✭﷽✭
*✿_سیرت النبی ﷺ_✿*
*✭ SEERATUN NABI ﷺ.✭*
*✿_सीरतुन नबी ﷺ. _✿*
*🌹صلى الله على محمدﷺ🌹*
▪•═════••════•▪
*┱✿_*★_:حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا عمرہ _,*
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجدِ نبوی کے دروازے پر احرام باندھ لیا تھا، قریش کے کچھ لوگوں نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہتھیار دیکھے تو وہ بوکھلا کر مکہ معظمہ پہنچے اور قریش کو بتایا کہ مسلمان ہتھیار لے آئے ہیں... اور ان کے ساتھ تو گُھڑ سوار دستہ بھی ہے، قریش یہ سن کر بدحواس ہوئے اور کہنے لگے:__"ہم نے تو کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو اس معاہدے کے خلاف ہو، بلکہ ہم معاہدے کے پابند ہیں، جب تک صلح نامے کی مدت باقی ہے، ہم اس کی پابندی کریں گے، پھر آخر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس بنیاد پر ہم سے جنگ کرنے آئیں ہیں؟"
★_آخر قریش نے مکرز بن حفص کو قریش کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیا، انہوں نے آپ سے ملاقات کی اور کہا:"آپ ہتھیار بند ہوکر حرم میں داخل ہونا چاہتے ہیں، جب کہ معاہدہ یہ نہیں ہوا تھا -"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:"ہم ہتھیار لے کر حرم میں داخل نہیں ہوں گے، معاہدے کے تحت صرف میانوں میں رکھی ہوئی تلواریں ہمارے ساتھ ہوں گی... باقی ہتھیار ہم باہر چھوڑ کر جائیں گے -"
مکرز نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر اطمینان کا اظہار کیا اور قریش کو جاکر اطمینان دلایا،
★_ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ معظمہ میں داخلے کا وقت آیا تو قریش کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ سے نکل کر کہیں چلے گئے، ان لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض تھا، دشمنی تھی، وہ مکہ معظمہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نکل گئے - آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دائیں بائیں تلواریں لیے چل رہے تھے، اور سب "لبيك اللهم لبيك" پڑھ رہے تھے - روانہ ہونے سے پہلے باقی ہتھیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جگہ محفوظ کرادیے تھے، وہ جگہ حرم سے قریب ہی تھی، مسلمانوں کی ایک جماعت کو ان ہتھیاروں کی نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تھا -
★_ مکّہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت مدت بعد دیکھا تھا... وہ انہیں کمزور کمزور سے لگے تو آپس میں کہنے لگے:"یثرب کے بخار نے مہاجرین کو کمزور کردیا ہے -"
یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو حکم فرمایا:"اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمت فرمائے گا جو ان مشرکوں کو اپنی جسمانی طاقت دکھائے گا -"
اس بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی اکڑ اکڑ کر اور سینہ تان کر چلیں اور مشرکین کو دکھادیں کہ ہم پوری طرح طاقتور ہیں -
اس کے بعد جب مسلمانوں نے رمل شروع کیا تو مکہ کے دوسرے مشرکوں نے ان مشرکوں سے جنھوں نے مسلمانوں کو کمزور بتایا تھا، کہا:"تم تو کہہ رہے تھے کہ انہیں یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے، حالانکہ یہ تو پوری طرح طاقتور نظر آرہے ہیں -"
★_ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر اس طرح اپنے اوپر ڈال رکھی تھی کہ دایاں کندھا کھلا تھا اور اس کا پلّو بائیں کندھے پر تھا - چنانچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ایسے ہی کرلیا، اس طرح چادر لینے کو اضطباع کہتے ہیں... اور اکڑ کر چلنے کو رمل کہتے ہیں... یہ اسلام میں پہلا اضطباع اور پہلا رمل تھا... اب حج کرنے والوں ہوں یا عمرہ کرنے والے ، انہیں یہ دونوں کام کرنے ہوتے ہیں -
★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم معاہدے کے مطابق تین دن تک مکہ معظمہ میں ٹھہرے، تین دن پورے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے باہر نکل آئے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، ان کا پہلا نام برّہ تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نام تبدیل کرکے میمونہ رکھا۔
[
╨─────────────────────❥/★_ موتہ کی جنگ _,*
★_ عمرے سے فارغ ہوکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے، تو ایک سنگین واقعہ پیش آگیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کے نام بھیجا تھا، یہ خط حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ لے کر روانہ ہوئے، موتہ کے مقام پر پہنچے تو شرجیل( سرخ بیل)غسانی نے انہیں روک لیا۔یہ شرجیل قیصر روم کی طرف سے شام کے اس علاقے کا بادشاہ تھا۔شرجیل نے حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: _ "تم کہاں جارہے ہو.... کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدوں میں سے ہو۔"
جواب میں انہوں نے کہا: _"ہاں! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔"
یہ سنتے ہی شرجیل نے انہیں رسیوں سے بندھوادیا اور پھر انہیں قتل کردیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدوں میں سے یہ پہلے قاصد ہیں جنہیں شہید کیا گیا۔
★_ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقع سے بہت رنج ہوا۔آپ نے فوراً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک لشکر تیار کیا، اس کی تعداد تین ہزار تھی۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو شاہ روم سے جنگ کرنے کا حکم فرمایا اور اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔جب یہ لشکر کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگیا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"اگر زید بن حارثہ شہید ہوجائیں تو ان کی جگہ جعفر بن ابی طالب لشکر کے امیر ہوں گے۔اگر جعفر بن ابی طالب بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جس پر راضی ہوں، اسے اپنا امیر بنالیں۔"
★_جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایات فرمائیں، اس وقت ایک یہودی شخص بھی وہاں موجود تھا اور یہ سب سن رہا تھا، اس نے کہا: _"اگر یہ واقعی نبی ہیں تو میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جن لوگوں کے نام انہوں نے لیے ہیں وہ سب شہید ہوجائیں گے۔"
یہ بات حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سن لی تو بولے:_"میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں۔"
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفید رنگ کا پرچم تیار کیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا، پھر آپ نے مجاہدین کو نصیحت فرمائی:
"جہاں حارث بن عمیر کو قتل کیا گیا ہے، جب تم وہاں پہنچو تو پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا، وہ دعوت قبول کرلیں تو ٹھیک، ورنہ اللہ تعالیٰ سے ان کے مقابلے میں مدد مانگنا اور ان سے جنگ کرنا۔"
لشکر کو روانہ کرتے وقت مسلمانوں نے کہا: "اللہ تمہارا ساتھی ہو، تمہاری مدد فرمائے، اور تم لوگوں کو خیر اور خوشی کے ساتھ ہمارے درمیان واپس لائے۔"
: ★_ جب یہ لشکر روانہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیتہ الوداع کے مقام تک انہیں رخصت کرنے کے لیے ساتھ چلے، وہاں پہنچ کر انہیں نصیحت کی: "میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں، تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں، ان سب کے لیے عافیت مانگتا ہوں، اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو، اللہ کے اور اپنے دشمنوں سے شام کی سرزمین میں جاکر جنگ کرو.... وہاں تمہیں عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں رہنے والے ایسے لوگ ملیں گے جو دنیا سے کٹ گئےہیں، ان سے نہ الجھنا، کسی عورت پر کسی بچے پر تلوار مت اٹھانا، نہ درختوں کو کاٹنا اور نہ عمارتوں کو مسمار کرنا ۔
عام مسلمانوں نے بھی انھیں رخصت ہوتے ہوئے کہا، الله تمہاری حفاظت فرمائے اور تمہیں مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے ۔
★_ ان دعاؤں کے ساتھ لشکر روانہ ہوا اور شام کی سرزمین میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ۔اس وقت صحابہ کرام رضی الله عنہم کو معلوم ہوا کہ روم کا بادشاہ شہنشاہ ہرقل دولاکھ فوج کے ساتھ ان کے مقابلے کے لیے تیار ہے، اس کے علاوہ عرب کے نصرانی قبائل بھی چاروں طرف سے آکر ہرقل کی فوج میں شامل ہوگئےہیں اور ان کی تعداد بھی ایک لاکھ کے قریب ہے، اس طرح لشکر کی تعداد تین لاکھ تک جا پہنچی تھی، ان کے پاس بے شمار گھوڑے، ہتھیار اور سازوسامان بھی تھا ۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی کل تعداد صرف تین ہزار تھی اور ان کے پاس سازوسامان بھی برائے نام تھا ۔
★_ یہ تفصیلات معلوم ہونے پر اسلامی لشکر وہیں رک گیا، دو رات تک انھوں نے وہاں قیام کیا اور آپس میں مشورہ کیا، کیونکہ اتنی بڑی تعداد والے دشمن سے صرف تین ہزار آدمیوں کے مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔قدرتی بات ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعين یہ سن کر پریشان ہوئے تھے، کسی نے مشورہ دیا:
ہمیں چاہیے یہاں رک کر رسول الله ﷺ کو اطلاع دیں تاکہ ہمیں کمک بھیجیں یا واپسی کا حکم فرمائیں " اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پرجوش لہجےمیں کہا: لوگو! تم اسی مقصد سے جان بچارہے ہو جس کے لیے وطن سے نکلے ہو، تم شہادت کی تلاش میں نکلے تھے ۔ہم دشمنوں سے نہ تو تعداد کے بل پر لڑتے ہیں، اور نہ طاقت کے بل پر ۔ہم تو صرف دین کے لیے لڑتے ہیں ۔دین کے ذریعے ہی الله تعالٰی نے ہمیں سرفراز فرمایاہے اب یا ہمیں فتح ہوگی یا شہادت نصیب ہوگی ۔
★_ یہ پرجوش الفاظ سن کر صحابہ کرام بول اٹھے: _الله کی قسم! ابن رواحہ نے باالکل ٹھیک کہا ۔چنانچہ اس کے بعد لشکر آگے روانہ ہوا اور یہاں تک کہ موتہ کے مقام پر پہنچ گئے، اسی مقام پر رومی لشکر بھی مسلمانوں کے سامنے آگیا ۔حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ نے رسول الله ﷺ کا پرچم ہاتھ میں لیا اور دشمن کی طرف بڑھے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی قیادت میں رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے ۔مسلمانوں نے زبردست حملہ کیاتھا ۔ادھر رومی بھی آخر تین لاکھ تھے ۔انھوں نے بھی بھرپور حملہ کیا، تلواروں سے تلواریں ٹکرانے لگیں ۔نیزے اور تیر چلنے لگے، زخمیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں..گھوڑوں کے ہنہنانے اور اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں گونجنے لگیں...اس حالت میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے جنگ کررہےتھے اور مسلسل آگے بڑھ رہے تھے ۔ان پر جوش کی ایک ناقابل بیان کیفیت طاری تھی...ان کے ہاتھوں کتنے ہی رومی جہنم رسید ہوئے.....آخر وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔
★_ اسی وقت حضرت جعفر رضی الله عنہ نے پرچم لے لیا ۔وہ اپنے سرخ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے ۔اب مسلمان ان کی قیادت میں جنگ کرنے لگے، انھوں نے اس قدر شدید جنگ کی کہ بیان سے باہر ہے ۔لڑتے لڑتے ان کا ایک بازو کٹ گیا ۔انھوں نے پرچم بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا ۔کچھ ہی دیر بعد کسی نے ان کے بائیں بازو پر وار کیا اور وہ بھی کٹ گیا ۔انھوں نے پرچم کو اپنی گود کے سہارے سنبھالے رکھا اور اسی حالت میں شہادت کا جام نوش فرمایا ۔
★_اس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ آگے آئے اور پرچم اٹھالیا ۔انھوں نے گھوڑے کے بجائے پیدل جنگ کرنا مناسب جانا اور دشمنوں سے مقابلہ شروع کردیا، انھوں نے بھی بہت دلیری سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے اب مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کی صفوں میں گھس چکے تھے... اور جنگ گھمسان کی ہورہی تھی... دشمنوں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے....لہٰذا ان کی تعداد کو اس تعداد سے کوئی نسبت ہی نہیں تھی، اس لیے ان حالات میں بعض مسلمانوں نے پسپائی اختیار کرنے کا ارادہ کیا..... لیکن اسی وقت حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ پکارے:
"لوگو! اگر انسان سینے پر زخم کھاکر شہید ہوتو یہ اس سے بہتر ہے کہ پیٹھ پر زخم کھاکر مرے۔"
★&ایسے میں حضرت ثابت بن ارقم رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر گرا ہوا پرچم اٹھالیا اور بلند آواز میں بولے : _"مسلمانو! اپنے میں سے کسی کو امیر بنالو... تاکہ پرچم اسے دیا جاسکے۔"
بہت سے صحابہ پکار اٹھے: _"آپ ہی ٹھیک ہیں۔"
یہ سن کر وہ بولے: _"لیکن میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔"
ان حالات میں سب کی نظریں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑیں.... سب نے انہیں امیر بنانے پر اتفاق کرلیا۔
★_ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود حضرت ثابت بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ہی پرچم ان کے حوالے کیا تھا اور کہا تھا: _"جنگ کے اصول اور فن آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔"
اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے: _"نہیں! میرے مقابلے میں آپ اس پرچم کے زیادہ حق دار ہیں، کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوچکے ہیں۔"
★_ آخر سب کا اتفاق حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر ہوگیا۔اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جنگ شروع ہوئی۔
: *: اللہ کی تلوار_,*
★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پرچم سنبھالتے ہی دشمن پر زبردست حملہ کیا، اس طرح جنگ کا پانسہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں پلٹ گیا، اس طرح مسلمانوں کا رعب چھاگیا اور وہ مزید لڑائی سے کترانے لگے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باہمی مشورے سے اس حد تک کامیابی حاصل کرنے کے بعد واپسی اختیار کی۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کا امیر بنتے ہی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کردیا اور پچھلے حصے کو آگے لے آئے، اسی طرح دائیں حصے کو بائیں جانب، اور بائیں حصے کو دائیں جانب سے لے آئے، اس طرح انہوں نے پورے لشکر کی ترتیب بدل کر رکھ دی۔
_جب رومیوں سے آمنا سامنا ہوا تو انہیں ہر طرف نئے لوگ نظر آئے۔اس طرح انہوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے۔
★_یہ جنگ مسلسل سات دن تک جاری رہی تھی، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں، صرف ایک یمنی تلوار باقی رہ گئی تھی، جو آخر تک ان آپ کے ہاتھ میں رہی۔
★_ ادھر تو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہورہی تھی اور ادھر مدینہ منورہ میں کیا ہورہا تھا، وہاں کا منظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال بتادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جنگ کی خبریں سنانے کے لیے مسجد نبوی میں بلایا اور خود منبر پر تشریف فرما ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو تھے.... آپ نے بتانا شروع کیا۔
"لوگو! خیر کا دروازہ... خیر کا دروازہ... خیر کا دروازہ کھل گیا ہے، میں تمہیں، تمہارے لشکر کے بارے میں بتاتا ہوں، ان غازیوں کے بارے میں بتاتا ہوں، وہ لوگ یہاں سے رخصت ہوکر چلے گئے، یہاں تک کہ دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوگئی اور زید بن حارثہ شہید ہوگئے، ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو، پھر جعفر نے پرچم لیا اور بڑی ثابت قدمی سے لڑے، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو، پھر عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اٹھایا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھر خالد بن ولید نے پرچم اٹھالیا، وہ لشکر کے امیر نہیں تھے، وہ خود اپنی ذات کے امیر تھے.... مگر وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔اس لیے اللہ کی مدد تیار ہے، اللہ تعالیٰ نے اس تلوار کو کافرین پر سونت دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے دشمن پر فتح نصیب فرمائی۔"
★_ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعا فرمائی۔"اے اللہ! وہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، تو اس کی مدد فرما۔"
اسی دن سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ کہا جانے لگا۔
★_حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔جس روز اس لڑائی میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: _"جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ۔"
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بچوں کو آپ کے پاس لے آئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار کرنے لگے اور ساتھ میں روتے بھی رہے، یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی..
★_.. حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو حیرت ہوئی، پوچھنے لگیں: _"اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ کیوں رورہے ہیں، کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے؟ "
جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: _"ہاں! وہ اور ان کے ساتھی آج ہی شہید ہوئے ہیں۔"
وہ یک دم کھڑی ہوگئیں اور رونے لگیں....
