✭﷽✭
*✿_خلافت راشدہ_✿*
*✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭*
*✿_ खिलाफते राशिदा _✿*
▪•═════••════•▪
*┱✿ *"_ دور فاروقی کا آغاز _,*
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ کے سامنے ایران اور روم سے جنگے ہو رہی تھیں، خلافت کے پہلے دل سے ہی لوگ بیعت کے لئے آنے لگے، سلسلہ تین دن تک جاری رہا ، آپ نے موقع پا کر مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا جس میں اللہ کے راستے کے فضائل بیان فرمائے،
★_ روم اور ایران کے حکمران قیصر و کسریٰ کہلاتے تھے، یہ دونوں بہت بڑی سلطنتیں تھیں، یعنی اس وقت خود کو سوپر طاقت سمجھنے والی یہی تو طاقتیں تھیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کے تمام سرحدی علاقے فتح گر چکے تھے اور کچھ ہی دنوں میں عراق فتح کر سکتے تھے لیکن انہی دنوں شام کی مہم پیش آگئی، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کی طرف روانہ ہوں اور مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر جائیں، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوگئے، اس طرح عراق میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا،
★_ ایران کی ملکہ ان دنوں "پوران دخت" تھی, اس نے اپنے ملک کے ایک بہادر جرنیل رستم کو اپنا وزیر بنا لیا تھا، اس نے رستم کو حکم دیا کہ مسلمانوں کو عراق سے نکال دے، رستم نے جنگ کی تیاریاں شروع کر دی، اس نے اپنے لشکر کے دو حصے کیے، ایک حصے کا سالار جابان کو مقرر کیا جب کہ دوسرے حصے کا سالام شہزادہ نرسی کو بنایا،
★_ ادھر حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ رحمت اللہ حیرہ تک پہنچ چکے تھے ، دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، مسلمانوں میں غضب کا جذبہ دیکھنے میں آیا، آخر ان کے جذبے کے آگے ایرانی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے، دونوں سالار موقے پر گرفتار ہوگئے ،
★_ ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس معرکے کے بعد کسکر کا رخ کیا ، یہاں شہزادہ نرسی فوج لیے کھڑا تھا، مقاطیہ میں دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئیں ، نرسی ابھی جنگ شروع کرنے کے حق میں نہیں تھا، اسے خبر ملی تھی کہ اس کی مدد کے لیے مزید ایرانی فوجیں روانہ ہو چکے ہیں، وہ ان فوجوں کا انتظار کر رہا تھا اور ان کی آمد سے پہلے لڑائی شروع نہیں کرتا چاہتا تھا،
★_ دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ رحمت اللہ کو بھی یہ اطلاعات مل گئی، انہوں نے دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور حملہ کر دیا ، بہت بڑا معرکہ ہوا اور آخر نرسی کو شکست ہوئی، ابو عبیدہ رحمۃ اللہ خود وہیں ٹھہرے اور فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے چاروں طرف روانہ کر دیے، تاکہ بھاگ نکلنے والے ایرانیوں کا پیچھا کیا جا سکے ہے اور ان کا جہاں تک ہو سکے صفایا کیا جا سکے،
★_ اس شکست کی خبر سن کر رستم بہت چراغ پا ہوا ، اس نے بہمن کو ایک لشکر دے کر روانہ کیا، مروحہ کے مقام پر آمنے سامنے آگئے ، دونوں لشکروں کے درمیاں دریا فرات تھا، بہمن نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم اس طرف آتے ہو یا ہم آئیں ؟ ابو عبیدہ بن جراح رحمۃ االلہ کے سالار نے انہیں مشورہ دیا کہ بہمن کو اپنے لشکر کے ساتھ اس طرف آنے کی دعوت دی جائے، مگر حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا - یہ تو بزدلی ہے، ادھر بہمن کے قاصد نے مسلمانوں کی باتیں سن کے کہا - ہم لوگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ عرب مرد میدان نہیں ہیں _,"
★_ اس نے مسلمانوں کو جوش دلانے کے لئے کہی تھی اور واقعی ابو عبیدہ رحمۃ اللہ عنہ اور جوش میں آگئے ، انہوں نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے اس قدم کے خلاف تھے، حضرت مسنی رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا :- اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ دریا پار کرنے سے فوج کو شدید نقصان ہوگا لیکن چونکہ سپہ سالار اس وقت آپ ہیں اور افسر کی حکم عدولی ہمارا طریقہ نہیں، اس لئے ہم تیار ہیں،_,
★_ اب کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج اس پل کے ذریعے دریا پار کر گئی، لیکن وہاں ایرانیوں نے اسلامی فوج کے لئے بہت تنگ جگہ چھوڑی تھی اسلامی فوج کو صف بندی کی جگہ بھی نہ مل سکی، دوسری طرف ایرانی فوج کے ساتھ خوفناک ہاتھی بھی تھے اور ان پر بڑے بڑے گھنٹے لٹکانے گئے تھے، جب یہ ہاتھی چلتے تو گھنٹے زور زور سے بجنے لگتے ،
★_ مسلمانوں کے عربی گھوڑوں نے ایسے ہاتھی اور سمور کی ٹوپیوں والے فوجی پہلے نہیں دیکھے تھے، گھوڑے ان کو دیکھ کر بدک کر پیچھے ہٹ گئے ، جب ابو عبیدہ رحمۃ اللہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے مقابلے میں گھوڑے ناکارہ ثابت ہو رہے ہیں تو گھوڑے سے کود پڑے اور للکار کر اپنے ساتھیوں سے کہا- جاںبازوں ! ہاتھیوں کو درمیان میں لے لو اور ہودجوں کو سوار سمیت الٹ دو _,"
★_ اس اعلان کے ساتھ سب مسلمان گھوڑوں سے کود پڑھیں اور ہودجوں کی رسّیاں کاٹ کاٹ کر ہاتھی سواروں کو نیچے گرانے لگے ، اس کے باوجود ہاتھیوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہو رہا تھا، یہ صورتحال دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے سفید ہاتھی پر حملہ کیا ، یہ سب ہاتھیوں سردار تھا، انہوں نے ہاتھی کی سونڈ پر تلوار ماری ، ہاتھی کی سونگ کٹ گئی، ادھر ہاتھی غصے میں آگے بڑھا اور انہیں زمین پر گرا کر اپنا پاؤں ان کے سینے پر رکھ دیا اور وہ شہید ہوگئے،
★_ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لے لیا اور پرجوش انداز میں ہاتھی پر حملہ آور ہوئے ، اس نے حضرت ابو عبیدہ رحمۃ اللہ کی طرح سے انہیں بھی پاؤں کے نیچے کچل دیا، اس طرح سات آدمیوں نے باری باری علم ہاتھ میں لیا اور مارے گئے، یہ ساتوں خاندانِ ثقیف سے تھے،
★_ آخر حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے علم ہاتھ میں لیا، اس وقت تک جنگ کا نقشہ پلٹ چکا تھا اور ایرانی مسلمانوں کو دریا کی طرف دھکیل رہے تھے، ایسے میں کسی نے پل بھی توڑ دیا ، مسلمان اس قدر بدحواس ہوئے کہ ٹوٹا پل دیکھ کر دریا میں کود پڑے، ایسے میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے فوج کو سنبھالا، پل بندھوایا اور سواروں کے دستے کے زمے لگایا کہ پل پار کرتے لوگوں کی مدد کریں، خود ایک دستے کو ساتھ لے کر دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہے ، اس قدر جواں مردی اور ثابت قدمی سے لڑے کہ دشمن جو برابر بڑھتا چلا آ رہا تھا اس کا بڑھنا رک گیا،
★_ اس وقت تک نو ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین ہزار اپنی جانیں بچا کر دوسرے کنارے تک پہنچ سکے، ان تین ہزار کا بچاؤ بھی حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی سے ہوا ،
*"_ بویب کا معرکہ _,*
★_ اسلامی تاریخ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، اس لڑائی میں جن مسلمانوں کی پسپائی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو شکست ہوئی تھی وہ مارے شرم کے اپنے گھروں میں نہ گئے، ادھر ادھر جنگلوں میں پھرتے رہتے تھے اور روتے رہتے تھے، مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو مسلمانوں کو بہت رنج ہوا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے حد غمگین ہو گئے، پھر بھی دوسروں کو تسلی دیتے رہے لیکن انہیں خود تسلی نہیں ہوتی تھی،
★_ مسلمانوں کی اس شکست نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ایک اضطراب طاری کر دیا، آپ نے زور شور سے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں، سارے عرب میں پرجوش تقریر کرنے والے حضرات بھیجے گئے ان کی تقریروں نے جزیرۃ العرب میں آگ لگا دی، ہر طرف سے عرب کے قبائل آنے لگے، ادھر خضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام سرحدی مقامات کی طرف پیغام بھیج دیے اور اس طرح ایک بڑی فوج جمع کر لی،
★_ اسلامی لشکر بویب کے مقام پر آ کر رکا، بویب کوفہ کے قریب واقع تھا، ادھر مہران اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوا ، بویب کے مقام پر پہنچ کر مہران نے دریا فرات کے کنارے پڑاؤ کیا ، صبح ہوتے ہی اس نے دریا پار کیا اور مسلمانوں کے لشکر کے سامنے صف بندی شروع کر دی،
★_ حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے نہایت ترتیب سے اسلامی لشکر کی صف بندی کی، اسلامی فوج کا جنگ شروع کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سپہ سالار تین مرتبہ اللہ اکبر کہتا تھا، پہلی تکبیر پر فوج حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتی تھی، دوسری تکبیر پر فوج ہتھیار سنبھال لیتی تھی اور تیسری تکبیر پر حملہ کر دیا جاتا تھا ،
★_ حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ابھی دوسری تکبیر بھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا، زبردست جنگ شروع ہوئی مسلمانوں کے بڑے بڑے افسر شہید ہوئے لیکن حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے، ان کی ثابت قدمی کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح ہوئی ، مہران قتل ہوا، مہران کے قتل کی خبر نے ایرانی کے حوصلے ختم کر دیے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ فوراً اپنے دستے کے ساتھ پل پر پہنچ گئے تاکہ ایرانی بھاگ نہ سکیں، اس جگہ اتنے ایرانی قتل ہوئے کہ لاشوں کے انبار لگ گئے ، مورخوں نے لھا ہے کہ کسی لڑائی میں اتنی لاشیں نہیں گریں جتنی بویب کی لڑائی میں گریں، مدتوں بعد مسلمانوں کا ادھر سے گزر ہوا تو اس وقت بھی وہاں ہڈیوں کے انبار نظر آئے،
*"_ قادسیہ کی طرف لشکر اسلام _,*
★_ اس معرکے کے بعد مسلمان تمام عراق میں پھیل گئے آج جہاں بغداد ہے وہاں اس زمانے میں بہت بڑا بازار لگتا تھا، حضرت مثنی بن حارثہ نے وہاں اس دن حملہ کیا جس دن بازار لگا تھا، سب لوگ جان بچانے کے لیے بھاگے، مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال آیا،
★_ ایران کے دارالحکومت میں یہ خبر پہنچی تو وہاں خلبلی مچ گئی، ایران کی ملکہ پوران دخت کو نااہل قرار دیا اور تخت سے اتار کر یزدگرد کو بٹھایا ، یزدگرد 16 سالہ نوجوان تھا، کسریٰ کے خاندان میں یہی رہ گیا تھا، اس طرح یزدگرد کی تخت نشینی سے ایرانی حکومت کے پاؤں ایک بار پھر جم گئے،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو آپ نے حضرت موثنیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا - فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ، ربیعہ اور مضر کے قبیلوں کو بھی طلب کر لو_,"
اس کے علاوہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہر طرف قاصد دوڑاے ، ہر طرف سے لوگوں کو بلایا گیا ،حج کا زمانہ تھا، خود بھی مکہ مکرمہ پہنچے، ابھی آپ حج سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہر طرف سے قبیلوں کے قافلے امڑ آئیے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج کر کے واپس آئے تو بڑی تعداد میں مجاہدین مدینہ منورہ میں جمع ہو چکے تھے، آپ نے حکم دیا- لشکر کو ترتیب دیا جائے, میں خود سپہ سالار بن کر جاؤں گا _,"
★_ جب لشکر ترتیب دیا جا چکا تو خود مدینہ منورہ سے نکل آئے اور عراق کی طرف روانہ ہوئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس طرح ساتھ چل پڑھنے سے مسلمانوں میں بے تحاشہ جوش پیدا ہو گیا ، مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر لشکر نے پڑاؤ کیا ، اس وقت بڑے بڑے صحابہ نے مشورہ کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا - اے امیر المومنین ! آپ لشکر کے ساتھ نہ جائیں... خدا نہ خواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو یہ اسلام کے لیے بہت بڑا سانحہ ہوگا _,"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو قبول فرما کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سپہ سالار بنایا ،
★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ لشکر کو لے کر روانہ ہوئے ، 17 18 منزلیں طے کر کے آپ ثعلبہ پہنچے یہاں پہنچ کر قیام فرمایا ، ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے، حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ 8 ہزار کے لشکر کے ساتھ ذی قار کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے ، انہیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لشکر کا انتظار تھا،
