0
                             ✭﷽✭
                  *✿_خلافت راشدہ_✿*
         *✭ KHILAFAT E RASHIDA.✭* 
                    ▪•═════••════•▪                  
                 *┱✿_۔خلافت کا مسلہ -,*

★_ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا:-  اے عمر ! انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں اور خلافت کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں _,"
 یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر تشریف لائے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت اندر تھے، انہیں باہر بلوایا،  وہ  اندر کفن دفن کی تیاریوں میں مصروف تھے، لہزا کہلا بھیجا کہ میں اس وقت مصروف ہوں ،

★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر پھر پیغام بھیجا کہ ایک خاص بات پیش آئی ہے اس لئے باہر آکر سن لیں،
 حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، حضرت عمر نے کہا :- "_ کیا آپ کو معلوم ہے سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار جمع ہیں  اور خلافت کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ وہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں یا پھر ان کا کہنا ہے کہ ایک امیر مہاجرین میں سے ہو اور ایک انصار میں سے _,"

★_ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور تیزی سے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چل پڑے، راستے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ مل گئے، وہ بھی ان کے ساتھ ہو لئے ،

★_ سقیفہ بنی ساعدہ مشہور انصاری صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی اور بیٹھک کا کام دیتی تھی، انصاری حضرات وہاں جمع ہو کر آپس کے فیصلے کیا کرتے تھے، آج وہاں اس سلسلے میں  تقاریر ہو رہی تھی، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تقریر میں کہہ رہے تھے :-
"_ اے گروہ انصار ! دین میں تمہیں وہ برتری حاصل ہے اور اسلام میں تمہیں فضیلت حاصل ہے جو عرب میں کسی کو نہیں.. تم نے مشکل ترین وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا جب ان کے اپنے لوگ ان سے دشمنی کر رہے تھے،  تم نے مہاجرین کی مدد کی، اسلام کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا ، اب اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا اس حال میں کہ وہ تم سے بہت ہی خوش تھے لہذا خلافت تمہارا حق ہے..  اور کسی کا نہیں _,"

★_ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کو انصار نے پسند کیا تاہم ایک دو نے یہ سوال کیا :- "_ اگر مہاجرین نے اس بات کو پسند نہ کیا تو ؟  
 انصاری حضرات میں سے چند نے اس کا یہ جواب دیا :-  تب ہم  یہ تجویز پیش کریں گے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہو _,"

★_ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو ناپسند فرمایا ... اتنے میں یہ دونوں حضرات وہاں پہنچ گئے،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں راستے میں یہ سوچتا آیا تھا کہ وہاں جاکر کیا کہوں گا ؟ اپنی تقریر کا مضمون میں نے سوچ لیا تھا .. وہاں پہنچ کر میں نے چاہا اپنی تقریر شروع کروں...  میرا ارادہ بھانپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے :-  ذرا صبر کرو پہلے مجھے کہہ لینے دو پھر جو تمھارا جی چاہے کہنا _

★_ پھر انہوں نے تقریر شروع کی تو وہ ایسی تھی کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا اس سے بھی زیادہ بہتر انہوں نے کہہ دیا ،
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نے اس نازک موقع پر جو تقریر کی وہ یہ تھی :-

"_ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اور اپنی امت کا نگراں مقرر کرکے اس لئے مبعوث فرمایا تھا کہ صرف اس کی پرستش ہو اس کی وحدانیت ہو، حالاں کہ اس سے پہلے لوگ اللہ تعالی کے سوا مختلف معبودوں کی عبادت کرتے تھے،  دعویٰ کرتے تھے یہ معبود اللہ کے یہاں ان کی سفارش کرنے والے اور نفع پہنچانے والے ہیں حالانکہ وہ پتھر سے تراشے اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
(-ترجمہ  )...  اور اللہ کے سوا ایسوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، اور وہ کہتے ہیں یہ ہمارے معبود اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں (سورہ یونس- ١٠)_,"

"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیام عربوں کو ناگوار ہوا اور وہ اپنے آبائی دین کے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے،  اللہ تعالی نے آپ کی تصدیق کے لئے مہاجرین اولین کو مخصوص فرمایا ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے،  انہوں نے آپ  ﷺ کے ساتھ ہر حال میں رہنے کے لیے بیعت کا وعدہ کیا کیا اور باوجود اپنی قوم کی ایزاء رسانی اور تکزیب کے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا حالانکہ تمام لوگ ان کے مخالف تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے،  مگر تمام لوگوں کے ظلم اور ان کی سازشوں کے باوجود اپنی کم تعداد سے کبھی متاثر اور خائف نہیں ہوئے، اس طرح وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے اس زمین میں اللہ تعالی کی عبادت کی اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ولی اور خاندان والے ہیں اور ان کے بعد اس منصب امارت کے سب کے مقابلے میں وہی زیادہ مستحق ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس حق میں سوائے ظالم کے اور کوئی ان سے جھگڑا نہیں کرے گا، 

"_ اب رہے تم انصار ! کوئی شخص دین میں تمہاری فضیلت اور ابتدائی شرکت اور خدمت کا انکار نہیں کرسکتا،  اللہ تعالی نے اپنے دین اور اپنے رسول کی حمایت کے لیے تمہیں پسند کیا اور اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس ہجرت کر کے آئے،  اس وقت بھی ان کی ازواج اور اصحاب تمہارے یہاں رہتے ہیں، بے شک مہاجرین کے بعد تمہارے مقابلے میں ہماری نظر میں کسی اور کی قدر و منزلت نہیں ہے،  لہذا مناسب ہوگا کہ امیر ہم ہوں اور تم وزیر ،  ہر معاملے میں تم سے مشورہ کیا جائے گا اور بغیر تمہارے اتفاق رائے کے ہم کوئی کام نہیں کریں گے _,"

 ★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم ہونی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کہا :- 
"_  اے گروہ انصار ! تم وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے دین کی حمایت کی, اب ایسا نہ کرو کہ تم ہں دین میں بگاڑ پیدا کرو _," 
حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قسم کے الفاظ کہے ، ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اٹھے :-
"_ یہ عمر ہیں اور یہ ابو عبیدہ ہیں، تم ان میں سے جسے چاہوں امیر بلا لو _,"
یہ دونوں حضرات فوراً بولے :- 
"_ آپ کے ہوتے ہوئے ہم ہرگز اس منصب کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ آپ مہاجرین میں سب سے بزرگ ہیں، غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق رہے اور نماز کی امامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بن چکے ہیں ... اور نماز ہمارے دین کا سب سے بڑا رکن ہے ، اس لئے آپ کے ہوتے ہوئے یہ بات کسی کو زیب نہیں دیتی کہ وہ امیر بنے،  آپ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے بڑھائیے _,"

★_ اب جوں ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما بیعت کے لیے آگے بڑھے ان سے بھی پہلے حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بعیت کر لی، پھر تو سبھی بعیت کے لئے اٹھ آئے،  ہر طرف سے لوگ آ آ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے لگے ،

★_ بعیت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرات واپس لوٹے،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں شریک ہوئے، دفن کے وقت یہ اختلاف پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کہاں کیا جائے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے اس موقع پر فرمایا :-
"_ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے اور میں اسے بھولا نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ کسی نبی کی روح اسی جگہ  قبض کرتا ہے جہاں اسے دفن ہونا پسند ہوتا ہے،  لہذا تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی دفن کرو_,"
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ،

★_ پہلے دن جو بعیت ہوئی تھی وہ خاص لوگوں کے مجمے میں ہوئی تھی لہذا دوسرے دن مسجد نبوی میں   آم بعیت کا انتظام کیا گیا، سب مسلمان جمع ہوئے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ممبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا اور فرمایا :-
"_ میں امید کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے بعد تک زندہ رہیں گے لیکن اب وہ وفات پا گئے ہیں' بہرحال اللہ تعالی نے تمہارے سامنے ایک ایسا نور رکھ دیا ہے جس سے تم وہی ہدایت حاصل کر سکتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے تھے،  بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور غار کے رفیق ہیں،  مسلمانوں کی سر براہی کے لئے تم میں سب سے بہتر یہی ہیں،.. بس کھڑے ہو جاؤ اور ان سے بعیت کرو _,"

★_ یہ کہنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا :-  آپ منبر پر آ جائیں _,"
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی, ان سے کئی بار کہا گیا تب وہ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان سے بعیت کی، اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا، خلیفہ بننے کے بعد یہ ان کا پہلا خطبہ تھا ،

★_ طبقات ابن سعد میں ہے کہ ایسا خطبہ پھر کسی زبان سے سننے میں نہیں آیا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا :-
”_ لوگوں ! میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں, پس اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو اور میں اگر برا کروں تو مجھے سیدھا کرو، سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت،  تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک  طاقتور ہے جب تک میں اس کی شکایت دور نہ کر دوں اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق وصول نہ کر لوں ، جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالی اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصیبت نازل کر دیتا ہے،  میں جب تک اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت فرض نہیں،  اب نماز کے لیے اٹھو اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے "

★_سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں  یہ ذکر ملتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں لی تھی، ان میں ایک نام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا جاتا ہے،  عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چھ ماہ تک یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک بعیت نہیں کی اور گھر میں بیٹھے رہے ، پھر چھ ماہ بعد بعیت کی ،... لیکن یہ بات درست نہیں ،

 ★_  مستدرک حاکم  نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:-
"_ جبکہ ابو بکر ممبر پر بیٹھ  گئے تو انہوں نے لوگوں پر نظر ڈالی, حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر نہ آئے تو ان کے بارے میں پوچھا، اس پر کچھ انصاری اٹھے  اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے ، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی،  امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے _," ( مستدرک حاکم)

★_ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ایک بار پھر حضرت ابوبکر کی بیعت کی تھی مگر یہ دوسری بعیت اس وجہ سے تھی کہ وراثت کے معاملے میں جو علمی اشکال حضرت علی کو تھا وہ بھی جاتا رہا تھا،  مطلب یہ کہ خلافت کی سلسلے کی بیعت تو اسی دن کر لی تھی، یہ دوسری بیعت تجدید بیعت تھی اور علمی اشکال کے ختم ہونے کا کھلا اعلان تھی ،

★_ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات کہی جاتی ہے،  لیکن یہ بھی درست نہیں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی بعیت کی تھی ، ( مستدرک حاکم، جلد 3 صفحہ 66)

★_ اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی بیعت نہیں کی تھی ... یہ بھی غلط ہے کیونکہ مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خوشی سے بیعت کی تھی، معلوم ہوا کہ اسلام کے دشمن لوگ ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں، ان کی طرف کان نہیں دھرنا چاہیے،

 ★_ جس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے وہ مسلمانوں کے لیے نہایت نازک وقت تھا، سب سے بڑا صدمہ تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا تھا، اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں منافقوں کا ایک گروہ بھی موجود تھا،  یہ لوگ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی انہوں نے بار بار منافقت دکھائی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہوں نے خوب کھل کر کام کرنے کی ٹھان لی،

★_ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت کے حالات کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :-
"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطا فرما کر ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم ہلاک ہو جاتے _,"

★_ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں :-
"_ رسول اللہ صلی اللہ کی وفات ہوئی تو میرے والد پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے،  ایک طرف مدینہ منورہ میں منافق موجود تھے تو دوسری طرف عرب مرتد ہو رہے تھے _,"

★_ ان حالات میں ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ فرمایا تھا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے رک گیا تھا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ وہ اس لشکر کو روانہ کریں یا پہلے مرتد ہوجانے والوں کی طرف توجہ دیں،  اس وقت تمام صحابہ بہت گھبرائے ہوئے تھے ،
 
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-12*

 ╨─────────────────────❥     
 *★_  لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی _,*

★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان حالات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ دیا :-
"_  آپ دیکھ رہے ہیں حالات کیا ہیں، لے دے کر اب یہی مسلمان ہیں جو آپ کے سامنے ہیں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ عرب کا کیا حال ہے .... اس لئے مناسب نہیں کہ آپ اس وقت اس لشکر کو روانہ فرمائیں _,"

★_ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بھی تو کسی آم انسان کو نہیں بنایا تھا، وہ پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے، سب کی رائے سن کر بولے :-
"_ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے .. اس لشکر کو بھیجنے کے سلسلے میں اگر مدینہ اس طرح خالی ہو جائے کہ میں ہی اکیلا رہ جاؤں اور درندے اور کتے مجھے پھاڑ کھائیں تو بھی میں اسامہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس مہم پر روانہ کروںگا _,"

★_اب جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابوبکر صدیق کا  فیصلہ معلوم ہوگیا اور انہوں نے جان لیا کہ خلیفہ رسول ایسا کرکے رہیں گے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر یہ مشورہ دیا :-
"_  اے خلیفہ رسول ! اس لشکر میں عمر رسیدہ اور تجربے کار صحابہ شامل ہیں ...  جبکہ اسامہ نوجوان ہیں، اس لئے بہتر یہ رہے گا کہ کسی عمر رسیدہ  اور تجربے کار آدمی کو لشکر کا امیر مقرر فرما دیں_,"

★_ یہ رائے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے اور فرمایا :- 
"_  اے خطاب کے بیٹے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو لشکر کا امیر مقرر فرمایا ہے اور تم کہتے ہو میں ان کی جگہ کسی اور کو امیر مقرر کروں ایسا ہرگز نہیں ہوگا _,"

★_یہ مشورہ دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ دوسرے صحابہ کرام نے دیا تھا تھا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سن کر ان کے پاس واپس آئے اور انہیں برا بھلا کہا کہ ان کی وجہ سے انہیں خلیفہ رسول کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا _,

 ★_  اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا :-  
"_ جن لوگوں کو اسامہ کے لشکر میں شامل کیا گیا تھا جانے کے لیے تیار ہو جائیں، ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے ..  سب لوگ مقام جرف میں پہنچ جائیں  _,"

★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیار ہو کر وہاں پہنچ گئے، اب حضرت ابوبکر صدیق بھی وہاں تشریف لائے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روانگی کا حکم فرمایا، لشکر روانہ ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھوڑے کی لگام تھامے پیدل چل رہے ہیں.. اس  صورتِ حال سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پریشان ہوئے ،  چناچہ انہوں نے عرض کیا:- 
"_ اے خلیفہ رسول !  یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا میں گھوڑے سے اتر جاتا ہوں _,"
 اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، اس پر انسان جتنا بھی جھومے کم ہے ، ...  آپ نے فرمایا :- 
"_ اللہ کی قسم ! نہ تم اترو گے نہ میں سوار ہوں گا، کیا ہوا اگر اللہ تعالٰی کے راستے میں کچھ دیر کے لئے میرے پاؤں غبار آلود ہو گئے ، غازی کے ہر ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہے _",

★_ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :-
"_  اگر تم نامناسب نہ سمجھو تو عمر کو میرے پاس چھوڑ جاؤ،  مجھے ان کے مشورے کی ضرورت ہوگی _,"
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات خوشی سے مان لی، اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے لشکر کو روک کر نہایت اہم اور قیمتی ہدایت دی ،

★_ رخصت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا :_
"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جیسے حکم دیا تھا ویسے ہی کرنا اس کی تعمیل میں ذرہ برابر کوتاہی نہ ہو _,"
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں ان سے فرمایا تھا:-
"_ فلسطین کی سرزمین میں بلقا اور داروم کے جو علاقے ہیں اسلامی لشکر ان کو فتح کر کے آئے _,"
یہ لشکر تین ہزار مہاجرین اور انصار پر مشتمل تھا ان میں سے ایک ہزار سوار فوج تھی ،