★_ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت حضرت جعفر اور ان کے ساتھی مدینہ منورہ سے بہت فاصلے پر ملک شام میں لڑرہے تھے اور وہاں سے کسی طرح بھی خبر آنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اب ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی، آپ نے حضرت اسماء کو بلند آواز سے روتے دیکھا تو فرمایا:_"اے اسماء نہ بین کرنا چاہیئے اور نہ رونا پیٹنا چاہیئے۔"
جلد ہی وہاں عورتیں جمع ہوگئیں... وہ بھی یہ خبر سن کر رونے لگیں، نوحہ اور ماتم کرنے لگیں کسی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر بتایا۔
"عورتیں بہت ماتم اور نوحہ کررہی ہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:
"جاکر انہیں خاموش کرو۔"
وہ گئے اور جلد ہی واپس آکر بولے:
"اللہ کے رسول! وہ خاموش نہیں ہورہیں۔"
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جاؤ! انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرو اور اگر نہ مانیں تو ان کے منہ میں مٹی پھینکو۔"
★_اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے بارے میں دعا فرمائی۔
"اے اللہ! جعفر بہترین ثواب کے حقدار ہوگئے ہیں، تو ان کی اولاد کو ان کا بہترین جانشین بنا۔"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس تشریف لائے اور اپنے گھر والوں سے فرمایا:_"جعفر کی بیوی بچوں سے غافل نہ ہو جانا، آج وہ بہت غمگین ہیں، ان کے لیے کھانا تیار کرکے بھیجو۔"
: ★_ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالی نے جعفر کے دونوں بازؤوں کی جگہ پر دو پر لگا دیے ہیں وہ ان کے ذریعے جنت میں اڑتے پھرتے ہیں۔"
★_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی لاش پر ان کے سینے اور مونڈھوں کے درمیانی حصے میں نوے زخم آئے تھے یہ تلوار اور نیزے کے تھے۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس روز تھے بھی روزے سے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت جعفر کے پاس شام کے وقت پہنچا، وہ میدان جنگ میں زخموں سے چور پڑے تھے، میں نے انہیں پانی پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:
"میں روزے سے ہوں، تم یہ پانی میرے منہ کے پاس رکھ دو، اگر میں سورج غروب ہونے تک زندہ رہا تو اس پانی سے روزہ افطار کر لونگا۔"_ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی وہ شہید ہوگئے۔
★_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! یہ آپ نے کیوں فرمایا؟"
جواب میں ارشاد فرمایا:_"ابھی میرے پاس سے جعفر ابن ابی طالب فرشتوں کے جمگھٹ میں گزرے ہیں، انہوں نے مجھے سلام کیا تھا۔"
★_غزوہ موتہ سے واپس آنے والا لشکر جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچا، تو وہیں آکر اللہ کے رسول اور مسلمانوں نے ان سے ملاقات کی، شہر میں بچوں نے اشعار گا کر انہیں خوش آمدید کہا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف لا رہے تھے، ان بچوں کو دیکھ کر فرمایا:_"انہیں اٹھا کر سواریوں پر بٹھا لو اور جعفر کے بچوں کو میرے پیچھے بٹھا دو۔"
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس طرح یہ لشکر مدینہ منورہ میں داخل ہوا، تین لاکھ دشمنوں کے مقابلے میں صرف تین ہزار صحابہ کا مقابلہ کرنا اور ان کے بے شمار لوگوں کو قتل کر کے لشکر کا صحیح سلامت واپس مدینہ منورہ لوٹ آنا ایک بہت بڑی کامیابی تھی… اس بہت بڑی کامیابی پر جس قدر بھی خوشی محسوس کی جاتی تھی کم تھی۔
╨─────────────────────❥
: *★_: قریش کی بدعہدی_,*
★_ اس جنگ کے بعد مکہ فتح ہوا۔ یہ غزوہ رمضان 8ھ میں پیش آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ دوسرے عرب قبیلوں میں سے کوئی قبیلہ بھی دونوں فریقوں میں سے کسی بھی طرف سے اس صلح نامے میں شامل ہوسکتا ہے، یعنی اگر کوئی قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے، اس صورت میں وہ ان شرائط کا پابند ہوگا، جن کے پابند قریش تھے۔
اس شرط کی رو سے بنی بکر کا قبیلہ قریش کی طرف سےاور بنی خزاعہ کا قبیلہ رسول اللہ کی طرف سےاس صلح میں شامل ہوا، جب کہ ان دونوں قبیلوں میں بہت پرانی دشمنی تھی، دونوں کے درمیان کافی قتل و غارت گری ہو چکی تھی، خون کے بدلے باقی تھے…
لیکن اسلام کی آمد نے ان دشمنیوں کو دبا دیا تھا۔
★_ اب ہوا یہ کہ بنی بکر کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز شعر لکھے اور ان کو گانے لگا، بنی خزاعہ کے ایک نوجوان نے ان اشعار کو سن لیا، اس نے بنی بکر کے شخص کو پکڑ کر مارا، اس سے وہ زخمی ہوگیا، اس پر دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ پرانی دشمنی تو ان میں پہلے سے چلتی آرہی تھی۔
★_ بنی بکر نے ساتھ میں قریش سے بھی مدد مانگ لی، قریشی سرداروں نے ان کی درخواست قبول کرلی، ان کی مدد کے لیے آدمی بھی دیئے اور ہتھیار بھی، پھر یہ سب مل کر ایک رات اچانک بنی خزاعہ پر ٹوٹ پڑے، وہ لوگ اس وقت بے فکری سے سوئے ہوئے تھے، ان لوگوں نے بنی خزاعہ کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا۔بنی خزاعہ کے بعض افراد جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے اور ایک مکان میں گھس گئے... قریش نے انہیں وہاں بھی جاگھیرا اور پھر اس مکان میں گھس کر انہیں قتل کیا۔
★_ اس طرح قریش نے بنی بکر کی مدد کے سلسلے میں اس صلح نامے کی دھجیاں اڑادیں...
جب یہ سب کر بیٹھے تو احساس ہوا کہ یہ ہم نے کیا کیا۔اب وہ جمع ہوکر اپنے سردار ابوسفیان کے پاس آئے، سارا واقع سن کر انہوں نے کہا:
"یہ ایسا واقعہ ہے کہ میں اگرچہ اس میں شریک نہیں ہوں، لیکن بے تعلق بھی نہیں رہا اور یہ بہت برا ہوا۔اللّٰہ کی قسم! محمد( صلی الله علیہ وسلم )اب ہم سے جنگ ضرور کریں گے... اور میں تمہیں بتائے دیتا ہوں... میری بیوی ہندہ نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ہے، اس نے دیکھا ہے کہ حجون کی طرف سے خون کا ایک دریا بہتا ہوا آیا اور خندمہ تک پہنچ گیا۔لوگ اس دریا کو دیکھ کر سخت پریشان اور بدحواس ہورہے ہیں۔"
★_اس پر قریش نے ان سے کہا:
"جو ہونا تھا، وہ تو ہوچکا، اب آپ محمد( صلی الله علیہ وسلم )کے پاس جائیں اور ان سے نئے سرے سے معاہدہ کرے... آپ کے سوا یہ کام کوئی نہیں کرسکتا... "
★_ اس پر ابوسفیان اپنے ایک غلام کے ساتھ مدینہ منوره کی طرف روانہ ہوئے... اِدھر ان سے پہلے بنی خزاعہ کا ایک وفد آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا اور جو کچھ ہوا تھا، تفصیل سے بیان کردیا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم اس وقت مسجد نبوی میں اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔بنی خزاعہ کی دردبھری روداد سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور ارشاد فرمایا:
"اگر میں بنی خزاعہ کی مدد انہی چیزوں سے نہ کروں،جن سے میں اپنی مدد کرتا ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ میری مدد نہ فرمائے۔"
_ اسی وقت آسمان پر ایک بدلی آکر تیرنے لگی، حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: _"یہ بدلی بنی خزاعہ کی مدد کے لیے بلند ہوئی ہے۔"
★_ اُمّ المومنین حضرت میمونہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم میرے پاس تھے،رات میں اٹھ کر انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے وضو کیا، ایسی حالت میں، میں نے انہیں لبیک لبیک لبیک فرماتے سنا... یعنی میں حاضر ہوں... میں حاضر ہوں... میں حاضر ہوں، ساتھ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: _"میں مدد کروں گا، میں مدد کروں گا، میں مدد کروں گا۔"
اب وہاں کوئی اور تو تھا نہیں... چنانچہ میں نے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول! میں نے آپ کو تین بار لبیک اور میں مدد کروں گا، فرماتے ہوئے سنا ہے... یہ کیا معاملہ ہے؟ "
جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"بنی خزاعہ کے ساتھ کوئی واقعہ ہوگیا ہے۔"
★_ اس کے تین دن بعد بنی خزاعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے تھے... گویا اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی، جب کہ ابوسفیان اس کوشش میں تھے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے وہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے جاکر ملیں... یعنی ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کو اس واقعہ کی خبر نہ ہو۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو بھی پہلے ہی ان الفاظ میں خبر دے دی تھی۔
★_"بس یوں سمجھو! نئے سرے سے معاہدہ کرنے اور اس کی مدت بڑھانے کے لیے ابوسفیان آیا ہی چاہتا ہے۔"
پھر ابوسفیان سے پہلے ہی بنی خزاعہ کا وفد مدینہ منوره پہنچ گیا۔یہ لوگ حضور صلی الله علیہ وسلم سے مل کر واپس روانہ ہوئے تو راستے میں ابوسفیان سے ان کا سامنا ہوا، ابوسفیان نے ان سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ بتائے بغیر آگے بڑھ گئے... تاہم ابوسفیان نے بھانپ لیا کہ یہ لوگ اسی سلسلے میں مدینہ منوره گئے تھے۔
★_ مدینہ منوره پہنچتے ہی ابوسفیان سیدھے اپنی بیٹی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت اُم المومنین اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کے پاس گئے... گھر میں داخل ہونے کے بعد جب ابوسفیان نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو اُمّ المومنین اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے بستر لپیٹ دیا، یہ دیکھ کر ابوسفیان حیرت زدہ رہ گئے، انہوں نے کہا: _"بیٹی یہ کیا! مہمان کے آنے پر بستر بچھاتے ہیں کہ اٹھاتے ہیں۔"
حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے فرمایا: _"یہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کا بستر ہے... اور آپ ابھی مشرک ہیں۔"
★_ یہ سن کر ابوسفیان بولے:
"اللّٰہ کی قسم! میرے پاس سے آنے کے بعد تجھ میں خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔"
اس پر حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے فرمایا:
"یہ بات نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ مجھے اسلام کی ہدایت عطا ہوگئی ہے، جب کہ آپ پتھروں کو پوجتے ہیں، ان بتوں کو جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں... آپ پر تعجب ہے،آپ قبیلہ قریش کے سردار اور بزرگ ہیں، سمجھ دار آدمی ہیں، اور اب تک شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔"
ان کے جواب میں ابوسفیان بولے: _"تو کیا میں اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر محمد( صلی الله علیہ وسلم )کے دین کو اختیار کر لوں۔"
★_ پھر ابوسفیان وہاں سے نکل کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے نئے سرے سے معاہدہ کرنے سے انکار فرمادیا، اب وہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کے پاس گئے... انہوں نے بھی کوئی بات نہ سنی... وہ بار بار سبھی بڑے لوگوں کے پاس گئے... لیکن کسی نے ان سے بات نہ کی... آخر ابوسفیان مایوس ہوگئے اور واپس مکہ لوٹ آئے انہوں نے قریش پر واضح کردیا کہ وہ بالکل ناکام لوٹے ہیں۔
★_ ادھر ابوسفیان کے روانہ ہونے کے بعد ہی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کوچ کا حکم فرمایا، مسلمانوں کے ساتھ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو بھی تیاری کا حکم فرمایا،لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی تھی کہ کہاں جانا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے آس پاس کے دیہاتوں میں یہ پیغام بھیج دیا، ان لوگوں کو حکم ہوا کہ رمضان کا مہینہ مدینہ منوره میں گزاریں، اس اعلان کے فوراً بعد چاروں طرف سے لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
"اے اللّٰہ قریش کے جاسوسوں اور سن گن لینے والوں کو روک دے، تاکہ ہم ان کے علاقے میں اچانک جاپڑیں۔"
: ★_ ادھر تو حضور صلی الله علیہ وسلم یہ احتیاط فرمارہے تھے کہ کسی طرح قریش کو ان کی تیاریوں کا علم نہ ہو... ادھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہہ نے قریش کے تین بڑے سرداروں کے نام خط لکھا۔اس خط میں انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تیاریوں کی اطلاع دی تھی، یہ خط انہوں نے ایک عورت کو دیا اور اس سے کہا: _"اگر تم یہ خط قریش تک پہنچادو تو تمہیں زبردست انعام دیا جائے گا۔"
اس نے خط پہچانا منظور کرلیا، اس پر حضرت حاطب رضی الله عنہہ نے اسے دس دینار اور ایک قیمتی چادر دی اور اس سے کہا:
"جہاں تک ممکن ہو، اس خط کو پوشیدہ رکھنا اور عام راستوں سے سفر نہ کرنا...کیونکہ جگہ جگہ نگرانی کرنے والے بیٹھے ہیں۔"
★_وہ عورت عام راستہ چھوڑ کر ایک اور راستے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئی، اس کا نام سارہ تھا، وہ مکہ کی ایک گلوکارہ تھی، مدینہ منوره میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر مسلمان ہوئی تھی، اس نے اپنی خستہ حالی کی شکایت کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی مدد بھی کی تھی، پھر یہ مکہ چلی گئی، لیکن وہاں جاکر اسلام سے پھر گئی... پھر یہ وہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز اشعار پڑھنے لگی، ان دنوں ساره دوبارہ مدینہ آئی ہوئی تھی... حضرت حاطب رضی الله عنہہ نے اسے یہ خط دیا تو وہ یہ کام کرنے پر رضامند ہوگئی۔
★_ اس نے وہ خط اپنے سر کے بالوں میں چھپالیا اور مدینہ منوره سے روانہ ہوئی... ادھر یہ روانہ ہوئی، اُدھر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس بارے میں خبر بھیج دی۔آسمان سے اطلاع ملتے ہی آپ نے اپنے چند صحابہ کرام رضی الله عنہم کو اس کے تعاقب میں روانہ فرمایا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: _"وہ عورت تمہیں فلاں مقام پر ملے گی... اس کے پاس ایک خط ہے، خط میں قریش کے خلاف ہماری تیاریوں کی اطلاع ہے، تم لوگ اس عورت سے وہ خط چھین لو... اگر وہ خط دینے سے انکار کرے تو اسے قتل کردینا۔"