★_ وہ چاہتے تھے کہ لشکر کوفہ کی طرف بڑھے تو اس کے ساتھ شامل ہو جائیں، انہیں پل کی لڑائی میں شدید زخم آئے تھے اور زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے اور اس مقام پر ان زخموں کی تاب نہ لا کر وفات پائی ، یہ اتنے بڑے سالار تھے کہ صدیوں بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، جہاد میں زندگی ختم کردی اور آخری دم تک ایرانیوں کو ناکوں چنے چبواتے رہے ، اللہ ان پر رحم فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، آمین ،
★_ حضرت سعد رضی اللہ انہوں ابھی شراف کے مقام پر تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم آیا- شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ میں قیام کریں ... اور اس طرح مورچے بناؤ کے سامنے عجم کی زمین ہو اور کمر پر عرب کے پہاڑ ہوں تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے چلے جاؤ اور خدا نہ خاستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ لے سکو_,"
★_ قادسیہ ایک بہت محفوظ مقام تھا یہ شاداب علاقہ تھا اس میں نہریں اور پل بھی تھے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے تجارت وغیرہ کے لئے ان علاقوں سے گزرا کرتے تھے لہذا ان علاقوں سے خوب واقف تھے، اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ شراف سے چلے تو عزیب پہنچے ، یہاں عجمیوں کا اسلحہ خانہ موجود تھا ، وہ اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا، آخر قادسیہ پہنچے گیے ،
★_ ایرانی لشکر کا سپہ سالار رستم کو مقرر کیا گیا تھا یہ مداین سے روانہ ہوکر سابات میں ٹھہرا تھا ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع بھیجی، وہاں سے جواب آیا - جنگ سے پہلے کچھ سفیر ایرانیوں کی طرف بھیجے جائیں... انہیں اسلام کی دعوت دی جائے _,"
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے 14 قابل ترین ساتھیوں کو منتخب کیا، جن میں آصم بن عمر ، عمرو بن معدی کرب ، مغیرہ بن شعبہ ، معن بن حارثہ اور نعمان بن مقرن زیادہ مشہور ہیں ، یہ حضرات عقل، تدبیر اور سیاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے،
★_ یہ سفیر گھوڑوں پر سوار مداین پہنچے، راستے میں جدھر سے گزرتے لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی، ان کی ظاہر صورت یہ تھی کہ گھوڑوں پر زین نہیں تھی، ہاتھوں میں ہتھیار نہیں تھے، مگر بے باقی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی، دیکھنے والے فوراً متاثر ہو جاتے تھے ، ان کی سواری میں جو گھوڑے تھے وہ خوب صحت مند اور چاق و چوبند تھے ، ان کی زوردار ٹاپوں کی آواز یزدگرد تک پہنچی تو اس نے پوچھا- یہ کیسی آواز ہے ؟ اسے بتایا گیا کہ اسلامی لشکر کے سفیر آے ہیں _،"
★_ یہ اطلاع ملنے پر اس نے اپنا دروازہ سجایا، خوب سازوسامان سے اس کو آراستہ کیا تاکہ مسلمان سفیروں پر اس کی دھاک بیٹھ جائے، راستے کے دونوں طرف اپنے جنگجو کھڑے کیے .. ان کے درمیان سے گزر کر اسلامی سفیروں کو اس تک جانا تھا، یہ تمام انتظامات کرنے کے بعد اس نے ان سفیروں کو طلب کیا ،
★_ اسلامی سفیر عربی جبے پہنے ، کاندھوں پر چادریں ڈالے، ہاتھوں میں کوڑے لیے دربار میں داخل ہوئے، ... مسلمانوں کی مسلسل فتوحات نے ایرانیوں پر پہلے ہی دھاک بٹھا دی تھی ... یزدگرد نے سفیروں کی یہ شان دیکھی تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی ،
★_ (یہ تھی کسی زمانے میں مسلمانوں کی شان کہ دنیا کی سپر پاور کہلانے والی مملکتوں کے حکمران ان سے ڈرتے تھے،... آج کے مسلمان یہود و نصاریٰ سے ڈرتے ہیں اور مسلم حکمران ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں ، صد افسوس )
★_ یزدگرد نے ان سے پہلا سوال کیا - تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ اس جماعت کے امیر تھے انہوں نے پہلے تو اسلام کے بارے میں بتایا ، پھر فرمایا ، ہم تمام دنیا کے سامنے یہ چیزیں پیش کرتے ہیں، اسلام کو قبول کر لو یا جزیہ دینا قبول کر لو ورنہ پھر تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی_,"
★_ ان کی بات سن کر یزدگرد نے کہا - کیا تمہیں یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ کمزور اور بدبخت قوم کوئی نہیں تھی، تم جب ہم سے بغاوت کرتے تھے تو ہم سرحد کے زمینداروں کو بھیج دیتے تھے وہ تمہیں سیدھا کر دیتے تھے _,"
★_ ان کی یہ بات سن کر حضرت مغیرہ بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہوسکے انھوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا - یہ عرب کے رئیسوں میں سے ہیں،.. اپنی بردباری اور وقار کی وجہ سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے، انہوں نے جو کہا وہی مناسب تھا، لیکن کچھ باتیں رہ گئیں ... وہ باتیں میں بیان کر دیتا ہوں، اے بادشاہ ! یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے، آپس میں لڑتے مرتے رہتے تھے، اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن اللہ تعالی نے ہم میں ایک پیغمبر بھیجا، وہ حسب نسب میں ہم سے اعلیٰ تھا، شروع شروع میں ہم نے ان کی مخالفت کی لیکن رفتہ رفتہ اس کی باتوں نے دلوں پر اثر کیا،
"_ وہ جو کہتا تھا اللہ کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا اللہ کے حکم سے کرتا تھا، اس نے ہمیں حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو، جو اسلام لے آئیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں، جنہیں اسلام سے انکار ہوا اور جزیے پر رضامند ہوں وہ اسلام کی حمایت میں رہے اور جن لوگوں کو ان دونوں باتوں سے انکار ہو، ان کے لئے تلوار ہے _,"
★_ یزدگرد طیش میں آگیا ، اس نے کہا - اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہیں جاتا_," اب اس نے حکم دیا - ایک مٹی کا ٹوکرا لایا جائے_," جلد ہی مٹی کا ٹوکرا لایا گیا، اس نے حکم دیا- ٹوکرا ان میں سے کسی کے سر پر رکھ دو_," وہ ٹوکرا حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا گیا، اس نے اسی حالت میں انہیں واپس لوٹ جانے کو کہا ، یہ لوگ واپس روانہ ہوئے اور آخر اپنے لشکر میں پہنچ گئے ، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر انہوں نے کہا - فتح مبارک ہو دشمن نے اپنی زمین خود ہی ہمیں دے دی _,"،
*★_ رستم کے دربار میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین _,*
★_ رستم ساتھ ہزار کا لشکر لے کر ساباط سے نکلا اور قادسیہ کے میدان میں جا پہنچا ، رستم کا لشکر جہاں سے بھی گزرا وہاں کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کرتا آیا، یہاں تک لوگوں میں یہ خیال عام ہو گیا کہ اب اجم کی سلطنت کے زوال کا وقت قریب ہے،
★_ کئی ماہ تک دونوں لشکر آمنے سامنے پڑے رہے ، رستم اب تک لڑنے سے جی چراتا رہا تھا، شاید اسے اپنی شکست کا پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا، اس نے ایک مرتبہ پھر صلح کی کوشش کی ، اس نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا - اپنا کوئی قاصد میرے پاس بھیجو... میں صلح کی بات کرنا چاہتا ہوں _,"
★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ اس انداز میں روانہ ہوئے کہ تلوار کے دستے پر چمڑے لپیٹ رکھے تھے اور لباس بالکل سادہ تھا، کمر میں رسی کا پٹکا تھا ، تلوار اس سے لٹک رہی تھی،
★_ ادھر ایرانیوں نے انہیں اپنی شان و شوکت دکھانے کے لئے خوب تیاریاں کی ، دربار کو خوب سجایا ، دبا کا فرش بچھایا، ریشم کے پردے لٹکائے ، شاہی تخت کو سجایا بنایا، راستے کے دونوں طرف سپاہی کھڑے کئے، حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ ان کے درمیان میں چلتے دربار تک آئے، دبا کے فرس کے پاس گھوڑے سے اترے، اس کی باگ کو گاو تکیے سے لٹکایا، درباریوں نے باہر ہتھیار لینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ہتھیار اتارنے سے انکار کر دیا اور کہا - تم لوگوں نے بلایا ہے تو میں آیا ہوں .. اگر تمہیں اس حالت میں میرا دربار تک جانا منظور نہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں _,"
★_ درباریوں نے یہ بات رستم کو بتائی، اس نے اجازت دے دی اور ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نہایت لاپرواہی کی حالت میں آگے بڑھے ہاتھ میں نیزا تھا اس نیزے کو قالین میں گھونپتے چلے گئے اس طرح قالین جگہ جگہ سے کٹ گیا، تخت کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے اپنا نیزہ زمین میں مارا، نیزا زمین میں گڑ گیا،
★_ اب بات چیت شروع ہوئی رستم نے پوچھا - اس ملک میں کیوں آئے ہو ؟
"_ ہم اس لئے آئے ہیں کہ مخلوق کی عبادت کے بجائے خالق کی عبادت کی جائے _,"
اس پر رستم نے کہا - میں ارکانِ سلطنت سے مشورہ کرکے جواب دوں گا،
اس دوران درباری بار بار اٹھ کر حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے لگے ان کے ہتھیار دیکھنے لگے، ان میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا - کیا ان ہتھیاروں سے ایران فتح کرنے کا ارادہ ہے ؟
★_ یہ سنتے ہی حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے نکالی، اس کی چمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کر گئی، انہوں نے کہا- اگر میری تلوار کی کاٹ دیکھنا چاہتے ہو تو ڈھال آگے کرو_,"
ایک سپاہی نے ڈھال آگے کردی، حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ نے اس پر تلوار ماری، ڈھال دو ٹکڑے ہو گئی،
★_ حضرت ربی بن عامر رضی اللہ عنہ سے صلح کی بات چیت ناکام رہی، آخر میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گئے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر کر سیدھا رستم کی طرف گئے ، اس کے جانو سے جانو ملا کر بیٹھ گئے، ان کے نزدیک یہ گستاخی تھی، چوبداروں نے انہیں بازو پکڑ کر تخت سے اتار دیا، اب حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا - میں خود نہیں آیا ہوں تم نے بلایا ہے، مہمان کے ساتھ یہ سلوک ٹھیک نہیں _," ان کے الفاظ سن کر انہیں شرم محسوس ہوئی، رستم بھی شرمندہ ہوکر بول اٹھا - یہ ملازمین کی غلطی تھی میرے حکم سے ایسا نہیں ہوا _,"
★_ اب رستم نے بے تکلفی کے انداز میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ترکش میں سے تیر نکالے اور ان کو ہاتھوں میں لے کر کہا - ان تکلو سے کیا ہوگا ؟ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جواب میں بولے - آگ کی لو اگرچہ چھوٹی ہوتی ہے لیکن پھر بھی آگ ہے،
رستم نے ان کی تلوار کے نیام کو دیکھ کر کہا - یہ کس قدر بوسیدہ ہے _," جواب میں انہوں نے کہا - ہاں، لیکن تلوار کی دھار ابھی تیز کی گئی ہے _,"
★_ اب رستم نے کہا - میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں اب بھی وقت ہے واپس چلےجاؤ، ہم تمہیں نہیں روکیں گے، بلکہ کچھ انعام و اکرام دے کر رخصت کریں گے_,"
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا - ہماری بس تین باتیں ہیں ، اسلام کو قبول کرو یا جزیہ دینا منظور کرو ورنہ اس تلوار سے فیصلہ ہوگا _,"
★_ یہ سن کر رستم غصے میں بھڑک اٹھا ، اس نے چیخ کر کہا - سورج کی قسم ! میں کل سارے عرب کو برباد کر دوں گا _,"
اس طرح یہ بات چیت بھی ناکام ہوگئی , رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا رہا تھا لیکن اس بات چیت کے بعد اس قدر طیش میں آیا کہ اس نے اسی وقت فوجیوں کو تیاری کا حکم دے دیا ، درمیان میں ایک نہر تھی ، اس نے حکم دیا - صبح ہونے سے پہلے پہلے نہر کو پاٹ دیا جائے تاکہ راستہ صاف ہو جائے،
★_ صبح تک لہر کو پاٹا جا چکا تھا اور لشکر کے گزرنے کے لئے سڑک بنا دی گئی تھی، دوپہر تک تمام فوج نہر کے دوسری طرف جا چکی تھی، اب رستم نے دہری زرہ پہنی سر پر خود رکھا ، ہتھیار لگائے ، پھر اپنا خاص گھوڑا طلب کیا ، اس پر سوار ہو کر پرجوش لہجے میں بولا- میں سارے عرب کو چکنا چور کر دوں گا _,"
کسی سپاہی کے منہ سے یہ الفاظ نکل گیے، ہاں اگر خدا نے چاہا _," یہ سن کر اس نے کہا - اگر خدا نے نہ چاہا تو میں تب بھی عرب کو برباد کر دوں گا ،
*"_ قادسیہ کی جنگ _,*
★_ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہو گئی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قائدے کے مطابق تین نعرے لگائے ، چوتھے نعرے میں جنگ شروع ہو گئی, دیر تک دونوں طرف سے بہادر میدان میں آتے رہے مقابلے ہوتے رہے, با قائدہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے،
