کے جانوروں کے لئے مقرر کردیا گیا ہے، تاکہ صدقات وصول کرنے والوں میں اور دوسرے لوگوں میں کوئی جھگڑا نہ ہو، اس کے باوجود اگر دوسرے لوگوں میں سے کوئی اپنے جانور لے کر ان چراگاہوں میں آ جاتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جاتا، نہ ان کے جانوروں کو ہٹایا جاتا ہے، بہر حال یہ جو بھی انتظامات ہیں سرکاری جانوروں کے لئے ہیں میرے ذاتی جانوروں کے لئے نہیں ہیں، میرا حال تو یہ ہے کہ جب میں خلیفہ ہوا تھا اس وقت وقت اونٹ بکریاں سب سے زیادہ میرے پاس تھے، لیکن آج عالم یہ ہے کہ لے دے کر اب میرے پاس صرف ایک بکری اور دو اونٹ ہیں، یہ اونٹ بھی میرے حج کے لئے ہیں_,"
★_ یہ فرمانے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، کیا ایسا نہیں ہے ؟
سارا مجمع ایک آواز ہو کر بولا، بے شک ایسا ہی ہے،
آپ غور کریں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تو اس وقت اپنے دو اونٹ اور ایک بکری کے علاوہ کوئی جانور تھا ہی نہیں، وہ مدینہ منورہ کی چراگاہوں کو اپنے جانور چرانے کے لئے کس طرح مقرر کر سکتے تھے _,"
★_ ایک اعتراض یہ تھا کہ نوجوانوں کو بڑے بڑے عہدے دیے جا رہے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا - اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے، اگر ایک نوجوان میں صلاحیت ہے تو اسے عہدہ ملنا چاہیے، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے صحابہ پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو نو عمری کے باوجود لشکر کا سالار مقرر نہیں فرمایا تھا،
یہ فرما کر آپ نے پوچھا - کیا ایسا نہیں ہے ؟
سب نے ایک زبان ہو کر کہا - بے شک ایسا ہی ہے _,"
★_ ایک اعتراض یہ تھا کہ عرب سے باہر اپنے لوگوں کو آپنے زمین کے ٹکڑے دے دیے ہیں، اس اعتراض کے جواب میں آپ نے فرمایا - جو زمینیں فتح ہوتی گئی، وہ مہاجرین اور انصار میں مشترکہ رہیں، پھر ان میں سے جو حضرات فتح کی گئی زمینوں میں آباد ہو گئے وہیں رہنے لگے لیکن ان میں سے جو حضرات بلادے عرب میں واپس آگئے، میں نے فتح کیے گئے علاقوں ان کی خالی پڑی زمینوں سے ان لوگوں کی بلادے عرب کی زمینوں سے تبادلہ کر دیا جو وہاں جا کر آباد ہونا چاہتے تھے، بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اسی لئے اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے، مطلب یہ ہے کہ انہیں وہ زمینی تبادلے میں دی گئی ہیں _,"
─┉●┉─
*┱✿ جعلی خط کا مسلہ -1,*
★_ ان اعتراضات میں سب سے بڑا اور اہم جو اعتراض لگایا گیا اس کا پس منظر ملاحظہ ہو ،
اعتراض کرنے والے مصری لوگوں کا ایک وفد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، اس میں کوفے اور بصرہ کے لوگ بھی شامل تھے، ان کے کچھ مطالبات تھے یہ اپنے مطالبات زبردستی منوانے کے لیے آئے تھے، تھے بھی مسلح، یہ لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا کہ انہیں سمجھاآئیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے ملاقات کی انہیں سمجھایا،.. اور آخر وہ واپس جانے پر آمادہ ہوگئے تھے یعنی مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ واپس روانہ ہو گئے _,"
★_ ابھی یہ راستے میں تھے کہ ان لوگوں کو ایک شخص ملا، انہوں نے اس سے پوچھا تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے بتایا میرے پاس خلیفہ کا ایک خط ہے یہ خط مجھے مصر کے گورنر کو پہنچانا ہے, وفد نے اس کی تلاشی لی اور خط برآمد کرلیا، اس خط پر مروان بن حکم کا نام تھا یعنی وہ خط مروان بن حکم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے لکھا تھا، اس خط میں لکھا تھا کہ جب یہ وفد مصر پہنچے تو ان سب کی گردنیں اڑا دی جائیں_,"
★_ یہ خط پڑھ کر وفد کو بہت غصہ آیا لہذا واپس جانے کے بجائے پھر مدینہ منورہ کی طرف لوٹ پڑے اور مدینہ منورہ میں داخل ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا، مطلب یہ کہ ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہم سے بد عہدی کی ہے اور انہیں دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جب انہوں نے اس خط کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا تو آپ نے کہا - اللہ کی قسم ! یہ خط میں نے نہیں لکھا نہ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم ہے _,"
★_ اس خط کا معاملہ بہت اہم ہے، مروان بن حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے سرکاری خطوط لکھتا تھا اور اس خط پر اسی کا نام لکھا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ نے اسے یہ خط لکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ خط کس نے لکھا، اگر مروان نے لکھا تب بھی اس نے یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے نہیں لکھا تھا اور اگر خط مروان نے نہیں لکھا تو پھر کس نے لکھا تھا، اس کی تحقیق کی ضرورت تھی ،
[11/20, 6:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ بات دراصل یہ تھی کہ وہ خط بلکل جعلی تھا اس سازش کا ایک حصہ تھا، عبداللہ بن سبا یا اس کی جماعت کے کسی آدمی نے لکھا تھا اور مروان سے سے اس خط کا کوئی تعلق نہیں تھا ،
★_ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اسی قسم کا ایک خط ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ملا تھا، اس خط میں ان لوگوں کو واپس مدینہ کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا ، چنانچہ جب یہ لوگ مدینہ واپس آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ خلیفہ کے پاس چلیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اللہ کی قسم میں تم لوگوں کے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا, یہ سن کر وہ لوگ بگڑ گئے اور بولے - اگر آپ ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں تو پھر آپ نے ہم نے ہمیں خط کیوں لکھا تھا، ان کی یہ بات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا - نہیں ! اللہ کی قسم میں نے تم لوگوں کو کوئی خط نہیں لکھا _,"