★_ یہ صحابہ حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت مقداد رضی الله عنہم تھے۔حکم ملتے ہی یہ اس مقام کی طرف روانہ ہوگئے...نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے عین مطابق وہ عورت ٹھیک اسی مقام پر جاتے ہوئے ملی، انہوں نے اسے گھیر لیا۔ انہوں نے اس عورت سے پوچھا: _"وہ خط کہاں ہے۔"
اس نے قسم کھاکر کہا: _"میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔"
آخر اسے اونٹ سے نیچے اتارا گیا۔تلاشی لی گئی مگر خط نہ ملا۔اس پر حضرت علی رضی الله عنہہ نے فرمایا: _"میں قسم کھاکر کہتا ہوں، رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کبھی غلط بات نہیں کہتے... "
★_ جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ لوگ کسی طرح نہیں مانیں گے تو اس نے اپنے سر کے بال کھول ڈالے اور ان کے نیچے چھپا ہوا خط نکال کر انہیں دے دیا۔بہرحال ان حضرات نے خط لاکر حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔خط حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہہ نے لکھا تھا اور اس میں درج تھا کہ اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری شروع کردی ہے اور یہ تیاری ضرور تم لوگوں کے خلاف ہے۔میں نے مناسب جانا کہ تمہیں اطلاع دے کر تمہارے ساتھ بھلائی کروں۔
: ★_ حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی الله عنہہ کو طلب فرمایا۔انہیں خط دکھایا اور پوچھا: _"حاطب! اس خط کو پہچانتے ہو؟ "
جواب میں انہوں نے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول! میں پہچانتا ہوں... میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے! میرا قریش سے کوئی تعلق نہیں، جب کہ آپ کے ساتھ جو مہاجرین مسلمان ہیں، ان سب کی قریش کے ساتھ رشتے داریاں ہیں... اس وجہ سے مشرک ہونے کے باوجود وہاں موجود ان کے رشتے دار محفوظ ہیں... وہ انہیں کچھ نہیں کہتے... لیکن چونکہ میری ان سے رشتے داری نہیں، اس لیے مجھے اپنے گھر والوں کے بارے میں تشویش رہتی ہے... میری بیوی اور بیٹا وہاں پھنسے ہوئے ہیں... سو میں نے سوچا، اس موقع پر قریش پر یہ احسان کردوں... تاکہ وہ میرے گھر والوں کے ساتھ ظلم نہ کریں اور بس... اس خط سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا... قریش پر اللّٰه کا قہر نازل ہونے والا ہے۔"
★_ ان کی بات سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمایا: _"تم نے حاطب کی بات سنی! انہوں نے سب کچھ سچ سچ بتادیا ہے... اب تم لوگ کیا کہتے ہو؟ "
اس پر حضرت عمر رضی الله عنہہ نے عرض کیا: _"اے اللّٰہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اس شخص کا سر قلم کردوں، کیونکہ یہ منافق ہوگیا ہے۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اے عمر! یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور عمر تمہیں کیا پتہ، ممکن ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اہل بدر سے یہ فرمادیا ہو کہ تم جو چاہے کرو، میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔"
★_ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک سن کر حضرت عمر رضی الله عنہہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ادھر اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت نازل فرمائی:
"ترجمہ: "اے ایمان والوں! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو دین آچکا ہے، وہ اس کے منکر ہیں وہ رسول کو اور تمہیں اس بنا پر شہر بدر کرچکے ہیں کہ تم الله تعالیٰ پر ایمان لے آئے ہو۔"
╨─────────────────────❥
★_ مکہ کی طرف کوچ_,*
★_ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منوره سے کوچ فرمادیا۔مدینہ میں اپنا قائم مقام ابوحضرت رہم کلثوم ابن حصن انصاری رضی الله عنہہ کو بنایا۔آپ صلی الله علیہ وسلم 10 رمضان کو مدینہ منوره سے روانہ ہوئے۔اس غزوے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ 10 ہزار صحابہ تھے۔یہ تعداد انجیل میں بھی آئی ہے... وہاں یہ کہا گیا ہے کہ "وہ رسول دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے اترے گا۔"... اس موقع پر مہاجرین اور انصار میں سے کوئی پیچھے نہیں رہا تھا۔ان کے ساتھ تین سو گھوڑے اور نوسو اونٹ تھے۔
ان مقدس صحابہ کے علاوہ راستے میں کچھ قبائل بھی شامل ہوگئے تھے۔
★_ اس سفر میں روزوں کی رخصت کی اجازت بھی ہوئی، یعنی جس کا جی چاہے سفر میں روزہ رکھ لے، جو رکھنا نہ چاہے، وہ بعد میں رکھے... اس طرح سفر اور جنگ کے موقعوں پر یہ اجازت ہوگئی۔سفر کرتے کرتے آخر لشکر مرظہران کے مقام پر پہنچ گیا۔اس مقام کا نام اب بطن مرد ہے۔لشکر کی روانگی سے پہلے چونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی کہ قریش کو اسلامی لشکر کی آمد کی خبر نہ ہو... اس لیے انہیں خبر نہ ہوسکی۔
★_ مرظہران کے مقام پر پہنچ کر رات کے وقت مسلمانوں نے آگ جلائی۔چونکہ بارہ ہزار کے قریب تعداد تھی، اس لیے بہت دور دور تک آگ کے الاؤ روشن ہوگئے۔جس وقت یہ لشکر مدینہ منوره سے روانہ ہوا تھا، اسی وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی الله عنہہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوره کی طرف روانہ ہوئے تھے تاکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیں... لیکن نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم سے ان کی ملاقات راستے ہی میں ہوگئی۔یہ ملاقات مقام حجِفہ پر ہوئی... حضرت عباس رضی الله عنہہ یہیں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چل پڑے، انہوں نے اپنے گھر کے افراد کو مدینہ منوره بھیج دیا۔
★_ اس موقع پر اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
"اے چچا! آپ کی یہ ہجرت اسی طرح آخری ہجرت ہے، جس طرح میری نبوت آخری نبوت ہے۔"
یہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا کہ عام طور پر مسلمان قریش کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ منوره ہجرت کرتے تھے، لیکن اب آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے لیے تشریف لے جارہے تھے، اس کے بعد تو مکہ سے ہجرت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ یہ آپ کی اسی طرح آخری ہجرت ہے۔جس طرح میری نبوت آخری ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان سے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا مکمل طور پر رد ہوگیا۔( ختم نبوت زندہ باد)
★_ حضرت عباس رضی الله عنہہ اس خیال سے مکہ کی طرف چلے کہ قریش کو بتائیں، اللّٰه کے رسول کہاں تک آچکے ہیں اور قریش کے حق میں بہتر ہے کہ مکہ معظمہ سے نکل کر پہلے ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں...
ادھر یہ اس ارادے سے نکلے، ادھر ابوسفیان، بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے متعلق خبریں حاصل کرنے کے لیے نکلے... کیونکہ اتنا ان لوگوں کو اس وقت معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کے ساتھ مدینہ منوره سے کوچ فرمایا ہے... لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کس طرف گئے ہیں.
★_.. اب جو یہ باہر نکلے تو ہزاروں جگہوں پر آگ روشن دیکھی تو بری طرح گھبرا گئے۔
ابوسفیان رضی الله عنہ کے منہ سے نکلا:
"میں نے آج کی رات جیسی آگ کبھی نہیں دیکھی اور نہ اتنا بڑا لشکر کبھی دیکھا... یہ تو اتنی آگ ہے جتنی عرفہ کے دن حاجی جلاتے ہے۔"
جس وقت ابوسفیان نے یہ الفاظ کہے، اسی وقت حضرت عباس رضی الله عنہہ وہاں سے گزرے۔انہوں نے الفاظ سن لیے، چنانچہ انہوں نے ان حضرات کو دیکھ لیا اور ان کی طرف آگئے۔حضرت عباس رضی الله عنہ بھی حضرت ابوسفیان کے دوست تھے۔
"ابوحنظلہ! یہ تم ہو؟ "حضرت عباس رضی الله عنہ بولے۔ابوحنظلہ ابوسفیان کی کنیت تھی۔
"ہاں! یہ میں ہوں... اور میرے ساتھ بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام ہیں... تم کہاں؟ "
جواب میں حضرت عباس رضی الله عنہ نے کہا:
"اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تمہارے مقابلے میں اتنا بڑا لشکر لے آئے ہیں... اب تمہارے لیے فرار کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔"
★_ ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور کہنے لگے: _"آه! اب قریش کا کیا ہوگا... کوئی تدبیر بتاؤ۔"
یہ سن کر حضرت عباس رضی الله عنہ نے کہا :
"اللّٰہ کی قسم! اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے تم پر قابو پالیا تو تمہارا سر قلم کرادیں گے... اس لیے بہتر یہی ہے کہ میرے خچر پر سوار ہوجاؤ تاکہ میں تمہیں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤں اور تمہاری جان بخشی کرالوں۔"
حضرت ابوسفیان فوراً ہی حضرت عباس رضی الله عنہ کے پیچھے خچر پر سوار ہوگئے۔
★_حضرت عباس رضی الله عنہہ اور ابوسفیان اس جگہ سے گزرے جہاں حضرت عمر رضی الله عنہہ نے آگ جلا رکھی تھی، حضرت عمر رضی الله عنہ نے انہیں دیکھ لیا، فوراﹰ اٹھ کر ان کی طرف آئے اور پکار اٹھے:
"کون! اللّٰہ کا دشمن ابوسفیان ۔"
یہ کہتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے... یہ دیکھ کر حضرت عباس رضی الله عنہہ نے بھی خچر کو ایڑ لگادی اور حضرت عمر رضی الله عنہہ سے پہلے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے... پھر جلدی سے خچر سے اتر کر خیمے میں داخل ہوگئے۔ان کے فوراً بعد حضرت عمر رضی الله عنہ بھی خیمے میں داخل ہوگئے... اور بول اٹھے:
"یارسول اللّٰہ! یہ دشمن خدا ابوسفیان ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر بغیر کسی معاہدے کے ہمیں قابو عطا فرمایا ہے لہذا مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔"
مگر اس کے ساتھ ہی حضرت عباس رضی الله عنہہ نے فرمایا:
"اے اللّٰه کے رسول! میں انہیں پناه دے چکا ہوں۔"
★_اب منظر یہ تھا کہ حضرت عمر رضی الله عنہہ ننگی تلوار سونتے کھڑے تھے کہ اِدھر حکم ہو، اُدھر وہ ابوسفیان کا سر قلم کردیں... دوسری طرف حضرت عباس رضی الله عنہ کہہ رہے تھے: _"اللّٰہ کی قسم! آج رات میرے علاوہ کوئی شخص اس کی جان بچانے کی کوشش کرنے والا نہیں ہے۔
*★_ یہ بادشاہت نہیں،نبوت ہے_,*
★_ آخر نبی رحمت صلّی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:_"عباس!ابوسفیان کو اپنے خیمے میں لے جاؤ اور صبح انھیں میرے پاس لےآنا-"
صبح کو اذان ہوئی تو لوگ تیزی سے نماز کے لیے لپکنے لگے-ابوسفیان لشکر میں یہ ہل چل دیکھ کر گھبرا گئے-انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا- _"ابوالفضل! یہ کیا ہورہا ہے؟"
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا:_"لوگ نماز کے لیے جارہے ہیں-"
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ دراصل اس خیال سے گھبرائے تھے کہ کہیں اُن کے بارے میں کوئی حکم نہ دیا گیا ہو-پھر انہوں نے دیکھا،لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی جمع کررہے ہیں پھر انہوں نے دیکھا،اللہ کے رسول رکوع کرتے ہیں تو سب لوگ بھی آپ کے ساتھ رکوع کرتے ہیں اور آپ سجدہ کرتے ہیں تو لوگ بھی سجدہ کرتے ہیں-
★_ نماز کے بعد انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:_"اے عباس!محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)جو بھی حکم دیتے ہیں،لوگ فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں-"
جواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بولے:_"ہاں!اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو کھانے پینے سے روک دیں تو یہ اس پر بھی عمل کریں گے-"
اس پر ابوسفیان بولے:_"میں نے زندگی میں ان جیسا بادشاہ نہیں دیکھا-نہ کسری ایسا ہے،نہ قیصر...اور نہ بنی اظفر کا بادشاہ-"
یہ سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:_"یہ بادشاہت نہیں،نبوت ہے-"
★_ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ انھیں لےکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوسفیان کو دیکھ کر فرمایا:_"ابوسفیان!افسوس ہے!کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم"لَا اِلهَ اِلّا اللهُ" کی گواہی دو-"
ابوسفیان فوراً بولے:__"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں-"
ان کے ساتھ بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام بھی ایمان لے آئے...یہ لوگ واپس نہیں گئے تھے...وہیں رک کر حالات کا انتظار کرنے لگے تھے-
★_اس کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:_"اے اللہ کے رسول!لوگوں میں امان اور جاں بخشی کا اعلان کرادیجیے-"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:__"ہاں!جس نے ہاتھ روک لیا(یعنی ہتھیار نہ اٹھایا) اسے امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امان ہے اور جو شخص تمہارے گھر میں آجائے گا اسے بھی امان ہے...اور جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے بھی امان ہے-"
ساتھ ہی آپ نے ابورُدیحہ رضی اللہ عنہ کو ایک پرچم دے کر فرمایا:_"جو شخص ابورُدیحہ کے پرچم کے نیچے آجائے گا، اسے بھی امان ہے-"
پھر آپ نے ابوسفیان،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء کے بارے میں ہدایت فرمائی:_"ان تینوں کو وادی کے تنگ حصے کے پاس روک لو تاکہ جب اللہ کا لشکر وہاں سے گزرے تو وہ اس کو اچھی طرح دیکھ سکیں-"
★_ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا...اس طرح تمام قبائل حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے سے گزرے-جو قبیلہ بھی ان کے سامنے سے گزرتا، تین مرتبہ نعرۂ تکبیر بلند کرتا-اس عظیم لشکر کو دیکھ کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ بول اٹھے:_"اللہ کی قسم ابوالفضل! آج تمہارے بھتیجے کی مملکت بہت زبردست ہوچکی ہے-"
جواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:_"یہ سلطنت اور حکومت نہیں بلکہ نبوت اور رسالت ہے-"
★_ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے قریب پہنچے تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بلند آواز میں کہا:
"اے گروہِ قریش!یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنا عظیم الشان لشکر لےکر تمہارے سروں پر پہنچ گئے ہیں...اس لیے اب جو میرے گھر میں داخل ہوجائے گا، اسے امان ہوگی..."