 ★_ جب یہ لشکر عیسائیوں کے لشکر کے سامنے آیا  تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا :- 
"_ اے مجاہدین اسلام ؛ حملے کے لیے تیار ہو جاؤ , دشمن اگر بھاگ نکلے تو اس کا پیچھا نہ کرنا,  آپس میں متحد رہو اور اتفاق سے رہو ... ہلکی آواز سے بولو،  اللہ کو اپنے دلوں میں یاد کرو  اور تلواریں جب ایک بار نیام سے باہر نکالو تو پھر جب تک تم اپنے دشمنوں کے سر قلم نہ کر دو ان کو نیاموں میں نہ رکھنا _,*

★_ اس تقریر کے بعد حملہ شروع ہوا ، اس وقت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے اسی گھوڑے پر سوار تھے جس پر جنگ کرتے ہوئے وہ شہید ہوئے تھے، شدید لڑائی کے بعد آخر دشمن بھاگ نکلا، ان میں سے بے شمار قتل ہوئے اور لشکر اسامہ کامیاب رہا ،اس جنگ میں ایک بھی مسلمان شہید نہیں ہوا تھا ، 

★_ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کامیابی کی خبر مدینہ منورہ روانہ فرمائی،  مدینہ منورہ میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی،  جب لشکر مدینہ میں داخل ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سمیت مدینہ کے لوگوں نے اس کا زبردست استقبال کیا،  حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس وقت بھی اپنے والد کے گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے گھوڑے آگے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے چل رہے تھے اور یہ وہی پرچم تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند روز پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا تھا ،

★_ جب کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنانے پر اعتراض کیا تھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:-
"_ جس پرچم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خولا تھا ،  میں اسے کس طرح لپیٹ دوں _,"

★_ اس وقت مسلمانوں کی خوشی بے پایاں تھی، اس مہم کا سب سے اچھا نتیجہ یہ سامنے آیا  کہ قیصر روم  بد ہواس ہو گیا، وہ اس وقت حمص میں تھا، اس نے اپنے لوگوں سے کہا :-
"_ دیکھو یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں نے تمہیں خبردار کیا تھا لیکن تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا ... اب ذرا ان عربوں کی ہمت اور جرات دیکھو، ایک ماہ کے فاصلے پر آ کر تم پر حملہ کر دیتے ہیں اور صحیح سلامت واپس چلے جاتے ہیں _،"

★_ عرب اور شام کی سرحدوں پر جو قبائل آباد تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر باغی ہوگئے تھے،  اس فتح سے انہیں یقین ہوگیا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے،  ورنہ اس قدر فاصلے پر لشکر ہرگز روانہ نہیں کر سکتے تھے،  اس خیال نے ان پر مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی،

★_ یہ مہم ماہ ربیع الاول 11 ہجری میں روانہ کی گئی تھی اور اور روانہ ہونے کے بعد واپس آنے تک دو ماہ لگے تھے،  اس زبردست کامیابی کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ فرمایا جو زکوۃ کا انکار کر بیٹھے تھے، 
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-20*

 ╨─────────────────────❥     
★_ *"_منکرین زکوۃ سے اعلان جنگ _,*

★_ "_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ کے آس پاس آباد قبائل نے اعلان کر دیا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے، جن میں بنو کنانہ، بنو غطفان،  بنوں قرارہ، بنو عبس اور ذییان شامل تھے، انہوں نے اعلان کیا :- ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں دیں گے _,"
اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قبائل کے خلاف اعلان جنگ کیا تو ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکے ،

★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ پر اعتراض کرتے ہوئے عرض کیا :- "_  آپ ان لوگوں سے کس طرح جہاد کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ ...  لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ .. نہ کہیں ، لیکن جب وہ کلمہ پڑھ لیں گے تو ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہو جائیں گے _,"

★_ اس بات کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ،"_ نماز اور زکوۃ میں فرض ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں , چنانچہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوۃ کا ذکر ایک ساتھ ہے، اس کے علاوہ قرآن میں ارشاد ہے..  پس اگر یہ لوگ توبہ کرلیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کریں تو انہیں کچھ نہ کہو _,"

★_ اس کے علاوہ ایک دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں طائف کا ایک وفد آیا تھا، اس نے کہا تھا کہ ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم نماز نہیں پڑھی گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سختی سے ان کی بات رد فرمائی تھی اور فرمایا تھا ، بھلا وہ دین ہی کیا جس میں نماز نہیں ہو _,"
سو جب نماز کے بغیر دین نہیں تو زکوٰۃ  کے بغیر بھی دین نہیں _,"

★_ یہ جواب سن کر حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے اس بات کو درست تسلیم کر لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا :- تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے دیکھ لیا ، اللہ تعالی نے ابوبکر کا سینہ کھول دیا تھا _,"

★_ جو لوگ یہ بات کرنے کے لیے آئے تھے کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے وہ مایوس ہو کر لوٹ گئی، مدینہ منورہ سے رخصت ہوتے وقت ان لوگوں نے یہ بات صاف محسوس کر لی تھی کی مدینہ منورہ میں اس وقت تھوڑے مسلمان باقی ہیں زیادہ تر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ساتھ جا چکے ہیں، انہوں نے اپنے قبیلوں کو جمع کیا ، ساری صورتحال انہیں بتای کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے ... اس وقت مدینہ منورہ پر قبضہ کرنا  بہت آسان کام ہوگا _,

★_ ادھر یہ لوگ یہ منصوبہ بنا رہے تھے،  ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وقت کی نزاکت کو محسوس کر لیا اور مدینہ منورہ کی حفاظت میں لگ گئے ، پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ بڑے بڑے صحابہ حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کی سرکردگی میں  مدینہ منورہ کے مختلف راستوں پر حفاظتی دستے مقرر فرما دیے، 

★_  باقی جو لوگ مدینہ منورہ میں تھے ان پر مسجد کی حاضری ضروری قرار دی تاکہ ‌ ہنگامی حالت میں فوراً سب کو خبر ہو جائے، ساتھ ہی آپ نے سب لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا :-
مسلمانوں ! یہ جو وفد یہاں سے گیا ہے یہ تمہاری تعداد کی کمی کو دیکھ کر گیا .. یہ لوگ کسی بھی وقت  تم پر حملہ کر سکتے ہیں, یہ ہیں بھی آس پاس کے ،  انہیں مدینہ منورہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی، ہم نے ان کی بات نہیں مانی لہذا یہ حملہ ضرور کریں گے _,"

★_ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خیال بالکل درست ثابت ہوا،  زکوۃ کا انکار کرنے والے قبائل نے مدینہ منورہ پر حملہ کردیا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی حفاظتی دستے مقرر فرما دیے تھے، انہوں نے حملے کی اطلاع آپ کو بھیج دی، آپ نے انہیں پیغام بھیجا کہ اپنی جگہ ڈٹے رہو، میں آ رہا ہوں ،  پھر آپ نے مسلمانوں کو ساتھ لیا اور باغیوں کے مقابلے میں آئے، زوردار جنگ ہوئی ... باغی حملے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے،

★_ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، باغیوں نے  ذوحسی کے مقام پر پہنچ کر پناہ لی، وہاں ان کے ساتھ دوسرے باغی شامل ہوگئے،  ایک بار پھر یہ لوگ مدینہ منورہ پر حملہ کے لیے روانہ ہوئے ، ان حملہ کرنے والوں میں قبیلہ عبس، ذبیان، بنو مرة  اور بنو کنانہ وغیرہ کے لوگ شامل تھے ،

★_ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی جان  چکے تھے کہ یہ لوگ پھر حملہ کریں گے، لہذا انہوں نے جنگ کی تیاری جاری رکھی، فوج کی باقاعدہ تربیت کی، فوج کے دائیں بازو پر حضرت نعمان بن مقرن اور بائیں بازو پر حضرت عبداللہ بن مقرن رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ،  پھر اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچتا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی طرف بڑھے، ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، وہ ابھی سوئے پڑے تھے کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا،  وہ بدحواس ہو کر بھاگے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے  ذوالقصہ کے مقام پر پہنچ کر دم لیا، 

 لیکن باغیوں میں اب حملہ کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی، آپ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو وہاں چھوڑا اور مدینہ منورہ لوٹ آئے،  اسلامی لشکر کی اس شاندار کامیابی سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،  اس کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کی زکوٰۃ لے کر آنے لگے، یعنی پہلے زکوۃ کے انکاری تھے..  اب خود لے کر آگئے، اس سے مسلمانوں کی مالی حالت مضبوط ہو گئی ،
[
 ★_ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی جان  چکے تھے کہ یہ لوگ پھر حملہ کریں گے، لہذا انہوں نے جنگ کی تیاری جاری رکھی، فوج کی باقاعدہ تربیت کی ،  پھر اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچتا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی طرف بڑھے، ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، وہ ابھی سوئے پڑے تھے کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا،  وہ بدحواس ہو کر بھاگے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے  ذوالقصہ کے مقام پر پہنچ کر دم لیا، 

★_  لیکن باغیوں میں اب حملہ کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی، آپ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو وہاں چھوڑا اور مدینہ منورہ لوٹ آئے،  اسلامی لشکر کی اس شاندار کامیابی سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،  اس کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کی زکوٰۃ لے کر آنے لگے، یعنی پہلے زکوۃ کے انکاری تھے..  اب خود لے کر آگئے، اس سے مسلمانوں کی مالی حالت مضبوط ہو گئی ،
 
★_ اس دوران ایک واقعہ اور ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ذوالقصہ سے واپس لوٹ آئے تو قبیلہ عبس اور ذبیان نے وہاں موجود تھوڑے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور انہیں دھوکے سے قتل کر دیا، صدیق اکبر کو یہ خبر ملی تو قسم کھائی :-  جب تک ہم ان قبیلوں سے مسلمانوں کے ناحق خون کا بدلہ نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے _,"

*★_ اس دوران حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکر شاندار فتح حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گیا, اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور زیادہ اطمینان نصیب ہوگیا,  آپ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بناتے ہوئے ان سے فرمایا :- "_تم لوگ اب آرام کر لو_,"
پھر آپ نے خود ایک فوج لے کر ذوالقصہ کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تاکہ غدار قبیلوں کو سزا دیں اور مسلمانوں کا انتقام لے سکیں،

★_ اس پر چند بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان سے عرض کیا :-  اے خلیفہ رسول ! آپ نہ جائیے،  اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا یا آپ زخمی ہوگئے تو ہم لوگوں کا نظام باقی نہیں رہے گا،  جب کہ اگر آپ یہاں رہیں گے تو اس سے دشمن پر رعب رہے گا ،  آپ اپنے بجائے کسی اور کو بھیج دیں ،

 ★_ اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ انہوں نے آپ سے عرض کیا :- "_ اے خلیفہ رسول ! آپ کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔  اپنی جان کو خترے میں نہ ڈالیں _,"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے اصرار کے باوجود خود ہی جانا پسند فرمایا اور اور ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوگئے،  مقام ابرک میں پہنچ کر لوگوں پر حملہ کیا ، ان کے سردار حارث اور اوف تھے،  ان دونوں کو شکست دی ، بنو عبس اور بنو بکر خوفزدہ ہو کر بھاگے،  آپ نے چند دن ابرق میں آرام فرمایا ، پھر آگے بڑھے اور بنو ذبیان کو شکست دی اور ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ،  اس طرح  قبیلہ عبس اور ذبیان نے جن مسلمانوں کو شہید کیا تھا، ان سے انتقام لے لیا،  پھر فتح کا پرچم لہراتے ہوئے واپس آئے،  

★_ بنو ذبیان، عبس ، غطفان اور ان کے علاوہ دوسرے قبیلوں کی یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آخری جنگ تھی،  یہ قبیلے مدینہ منورہ کے قریب آباد تھے اور اعراب مدینہ کہلاتے تھے، چاہیے تو یہ تھا کہ اب یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اطاعت کو قبول کر لیتے،  زکاۃ کی فرضیت کے بھی قائل ہوجاتے اور پکے سچے مسلمان بن جاتے،  لیکن اب یہ مسلمانوں کے مقابلے میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ان کی صفوں میں شامل ہو گئے،

★_ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکر کچھ دنوں تک آرام کرنے کے بعد پھر سے تازہ دم ہو چکا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی طرف توجہ فرمائی،  آپ نے اسلامی فوج کو گیارہ حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر حصے کا ایک سالار مقرر فرمایا،  ان لشکروں کو روانہ کرنے سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب فرمایا،

★_ ان گیارہ لشکروں میں سے پہلا لشکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو طلحیہ اسدی اور مالک بن نویرہ کی طرف روانہ فرمایا ، طلحیہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، جب کہ مالک بن نویرہ زکوۃ کا منکر تھا ،

★_ طلحیہ بزاخہ میں ٹھہرا ہوا تھا،  ‌وہ ادھر ادھر کے قبیلوں کو ملا کر مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری میں مصروف تھا،  اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلا لشکر اس کی طرف روانہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کرتے وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:-  تم پہلے قبیلہ بنو طے کی طرف جاؤ، پھر بزاخہ کا رخ کرنا، وہاں سے فارغ ہو جاؤ تو پھر بطاح کی طرف رخ کرنا اور جب تم اس مہم سے فارغ ہو جاؤ تو میرا دوسرا حکم آنے تک وہی ٹھہرنا _,"

 ★_حضرت خالد رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی طے کی طرف روانہ ہوئے، آپ نے اپنی روانگی سے پہلے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو قبیلہ بنی طے کی طرف روانہ کیا، وہ مسلمان ہو چکے تھے اور اس قبیلے کے معزز آدمی تھے،  انہوں نے قبیلے کے لوگوں میں پہنچ کر کہا :-
"_ دیکھو ! خالد بن ولید ایک لشکر جرار لے کر تم لوگوں کی طرف روانہ ہوچکے ہیں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسلام قبول کرلو اور طلحیہ کا ساتھ چھوڑ دو ورنہ اسلامی فوج تم لوگوں کو تباہ و برباد کر دے گی _,"

★_ یہ سن کر وہ لوگ مذاق اڑانے لگے، تب حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے سخت لہجے میں کہا :- "_  تم ہو کس خیال میں ..  جو شخص تمہاری طرف لشکر لے کر آرہا ہے، وہ بہترین جنگجو ہے، میں نے تمہیں سمجھا دیا، اب تم جانو تمہارا کام جانے _,"
تب ان لوگوں نے کہا :-  اچھا آپ ذرا حضرت خالد کے لشکر کو ہم سے روکے رکھیں،  ہمارے جو بھائی طلحیہ کے پاس چلے گئے ہیں ہم ان کو بلا لیں،  ورنہ ہمارے مسلمان ہونے کی خبر سن کر طلحیہ انہیں قتل کرا دے گا _,"

★_ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ انہوں نے یہ بات مان لی اور مقام سنح میں آئے، یہاں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے،  انہوں نے آ کر کہا :-  آپ ذرا تین دن تک ٹھہرے رہیں .. اس دوران بڑے بڑے جنگجو آ کر آپ کے ساتھ مل جائیں گے _,"