★_ اس واقعے سے صاف ظاہر ہے جن سازشی لوگوں نے مروان کے نام والا خط لکھا انہیں لوگوں نے ایک خط حضرت ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی لکھا تھا، یہ بات بالکل صاف نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک طرف تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ انہوں نے بھی یہی فرمایا، اب یہ دونوں شخصیات ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ جھوٹ بول سکتی ہیں، صاف ظاہر ہے کہ یہ سازش عبداللہ بن سبا کے گروہ کی تھی،
★_ مشہور مورخ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :- اس جماعت نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر صحابہ کی طرف سے بھی اسی قسم کے جعلی خطوط لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجے تھے، اسی جماعت نے یہی چال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں چلی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں جنگ کرا دی تھی_,"
[11/20, 9:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ ان دنوں میں ایک اہم واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی کا کنویں میں گرنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک روز " اریس" کے منڈیر پر کھڑے تھے، انگوٹھی آپ کی انگلی سے نکل کر کنویں میں گر گئی، آپ نے کنویں میں انگوٹھی کو خوب تلاش کرایا لیکن انگوٹھی نہ ملی، آپ نے اس پر انعام بھی مقرر کیا مگر انگوٹھی نہ مل سکی،
★_ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ساتوے سال پیش آیا، اس زمانے میں فساد کرنے والے اپنی سازش شروع کر چکے تھے، لہذا اس بات کا زبردست امکان ہے کہ انگوٹھی کنویں سے نکالے جانے والے پانی میں سے کسی سازشی نے چرا لیا ہو اور اس طرح یہ انگوٹھی عبداللہ بن سبا کے پاس پہنچ گئی ہو ،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ اگر یہ یہ خط آپ نے نہیں لکھا تو اس خط پر مہر کیسے لگی ہوئ ہے، اس سوال کا جواب انگوٹھی والا واقعہ دے رہا ہے، مہر لگانے والی انگوٹھی ضرور کسی سازش کے ہاتھ لگی تھی اور جعلی خطوط پر مہر اس سے لگایئ گئی تھی،
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب یہ فرمایا تھا :- ان لوگوں نے اس جیسی انگوٹھی بنا لی ہے _,"
اس کی مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ملاحظہ فرمائیے، آپ کے دور میں ایک شخص موعن بن زائدہ نے مہر خلافت جیسی ایک مہر بنا لی، وہ اس کے ذریعے خراج کی بڑی بڑی رقمیں وصول کیا کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اس کے فریب کا پتہ چلا تو آپ نے کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ اس شخص کو فوراً گرفتار کیا جائے اور سزا دی جائے،
★_ ان باتوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خط مروان نے نہیں لکھا تھا، نہ ہی خلافت کے عملے میں سے کسی کا یہ کام تھا بلکہ یہ سب کچھ عبداللہ بن سبا کی سازش تھی،
[11/21, 10:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ فتنوں کی آگ _,*
★_ غرض باغیوں کے تمام اعتراضات بالکل بے بنیاد تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم مجازی کی وجہ سے دلیر ہو رہے تھے، آپ بہت صلح پسند تھے، کوفہ سے سعید بن العاص اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مصر سے ان لوگوں کے بارے میں اطلاعات آپ کو بھیجتے رہے اور ان کے خلاف کارروائی کی اجازت طلب کرتے رہے تھے لیکن آپ جواب میں یہی ہدایت دیتے رہے کہ فتنہ پسندوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر بھیج دیں لیکن انہیں سزا کی اجازت آپ نے کبھی نہ دی، مختلف ذریعوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، اس وقت بڑے بڑے صحابہ یا تو مدینہ منورہ میں رہے نہیں تھے مختلف شہروں میں جا بسے تھے، یا پھر بہت بوڑھے ہوگئے تھے، اس کے علاوہ حالات سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی،
★_ ان باغیوں میں مختلف گروہ شامل تھے، مصر کے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عقیدت مند تھے، بصرہ کے لوگ لوگ طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پسند کرتے تھے اور کوفہ کے لوگ حضرت زبیر بن عوام کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے، ایک جماعت سرے سے عرب حکومت ہی کے خلاف تھی، مطلب یہ کہ ان میں آپس میں اگرچہ اختلافات تھے لیکن سبھی گروہ اس پر اکٹھے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کیا جائے،
★_ بصرہ کوفہ اور مصر فتنوں کا مرکز تھا، عبداللہ بن سبا ان کی سازشوں کا سردار تھا ،اس نے سب کو ہدایت دی تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہر ممکن طریقے سے بد نام کرو اور رسوا کرو، اس کی ہدایتوں کا سختی سے عمل کیا گیا، اس کے اس پروپیگنڈے نے تینوں جگہ آگ بھڑکا دی،
★_ یہ خبر جب مدینہ منورہ پہنچے تو لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ صورتحال معلوم کرنے کے لیے وہاں کچھ لوگ بھیجے جائیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو کوفہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بصرہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مصر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو شام روانہ کیا،
[11/22, 10:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ حضرت عثمان رضی اللہ انہوں نے تمام شہروں میں ایک حکم بھیجا جس میں لکھا تھا - مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کو عہدے داروں سے شکایت ہے کہ بعض گورنر یا دوسرے عہدے داروں سے زیادتی کرتے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو میں اعلان کرتا ہوں کہ حج کے موقعے پر سب حکام مکہ میں جمع ہوں گے جس جس شخص کو بھی کوئی شکایت ہو وہ آ کر مجھ سے ملے، میرے یا میرے عاملوں کے ذمے جو نکلتا ہو وہ وصول کرلیں _,"
★_ جب لوگوں کو یہ پیغام ملا تو وہ رو پڑے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دعائیں دینے لگے، لوگوں کو تو آپ نے یہ پیغام بھیجا دوسری طرف تمام عہدے داروں کو یہ پیغام بھیجا - آپ سب ایوان خلافت میں حاضر ہوں _,"
★_ یہ حکم ملنے پر عبداللہ بن آمر، حضرت امیر معاویہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح وہاں پہنچ گئے، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت سعید بن عاص کو بھی مشورے میں شریک کیا گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم مشورہ دو کہ ان حالات میں کرنا کیا چاہیے ؟