یہ سن کر قریش کہنے لگے:_" کیا تمہارا گھر ہم سب کے لیے کافی ہوجائے گا؟"
ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:_جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا اسے بھی امان ہے،جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے گا اسے بھی امان ہے اور جو حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لےگا اسے بھی امان ہے اور جو ہتھیار ڈال دےگا اسے بھی امان ہے-"
★_ یہ سنتے ہی لوگ دوڑ پڑے...اور جسے پناہ کی جو جگہ بھی مل سکی...وہاں جاگھسے-اس طرح مکہ معظمہ جنگ کے بغیر فتح ہوا-یہ تاریخ انسانیت کا منفرد واقعہ ہے کہ ایک مغلوب قوم بغیر کشت و خون کے اپنے جانی دشمنوں پر غالب آگئی اور اس نے کوئی انتقام نہ لیا ہو-
اس عام معافی کے اعلان کے باوجود گیارہ آدمی ایسے تھے جن کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی خانہ کعبہ کا پردہ بھی پکڑ کر کھڑا ہوجائے،اسے بھی قتل کیا جائے-ان میں عبداللہ بن ابی سرح بھی تھے-یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے،اس لیے قتل نہیں کئے گئے-دوسرے عکرمہ بن ابوجہل تھے، یہ بھی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے- غرض ان گیارہ میں سے زیادہ تر مسلمان ہوگئے تھے،اس لیے قتل ہونے سے بچ گئے-
★_ اس روز کچھ مشرکوں نے مقابلہ کرنے کی بھی ٹھانی- ان میں صفوان بن امیہ،عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو شامل تھے-یہ لوگ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خندمہ کے مقام پر جمع ہوئے-خندمہ مکہ معظمہ کا ایک پہاڑ ہے-ان لوگوں کے مقابلے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا-اس مقابلے میں اٹھائیس کے قریب مشرک مارے گئے-باقی بھاگ نکلے-
: *★_ جب بت منہ کے بل گرنے لگے_,*
★_آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے...آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی قصوی پر سوار تھے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یمنی چادر کا ایک پلہ سر پر لپیٹ رکھا تھا...اور عاجزی اور انکساری سے سر کو کجاوے پر رکھا ہوا تھا...اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے تھے:_"اے اللہ!زندگی اور عیش صرف آخرت کا ہے-"
★_حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کداء کے مقام سے مکہ میں داخل ہوئے-یہ مقام مکہ کی بالائی سمت میں ہے...مکہ میں داخل ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل بھی فرمایا تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعب ابی طالب کے مقام پر قیام فرمایا-یہ وہی گھاٹی تھی جس میں قریش نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تین سال تک رہنے پر مجبور کردیا تھا...اور وہ تین سال مسلمانوں کے لیے انتہائی دکھ اور درد کے سال تھے-جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم شہر میں داخل ہوئے اور مکہ کے مکانات پر نظر پڑی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی-
مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پیر کے دن داخل ہوئے...جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے ہجرت کی تھی،وہ بھی پیر ہی کا دن تھا-
★_ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں داخل ہوئے... ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر چل رہے تھے...اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے باتیں کررہے تھے-پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے ہی کعبہ کے سات طواف کیے-حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے-ان چکروں کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ مبارک سے حجرِ اسود کا استیلام کیا یعنی بوسہ دینے کا اشارہ کیا-
★_ اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے-عرب کے ہر قبیلے کا بت الگ الگ تھا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں اس وقت ایک لکڑی تھی،جس سے ہر بت کو ہلاتے چلے گئے...بت منہ کے بل گرتے چلے گئے... اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 81 تلاوت فرمارہے تھے...اس کا ترجمہ یہ ہے:
"حق آیا اور باطل گزر گیا اور واقعی باطل چیز تو یونہی آنی جانی ہے-"
★_ طواف کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہُبل بت کے پاس پہنچے،قریش کو اس بت پر بہت فخر تھا،وہ اس کی عبادت بہت فخر سے کیا کرتے تھے-یہ قریش کے سب سے بڑے بتوں میں سے ایک تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ لکڑی اس بت کی آنکھوں پر ماری...پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے بت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا-
اس وقت حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے کہا:
"اے ابوسفیان!ہبل توڑ دیا گیا...تم اس پر فخر کیا کرتے تھے-"
یہ سن کر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بولے:_"اے ابن عوام!اب ان باتوں کا کیا فائدہ-"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم مقام ابراہیم پر پہنچے-اس وقت یہ مقام خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا... اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"میرے کندھوں پر کھڑے ہوکر کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور چھت پر بنی خزاعہ کا جو بت ہے...اس پر چوٹ مارو-"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی اور چھت پر چڑھ کر بت کو ضرب لگائی...یہ آہنی سلاخوں سے نصب کیا گیا تھا...آخر اکھڑ گیا-حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو اٹھا کر نیچے پھینک دیا-
★_ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:
"بلال!عثمان بن ابی طلحہ سے کعبہ کی چابیاں لے آؤ-"
: *★_ ابراہیم علیہ السلام کی تصویر کو بھی مٹادیا گیا _,*
★_ چابیاں آگئیں تو دروازہ کھولا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کعبہ میں داخل ہوئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ کعبہ میں پہنچ کر وہاں بنی ہوئی تصاویر مٹادیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم،کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی تصاویر مٹائی جاچکی تھیں،لیکن ان تصاویر میں ایک تصویر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی تھی-حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو نہیں مٹایا تھا-اس پر نظر پڑی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"عمر!کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ کعبہ میں کوئی تصویر باقی نہ چھوڑنا-"
★_ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:_"اللہ تعالٰی ان لوگوں کو ہلاک کرے جو ایسی چیزوں کی تصاویر بناتے ہیں جنہیں وہ پیدا نہیں کرسکتے... اللہ تعالٰی انہیں ہلاک کرے،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے،نہ نصرانی بلکہ وہ پکے سچّے مسلمان تھے-"
اس کے بعد اس تصویر کو بھی مٹادیا گیا-پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دو ستونوں کے درمیان میں دورکعت نماز ادا فرمائی-
★_ جب آپ اور آپ کے چند ساتھی کعبہ کے اندر داخل ہوئے تھے،اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پہرہ دینے کے لیے دروازے پر کھڑے ہوگئے،وہ مزید لوگوں کو اندر داخل ہونے سے روکتے رہے-
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور مقام ابراہیم پر پہنچے-مقام ابراہیم اس وقت خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں دو رکعتیں ادا کیں،اس کے بعد آبِ زمزم منگا کر پیا اور وضو فرمایا-صحابہ کرام اس وقت لپک لپک کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر ملنے لگے-مطلب یہ کہ وہ آپ کے وضو کے پانی کو نیچے نہیں گرنے دے رہے تھے-_ مشرکینِ مکہ نے جب یہ حالت دیکھی تو پکار اٹھے:
"ہم نے آج تک ایسا منظر دیکھا نہ سنا...نہ یہ سنا کہ کوئی بادشاہ اس درجے کو پہنچا ہو-"
★_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جب حرم میں آکر بیٹھ گئے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارد گرد جمع ہوگئے-ایسے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھ کر گئے اور اپنے والد ابوقحافہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں لے آئے-ابوقحافہ کی بینائی جاتی رہی تھی-ادھر جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ حضرت ابوقحافہ پر پڑی تو فرمایا:
"اے ابوبکر!تم نے والدِ محترم کو گھر پر ہی کیوں نہ رہنے دیا،میں خود ان کے پاس چلا جاتا-"
اس پر ابوبکر نے عرض کیا:
"اللہ کے رسول!یہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ خود چل کر آپ کے پاس آئیں-"
★_ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ابوقحافہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بٹھادیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک ان کے سینے پر پھیرا اور فرمایا:_"مسلمان ہوکر عزت اور سلامتی کا راستہ اختیار کرو-"
وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"ابوبکر!تمہیں مبارک ہو-"
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے:_"قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق اور صداقت کے ساتھ ظاہر فرمایا،میرے والد ابوقحافہ کے اسلام کے مقابلے میں آپ کے چچا ابوطالب ایمان لے آتے تو یہ میرے لیے زیادہ خوشی کی بات ہوتی-"
*★_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بالوں کی سفیدی _,*
★_ اس وقت حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے بال بڑھاپے کی وجہ سے بالکل سفید ہوچکے تھے-حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:__"ان بالوں کو مہندی سے رنگ لو...لیکن سیاہ خضاب نہ لگاؤ-"
★_ مؤرخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بالوں کی سفیدی کا احساس ہوا تھا- جب زیادہ عمر ہونے پر بال سفید ہونے لگے تو انھوں نے اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ اے باری تعالٰی!یہ کیسی بدصورتی ہے جس سے میرا روپ بدنما ہوگیا ہے۔اس پر اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:
"یہ چہرے کا وقار ہے،اسلام کا نور ہے-میری عزت کی قسم!میرے جلال کی قسم!جس نے یہ گواہی دی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میری خدائی میں کوئی شریک نہیں اور اس کے بال بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگئے تو قیامت کے دن مجھے اس بات سے حیا آئے گی کہ اس کے لیے میزانِ عدل قائم کروں یا اس کا نامہ اعمال سامنے لاؤں یا اسے عذاب دوں-"
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:
"اے پروردگار!پھر تو اس سفیدی کو میرے لیے اور زیادہ کردے-"
چنانچہ اس کے بعد ان کا سر برف کی طرح سفید ہوگیا-اس سے معلوم ہوا کہ بڑھاپے کی سفیدی اور خود بڑھاپا اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے اور مومن کے لیے عمر کی یہ منزل بھی شکر کا مقام ہے-
★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ ان کا سارا کا سارا گھرانہ ہی مسلمان ہوا-کوئی ایک فرد بھی نہ رہا جو مسلمان نہ ہوا ہو-
╨─────────────────────❥
*★_ حضرت عکرمہ بن ابی جہل کا اسلام لانا _,*
★_ عکرمہ بن ابی جہل ان گیارہ افراد میں سے ایک تھے جن کے قتل کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا تھا...اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اور اس کے باپ ابوجہل نے مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کی تھیں...یہ حکم سنتے ہی عکرمہ یمن کی طرف بھاگ نکلے-اس وقت تک ان کی بیوی حضرت اُمِّ حکیم بنت حارث مسلمان ہوچکی تھیں- انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت عکرمہ کے لیے امان طلب کرلی اور ان کے تعاقب میں گئیں-حضرت عکرمہ بحری جہاز میں سوار ہوچکے تھے تاکہ کسی دوسرے ملک چلے جائیں-یہ بحری جہاز سے انہیں واپس لے آئیں اور ان سے کہا:
"میں تمہاری طرف سے اس شخصیت کے پاس سے آئی ہوں جو سب سے زیادہ رشتہ داریوں کا خیال کرنے والے اور سب سے بہترین انسان ہیں-تم اپنی جان ہلاکت میں مت ڈالو،کیونکہ میں تمہارے لیے امان حاصل کرچکی ہوں-"
★_ اس طرح حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے-حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بہت بہترین مسلمان ثابت ہوئے-وہ بہت زبردست جنگجو بھی تھے،خوب جہاد کیا،بڑے صحابہ میں آپ کا شمار ہوا-جنگِ یرموک میں رومیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے-
★_ اسی طرح باقی لوگوں کو بھی امان مل گئی-ان میں ہندہ بنت حارث بھی تھیں-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے قتل کا بھی حکم دیا تھا-یہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں...ان کے قتل کا حکم آپ نے اس بنا پر دیا تھا کہ غزوہ احد میں انھوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا تھا،یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے تھے...لیکن انھیں بھی معافی مل گئی اور یہ بھی مسلمان ہوگئیں-
★_ صفوان بن امیہ کے بھی قتل کا حکم ہوا تھا،انھیں بھی معافی مل گئی اور یہ بھی مسلمان ہوگئے-کعب بن زہیر کو بھی معافی مل گئی-یہ اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو برا بھلا کہتے تھے،یہ بھی مسلمان ہوگئے -
★_ اسی طرح وحشی نے غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا...آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بھی قتل کا فرمایا تھا، لیکن یہ بھی مسلمان ہوگئے-
*
★_ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا_,*
★_ پھر اس روز آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں،چنانچہ حضرت بلال رضی الله عنہ نے اذان دی۔اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص اللّٰہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ چھوڑے،اس کو توڑ دے۔"
★_ لوگ بتوں کو توڑنے لگے۔حضرت ابوسفیان رضی الله عنہ کی بیوی ہندہ رضی الله عنہا جب مسلمان ہوگئیں تو اپنے اپنے گھر میں رکھے بت کی طرف بڑھیں اور لگیں اس کو ٹھوکریں مارنے،ساتھ میں کہتی جاتی تھیں: _"ہم لوگ تیری وجہ سے بہت دھوکے اور غرور میں تھے۔"
★_ پھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے گردونواح میں بھی صحابہ کرام رضی الله عنہم کو بھیجا...تاکہ ان علاقوں میں رکھے بتوں کو بھی توڑ دیا جائے۔بعض علاقوں میں لوگوں نے باقاعدہ عبادت گاہیں بنا رکھی تھی،ان میں بت رکھے گئے تھے...مشرکین ان بتوں کو اور عبادت خانوں کا اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا کہ کعبہ کا۔دو دن میں جانور بھی قربان کرتے تھے،جس طرح کہ کعبہ میں کیے جاتے تھے،حد یہ کہ ان عبادت خانوں کا طواف بھی کیا جاتا تھا۔غرض ہر خاندان کا الگ بت تھا۔
★_ فتح مکہ کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انیس دن تک وہاں قیام فرمایا۔اس دوران آپ قصر نمازیں پڑھتے رہے۔اس دوران ایک عورت نے چوری کرلی۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔اس کی قوم کے لوگ جمع ہوکر حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کے پاس آئے کہ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے سفارش کردیں۔حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے جب اس عورت کی سفارش کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا،فرمایا: _"کیا تم اللّٰہ کے مقرر کردہ سزاؤں میں سفارش کرتے ہو؟"
حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے فوراً عرض کیا: _"اے اللّٰہ کے رسول!میرے لیے استغفار فرمایئے۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسی وقت کھڑے ہوئے۔پہلے اللّٰہ کی حمدوثنا بیان کی پھر یہ خطبہ دیا:
"لوگو!تم سے پہلی قوموں کو صرف اسی بات نے ہلاک کیا کہ اگر ان میں کوئی باعزت آدمی چوری کرلیتا تو اسے سزا نہیں دیتے تھے،لیکن اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اسے سزا دیتے تھے...قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے...اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا"اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم سے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عتاب بن اسید رضی الله عنہ کو مکہ معظمہ کا والی مقرر فرمایا۔انہیں حکم فرمایا کہ لوگوں کو نماز پڑھایا کریں۔یہ پہلے امیر ہیں،جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مکہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو عتاب بن اسید رضی الله عنہہ کے پاس چھوڑا...تاکہ وہ لوگوں کو حدیث اور فقہ کی تعلیم دیں۔
★_عتاب بن اسید رضی الله عنہ دھوکے بازوں اور بے نمازوں پر بہت سخت تھے...وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ جس کے بارے میں میں نے سنا کہ وہ بلاوجہ جماعت کی نماز چھوڑتا ہے،میں اسے قتل کردوں گا...ان کی اس سختی کو دیکھ کر مکہ کہ لوگوں نے ان کی شکایت ان الفاظ کی:
"اے اللّٰہ کے رسول!آپ نے اللّٰہ کے گھروالوں پر عتاب بن اسید جیسے دیہاتی اور اجڈ آدمی کو امیر مقرر کردیا ہے۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:
"میں نے خواب میں دیکھا کہ عتاب جنت کے دروازے پر آئے اور بڑے زور سے زنجیر ہلائی۔آخر دروازہ کھلا اور وہ اس میں داخل ہوگئے۔ان کے ذریعے اللّٰہ نے اسلام کو سربلند فرمایا ہے،جو شخص مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے،عتاب اس کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔"
*★_ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام_,*
★_پھر اس روز یعنی فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ و سلم صفا پہاڑی پر جا بیٹھے اور لوگ گروہ در گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرتے رہے-تمام چھوٹے بڑے مرد حاضر ہوئے،عورتیں بھی آئیں- سب اپنے اسلام کا اعلان کرتے رہے-
★_ایک اور صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رعب سے کانپنے لگے اور دہشت زدہ ہوگئے-حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی حالت دیکھ کر فرمایا:
"ڈرو نہیں!میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں...بلکہ میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو معمولی کھانا کھایا کرتی تھی-"
★_ اس وقت جن لوگوں نے اسلام قبول کیا،ان میں حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی تھے-حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہی اسلام کی محبت میرے دل میں گھر کرچکی تھی-میں نے اس بات کا ذکر اپنی والدہ سے کیا تو انہوں نے کہا:_"خبردار! اپنے والد کی خلاف ورزی نہ کرنا-"
اس کے باوجود میں نے اسلام قبول کرلیا مگر اس کو چھپائے رہا،پھر کسی طرح میرے والد ابوسفیان کو پتا چل گیا...انھوں نے ناراضی کے انداز میں مجھ سے کہا:_"تمہارا بھائی تم سے کہیں بہتر ہے...کیونکہ وہ میرے دین پر قائم ہے-"
★_ پھر فتح مکہ کے موقع پر میں نے اپنے دین کو ظاہر کردیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے خوش آمدید کہا- پھر میں کاتبِ وحی بن گیا یعنی قرآن کی نازل ہونے والی آیات حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے لکھوایا کرتے تھے-اسی روز حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہندہ رضی اللہ عنہا بھی مسلمان ہوئیں-ان کے علاوہ بے شمار عورتیں اس روز اسلام لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت ہوئیں... لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے مصافحہ نہیں فرمایا-
★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی کسی عورت سے مصافحہ نہیں فرمایا-مطلب یہ کہ عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم زبانی بیعت لیا کرتے تھے-
★_ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:_"میرے پروردگار نے مجھ سے اسی فتح اور نصرت کا وعدہ فرمایا تھا-"
*★_خانہ کعبہ کی چابی _,*
★_ خانہ کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ کے پاس تھی- ان سے منگواکر خانہ کعبہ کو کھولا گیا تھا-پھر دروازے پر تالا لگادیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چابی پھر عثمان بن طلحہ کو دےدی...اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ سلوک دیکھ کر وہ بھی مسلمان ہوگئے-
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"اے بنی طلحہ!یہ چابی ہمیشہ کے لیے تمہارے خاندان کو دی گئی اور نسل در نسل یہ تمہارے ہی خاندان میں رہے گی-"
اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونا چاہتے تھے،لیکن عثمان بن طلحہ بہت بگڑے تھے اور چابی دینے سے صاف انکار کردیا تھا،حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو برا بھلا بھی کہا تھا -اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:
"عثمان!عنقریب!ایک دن تم دیکھو گے کہ یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا،یہ چابی اسے دوں گا-"
★_ اس پر عثمان بن طلحہ نے کہا تھا:_"کیا اس دن قریش ہلاک و برباد ہوچکے ہوں گے؟"
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا:_"نہیں بلکہ اس دن آباد اور سربلند ہوجائیں گے-"
حضرت عثمان بن طلحہ کو یہ تمام باتیں یاد آگئیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ چابی ان کے حوالے کی...آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:_"عثمان! میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ایک دن تم دیکھو گے،یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا یہ چابی اسے دوں گا-
یہ سن کر حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:_" میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں-"
╨─────────────────────❥
*★_ غزوہ حنین _,*
★_ فتح مکہ کہ بعد غزوہ حنین پیش آیا۔حنین طائف کے قریب ایک گاؤں ہے۔اس غزوے کو غزوہ ہوازن اور غزوہ اوطاس بھی کہتے ہیں۔جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں پر مکہ فتح فرمادیا تو سبھی قبیلوں نے اطاعت قبول کرلی مگر قبیلہ بنی ہوازن اور بنی ثقیف نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ دونوں قبیلے بہت سرکش اور مغرور تھے۔اپنے غرور میں وہ کہنے لگے:
"خدا کی قسم!محمد کو اب تک ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں تھے۔"
★_ اب انہوں نے جنگ کی تیاری شروع کردی...انہوں نے مالک بن عوف نضیری کو اپنا سردار بنالیا۔( یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)جب مالک بن عوف کو سب نے متفقہ طور پر تمام قبیلوں کا سردار بنالیا تو ہر طرف سے مختلف قبیلے بڑی تعداد میں آ آ کر لشکر میں شامل ہونے لگے۔
آخر مالک بن عوف نے اپنا یہ لشکر لے کر اوطاس کے مقام پر جاکر پڑاؤ ڈالا۔
★_ ادھر جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو خبریں ملیں کہ بنی ہوازن نے ایک بڑا لشکر جمع کرلیا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن ابی حدود اسلمی کو ان کی جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور رخصت کرتے ہوئے ان سے فرمایا: _"ان کے لشکر میں شامل ہوجانا اور سننا کہ وہ کیا فیصلے کررہے ہیں؟ "
چنانچہ وہ بنی ہوازن کے لشکر میں شامل ہوگئے...ان کی باتیں سنتے رہے،پھر واپس آکر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ساری تفصیلات سنائیں۔ قبیلہ بنی ہوازن والے اپنے ساتھ اپنی عورتیں،بچے اور مال اور دولت بھی لے آئےتھے۔جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو مسکرائے اور ارشاد فرمایا: _"انشاءاللہ! کل یہ سب کچھ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنے گا۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بنی ہوازن سے مقابلے کے لیے باره ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ان میں دو ہزار نوجوان مکہ معظمہ اور گردونواح کے تھے۔باقی دس ہزار وہ صحابہ تھے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے اور جن کے ہاتھ پر اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ فتح کرایا تھا۔جب اسلامی لشکر دشمن کے پڑاؤ کے قریب پہنچ گیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کی صف بندی فرمائی۔مہاجرین اور انصار میں جھنڈے تقسیم فرمائے۔مہاجرین کا پرچم آپ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے سپرد فرمایا، ایک پرچم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو اور ایک حضرت عمر رضی الله عنہ کو بھی عنایت فرمایا۔ انصار میں سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم حباب بن منزر رضی الله عنہ کو عطا فرمایا ایک پرچم اسید بن حفیر رضی الله عنہ کو عنایت فرمایا۔
★_ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوئے تو دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔
خود( لوہے کا ہیلمٹ )بھی پہن رکھا تھا...حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے لشکر کو لے کر آگے بڑھے۔
مشرکوں کے لشکر کی تعداد بیس ہزار تھی۔اور انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑوں اور دروں میں چھپا رکھا تھا۔جونہی اسلامی لشکر وادی میں داخل ہوا،مشرکین نے اچانک ان جگہوں سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔اور زبردست تیراندازی شروع کردی۔ یہ لوگ تھے بھی بہت ماہر تیرانداز...ان کا نشانہ بہت پختہ تھا۔اس اچانک اور زبردست حملے سے مسلمان گھبرا گئے...ان کے پاؤں اکھڑ گئے... مشرکین کے ہزاروں تیر ایک ساتھ آرہے تھے...بہت سے مسلمان منہ پھیر کر بھاگے... لیکن اللّٰہ کے رسول اپنی جگہ جمے رہے...ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
★_ مسلمانوں کے لشکر میں اس روز دراصل مکہ کے کچھ مشرک بھی چلے آئے...یہ مال غنیمت کے لالچ میں آئے تھے...جب زبردست تیراندازی ہوئی تو یہ ایک دوسرے کو کہنے لگے: _"بھئی موقع ہے میدان سے بھاگ نکلنے کا...اس طرح مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔"
اس کے ساتھ ہی وہ یک دم بھاگ کھڑے ہوئے۔انہیں بھاگتے دیکھ کر بعض ایسے مسلمان جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا یہ سمجھے کہ ان کے ساتھی مسلمان بھاگ رہے ہیں۔ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی وہ بھی بھاگنے لگے،اس طرح ایک دوسرے کو بھاگتا دیکھ سب پریشان ہوگئے...لہذاٰ باقیوں کے بھی پاؤں اکھڑ گئے..