★_ آخر دونوں فوجیں پوری طاقت سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئی ، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے ایک انوکھی تدبیر کی ، اسلامی لشکر میں ہاتھی نہیں تھے ، جبکہ ایرانیوں کے پاس ہاتھی تھے، ان کی وجہ سے اسلامی لشکر کے گھوڑے بدک جاتے تھے، حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ کئی کئی اونٹوں کو ملا کر ان پر چادر ڈال دی، چادروں میں لپٹے یہ اونٹ جب اگے لائے گئے تو ہاتھی سے بھی زیادہ خوفناک جانور نظر آئے، ان کو دیکھ کر ایرانیوں کے گھوڑے بدکنے لگے، یہ تدبیر بھی خوب کارگر رہی ،
★_ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا عرب کی مشہور شاعرہ تھیں، وہ بھی اس جنگ میں شریک تھی، ان کے چار بیٹے تھے، چاروں اسلامی لشکر میں شامل تھے اور دشمن سے لڑ رہے تھے، لڑائی شروع ہونے پر انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا - پیارے بیٹوں ! جاؤ .. دشمن سے لڑو ... اور اخر تک لڑو _,"
★_ چاروں ایک ساتھ آگے بڑھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑے، جب لڑتے اس قدر دور نکل گئے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے کہا - اے اللہ ! میرے بیٹوں کی حفاظت فرما _,"
اس روز جنگ میں دو ہزار مسلمان شہید ہوئے ، ان کے مقابلے میں دس ہزار کے قریب ایرانی مارے گئے یا زخمی ہوئے، فتح اور شکست کا فیصلہ نہ ہو سکا ، سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی دونوں لشکر واپس پلٹ گئے ،
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شام سے ساد سوں سوار بھیجے تھے، وہ بھی پہنچ گئے، ان کے پہنچنے پر خوب نعرے گونجے ، شام سے آنے والے دستے کے سالانہ ہشام تھے، انہوں نے آتے ہی فوج سے خطاب کیا :- تمہارے بھائیوں نے شام فتح کرلیا ہے، ایران کی فتح کا جو وعدہ تم سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ بھی پورا ہوگا _,"
★_ پھر جنگ کا آغاز ہوا ، ایرانیوں کی فوج میں دو ہاتھی بہت بڑے خوفناک تھے ، باقی ہاتھی ان کے پیچھے چلتے تھے، مسلمانوں کے گھوڑے سب سے زیادہ ان دو ہاتھوں سے ڈر رہے تھے ، ان سب کا جائزہ لینے کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت قعقع رضی اللہ عنہ اور ان کے خاص ساتھیوں کو بلا کر کہا - ہاتھیوں کی مہم اب تمہارے ہاتھ میں ہے، ان کی آنکھیں پھوڑ دو اور سونڈیں کاٹ دو ، یہ بیکار ہو جائیں گے _,"
★_ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے کچھ سوار پیدل مجاہد ہاتھیوں کی طرف روانہ کئے ، اس کے بعد خد آگے بڑے، ہاتھ میں نیزا تھا، ان دو بڑے ہاتھیوں میں سے ایک کی طرف برے ، عاصم رحمت اللہ ان کے ساتھ ساتھ تھے، دونوں نے ایک ساتھ تاک کر نیزے مارے ، دونوں نیزے ہاتھی کی دونوں آنکھوں میں لگے ، ہاتھی نے ایک زبردست جھرجھری لی اور پیچھے ہٹا، ساتھ ہی تلوار زور سے اس کی سونڈ پر ماری کہ سونڈ کٹ کر گر گئی،
★_ دوسری طرف ان کے ساتھیوں نے دوسرے ہاتھی پر حملہ کیا، وہ بھی زخمی ہوا اور الٹا بھاگا، اب تمام ہاتھی بھی ان دونوں ہاتھیوں کے پیچھے بھاگے، اس طرح اسلامی فوج کو اس سیاہ مصیبت سے نجات ملی، اب انہیں گھوڑے بدکنے کی پریشانی نہیں رہی تھی، اس زور کی جنگ ہوئی کہ نعروں کی گونج سے زمین ہلنے لگی ،
★_ دونوں لشکروں پر جوش کا ایک ایسا عالم طاری ہوچکا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد بھی لڑائی بند نہ ہو سکی یہاں تک کہ رات ہوگئی، لڑائی پھر بھی نہ رکی، آخر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے چند بہادروں کو ساتھ لیا اور رستم کی طرف رخ کیا ، رستم اس وقت اپنے تخت پر بیٹھا تھا، اس نے انہیں اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو تخت پر بیٹھا نہ رہ سکا، نیچے اترا ، اس نے بھی اپنی تلوار سونت لی اور مردانہ وار جنگ کرنے لگا، بہت دیر تک لڑتا رہا یہاں تک کے زخموں سے چور ہو گیا اور بھاگ نکلا ،
★_ بلال نامی ایک صحابی نے اس کا پیچھا کیا، ایسے میں ایک نہر سامنے آگئی ، رستم کود پڑھا کہ تیر کر نکل جائیں، بلال بھی گھوڑے سے کود پڑے، اسے ٹانگوں سے پکڑ کر نہر سے نکال لائے، پھر تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا، انہوں نے لاش کھچر کے پیروں کے پاس ڈال دی اور خود تخت پر چڑھ کر پکار اٹھے - میں نے رستم کو قتل کر دیا ہے _,"
★_ ایرانیوں نے تخت کی طرف دیکھا، اس پر رستم نہ تھا، بس پھر کیا تھا پوری فوج میں بھگدڑ مچ گئی، مسلمانوں نے دور تک ان کا پیچھا کیا،
★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خبر سننے کو بری طرح بے چین تھے، بے چینی کے عالم میں آپ روزانہ صبح سویرے سے باہر نکل آتے اور قاصد کی راہ دیکھتے رہتے، جب قاصد کے آنے کی امید نہ رہ جاتی تب واپس لوٹتے ،
★_ اسی طرح ایک دن قاصد کے انتظار میں دور تک نظر جمائے کھڑے تھے کہ ایک سوار آتا نظر آیا ، وہ اونٹ پر سوار تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے نزدیک آنے کا انتظار نہ کیا، خود اس کی طرف دوڑ پڑے ، وہ حضرت سعد کا قاصد تھا، سیدھا میدان جنگ سے چلا آ رہا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا- کہاں سے آرہے ہو ؟ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتا نہیں تھا چنانچہ لاپرواہی کے عالم میں بولا - قادسیہ سے آ رہا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے بےتابانہ پوچھا - جنگ کی کیا خبر ہے ؟, اس نے بتایا- اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی _,"
★_ یہ کہتے ہوئے وہ آپ کے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گیا، اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگے، ساتھ ساتھ جنگ کے حالات پوچھتے جاتے تھے اور دوڑتے جاتے تھے، یہاں تک کہ اسی حالت میں قاصد مدینہ منورہ میں داخل ہوگیا ، اب جو لوگ سامنے آرہے تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فوراً کہا - امیرالمومنین ! اسلام علیکم... امیرالمومنین ! اسلام علیکم _,"
★_ اب قاصد کو معلوم ہوا کہ یہ شخص اتنی دور سے اس کے اونٹ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا آ رہا ہے وہ تو مسلمانوں کے حکمران ہیں یعنی دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں جن سے قیصر و کسریٰ تھر تھر کانپ رہے ہیں، یہ معلوم ہوتے ہی وہ لرز گیا، فوراً اپنے اونٹ سے نیچے اتر آیا، پریشانی کے عالم میں بولا - امیرالمومنین ! مجھے معاف کر دیجیے، میں آپ کو پہچانتا نہیں تھا _,"
"_ کوئی حرج نہیں ، تم فکر نہ کرو بس جنگ کے حالات سناتے رہو اور اونٹ پر سوار ہو جاؤ میں اسی طرح تمہارے ساتھ ساتھ چلوں گا _,"
★_ چنانچہ اسے پھر اونٹ پر سوار ہونے پر مجبور کر دیا، آپ اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے جنگ کے بارے میں پوچھتے رہے یہاں تک کہ گھر آ گیا ، اب آپ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فتح کی خوشخبری سنائی، ایک زبردست تقریر مسلمانوں کے سامنے کی، آخر میں فرمایا :- "_ مسلمانوں ! میں بادشاہ نہیں کہ تمہیں غلام بنانا چاہتا ہوں، نہیں ! میں تو خود اللہ تعالی کا غلام ہوں, البتہ خلافت کا بوجھ میرے سر پر رکھ دیا گیا ہے، اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوو تو یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے اور اگر میں یہ خواہش کروں کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو یہ میرے لئے بدبختی کی بات ہوگی، میں تمہیں تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے نہیں ، عمل سے .._,"
*"_ مدائن کی فتح اور صحابہ کا دریا دجلہ میں گھوڑے ڈال دینا _,*
*★_ ادھر ایرانی قادسیہ سے بھاگے تو بابل پہنچ کر دم لیا ، یہ ایک محفوظ اور بڑا مقام تھا ، یہاں آکر ایک بار پھر انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کر دی، فروزان کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کر لیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ ١٥ ہجری میں بابل کی طرف بڑھے، بابل میں ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اس کے باوجود یہ لوگ اسلامی لشکر کے پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے،
★_ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بابل میں ٹھہرے، البتہ کچھ فوج آگے روانہ کر دی، اس کا سالار انہوں نے زہرہ کو مقرر فرمایا، ایرانی فوج بابل سے فرار ہوکر کوسی پر پہنچ گئی ، یہاں ایرانیوں کا سالار شہریار تھا ، زہرہ کوسی کے مقام پر پہنچے اور شہریار کو شکست دے کر آگے بڑھے،
★_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن کے لئے روانہ ہوئے، آگے بڑھے تو ان کے سامنے دریا دجلا تھا اس پر جہاں جہاں پر پل بنے ہوئے تھے ایرانیوں نے مسلمانوں کی آمد کی خبر پا کر سب توڑ دیے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب دریا کے کنارے پہنچے تو وہاں نہ کوئی پل تھا نہ کشتی ،
★_ آپ نے فوج سے مخاطب ہو کر کہا :- برادران اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے, تم یہ مہم بھی سر کر لو پھر میدان صاف ہے_,"
یہ کہہ کر آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا, انہیں دیکھ کر فوج نے بھی ہمت کی اور سب دریا میں اتر گئے، دریا میں بہت طغیانی تھی اور وہ موجیں مار رہا تھا، موجیں گھوڑوں سے آکر ٹکراتی رہیں اور یہ رقاب سے رقاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ فوج کی ترتیب تک میں فرق نہ آیا _,
★_ دوسری طرف ایرانی حیرت زدہ انداز میں یہ منظر دیکھ رہے تھے، فوج جب کنارے کے قریب پہنچیں تو انہیں خیال آیا، یہ انسان نہیں ہیں، چناچہ چلا اٹھے - دیو آ گئے ... دیو آ گئے _,"
یہ کہتے ہوئے خوف زدہ ہو کر بھاگے،
★_ ان کے سپہ سالار خزاؤں کی فوج نے مسلمانوں پر تیروں کی بارش شروع کر دی، مسلمانوں نے ان تیروں کی کوئی پرواہ نہ کی اور برابر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ تیر اندازوں کو ملیامیٹ کردیا ، یزدگرد نے جب یہ خبر سنی تو شہر چھوڑ کر نکل بھاگا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا _,"
*"_مدائن کی فتح اور مال غنیمت _,*
★_ فوج نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی، اس طرح یہ وہاں پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا، اسلامی لشکر کو وہاں سے بہت مال غنیمت ہاتھ آیا ، نوشیروان سے لے کر موجودہ دور تک کی تمام قیمتی چیزیں لا کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈھیر کر دی گئی،
★ ان میں ہزاروں زرہیں ، تلواریں، خنجر، سونے کے تاج اور شاہی لباس تھے، سونے کا ایک گھوڑا بھی تھا اس پر چاندی کی زین کسی ہوئی تھی، سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے، چاندی کی ایک اونٹنی تھی، اس پر سونے کی پالان تھی ، اس کی مہار میں یاقوت پروئے ہوئے تھے، سوار بھی سر سے لے کر پاؤ تک جواہرات سے اٹا پڑا تھا، ان سب سے زیادہ عجیب ایک قالین تھا ، ایرانی اس قالین کو بہار کے نام سے پکارتے تھے، اس قالین پر درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے یعنی پورا باغ تھا اور یہ سب کا سب جواہرات سے تیار کیا گیا تھا، یعنی سونے چاندی اور موتیوں سے تیار کیا گیا تھا،
★_ یہ سب کا سب سامان مجاہدین کو ملا تھا لیکن کیا مجال کہ کسی نے اس میں سے کوئی چیز خود اٹھائیں ہو ، جو چیز جس حالت میں پائی سالار کے آگے رکھ دی، جب یہ سارا سامان لا کر سجایا گیا یا تو دور دور تک میدان جنگ جگمگا اٹھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ حیرت زدہ رہ گئے،
★_ مال غنیمت قاعدہ کے مطابق تقسیم کیا گیا اور پانچواں حصہ دربار خلافت کو بھیج دیا گیا ، فرش اور قدیم یادگاریں جوں کی توں بھیج دیی گئیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ سارا سامان چنا گیا تو آپ کو بھی فوج کی دیانت پر حیرت ہوئی ،
مدینہ میں ایک شخص محالم نامی رہتا تھا وہ بہت لمبے قد تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا - نوشیرواں کے لباس لا کر محالم کو پہنائے جائیں،
یہ لباس مختلف حالتوں کے تھے سواری کا الگ، دربار کا الگ، جشن کا الگ ، مبارک بادی کا الگ ،
★_ چنانچہ باری باری یہ سب اسے پہنائے گئے، جب اسے خاص لباس پہنا کر تاج سر پر رکھا گیا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئی بہت دیر تک اسے حیرت زدہ انداز میں دیکھتے رہے،
قالین کے بارے میں لوگوں کی رائے تھی کہ اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے لیکن پھر کاٹ کر تقسیم کر دینے کا فیصلہ ہوا ،
★_ مدائن کے بعد صرف جلولہ باقی رہ گیا تھا، مدائن سے بھاگ کر ایرانی یہاں جمع ہو گئے تھے اور جنگ کی تیاری کر رہے تھے، خرزاد رستم کا بھائی اس کا سالار تھا، اس نے شہر کے گرد خندق تیار کرا دیں، راستوں اور گزرگاہوں پر دو گوکھرد ( لوہے کی کیلے ) بچھوادی ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا ، وہاں سے حکم آیا - ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائے _,"