★_ اور پھر یہی ہوا،  قبیلہ بنی طے کے وہ افراد جو طلحیہ کے پاس بزاخہ چلے گئے تھے واپس بلا لیے گئے، پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ انہیں لے کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا ، ساتھ ہی وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوگئے،  اس طرح حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی فوج میں ایک ہزار جنگ جو لوگوں کا اضافہ ہوگیا، اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہو گیا اور حضرت خالد رضی اللہ کی فوج میں ایک ہزار کا اور اضافہ ہوگیا،  اس پر حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی خوب تعریف ہوئی،

★_ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے  کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس بصیرت کے مالک تھے،  یہ انہی کی ہدایات تھی کہ پہلے قبیلہ بنی طے کی طرف جانا ... صرف اسی ہدایت کی وجہ سے دو ہزار افراد  نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ لشکر میں شامل بھی ہو گئے، 
اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بزاخہ کی طرف بڑھے، جہاں دشمن مقابلے کی زبردست تیاریاں کر رہا تھا _,
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-24*

 ╨─────────────────────❥     
★_ طلحیہ سے مقابلہ _,*

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر سے آگے جاسوسی کی غرض سے سے عکاشہ بن محصن  اور حضرت ثابت بن اقرم انصاری رضی اللہ عنہم کو روانہ کیا تھا،  راستے میں ان دونوں کو طلحیہ کا بھائی حبال مل گیا،  انہوں نے اس کو قتل کر دیا ، طلحیہ کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کی تلاش میں نکلا اور ان دونوں حضرات کو شہید کردیا،  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب اس مقام پر پہنچے تو اپنے دونوں ساتھیوں کی لاشوں کو دیکھ کر سخت رنجیدہ ہوئے،  اب آگے بزاخہ کا میدان تھا،  طلحیہ کے ساتھ اس وقت عینیہ بن محصن فزاری اپنے قبیلے کے سات سو بہادروں کے ساتھ تھا، ان کے علاوہ قبیلہ قیس اور بنو اسد بھی اس کے ساتھ تھے ،

★_ آخر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ انہوں نے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی،  وہ نہ مانے تو جنگ شروع کر دی، زبردست جنگ ہوئی،  طلحیہ اس وقت اپنے خیمے میں تھا،  عینہ اس کے پاس آیا اور بولا :- جنگ کے بارے میں کوئی وحی آئی ہے یا نہیں ؟
جواب میں اس نے کہا- ابھی کوئی وحی نہیں آئی, تم جنگ کرو، میں وہی کا انتظار کر رہا ہوں,
عینیہ پھر  میدان جنگ کی طرف لوٹ گیا ، اپنے ساتھیوں کو لڑاتا رہا، باقی لشکر بھی جنگ کی آگ میں کود چکا تھا،  مسلمان پورے جوش و جذبے سے لڑتے رہے ایسے میں عینیہ ایک بار پھر طلحیہ کے پاس اس کے خیمے میں آیا :- ہاں ! کیا خبر ہے , جبرائیل آئے یا نہیں ؟
"_ابھی نہیں آئے جنگ جاری رکھو_,"
 وہ پھر میدان جنگ میں لوٹ گیا، آخر لشکر میں شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے، وہ پریشان ہو کر تیسری بار پھر طلحیہ کے خیمے میں آیا اور پوچھا:-  وہی آئی یا نہیں _,"
"_ ہاں ! جبرائیل آئے تھے، طلحیہ نے فوراً کہا ، 
"_تب پھِر انہوں نے کیا کہا ؟
 انہوں نے کہا ہے،  یہ لڑائی تمہارے لیے چکی کا پاٹ ثابت ہوگئی،  عینیہ کے لئے یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرے گا _,"

★_ اس وقت عینیہ کو احساس ہو گیا کہ یہ شخص جھوٹا ہے،  اس نے میدان جنگ میں جاکر اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا :- اے بنی فزارہ .. طلحیہ جھوٹا ہے ، اس لیے بھاگ چلو_,"
 اپنے سردار کا حکم سنتے ہی وہ بھاگ نکلے ،ان کے بھاگ نکلتے ہی لڑائی کا رنگ بدل گیا،  باقی مرتد پہلے ہی حوصلہ ہار چکے تھے،  وہ بھاگتے ہوئے طلحیہ کے خیمے تک آئے اور اس سے کہا :- اب کیا حکم ہے ؟ 
وہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اپنی بیوی کو بھی سوار کرایا گھوڑے کو ایڑ لگا کر بولا - تم لوگ بھی بھاگ چلو _,"

★_ اس طرح مرتد دم دبا کر بھاگے، میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا، طلحیہ وہاں سے بھاگ کر سیدھا شام پہنچا، کچھ دنوں بعد جب اسے معلوم ہوا کہ قبیلۂ اسد اور غطفان دونوں مسلمان ہو گئے ہیں، تو وہ بھی مسلمان ہو گیا، وہ بنوں کلب میں آ کر رہنے لگا،  کسی نے اس کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا، انہوں نے فرمایا کہ اب اس کے خلاف کچھ نہیں کیا جاسکتا ، وہ مسلمان ہو گیا ہے _, 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ،

 ★_ طلحیہ کی شکست کے بعد قبیلہ بنو اسد بنو قیس اور بنو فزارہ نے اسلام قبول کرلیا،  قبیلہ بنو عامر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے :- اب ہم نماز بھی پڑھیں گے اور زکوٰۃ بھی دیں گے _,"
گویا ان لوگوں نے بھی اطاعت قبول کرلی، عینیہ بن محصن فزاری اور اس کے خاص ساتھیوں کو گرفتار کرکے مدینہ منورہ بھیج دیا گیا،  مرتدوں کو عبرت ناک سزائیں دی گئیں ، فتح کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی،

★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بزاخہ میں ایک ماہ تک ٹھھرے رہے، ادھر میدان جنگ سے بھاگے ہوئے لوگ ایک عورت " ام زمل" کے گرد جمع ہوگئے،  ام زمل کی ماں" ام قرفہ" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک لڑائی میں گرفتار ہونے کے بعد قتل کر دی گئی تھی، ام زمل مسلمانوں سے اپنی ماں کا بدلہ لینے پر تلی ہوئی تھی، اس نے مسلمانوں سے انتقام کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا،  ان باغیوں کو لے کر یہ عورت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر نکلیں، اس وقت یہ اپنی ماں کے اونٹ پر بیٹھی تھی اور بہت فخر و غرور کا عالم اس پر طاری تھا ،

★_ حضرت خالد کو اس کے کوچ کا علم ہوا تو خود اس کے مقابلے پر نکلے، جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں نے ام زمل کے اونٹ کو گھیر لیا، اس طرح وہ ماری گئی، اس کے اونٹ کی حفاظت کے لئے سو سوار مقرر تھے، وہ بھی اس لڑائی میں مارے گئے،  اس فتح کی خبر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی،

★_ آس پاس کچھ اور لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان کی سازشوں کو بھی ختم کیا،  ان لڑائیوں میں جو بڑے بڑے سردار پکڑے گئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ منورہ بھیج دیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا، یہاں تک کہ عینہ نے اسلام قبول کرلیا یا تو اسے رہا کردیا گیا،  طلحیہ بھی مسلمان ہو گیا تھا اسے بھی معاف کر دیا گیا _,

 ★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دنوں میں کچھ لوگوں کو زکوۃ وصول کرنے کی غرض سے بھیجا تھا،  یہ لوگ قبیلہ بنو تمیم میں موجود تھے اور زکوۃ وصول کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا، اب ان حجرات میں ایک اختلاف پیدا ہوگیا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکوۃ کی رقم کا کیا کریں،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ بھیجے یا یہی کے لوگوں میں تقسیم کر دیں _,

★_ اس قبیلے بنو تمیم کا ایک شخص مالک بن نویرہ تھا وہ ان کا اہم آدمی تھا، اس نے زکوۃ کی رقم کو  مدینہ بھیجنے سے انکار کردیا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو بھیجا تھا ان کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کی رقم مدینہ منورہ بھیجی جائے گی، بس اس بات پر یہ شخص مسلمانوں کے خلاف ہو گیا _,"

★_ ابھی یہ اختلافی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ عراق کے ایک علاقے الجزیر کی ایک عورت سجاح بنت حارث وہاں پہنچ گئی،  یہ نبوت کا دعوی کر چکی تھی، اس کے ساتھ ایک بڑا لشکر تھا،  اس لشکر میں عراق کے بنو تغلب شامل تھے، ان کے علاوہ قبیلہ ربیعہ، نمر، آیاد  اور شیبان کے تجربے کار لوگ شامل تھے،  خود سجاح بنو تمیم سے تھی یعنی جس قبیلے کا مالک بن نویرہ تھا،  سجاح کا تعلق بنو تمیم کے ساتھ ساتھ بنو تغلب سے بھی تھا اور یہ سب لوگ عیسائی تھے،  اب چونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کو اسلام سے دشمنی تھی اس لیے یہ چالاک عورت ان لوگوں کو اسلام کے خلاف ابھارا کر لے آئی تھی،  یہ عورت پہلے سے ہی موقے کی تلاش میں تھی، جوں ہی اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اپنا لشکر لے کر مدینہ کی طرف چل پڑی،  کہا جاتا ہے کہ ایران کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ ہے،

★_ اب یہ سیدھی مالک بن نویرہ کے پاس پہنچی تھی،  وہاں پہلے ہی زکوۃ کی رقم کے معاملے میں اختلاف ہو چکا تھا،  لہذا مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ سجاح کے لشکر میں شامل ہوگیا،  دونوں ایک ہو گئے،  مالک بن نویرہ نے سجاح کو مشورہ دیا کہ ابھی مدینہ منورہ پر حملے کا وقت نہیں ہے بلکہ ابھی آس پاس کے لوگوں کو اپنی نبوت کا قائل کرے ،  انہیں ساتھ لائے،  اس طرح ہماری طاقت اور بڑھ جائے گی،  سجاح نے مالک بن نویرہ کا مشورہ مان لیا _,

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-28*

 ╨─────────────────────❥     
★_ مسیلمہ کزاب سے مقابلہ _,*

★_ ادھر یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا ، اس کے ساتھیوں میں کسرت ایسے لوگوں کے تھی جو اسے جھوٹا سمجھتے تھے لیکن دولت اور اقتدار کے لئے اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، سجاح کے بارے میں مسیلمہ کزاب کو معلوم ہوا  تو فکر مند ہوگیا ، اس نے سوچا اگر سجاح میرے ساتھ شامل ہو جائے تو ہماری طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا_،

★_ ادھر سجاح کو بھی یہی بات سوجھی، چنانچہ دونوں میں ملاقات ہوئی، اس طرح دونوں نے شادی کر لی، اب سجاح کی فوج بھی مسیلمہ کی فوج میں شامل ہو گئ، اس کے جھنڈے تلے 40 ہزار فوجی جمع ہوگئے،  شادی کے بعد سجاح اپنی قوم میں کچھ ضروری معاملات نمٹانے کے لئے چلی گئی، لیکن پھر واپس نہ آ سکی،  یہ بعد میں مسلمان ہو گئی تھی،

★_ ادھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ طلحیہ کو شکست دے چکے تھے، انہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم ملا کہ اب تم یمامہ جا کر مسیلمہ کا مقابلہ کرو _،

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یہ حکم سن کر آگے بڑھے تو زکوٰۃ کے کچھ منکرین اپنی زکوۃ لے کر ان کی خدمت میں حاضر  ہوئے اور انہوں نے نئے سرے سے اسلام قبول کر لیا،   البتہ مالک بن نویرہ نہ آیا ، وہ ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی اس میں نہیں تھی، اس لئے اس نے اپنے لوگوں کو منتشر کر دیا تھا، خالد خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو میدان صاف تھا،  انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو لوگ نماز پڑھیں زکوۃ دیں انہیں کچھ نہ کہا جائے،  جو ایسا نہ کریں انہیں سزا دی جائے ،  اسلامی لشکر کے کچھ لوگ جب مالک بن نویرہ کے علاقے میں پہنچے تو انہوں نے اسے قتل کر دیا کیونکہ ابھی تک اس نے زکوٰۃ کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا تھا،  نہ زکوۃ لے کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تھا ،

★_ اب اسلامی لشکر یمامہ کی طرف بڑھا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے پہلے ایک لشکر عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسیلمہ کی طرف روانہ کیا تھا لیکن انہیں ہدایت دی تھی کہ جا کر ابھی حملہ نہ کریں، ان کی مدد کے لئے آپ نے دوسرا لشکر ثرحبیل بن حسنہ کی  قیادت میں روانہ فرمایا تھا ،

★_ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کردیا ثرحبیل رضی اللہ عنہ کے لشکر کا انتظار نہ کیا،  اس طرح انہوں نے مسیلمہ کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی،  کیوں کہ مسیلمہ تو اس وقت تک بہت طاقت پکڑ چکا تھا،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو آپ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور انہیں ایک دوسرے محاذ پر جانے کا حکم دیا اور ثرحبیل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کے وہاں ٹھہریں اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا انتظار کریں ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم پا کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یمامہ کی طرف بڑھے یہاں تک کہ حضرت ثرحبیل رضی اللہ عنہ سے آ ملے،  مسیلمہ کزاب اس وقت یمامہ کے علاقے کے عقرباء میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھا،  تاریخ کی کتابوں میں ان کی فوج کی تعداد 40 ہزار سے 60 ہزار تک لکھی ہے ،

★_ آخر دونوں لشکر ایک دوسرے کی طرف بڑھیں،  زبردست جنگ شروع ہوگئ مورخین نے لکھا ہے کہ اسلام میں یہ سب سے پہلی شدید ترین لڑائی تھی اور اس میں مرتدوں نے حیرت انگیز حد تک بہادری دکھائی،  مسلمانوں کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر ان کا حوصلہ اور بڑھ گیا،  لیکن جلد ہی مسلمانوں نے خود کو سنبھال لیا،  اب جنگ گھمسان کی ہونے لگی، ایسے میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو حکم دیا :-  ہر دستہ الگ الگ ہو کر لڑے _,"

★_ مسیلمہ کو اس کے محافظوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہ پوری طرح اس کی حفاظت کر رہے تھے، اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے محسوس کرلیا کہ جب تک مسیلمہ اور اس کا حفاظتی دستہ سلامت ہے، ان لوگوں کو شکست نہیں دی جاسکتی، چناچہ انہوں نے ایک زوردار نعرہ لگایا اور اس دستے پر ٹوٹ پڑے،  ان کی تلوار بجلی کی طرح حرکت کر رہی تھی ، اور مسیلمہ بھاگنے لگا ، اس کے دستے میں سے کسی نے کہا - یہ کیا مسیلمہ تو بھاگ رہا  ہے .. تو تو ہم سے فتح اورکامرانی کا وعدہ کرتا تھا ، وہ فتح کہاں ہے ؟
 یہ سن کر بھی وہ نہ روکا خود تو بھاگ رہا تھا لیکن اپنی فوج سے کہہ رہا تھا - اپنے حسب نسب کے لیے لڑو _,"
اس کی بات کا ان پر کیا اثر ہوتا جبکہ خود بھاگ رہا تھا، نتیجہ یہ کہ فوج کے پاؤں اکھڑ گئے، ان کے پیچھے ایک بہت بڑا قلعہ نما باغ تھا .. مسیلمہ اور اس کی ساری فوج اس باغ میں داخل ہوگی اور اور دروازہ بند کر لیا ،