★_ .آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس صرف چند صحابہ رہ گئے...ان میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عباس،ان کے بیٹے حضرت فضل، ربیعہ بن حارث اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ابوسفیان بن حارث رضی الله عنہ شامل تھے...ان کے علاوہ نوے کے قریب اور صحابہ کرام تھے...گویا آپ کے آس پاس صرف سو کے قریب صحابہ رہ گئے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس وقت فرمارہے تھے:
"میں اللّٰہ کا رسول ہوں! میں محمد بن عبداللہ ہوں! میں اللّٰہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔"
★_ اس کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی الله عنہ سے فرمایا: _"عباس! لوگوں کو پکارو! اور کہو! اے گروہ انصار! اے بیعت رضوان والوں! اے مہاجرین۔"
حضرت عباس رضی الله عنہ بلند آواز میں پکارے... مسلمانوں کو بلایا...جو مسلمان حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع تھے،انہوں نے مشرکوں پر زبردست حملہ کردیا...
ادھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھائی اور دشمن کی طرف پھینک دی، ساتھ میں فرمایا: _ "یہ چہرے بگڑ جائے۔"
★_ اس وقت تک حضرت عباس رضی الله عنہ اور چند دوسرے صحابہ کی آواز سن کر بھاگتے ہوئے مسلمان بھی واپس پلٹ چکے تھے اور انہوں نے جم کر لڑنا شروع کردیا...اس طرح جنگ ایک بار پھر ہوچکی تھی... کنکریوں کی اس مٹھی کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دشمنوں کی آنکھوں تک پہنچادیا...یہ ان کی آنکھوں میں کیا گری کہ وہ بری طرح بدحواس ہوگئے...وہ بری طرح بھاگ نکلے۔
★_ اس جنگ کے شروع ہونے سے پہلے لشکر کی تعداد دیکھ کر ایک صحابی نے یہ کہا تھا: _"اے اللّٰہ کے رسول! آج ہماری تعداد اس قدر ہے کہ دشمن سے شکست نہیں کھاسکتے۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار گزری تھی، یہ الفاظ بہت گراں محسوس ہوئے تھے... کیونکہ ان میں فخر اور غرور کی بو تھی...اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک بھی یہ جملہ ناپسندیدہ تھا...شاید اسی لیے شروع میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی...لیکن پھر اللّٰہ نے کرم فرمایا اور مسلمانوں کے قدم جم گئے اور پھر مشرکوں کو شکست ہوئی ،
حنین میں مشرکوں کی شکست کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔وہ جان گئے تھے کہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کو اللّٰہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہے...
★_ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:_"تمام قیدی اور مال غنیمت ایک جگہ جمع کردیا جائے۔"
جب یہ مال اور قیدی جمع ہوگئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سب کچھ جعرانہ کے مقام پر بھیجوادیا... غزوہ طائف سے واپسی تک یہ سارا سامان وہیں رہا، یعنی اس کے بعد مسلمانوں میں تقسیم ہوا۔
پھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنی ہوازن اور اس کا سردار مالک بن عوف شکست کھانے کے بعد طائف پہنچ گئے ہیں۔طائف اس وقت بھی ایک بڑا شہر تھا۔
ان لوگوں نے وہاں ایک قلعہ میں پناه لے رکھی تھی۔
★_ یہ اطلاع ملنے پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم طائف کی طرف روانہ ہوئے۔آپ نے ہر اول دستہ پہلے روانہ فرمایا۔اس دستے کا سالار حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کو مقرر فرمایا۔آخر یہ لشکر طائف پہنچ گیا اور اس قلعہ کے پاس جا ٹھیرا جس میں مالک بن عوف اور اس کا بچا کھچا لشکر پناه لے چکا تھا۔
╨─────────────────────❥
*★_ طائف کا محاصرہ_,*
★_ مشرکوں نے جونہی اسلامی لشکر کو دیکھا،انہوں نے قلعہ پر سے زبردست تیراندازی کی...ان تیروں سے بہت سے مسلمان زخمی ہوگئے۔ایک تیر حضرت ابوسفیان بن حرب رضی الله عنہ کی آنکھ میں لگا۔ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔یہ اپنی آنکھ ہتھیلی پر رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: _"اللّٰہ کے رسول!میری یہ آنکھ اللّٰہ کے راستے میں جاتی رہی۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"اگر تم چاہو تو میں دعا کروں گا اور تمہاری یہ آنکھ واپس اپنی جگہ پر ٹھیک ہوجائے گی...
اگر آنکھ نہ چاہو تو پھر بدلے میں جنت ملے گی۔"
اس پر انہوں نے فرمایا:
"مجھے تو جنت ہی عزیز ہیں۔"
یہ کہا اور آنکھ پھینک دی...
★_ غزوہ طائف میں جو لوگ تیروں سے زخمی ہوئے تھے، ان میں سے بارہ آدمی شہادت پا گئے۔آخر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قلعہ کے پاس سے ہٹ کر اس جگہ آگئے جہاں اب مسجد طائف ہے۔
قلعہ کا محاصرہ جاری تھا کہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ لشکر سے آگے نکل کر آگے بڑھے اور پکارے۔_"کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے۔"
ان کی للکار کے جواب میں کوئی مقابلے کے لیے نہ آیا۔قلعہ کے اوپر سے عبدیالیل نے کہا: _"ہم میں سے کوئی شخص بھی قلعہ سے اتر کر تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ہم قلعہ بند رہیں گے،ہمارے پاس کھانے پینے کا اتنا سامان ہے کہ ہمیں برسوں کافی ہوسکتا ہے... جب تک ہمارا غلہ ختم نہیں ہوجاتا،ہم باہر نہیں آئیں گے...تم اس وقت تک ٹھر سکتے ہو تو ٹھیرے رہو۔"
★_محاصرے کو جب کئی دن گزر گئے تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: _"آپ طائف والوں پر فیصلہ کن حملہ کیوں نہیں فرمارہے۔"
اس کے جواب میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔
"ابھی مجھے طائف والوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم نہیں ملا...میرا خیال ہے کہ ہم اس وقت اس شہر کو فتح نہیں کریں گے۔"
آخر جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ ملا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمادیا...
★_ لوگوں کو فتح کے بغیر واپس جانا اچھا نہ لگا... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی ناگواری بھانپ لی چنانچہ فرمایا: _"اچھا تو پھر حملے کی تیاری کرو۔"
لوگوں نے فوراً حملے کی تیاری کی اور قلعہ پر دھاوا بول دیا...اس طرح بہت سے مسلمان زخمی ہوگئے۔اس کے بعد آپ نے پھر اعلان فرمایا: _"اب ہم انشاءاللہ روانہ ہورہے ہیں۔"
اس مرتبہ یہ اعلان سن کر لوگ خوش ہوگئے...اور فرمابرداری کے ساتھ کوچ کی تیاری کرنے لگے۔یہ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے...آپ کو ہنسی اس بات پر آئی کہ پہلے تو لڑنے پر تیار تھےاور واپس جانا برا محسوس کررہے تھے...اب کس قدر جلد اور خوشی سے واپس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
★_دراصل اب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے جان لیا تھا کہ اللّٰہ کے رسول کی رائے ہی بالکل درست تھی۔ واپس روانگی کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس کا وعدہ سچا ہے۔اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی ...اس اکیلے نے "احزاب"کو شکست دی۔"( احزاب کا مطلب ہے وہ فوج جس میں بہت سے گروہ جمع ہوں۔)"
کچھ آگے بڑھنے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: _"ہم لوٹنے والے ہیں،توبہ کرنے والے ہیں اور عبادت کرنے والے ہیں اپنے پروردگار کی اور اس کی تعریفیں بیان کرتے ہیں۔"
: ★_ طائف وہ شہر تھا جہاں کے لوگوں نے ہجرت سے پہلے بھی حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا،لہولہان کردیا تھا مگر اس کے باوجود پہلے بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بددعا نہیں کی تھی اور اب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم طائف کے لوگوں کے لیے یہ دعا فرمائی: _"اے اللّٰہ!بنی ثقیف کو ہدایت عطا فرما اور انہیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس بھیج دے۔"
★_اس لڑائی میں حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی الله عنہ بھی زخمی ہوئے تھے،اس زخم کے اثر سے وہ چند سال بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کی خلافت کے دور میں انتقال کرگئے۔
★_ واپسی کے سفر میں جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم جعرانہ کے مقام پر پہنچنے کے لیے نشیب میں اترے تو وہاں سراقہ بن مالک ملے۔سراقہ وہ شخص ہیں کہ جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے انعام کے لالچ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا تعاقب کیا تھا،نزدیک پہنچنے پر ان کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے تھے،انہوں نے معافی مانگی تو گھوڑے کے پاؤں نکل آئے،یہ پھر قتل کے ارادے سے آگے بڑھے تو پھر گھوڑے کے پاؤں دھنس گئے،تین بار ایسا ہوا،آخر انہیں عقل آگئی اور سچے دل سے معافی مانگی...پھر واپس لوٹ گئے تھے،اس وقت یہ مسلمان نہیں ہوئے تھے،لیکن انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا تھا:
"اے محمد! میں جانتا ہوں...ایک دن ساری دنیا میں آپ کا بول بالا ہونے والا ہے... آپ لوگوں کی جانوں کے مالک ہوں گے...اس لیے مجھے اپنی طرف سےایک تحریر لکھ دیجئے تاکہ جب آپ کی حکومت کے دور میں آپ کے پاس آؤں تو آپ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔"
★_ ان کی درخواست پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ یا ان کے غلام عامر بن ابی فہیرہ رضی الله عنہ سے تحریر لکھوا کر انہیں دی تھی...سراقہ اب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے ہی آئے تھے اور جعرانہ کے مقام پر یہ ملاقات ہوگئی...اسی مقام پر مسلمان غزوہ حنین کا مال غنیمت منتقل کرچکے تھے...سراقہ بن مالک اس وقت یہ پکار رہے تھے: _"میں سراقہ بن مالک ہوں...اور میرے پاس اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تحریر موجود ہے۔"
اس کے الفاظ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:__"آج وفا،محبت اور وعدے کا دن ہے،اسے میرے قریب لاؤ۔"
★_صحابہ کرام نے سراقہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے قریب لاکھڑا کیا...آپ ان سے بہت مہربانی سے پیش آئے۔
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت کا حساب لگوایا اور اس کو مسلمانوں میں تقسیم فرمایا...
: ★_حنین میں جو قیدی ہاتھ لگے،ان میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیما بنت حلیمہ سعدیہ بھی تھیں۔یعنی آپ کی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی تھیں اور بچپن میں آپ کی دودھ شریک بہن تھیں۔جب یہ گرفتار ہوئی تھیں تو صحابہ سے کہنے لگیں کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں...لیکن انہوں نے شیما کی بات پر یقین نہیں کیا تھا...