★_ حضرت سعید بن عاص نے کہا - وہ صرف چند آدمی ہیں جو پوشیدہ طور پر غلط باتیں مشورہ کرکے سیدھے سادے عوام کو ورغلا رہے ہیں، بہکا رہے ہیں، ان کا علاج یہ ہے کہ آپ ان لوگوں اور جو ان کا سرغنہ ہو، ان کے سر قلم کردیجئے_,"
[11/23, 8:28 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا - عمرو تمہاری کیا رائے ہے ؟
انہوں نے جواب میں کہا - آپ ان فتنہ پرواز لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر رہے ہیں، آپ نے انہیں بہت ڈھیل دے رکھی ہے ، آپ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے طریقے پر عمل کریں، سختی کی جگہ سختی اور نرمی کی جگہ نرمی کو اپنائیں _,"
★_ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - آپ حضرات نے جو مشورے دیے ہیں وہ میں نے سنے، اصل بات یہ ہے کہ ہر معاملے کا ایک دروازہ ہوتا ہے اس سے وہ اندر داخل ہوتا ہے، یہ فتنہ جو عمت کو پیش آنے کو ہے اس کو نرمی اور موافقت ہی سے بند کیا جا سکتا ہے، البتہ سزاؤں کی بات اور ہے سزا والا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا _,"
"_ مجھ پر کوئی شخص یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ میں نے لوگوں کے ساتھ اور اپنے ساتھ بھی بھلائی کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے، فتنہ کی چکی تو اب گھوم کر رہے گی لیکن میں خود کو اس صورت میں خوش نصیب خیال کروں گا کہ میں اس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ کہ اس چکی کو میں نے حرکت نہیں دی، پس آپ ان حضرات کو فتنہ پروازوں سے روکیں، جو ان کے حقوق ہیں وہ ادا کرنے میں سستی نہ کریں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں_,"
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو یہ پیغام تمام شہروں میں بھیجا تھا اس سے لوگوں کو بہت خوشی ہوئی تھی اور سب کا خیال تھا کہ 35 ہجری کا سال امن و امان اور سکون سے گزرے گا لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا، وہ ایسے کہ کوفے میں سخت فساد ہو گیا، ( اس کی تفصیل اگلے پارٹ میں )
[11/25, 6:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ کوفہ کے گورنر سعید بن عاص تھے، یہ نہایت لائق سوجھ بوجھ والے اور مجاہد نوجوان تھے لیکن تھے قریشی، کوفہ کے لوگ شروع میں تو ان سے خوش رہے، ان کی تعریف کرتے رہے لیکن ایک مرتبہ ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا - کوفہ قریش کا چمن ہے _,"
★_ اس مجلس میں دوسرے قبیلوں کے علاوہ یمنی لوگ بھی تھے ان کا سردار قریش کا شدید مخالف تھا، وہ قریش سے بہت بغض رکھتا تھا یہ جملہ سنتے ہی سعید بن عاص پر بگڑ گیا اور بولا - قریش میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ کوفہ ان کا چمن ہو، وہ تو سب مسلمانوں کا ہے_,"
اس وقت وہاں پولیس کا ایک افسر بھی موجود تھا اس نے غصے میں کہا - گورنر صاحب سے تہزیب میں رہ کر بات کریں،
★_ اس پر یعنی لوگوں نے اس افسر کو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہوگیا، پھر انہوں نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، سعید بن عاص اور قریش کی خوب برائیاں کی، اس کے ساتھ ہی ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب سعید بن عاص کو گورنر نہیں رہنے دیں گے، چنانچہ ان لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری کو گورنر مقرر کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قریش نہیں تھے اور ان کی رشتہ داریاں یمن سے تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شر دور کرنے کے خیال سے ان کی بات مان لی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کر دیا ،
★_ اس فیصلے کا اثر الٹا ہوا، آپ ان لوگوں کے حوصلے بڑھ گئے، ان کے ساتھ ہیں مصر اور بصرہ کے لوگ بھی خلافت کے خلاف اٹھنے کے لیے تیار ہوگئے، ان لوگوں نے ایک جلسہ کیا اس میں اپنا ایک نمائندہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ عبداللہ تمیمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، یہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا، سخت کلامی کی اور خلافت سے سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کیا ،
[11/25, 8:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شام سے وہاں آئے ہوئے تھے، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں، وہاں کے حالات ٹھیک ہیں_,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - چاہے میری گردن اڑا دی جائے میں کسی قیمت پر بھی رسول اللہ صلی اللہ کا قرب اور ہمسایگی نہیں چھوڑ سکتا _,"
★_ اس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بولے - اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو مجھے اجازت دیجئے کہ میں شام کا ایک لشکر بھیج دوں، وہ مدینہ کے پچھلے حصے میں ٹھہرا رہے گا، اگر ان لوگوں نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی تو وہ لشکر آپ کی کی مدد کرے گا_,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز بھی منظور نہ فرمائی اور فرمایا - اس طرح مدینہ منورہ کے لوگ پریشانی میں مبتلا ہوں گے, میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا _,"
★_ اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بولے - تب پھر اے امیر المومنین ! آپ کے ساتھ غدر والا معاملہ ہو جائے گا_,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا -
حسبی اللہ ونعمل وکیل ( اللہ ہی میرے لیے کافی ہے اور وہی بہترین مددگار ہے )
★_ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اجازت لی اور شام کی طرف روانہ ہوگئے ، سازش کرنے والوں کو اب مناسب وقت کا انتظار تھا اور ان کے لیے سب سے بہترین وقت حج کے دن تھے کیونکہ زیادہ تر لوگ حج کے لیے چلے جاتے تھے، مدینہ منورہ میں ان دنوں بہت کم لوگ ہوتے تھے، ان دنوں میں ان کے خلاف کوئی بڑی رکاوٹ پیش نہیں آ سکتی تھی، چنانچہ ایک خفیہ قرار کے مطابق کوفہ بصرہ اور مصر تینوں شہر سے فتنہ پروازوں کی جماعت ایک ہی وقت میں مدینہ میں روانہ ہوئی_,"
*
─┉●┉─
*┱✿ باغیوں کا مدینہ پہنچنا -