 ★_ اس باغ کے گرد بہت مضبوط چاردیواری تھی،  یہ باغ دراصل مسیلمہ کا قلعہ تھا، مسیلمہ خود کو یمامہ کا رحمان کہتا تھا اس طرح اس باغ کا نام بھی رحمان باغ تھا، اس باغ کا دروازہ بند ہونے کے بعد مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا انہوں نے باغ کو گھیرے میں لے لیا،  اب سوال یہ پیدا ہوا کہ باغ کے اندر کس طرح داخل ہوں،  اس وقت حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک انوکھی تجویز پیش کی، انہوں نے کہا -  مسلمانوں یوں کرو کہ مجھے مل کر اٹھاؤ اور جھولا دے کر قلعے کی دیوار سے اونچا اچھال دو،  میں دوسری طرف جا کر گروں گا اور انشاء اللہ دروازہ کھول دوں گا _,

★_ مسلمانوں نے بار بار انکار کیا اور انہوں نے اصرار کیا ، آخر مجبور ہوکر مسلمانوں نے انہیں اپنے نیزوں پر اٹھایا اور اوپر کی طرف اچھال دیا ، یہ دیوار کے اوپر سے ہوتے ہوئے باغ کے اندر عین دروازے کے پاس گرے، وہاں ان گنت دشمن موجود تھے، یہ جو ان کے اوپر گرے، وہ بدحواس ہو گئے انہوں نے خیال کیا کہ نہ جانے ان پر کیا بلا آ گری، لہذا گھبرا کر ادھر ادھر ہو گئے، حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے اتنا موقع ہی کافی تھا، انہوں نے فوراً اٹھ کر دروازہ کھول دیا،  مسلمان باغ کے اندر داخل ہوگئے،  اس طرح ایک بار پھر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی، لاشوں کے انبار لگ گئے،

★_ ایسے میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ  نے کام دکھایا ،  یہ حضرت زبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ، غزوۂ احد میں ان کے ہاتھوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے،  اس کے بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے،   یہ نیزے پھینکنے میں بہت ماہر تھے اور اپنی ساری مہارت سے کام لے کر انہوں نے تاک کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا تھا ،  آج اسی مہارت سے کام لے کر انہوں نے مسیلمہ پر نیزہ پھینکا ،  اس وار سے مسیلمہ جہنم رسید ہو گیا اور اس کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی، وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے ،

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ انہوں نے میدان جنگ کا معائنہ کیا اور لاشوں کے ڈھیر میں پڑی مسیلمہ کی لاش کو دیکھ کر اطمینان ظاہر کیا، اس روز سے اس باغ کا نام موت کا باغ مشہور ہو گیا ،  مسیلمہ کے لشکر کی 10 ہزار سے زیادہ آدمی مارے گئے، جب کہ مسلمانوں میں سے بارہ سو شہید ہوئے،

★_ مرتدوں کے ساتھ جتنی برائیاں لڑیں گی یہ ان سب میں بڑی اور سخت جنگ تھی، اس جنگ میں بڑے بڑے نامور صحابہ شہید ہوئے لیکن چونکہ مسیلمہ اس وقت اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا اور اس کے خلاف یہ فیصلہ کن جنگ تھی ، اس لئے اس جنگ کے بعد مسلمانوں کے قدم جزیرۃ العرب میں جم گئے،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو گیارہ لشکر ترتیب دیے تھے ان میں سے ایک لشکر کا سالار حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا، انہیں آپ نے بحرین کی طرف روانہ فرمایا تھا، بحرین ایرانی حکومت کا علاقہ تھا ، یہ ایک ریگستانی علاقہ تھا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بحرین کے سردار منزر بن سادی کو خط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی تھی، اس دعوت کے نتیجے میں منزر اور بحرین کے صدر مقام ہجر کا گورنر مرزبان مسلمان ہو گئے تھے،  ان کے ساتھ جتنے قبیلے آباد تھے ان سب نے بھی اسلامی اسلام قبول کر لیا تھا،  یہ واقعہ   ٨ ہجری کا ہے ، 

★_ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد منزر بن سادی کا بھی انتقال ہو گیا، اب دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی بحرین کے لوگ بھی اسلام سے پھر گئے، وہاں ایک صحابی حضرت جارود بن بثر رضی اللہ عنہ تھے، یہ کچھ مدت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے، انہوں نے قبیلہ عبد قیس کو پھر سے اسلام  قبول کر لینے کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کر لیا،  باقی لوگ بنوبکر وغیرہ مرتد ہی رہے،  یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف روانہ فرمایا ،

★_ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یمامہ کی جنگ سے فارغ ہوئے تھے، حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو لئے ایک صحرا سے گزر رہے تھے کہ شام ہو گئی، انہوں نے وہیں ٹھہر نے کا پروگرام بنایا تھا تاکہ رات کے وقت صحرا میں راستہ نہ بھول جائیں، اب وہاں عجیب اتفاق ہوا ، جن اونٹوں پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا وہ بدک کر بھاگ نکلے اور مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہا ، اب تو لشکر بہت پریشان ہوا، صحرا میں خوراک نہ ہوں تو جان پر بن جاتی ہے، انہیں اپنی موت کا یقین سا ہوگیا، ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگے،  تاہم حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا:- "_ اے لوگو ! کیا تم اللہ کے راستے میں نہیں ہو, یقین کرو اللہ تم جیسے لوگوں کو رسوا اور ذلیل نہیں کرے گا _,"

★_ اسلامی فوج جب صبح کی نماز سے فارغ ہوئی تو دور سے انہیں پانی کی چمک نظر آئی، ریگستان میں جب ایسی چمک نظر آئے تو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں پانی ہے لیکن وہاں جانے پر پتا چلتا ہے کہ ریت کی چمک تھی پانی کی نہیں، انہوں نے بھی یہی خیال کیا، تاہم فوج کے   ہر اول دستے نے آگے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا، وہاں پہنچے تو وہ پانی ہی تھا،  اب تو سب کے سب بہت خوش ہوئے،  سب نے پانی پیا غسل کیا اور پانی اپنے مشقیزوں میں بھر لیا ،  سورج ذرا بلند ہوا تو اونٹ بھی ادھر ادھر سے ان کے پاس آئے،  مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اب لشکر تازہ دم ہو کر آگے روانہ ہوا اور بحرین کے مقام پر پہنچ گیا ،

★_ بحرین کی فوج کے سالار کا نام مطعم بن جبیر تھا ، بحرین کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ تھی،  ایک رات اس لشکر میں شوروغل کی آوازیں سنائی دیں، حضرت علاء  رضی اللہ عنہ نے معلومات حاصل کرنے کے لیے چند فوجی روانہ کئے، انہوں نے آ کر بتایا کہ ایرانی سپاہی شراب پی کر نشے میں شور مچا رہے ہیں،  یہ سنتے ہی حضرت علاء رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر ان پر ٹوٹ پڑے،  بحرین کا لشکر بدحواس ہو گیا ، بہت سے قتل ہوئے، بے شمار گرفتار ہوئے اور بہت سے بھاگ نکلے،  مطعم بھی مارا گیا ، بھاگنے والے کشتیوں میں سوار ہوکر دارین پہنچ گئے ،

★_ دارین ایک جزیرہ تھا، یہاں عیسائی آباد تھے،  حضرت علاء رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کرنا چاہا  لیکن مسلمانوں کے پاس کشتیاں نہیں تھیں، تب حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے اپنے مجاہدین سے کہا :-  مسلمانوں !  کچھ خوف نہ کرو ، جس اللہ نے تمہاری خشکی میں مدد کی وہی سمندر میں بھی تمہاری مدد کرے گا _,"

★_ ان الفاظ کے بعد تمام لشکر نے اللہ سے دعا کی، نہایت عاجزی سے گڑگڑائے اور اپنے گھوڑے خچر اور یہاں تک کہ گدھے تک سمندر میں ڈال دیے،  اس طرح اسلامی لشکر نے سمندر پار کر لیا اور جزیرہ دارین کے ساحل پر پہنچ گئے ، 
علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا :-_
*"_ دست تو دست دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے،*
*"_ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے ،*

★_ اب  یہاں بھاگنے والوں کو بھی کسی اور طرف سے بھاگنے کا راستہ نہیں تھا، اس لئے وہ ایک بار پھر مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے، آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی، اس جنگ میں بے حد مال غنیمت ہاتھ آیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فتح کی خوشخبری کا پیغام پہنچا دیا گیا _,"

نتائج کے اعتبار سے یہ جنگ یمامہ کی جنگ سے زیادہ اہم تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ یمامہ میں صرف ایک قوم سے جنگ تھی، جبکہ بحرین خلیج فارس پر واقع تھا اور ایران کی حکومت کے ماتحت تھا اس لیے یہ جنگ کسی ایک قوم سے نہیں  تھی، بہت سی قوموں سے تھی،  ان لوگوں میں یہودی عیسائی اور آتش پرست تھے، اس جنگ کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں کے لیے عراق کی فتح کی راہ ہموار ہو گئی ،

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-32*

 ╨─────────────────────❥     
*★_عراق کی طرف لشکر _,*

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکمل طور پر مرتدوں کے خلاف کامیابی حاصل کر چکے تو آپ نے بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ دی،  اس وقت دو بڑی طاقتیں روم اور ایران اسلام کی دشمن تھیں، روم کے لوگ عیسائی تھے جبکہ ایرانی لوگ آگ کو پوجتے تھے، یہ مجوسی کہلاتے تھے، اس وقت  پورا شام رومی حکومت میں شامل تھا اور عراق ایرانی حقومت کا حصہ تھا ، ان دونوں حکومتوں کی سرحدیں عرب میں مل جاتی تھی،  یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی ہمت اور جرات تھی کہ ایک ہی وقت میں ان دونوں کے خلاف کارروائی شروع کی ، 

★_ ایرانیوں کو اپنی طاقت پر بہت ناز تھا ان کا خیال تھا کہ انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ، مسلمانوں کو تو وہ کچھ  سمجھتے ہی نہیں تھے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں آس پاس کے ملکوں کے بادشاہوں کو خطوط کے ذریعے اسلام کا پیغام بھیجا تھا ، ایک خط آپنے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو بھی ارسال فرمایا تھا،

★_ اس بد بخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھے بغیر پھاڑ دیا تھا اور غصے میں آکر یمن کے گورنر کو یہ پیغام بھیجا  تھا :- جس شخص نے مجھے یہ خط لکھا ہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو _,"
 جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ اس نے اپ کا  خط ٹکڑے ٹکڑے کردیا  تو ارشاد فرمایا :- اللہ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا _,"

★_ پھر ہوا یہ کہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے نے حکومت کے لالچ میں قتل کر دیا، اس کے بعد ایرانی آپس میں لڑنے لگے ، اس کی سرحدوں پر عرب قبیلے آباد تھے ، یہ ان پر بھی ظلم اور زیادتیاں کرتے تھے،  جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مرتدوں کے فتنے کو کچلینے میں کامیاب ہوگئے تو حضرت مشنی بن حارثہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے خلیفۂ رسول کو ایران کے حالات بتائے،  جو ظلم و ستم وہ توڑ رہے تھے اس کی تفصیلات بتائیں اور خود انہوں نے ایران کے خلاف  جو کاروائی اب تک کی تھی ان کی تفصیل بھی سنائی اور آخر میں مدد کی درخواست کی ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ارادہ پہلے ہی یہ تھا کہ اسلام کی دشمن طاقتوں کے خلاف لڑائی شروع کی جائے ،  چنانچہ آپ نے مشنی بن حارثہ سے فرمایا :-  تم واپس جاؤ  اور سرحدوں کے قریب آباد سارے عرب قبیلوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو ، ہم تمہاری مدد کےلیے جلد ہی فوج بھیج رہے ہیں _,"

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا :- فوراً عراق کی طرف روانہ ہو جاؤ اور مثنیٰ کو ساتھ ملا کر ایران کے ظالم مجوسیوں کے خلاف لڑائی شروع کرو _,
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس وقت یمامہ میں تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم ملتے ہی وہ دس ہزار  مجاہدین کے ساتھ عراق کی طرف بڑھے ، یہ واقعہ بارہ ہجری کا تھا ،

★_ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایات دیں :-
١_ عراق کی سرزمین پر پہنچ کر لوگوں کی دل جوئی کریں اللہ کی طرف انہیں دعوت دیں، اگر اس دعوت کو قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ طلب کریں، جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو پھر ان سے جنگ کریں_,
٢_ جو لوگ ساتھ جانے کے لئے تیار نہ ہو ان پر جبر نہ کریں_, 
٣_ جو لوگ مرتد ہوگئے تھے لیکن پھر مسلمان ہو گئے ان سے کسی قسم کی مدد طلب نہ کریں_,
٤_ جو مسلمان پاس سے گذریں انہیں ساتھ ملا لیں_,
٥_ اپنی جنگ کا آغاز  ابلہ سے کریں _,"

★_ یہ آخری حکم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے اس لیے دیا تھا کہ اس زمانے میں شاہ ایران کا سارا جنگی سامان ابلہ میں موجود تھا گویا اس کی فوجی چھاؤنی تھی،  یہ شہر بندرگاہ بھی تھا ، اس کے ذریعے عرب اور ہندوستان کے درمیان تجارتی تعلقات قائم تھے،

★_ اسلامی لشکر عراق کی طرف بڑھا اس وقت عراق کا گورنر " ہرمز " ایران کے بہت بڑے پہلوانوں میں شامل تھا،  یہ بہت ہی ظالم تھا، اس کے ظلم سے تنگ آ کر حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے ایرانی سرحدوں پر گوریلا کارروائیاں شروع کی تھیں ،

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کی حدود میں داخل ہوئے تو حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ آٹھ ہزار فوج کے ساتھ ان سے آ ملے،  اب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ کا سردار حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا،  دوسرے حصے کا سالار حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور تیسرا حصہ خود اپنے پاس رکھا ، سب سے آگے حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر روانہ ہوا، اس کے دو دن بعد حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کا اور تین دن بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر روانہ ہوا ،

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ہرمز کے نام خط بھی لکھا جس میں فرمایا :-  تو اسلام لے آآ،محفوظ رہے گا، ورنہ جزیہ ادا کر، یہ بھی منظور نہیں تو جنگ کے لئے تیار ہو جا،  میں تیری طرف ان لوگوں کو لے آیا ہوں جو موت کو اتنا محبوب رکھتے ہیں جتنا تم زندگی کو _,"

★_ ہرمز کو خط ملا ، ساتھ ہی اسے مسلمانی فوج کی کارروائی کی اطلاعات ملی تو اس نے ایران کے بادشاہ یزدگرد کو یہ تمام حالات لکھ بھیجے،  پھر اپنا لشکر لے کر تیزی سے حزیر کے مقام کی طرف بڑھا ، وہاں پہنچ کر اس نے پانی کے پاس پڑاؤ ڈال دیا،  حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر وہاں پہنچا تو انہیں یہ پریشان کن خبر ملی کہ ہرمز نے پانی پر قبضہ کر لیا اور ہمارے پاس پانی نہیں ہے ،