★_ اس طرح ہاشم بن عتبہ 12 ہزار فوج لے کر جلولہ کی طرف بڑھے، چار دن بعد وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا ، آخر ایک دن ایرانی خوب تیاری کے ساتھ باہر نکلے ، مسلمانوں نے خوب جم کر ان کا مقابلہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی فرمائی، ایک زبردست آندھی آئی، جس سے گھپ اندھیرا ہو گیا ، ہزاروں ایرانی اندھیرے کی وجہ سے خندق میں گر گئے، ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا، اس کا اندازہ تین کروڑ لگایا گیا ،
★ _ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوش خبری کے ساتھ مال غنیمت کا پانچواں ہسہ مدینہ منورہ بھجوایا ، یہ خوش خبری لے کر زیاد رح گیے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ انسے جنگ کے حلات سنے، فر تمام مسلمانو کو جمع ہونے کا حکم فرمایا اور زیاد رح.سے فرمایا - میں سب کے سامنے تمام واقعات بیان کریں" انہوں نے بھرے مجمع کو حالات سنانے اور اس طرح بیان کیا کہ پورا منظر لوگو کو نظر آنے لگا ، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے - خطیب اسے کہتے ہیں _ ، "
★ _ مال غنیمت کا مسجد کے سہن میں ڈھیر کر دیا گیا .. لکین اس وقت تک اندھیرا پھیل چکا تھا چنانچہ صبح تسمیم کرنے کا فیصلہ ہوا ، سبح کے وقف لوگو کے سامنے مال غنیمت سے چادر ہٹائی گئی ، درہم و دینار کے علاواہ جواہیرات کے بھی امبار لگے ہوئے تھے ، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انو بے ساختہ رو پڑے ،
★_ لوگ انکے رونے پر بہت ہیران ہوئے کہ یہ رونے کا کونسا موقع ہے ، یہ تو خوشی کا موقع ہے ، لوگوں کو ہیراں دیکھ کر اپنے فرمایا - جہان مال و دولت آتی ہے ، وہان رشک و حسد بھی ساتھ آتا ہے _ ، "
★ _ یزدگرد کو جلولا میں ایرانیوں کی شکشت کی کھبر ملی تو وو حلوان کو چھوڑ کر رے کی ترف چالا گیا ، حلوان میں چند دستے فوج کے چھوڈ گیا ، اسکا سالار خسرو شانوم کو مقرر کیا تھا ،
اب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت قعقع رضی اللہ تعالی عنہ کو حلوان کی ترف روانہ کیا ، یہ حلواں سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ خسرو خود آگے بڑھ آیا ، پہلے تو اسنے ڈٹ کر مقابلہ کیا لکین پھر شکشت کے آسار دیکھ کر بھاگ نکلا ، اس طرح حلوان بھی مسلمانو کے قبضے میں آ گیا ،
★ _ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ نے امن کا اعلان کرا دیا ، اس طرح چارو طرف سے ایرانی انکی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور جزیہ قبول کر نے لگیں ، اس طرح یہ لوگ اسلام کی حمایت میں آ گئے ، اس مقام پر عراق کی حد ختم ہو جاتی تھی ، اس علاقے کے فتح کے ساتھ ہی ہورا ایراں فتح ہو گیا ، اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایران کے فتوحات کا سلسلہ مکممل ہو گیا ،
★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شام کے فتوحات کا سلسلہ جاری تھا اور دمشق فتح ہو چکا تھا، دمشق کی فتح نے رومیوں میں آگ سی لگا دی، دمشق کی فتح کے بعد مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا، اس لئے رومیوں نے اردن کے شہر بسان میں فوج جمع کر لی، اس طرح وہاں چالیس ہزار کے قریب رومی لشکر جمع ہوگیا، اس لشکر کے سالار کا نام سکر تھا ،
★_ شام کا ملک چھ ضلعوں میں تقسیم تھا ان میں دمشق ہمس، اردن اور فلسطین ضلعے مشہور تھے ،
★_ رومیوں نے وہاں جس قدر بھی نہریں تھی ان سب کے بند توڑ دئے، اس طرح وہاں پانی ہی پانی ہوگیا ، کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب بھلا ان سے کب رک سکتا تھا، اسلامی لشکر پھر بھی بسان پہنچ گیا، ان کی یہ مضبوطی دیکھ کر عیسائی لشکر نے صلح کا پیغام بھیجا لیکن صلح نہ ہوسکی، جنگ شروع ہوئی، تقریبا ایک گھنٹہ جنگ جاری رہی، آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بری طرح بدحواس ہو کر بھاگے،
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کی خوشخبری مدینہ منورہ بھیجیں اور امیرل مومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معلوم کروایا کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ، ادھر سے جواب آیا - رعایا کو ذمی قرار دیا جاے اور زمین بادستور زمین داروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے،
★_ اس عظیم الشان فتح کے بعد اردن کے تمام شہر آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، ہر مقام پر یہ لکھ کر دیا گیا - فتح کیے گئے لوگوں کی جان ومال گرجے اور دوسری عبادت گاہیں سب کی سب محفوظ رہیں گی، صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کسی قدر زمین لی جائے گی _,"
یعنی کسی کے ساتھ بھی کوئی ناگوار سلوک نہیں کیا گیا, جبکہ رومی اور ایرانی فتح کیے گئے علاقوں کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے تھے ،
*"_حمص کی فتح _*
★ _ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا ، شام کے تمام ضلعو میں یہ ایک بڑا ضلع تھا ، پرانا شہر تھا ، اردن کے بعد صرف تین شہر باقی ری گیے تھے ، ان تینوں کے فتح ہونے کا متلب تھا پورا شام فتح ہو گیا ، ی تینوں شہر بیت المقدس ، حمص اور انطاکیہ ، انطاکیہ میں خد ہرقل موجود تھا ، ان تینوں شہروں میں حمص زیادہ قریب تھا ، اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پہلے اسی کا رخ کیا،
★_ حمص کے نزیدک رومیو نے خود آگے بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا ، ایک بڑی فوج حمص سے نکلی ، جوسیہ کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سمنے آ گیں ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے،
★ _ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نی مصیرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کی طرف روانہ کیا ، راستے میں رومیوں کی شکست کھائی ہوئی فوج سے مقابلہ ہوتا رہا ، ان مقابلوں میں بھی مسمانو کو فتح ہوئی ،
★ _ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حمص کا رخ کیا ، حمص کو گھیرے میں لیا گیا ، موسم بہت سرد تھا ، رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان سردی کا مقبلہ نہیں کر سکیں گے ، ہرقل کا بھی انہیں پہنچ چکا تھا کہ بہت جلدی مدد پہنچ جایگی اور ہرقل ایک بڑا لشکر روانہ بھی کر چکا تھا ، لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی لللہ عنہ نے اس لشکر کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے اسلامی لشکر بھیج دیا ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس وقت عراق کی مہم پر تھے ، انکے لشکر نے رومی فوج کو وہیں روک لیا اور وہ حمص نہ پہنچ سکی ،
★_ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، راستے میں جو علاقے آتے گئے وہ آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ لازکیہ تک پہنچ گئے ، لازکیہ بہت پرانا شہر تھا، اس کی مضبوطی کو دیکھ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فاصلے پر پڑاؤ کیا،
★_ یہاں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عجیب حکمت عملی اپنائی، آپ نے میدان میں کھائیاں خدوای ، یہ اس طرح خودی گئی کہ دشمن کو پتہ نہ چل سکا، پھر ایک دن فوج کو کوچ کا حکم دے دیا ، رومیوں نے لشکر کو واپس جاتے دیکھ لیا، وہ سمجھے کہ مسلمان مایوس ہو کر چلے گئے، لیکن ہوا صرف یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں اسلامی لشکر نہایت خاموشی سے لوٹ آیا تھا اور کھائیوں میں چھپ گیا تھا،
★_ ادھر رومی اس لمبے محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمان جا چکے ہیں تو شہر کے دروازے کھول کر باہر نکل آئے اور روز مرہ کے کاموں میں بے فکری سے مشغول ہو گئے، یہی وقت تھا جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا، وہ کھائیوں سے نکل آئے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا، اس طرح شہر فوراً فتح ہوگیا،
★_ حمص کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے پایہ تخت کا رخ کرنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم آیا کہ اس سال اور آگے نہ بڑھو، چناچہ روانگی روک دی گئی، فتح کیے علاقوں میں بڑے بڑے افسروں کو بھیج دیا گیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دمشق چلے گئے ، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اردن میں قیام کیا ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ خود حمص میں ٹھہرے،
*"_ یرموک کی تیاری_,*
★_ دمشق اور حمص سے شکست کھا کر رہی یہودی انطاکیا پہنچے، انہوں نے ہرقل سے فریاد کی کہ عربوں نے تمام شام فتح کرلیا ہے ، ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور ان سے کہا - عرب تم سے تاق میں اور سازوسامان میں کم ہیں... پھر بھی تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکے ؟
★_ ان کے سر شرم سے جھک گئے ، کوئی کچھ نہ بولا، آخر ایک بوڑھے نے کہا - عربوں کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں ، وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بھائیوں کی طرح ملتے ہیں ، کوئی خود کو دوسرے سے بڑا نہیں سمجھتا جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ شراب پیتے ہیں ، بدکاری کرتے ہیں ، عہد کی پابندی نہیں کرتے، دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش پایا جاتا ہے، ہم میں جوش اور جذبہ نہیں ہے ،
★_ اس بات چیت کے بعد قیصر نے روم قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیا غرض ہر طرف احکامات بھیجے کہ تمام فوجیں پایہ تخت انطاکیہ میں ایک مقررہ تاریخ کو جمع ہو جائیں، اس نے تمام ضلعوں کے افسروں کو لکھا کہ جس قدر آدمی جہاں سے بھی مہیا ہو سکیں ، روانہ کر دیے جائیں، ان احکامات کے پہنچتے ہی ہر طرف سے انسانوں کا سیلاب انطاکیہ کی طرف چل پڑا ، انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی تھی فوجیں ہی فوجیں نظر آتی تھی ،
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر مل چکی تھی، انہوں نے سب کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی ، اس تقریر میں آپ نے فرمایا - مسلمانوں ! اللہ تعالی نے تمہیں بار بار چانچا .. تم ہر بار اس کی جانچ میں پورے اترے ، اس کے بدلے اللہ تعالی نے بھی تمہیں کامیابیاں عطا فرمائیں.. اب تمہارا دشمن اس سازوسامان سے تمہارے مقابلے میں آیا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے ،... اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو ؟
★_ آخر کار یہ مشورہ ہوا کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق کی طرف روانہ ہو جائیں ، وہاں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور عرب کی سرزمین وہاں سے قریب ہے،
جب یہ بات طے ہوگئی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے حبیب بن مسلمہ کو بلایا، یہ افسر خزانہ تھے ، آپ نے ان سے فرمایا :-
"_ ہم عیسائیوں سے جزیہ لیتے رہے ہیں اس کے بدلے ان کی حفاظت کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتے، لہذا اس وقت تک ان سے جتنا جزیہ لیا ہے، وہ سب کا سب انہیں واپس کر دیں اور ان سے کہہ دیں کہ ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے اس لئے جزیہ واپس کرتے ہیں، کیونکہ جزیہ دراصل حفاظت کرنے کا معاوضہ ہوتا ہے _,"
★_ جب یہ لاکھوں کی رقم واپس کی گئیں تو عیسائیوں پر اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ رونے لگے، روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے :- خدا تمہیں واپس لائے _,"
یہودیوں پر بھی بہت اثر ہوا انہوں نے کہا - تورات کی قسم ! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا_,"
★_اور پھر انہوں نے شہر کے دروازے بند کرلئے.. جگہ جگہ پہرے بٹھا دئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ سلوک صرف حمص والوں ہی سے نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ، ہر جگہ لکھ بھیجا - جزیہ کی جس قدر رقم وصول کی ہے ساری کی ساری واپس کر دی جائے _,"
★_ غرض اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے، انہوں نے ان تمام حالات کی خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کر دی ، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم ہوا کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص چھوڑ کر چلے آئے ہیں تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ فوج کے تمام افسران کا فیصلہ یہی تھا تب انہیں اطمینان ہوا ، آپ نے فرمایا- اللہ تعالی نے کسی مصلحت کے تحت ہی تمام مسلمانوں کو اس رائے پر جمع کیا ہوگا _,"