[11/26, 6:43 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ ان تینوں جماعتوں کی تفصیل اس طرح ہے،... مصر کے لوگوں کی تعداد چھ سو سے ایک ہزار کے درمیان تھی، یہ چار ٹولیوں میں تقسیم تھے، کوفہ کے لوگ بھی تعداد میں مصر کے برابر تھے اور یہ بھی چار ٹولیوں میں تقسیم تھے، بصرہ کے باغیوں کی تعداد بھی قریب قریب اتنی ہی تھی، یہ بھی چار ٹولیوں میں تقسیم تھا،
★_ جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو راستے میں ان لوگوں کے ہم خیال لوگ بھی شامل ہوتے چلے گئے، مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ کر یہ لوگ تین حصوں میں بٹ گئے، یہاں پہنچ کر ان لوگوں نے مشورہ کیا کہ آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہے کہ اس سلسلے میں مدینہ کے لوگوں کے خیالات اور احساسات معلوم کر لیے جائیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے دو نمائندے ضیاد بن نظر اور عبداللہ بن عصم کو مدینہ منورہ بھیجا ،
★_ ان دونوں نے ازواج مطہرات، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی، اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، انہوں نے کہا - ہم چاہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت چھوڑ دیں کیونکہ ان کے بعض معاملوں نے اندھیر مچا رکھا ہے _,"
اس پر ان سب حضرات نے ان کی شدید مخالفت کی اور یہ بھی کہا کہ ہم تم لوگوں کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے _,"
★_ یہ جواب سن کر دونوں واپس لوٹ گئے اور اپنے باغی ساتھیوں کو صورت حال بتا دی، اب ان لوگوں نے ان حضرات سے الگ الگ ملاقات کرنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ مصر کے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے آپ کو ان کی جگہ خلیفہ بنانا چاہتے ہیں _,"
حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر خوب بگڑے، انہیں برا بھلا کہا اور فرمایا - چلے جاؤ یہاں سے _,"
[11/27, 10:03 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ اسی طرح بصرہ کے لوگ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے اور کوفہ کے لوگ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ملے، انہوں نے بھی انہیں خوب برا بھلا کہا اور فرمایا - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راستوں سے آنے والے لشکروں پر لعنت بھیجی ہے یعنی تم لوگوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ہمیں خبردار کردیا تھا، لہزا فوراً واپس چلے جاؤ_,"
★_ ہر طرف سے لعنت ملامت سن کر ان لوگوں نے واپس لوٹ جانے میں ہی خیر جانی، یہ اس جگہ لوٹ گئے جہاں ان کے تینوں لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، یہاں انہوں نے پھر مشورہ کیا اور طے کیا کہ اس مقام سے کچھ دور ہٹ کر رک جاتے ہیں اور اہل مدینہ کے حج کے لئے رخصت ہو جانے کا انتظار کرتے ہیں، جب سب لوگ حج کے لئے چلے جائیں گے تب حملہ آور ہوں گے _,"
★_ ادھر باغیوں کے چلے جانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں مشورہ دیا - آپ کے خلاف جو باتیں ہو رہی ہیں بہتر ہوگا آپ لوگوں کے سامنے ایک تقریر کریں، اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کریں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے واپس بھیج دیا ہے وہ پھر واپس نہ آ جائیں _,
★_ یہ مشورہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اس خطبے میں آپ نے وعدہ فرمایا کہ آئندہ کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے، آپ نے فرمایا :- میرا دروازہ ہر شخص کے لئے ہر وقت کھلا ہے جس کو بھی کوئی شکایت ہو وہ بلا تکلیف میرے پاس آجائے اور اپنی شکایت بیان کرے، یہی نہیں جب میں ممبر سے اتروں تو آپ لوگوں میں جو بلند مرتبہ حضرات ہیں وہ میرے پاس آئیں، اس مسئلے میں مجھے مشورہ دیں _,"
[11/28, 8:06 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ آپ میں یہ خطبہ اس قدر درد بھرے انداز میں دیا کہ لوگ رو پڑے، بعض لوگوں کی تو حچکی بندھ گئی لیکن جو لوگ فساد برپا کرنے پر تلے ہوئے تھے ان پر بھلا کیا اثر ہوتا، اس خوشگوار خطبے کے اثرات لوگوں کے ذہنوں پر باقی تھے کہ ایک دن اچانک مدینہ منورہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھا، ایک شور گونجا - باغی مدینہ منورہ میں گھس آئے _,"
★_ باغیوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو یہ تینوں حضرات مدینہ منورہ کے اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ان باغیوں سے ملے، انہوں نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے لوگوں سے باری باری ملاقات کی لیکن ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا، اب یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیرا ڈال کر وہاں پڑے رہے،
★_ شروع شروع میں یہ گھیرا نرم تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں آجاتے تھے اور نماز کی امامت کراتے تھے خود یہ فسادی لوگ بھی آپ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، ایک دن ان فسادیوں نے حضرت علی اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم آپ کی موجودگی میں خلیفہ سے بات کرنا چاہتے ہیں _,"
★_ دونوں حضرات نے ظہر کے بعد کا وقت طے کر لیا اور ٹھیک وقت پر ان کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے اور باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا - میں وہ قمیز نہیں اتاروں گا جو اللہ تعالی نے مجھے پہنائی ہے_,"
یہ کہنے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں خلافت نہیں چھوڑوں گا جو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوئی ہے _,"
[11/29, 9:40 PM] Haqq Ka Daayi Official: ★_ مصر کے لوگوں نے کہا کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہم آپ کو خلافت سے الگ نہ کردیں یا قتل نا کر دیں، اگر آپ کے ساتھیوں نے ہمارے راستے میں آنے کی کوشش کی تو ہم ان سے جنگ کریں گے یہاں تک کہ ہم آپ تک پہنچ جائیں گے _,"
★_ ان کی بات کے جواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - مجھے قتل ہو جانا منظور ہے، خلافت کے راستے سے دستبردار ہونا منظور نہیں، تمہارا یہ کہنا کہ تم میرے ساتھیوں سے جنگ کرو گے تو سن لو، میں انہیں جنگ کرنے ہی نہیں دوں گا _,"