★_ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے ساتھ مل کر اللہ سے دعا کی،  بس پھر کیا تھا بارش شروع ہو گئی اور جل تھل ہو گیا،  دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں،  زبردست جنگ ہوئی،  مسلمانوں کو فتح ہوئی اور ہرمز مارا گیا ، ہرمز کے مارے جاتے ہی ایرانی حوصلہ ہار بیٹھے ، وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور دریائے فرات کے پل پر پہنچ کر ہی دم لیا ، اس مقام پر بعد میں شہر بصرہ آباد ہوا ، بے تحاشہ مال غنیمت ہاتھ آیا ، اس میں ایک ہاتھی بھی تھا،  مدینہ منورہ کے لوگوں نے زندگی میں کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا، یہ ان کے لیے عجیب جانور تھا ،

: ★_ اس جنگ سے فارغ ہوکر  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حیرا کی طرف بڑھے،  یہ خلیج فارس اور مدائن کے درمیان واقع تھا، ادھر یزدگرد کو  ایرانیوں کی عبرتناک شکست کی خبر ملی تو اس نے ایک لشکر روانہ کیا، پھر اس کی مدد کے لیے اس کے پیچھے ایک اور لشکر روانہ کیا، انہوں نے راستے میں ملنے والے قبائل کو بھی ساتھ ملا لیا، اس طرح ان دونوں لشکروں میں مسلمانوں کے خلاف بہت سے عیسائی شامل ہوگئے، ان سب نے مل کر دلیجہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ، دلیجہ دریا دجلہ اور فرات کے ملنے کی جگہ پر واقع تھا ، 

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایرانیوں کی تیاریوں کی اطلاع ملی تو پورے سازو سامان کے ساتھ روانہ ہوئے ، یہ جنگ آسان نہیں تھی، آخر جنگ شروع ہوگئی اور اسلامی لشکر کو فتح ہوئی ،

★_ جنگ کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ بہت نرم سلوک کیا ان سب کو امان دے دی ،

★_ اس وقت ایرانی حکومت کی طرف سے  حیرا کا گورنر ازازیاں تھا ، اسے اسلامی لشکر کی آمد کا پتہ چلا تو اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا، ساتھ ہی اس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا- اسلامی لشکر دریا پار کر کے اس طرف آئے گا تم دریا کا پانی کاٹ دو _,"

[ ★_ اس طرح دریا کا پانی خشک ہوتا چلا گیا اور اسلامی لشکر کی کشتیاں زمین سے لگ گئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنا ایک دستہ لے کر کشتیوں سے اترے اور آزازیہ کے لڑکے کو قتل کر دیا ،

★_ ایسے میں آپ آزازیہ کو ایران کے شہنشاہ کے مرنے کی خبر ملی، اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وہ بھاگ نکلا، حیرہ کے لوگ قلعہ بند ہو گئے، اسلامی لشکر نے حیرہ شہر کو گھیر لیا آخر حیرہ کے لوگ صلح پر مجبور  ہو گئے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ 90 ہزار درہم سالانہ جزیہ پر صلح کی اور فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی،

★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں ایک بار اطلاع ملی تھی کہ دومتہ الجندل میں دشمنوں کی ایک بڑی فوج جمع ہو رہی ہے، یہاں اکیدر نانی شخص کو قیصر کی طرف سے دومۃ الجندل کا حاکم مقرر کیا گیا تھا، یہ ایک عربی سردار تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ہجری ماہ شوال میں اس کے مقابلے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تھا،

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے مدینہ منورہ لے آئے تھے اور یہ مسلمان ہو گیا تھا،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دومۃ الجندل کے لوگوں پر مقرر فرما دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ مرتد ہوگیا تھا،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تھا،  یہاں تک کہ اس مہم میں ایک سال گزر گیا لیکن فتح نہ کرسکے ، اب انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مدد کا پیغام بھیجا، پیغام ملتے ہی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دومتہ الجندل کا رخ کیا، انہوں نے تین سو میل کا سفر دس دن سے بھی کم مدت میں طے کیا اور دومۃ الجندل پہنچ گئے ،
 
★_ اکیدر چونکہ پہلے ہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگی صلاحیتوں سے واقف تھا اس لیے اس نے دوسرے قبائل کو صلح کا مشورہ دیا، انہوں نے انکار کیا تو  یہ ان سے الگ ہو کر نکل بھاگا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کے فرار ہونے کی اطلاع ملی تو اس کے پیچھے ایک دستہ روانہ فرمایا ، مجاہدین اسے گرفتار کرکے لائے چونکہ یہ مرتد ہوگیا تھا اور باغی بھی تھا اس لیے اسے قتل کر دیا گیا،

★_ اب دشمن فوج کی سپہ سالاری جودی نامی سردار کے ہاتھ میں تھی، اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا تو دوسرا حضرت عیاض بن غنم کی طرف،  زبردست جنگ ہوئی، آخر مسلمانو کو فتح ہوئی،

★_ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ابھی دومۃالجندل ہی میں تھے کہ عراق کے عرب قبائل نے ان کی غیر موجودگی میں بغاوت کر دی ، شکست کھائے ہوئے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے،  حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ اگرچہ وہاں موجود تھے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑی فوج تھی اس لئے انہوں نے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا انتظار کرنے لگے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ بھی اطلاع ملتے ہی اس طرف روانہ ہوئے ، حیرہ  پہنچ کر انہوں نے بغاوت کرنے والوں کے خلاف حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ کو فوج دے کر بھیجا،  اس جنگ میں ایرانی سردار روزمہر اور روزیہ مارے گئے، بغاوت کی آگ بھڑکانے میں یہ دونوں آگے تھے ،  یہ جنگ حصید کے مقام پر لڑی گئی،

★_ اس مقام سے بھاگ کر ایرانی خنافس کے مقام پر جمع ہوئے ، اسلامی لشکر اس طرف بڑھا تو یہ لوگ وہاں سے بھاگ نکلے ، اب یہ لوگ ایک اور مقام پر جمع ہوگئے، اس جگہ کا سردار ہزیل تھا، اسلامی فوج نے ان سب پر کاروائی شروع کر دی،

★_ یہ سارا فتنہ برپا کرنے والے لوگ در اصل بنو تغلب کے تھے، یہی لوگ دوسروں کو جنگ پر ابھار رہے تھے، اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں سبق سکھانے کا پکا ارادہ کر لیا، انہوں نے حضرت قعقاع اور ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہم کو فوج دے کر مختلف راستوں پر بنو تغلب کی طرف روانہ کیا اور دونوں کو حملے کا وقت بتا دیا، پھر خود بھی روانہ ہوئے، اس طرح بنو تغلب پر ایک ہی وقت میں اچانک تین طرف سے حملہ کیا گیا، اس اچانک حملے سے وہ ایک دوسرے کو خبر بھی نہ دے سکے،

★_  ان تمام مہمات سے فارغ ہوکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فراض کا رخ کیا، یہ رومیوں کا علاقہ تھا ، رومیوں نے اسلامی لشکر کو دیکھا تو ان کے غصے کی حد نہ رہی ،

*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-  ص-43*

 ╨─────────────────────❥ 
*★_ شام کی مہمات کی تیاریاں _,*

★_ فراز عراق اور شام کی سرحد پر دریا فرات کے شمالی حصے میں واقع تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کی بغاوت کچلنے کے بعد فراز پہنچے، آپ نے اسلامی لشکر کو دریا فرات کے کنارے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، اب رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا، یہ پورا مہینہ ان کا وہی گزرا ، پھر ١٥ ذیقعدہ، ١٢ ہجری تک دونوں فوجیں اسی طرح آمنے سامنے پڑی رہیں، دونوں فوجوں کے درمیان میں دریا حائل تھا ،

★_ آخر رومیوں نے پہل کی اور دریا پار کر کے اس طرف آ گیے اور جنگ شروع ہو گئی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کو حکم دیا - دشمن کی فوج منتشر نہ ہونے دیں بلکہ انہیں چاروں طرف سے گھیر کر لڑو _,
مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور رومیوں اور عیسائیوں کے عظیم لشکر درہم برہم ہو گئے، 

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ان جنگوں کا زمانہ محرم 12 ہجری سے سفر 13 ہجری تک ایک سال ایک ماہ ہوتا ہے ، اس مختصر مدت میں ان کے ہاتھ جو فتوحات ہوئی وہ جنگوں کی تاریخ میں ایک عجوبہ واقعہ ہے، ان جنگوں کا دائرہ خلیج فارس سے لے کر شام کی سرحد تک وسیع ہے ،

★_ پھر یہ جنگیں کسی ایک قوم سے نہیں لڑی بلکہ ان میں ایرانی رومی اور عرب کے قبائل سب ہی شامل تھے، ہر موقع پر تعداد اور اسلحے کی زیادتی انہیں حاصل تھی اور اسلامی لشکر کی تعداد ہر موقع پر ان کے مقابلے پر بہت کم رہیں اور سازوسامان بھی بہت کم تھا، ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالی نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلامی لشکر کو عظیم الشان فتوحات سے نوازا، ان تمام معرکوں میں کسی ایک میں بھی مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی ،    

★_ لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کسی علاقے کو فتح کرتے ہی آگے نہیں چل دیتے تھے بلکہ فتح کیے ہوئے علاقوں کا باقاعدہ بندوبست کرتے تھے ، وہاں کا حاکم مقرر فرماتے تھے،   لوگوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا جاتا تھا، اسلامی تعلیمات سے انہیں روشناس کرایا جاتا تھا اور وہ اسلامی تعلیمات اور خوبیوں کے بہت جلدی دلدادہ ہو جاتے تھے،

★_ اس لحاظ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ترین فاتح بن کر سامنے آئے اور ان جیسی مثال پھر کوئی پیش نہ کرسکا، مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئے تھے، ان کے حوصلے بہت بلند تھے، ان کے لیے شام کی طرف بڑھنا بہت آسان ہوگیا تھا ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کے خلاف اعلان جنگ سے پہلے اس کے نام خط روانہ فرمایا، اس خط کے ذریعے آپ نے سب سے پہلے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،  اس پیغام کے جواب میں قیصر روم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، 

★_ تمام تیاریاں مکمل ہوگئی تو فوج کی روانگی کا وقت آ گیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا، ان چار لشکروں میں سب سے بڑا لشکر حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا تھا، دوسرے لشکر کے سالار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، تیسرا  لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا تھا اور چوتھا حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ کا تھا ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا - تو تبوک کے راستے دمشق پہنچوں_,"
 حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فلسطین کے لئے مقرر کیا ، انہیں حکم دیا - تم ایلہ کے راستے فلسطین جاؤ _,"
 باقی لشکر کو بھی آپ نے ان کے پیچھے ہی روانہ فرما دئیے،

★_ شام کے محاذ پر بارہ ہزار کا لشکر کافی نہیں ہو سکتا تھا، قیصر  نے بہت بڑے پیمانے پر تیاری کی تھی، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسلامی لشکر کے آگے پیچھے لشکر روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ، اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد تعداد 30 ہزار ہوگئی ،

★_ اسلامی لشکر سے پہلے  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قیصر کی تیاریوں کے سلسلے میں اطلاعات ملی تو آپ نے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو تیما کی طرف روانہ فرمایا تھا ، تیما شام کی سرحد پر واقع تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روانہ کرتے وقت یہ ہدایت دی تھی کہ تم وہاں پہنچ کر آس پاس کے لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرو ...  اور جب تک میرا حکم نہ پہنچے، اس وقت تک جنگ نہ کرو _,

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دراصل انہیں سرحد کی حفاظت کے لیے پہنچایا تھا کہ قیصر کی طرف سے حملہ ہوجائیے تو روک تھام کی جاسکے، انہوں نے قیصر کی فوج کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تو ابوبکر صدیق کو تفصیلات لکھ بھیجی،  ابھی اسلامی لشکر وہاں نہیں پہنچا تھا اور حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ اتنے بڑے لشکر کو روک نہیں سکتے تھے،  چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ انہوں نے حکم بھیجا - آگے بڑھو , لیکن دشمن سے لڑتے وقت اندر تک نہ گھستے چلے جانا،  ایسا نہ ہو کہ
 دشمنی تمہیں پیچھے سے دبا لے _,"
 حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے اس حکم توجہ نہ دی اور جوش میں آگے بڑھتے چلے گئے ،

★_ رومی فوج کا افسر سر باہان تھا اس نے اسلامی لشکر کو بڑھتے دیکھا تو فوج کا رخ تبدیل کر دیا، یہ اس کی جنگی چال تھی، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ آگے بڑھتے چلے گئے اور باہان نے پیچھے سے ان کو گھیر لیا، ان کے لیے پیچھے ہٹنا بھی ممکن نہ رہا، میدان جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے ، میدان جنگ سے پسپا ہو گئے اور مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام ذواالموہ پر پہنچ کر دم لیا، 

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی تو انہیں بہت رنج پہنچا، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار کا لشکر سرحدوں کی طرف روانہ فرما دیا تھا، چاروں لشکر الگ الگ تھے لیکن ان کے آپس میں رابطے تھے، آپس میں مشوروں کا سلسلہ برابر جاری تھا ، قیصر روم کو ان چاروں لشکروں کا علم ہو چکا تھا، اس کے پاس فوج بے شمار تھی اس لئے اسے پوری طرح یقین تھا کہ مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے،

★_ تیاریوں کے سلسلے میں قیصر خود حمص آیا، یہ شہر شام کی بہت بڑی فوجی چھاؤنی تھی، یہاں پہنچ کر اس نے بھی اپنے لشکر کے چار حصے کئے، ایک لشکر کا سالار اپنے بھائی کو مقرر کیا، اس شکر کی تعداد 90 ہزار تھی اس کے مقابلے میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا جن کی تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی،

★_ قیصر کے دوسرے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اس کے مقابلے میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا جن کی تعداد بھی ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی، تیسرا لشکر کی تعداد 90 ہزار تھی یہ لشکر حضرت یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آیا جن کی تعداد بھی ساڑھے سات ہزار تھی، قیصر نے چوتھا لشکر حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر بھیجا ،

★_ مسلمانوں کو رومیوں کی ان زبردست تیاریوں کا علم ہوا اور اپنی کم تعداد کا اندازہ ہوا تو فکرمند ہوگئے، ان حالات کی تفصیل مدینہ منورہ بھیجی گئی وہاں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم آیا :- اب تم سب الگ الگ نہیں بلکہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ,...  یعنی چار کی بجائے اپنا ایک لشکر بلالو، اپنی کم تعداد کا غم نہ کرو، تم اللہ کے دین کے مددگار ہو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا، تم سب مل کر یرموک میں جمع ہو جاؤ _,

★_ یرموک دراصل ایک دریا کا نام ہے یہ دریا جوران کے پہاڑوں سے نکلتا ہے،  یرموک کا دریا جہاں اردن  کے دریا سے ملتا ہے وہاں سے تیس چالیس میل کے فاصلے پر  واقوصہ نامی مقام ہے، یہ بہت وسیع علاقہ ہے تین طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، قیصر کی فوج نے اسی مقام پر پڑاؤ ڈال دیا تھا، مسلمان بھی دریا یرموک کو پار کر کے رومیوں کے مقابلے پر پہنچ گئے ، گویا اب رومی تین طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے سامنے جو راستہ تھا وہاں اسلامی لشکر  پڑاؤ ڈال چکا تھا، اس طرح رومی لشکر پہاڑوں کی وادی میں گھر کر رہ گیا ،

★_ یہ قدرتی صورت حال دیکھ کر حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور فرمایا :- مسلمانوں ! تمہیں مبارک ہو, رومی لشکر گھیرے میں آ گیا _,"