★_آخر انصار کی ایک جماعت انہیں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئی۔شیما جب آپ کے سامنے آئیں تو بولیں: _"اے محمد! میں آپ کی بہن ہوں۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: _"اس بات کا کیا ثبوت ہے۔"
جواب میں شیما بولیں: _"میرے انگوٹھے پر آپ کے کاٹنے کا نشان ہے...جب میں نے آپ کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس نشان کو پہچان لیا ۔
★_ پہچانتے ہی آپ کھڑے ہوگئے۔ان کے لیے اپنی چادر بچھائی اور انہیں عزت سے بٹھایا۔اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے...اور فرمایا: _"تم جو کچھ مانگو گی،دیا جائے گا...جس بات کی سفارش کروگی، قبول کی جائے گی۔"
★_ اس پر شیما نے اپنی قوم کے قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا-قیدیوں کی تعداد چھ ہزار تھی-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سب قیدی شیما کے حوالے کردیے اور انھوں نے سب کو چھوڑ دیا-یہ حد درجے شریفانہ سلوک تھا،اس طرح شیما اپنی قوم کے لیے بے حد بابرکت ثابت ہوئیں...اس کے بعد بنی ہوازن کے دوسرے قیدیوں کو بھی رہائی مل گئی-
★_مالک بن عوف جنگ کے میدان سے فرار ہوکر طائف چلے گئے تھے،جب کہ ان کے گھر والے قیدی بنالیے گئے تھے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بھی رہا کردیا تھا-جب مالک بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنے گھرانے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حسنِ سلوک کا پتا چلا تو وہ بھی طائف سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے... آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت جعرانہ کے مقام پر تھے...انھوں نے اسلام قبول کرلیا -آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بنی ہوازن کے ان لوگوں کا امیر بنادیا جو مسلمان ہوگئے تھے-
★_ جعرانہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ روانہ ہونے لگے تو عمرے کا احرام باندھ لیا - وہاں سے روانہ ہوکر رات کے وقت مکہ میں داخل ہوئے- آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلسل لبیک(یعنی تلبیہ) پڑھتے رہے- عمرے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم 27 ذی قعدہ کو واپس مدینہ منورہ تشریف لائے-فتح مکہ کے بعد عرب کے تمام قبائل پر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے-
╨─────────────────────❥
*★_ غزوۂ تبوک _,*
★_ رجب 9 ہجری میں غزوۂ تبوک پیش آیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اطلاعات ملیں کہ رومیوں نے شام میں بہت زبردست لشکر جمع کرلیا ہے اور یہ کہ انھوں نے اپنے ہر اول دستوں بلقاء کے مقام تک پھیلا دیا ہے...بلقاء ایک مشہور مقام تھا- ان اطلاعات کی بنیاد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تیاری کا حکم فرمایا...آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنگ کی تیاری کا حکم فرماتے تھے تو یہ نہیں بتاتے تھے کہ جانا کہاں ہے... مطلب یہ کہ اس بات کو خفیہ رکھتے تھے،لیکن غزوۂ تبوک کی باری میں آپ نے معاملہ راز میں نہ رکھا، اس لیے کہ رومیوں کا لشکر بہت زیادہ فاصلے پر تھا... راستے کی تکالیف کا اندازہ کیے بغیر چل پڑنا مناسب نہیں تھا...اس کے علاوہ دشمن کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی،اس لیے اس کے مطابق تیاری کرنے کی ضرورت تھی-
★_ غزوۂ تبوک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری غزوہ ہے- اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی غزوے میں تشریف نہ لے جاسکے- البتہ مہمات کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانہ فرماتے رہے-
★_ سامانِ جنگ اور ضرورت کی دوسری چیزوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے امداد کا اعلان فرمایا...اس اعلان کا سننا تھا کہ صحابہ کرام نے اپنا مال اور دولت پانی کی طرح خرچ کیا- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو اس قدر دولت لٹائی کہ کوئی دوسرا شخص مقدار کے لحاظ سے ان کی برابری نہ کرسکا- انھوں نے نوسو اونٹ، ایک سو گھوڑے، دس ہزار دینار اور ان کے علاوہ بے شمار زادِ راہ دیا- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فیاضی کا حال دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہوں، تو بھی ان سے راضی ہوجا-"
★_ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کافی رات گئے تک ان کے لیے دعا فرماتے رہے-
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے یہ الفاظ بھی ارشاد فرمائے:_"آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا-"
یہ الفاظ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دیناروں کو الٹ پلٹ رہے تھے- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ جو دوسرے مال دار صحابہ تھے، انہوں نے بھی لشکر کی تیاری میں زبردست امداد دی- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو قربانی میں سب سے بڑھ گئے- وہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے...اس کی تعداد چار ہزار درہم کے برابر تھی-
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا:_"ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے یا نہیں؟"
جواب میں انہوں نے عرض کیا:_"میں نے ان کے لیے اللہ اور اللہ کا رسول چھوڑا ہے-"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لائے- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی بہت سا مال لائے-حضرت عباس بن عبد المطلب بھی بہت مال لائے- عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر بھیجے-حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے ستر وسق کھجوروں کے دیے- ایک وسق اتنے وزن کو کہتے ہیں جتنا وزن ایک اونٹ پر لادا جاسکے...یہ وزن تقریباً پونے چار ٹن بنتا ہے-
: ★_ اس سفر کے دوران تبوک کی طرف جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کھنڈرات کے پاس سے گزرے جو قوم ثمود کا وطن تھا اور جنھیں اللہ تعالٰی نے عذاب سے تباہ و برباد کردیا تھا- اس مقام سے گزرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر مبارک پر کپڑا ڈال لیا تھا اور سواری کے رفتار تیز کردی تھی تاکہ جلد از جلد وہاں سے گزر جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
"ان کھنڈرات کے پاس روتے ہوئے گذرو،کہیں تم بھی اس بلا میں گرفتار نہ ہوجاؤ جس میں یہ قوم ہوئی تھی-"
آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا_"آج رات ان پر آندھی کا زبردست طوفان آئے گا-جس کے پاس اونٹ یا گھوڑا ہے، وہ اس کو باندھ کر رکھے-"
ساتھ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:
"آج رات کوئی شخص تنہا اپنے پڑاؤ سے باہر نہ جائے بلکہ کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ضرور رکھے-"
پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص کسی ضرورت سے تنہا باہر نکل گیا-نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دم گھٹ گیا- ایک دوسرا شخص اپنے اونٹ کی تلاش میں نکل گیا- اس کا انجام یہ ہوا کہ ہوا اسے اڑا لے گئی اور پہاڑوں پر جا پھینکا-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان دو واقعات کا علم ہوا تو فرمایا:
"کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ کوئی تنہا نہ جائے؟ باہر جانا پڑ جائے تو کسی کو ساتھ لے کر نکلے-"
اس سفر کے دوران ایک روز پانی بالکل ختم ہوگیا- پیاس نے لوگوں کو پریشان کردیا-آخر لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک ہاتھ اٹھائے رہے جب تک کہ بارش نہ ہوگئی-اور اتنی بارش ہوئی کہ سب سیراب ہوگئے-لشکر نے اپنے برتن بھی بھر لیے-
ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی گم ہوگئی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو تلاش کرنے کا حکم فرمایا...لشکر میں کچھ منافق رہ گئے تھے...وہ واپس نہیں گئے تھے...اس موقع پر وہ کہنے لگے:
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ نبی ہیں...اور یہ مسلمانوں کو آسمان کی خبریں سناتے ہیں،لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے-"
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک منافقین کی یہ باتیں فوراً ہی پہنچ گئیں-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے سامنے ارشاد فرمایا:
"مجھ تک کچھ لوگوں کی یہ بات پہنچی ہے،اللہ کی قسم!میں انہی باتوں کو جانتا ہوں جو اللہ تعالٰی مجھے بتادیتے ہیں...اور اونٹنی کے بارے میں مجھے ابھی اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ فلاں وادی میں ہے،اس کی مہار ایک درخت کی ٹہنی میں الجھ گئی ہے-تم لوگ وہاں جاؤ اور اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ-"
لوگ وہاں گئے تو اونٹنی کو اسی حالت میں پایا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا-
سفر جاری تھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اونٹ تھک گیا...جب اونٹ کسی طرح چلنے کے لیے تیار نہ ہوا تو تنگ آکر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے سامان اس پر سے اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا اور پیدل چل پڑے-یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گئے-لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی خبر دے چکے تھے کہ ابوذر پیچھے رہ گئے ہیں...کیونکہ ان کا اونٹ تھک گیا ہے-یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"اسے اس کے حال پر چھوڑدو...اگر ابوذر میں کوئی خیر ہے تو اللہ تعالٰی اسے تم تک پہنچا دےگا اور اگر خیر کے بجائے برائی ہے تو سمجھ لو...اللہ نے تمہیں اس سے امن دے دیا-"
پھر لوگوں نے دور سے کسی کو آتے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"ابوذر ہوں گے-اللہ ان پر رحمت فرمائے،اکیلے ہی پیدل چلے آرہے ہیں،اکیلے ہی مریں گے-"(یعنی ان کی موت ویرانے میں ہوگی)اور اکیلے ہی دوبارہ زندہ ہوکر قیامت میں اٹھیں گے-"
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی-حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ ربذہ کے ویران مقام پر چلے گئے تھے... وہیں ان کی موت واقع ہوئی تھی-
آخر اسلامی لشکر نے تبوک کے مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا-
: ★_ آخرکار جنگ کی تیاری مکمل ہوگئی- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے- اس لشکر میں دس ہزار گھوڑے تھے- آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا-
★_ اس لشکر میں کچھ منافقین بھی شامل ہوئے...ان میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی سلول بھی تھا... یہ مہم چونکہ بہت دشوار تھی...طویل فاصلے والی تھی،اس لیے اکثر منافقین تو شروع ہی سے ساتھ نہیں دیتے تھے، پھر جانے والوں میں سے بھی بہت سوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور وہ کچھ ہی دور چلنے کے بعد واپس لوٹ گئے- اس طرح منافقوں کا پول کھل گیا-
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غزوے کے لیے کئی پرچم تیار کرائے تھے-سب سے بڑا پرچم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا-حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا- اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ پریشانی محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری حیثیت میرے لیے وہی ہو جو موسی علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام کی تھی، فرق یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام نبی تھے...اور میرے بعد کوئی نبی نہیں-"
★_ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ مطمئن ہوگئے... سوائے غزوۂ تبوک کے اور کوئی غزوہ ایسا نہیں جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ہوں-
★_ آخرکار جنگ کی تیاری مکمل ہوگئی- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے- اس لشکر میں دس ہزار گھوڑے تھے- آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا-
★_ اس لشکر میں کچھ منافقین بھی شامل ہوئے...ان میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی سلول بھی تھا... یہ مہم چونکہ بہت دشوار تھی...طویل فاصلے والی تھی،اس لیے اکثر منافقین تو شروع ہی سے ساتھ نہیں دیتے تھے، پھر جانے والوں میں سے بھی بہت سوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور وہ کچھ ہی دور چلنے کے بعد واپس لوٹ گئے- اس طرح منافقوں کا پول کھل گیا-
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غزوے کے لیے کئی پرچم تیار کرائے تھے-سب سے بڑا پرچم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا-
★_ اس سفر کے دوران تبوک کی طرف جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کھنڈرات کے پاس سے گزرے جو قوم ثمود کا وطن تھا اور جنھیں اللہ تعالٰی نے عذاب سے تباہ و برباد کردیا تھا- اس مقام سے گزرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سر مبارک پر کپڑا ڈال لیا تھا اور سواری کے رفتار تیز کردی تھی تاکہ جلد از جلد وہاں سے گزر جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:_"ان کھنڈرات کے پاس روتے ہوئے گذرو،کہیں تم بھی اس بلا میں گرفتار نہ ہوجاؤ جس میں یہ قوم ہوئی تھی-"
★_ آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا_"آج رات ان پر آندھی کا زبردست طوفان آئے گا- جس کے پاس اونٹ یا گھوڑا ہے، وہ اس کو باندھ کر رکھے-"
ساتھ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:
"آج رات کوئی شخص تنہا اپنے پڑاؤ سے باہر نہ جائے بلکہ کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ضرور رکھے-"
★_ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص کسی ضرورت سے تنہا باہر نکل گیا- نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دم گھٹ گیا- ایک دوسرا شخص اپنے اونٹ کی تلاش میں نکل گیا- اس کا انجام یہ ہوا کہ ہوا اسے اڑا لے گئی اور پہاڑوں پر جا پھینکا- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان دو واقعات کا علم ہوا تو فرمایا:
"کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ کوئی تنہا نہ جائے؟ باہر جانا پڑ جائے تو کسی کو ساتھ لے کر نکلے-"
★_ اس سفر کے دوران ایک روز پانی بالکل ختم ہوگیا- پیاس نے لوگوں کو پریشان کردیا-آخر لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا- آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک ہاتھ اٹھائے رہے جب تک کہ بارش نہ ہوگئی-اور اتنی بارش ہوئی کہ سب سیراب ہوگئے-لشکر نے اپنے برتن بھی بھر لیے-
★__ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی گم ہوگئی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو تلاش کرنے کا حکم فرمایا...لشکر میں کچھ منافق رہ گئے تھے...وہ واپس نہیں گئے تھے...اس موقع پر وہ کہنے لگے:
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ نبی ہیں...اور یہ مسلمانوں کو آسمان کی خبریں سناتے ہیں،لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے-"
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک منافقین کی یہ باتیں فوراً ہی پہنچ گئیں-
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے سامنے ارشاد فرمایا:
"مجھ تک کچھ لوگوں کی یہ بات پہنچی ہے،اللہ کی قسم! میں انہی باتوں کو جانتا ہوں جو اللہ تعالٰی مجھے بتادیتے ہیں...اور اونٹنی کے بارے میں مجھے ابھی اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ فلاں وادی میں ہے،اس کی مہار ایک درخت کی ٹہنی میں الجھ گئی ہے-تم لوگ وہاں جاؤ اور اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ-"
لوگ وہاں گئے تو اونٹنی کو اسی حالت میں پایا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا-
★_ سفر جاری تھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اونٹ تھک گیا...جب اونٹ کسی طرح چلنے کے لیے تیار نہ ہوا تو تنگ آکر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے سامان اس پر سے اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا اور پیدل چل پڑے-یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گئے-لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی خبر دے چکے تھے کہ ابوذر پیچھے رہ گئے ہیں... کیونکہ ان کا اونٹ تھک گیا ہے-یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"اسے اس کے حال پر چھوڑدو...اگر ابوذر میں کوئی خیر ہے تو اللہ تعالٰی اسے تم تک پہنچا دےگا اور اگر خیر کے بجائے برائی ہے تو سمجھ لو...اللہ نے تمہیں اس سے امن دے دیا-"
★_ پھر لوگوں نے دور سے کسی کو آتے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"ابوذر ہوں گے- اللہ ان پر رحمت فرمائے،اکیلے ہی پیدل چلے آرہے ہیں، اکیلے ہی مریں گے-"(یعنی ان کی موت ویرانے میں ہوگی) اور اکیلے ہی دوبارہ زندہ ہوکر قیامت میں اٹھیں گے-"
★_ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ ربذہ کے ویران مقام پر چلے گئے تھے... وہیں ان کی موت واقع ہوئی تھی-
آخر اسلامی لشکر نے تبوک کے مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا- وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ تبوک کے چشمے میں پانی بہت کم ہے-لشکر کی ضرورت اس سے پوری نہیں ہوسکتی- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے اپنے دستِ مبارک میں پانی لیا اور اس کو منہ میں لے کر واپس چشمے کے دہانے پر کلی کردی... چشمہ اسی وقت ابلنے لگا اور پورا بھر گیا- اس طرح سب نے پانی سے سیرابی حاصل کی-