★_ اس پر یہ بات چیت ختم ہو گئی اور وہ لوگ ان کے پاس سے لوٹ گئے، ان کے جانے کے بعد امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا - آپ مصریوں کو میری طرف سے مطمئن کریں کہ ان کی جائز شکایت اور مطالبات پر غور کیا جائے گا _,"
حضرت علی رضی اللہ انہوں نے جواب میں عرض کیا - اب اس کا کوئی فائدہ نہیں .. یہ لوگ مطمئن نہیں ہوں گے_,"
★_ اس دوران ایک اور سخت نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جمعے کی نماز کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے، یہاں مصری وفد موجود تھا، نماز معمول کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور مصری وفد سے مخاطب ہوئے :-
★_ اے دشمنوں ! اللہ تعالی کے قہر اور غضب سے ڈرو، اہل مدینہ خوب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر لعنت کی ہے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی تم لوگوں کے بارے میں پیش گوئی فرما چکے ہیں اور تم پر لعنت بھیج چکے ہیں ) پس تم نے جو خطائیں کی ہیں ان کی تلافی نیک اعمال سے کرو، کیوں کہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ نیکیوں کے ذریعے گناہوں کو مٹاتا ہے _,"
**
─┉●┉─
*┱✿ باغیوں کا حملہ -,*
★_ آپ نے ابھی یہ الفاظ فرمائے ہی تھے کہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بول اٹھے - آپ نے بالکل سچ کہا, میں اس کا گواہ ہوں _,"
★_ جونہی حضرت مسلمہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا مصری وفد ان پر حملہ کرنے کے لیے بڑھا، اس پر مدینہ منورہ کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، دونوں گروہوں میں جھڑپ ہو گئی، مصری کنکر پتھر اٹھا کر ان پر پھینکنے لگے، یہاں تک کہ اس لڑائی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے بلکہ بے ہوش ہوگئے، بے ہوشی کی حالت میں آپ کو گھر پہنچایا گیا ,
★_ صحابہ کرام میں اس وقت ق حضرت زید بن ثابت، سعد بن مالک، ابو ہوریرا اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم موجود تھے، انہوں نے مصریوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا، مصری اس وقت مسجد سے نکل چکے تھے، ایسے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ہوش آگیا، انہیں بتایا گیا کہ صحابہ کرام ان لوگوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں، تو فوراً کہلا بھیجا - " مصریوں کا تعاقب نہ کیا جائے _,"
★_ اس واقعہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مصری لوگ فتنہ اور فساد برپا کرنے کی قسم کھا چکے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں اور فوج کے سالاروں کو ان حالات کی اطلاع دی اور انہیں ہدایت دی کہ وہ یہاں آ جائیں _,"
: ★_ یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اپنے گورنروں اور سالاروں کو پیغامات بھیجے اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ آئیں اور فساد برپا کرنے والوں سے جنگ کریں، جی نہیں ! حضرت عثمان عثمان رضی اللہ عنہ کو تو ہرگز ہرگز کسی مسلمان کا خون بہانا گوارا نہیں تھا, اس اقدام سے آپ کا مقصد صرف اتنا تھا کہ باغی اپنی جانیں بچانے کے خیال سے بھاگ جائیں ،
★_ آپ کی طرف سے پیغام ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعض معاملات کی وجہ سے فوراً روانہ نہ ہو سکے البتہ شام سے حبیب بن مسلمہ بصرہ سے مجاشع بن مسعود لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ روانہ ہو گئے، یہ حضرات ابھی مدینہ منورہ سے تین میل دور تھے کہ انہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی ، ( ابنِ کثیر )
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ تقریباًًً ایک ماہ تک جاری رہا، اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے رہے نماز پڑھاتے رہے، اس کے بعد باغیوں نے آپ کو مسجد میں آنے سے روک دیا، اب ان کا ایک ساتھی امیر غافقی نماز پڑھانے لگا ،
★_ باغیوں نے یہ جو سختی اختیار کی اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اپنے گورنروں اور امیروں کو پیغامات بھیجے، انہیں اس کا پتہ چل گیا تھا، اس سختی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ حج کے دن ختم ہونے کے قریب تھے، انہوں نے سوچا حاجیوں کے آنے سے پہلے پہلے انہیں اپنے منصوبے کو پورا کر ڈالنا چاہیے ورنہ پھر اپنے منصوبے پر عمل نہیں کر سکیں گے،
★_ اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گئے، اس حالت میں باغیوں نے گھر میں گھسنے کی کوشش کی لیکن آپ کے گھر پر 600 کے قریب جانثار پہرہ دے رہے تھے، ان میں بڑے بڑے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن، حضرت حسین، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے، ان حضرات نے باغیوں کو اندر آنے نہ دیا،
★_ ان حالات کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج کے لئے بھی نہیں جا سکتے تھے ، آپ اس سے پہلے ہر سال جاتے رہے تھے، وہاں آپ اپنے گورنروں سے ملاقات کرتے تھے ہر ایک سے ان کے علاقے کے حالات معلوم کرتے تھے عوام سے ان کے سکھ دکھ معلوم کرتے تھے، اس طرح حالات سے لوگوں کے مسائل سے باخبر رہنے کی پوری کوشش کرتے تھے، اب چونکہ اس مرتبہ آپ نہیں جاسکے اس لیے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا - اس مرتبہ آپ میری طرف سے حج کو چلے جائیں _,"
★_ حضرت عبداللہ بن عباس نے عرض کیا - اے امیر المومنین ! ان باغیوں سے جہاد کرنا میرے نزدیک حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے _,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اصرار کیا اور انہیں جانے پر مجبور کیا تب حج کے لیے گئے، جب باغیوں نے آپ کو گھر میں قید کر دیا تو ایک دن آپ اپنی چھت پر آئے اور باغیوں سے یوں خطاب کیا :-
★_ تم لوگوں کو قسم دے کر پوچھتا ہوں، سچ کہو ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر بئیر رومہ خرید کر اس کا پانی تمام مسلمانوں کے لئے وقف نہیں کر دیا تھا ؟ اس پر سب نے کہا - ہاں ! یہ ٹھیک ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا - مسجد نبوی کی جگہ تنگ ہو گئی تھی ، اس میں سب نمازی نہیں آ سکتے تھے، تو کیا میں نے اس کے ساتھ والی زمین خرید کر مسجد میں شامل نہیں کی تھی ؟
سب نے جواب دیا - ہاں یہی بات ہے .