★_ دونوں لشکر دو ماہ تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے پڑے رہے ،  اس دوران معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں  پوری طرح جنگ شروع نہ ہوسکی،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان حالات کی خبر ملی تو آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ عراق میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر کرکے یرموک پہنچیں _,

★_ اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایران کے دارالحکومت مدائن پر حملے کی تیاری کر رہے تھے، خلیفہ رسول کا حکم پا کر آپ فوراً یرموک کی طرف روانہ ہوگئے ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو حکم بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے :- "_  تم روانہ ہو جاؤں ، یہاں تک کہ یرموک میں جو مسلمان جمع ہیں ان سے جا ملوں، کیوں کہ وہ غم زدہ ہیں اور جب تم وہاں پہنچ جاؤں تو پھر لشکر کی کمان تم ہی سنبھالو _,"

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پوری اسلامی فوج کا جائزہ لیا اور اس کی صف بندی کی، ایک ایک دستے کے پاس خود گئے ان کے سامنے پرجوش تقریریں کی، اس جنگ میں مسلمان عورتیں بھی شامل تھی انہیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑا کیا تھا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان عورتوں سے فرمایا :- اگر کچھ مسلمان میدان چھوڑ کر بھاگیں تو انہیں غیرت دلانا.. شرمندہ کرنا _,"

★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز کے بعد جنگ شروع کرنا چاہتے تھے کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا،  لیکن رومیوں نے آگے بڑھ کر ان پر حملہ کردیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خود اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حملہ شروع کیا، اسلامی فوج ایک جان ہو کر آگے بڑھیں اور اس قدر زبردست جوابی حملہ کیا کہ رومیوں کے اندر تک گھستے چلے گئے ،

★_ جنگ جاری رہی، دونوں لشکر جان توڑ کر لڑتے رہے، آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، وہ بدحواس ہو کر بھاگے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، اللہ اکبر کے نعروں سے میدان جنگ گونج اٹھا،  فتح کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجی گئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا :- "_تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور میری آنکھوں کو فتح کی خوشخبری سے ٹھنڈا کردیا _,"
 یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات سے 24 دن پہلے کا ہے،


 ╨─────────────────────❥
     *★_ صدیق اکبر کی جانشینی _,*

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کی فتوحات کا سلسلہ یہی تک ہے، اس کے بعد جو فتوحات ہوئی ان کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے ہے ،

★_ جب صدیق اکبر کی بیماری کی شدت آئی تو آپ کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ خلیفہ کسے مقرر کیا جائے، اس سلسلے میں مشورہ کے لئے آپ نے  بڑے بڑے صحابہ کو بلایا اور حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں ان کی رائے معلوم کی،

★_ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا :- اے ابوبکر ! آپ کو معلوم ہے کہ عمر کے مجاز میں سختی ہے ، اس کے باوجود آپ انہیں اپنا جانشین بنا رہے ہیں، کل اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے ؟
اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں لیٹے ہوئے تھے ،  حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر آپ کو غصہ آگیا، بولے:-  مجھے بٹھا دو _,"

★_ لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا، تب آپ نے فرمایا :- "_ کیا مجھے میرے پروردگار سے ڈراتے ہو ؟ میں جب اپنے رب سے ملوں گا اور وہ اس سلسلے میں مجھ سے سوال کرے گا تو میں کہوں گا ، اے اللہ ! میں نے تیرے بندوں پر ایک ایسے شخص کو مقرر کیا ہے جو بہترین ہے _,"

★_ پھر جب سب چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:- "_ عمر کی جانشینی کا پروا نہ لکھیں _,"
وہ قلم دوات لے کر بیٹھ گئے،  تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- "_لکھو .. بسم اللہ الرحمن الرحیم .. یہ عہدنامہ ہے جو ابوبکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کے لئے لکھوایا ہے_,"
ابھی اتنا لکھوایا تھا کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی _,

★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہلے سے معلوم تھا انہوں نے سوچا اگر بے ہوشی طویل ہوگئی اور اسی عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو یہ پروانہ نامکمل نہ رہ جائے اور ملک میں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے، چنانچہ خود ہی لکھ دیا :-  میں نے تم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے اور میں نے اس معاملے میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں کی _,"

★_ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوش میں آگئے آپ نے پوچھا - کیا لکھا ؟ انہوں نے عبارت کو پڑھ کر سنائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خوش ہو کر بول اٹھے - اللہ اکبر ! اللہ تمہیں جزا عطا فرمائے، اب یہ لوگوں کے درمیان سنا دو _,"

★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی دعوت پر سب لوگ جمع ہو گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلیفہ رسول کا حکم پڑھ کر سنایا ، سب نے اس فرمان کو  خوشی سے قبول کیا،  اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود چھت پر تشریف لے آئے  اور فرمایا - لوگوں میں نے جس شخص کو خلیفہ مقرر کیا ہے ، میرا کوئی رشتے دار نہیں ہے ..  بلکہ وہ عمر ہے...  کیا تم انہیں قبول کرتے ہو ؟ سب نے ایک آواز ہو کر کہا - ہم نے سنا اور اطاعت کی_,"

★_ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ کو بلایا اور انہیں نصیحت فرمائی،  نصیحت کے بعد فرمایا :-  مثنیٰ بن حارثہ کی مدد کے لیے سب کام چھوڑ کر مزید فوج عراق روانہ کرنا _,"
پھر پوچھا :- جب سے میں خلیفہ بنانا ہوں اس وقت سے اب تک مجھے کتنا وظیفہ ملا ہے ؟ حساب کرکے انہیں بتایا گیا ، چھ ہزار درہم ، آپ نے فرمایا :- میری فلا زمین فروخت کر کے یہ رقم بیت المال میں جمع  کروا دی جائے _,"

★_ اس کے بعد فرمایا - میرے خلیفہ بننے کے بعد سے لے کر اب تک میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا ہے ؟ آپ کو بتایا گیا - ایک جنسی غلام ہے جو بچوں کو کھلاتا ہے اور تلواریں تیز کرتا ہے ایک اونٹنی ہے جس پر پانی لایا جاتا ہے ایک چادر ہے جس کی قیمت سوا روپے کے قریب ہے،  یہ سن کر ارشاد فرمایا - میری وفات کے بعد یہ چیزیں خلیفۂ وقت کو بھیج دی جائیں_,"

★_جب یہ چیزیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی گئی تو وہ رو پڑھے .. روتے جاتے اور کہتے جاتے - اے ابو بکر ! آپ اپنے جانشینوں کو بہت مشکل میں مبتلا کر گئے_,"

★_ پھر آپ نے اپنے گھریلو معاملات کے ذمہ دار حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا -  اے معیقیب ! تم میرے گھر کے منتظم ہو ، بتاؤ میرا اور تمہارا کیا حساب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا - میرے 25 درہم آپ کے ذمے ہیں وہ میں نے آپ کو معاف کئے،  یہ سن کر فرمایا - چپ رہو ! میرے توشہ آخرت میں قرض شامل نہ کرو _,"
پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور انہیں حکم فرمایا - معیقیب کو 25 درہم ادا کر دیئے جائیں _,"

★_ پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا -  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، آپ کو بتایا گیا- تین کپڑوں میں, حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت دو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا- بس تو پھر میرے یہ دو کپڑے تو ہیں ہی، تیسرا کپڑا بازار سے خرید کر مجھے کفن دے دینا _,"
یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا - ابا جان ! ہم آپ کے لیے تینوں نئے کپڑے خرید سکتے ہیں،  آپ نے فرمایا- بیٹی ! نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ہے_,"

★_ اب اپنی بیوی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو وصیت  کی - مجھے غسل تم دینا _",  وہ رو کر کہنے لگیں- یہ مجھ سے نہیں ہوگا، آپ نے فرمایا - تمہارا بیٹا عبدالرحمان تمہاری مدد کرے گا _,"
اس کے بعد پوچھا - آج کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے بتایا- آج پیر کا دن ہے , آپ نے پوچھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کونسے دن ہوئی تھی ؟ آپ کو بتایا گیا - پیر کے دن ،  آپ نے فرمایا - تب میں امید کرتا ہوں کہ میری وفات بھی آج ہی کے دن ہوگی ... میری قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ بنائی جائے _,"

★_ ان وصیتوں سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آپ پر موت کے آثار طاری ہوگئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حسرت بھرے انداز میں یہ شعر پڑھنے لگیں :- وہ پر نور صورت جس کے چہرے کا صدقہ دے کر کے بادلوں سے بارش مانگی گئی ... جو یتیموں پر مہربان ہو اور فقیروں کی پناہ ہو _,"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کانوں میں یہ شعر پڑا تو تو چونک اٹھے , کیونکہ یہ شعر شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا تھا ، چنانچہ فوراً بولے- یہ شان تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی,

★_ آخر موت کی گھڑی آ گئی، ایک بجلی آئی اور خلافت و امامت کا یہ آفتاب دنیا سے روپوش ہو گیا ، آپ کے آخری الفاظ یہ تھے :- اے رب تو مجھے مسلمان اٹھا اور صالحین کے ساتھ میرا حشر کر _,

★_ آپ کی وفات پائی22 جمادی الثانیہ 13 ہجری بروز پیر مغرب اور عشاء کے درمیان ہوئی، رات ہی میں آپ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے وصیت کے مطابق آپ کو غسل دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت طلحہ اور عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم قبر میں اترے آپ اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پہلو میں لٹا دیا ، اس طرح کہ آپ کا سر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ مبارک تک آ گیا تھا، اللہ اکبر ! مرنے کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احترام کہ آپ کے برابر نہیں لیٹے ،

★_ وفات کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بھی وفات کے وقت 63 برس تھی، آپ کی خلافت کی مدت دو برس تین مہینے اور گیارہ دن ہے، رضی اللہ عنہ و ارضاہ_,*

 ╨─────────────────────❥  
*★_ خلافت صدیقی _,*

★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد مسلمانوں کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات پہلا بڑا صدمہ تھا، اس صدمے میں مدینہ منورہ کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے، ایک لرزہ چھا گیا ، پورے جزیرہ نمائے عرب میں غم طاری ہوگیا، جو شخص ابوبکر صدیق رضی اللہ کے جتنا قریب تھا، اتنا ہی زیادہ غمزدہ تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات کی خبر سننے پر یہ الفاظ فرمائے :- آج خلافت نبوت ختم ہو گئی _,"

★_ پھر وہاں آئے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی میت موجود تھی، اس مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا:- اے ابوبکر ! اللہ تم پر رحم کرے , آپ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے اور قابل اعتماد ساتھی تھے , آپ ﷺ کے مشیر اور راز دار تھے, آپ سب سے پہلے اسلام لائے ، آپ سب سے زیادہ مخلص مومن تھے، آپ کا یقین سب سے زیادہ مضبوط تھا ،

★_ آپ سب سے زیادہ زیادہ اللہ کا خوف کرنے والے تھے، اللہ کے دین کے بارے میں سب سے زیادہ بے نیاز یعنی دوسروں کی پرواہ کرنے والے نہیں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ بابرکت ساتھ دینے میں ان سب سے بہتر ، فضیلت میں سب سے بڑھ کر، پیش قدمیوں میں سب سے افضل اور برتر، درجے میں سب سے اونچے اور قرب کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ ، سیرت اور عادت میں سب سے مہربان اور فضل میں سب سے زیادہ اونچے مرتبہ والے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم اور معتمد تھے، پس اللہ جل شانہٗ اسلام اور اپنے رسول کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ،

★_ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اس وقت کی جب لوگوں نے آپ صلی اللہ وسلم کو جھٹلایا ، اس لیے اللہ جل شانہ نے آپ کو اپنے کلام میں صدیق فرمایا ، یعنی یوں فرمایا- سچائی لانے والے محمد صلی اللہ وسلم ہیں اور ان کی تصدیق کرنے والے( ابو بکر) ہیں ( یہ سورہ زمر کی آیت ٣٣ کی طرف اشارہ ہے) آپ نے حضور ﷺ کے ساتھ اس وقت غمخواری کی جب لوگوں نے آپ ﷺ سے بخل کیا، آپ ناگوار باتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے رہے جب لوگ آپ صلی اللہ وسلم سے الگ ہو گئے، آپ نے سختیوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحبت اور رفاقت کا حق ادا کیا،

★_( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے فرمایا )_ آپ ثانی اثنین اور رفیق غار تھے اور آپ پر سکینت نازل ہوئی آپ ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، آپ آنحضرت ﷺ کے ایسے خلیفہ بنے کہ خلافت کا حق ادا کر دیا ، اس وقت خلیفہ بنے جب لوگ مرتد ہوگئے ، آپ نے خلافت کا وہ حق ادا کیا یا جو کسی پیغمبر کے خلیفہ نے نہیں کیا تھا، آپنے اس وقت چستی دکھائیں جبکہ دوسرے سست ہو گئے، آپ نے اس وقت جنگ کی جب دوسرے عاجز آگئے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو اس وقت تھامے رکھا جب لوگ پیچھے ہٹ گئے تھے،

★_ آپ بلا نزاع اور بلا تفرقہ (بغیر جھگڑے کے) خلیفہ تھے اگرچہ اس بات سے منافقوں کو غصہ تھا کفار کو رنج تھا اور حاسد کراہت میں مبتلا تھے اور باغیوں کو غصہ تھا( یعنی یہ لوگ آپ کی خلافت سے راضی نہیں تھے ) آپ اس وقت حق بات پر اڑے رہے جب لوگ بزدل ہو گئے, آپ اس وقت ثابت قدم رہے جب لوگ ڈگمگا گئے, آپ اللہ تعالی کے نور (قرآن) کو لیے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی پیروی میں لوگوں نے ہدایت پائی,

★_ آپ کی آواز ان سب سے نیچی تھی مگر آپ کا مرتبہ سب سے اونچا تھا، آپ کا کلام سب سے زیادہ سنجیدہ تھا آپ کی گفتگو سب سے زیادہ درست تھی، آپ سب سے زیادہ خاموش رہنے والے تھے، شجاعت میں سب سے زیادہ بڑے ہوئے تھے، معاملات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے... اور اللہ کی قسم دین کے سب سے پہلے سردار تھے، آپ مومنین کے لیے رحیم باپ تھے اور جس چیز کا لوگوں کو اندازہ بھی نہیں تھا وہ انہوں نے پالی، آپ کافروں کے لیے آگ کی مانند تھے مومنین کے لیے رحمت اور انسیت اور پناہ کی جگہ تھے، آپ کسی سے ذرا نہیں ڈرے، پہاڑ کی مانند تھے، 

★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ آپ دوستی اور مالی خدمات کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے ، آپ جسمانی اعتبار سے اگرچہ کمزور تھے لیکن اللہ کے معاملے میں قوی تھے، آپ میں عاجزی بہت تھی، آپ میں کوئی لالچ نہیں تھا نہ معاملات میں آپ کسی کی رعایت کرتے تھے، طاقتوروں سے کمزوروں کو ان کا حق دلاتے تھے، آپ دنیا سے اس وقت رخصت ہوئے جب کہ راستہ ہموار ہو گیا مشکل آسان ہو گئی، مخالفین شکست کھا گئے، دین مضبوط ہوگیا مسلمان ثابت قدم ہو گئے، آپ نے اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا، آپ خیر سے کامیاب ہوئے،