★_ پھر آپ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا :- "_ میں مدد کے لئے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیج رہا ہوں لیکن فتح اور شکست فوج کی زیادتی پر نہیں ہے _,"
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا، ابھی مشورہ ہو رہا تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قاصد خط لے کر پہنچا، خط کا مضمون یہ تھا :- "_ اردن کے ضلعوں میں عام بغاوت پھیل گئی ہے، رومیوں کی ہر طرف سے آمد نے ہر طرف ہلچل مچا دی ہے افراتفری پھیل گئی ہے ، حمص چوڑ کر چلے آنے سے بہت نقصان ہوا ہے، ہمارا رعب اٹھ گیا _,"
★_ اس خط کے جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہوں نے لکھا :- "_ ہم نے حمص کو ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصد یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں وہ سب ایک جگہ جمع ہو جائیں، .. اور آپ وہیں ٹھہرے ، ہم آرہے ہیں _,"
دوسرے دن انہوں نے اردن کی حدود میں پہنچ کر یرموک کے مقام پر قیام کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی ان سے یہی آ ملے _,"
★_ یہ مقام جنگ کے لئے اس وجہ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد یہاں سے قریب ترین تھی ، اسلامی لشکر کو یہ فائدہ تھا کہ جہاں تک چاہتے ہٹ سکتے تھے، حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بھی ایک ہزار کا لشکر لے کر وہاں پہنچ گئے ،
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک اور خط حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا، اس کے الفاظ یہ تھے :- رومی خشکی اور سمندر سے ابل پڑے ہیں حالانکہ ان کے جوش کا یہ عالم ہے کہ فوج جس راستے سے گزرتی ہے وہاں کے راہب اور پادری بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے جا رہے ہیں، ان لوگوں نے کبھی بھی عبادت خانوں سے قدم باہر نہیں نکالے تھے، یہ سب مل کر اپنی فوج کو جوش دلا رہے ہیں _,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خط ملا تو انہوں نے تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کرلیا اور انہیں پڑھ کر سنایا، تمام صحابہ بے اختیار رو پڑے اور نہایت پر جوش انداز میں پکار اٹھے :- اے امیر المومنین ! ہمیں اجازت دیجئے ہم بھی جاتے ہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر دین پر نثار ہوتے ہیں _,"
اب تو مہاجرین اور انصار کا جوش بےتحاشا بڑھ گیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے نام ایک جوردار خط لکھا اور قاصد سے فرمایا - تم خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنا نا _,"
★_ قاصد خط لے کر پہنچا، اس نے ایک ایک صف میں جاکر خط سنایا ،اس سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا، انہونے پرجوش انداز میں تیاری شروع کر دی، دوسری طرف رومی لشکر بھی خوب سازوسامان سے لیس ہو کر آگے بڑھے، ان کی تعداد دو لاکھ سے کہیں زیادہ تھی، کل فوج کی چوبیس صفیں تھی، فوج کے آگے مذہبی پیشوا پادری وغیرہ ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلا رہے تھے، آخر دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں اور یرموک کا میدان تھا،
★_ رومی باری باری اپنے لشکر سامنے لاتے رہے، انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے دستوں کے مقابلے میں الگ الگ فوجیں آگے بھیجیں، لیکن ان سب نے باری باری شکست کھائی ،
★_ رومی سپہ سالار باہان نے رات کے وقت اپنے سرداروں کو جمع کیا اور کہا :- عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ گیا ہے... بہتر یہ ہے کہ مال و دولت دے کر انہیں ٹالا جائے _,"
اس رائے سے سب نے اتفاق کیا, دوسرے دن انہوں نے ایک قاصد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا، اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا - "_ہمارے سپہ سالار چاہتے ہیں آپ بات چیت کے لئے کسی افسر کو بھیجیں_,"
★_ اس وقت مغرب کی نماز کا وقت ہو چلا تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے ٹھکرایا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں ، وہ انہیں نماز پڑھتے ہوئے حیرت زدہ انداز میں دیکھتا رہا، نماز ہو چکی تو اس نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا - "_ حضرت عیسیٰ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے ؟
جواب میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیات 171 تلاوت کی :-
"_ (ترجمہ ) _ اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی شان میں سوائے پکی بات کے نہ کہو، بے شک مسیحی عیسیٰ مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کا ایک کلمہ ہیں جنہیں اللہ نے مریم تک پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہیں، سو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں، اس بات کو چھوڑ دو، تمہارے لیے بہتر ہو گا، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کارساز کافی ہے ، مسیحی خدا کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہیں کرے گا اور نہ مقرب فرشتے اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا اللہ تعالٰی ان سب کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا _,"
★_ مترجم نے جب اس آیت کا ترجمہ قاصد کے سامنے کیا تو وہ بے اختیار پکار کر بولا - بے شک عیسٰی علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے _,"
یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا .. ساتھ ہی اس نے کہا :- بس اب میں اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جاؤں گا _,"
★_ اس پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے قاصد سے کہا - اس طرح رومی کہیں گے کہ مسلمانوں نے بے عہدی کی.. ہمارے قاصد کو روک لیا .. لہذا تم اس وقت تو چلے جاؤ.. کل جب ہمارا قاصد وہاں سے آے تم اس کے ساتھ چلے آنا _," اس نے یہ بات مان لی,
★_ دوسرے دن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رومیوں کے لشکر میں پہنچے، رومیوں نے انہیں اپنی شان و شوکت دکھانے کے زبردست انتظامات کر رکھے تھے، راستے کے دونوں طرف سواروں کی صفیں قائم کی تھی، وہ سر سے لے پیر تک لو لوہے میں غرق ھے لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ ذرا بھی ان سے مرعوب نہ ہوئے، الٹا حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے گزرتے چلے گئے، بالکل ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے شیر بکریوں کے ریوڑ کو چرتا آگے بڑھ رہا ہے، ( غور کرو مسلمانوں کبھی ہمارا یہ حال تھا .. آج ہم دین کی محنت کو چھوڑ کر کس حال میں پہنچ گئے ہیں )
★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ باہان کے خیمے کے پاس پہنچی تو اس نے بہت احترام سے آپ کا استقبال کیا اور اپنے برابر بٹھایا ، مترجم کے ذریعے بات چیت شروع ہوگئ، پہلے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف کی پھر قیصر کے بارے میں بولا :- ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے ...," ابھی وہ یہاں تک کہہ پایا تھا کہ حضرت خالد بول اٹھے :- تمہارا بادشاہ ضرور ایسا ہوگا، لیکن ہم نے جس شخص کو اپنا سردار بنا رکھا ہے اگر اسے ایک لمحے کے لیے بادشاہت کا خیال آجائے تو ہم فوراً اسے معزول کر دیں _,"
★_ باہان نے ان کے خاموش ہونے پر پھر اپنی تقریر شروع کی :- اے اہلِ عرب ! تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے ، ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کیا ، ہمارا خیال تھا ہمارے اس سلوک کی وجہ سے پورا عرب ہمارا شکر گزار ہوگا لیکن اس کے خلاف تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے، اب تم چاہتے ہو کہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو، تم نہیں جانتے اس سے پہلے بھی بہت قوموں نے ایسا کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے، اب تم آئے ہو ، تم سے زیادہ جاہل اور بے ساز و سامان قوم اور کوئی بھی نہیں ، اس پر تم نے یہ جرائت کی، .. خیر .. درگزر کرتے ہیں .. اگر تم یہاں سے چلے جانا منظور کر لو تو ہم انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار دینار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دینگے _,"
باہان یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گیا،
★_ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا :- بے شک تم دولت مند ہو ، حکومت کے مالک ہو .. تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی ہمیں معلوم ہے .. لیکن یہ تم نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ یہ تمہارا اپنے دین کی اشاعت کا طریقہ تھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ عیسائی ہوگئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہیں ... یہ بھی درست ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے، ہمارا حال یہ تھا کہ طاقتور کمزور کو کچل دیتا تھا، قبائل آپس میں لڑ لڑ کر مر جاتے تھے، ہم نے بہت سے خدا بنا رکھے تھے انہیں پوچھتے تھے، اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے،
★_ اللہ تعالی نے ہم پر رحم فرمایا اور ہم میں ایک پیغمبر بھیجا، وہ خود ہماری قوم سے تھے، سب سے زیادہ شریف پاکباز اور سخی تھے، انہوں نے ہمیں توحید کا سبق دیا، ہمیں بتایا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد، وہ بالکل یکتا ہے، انہوں نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کریں... جو ان کو مان لے وہ مسلمان ہے ، ہمارا بھائی ہے، جو انکار کرے وہ جزیہ دینا قبول کرے، ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، .. جو ان دونوں باتوں سے انکار کرے گا اس سے ہم جہاد کریں گے _,"
★_ باہاں نے یہ سن کر سرد آہ بھری اور بولا :- ہم کسی قیمت پر بھی جزیہ نہیں دیں گے ... ہم تو جزیہ لیتے ہیں، دیتے نہیں _,"
اس طرح کوئی بات طے نہ ہو سکی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ واپس آگئے، چنانچہ لڑائی کی تیاری شروع کر دی گئی،
★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے بولا :- تم نے سنا، یہ کیا کہہ گئے ہیں .. ان کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ، جنگ نہیں ٹل سکتی .. کیا تمہیں ان کی غلامی منظور ہے ؟_,"
وہ سب کے سب پرجوش انداز میں بول اٹھے :- ہم مر تو جائیں گے، ان کی غلامی قبول نہیں کریں گے _," چنانچہ جنگ کا فیصلہ کرلیا گیا،
★_ دوسری صبح رومی لشکر اس قدر سازوسامان کے ساتھ سامنے آیا کہ مسلمان حیران رہ گئے، اسلامی فوج کی تعداد 36 ہزار تھی، جب کہ رومیوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کے 36 حصے کیے اور آگے پیچھے ان کے صفین قائم کر دی، اس طرح ان کی 36 صفے بن گئیں، فوج کے قلب یعنی درمیان پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ، دائیں حصے پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ، جب کہ بائیں بازو پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ، ان کے علاوہ ہر صف کا بھی ایک افسر تھا ، اس طرح 36 افسر مقرر کیے،
★_ اسلامی لشکر کی تعداد اگرچہ دشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن ان میں چنے ہوئے حضرات تھے، ان میں سو صاحبہ وہ تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں حصہ لیا تھا، بدری صحابہ کا تو اپنا مقام ہے، قبیلہ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی، قبیلہ ہمدان ، خولان، لحم، جذام وغیرہ کے مشہور بہادر بھی شامل تھے، ایک خاص بات یہ تھی کہ اسلامی لشکر میں خواتین بھی شامل تھیں جو مجاہدین کو مختلف خدمات اور مرہم پٹی وغیرہ پر مامور تھیں،
★_ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی آواز بہت دلکش تھی، وہ فوج کے آگے سورہ انفال پڑھتے جاتے تھے،
آخر جنگ شروع ہوئی، ابتدا رومیو کی طرف سے ہوئی، صحابہ نے اس موقع پر اس شدت سے جنگ کی کہ رومیوں کی صفیں درہم برہم ہو گئی،
★_ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے کفار کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ چکے تھے، یہ ابوجہل کے بیٹے تھے ، انہوں نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور پکارے - عیسائیوں ! میں کسی زمانے میں مسلمانوں سے لڑتا رہا ہوں ، آج تمہارے مقابلے میں بھلا کس طرح پیچھے ہٹ سکتا ہوں _,"