آپ نے پھر ارشاد فرمایا - غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امداد کی اپیل کی تھی تو کیا میں نے لشکر کے لیے سامان نہیں دیا تھا اور کیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر مجھے جنت کی بشارت نہیں دی تھی ؟
سب ایک آواز ہو کر بولے - ہاں ایسا ہی ہے,
اب آپ نے فرمایا - اور پھر اللہ کے رسول نے تین بار فرمایا تھا :- اللہ تو گواہ رہ _,"
: ★_ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا- کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ایک مرتبہ حرا پہاڑ پر رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسل، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور میں، ہم تینوں کھڑے تھے، ایسے میں پہاڑ لرزنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا - اے حرا ٹھہر جا، اس وقت تیری پشت پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید ہے ، بتاؤ .. بتاؤ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یا نہیں ؟
ان سب نے ایک آواز ہو کر کہا - ہاں ! بے شک _,"
★_ اس تقریر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ضمیر کو جگانا چاہتے تھے، انہیں یہ سوچنے پر آمادہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کیسے شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لیکن ان کے ضمیر تو مر چکے تھے ، ہر سوال کا جواب انہوں نے ہاں میں دیا، لیکن اپنے مطالبے پر پھر بھی ڈٹے رہے، ان کا کہنا یہ تھا کہ یا تو آپ خلافت چوڑ دیں ورنہ ہم آپ کو قتل کر دیں گے ،
★_ آپ نے باغیوں سے یہ بھی فرمایا - کیا تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو ہو تمہارے پاس اس کا کیا جواز ہے ، میں نے تو اسلام سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پی، زنا نہیں کیا ، کسی کو قتل نہیں کیا، یاد رکھو ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر اس کے بعد کبھی تم میں باہم محبت نہیں رہے گی, تم ہمیشہ آپس میں لڑتے ہی رہو گے، تمہاری عزت اجتماعیت ختم ہو جائے گی _,"
★_ ان پر آپ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ، اس وقت حالات بہت نازک ہو چکے تھے، وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں سے فرما چکے تھے ،وہ کسی صورت کسی شخص کو بھی یہ اجازت نہیں دینگے کہ ان کی طرف سے جنگ کریں، وہاں جتنے بھی جانثار موجود تھے، ان سب ہی نے بار بار یہ درخواست کی تھی کہ ہمیں باغیوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی جائے لیکن آپ نے انہیں اجازت نہیں دی،
*"_ شہادت کی تیاری _,*
★_ اب انہوں نے محاصرہ اس قدر تنگ کر دیا کہ کوئی مکان کے اندر نہیں جا سکتا تھا اور نہ مقام سے باہر آ سکتا تھا، یہاں تک کہ مکان میں پانی کا داخلہ بھی بند کر دیا، ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا کا علم ہوا تو آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے آئیں لیکن باغیوں نے انہیں بھی اندر جانے نہ دیا اور ان کے ساتھ بھی سخت گستاخی سے پیش آئے، یہاں تک کہ آپ کی سواری کے کھچر کو بھی زخمی کر دیا، چند آدمی جو وہاں موجود تھے انہوں نے آپ کو وہاں سے نکالا _,
★_ مدینہ منورہ میں اس وقت خوف کا عالم تھا، بہت سے کمزور اور بوڑھے اصحاب تو گوشہ نشین ہوگئے کچھ مدینہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے، آخری مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا تو باغیوں نے ان کا بھی راستہ روک لیا، آپ نے قاصد کو اپنا عمامہ اتار کر دیا اور فرمایا جو حالات تم دیکھ رہے ہو جا کر بیان کر دینا _ء
★_ ایسے میں خبر پہنچی کہ عراق سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لئے جو لوگ روانہ ہوئے تھے وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور شام سے روانہ ہونے والے بھی مدینہ منورہ کے نزدیک وادی القراء پہنچ گئے ہیں، ان لشکروں کے آنے کی خبر پہنچی تو جوش اور بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور حضرت زبیر بن حارث رضی اللہ عنہ نہ مکان کے پاس آئے اور پکارے - انصار دروازے پر موجود ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ ہم مدد کے لئے موجود ہیں حکم فرمائیں_,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا - اگر مقصد جنگ کرنا ہے تو میں اجازت نہیں دوں گا_,"
ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا- میرا سب سے مددگار وہ ہوگا جو اپنا ہاتھ اور ہتھیار روکے رہے _,"
★_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا - امیرالمومنین جنگ کی اجازت دیجئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - ابو ہریرہ کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ تم مجھے اور سب لوگوں کو قتل کرو ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ انہوں نے جواب دیا- نہیں! اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا- اگر تم ایک آدمی کو بھی قتل کرو گے تو گویا یا سب ہی کو قتل کر دیا _,*
ان کے بعد حضرت عبداللہ بن جبیر حاضر ہوئے اور زور ڈال کر کہا - آپ بھائیوں سے جنگ کیجئے اللہ کی قسم اللہ تعالی نے آپ کے لئے ان لوگوں سے جنگ کرنا حلال کر دیا ہے _,"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی وہی جواب دیا اور جنگ کے لئے اجازت نہ دی ، *( طبقات ابن سعد -٣/٤٨)*
: ★_ اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ بھی آئیں انہوں نے کہا - اے امیر المؤمنین ! آپ امت کے امام ہیں، خلیفہ برحق ہیں، اس وقت جو حالات ہیں ان میں تین صورتیں ہیں آپ ان میں سے کوئی ایک اختیار کر لیں، ایک یہ ہے کہ آپ کے پاس کافی طاقت ہے اس کے ساتھ ان دشمنوں کا مقابلہ کیجئے، آپ حق پر ہیں اور وہ باطل پر، دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے مکان کے دروازے پر اس وقت باغیوں کا ہجوم ہے ہم پچھلی طرف سے ایک دروازہ نکال دیتے ہیں آپ اس سے نکل کر سواری پر بیٹھ جائیں اور مکہ مکرمہ چلیے، وہاں حرم میں یہ لوگ جنگ نہیں کر سکیں گے، تیسری صورت یہ ہے کہ اس دروازے سے نکل کر شام چلے جائیں وہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اور شام کے لوگ وفادار بھی ہیں _,"