★_ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے فرمایا )_ آپ اس سے بلند و بالا ہیں کہ آپ پر رویا پیٹا جائے، آپ کی موت کو تو آسمان میں محسوس کیا جا رہا ہے ، ہم سب اللہ کے لئے ہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، اللہ کی قضا پر ہم راضی ہیں، ہم نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیا، ہم نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیا، اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی موت جیسا کوئی حادثہ مسلمانوں پر کبھی نازل نہیں ہوا، آپ دین کی عزت، جائے پناہ اور حفاظت گاہ تھے، اللہ آپ کو اپنے نبی سے ملا دے اور ہمیں آپ کے بعد آپ کے اجر سے محروم اور گمراہ نہ کرے، انا للہ وانا الیہ راجعون _,"
*( ریاضالنضرہ، کنزالعمال، مسند احمد بن حنبل )*

★_ جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ جاری رہا لوگ سنتے رہے، جب آپ خاموش ہوئے تو لوگ بے تحاشہ رونے لگے، خوب روئے، پھر سب نے کہا:- اے علی ! آپ نے سچ کہا، 

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس خطبے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت کا سامان ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات کا جھوٹا پرچار کرتے ہیں، کیا کوئی اپنے مخالف کے بارے میں اتنی زبردست تعریفی باتیں کہہ سکتا ہے ؟

★_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے اس موقع پر فرمایا :-
"_ اے ابا جان ! اللہ آپ کو سرسبز و شاداب رکھے, آپ کو آپ کی بہترین کوششوں کا بدلہ دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی وفات کا حادثہ سب سے بڑا حادثہ ہے، لیکن اللہ کی کتاب ہمیں صبر کا حکم کرتی ہے، یہ صبر ہی آپ کی وفات کا سب سے اچھا بدلہ ہے اور میں امید کرتی ہوں وہ مجھے میرے صبر کا بدلہ دے گا، اے ابا جان ! آپ اپنی بیٹی کا آخری سلام قبول کیجئے جس نے آپ کی زندگی میں کبھی آپ کے ساتھ پر خاش نہیں رکھی اور آپ کی وفات پر وہ رو پیٹ نہیں رہی _,"

★_ حضرت عمر رضی اللہ انہوں اندر آئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نعش کو مخاطب کرکے فرمایا :-
"_ اے خلیفہ رسول اللہ ! آپ نے دنیا سے رخصت ہو کر قوم کو سخت مشقت میں ڈال دیا , آپ کا سامنا کرنا تو درکنار اب تو کوئی ایسا بھی نہیں کہ آپ کی گرد ہی کو پہنچ سکے _,"

★_ یہ سب کچھ تو اس دنیا میں ہو رہا تھا اور دوسری دنیا میں اس وقت کیا ہو رہا تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت یہ ہے کہ،
"_ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی،
"_ (ترجمہ ) اے نفس مطمئنہ تو اپنے پروردگار کی طرف ہنسی خوشی چلی آ _," ( سورہ الفجر)
پھر عرض کیا - اے اللہ کے رسول ! یہ بھی کیا خوب ارشاد باری تعالی ہے _,"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہاں ! اے ابوبکر ! جب تمہیں موت آئے گی تو اس وقت جبریل آمین تم سے یہی کہیں گے _,"

*★_ جمع قرآن اور فدک کا مسلہ _,*

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جو سب سے اہم کام ہوا وہ ہے قرآن کریم کا جمع کیا جانا ، اس کی تفصیل بھی بہت دلچسپ ہے ، جنگ یمامہ میں تقریباً بارہ سو مسلمان شہید ہو گئے یہ جنگ مسیلمہ کزاب یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کے خلاف لڑی گئی تھی، اس میں 39 بڑے صحابہ  اور حافظ قرآن بھی شام تھے،

★_ یہ صرف ایک جنگ کی تعداد ہے ، دوسری جنگوں میں بھی صحابہ کرام اور قرآن کریم کے حافظ شہید ہوئے،  اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے اور عرض کیا - اے خلفائے رسول  ! یمامہ کی جنگ میں قرآن کے قاری اور حافظ بہت شہید ہوئے ہیں اس لیے اگر آپ نے قرآن جمع کرنے کا انتظام نہ کیا  تو ڈر ہے قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے _,"

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنا ایک خاص مزاج تھا اور وہ یہ تھا کہ جو کام  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے تھے...  اپنے اسی مزاج  کی بنیاد پر انہوں نے فرمایا :-  جس کام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں _,"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے-  یہ کام تو خیر کا ہے_," 
 انہوں نے بار بار کہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار وہی جواب دیتے رہے،

★_ آخر اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ کام کیا جائے، اس وقت آپ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا -  تم جوان اور سمجھدار آدمی ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے، اس لیے قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو _,"

★_ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے ایک پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کا حکم دیتے تو وہ حکم  بھی اس حکم سے مشکل محسوس نہ ہوتا _," یعنی انہوں نے اس کام کو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانے سے بھی زیادہ مشکل محسوس کیا,
پھر عرض کیا - اے خلیفہ رسول !  میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا _,"

★_ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ کام کرو، اس طرح انہوں نے اس مشکل ترین کام کو شروع کیا _," 

★ قرآن کریم کے مختلف حصے کپڑوں پر کھجور کی چھالوں پر پتوں پر لکھے ہوئے مختلف صحابہ کرام کے پاس موجود تھے، قرآن مجید بہت سے صحابہ کے سینوں میں بھی موجود تھا ، انہوں نے پوری احتیاط سے تمام آیات جمع کیں، جس جس کے پاس آیات محفوظ تھی حاصل کی اور یہ سارا قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جمع کروایا،

★_ اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید جمع ہوا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا :- اللہ ابوبکر پر رحمتیں نازل کرے قرآن مجید جمع کرانے میں ان کا اجر سب سے زیادہ ہے کیونکہ اس کام کی پہل انہوں نے ہی کی،

★_ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سورتوں کے نام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں ہی طے ہو گئے تھے، اس بات کے ثبوت میں بہت سے صحیح احادیث ہیں، ہعض اوقات کئی کئی آیات ایک ساتھ نازل ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حکم دیتے تھے کہ فلاں آیت فلاں صورت میں لکھوں فلاں آیت فلاں صورت میں لکھو،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد قرآن مجید کا کام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا، آپ نے قرآن کریم کے بہت سے نسخہ تیار کرائے ، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہی ایک نسخہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کرایا تھا، جب بہت سارے نسخہ تیار کر لیے گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایک نسخہ ایک ایک صوبے میں بھیج دیا ،

★_ مطلب یہ کہ بنیادی طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مجید جمع کرایا تھا اس سے مجید نسخہ تیار کرائے گئے تھے، پھر یہ نسخے ملک کے دوسرے صوبوں میں بھیجے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کی سات قرأتیں ( لہجے) مقرر کیے گئے، اس طرح امت کو سات قرأتوں پر جمع کر دیا گیا، یہ وہ قرأتیں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھی ، ان کے علاوہ جو قرأتیں تھی ان کو ترک کردیا گیا،
جب تک دنیا میں قرآن مجید پڑھنے والے کلمہ گو موجود ہیں وہ اس عظیم کام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے احسان مند رہیں گے،... یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک معمول یہ تھا کہ جب کوئی مسئلہ انہیں پیش آتا تو اللہ کی کتاب سے فیصلہ کرتے اس میں مسئلے کا حل نہ ملتا تو سنت رسول میں مسئلے کا حل تلاش کرتے ، اگر اس میں بھی کامیابی نہ ہوتی تو صحابہ کو جمع کرکے ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں سے کسی کو اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل معلوم ہے، اگر کسی کو معلوم ہوتا تو بتا دیتا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کا شکر ادا کرتے، اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ سے اس بارے میں مشورہ لیا جاتا، جس بات پر سب کا اتفاق ہو جاتا اس کو قبول کر لیتے ... اور اسی کے متعلق کرنے کا حکم فرماتے ،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مسئلہ فدک کا پیش آیا ، اس بارے میں آج تک کچھ حضرات باتیں کرتے ہیں لہذا مناسب ہوگا کہ یہاں اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ بات ذہنوں میں واضح ہو جائے،

★_ خیبر کی فتح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کو چھتیس حصوں میں تقسیم کیا، ان میں سے 18 حصے اپنے لیے خاص فرما لئے اور باقی حصہ دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیے، اس کام سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محیصہ بن مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام کی غرض سے فدک کی طرف روانہ کیا، فدک کے لوگوں کا سردار یوشع بن نون تھا، ان لوگوں نے صلح کی درخواست کی اور نصف زمین دینی منظور کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرما لیا،

★_ اس وقت یہ زمین آپ صلی اللہ وسلم کے لیے مخصوص ہو گیی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے حاصل آمدنی سے گزر بسر کرتے تھے، امہات المومنین رضی اللہ عنہم کا خرچہ اس سے پورا ہوتا تھا،

★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے خیبر اور فدک کی زمینوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ تھا اس کی وراثت کا مطالبہ کیا، یعنی یہ کہا کہ یہ ان کا حق ہے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوگا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں گے صدقہ ہوگا _,"
★_ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا- آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کو جس طرح کرتے تھے میں اسے اسی طرح کروں گا _,"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا ، انہوں نے فرمایا- خیبر اور فدک کی جائیدادیں دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف تھی, یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورتوں کے لئے تھی، اب ان کا معاملہ اس کے سپرد ہے جو خلیفہ ہو اور یہ دونوں آج تک اسی حالت اور حیثیت میں ہیں _,"

★_ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تھا ، اپنی خلافت کے دوران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ حق حاصل تھا کہ خیبر اور فدک کی آمدنی کو اپنی ذات اور اپنے بال بچوں کے لیے مخصوص کر لیں لیکن انہوں نے اس میں سے کچھ نہ لیا...  آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد احترام تھا اور اہل بیت سے محبت تھی لہذا انہوں نے اس آمدنی سے انہی کے اخراجات پورے کیے ، اپنے یا اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں لیا_,

★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اور اہل و عیال کے لیے لیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی معمول برقرار رکھا، آپ نے یہ فرمایا - جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے دار مجھے اس سے زیادہ عزیز ہیں کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کروں _,"

★_ آپ نے یہ بھی فرمایا - میں نے سنا ہے نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود میں ان سب کی سرپرستی کروں گا جن کی سرپرستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور ان سب پر خرچ کروں گا جن پر آپ خرچ کیا کرتے تھے _," *( مسند احمد بن حنبل, صحیح بخاری -٢, کتاب الفرائض)*

★_ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کے مسئلے پر آخر عمر تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض رہیں، اس بارے میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ہے کہ ایسی روایات صحیح نہیں ہیں، *( البدایہ والنہایہ، 5/ 289 )*

★_ اس سارے جھگڑے کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ کی یہ روایت ختم کرتی ہے ، آپ فرماتے ہیں :- 
"_ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا آپ اس میں خرچ کرتے تھے اور اسی میں سے بنو ہاشم کے فقراء پر خرچ کرتے تھے، ان کی بن بیاہی لڑکیوں کے نکاح کرتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ درخواست کی کہ آپ فدک ان کے نام کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا _," ( سنن ابی داؤد کتاب الفرائض )

★_ مطلب یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو وہی کیا تھا جو خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ، اس پر اعتراض کیسا ؟

★_ اب اس واقعہ میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے ارشاد نبوی سننے کے بعد اطمینان ہو گیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم پھر بھی مطالبہ کرتے رہے ، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک وارث کا معاملہ ہے ان دونوں حضرات کو بھی اطمینان تھا اور اس بات کا یقین آ گیا تھا کہ خیبر اور فدک وقف ہیں، لیکن وہ اس بات کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے کہ خلفائے وقت ہی اس کا متولی ہو، ان کا ذاتی خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں کو اس کا متولی ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ان حضرات کا خیال یہ بھی تھا کہ یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں کے لئے وقف ہے، نہ کہ تمام مسلمانوں کے لئے، ( یہ وضاحت بخاری میں ملتی ہے) 

★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس شرط پر ان دونوں حضرات کو اس کا متولی مقرر فرما دیا تھا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی فدک مسلمانوں کے لئے وقت تھا،( یہ ابوداؤد کی روایت ہے)

╨─────────────────────❥     
*★_ سیرتِ صدیقی کے چند گوشے _،*

★_ اس دنیا میں انبیاء علیہ السلام کے بعد آپ کا مقام ہے، آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا  اور بار بار یہی حکم فرمایا  کہ ابو بکر ہی نماز پڑھائیں،

★_ اسلام میں سب سے پہلی مسجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بنائی، آپ سب سے پہلے خلیفۂ رسول ہیں،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے آپ کو دوزخ سے نجات کی خوشخبری سنائی،  آپ خلیفۂ رسول تو تھے ہی عاشق رسول بھی تھے،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے اعلان فرمایا - جس شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو یا جس کسی کا آپ کے ذمے کوئی قرض ہو وہ میرے پاس آئے _,"

★_ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا اپنے رشتے داروں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا کر مسجد سے نکلے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نظر آئے ، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، آپ نے انہیں کندھے پر اٹھا لیا ،

★_ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مال غنیمت مدینہ منورہ بھیجا، اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے ایک خوبصورت تحفہ بھی بھیجا،  آپ نے وہ تحفہ حضرت حسن بن علی رضی االلہ عنہ کو دے دیا ، آپ خود ہی ان کا خیال نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی کہتے تھے ، ان کا خیال رکھوں !