یہ کہہ کر اپنی فوج کی طرف رخ کرکے بولے - آؤ .. آج موت پر کون بیعت کرتا ہے ؟ چار سو مجاہدین نے موت پر ان سے بعیت کی، ان میں ضرار بن ازد بھی تھے، یہ ثابت قدمی سے لڑے یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہو گئے، یہ حضرات اگرچہ شہید ہوگئے لیکن انھوں نے رومیو کے ہزاروں آدمی کاٹ کر رکھ دیے تھے، اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حملوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ انہیں دباتے چلے گئے ،
★_ قباث بن اشیم، سعید بن جبیر زبیر ، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص ، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہم جم کر لڑے، قباث بن اشیم کا حال یہ تھا کہ نیزیں اور تلواریں ان کے ہاتھوں سے ٹوٹ کر گر رہے تھے مگر ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے تھے، نیزا ٹوٹ کر گرتا تو کہتے :- کوئی ہے جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے اللہ سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا _," لوگ فوراً تلوار یا نیزا انہیں پکڑا دیتے، وہ شیر کی طرح دشمن پر جھپٹ پڑتے ،
ابوالا نور نے تو یہاں تک کیا کہ گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے دستے سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے :- صبر اور استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبیٰ ( آخرت) میں رحمت .. دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے جانے نہ پائے_,"
اسی طرح یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بڑی بے جگری اور ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے، یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے، ایسے میں ان کے والدہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ان کی طرف نکل آئے، یہ مسلمانوں میں جوش دلاتے پھر رہے تھے، بیٹے پر نظر پڑی تو کہنے لگے :- بیٹا ! اس وقت ہر ایک بہادری کے جوہر دکھا رہا ہے، تو سپاہ سالار ہے .. تجھے شجاعت دکھانے کا زیادہ حق ہے، فوج کا ایک سپاہی بھی اگر تجھ سے بازی لے گیا تو یہ تیرے لیے شرم کی بات ہوگی _,"
★_ حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ رومیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، یہ ان کے درمیان پہاڑ کی طرح جمے کھڑے تھے، لڑ رہے تھے اور قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرتے جاتے تھے :-
"_ ( ترجمہ ) اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے اور اللہ کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں ؟"
فوج کو ساتھ لے کر آگے بڑھے اور رومیوں کی پیش قدمی کو روک کر رکھ دیا،
★_ عورتوں نے بھی اس موقع پر کمال کی بہادری دکھائی، وہ بھی رومیوں کے مقابلے پر ڈٹ گئیں، ان سے بھی مسلمانوں کو بہت ہمت ملی ، عورتوں نے چلا چلا کر یہ الفاظ کہے :- میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا _,"
★_ اب تک جنگ برابر کی جاری تھی، دونوں لشکر پوری طرح ڈٹے ہوئے تھے بلکہ رومیو کا پلہ قدر بھاری تھا، ایسے میں اچانک حضرت قیس بن بہیرہ لشکر کے پیچھے سے نکل کر سامنے آئے، انہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کے ایک حصے پر افسر مقرر کر رکھا تھا، انہیں اس حصے کے لشکر میں پچھلی طرف رہنے کا حکم تھا، وہ اس موقع پر آگے آئے اور اس طرح رومیوں پر ٹوڈے کہ رومی خود کو سنبھال نہ سکے،
★_ رومیوں نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کر ڈالی، ایڑی سے لے کر چوٹی کا زور لگا ڈالا مگر قیس بن بہیرہ کے حملے سے سے ان کے اکھڑے قدم جم نہ سکے یہاں تک کہ ان کی صفیں درہم برہم ہوگئی، ان کے ساتھ ہی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے لشکر کے قلب سے نکل کر حملہ کیا ، رومی پیچھے ہٹتے چلے گئے، ان کی پشت پر ایک نالہ تھا، وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے اس نالے کے کنارے تک پہنچ گئے ، اب جنگ اس نالے کے پاس ہونے لگی، رویوں کی لاشیں اس میں اس قدر گرنے لگیں کہ نالا بھر گیا ،
★_ ایسے میں ایک خاص واقعہ بھی ہوا ، گھمسان کی جنگ میں حباص بن قیس بڑی بہادری سے لڑ رہے تھے ، اسی دوران کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار کا وار کیا، ان کا پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا ، انہیں پتہ تک نہیں چلا کہ پاؤں کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا، کچھ دیر بعد جب پتہ چلا تو میدان جنگ میں تلاش کرنے لگے کہ میرا پاؤں کہاں ہے ؟ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعے پر فخر کیا کرتے تھے,
★_ قیس بن بہیرہ کے حملے کے بعد رومیوں کے جو پاؤں اکھڑے تو پھر جم نہ سکے، وہ بھاگتے چلے گئے ، رہی سہی کسر نالے نے پوری کر دی، مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب رومی مارے گئے اور مسلمان تین ہزار کے قریب شہید ہوئے، رومیوں کا بادشاہ قیصر اس وقت انطاکیہ میں تھا، اسے اپنے لشکر کی شکست کی خبر وہیں ملی، اس نے اسی وقت وہاں سے چلنے کی ٹھانی اور چلتے وقت یہ الفاظ کہے :- الوداع اے شام !
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یرموک کی خبر کے انتظار میں مسلسل جاگ رہے تھے، سو نہیں سکے تھے، فتح کی خبر ملی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فوراً سجدے میں گر پڑے،
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ یرموک سے واپس حمص آ گئے، انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تنصرین کی طرف بھیجا اور آپ نے حلب کا رخ کیا، دونوں علاقے فتح ہوگئے، حلب کے بعد انطاکیہ کی باری آئی، یہ قیصر کا خاص دارالحکومت تھا، رومیو اور عیسائیوں نے بڑی تعداد میں آ کر یہاں پناہ لی تھی، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہر طرف سے انطاکیہ کا محاصرہ کر لیا، چند روز بعد مجبور ہو کر عیسائیوں نے صلح کی پیشکش کی، ان مقامات کی فتح نے مسلمانوں کا رعب قائم کر دیا ،
★_ انطاکیہ کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دی، اس طرح چھوٹے چھوٹے علاقے آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے، خون کا ایک قطرہ بھی نا بہانہ پڑا ، اسی طرح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کیا اور فتح کیا، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے آس پاس کے تمام شہر فتح کرلئے،
★_ اب وہ فلسطین کی طرف متوجہ ہوئے، عیسائی قلعہ بند کر بیٹھے گئے، اس وقت تک حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے قریب قریب تمام ضلع فتح کر چکے تھے، چنانچہ فارغ ہوکر انہوں نے فلسطین کا رخ کیا، اب عیسائی ہمت ہار گئے اور انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور شرط یہ رکھی مسلمانوں کے خلیفہ خود آ کر ان سے صلح کریں، صلح نامہ ان کے ہاتھ سے لکھا جائے،
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیشکش کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، جس کے الفاظ یہ تھے :- اگر آپ خود تشریف لے آئیں تو بیت المقدس جنگ کے بغیر فتح ہو سکتا ہے، عیسائیوں نے پیشکش کی ہے کہ آپ خود آ کر صلح کریں اور صلح کی شرائط آپ خود لکھیں،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام ملا تو آپ نے بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع فرما لیا ، ان سے مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا - انہوں نے بلایا ہے تو آپ کو جانا چاہیے _,"
آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کو پسند فرمایا اور سفر کے لیے تیار ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا،
★_ آپ رجب 16 ہجری میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اس انداز سے روانہ ہوئے کہ نہ تو کوئی فوجی دستہ ساتھ لیا نہ بوڈی گارڈ، نہ خدمتگزار کی فوج ساتھ لی، نہ کسی اور قسم کا سازوسامان ساتھ لیا، یہاں تک کہ خیمہ بھی ساتھ نہ لیا ، سواری کے لئے اونٹ تھا اور صرف چند مہاجرین اور انصار ساتھ تھے،
★_ آپ نے فوج کے سالاروں کو پیغام بھیجا کہ جابیہ کے مقام پر ان سے آ ملیں، چنانچہ حضرت یزید بن ابی سفیان اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم نے اسی مقام پر آپ کا استقبال کیا ، آپ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی، دشمن کے بلندوبالا دلکش مکانات آپ کے سامنے تھے،
★_ جابیہ میں کچھ دن قیام فرمایا، عیسائیوں کو آپ کی آمد کی خبر مل چکی تھی، چنانچہ اب وہ بھی اسی مقام پر پہنچ گئے، یہ لوگ شہر کے رئیسوں میں سے تھے ، جب یہ لوگ پہنچے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے، مسلمانوں نے ان کو آتے دیکھا تو خیال کیا کہ یہ لوگ حملے کی نیت سے آگے بڑھتے چلے آ رہے ہیں چناچہ انہوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لیے،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا - کیا بات ہے تم نے ہتھیار کیوں سنبھال لیے ؟ انہوں نے آنے والوں کی طرف اشارہ کیا ، ان کے کندھوں پر تلواریں لٹک رہیں تھیں، ان کی طرف دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - گھبراؤ نہیں.. یہ لوگ تو ایمان طلب کرنے کے لئے آ رہے ہیں_,"
★_ اسی طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہوا ، اس پر دستخط کیے گئے، معاہدہ ہو چکا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فلسطین میں داخل ہونے کے ارادے سے اٹھے، ان کے لیے ایک عمدہ نسل کا گھوڑا لایا گیا، آپ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخی دکھانے لگا، آپ اس پر بھی سوار نہ ہوئے اور پیدل بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے،
★_ بیت المقدس نزدیک آیا تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے سالار استقبال کے لئے آئے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لباس بہت معمولی تھا، اس لیے اس کو دیکھ کر ان حضرات نے سوچا - آپ کا لباس قیمتی ہونا چاہیے تاکہ بیت المقدس کے لوگوں پر اثر پڑے، چنانچہ ترکی گھوڑے کے ساتھ قیمتی پوشاک بھی پیش کی، اس کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اللہ نے ہمیں جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے.. اور ہمارے لئے یہی کافی ہے _,"
★_ غرض اسی حالت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے، سب سے پہلے مسجد میں گئے، محراب کے پاس جا کر سورہ ص کی آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کیا، پھر عیسائیوں کے گرزے میں آئے، ادھر ادھر گھوم کر اس کو دیکھا ،
*"_حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی شکایت اور اذان_,*
★_ بیت المقدس میں آپ نے کئی دن تک قیام فرمایا، ضرورت کے احکامات جاری کیے ، اس دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ شکایت کی کہ - اے امیرالمومنین ! ہمارے افسر پرندوں کا گوشت اور معدے کی روٹیاں کھاتے ہیں .. لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا_,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے افسروں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا - امیرالمومنین ! اس ملک میں تمام چیزیں مل سکتی ہیں,.. جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجوریں ملتی ہیں یہاں اسی قیمت میں پرندے کا گوشت اور معدہ مل جاتا ہے _,"
یہ سن کر آپ نے حکم فرمایا - مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا خانہ بھی مقرر کیا جائے _,"
★_ ایک دن نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آج آپ اذان دیں _," حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا - میں عزم کر چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دوں گا، .. پھر بھی آپ کی فرمائش کو بھی ٹال نہیں سکتا ، چناچہ صرف آج اذان دے دیتا ہوں _,"
★_ جب انہوں نے اذان شروع کی تو تمام صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک یاد آگیا، سب پر غم طاری ہوگیا ، حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تو روتے روتے بیتاب ہو گئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی ہچکیاں بندھ گئیں، دیر تک یہ اثر باقی رہا _,"
★_ اسی طرح کا واقعہ ایک بار مدینہ منورہ میں پیش آیا، جب حضرت حسنین رضی اللہ عنہم کی درخواست پر آپ نے اذان دی,