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تینوں تجویز منظور نہ فرمائیں، جواب میں ان سے فرمایا - میں مقابلہ نہیں کروں گا کیوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جس کے ہاتھوں امت میں خونریزی کا آغاز ہو, دوسرا یہ کہ میں مکہ بھی نہیں جاؤں گا کیونکہ یہ فسادی وہاں بھی خونریزی سے باز نہیں آئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے کہ قریش کا ایک شخص مکہ کی حرمت اٹھائے گا, میں وہ شخص نہیں بننا چاہتا, رہا شام جانا وہاں کے لوگ ضرور وفادار ہیں اور معاویہ بھی وہاں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس اور دارالہجرت سے جدائی اور دوری مجھے کسی صورت منظور نہیں _,"
★_ ادھر جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی روشنی میں اپنی شہادت کا یقین ہو چلا تھا اور آپ نے اپنی شہادت کی تیاری شروع کر دی تھی، چنانچہ جس دن یہ سانحہ پیش آیا اس روز آپ نے روزہ رکھا وہ دن جمعہ کا تھا، آپ پر اس حالت میں نیند کی کیفیت طاری ہو گئی اس کیفیت سے ہوشیار ہوئے تو فرمایا - میں نے نیم خوابی کے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہا کو دیکھا ہے آپ فرما رہے تھے - عثمان آج کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کرنا _,"
★_ اس روز آپ روزے سے تو تھے ہی آپ نے بیس غلام بھی آزاد فرمائے، آپ کے پاس ایک پاجاما تھا اس کو آپ نے کبھی پہنا نہیں تھا اس روز وہ پاجاما آپ نے پہنا _,"
★_ آپ اپنے جانثاروں کو ہتھیار اٹھانے سے منع کر چکے تھے لیکن باغیوں نے جب مدینہ کے نزدیک لشکروں کی آمد کی خبر سنی تو غصے میں آپے سے باہر ہوگئے، آپ کے مکان کے دروازے کی طرف بڑھے اور اس کو آگ لگا دی، اندر جو حضرات موجود تھے باہر نکل آئیں، انکی فسادیوں سے جھڑپ ہوئی، اس جھڑپ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم زخمی ہوئے، کچھ لوگ شہید بھی ہوئے _,"
( تاریخ طبری -4/352 )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت _,*
*★_ آپ کے مکان کے پڑوس میں حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کا مکان تھا اس مکان کی ایک کھڑکی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں کھلتی تھی، دروازے پر جب یہ جھڑپ ہوئی تو فسادیوں میں سے کچھ اس کھڑکی کے ذریعے اندر آگئے،
★_ اور وہ وقت عصر کے بعد کا تھا، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ آپ کے پاس بیٹھی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے قرآن کھلا ہوا تھا اور آپ اس کی تلاوت کر رہے تھے، اسی حالت میں ایک فسادی نے آگے بڑھ کر آپ کی داڑھی مبارک کو پکڑ لیا اور سخت بد کلامی سے پیش آیا، اس کے ہاتھ میں خنجر تھا، وہ خنجر اس نے آپ کی پیشانی پر مارا، پیشانی سے خون کا فوارہ بہہ نکلا، خون سے آپ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو گئی، اس وقت آپ کی زبان مبارک سے نکلا، "_ بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ _," ( ترجمہ - اللہ کے نام سے، اللہ ہی پر بھروسہ ہے ),
★_ ساتھ ہی آپ بائیں کروٹ گر گئے، قرآن مجید آپ کے سامنے کھلا ہوا تھا، آپ اس وقت سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے، پیشانی سے نکل کر خون ڈاڑھی تک آیا اور ڈاڑھی سے قرآن کریم پر بہنے لگا یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچ کر رک گیا ،
*"_ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ _,*
( ترجمہ - پس عنقریب اللہ تعالی ان لوگوں سے آپ کو بے نیاز کر دے گا اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے - سورہ البقرہ 137)
★_ اب سب مل کر آپ پر ٹوٹ پڑے، کناتہ بن بشر بن عتاب نے لوہے کی سلاخ ماری، سودان بن حمران نے تلوار کا وار کیا اور عمرو بن حمق نے سینے پر بیٹھ کر نیزے سے مسلسل کئی وار کیے، اس کے ساتھ ہی آپ کی روح جسم مبارک سے جدا ہو گئی، إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ _,"
: ★_ آپ کی بیوی حضرت نائلہ نے آپ پر جھک کر سودان بن حمران کی تلوار کا وار اپنے ہاتھ پر روکا تو ان کی انگلیاں کٹ گئیں، اس کے بعد ان قاتلوں نے گھر میں لوٹ مار کی، جس کے ہاتھ جو چیز آی اٹھائیں اور چلتا بنا ،
★_ یہ پر ہول سانحہ عصر اور مغرب کے درمیان جمعہ کے روز 18 ذی الحجہ ٣٥ ہجری کو ہوا، باغیوں کی وجہ سے پورے شہر مدینہ میں خوف پھیل گیا تھا ایک طرح سے پورا شہر ان بلوائیوں کے قبضے میں تھا، لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے، بلوائ شہر میں دن دانتے پھر رہے تھے،
★_ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کفن دفن کا انتظام کیسے کیا جائے؟ مراکش سے لے کر کابل تک کا حکمران آج اس حالت میں بے گور و کفن پڑا تھا کہ کوئی اس کے کفن دفن کے لئے نہیں آیا تھا ،
★_ رات کے وقت کچھ حضرات خاموشی سے آئے اور آپ کی نعش اٹھا کر باہر لے آئے، یہاں پر تاریخی روایات میں بہت زیادہ اختلاف ہے، کچھ روایات کی رو سے جنازے میں ١٧ آدمی تھے, ابن سعد کی روایت کی رو سے جنازے میں کل چار افراد تھے، ان کے نام یہ ہیں - حضرت جبیر بن مطعم، حضرت حکیم بن حزام ، حضرت ابوجہم بن حذیفہ اور حضرت نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہم،
یہ حضرات اب کا زنازہ جنت البقیع میں لاے، جنت البقیع کے پہلو میں " حش کو کب " نام کا ایک نخلستان تھا, یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھا, اسی میں آپ کی قبر بنائی گئی اور جن کپڑوں میں آپ کو شہید کیا گیا تھا ان ہی کپڑوں میں آپ کو دفن کیا گیا، جنازے کی نماز حضرت جبیر بن مطعم نے پڑھائی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ آئے تو آپ نے " حش کو کب" کے درمیان جو دیوار تھی اس کو گرا دیا، اس طرح "حش کو کب " بھی جنت البقیع میں شامل ہوگیا _,"
_ شہادت کے بعد _,*