★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا - چلئے نماز جنازہ پڑھائیں،
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا - آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں،  آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں،
چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ، ( کنزالعمال )
★_ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا جبکہ اس وقت تو ہر طرف بت پرستی ہو رہی تھی، آپ حد درجہ پاک تھے اور پاک مال کھانا پسند کرتے تھے، آپ کا غلام ایک مرتبہ کھانے کی کوئی چیز لایا ، آپ اس وقت بھوک کی حالت میں تھے لہذا اس کو کھا لیا ، لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ غلام سے اس بارے میں پوچھا ہی نہیں ،

★_ غلام نے بتایا ہے کہ میں جھوٹ موٹ جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا، کسی زمانے میں اس جھاڑ پھونک کے بہانے کسی کو شفا ہو گئی تھی , اس کا موازنہ انہوں نے آج دیا تھا , یہ سننا تھا کہ آپ نے اس چیز کو قے کر دیا ، قے کرنے میں آپ نے بہت تکلیف اٹھائی کیونکہ بھوک کی حالت میں کھائی ہوئی تھوڑی سی چیز آسانی سے قے نہیں ہو سکتی تھی، آپ نے پانی پی کر قے کیا اور فرمایا - اس کو نکالنے میں میری جان چلی جاتی تو بھی اس کو نکال کر رہتا _"

★_ آپ نے ایک مرتبہ ایک چڑیا کو درخت پر بیٹھے دیکھا تو فرمایا واہ واہ ! اے چڑیا تو کتنی خوش نصیب ہے کاش میں بھی تجھ جیسا ہوتا ، تو درخت پر بیٹھتی ہے پھل کھاتی ہے اور پھر اڑ جاتی ہے ، تجھ سے نہ کوئی حساب ہے اور نہ کتاب..,"
کبھی فرماتے کاش میں ایک تنکا ہوتا _,"
کبھی فرماتے- کاش میں ایک درخت ہوتا اونٹ میرے پاس سے گزرتا کتا اور مجھے چبا جاتا

★_ یعنی ایسا اللہ کے خوف سے فرماتے، کسی کو کبھی سخت لفظ کہہ بیٹھتے تو جب تک اس سے معافی مانگ لیتے چین سے نہ بیٹھتے، ایک مرتبہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا، حیران ہو کر پوچھا- یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ جواب میں فرمایا- اسی زبان نے مجھے تباہ کیا ہے ،

★_ ایک مرتبہ آپ نے پینے کے لئے پانی مانگا لوگوں نے پانی میں شہد ملا کر پیش کر دیا، آپ نے پیالہ منہ سے لگایا تو رونے لگے ، جو لوگ پاس موجود تھے وہ بھی رونے لگ گئے، تھوڑی دیر تک روتے رہے ، پھر چپ ہوگئے لیکن کچھ ہی دیر بعد پھر رونے لگے، لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا :-
"_ میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں ہے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو دھتکار رہے ہیں، میں نے پوچھا- اے اللہ کے رسول ! آپ کس چیز کو دھتکار رہے ہیں مجھے تو یہاں کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ..؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا- دنیا میرے سامنے جسم کی حالت میں میں آ گئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے سامنے سے ہٹ جا لیکن وہ پھر آ گئ اور کہنے لگی- آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ بچ کر نہیں جا سکیں گے_,"
یہ واقعہ بیان کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا - اس وقت مجھے یہی بات یاد آ گئی تھی ، مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ مجھ سے چمٹ نہ جائے _,

”★_ خلیفہ بننے سے پہلے آپ محلے کی بچیوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے آپ خلیفہ بن گئے تو ایک چھوٹی سی لڑکی پریشان ہوگی کہ اب اس کی بکری کا دودھ کون دوہا کرے گا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک اس کی بات پہنچی تو اس سے فرمایا :- میں خلیفہ بن گیا تو کیا ہوا میں اب بھی تمہاری بکریوں کا دودھ دوہا کرونگا خلافت مجھے خدمت خلق سے باز نہیں رکھ سکے گی _,"

★_ مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت تھی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے سوچا صبح سویرے جاکر اس کے گھر کے کام کر آیا کریں گے لیکن جب آپ صبح سویرے وہاں پہنچے تو دیکھا گھر کی صفائی ہوچکی تھی اور پانی کے برتن میں پانی بھرا ہوا تھا، یہاں تک کہ بیت الخلاء کی صفائی بھی کی گئی تھی، یعنی کوئی آ کر ان سے پہلے یہ سب کام کر گیا تھا،

★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوسرے دن اس وقت سے بھی پہلے اس کے گھر پہنچ گئے لیکن اس روز بھی سارے کام ہو چکے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت حیران ہوئے کہ آخر یہ کون شخص ہے جو اتنے منہ اندھیرے یہ سب کام کر جاتا ہے ، تیسرے دن آپ ابتدائی رات ہی سے چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ دیکھیں کون آتا ہے، ان کی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھا، اور اس وقت وہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے ،

★_ خلافت ملنے سے پہلے آپ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے ، خلیفہ بنے تو دوسرے دن کپڑے کے تھان کندھے پر رکھ کر بازار کی طرف چل پڑے، راستے میں حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ انہم مل گئے، انہوں نے کہا - اے خلیفہ رسول ! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا- بازار جا رہا ہوں, انہوں نے عرض کیا- اب مسلمانوں کے خلیفہ ہیں یہ کام کریں گے تو خلافت کا کام کیسے کر سکیں گے, ہم آپ کے لئے وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں _،"
صحابہ کرام نے مشورہ کیا اور آپ کا وظیفہ مقرر کردیا, یہ وظیفہ ایک عام آدمی کے مطابق تھا,

★_ لوگ آپ کی تعظیم کرتے تو شرم محسوس کرتے اور فرماتے مجھے تم لوگوں نے بہت بڑھا چڑھا دیا ہے ، کوئی آپ کی تعریف کرتا تو دل میں کہتے - اے اللہ ! تو مجھے ان لوگوں کے خیالات کے مطابق بنا دے ، میرے گناہوں کو معاف کر دے اور ان لوگوں کی بے جا تعریف پر میری پکڑ نہ کر_,"
آپ دوسروں کا تو معمولی سے معمولی کام بھی کر دیتے تھے لیکن خود دوسروں سے ذرا سا کام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے،
اونٹ پر سوار جا رہے ہوتے اور اونٹ کی نکیل گر پڑتی تو اسے بٹھا کر نیچے اترتے اور نکیل اٹھاتے، کسی گزرنے والے سے یہ نہ کہتے کہ بھائی ذرا یہ اٹھا دینا، لوگ آپ سے کہتے بھی کہ آپ اتنی زحمت کیوں گوارا کرتے ہیں یعنی پہلے اونٹ کو بٹھاتے ہیں پھر چیز اٹھاتے ہیں آپ ہم سے کہہ دیا کریں _,"
اس کے جواب میں فرماتے - میرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں _,"

*"_ فکر صدیقی _,*

★_ آپ بیت المال سے اپنے لئے وظیفہ لیتے تھے لیکن اس کی مقدار کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کی زوجہ محترمہ کا جی چاہا کہ حلوا کھائیں، آپ سے فرمائش کی تو فرمایا- گنجائش نہیں, اب انھوں نے کیا کیا، روزانہ کا جو خرچہ ملتا ہے اس میں سے کچھ بچانے لگیں، یہاں تک کہ اتنے پیسے جمع ہوگئے جن سے حلوہ تیار ہو سکتا ہے ، ان سے حلوہ تیار کیا گیا ، جب اس بات کا پتا آپ کو چلا تو فرمایا - ہمارا روزمرہ کا کھرچا اتنا کم کر دینے سے بھی پورا ہو سکتا ہے _," چناچہ گھر کا وظیفہ اتنا کم کروا لیا،

★_ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، ہجرت کے سفر کے بعد جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو ان میں سے صرف پانچ ہزار رہ گئے وہ بھی سب اللہ کے راستے میں خرچ کردیا ، مدینہ منورہ میں آ کر تجارت شروع کی لیکن اس تجارت سے جو کمایا وہ سب کا سب غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ کے راستے میں دے دیا، خلافت ملی تو تجارت ختم ہو گئی، اب نہایت معمولی وظیفہ پر گزارا کرنے لگے، 

★_ وفات سے پہلے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا - جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں اس وقت سے اب تک میں نے مسلمانوں کا کوئی ایک درہم بھی نہیں کھایا، مسلمان جو موٹا جھوٹا کھاتے ہیں وہی میں نے کھایا اور پہنا، اب میرے پاس جو کل اثاثہ ہے وہ ایک اونٹ ایک غلام اور ایک یہ چادر ہے ،

★_ یعنی اس حالت میں اپنی زندگی بسر کی،۔۔۔ لیکن غریبوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ سردی کے موسم میں کپڑے تقسیم کرتے تھے ،

*شجاعت برداشت اور اخلاق _,*

★_ آپ شجاعت میں بھی سب سے آگے تھے، مکی زندگی میں جب کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھاتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہی فوراً آگے بڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ڈھال بن جاتے ، غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چھپر بنایا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھپر کے پاس موجود رہے اور جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنا چاہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،

★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم میں برداشت کا مادہ بھی بہت تھا، ایک شخص نے آپ کو منہ پر برا کہا ، آپ اس وقت خلیفہ تھے چاہتے تو اس کے خلاف کاروائی کر سکتے تھے لیکن اس کے خلاف کچھ نہ کیا، اس وقت آپ کے ایک ساتھی نے چاہا کہ اس شخص کی گردن اڑا دیں لیکن آپ نے اسے بھی روک دیا ،

★_ آپ اخلاق میں بھی دوسروں سے بڑھ چڑھ کر تھے، سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین کیا کرتے تھے کہ سلام میں پہل کرنے والے بنو، ایک مرتبہ دیکھا کہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سلام کرنے میں پہل کر رہے ہیں ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا - لوگ تمہیں سلام کرنے میں پہل کر رہے ہیں... تم کیوں پہل نہیں کرتے تاکہ تمہیں ثواب زیادہ ملے,-"
 اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول بن گیا کہ ہر کسی کو سلام میں پہل کیا کرتے تھے ،

*"_ اطاعت اور حلیہ مبارک _,*

★_ دین کے احکامات کے معاملے میں آپ بہت سخت بھی تھے ، ایک مرتبہ کسی جنازے میں بہت سے لوگ آہستہ آہستہ جا رہے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اتنا آہستہ چلتے دیکھا تو کوڑا اٹھا لیا اور فرمایا - ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنازے میں تیز رفتار سے جایا کرتے تھے _,"

★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے آپ کا حلیہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا - ابوبکر گورے چٹے دبلے پتلے آدمی تھے، دونوں رخسار ستے ہوئے( یعنی ہموار ) تھے ، کمر ذرا خم دار تھی، جبڑے کی ہڈی ابھری ہوئی تھی، پیشانی بلند تھی، انگلیوں کے جوڑ گوشت سے خالی تھے، پنڈلیاں اور رانیں پر گوشت تھی، قد موزوں تھا، مہندی کا خضاب کیا کرتے تھے ، نہایت سادگی پسند تھے، کپڑے موٹے جھوٹے پہنتے تھے، کھانا سادہ کھاتے تھے، بعض اوقات فاقے کی نوبت آجاتی تھی ،

★_ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسجد میں دیکھا کہ بھوک سے بے قرار ہیں آپ نے فرمایا- میں بھی تمہاری طرح بھوکا ہوں _,"
ایک صحابی ابو الھیثم رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے کھانے کا انتظام کیا ،

★_ نماز میں آپ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے زمین میں لکڑی گاڑ دی ہو، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حق کا حد درجہ خیال رکھتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا - آج تم میں سے روزے دار کون ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے - اللہ کے رسول میں روزے سے ہوں ،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا - تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی ہے ؟ جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے- میں نے اللہ کے رسول_,"
آپ نے پوچھا- آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟, پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے - میں نے اللہ کے رسول,
آپ نے پوچھا- کسی نے کسی مریض کی عیادت کی ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے- اے اللہ کے رسول میں نے کی ہے، اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا - جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں کی ہیں وہ یقینا جنت میں جائے گا _,"

*"_ خاندان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ _,*

★_ آپ دل کے بہت نرم تھے، قرآن کریم پڑھتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، اس طرح بلخ بلخ کر روتے کہ دیکھنے والے بھی رونے لگتے، 12 ہجری میں جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے آپ کے پاس آئے، آپ کا حال یہ تھا کہ یہ حضرات تعزیت کرتے جاتے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روتے جاتے، بار بار سرد آہ بھرتے، اس قدر سرد آہیں بھر نے کی وجہ سے آپ کا نام ہی سرد آہ بھرنے والے مشہور ہو گیا تھا،

★_ آپ نےچار نکاح کیے ، دو اسلام سے پہلے دو اسلام کے بعد، اسلام سے پہلے قتیلہ بنت ابد العزی اور ام رومان رضی اللہ عنہ سے شادی ہوئی، اسلام کے بعد اسماء بنت عمیس اور حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، ان میں قتیلہ کے بارے میں معلوم نہیں کہ مسلمان تھی یا نہیں، ام رومان رضی اللہ عنہا مسلمان ہو گئی تھی، حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہما سے جب نکاح ہوا تو اس سے پہلے ہی یہ دونوں اسلام قبول کر چکی تھی ،

★_ آپ کے یہاں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئں، لڑکوں کے نام ابدالرحمان ، ابداللہ اور محمد ہیں، جبکہ بیٹیوں کے نام اسماء، عائشہ اور ام کلثوم ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ عظیم شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں،

★_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا وہ ہستی ہے جنہوں نے ہجرت کے موقع پر کمال جرأت کا ثبوت دے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد کے سفر کا انتظام کیا، 
 ان کی شادی مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ہوئی، ہجرت کے موقع پر ہی ان سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، 

★_ ام کلثوم آپ کی تیسری بیٹی تھیں , یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں ،

*"_خاندان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ -٢,*

★_ عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آپ کے بڑے صاحبزادے ہیں ، حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ان کی والدہ ہیں ، غزوۂ بدر میں کفار کے لشکر میں شامل تھے، میدان جنگ میں یہ آگے بڑھے اور کسی مسلمان کو مقابلے پر آنے کی دعوت دی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مقابلے پر جانے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی ، اس کے بعد غزوہ احد میں بھی یہ کفار کے لشکر میں شامل تھے، یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام لائے اور مدینہ منورہ میں آکر اپنے والد کے ساتھ رہنے لگے،

★_ صلح حدیبیہ کے بعد جتنے غزوات پیش آئیں ان میں برابر شریک ہوتے رہے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور یہ سگے بہن بھائی تھے، دونوں کو ایک دوسرے سے بہت محبت تھی، ٥٣ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی وفات پر بڑے دردناک اشعار پڑھے تھے،

★_ آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے، قتیلہ ان کی والدہ تھیں، یہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا دونوں سگے بہن بھائی تھے، انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد ہی اسلام کو قبول کر لیا تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور غار ثور میں قیام فرمایا تو یہی تھے جو قریش کی خبریں خفیہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے رہے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے تب انہوں نے بھی حضرت ام رومان، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر ہجرت کی، 

★_ فتح مکہ، طائف ، حنین کے غزوات میں شریک رہے، طائف کے موقع پر انہیں ایک تیر لگا اس سے شدید زخمی ہوگئے، علاج کے بعد زخم ٹھیک تو ہو گیا تھا لیکن تقریباً ڈھائی سال بعد دوبارہ ہرا ہو گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چالیس روز بعد یہ اسی زخم سے وفات پا گئے ،
*"_ خاندان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ -٣,*

★_ محمد بن ابی بکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی تھی، اس طرح محمد بن ابی بکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آغوش میں پلے،

★_ کچھ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں یہ بھی شریک تھے لیکن مشہور محدث اور مورخ حافظ ابن عبدالبر اندلسی نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے خون سے محمد بن ابی بکر کا ذرا سا بھی تعلق نہیں ہے،

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انہیں مصر کا والی مقرر فرمایا ، جب یہ مصر پہنچے تو ایک جنگ میں شہید ہو گئے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر ملی تو بہت رنج ہوا،  ان کے بیٹے قاسم کو اپنی تربیت میں لے لیا، قاسم بن  محمد رحمۃ اللہ  نے چونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تربیت حاصل کی تھی اس لیے یہ فقیہ بنے،  مدینہ منورہ کے سات مشہور فقہاء میں ان کا شمار ہوا ،

★_ خلفائے راشدین میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ فتوحات حضرت عمر رضی اللہ ہو تعالئ عنہ کے دور میں ہوئیں اور کئی لحاظ سے اصلاحات بھی سب سے زیادہ انہی کے دور میں ہوئیں،  لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت صرف سوا دو سال تک رہی، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو 10 برس کے قریب وقت ملا،  لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد  دراصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی رکھی تھی،

★_ اللہ تعالی نے انہیں وہ صلاحیتیں اور جرائتیں عطا فرمائی تھی کہ کمزور ہوتے ہوئے بھی ان سب کے خلاف مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ گئے اور وہ کام کر دکھائے کہ آج بھی لوگ حیرت زدہ ہیں اور رہتی دنیا تک حیرت زدہ رہیں گے،  اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں،  آمین _,"

 ╨─────────────────────❥  
*💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
 ╨─────────────────────❥
      _ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
    http://www.haqqkadaayi.com
  ╚═════════════┅┄ ✭✭

Post a Comment

 
Top