★_ ایک دن مسجد اقصیٰ آئے ، وہاں کعب بن احبار رح کو بلایا اور ان سے پوچھا - نماز کہاں پڑھی جائے _," یہ پہلے یہودی تھے اس بنیاد پر ان سے پوچھا کیونکہ انہیں مسجد اقصیٰ کے بارے میں زیادہ معلوم تھا, انہوں نے عرض کی سخرہ کے پاس پڑھیں، مسجد اقصیٰ میں بھی حجر اسود کی طرح ایک پتھر ہے، یہ پتھر انبیاء علیہ السلام کی یادگار ہے، اس پتھر کو سخرہ کہتے ہیں _,"
★_اسلامی فتوحات کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا اس لیے ہمسایہ سلطنتوں کو خوف محسوس ہوا کہ اب ہماری باری بھی آئے گی, چنانچہ جزیرہ کے لوگوں نے قیصر کو لکھا - نئے سرے سے ہمت کریں, ہم ساتھ دینے کو تیار ہیں_,"
ان کا پیغام سن کر قیصر نے ایک بڑی فوج حمص کی طرف روانہ کی، جزیرہ والے 30 ہزار کی فوج کے ساتھ حمص کی طرف بڑے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے مقابلے کی تیاری شروع کر دی،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تمام حالات کی اطلاع دی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھی، ہر مقام پر 4-4 ہزار گھوڑے ہر وقت تیار رہتے تھے تاکہ کوئی فوری ضرورت پیش آجائے تو ہر جگہ فوجیں روانہ ہو کر موقع پر پہنچ سکے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا خط ملتے ہی آپ نے ہر طرف گھوڑے دوڑا دیئے،
★_ حضرت قعقع رضی اللہ عنہ لشکر کی مدد کے لیے کوفہ سے چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے، وہ ابھی راستے میں تھے کہ جنگ چھیڑنے کی خبر سنی، لہذا فوراً لشکر سے الگ ہو کر ١٠٠ گھڑسوار کے ساتھ آگے بڑھے اور اسلامی لشکر تک پہنچ گئے اور میدان جنگ میں کود پڑے،
★_ مسلمانوں کے پہلے ہی حملے میں عرب قبائل پسپا ہو گئے جیسا کہ انہوں نے پہلے ہی طے کر لیا تھا ، بس ان کے پسپا ہوتے ہیں عیسائیوں کے بھی چھکے چھوٹ گئے، اس کے بعد تو بس وہ بہت تھوڑی دیر میدان میں ٹھہر سکے پھر بدحواس ہو کر بھاگے, شام کے عیسائیوں کے ساتھ یہ صحابہ کرام کی آخری جنگ تھی، اس کے بعد عیسائیوں کو مزید لڑنے کی ہمت نہ ہوئی،
★_ ان فتوحات کے دوران ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سے ہٹا دیا تھا اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری سونپ دی تھی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ فر بھی ایک افسر کی حیثیت سے اسلامی لشکر میں شامل رہے تھے،
★_ یہ بات نہیں کہ انہیں بلکل ہی اسلامی لشکر سے الگ کر دیا تھا جیسا کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں، اس سلسلے میں بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی پہلا حکم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا دیا تھا ،_جبکہ یہ بات بلکل غلط ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ 13 ہجری میں خلیفہ بنے تھے جب کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو 17 ہجری میں سپہ سالاری سے ہٹایا گیا، اگرچہ ان کی ایک تجربہ کار افسر کی حیثیت باقی رہی تھی،
★_ اس بارے میں بہت سی مختلف روایات تاریخ کتابوں میں درج ہیں، اس سلسلے میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ آپ پڑھ لیں، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد جب مدینہ منورہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا :- خالد ! اللہ کی قسم تم مجھے محبوب ہو, میں تمہاری عزت کرتا ہوں_,"
★_ اس کے بعد آپ نے تمام گورنروں کو یہ پیغام ارسال فرمایا :- میں نے خالد کو کسی ناراضی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دیکھتا تھا لوگ اس خیال پر پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو فتح خالد کی سپہ سالاری کی وجہ سے ہو رہی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، فتوحات تو ہمیں اللہ تعالی عطا کر رہے ہیں، بس میں لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے _,"
معلوم ہوا کہ اصل مصلحت یہ تھی، لہذا ہمیں اختلافی روایات میں پڑ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف سے دل میں کسی بدگمانی کو جگہ نہیں دینا چاہیے،
*"_حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات_,"*
★_ 18 ہجری میں شام مصر اور عراق میں طاعون کی وبا پھیلی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس وبا کے پھیلنے اور بڑی تعداد میں لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو انتظامات کے لئے خود روانہ ہوئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بیماری کا زور بڑھتا ہی جا رہا ہے، اس پر آپ نے مہاجرین اور انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف مشورے دئے ، ایک صاحب نے کہا - آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں_,"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا - ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے_,"
★_ ان کی یہ بات سن کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا - "_ اے عمر ! اللہ کی تقدیر سے بھاگ ر پے ہو _,"
_ جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ہاں ! تقدیر الہی سے بھاگتا ہوں .. مگر بھاگتا بھی تو تقدیر ہی کی طرف ہوں _,"
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلے آئے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا - مجھے آپ سے کچھ کام ہے آپ کچھ دن کے لیے مدینہ منورہ چلے آئیں _,"
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس وبا کے خوف سے مدینہ منورہ میں بلا رہے ہیں_, چنانچہ جواب میں لکھ بھیجا :- میں مسلمانوں کو یہاں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے نہیں آؤں گا _,"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ خط پڑھ کر رو پڑے اور پھر انہیں لکھا :- اس وقت فوج جہاں موجود ہے، ... وہ نشیب میں ہے اور مرطوب ہے، آپ لشکر کو لے کر کسی اور جگہ چلے جائیں _,"
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں چلے گئے، .. وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس بیماری کی زد میں آگئے، آپ نے لوگوں کو جمع کیا، انہیں نصیحتیں فرمائیں، آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ سپہ سالار مقرر فرمایا، اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا، چنانچہ ان سے کہا - آپ نماز پڑھائیں _,"
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی, ۔۔ ادھر سلام پھیرا، ادھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا نام عامر بن عبداللہ بن جراح تھا ، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی یہ ان 10 صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت ملی، اسلام لانے میں آپ کا نواں نمبر ہے یعنی اسلام لانے میں بھی سب سے پہلو میں شامل ہیں، آپ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے، پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ،
★_ تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ررہے،آپ کے والد ایمان نہیں لائے تھے، آپ نے غزوہ بدر میں ان سے بھی جنگ کی، اس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے سورہ المجادلہ کی یہ آیت نازل ہوئی :-
( ترجمعہ) اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ خدا اور رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہیں اگرچہ ان کے ماں باپ ہوں یا اولاد یا بھائی یا رشتے دار ہوں _,"
★_ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک میں خود کی دو کڑیاں گڑ گئ تھی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تھا، اس کوشش میں آپ کے سامنے کے دو دانت نکل گئے تھے، وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھاون سال تھی، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، آمین ۔
★_ آپ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے, اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں_," *( بخاری , مسلم و مشکواۃ )*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتظامات _,*
★_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام یرفا کے علاوہ ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، ایک مقام ایلہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری س اتر گئے، اس پر غلامی کو بٹھا دیا، خود اونٹ پر سوار ہو گئے، راستے میں کوئی پوچھتا - امیرالمومنین کہاں ہیں ؟ تو جواب میں فرماتے - تمہارے آگے ہیں_,"
★_ اسی طرح ایلہ میں داخل ہوے، یہاں دو دن ٹھہرے، آپ کا کرتا سفر کے دوران سواری کے کجاوے سے رگڑ کھا کر پھٹ گیا تھا ، اسے مرمت کے لیے ایلہ کے پادری کو دیا، اس نے اپنے ہاتھ سے پیوند لگا دیا ساتھ میں ایک نیا کرتا آپ کو پیش کیا، آپ نے اپنا کرتا پہنا اور فرمایا - اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے_,"
★_ آپ ایلہ سے دمشق آئے، اس کے ضلعوں میں دو دو چار چار دن قیام فرماتے رہے ، مناسب انتظام فرماتے رہے، جو لوگ وبا سے ہلاک ہوگئے تھے ان کے وارثوں کو بلا کر ان کی جایداد وغیرہ ان کے حوالے کی، .. وبا کی وجہ سے جو جگہ خالی ہو گئی تھی ان جگہوں پر نئے آدمی مقرر کیے،
★_ اس سال سخت قحط پڑا، آپ نے قحط کے دنوں میں اس قدر زبردستی انتظامات کیے کہ لاکھوں لوگوں کو بھوک سے بچا لیا گیا، اسی سال آپ نے مہاجرین ، انصار اور دوسرے قبائل کی تنخواہیں مقرر کیں،
*"_ کھوزستان کا معرکہ _,*
★_ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بعد آپ نے اسلامی لشکر کی ذمہ داری حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو سونپی، انہیں قیسار کی مہم پر روانہ کیا، یہ شہر فلسطین کے ضلعوں میں شمار تھا اور اس زمانے میں بڑا شہر تھا، اس میں تین سو بازار تھے،
★_ یہاں پہنچ کر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، انہوں نے لشکر پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کو مقرر فرمایا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سازو سامان کے ساتھ قیسار کا محاصرہ کیا، شہر کے لوگ شہر سے نکل کر حملہ کرتے رہیں، جب انہیں شکست ہونے لگتی تو فوراً شہر میں چلے جاتے اور دروازے بند کر لیتے، اس طرح شہر فتح ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا،
★_ ایک دن ایک یہودی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس کا نام یوسف تھا، اس نے ایک سرنگ کے بارے میں بتایا، وہ شہر کے اندر تک جاتی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے چند بہادروں کو سرنگ کے ذریعے قلعے کے اندر جانے کا حکم دیا، انہوں نے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا، دروازہ کھلتے ہی اسلامی فوج اندر داخل ہوئی اور فتح ہوئی ،
★_ فتوحات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ٢١ ہجری میں اصفہان، ٢٣ ہجری میں فارس، کرمان، سیستان، خراسان فتح ہوئے اور 26 ذالحجہ ٢٣ ہجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا, اس کی تفصیل یہ ہے *( انشاءاللہ اگلے پارٹ میں )*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت _,*
★_ مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی نہاوند فتح ہوا تو یہ قیدیوں میں شامل تھا اور اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا گیا تھا، ایک روز یہ شخص امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے عرض کیا - میرے آقا مغیرہ بن شعبہ( رضی اللہ عنہ) نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کر رکھا ہے، آپ کم کروا دیجئے _,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا - اچھا تمہیں کتنا محصول دینا پڑتا ہے ؟
اس نے بتایا - مجھے روزانہ دو درہم ( ٤٣ پیسے) دینا پڑتے ہیں،
آپ نے اس سے پوچھا - تم کیا کام کرتے ہو ؟
اس نے کہا - میں نقاشی اور آہن گری کا کام کرتا ہوں_،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا - اس کام کے مقابلے میں تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے _,"
★_ فیروز آپ کا جواب سن کر ناراض ہو گیا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا - تم میرے لیے بھی ایک چکی بنا دو_,"
جواب میں اس نے کہا - آپ کے لئے تو میں ایسی چکی بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گے_,"
یہ کہہ کر وہ چلا گیا... آپ نے آس پاس موجود لوگوں سے فرمایا - یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے _,"
★_ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے نکلے، فیروز ان سے پہلے ہی مسجد میں آ چکا تھا، اس کے پاس ایک کھنجر تھا وہ اس نے اپنی آستین میں چھپا رکھا تھا،