★_ شہادت کے وقت آپ کی عمر 82 سال تھی, آپ بارہ برس تک خلیفہ رہے، صحابہ کرام ان باغیوں کی وجہ سے اپنے گھروں میں بند تھے، انہیں فوری طور پر اس سانحہ کا پتا بھی نہ چل سکا، در اصل انہیں یہ امید نہیں تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی، صحابہ کو یہ ہولناک خبر ملی وہ رونے لگے، بےقرار ہو گئے،
★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا - اے اللہ ! تو گواہ رہ, میں عثمان کے خون سے بری ہوں _,"
آپ نے یہ بھی فرمایا - حضرت عثمان کی شہادت سے میری کمر ٹوٹ گئی_,"
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت حج کے لئے گئی ہوئی تھی وہ حج کے بعد واپس آ رہی تھیں کہ اس سانحے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا - اللہ کی قسم ! عثمان مظلوم قتل کیے گئے ہیں، میں ان کے قاتلوں سے بدلے کا مطالبہ کروں گی _,"
★_ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر فرمایا - اسلام میں اتنا بڑا اشگاف پیدا ہوگیا ہے کہ پہاڑ بھی اسے بند نہیں کر سکتا _," ثمامہ بن عدی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا - امت محمدیہ کی خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا ، اب ملوکیت اور زبردستی کی حکومت کا دور دورہ ہوگا،جو شخص جس چیز پر غالب آئے گا اسے ہڑپ کر لے گا,"
★_ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں، آپ نے یہ خبر سن کر فرمایا - میں اب کبھی نہیں ہنسوں گا اور تمام عمر فلاں فلاں کام نہیں کروں گا _,"
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو لوگوں نے بے تحاشہ روتے دیکھا، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر فرمایا - آج عرب تباہ ہو گیا _,"
حضرت ذید بن صومان رضی اللہ عنہ نے فرمایا - مسلمانوں کے دل قیامت تک ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے _,"
: ★_ ام سلیم رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ ہیں انہوں نے فرمایا :- اب مسلمانوں میں باہم خون خرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا_,"
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- تم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس پر احد پہاڑ کو گر جانا چاہیے _,"
ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرفرمائے :- قاتلین عثمان کا انجام وہی ہوگا جو قوم ثمود کا ہوا تھا کیونکہ خلیفہ کا قتل ایک اونٹنی کے قتل سے کہیں زیادہ بڑا گناہ ہے_,"
★_ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دوسرے شاعر حضرات نے اپنے اشعار میں غم کا اظہار کیا، ان میں سے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے :- عثمان دنیا کے سب سے زیادہ امن پسند تھے... تو کیا اب ان کے بعد بھی امت خیر کی امید کر سکتی ہے _,"
★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوا ، ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کا نام عبداللہ رکھا گیا، یہ کم سنی میں ہی فوت ہوگیا تھا، اس کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی،
★_ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ کا نکاح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا، ان کا انتقال غزوہ بدر والے دن ہوا، چونکہ آپ کے نکاح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آئیں اس لیے آپ کو کو ذولنورین کا لقب ملا، ذولنورین کا مطلب دو نوروں والے _,"*
: *"_ فضائل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ _,*
★_ ان کے بعد بھی آپ نے نکاح کئے, ان سے اولاد بھی ہوئیں, حضرت نائلہ بنت القرا سے آپ نے سب سے آخر میں نکاح کیا، شہادت کے وقت یہی آپ کے پاس موجود تھیں، شہادت کے وقت ان کی بھی انگلیاں تلوار کے وار سے کٹ گئی تھی، یہ بہت حسین تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے نکاح کی خواہش ظاہر کی گئی لیکن آپ نے انکار کر دیا،
★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آپ کا کیا مقام تھا ؟ اس بارے میں بخاری کی ایک روایت یہ ہے, حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کے درجات بیان کرتے تھے تو حضرت ابوبکر , حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو ترتیب وار درجہ دیا کرتے تھے_,"
★_ حضرت علامہ ذہبی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل ان الفاظ میں بیان کئے ہیں :- حضرت عثمان زلنورین تھے , ان سے فرشتوں کو حیا آتی تھی, انہوں نے ساری امت کو اختلافات پیدا ہو جانے کے بعد ایک قرآن پر جمع کیا , ان کے عہدے داروں نے مشرق میں خراسان اور مغرب میں اقصی تک سب فتح کر ڈالا ، وہ بالکل سچے اور کھرے تھے، راتوں کو جاگنے والے اور دن میں روزہ رکھنے والے تھے، اللہ تعالی کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے تھے ، وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے _,*
★_ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- بیٹی ! تیرا شوہر وہ ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول دونوں محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ جب تم جنت میں داخل ہوں تو دیکھو کہ وہاں تمہارے شوہر کا مکان سب لوگوں کے مکان سے اونچا ہے _," ( البدایہ والنہایہ )
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا - اے اللہ ! عثمان تیری رضا کا طلبگار ہے تو اس سے راضی ہو جا _,"
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻Subscribe Our YouTube Channel ,*
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 Group Join Karne Ke liye Link per Ja Kar Join likhiye _,*
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)- *
3,*╨─────────────────────❥
*💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
╨─────────────────────❥
_ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_https://t.me/joinchat/AAAAAFT7hoeE_C8b71KBPg ╚═════════════┅┄ ✭✭
⚀
Post a Comment