وہ مسجد کے ایک کونے میں دبکا ہوا تھا، ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ امامت کرانے کے لئے آگے آئے۔۔ اس وقت تک صفیں درست ہو چکی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صفیں درست کرانے کے لئے کچھ لوگ مقرر کر رکھے تھے،
جونہی آپ نے نماز شروع کی.. فیروز اچانک گھات سے نکلا اور آپ پر کھنجر کے چھ وار کیے، ان میں سے ایک وار ناف کے نیچے لگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود گر پڑے،
★_ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی میں پڑے تڑپ رہے تھے، فیروز وار کر کے بھاگا، کچھ لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے ان پر بھی وار کیے ، کچھ لوگ زخمی ہوئے، فیروز نے جب دیکھا کہ اسے گھیر لیا گیا ہے اس نے وہی خنجر اپنے پیٹ میں گھونپ کر خود کشی کرلی ،
★_ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر گھر لاے، اس وقت تک ان کا خیال تھا کہ زخم معمولی ہیں، چنانچہ ایک طبیب کو بلایا گیا اس نے شہد اور دودھ منگوایا، آپ کو پلایا گیا تو دونوں چیزیں زخموں کے راستے باہر نکل آئیں، اس وقت لوگوں کو احساس ہوا کہ آپ بچ نہیں پائیں گے،
*★ _حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہوش میں آنے کے بعد پوچھا میرا قاتل کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا - فیروز پارسی، آپ نےکہا- ا اللہ کا شکر ہے میں کسی مسلمان کے ہاتھوں نہیں مارا گیا _,"
★_ اب آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا - عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ ان سے کہو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے _,"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ بری طرح رو رہی تھی, انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا ، آپ نے فرمایا - اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، لیکن آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں_,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام، عراق، جزیرہ خوزستان عجم آرمینیہ آزراہائی جان، فارس، کرمان خراسان اور مکران فتح ہوئے ، بلوچستان کا کچھ حصہ بھی فتح ہوا ،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جو ان کی رائے ہوتی تھی اکثر وہی بات پیش آجاتی تھی، یہاں تک کہ ان کی بہت سی آراء مذہب کے احکام بن گئی، کئی موقعوں پر خود اللہ تعالی نے ان کی رائے کی تائید فرمائی،
★_ نماز کے اعلان کے لئے جب ایک طریقہ طے کرنے کا مسئلہ سامنے آیا تو لوگوں نے مختلف مشورے دیے، کسی نے کہا نے ناقوس بجا لیا جائے، کسی نے نقارہ بجانے کی رائے دی، کسی نے آگ جلانے کی بات کہی، لیکن اس وقت حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے یہ رائے دی کیوں نہ ایک آدمی مقرر کیا جائے ت
جو نماز کی منادی کیا کرے_,"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اذان دیں، چنانچہ یہ پہلا دن تھا جب اذان کا طریقہ شروع ہوا اور درحقیقت اذان سے بہتر کوئی اور طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا _,"
★_ بدر کے قیدیوں کا معاملہ پیش آیا تو جو رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی وحی بھی اسی کے مطابق نازل ہوئی،
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پہلے شرعی پردہ نہیں کرتی تھی کیونکہ پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بار بار اس بات کا خیال آیا, آخر انہوں نے عرض کر ہی دیا کہ اے اللہ کے رسول پردہ کروایا کریں, دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں وحی کا انتظار تھا، آخر پردے کی آیت نازل ہوئی اور تمام مسلمان عورتوں پر پردہ فرض ہو گیا _,"
★_ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چاہا کہ نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روکا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے آیت نازل ہوئی، اس میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ رائے دی :- اے امیرالمومنین میری رائے ہے کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں وہ کام کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا، آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ حضرت عمر کی رائے دوست ہے ، تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا - قرآن کو ایک جگہ جمع کرو _,"
★_ اس قسم کے کئی اور بھی واقعات پیش آئے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے ہی درست ثابت ہوئی، آپ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا بہت لحاظ رکھتے تھے ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم کے روزینے مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا روزینہ سب سے پہلے مقرر کیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا - نہیں! سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین کے مقرر کیے جائیں گے _,"
★_ چنانچہ سب سے پہلے بنو ہاشم سے شروع کیے گئے، ان میں بھی حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم سے ابتدا کی گئی، بنو ہاشم کے بعد آنحضرت صلی اللہ سے نسبت میں قریب ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے، تنخواہوں میں بھی اسی طرح کا لحاظ رکھا گیا ، سب سے زیادہ تنخواہیں اصحاب بدر کی تھی ،
★_ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اگرچہ بدر میں شامل نہیں تھے، یہ بدر کی لڑائی کے وقت بہت چھوٹے تھے لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں اور یہ سب سے زیادہ مقدار تھی، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مقرر کی، اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا اور کہا - آپ نےمیری تنخواہ اسامہ بن زید سے کم مقرر کی ہے... ؟
جواب میں آپ نے فرمایا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے_,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کے بغیر خلافت کا کام انجام نہیں دیتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہایت دوستانہ انداز میں پورے خلوص سے مشورہ دیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بیت المقدس جانا پڑا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کر گئے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حد درجہ پاس اور لحاظ رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا، یہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی ،
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حال _,*
★_ اپنی پوری خلافت کے دوران ان کا حال ایک طرف تو کچھ اس طرح تھا کہ روم اور شام کی طرف فوجیں بھیج رہے ہیں، قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے بات چیت کر رہے ہیں، اسلامی لشکر کے سپہ سالاروں سے پوچھ کچھ کر رہے ہیں، گورنروں کے نام احکامات لکھ رہے ہیں،
★_ دوسری طرف حال یہ تھا کہ بدن پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہیں، صحرا کی ریت پر کوڑے کا تکیہ بنائیں سو رہے ہیں اور پسینہ ریت پر بہہ رہا ہے ، سر پر پھٹا ہوا عمامہ ہے پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہیں، اور کاندھے پر پانی کی مثک اٹھائے جا رہے ہی کہ بیوہ عورتوں کے گھروں کا پانی بھرنا ہے ،
★_ راتوں کو شہر کا گشت لگایا جا رہا ہے ، کسی بدو کی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے تو اپنی زوجہ محترمہ کو اس کے گھر پہنچانے جا رہے ہیں، رات کو کسی بیوہ کے بچے بھوک سے روتے سنائ دے گئے تو گھر سے کھانے پینے کا سامان بوری میں ڈال کر اپنی کمر پر لاد کر اس گھر تک پہنچانے جا رہے ہیں ، خادم خود اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نہیں اٹھانے دیتے،
★_ خلافت کے کام کرتے کرتے تھک گئے تو مسجد کے فرش پر ہی لیٹ گئے، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا سفر کرنا پڑ گیا تو کوئی خیمہ یا شامیانہ ساتھ نہیں لے جا رہے، کسی درخت کے نیچے چادر بچھائی اور لیٹ گئے ، طبقات ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق روزانہ کا خرچ دو درہم تھا ،
★_ احناف بن قیس اور عرب کے رئیسوں نے ایک بار آپ سے ملاقات کا پروگرام طے کیا، وہاں گئے تو دیکھا آستین چڑھا رکھی ہے اور ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، احناف بن قیس پر نظر پڑی تو بولے - آؤ ، تم بھی میری مدد کرو.. بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے .. اور تم جانتے ہو کہ ایک اونٹ میں کتنے غریب کا حصہ ہوتا ہے ؟
ایسے میں ایک شخص نے کہہ دیا - اے امیر المومنین ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.. کسی غلام سے کہہ دیں، وہ ڈھونڈ لائے گا،
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا - مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے ؟
★_ شام کے سفر میں قضاء حاجت کے لئے سفر سے اترے، آپ کے غلام اسلم ساتھ تھے، واپس لوٹے تو ان کے اونٹ پر سوار ہو گئے، ادھر اہل شام استقبال کے لیے آرہے تھے، جو آتا ، پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا ، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے، لوگوں کو حیرت ہوتی تھی، آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے کہ یہ کیسے امیرالمومنین ہیں .., اس پر آپ نے فرمایا - ان لوگوں کی نظریں در اصل عجمی شان و شوکت کو تلاش کر رہی ہیں لیکن وہ یہاں انہیں کہاں نظر آئے گی ؟_,"
★_ ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے، اس میں فرمایا - لوگوں ! میں ایک زمانے میں اس قدر غریب تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر دیا کرتا تھا، وہ اس کے بدلے میں مجھے چھوارے دے دیتے تھے، وہی کھا کرو اپنا پیٹ بھرتا تھا _,"
کہاں اور ممبر سے اترے ... لوگوں کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ بھی کوئی بتانے کی بات تھی، اس پر وضاحت کرنے کے لیے فرمایا - بات دراصل یہ ہے کہ میری طبیعت میں غرور آگیا تھا .. یہ میں نے اس کا علاج کیا ہے _,"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی نکاح کیے، آپ کے ہاں اولاد بھی کسرت سے ہوئی، ان میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اس لئے ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں شامل ہوئ، نرینہ اولاد میں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت مشہور ہوئے یہ بہت بڑے فقیہ تھے، آگے چل کر ان کے بیٹے سالم بن عبداللہ فقیہ ہوئے ، وہ مدینہ منورہ کے سات بڑے فقیہوں میں سے ایک تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ کے بیٹے عاصم رضی اللہ عنہ بھی بہت بڑے عالم فاضل ہوئے،
★_ آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں اگر ایک عمر اور پیدا ہو جاتا تو ساری دنیا میں اسلام عام ہوتا،.. غرض آپ کی خوبیوں کو شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، اللہ تعالی ان پر کروڑوں ہا کروڑ رحمتیں نازل فرمائے، آمین .
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد چھ صحابہ کرام کے نام تجویز فرمائے تھے اور ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لینا، وہ چھ نام یہ ہیں :- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ،
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم میں سے شخص ایک کے نام کی سفارش کرے _,"
یہ تجویز سب نے منظور کی, حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا نام تجویز کیا،
★_ اس لئے خلافت کے لئے تین نام رہ گئے، اس میں سے بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں اپنا نام واپس لیتا ہوں، آپ دونوں اپنا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں، جسے میں خلافت کے لیے منتخب کروں دوسرے حضرات اسے خوشی سے قبول کر لیں،
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)- *
▪•═════••════•▪
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻Subscribe Our YouTube Channel ,*
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 Group Join Karne Ke liye Link per Ja Kar Join likhiye _,**
╨─────────────────────❥
*💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
╨─────────────────────❥
_ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_https://t.me/joinchat/AAAAAFT7hoeE_C8b71KBPg ╚═════════════┅┄ ✭✭
⚀
Post a Comment