★_ یہ علاقہ اس وقت بالکل بنجر تھا...اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:_"اے معاذ! اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم دیکھو گے یہ علاقہ باغ و بہار بن جائے گا-"
یعنی گرد و پیش کی یہ سرزمین باغات والی نظر آئے گی- مورخ علامہ ابن عبد البر اندلسی لکھتے ہیں کہ میں نے وہ علاقہ دیکھا تھا...تمام کا تمام باغات سے بھرا ہوا تھا-
★_ تبوک کے مقام تک پہنچنے سے ایک رات پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات سوئے تو صبح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھ دیر سے کھلی، بیدار ہوئے تو سورج سوا نیزے کے قریب بلند ہوچکا تھا- اس سے پہلے رات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو جاگ کر نگرانی کرنے اور فجر کے وقت اٹھانے کا حکم دیا تھا-
حضرت بلال رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے- اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی تھی، وہ بھی سوتے رہ گئے تھے-اس طرح نماز کا وقت نکل گیا-
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:_"کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ ہمیں فجر کے وقت جگادینا؟"
جواب میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:_"اے اللہ کے رسول! جس چیز نے آپ کو غافل کردیا، اسی نے مجھے غافل کردیا-" یعنی مجھے بھی نیند آگئی تھی-
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں سے پڑاؤ اٹھانے کا حکم فرمایا اور اس کے بعد فجر کی نماز ادا کی گئی- یعنی یہ قضا نماز تھی-
★_ تبوک کے سفر کے دوران ایک جگہ پھر پانی ختم ہوگیا .. .آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:
"کہیں سے پانی تلاش کرکے لاؤں"
یہ دونوں حضرات وہاں سے چل کر راستے پر آبیٹھے...جلد ہی انھوں نے دور سے ایک بوڑھی عورت کو آتے دیکھا...وہ اونٹ پر سوار تھی-اس نے پاؤں دونوں طرف لٹکا رکھے تھے اور مشکیزوں میں پانی بھر رکھا تھا- انھوں نے اس سے پانی مانگا- اس پر وہ بولی:_"میں اور میرے گھر والے تم سے زیادہ پانی کے ضرورت مند ہیں...میرے بچے یتیم ہیں-"
اس پر انہوں نے کہا:_"تم پانی سمیت ہمارے ساتھ رسول اللہ کے پاس چلو-"
یہ سن کر وہ بولی:_"کون رسول اللہ!وہ جادوگر...جن کو بےدین کہا جاتا ہے...پھر تو یہی بہتر ہے کہ میں ان کے پاس نہ جاؤں-"
★_ اس کا جواب سن کر حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما اسے زبردستی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے آئے...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب انہیں اس بڑھیا کو اس طرح لاتے دیکھا تو ان سے فرمایا:
"اسے چھوڑدو-"
پھر اس سے ارشاد فرمایا:_"کیا تم ہمیں اپنے پانی کو استعمال کرنے کی اجازت دوگی، تمہارا پانی جوں کا توں جتنا تم لے کر آئی ہو، اتنا ہی محفوظ رہے گا؟"
بڑھیا بولی:"ٹھیک ہے-"
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:"ایک برتن لے آؤ-"
وہ برتن لے آئے- آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کا مشکیزہ کھولا اور اس برتن میں تھوڑا سا پانی لیا...پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک اس میں ڈالا...اور لوگوں سے فرمایا:"میرے قریب آجاؤ اور پانی لینا شروع کردو-"
: ★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا...پانی اس برتن میں چشمے کی طرح ابل رہا تھا...یوں لگتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے نکل رہا ہو- سب اس برتن سے پانی لینے لگے...پینے لگے...اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے-پھر انھوں نے اپنے خالی برتن بھر لیے... یہاں تک کہ تمام جانور سیراب ہوگئے...تمام برتن بھر گئے اور پانی اس برتن میں اسی طرح جوش مار رہا تھا...اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پانی واپس اس عورت کے مشکیزے میں ڈال دیا اور اس کا منہ بند کرنے کے بعد فرمایا:__ "تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہو،لے آؤ-"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کپڑابچھادیا... صحابہ کرام اس کے لیے گوشت اور کھجور وغیرہ لے آئے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ سب اسے دے کر فرمایا:
"ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ نہیں لیا...یہ سب چیزیں لے جاؤ...اپنے یتیم بچوں کو کھلا دینا-"
★_ عورت حیرت زدہ تھی...اس نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،ایسا منظر اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا...جب یہ اپنے گھر پہنچی تو گھر والوں نے کہا کہ تم نے بہت دیر لگادی- اس پر اس نے سارا واقعہ سنایا...اس بستی کے لوگوں کو بھی اس واقعہ کا علم ہوگیا- آخر یہ بڑھیا بستی کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس نے اور اس کے قبیلے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا-
★_ غزوۂ تبوک میں ایک موقع پر کھانے کا سامان ختم ہوگیا-حالت یہاں تک پہنچی کہ ایک کھجور مل جاتی تو ایک پوری جماعت لے کر بیٹھ جاتی...پھر سب باری باری اسے چوستے...اور دوسروں کی طرف بڑھادیتے-آخر لوگوں نے عرض کیا:_"اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرکے کھالیں-"
اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:_"اے اللہ کے رسول! اگر آپ نے یہ اجازت دے دی تو سواری کے جانور ختم ہوجائیں گے...آپ ان سے فرمایئے کہ جس کے پاس بھی کوئی بچی ہوئی چیز ہو، وہ لے آئے... پھر آپ اس خوراک میں برکت کی دعا کریں-"
★_ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا- ایک کپڑا بچھایا گیا...جس کے پاس کوئی چیز تھی، وہ لے آیا...جب سب چیزیں کپڑے پر جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا:_"اب تم لوگ اپنے اپنے برتن اس خوراک سے بھر لو-"
سب اپنے برتن بھرنے لگے-سب نے خوب سیر ہوکر کھایا بھی اور برتن بھی بھرے،پورے لشکر میں کوئی برتن ایسا نہ رہا جو بھر نہ لیا گیا ہو-
★_ تبوک کے مقام پر پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس پندرہ دن ٹھہرے- رومی چونکہ اسلامی لشکر سے خوف زدہ ہوگئے تھے، اس لیے مقابلے پر نہ آئے...اور اس طرح تبوک کے مقام پر جنگ نہ ہوسکی-
اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم قصر نمازیں پڑھتے رہے یعنی مسافر کی نماز،جس میں ظہر،عصر اور عشاء کی فرض نمازوں میں چار چار رکعت کی دو رکعت ادا کی جاتی ہیں-
★_ آخر تبوک سے واپسی کا سفر شروع ہوا...راستے میں چند منافقوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کھائی میں دھکا دے کر قتل کرنے کی سازش کی، لیکن ان کی سازش کی اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے خبر دے دی...اس طرح ان کی سازش ناکام ہوئی-
★_ مدینہ منورہ کا سفر ابھی ایک دن کا باقی تھا اور اسلامی لشکر ذی اوان کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ مسجد ضرار کو گرادیں...یہ مسجد منافقوں نے بنائی تھی...وہ اس مسجد کو اپنی سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے...جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے اور اس مسجد کے پاس سے گزرے تھے، تب ان منافقوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسجد میں دو رکعت ادا کرنے کی درخواست کی تھی- اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ واپسی پر پڑھوں گا...لیکن واپسی پر اللہ تعالٰی نے ان کی سازش سے باخبر کردیا تھا،
★_ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا:_"اس مسجد میں جاؤ اور جن لوگوں نے وہ مسجد بنائی ہے،ان کی آنکھوں کے سامنے اس کو آگ لگا کر گرادو...اس مسجد کو بنانے والے بڑے ظالم لوگ ہیں-"
چنانچہ صحابہ نے حکم کی تعمیل کی...مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایسا کیا گیا-مسجد کو بالکل زمین کے برابر کردیا گیا-
★_ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو فرمایا:_"یہ شہر پاکیزہ اور پرسکون ہے-میرے پروردگار نے اس کو آباد کیا ہے-یہ شہر اپنے باشندوں کے میل کچیل کو اسی طرح نکال دیتا ہے جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرکے صاف کردیتی ہے-"
پھر احد کے پہاڑ کے لیے فرمایا:_"یہ احد کا پہاڑ ہے،یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں-"
★_ اس سفر میں جانے سے کچھ لوگوں نے جی چرایا تھا...مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:_"جب تک میں حکم نہ دوں، تم اس وقت تک ان لوگوں سے نہ بولنا،نہ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا-"
*★_ تین صحابہ کا پچاس دن کا بایکاٹ _,*
★_ یہ حکم ملتے ہی سب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کرلی۔خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی بات چیت بند کردی۔صحابہ کرام نے تو یہاں تک کیا کہ اگر ان لوگوں میں کسی کا باپ اور بھائی بھی تھا تو اس نے اس سے بھی بات چیت ترک کردی۔
★_ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے،اس وقت منافقوں کی ایک جماعت مدینہ منوره ہی میں رہ گئی تھی۔ان کی تعداد 80 کے قریب تھی۔انہوں نے تبوک پر نہ جانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کیے تھے...لیکن ان کے علاوہ تین مسلمان ایسے تھے جو صرف سستی کی وجہ سے نہیں گئے تھے، یہ حضرت کعب بن مالک،مراره بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی الله عنہم تھے۔ان حضرات سے مسلمانوں نے بات چیت ترک کردی۔جب انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا اپنا عذر پیش کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
"تم لوگ جاؤ!اللّٰہ تمہارے حق میں فیصلہ فرمائیں گے۔"
★_ چند دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنی بیویوں سے بھی الگ رہنے کا حکم فرمادیا...
انہوں نے بیویوں کو اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا... البتہ حضرت بلال بن امیہ رضی اللّٰہ عنہ بوڑھے تھے۔ان کے بڑھاپے کی وجہ سے انہیں اتنی اجازت دی گئی کہ بیوی گھر میں ره کر خدمت کرسکتی ہے...لیکن رہیں گے الگ الگ۔
★_ اس طرح پچاس دن گزرگئے۔سب لوگ ان تین حضرات سے بات چیت چھوڑ چکے تھے۔پچاس دن بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔لوگوں نے انہیں مبارک باد دی...تینوں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے...آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی انہیں مبارک باد دی...ان حضرات نے اس خوشی میں اپنا بہت سا مال صدقہ کیا۔
_ قریش مکہ کی ایک عورت سلافہ کے دو بیٹے حضرت عاصم رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس نے منت مانی تھی کہ کوئی مجھے عاصم رضی الله عنہ کا سر لاکر دے گا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیوں گی...حضرت عاصم رضی الله عنہ کو اس منت کا پتا تھا، چنانچہ شہید ہونے سے پہلے انہوں نے دعا کی تھی کہ اے اللّٰہ میری لاش ان کے ہاتھ نہ لگے. ..چنانچہ جب انہیں شہید کردیا گیا اور وہ لوگ لاش کو اٹھانے کے لیے بڑھے تو ان پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا... وہ بھاگ کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت لاش اٹھالیں گے، رات کو تو شہد مکھیاں نہیں ہوں گی...لیکن رات کو اللّٰہ تعالیٰ نے پانی کا ایک ریلہ بھیجا جو لاش کو بہالے گیا۔
★_ اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی لاش کی حفاظت فرمائی۔
حضرت خبیب رضی الله عنہ کی دعا بھی پوری ہوگئی... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاہے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی یہ خبر سنائی۔
★_ واقعہ رجیع کے دنوں ہی میں بئر معونہ کا واقعہ پیش آیا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس قبیلہ بنی عامر کا سردار آیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اسلام قبول کرنے کے بجائے اس نے کہا: _"میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا پیغام نہایت شریفانہ اور اچھا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کو نجد والوں کی طرف بھیج دیں...وہاں قبیلہ بنی عامر اور بنی سلیم آباد ہیں، وہ وہاں دین کی دعوت دیں، مجھے امید ہے کہ نجد کے لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔"
اس پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: _"مجھے نجد والوں کی طرف سے اندیشہ ہے...کہیں وہ میرے صحابہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔"
★_ یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی کہ ابو عامر کا چچا عامر بن طفیل اسلام کا بدترین دشمن تھا اور وہاں کے لوگ بھی سخت مخالف تھے۔ آپ کی بات سن کر ابوعامر نے کہا:_"آپ کے صحابہ میری پناه میں ہوں گے،میری ذمہ داری میں ہوں گے۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے وعدہ کرلیا...وعدہ لے کر ابوعامر چلا گیا۔ آپ نے حضرت منذر بن عمرو رضی الله عنہ کو چالیس یا ستر آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا۔
یہ سب کے سب نہایت عابد اور زاہد صحابہ تھے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھی لکھ کر دیا۔ یہ لوگ مدینہ منوره سے روانہ ہوئے اور بئر معونہ پر جا ٹھرے۔بئر معونہ بنی عامر اور بنی سلیم کی سرزمین کے درمیان تھا۔ بئر کنویں کو کہتے ہیں۔ یعنی معونہ کا کنواں۔ اس علاقے کو حرّه کہا جاتاہے۔ یہاں سیاہ پتھر کثرت سے تھے۔
★_ یہاں پہنچ کر ان حضرات نے حضرت حرام بن ملحان رضی الله عنہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط دے کر عامر بن طفیل کی طرف بھیجا۔
حضرت حرام رضی الله عنہ اس کے پاس پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط اسے دیا۔ اس نے خط پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ادھر حضرت حرام رضی الله عنہ نے خط دیتے وقت ان سے کہا: _"اے لوگوں!میں رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں، اس لیے اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لےآؤ۔"
ابھی وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ عامر بن طفیل نے ایک شخص کو اشارہ کیا. ..وہ ان کے پیچھے آیا اور پہلو میں نیزہ دے مارا۔ نیزہ ان کے جسم کے آر پار ہوگیا۔فوراً ہی ان کے منہ سے نکلا: _"اللّٰہ اکبر!رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔"
★_ انہیں شہید کرانے کے بعد عامر بن طفیل نے اپنے لوگوں سے کہا:
"اب اس کے باقی ساتھیوں کو بھی قتل کردو۔"
انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا...کیونکہ کہ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ یہ آنے والے حضرات ابوعامر کی پناه میں ہیں۔ان کی طرف سے انکار سن کر عامر بن طفیل نے بنی سلیم کو پکارا۔اس کی پکار پر قبیلہ عصب،رعل اور ذکوان کے لوگ فوراً آگئے۔یہ سب مسلمانوں کی طرف بڑھے اور انہیں گھیرلیا۔مسلمانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فوراً تلواریں سونت لیں...جنگ شروع ہوگئی...آخر لڑتے لڑتے یہ صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ان میں صرف کعب بن زید رضی الله عنہ زندہ بچ گئے،وہ شدید زخمی تھے۔کفار نے انہیں مردہ خیال کیا... بعد میں انہیں میدان جنگ سے اٹھایا گیا تھا...اور یہ ان زخموں سے تندرست ہوگئے تھے۔
ان کے علاوہ حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھ ایک اور صحابی بھی اس لڑائی میں زندہ بچ گئے...جب مشرکوں نے مسلمانوں کو گھیرے میں لیا تھا تو یہ دونوں اس وقت اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔جب ادھر ان صحابہ کو شہید کیا جارہا تھا،اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔
گھیرے میں آنے کے بعد مسلمانوں نے یہ دعا مانگی:
"اے اللّٰہ!ہمارے پاس تیرے سوا ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو ہماری طرف سے تیرے رسول کو یہ خبر پہنچادے۔"
اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی...حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبے کے دوران ہی یہ خبر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سنائی۔
"تمہارے بھائی مشرکوں سے دوچار ہوگئے۔مشرکوں نے انہیں شہید کردیا ہے۔"
ادھر عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔
ان دونوں نے پڑاؤ کی طرف مردار خور پرندوں کو منڈلاتے دیکھا تو پریشان ہوگئے،سمجھ گئے کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے۔چنانچہ یہ فوراﹰ اپنے ساتھیوں کی طرف روانہ ہوئے...اس وقت تک صحابہ کرام کے قاتل وہیں موجود تھے۔
╨─────────────────────❥
*★__ واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ _,*
★_ غزوہ تبوک کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی جنگ میں خود حصہ نہیں لیا۔ البتہ صحابہ کرام کو مختلف مہمات پر آپ روانہ فرماتے رہے۔ جن مہمات میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بذات خود حصہ نہیں لیا۔ ان مہمات کو سرایا کہا جاتا ہے۔سرایا،سریہ کی جمع ہے...ایسے سرایا غزوہ تبوک سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں 47 مرتبہ کے قریب صحابہ کرام کو سرایا کے لیے روانہ فرمایا۔ ان میں سے واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ بہت دردناک اور مشہور ہیں۔ پہلے واقعہ رجیع کی تفصیلات پڑھیے۔
★_ قبیلہ عضل اور قبیلہ قاره کا ایک گروه آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان لوگوں نے کہا "اے اللّٰہ کے رسول! ہمارے علاقے میں دین سکھانے کے لیے اپنے کچھ صحابہ بھیج دیجئے۔"
رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چھ صحابہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ ان کے نام یہ ہیں۔ مرثد بن ابو مرثد غنوی، خالد بن بکیر لیثی، عاصم بن ثابت بن ابوالافلح، خبیب بن عدی، زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہم۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مرثد بن ابو مرثد کو ان پر امیر مقرر فرمایا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ آخر یہ لوگ رجیع کے مقام پر پہنچے۔ رجیع حجاز کے ایک ضلع میں واقع تھا۔
★_ یہاں پہنچ کر قبیلہ عضل اور قاره کے لوگوں نے قبیلہ ہزیل کو آواز دی، قبیلہ ہزیل کے لوگ فوراً آگئے...گویا سازش پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی...یہ لوگ انہیں سازش کے تحت لائے تھے.. .قبیلہ ہزیل کے لوگوں کی تعداد سو کے قریب تھی۔
ان لوگوں نے ان صحابہ کو گھیر لیا...انہوں نے بھی تلواریں سونت لیں...اس طرح جنگ شروع ہوگئی...اس جنگ کے نتیجے میں حضرت مرثد، خالد بن بکیر، حضرت عاصم اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔ زید بن دثنہ اور خبیب بن عدی رضی الله عنہ گرفتار ہوگئے۔ حضرت زید بن دثنہ رضی الله عنہ نے غزوہ بدر میں امیہ بن خلف کو قتل کیا تھا۔ اس کے بیٹے صفوان نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے انہیں ان لوگوں سے خرید لیا اور قتل کروادیا۔ ره گئے خبیب بن عدی رضی الله عنہ انہیں مکہ سے باہر تعنیم کے مقام پر لایا گیا...تاکہ انہیں پھانسی پرلٹکادیں۔ اس وقت حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ان سے فرمایا: _"مناسب سمجھو تو قتل کرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔"
انہوں نے اجازت دے دی۔حضرت خبیب رضی الله عنہ نے دو رکعت بہت اچھی طرح اطمینان اور سکون سے پڑھیں۔ پھر ان لوگوں سے فرمایا: _"میرا جی چاہتا تھا، یہ دو رکعت زیادہ لمبی پڑھوں... لیکن تم خیال کرتے کہ میں موت کے خوف سے نماز لمبی کررہا ہوں۔"
★_ تاریخ اسلام میں قتل سے پہلے دو رکعت نماز سب سے پہلے حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ادا کی۔اس کے بعد پھانسی کے تختے پر کھڑا کیا گیا اور اچھی طرح باندھا گیا۔اس وقت انہوں نے فرمایا: _"اے اللّٰہ! میں نے تیرے رسول کا پیغام پہنچادیا،پس تو بھی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچادے کہ ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔"
اس کے بعد یہ دعا پڑھی:
"اے اللّٰہ!ان کفار کو گِن لے اور انہیں الگ الگ کرکے قتل کر اور ان میں سے ایک بھی نہ چھوڑ۔"
اس کے بعد کفار نے انہیں شہید کردیا۔
: ★_ قریش مکہ کی ایک عورت سلافہ کے دو بیٹے حضرت عاصم رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس نے منت مانی تھی کہ کوئی مجھے عاصم رضی الله عنہ کا سر لاکر دے گا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیوں گی...حضرت عاصم رضی الله عنہ کو اس منت کا پتا تھا، چنانچہ شہید ہونے سے پہلے انہوں نے دعا کی تھی کہ اے اللّٰہ میری لاش ان کے ہاتھ نہ لگے. ..چنانچہ جب انہیں شہید کردیا گیا اور وہ لوگ لاش کو اٹھانے کے لیے بڑھے تو ان پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا... وہ بھاگ کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت لاش اٹھالیں گے، رات کو تو شہد مکھیاں نہیں ہوں گی...لیکن رات کو اللّٰہ تعالیٰ نے پانی کا ایک ریلہ بھیجا جو لاش کو بہالے گیا۔
★_ اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی لاش کی حفاظت فرمائی۔
حضرت خبیب رضی الله عنہ کی دعا بھی پوری ہوگئی... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاہے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی یہ خبر سنائی۔
★_ واقعہ رجیع کے دنوں ہی میں بئر معونہ کا واقعہ پیش آیا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس قبیلہ بنی عامر کا سردار آیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اسلام قبول کرنے کے بجائے اس نے کہا: _"میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا پیغام نہایت شریفانہ اور اچھا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کو نجد والوں کی طرف بھیج دیں...وہاں قبیلہ بنی عامر اور بنی سلیم آباد ہیں، وہ وہاں دین کی دعوت دیں، مجھے امید ہے کہ نجد کے لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔"
اس پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: _"مجھے نجد والوں کی طرف سے اندیشہ ہے...کہیں وہ میرے صحابہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔"
★_ یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی کہ ابو عامر کا چچا عامر بن طفیل اسلام کا بدترین دشمن تھا اور وہاں کے لوگ بھی سخت مخالف تھے۔ آپ کی بات سن کر ابوعامر نے کہا:_"آپ کے صحابہ میری پناه میں ہوں گے، میری ذمہ داری میں ہوں گے۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے وعدہ کرلیا...وعدہ لے کر ابوعامر چلا گیا۔ آپ نے حضرت منذر بن عمرو رضی الله عنہ کو چالیس یا ستر آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا۔
یہ سب کے سب نہایت عابد اور زاہد صحابہ تھے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھی لکھ کر دیا۔ یہ لوگ مدینہ منوره سے روانہ ہوئے اور بئر معونہ پر جا ٹھرے۔بئر معونہ بنی عامر اور بنی سلیم کی سرزمین کے درمیان تھا۔ بئر کنویں کو کہتے ہیں۔ یعنی معونہ کا کنواں۔ اس علاقے کو حرّه کہا جاتاہے۔ یہاں سیاہ پتھر کثرت سے تھے۔
: ★_ یہاں پہنچ کر ان حضرات نے حضرت حرام بن ملحان رضی الله عنہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط دے کر عامر بن طفیل کی طرف بھیجا۔
حضرت حرام رضی الله عنہ اس کے پاس پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط اسے دیا۔ اس نے خط پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ادھر حضرت حرام رضی الله عنہ نے خط دیتے وقت ان سے کہا: _"اے لوگوں! میں رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں، اس لیے اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لےآؤ۔"
★_ابھی وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ عامر بن طفیل نے ایک شخص کو اشارہ کیا. ..وہ ان کے پیچھے آیا اور پہلو میں نیزہ دے مارا۔ نیزہ ان کے جسم کے آر پار ہوگیا۔ فوراً ہی ان کے منہ سے نکلا: _"اللّٰہ اکبر! رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔"
_ انہیں شہید کرانے کے بعد عامر بن طفیل نے اپنے لوگوں سے کہا:
"اب اس کے باقی ساتھیوں کو بھی قتل کردو۔"
انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا...کیونکہ کہ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ یہ آنے والے حضرات ابوعامر کی پناه میں ہیں۔
★_ ان کی طرف سے انکار سن کر عامر بن طفیل نے بنی سلیم کو پکارا۔ اس کی پکار پر قبیلہ عصب، رعل اور ذکوان کے لوگ فوراً آگئے۔ یہ سب مسلمانوں کی طرف بڑھے اور انہیں گھیرلیا۔مسلمانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فوراً تلواریں سونت لیں... جنگ شروع ہوگئی, ...آخر لڑتے لڑتے یہ صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ ان میں صرف کعب بن زید رضی الله عنہ زندہ بچ گئے، وہ شدید زخمی تھے۔ انہوں نے انہیں مردہ خیال کیا... بعد میں انہیں میدان جنگ سے اٹھایا گیا تھا...اور یہ ان زخموں سے تندرست ہوگئے تھے۔
★_ ان کے علاوہ حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھ ایک اور صحابی بھی اس لڑائی میں زندہ بچ گئے...جب مشرکوں نے مسلمانوں کو گھیرے میں لیا تھا تو یہ دونوں اس وقت اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔ جب ادھر ان صحابہ کو شہید کیا جارہا تھا، اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔
گھیرے میں آنے کے بعد مسلمانوں نے یہ دعا مانگی: _"اے اللّٰہ!ہمارے پاس تیرے سوا ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو ہماری طرف سے تیرے رسول کو یہ خبر پہنچادے۔"
★_ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، ...حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبے کے دوران ہی یہ خبر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سنائی۔
"تمہارے بھائی مشرکوں سے دوچار ہوگئے۔ مشرکوں نے انہیں شہید کردیا ہے۔"
: ★_ ادھر عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔
ان دونوں نے پڑاؤ کی طرف مردار خور پرندوں کو منڈلاتے دیکھا تو پریشان ہوگئے، سمجھ گئے کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے۔ چنانچہ یہ فوراﹰ اپنے ساتھیوں کی طرف روانہ ہوئے. ..اس وقت تک صحابہ کرام کے قاتل وہیں موجود تھے۔
یہ ہولناک منظر دیکھ کر حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ کے ساتھی نے پوچھا: _"اب کیا رائے ہے۔"
حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ بولے: _"میری رائے ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں اور اس سانحے کی خبر دیں۔"
اس پر ان کے ساتھی نے فرمایا:
"مگر جس جگہ منذر بن عمرو رضی الله عنہ جیسا آدمی شہید ہوچکا ہے، میں وہاں سے اپنی جان بچا کر نہیں جاؤں گا۔"
"اچھی بات ہے...میں بھی تیار ہوں۔"
★_ اب دونوں نے تلواریں سونت لیں۔ دشمن کو للکارا اور ان سے جنگ شروع کردی...
آخرکار حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہہ گرفتار ہوگئے جب کہ ان کے ساتھی صحابی شہید ہوگئے۔ عامر بن طفیل کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مان رکھی تھی ...اس نے اپنی ماں کی منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ رضی الله عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت رنج ہوا۔سارے صحابہ غمگین ہوگئے۔
اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے عامر بن طفیل کے لیے بددعا کی۔ بددعا کے نتیجہ میں وہ طاعون کے مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگیا۔
★_ بئر معونہ کی لڑائی کی خاص بات یہ ہے کہ ان شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی الله عنہہ بھی تھے، جب یہ شہید ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی نعش کو اوپر اٹھالیا۔ ان کی لاش پھر زمین پر اتاردی گئی۔ انہیں قتل ہونے والوں میں تلاش کیا گیا۔لیکن ان کی لاش نہ ملی... یہ بات سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:_"عامر بن فہیرہ کی لاش کو فرشتوں نے دفن کیا ہے۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ سے اتنا صدمہ ہوا تھا کہ مسلسل ایک ماہ تک صبح کی نماز میں دعائے قنوت نازلہ پڑھتے رہے اور بئر معونہ پر شہید کیے جانے والے صحابہ کے قاتلوں کے حق میں بددعا کرتے رہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم واقعہ رجیع کے قاتلوں کے حق میں بھی بددعا فرماتے رہے۔
╨─────────────────────❥
[14/06, 5:50 pm] Papa Jio: *★_ دو جھوٹے نبی کذاب طلیحہ اور مسیلمہ _,*
★_ غزوہ تبوک کے بعد سرایا بھیجے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔اس دوران آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ہر طرف سے وفد آنے لگے۔یعنی لوگ وفدوں کی شکل میں آ آ کر اسلام قبول کرنے لگے۔ایک روز بنی حنیفہ کا وفد آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب بھی تھا۔ ان لوگوں نے اس شخص کو کپڑوں میں ڈھانپ رکھا تھا۔ اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کی ٹہنی تھی۔ ٹہنی کے سرے پر کچھ پتے بھی تھے۔مسیلمہ نے آپ کے نزدیک آکر کہا:
"آپ مجھے اپنی نبوت میں شریک کرلیجئے ۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بے ہودہ بات کے جواب میں ارشاد فرمایا: _"اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی بھی مانگے تو میں تو تجھے یہ بھی نہیں دے سکتا۔"
★_ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس کی آمد سے پہلے یہ صحابہ کرام سے فرما چکے تھے کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے ہی میں مجھے وحی کی کہ ان پر پھونک ماریں۔ میں نے پھونک ماری تو دونوں کنگن اڑگئے۔ اس سے میں نے یہ تعبیر لی کہ دو کذاب یعنی جھوٹے نبی ظاہر ہونے والے ہیں۔
یہ دو جھوٹے طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔ طلیحہ تو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اور مسیلمہ عمامہ کا۔_ دونوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی مبارک ہی میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا تھا۔
★_ اس وقت یہی مسیلمہ آیا تھا۔واپس اپنے لوگوں میں جاکر اس نے یہ بات اڑادی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے مجھے نبوت میں حصے دار بنالیا ہے۔پھر یہ قرآن کریم کی آیات کی نقالی میں...اوٹ پٹانگ قسم کے عربی جملے بولنے لگا...اور لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر یہ وحی آئی ہے ...اپنی الٹی سیدھی کرامات دکھانے لگا. ..فرضی معجزات دکھانے لگا. ..اس طرح لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے۔ اس روسیاہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو ایک خط بھی لکھا تھا...اس میں لکھا: _"مجھے آپ کی نبوت میں شریک کرلیا گیا ہے... ہم دونوں آدھے آدھے کے مالک ہیں مگر قریش کے لوگ انصاف پسند نہیں ہیں۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ خط لکھوایا:
"بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔یہ خط محمد صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے۔ سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت اور سیدھے راستے کی پیروی کی۔ اما بعد! یہ روئے زمین اللّٰہ کی مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے،اس کا وارث بنادے۔ درحقیقت بہتر انجام تو اللّٰہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے۔"
★_ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ خط دو قاصدوں کے ذریعے بھیجا۔اس نے خط پڑھ کر ان دونوں سے کہا: _"کیا تم بھی وہی بات کہتے ہو جو انہوں نے لکھا ہے؟ "
جواب میں دونوں قاصدوں نے فرمایا:_"ہاں! ہم بھی یہی کہتے ہے۔"
اس پر اس نے کہا: _"اگر قاصدوں کو قتل کرنا دستور کے خلاف نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں ماردیتا۔"
[14/06, 5:50 pm] Papa Jio: *★_روم کے بادشاہ ہرقل اور ایران کے بادشاہ کسریٰ پرویز کے نام خط _,*
*★_ اس جھوٹے کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے دور میں جنگ لڑی گئی۔اس جنگ کو جنگ یمامہ کہتے ہیں۔ اس میں مسیلمہ کذاب حضرت وحشی بن حرب رضی الله عنہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔حضرت وحشی رضی الله عنہ وہ ہیں جن کے ہاتھوں غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی الله عنہ شہید ہوئے تھے، ...بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
*★_ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کے بادشاہوں کے نام خطوط لکھوائےاور ان خطوط میں، ان بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی۔ روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی خط لکھوایا، یہ خط حضرت دحیہ کلبی رضی الله عنہہ لے کر گئے۔روم کے بادشاہ خود کو قیصر کہلواتے تھے۔
قیصر نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے خط کا احترام کیا...لیکن ایمان لانا اس کے مقدر میں نہیں تھا۔
★_ اسی طرح حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایران کے بادشاہ کسریٰ پرویز کے نام خط لکھوایا۔ یہ خط عبداللہ سہمی رضی الله عنہ لے کر گئے۔اس نے خط سننے سے پہلے ہی اسے چاک کرنے کا حکم دیا۔ اس کے حکم پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط پھاڑ کردیا گیا۔ اس نے اپنے دربار سے قاصد کو بھی نکال دیا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی الله عنہ اپنی سواری پر بیٹھے اور واپس روانہ ہوئے۔ مدینہ منوره پہنچ کر انہوں نے ساری تفصیل سنادی۔
یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:_ "کسریٰ کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔"
★_ ادھر کسریٰ پرویز نے اپنے یمن کے حاکم کو لکھا: _"مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریش کے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔تم فوراً اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔"
یمن کے گورنر بازان نے دو آدمی بھیج دیئے، دونوں مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے حلیے دیکھ کر فرمایا:
"تمہارا برا ہو! یہ تم نے اپنے چہرے کیسے بنارکھے ہیں۔تمہیں ایسا حلیہ اختیار کرنے کا حکم کس نے دیا؟ "
جواب میں وہ بولے: _"ہمارے پروردگار کسریٰ نے۔"
_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
"اب جاؤ اور کل میرے پاس آنا۔"
دونوں چلے گئے،
*★_ شاہ حبشہ نجاشی کے نام خط _,*
★_ اس دوران اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے خبر دی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کسریٰ پر اس کے بیٹے کو مسلط کردیا ہے، وہ فلاں مہینے اور دن اسے قتل کردے گا۔
اس وحی کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور یہ اطلاع انہیں دی۔ساتھ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے بازان کے نام خط لکھوایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ کسریٰ کو فلاں مہینے اور فلاں دن قتل کردے گا۔
بازان کو یہ خط ملا تو اس نے سوچا، اگر وہ نبی ہیں تو جیسا انہوں نے لکھا ہے، ویسا ہی ہوگا۔
★_ چنانچہ اسی طرح ہوا...اس کے بیٹے شیرویہ نے اسی دن اسے قتل کردیا جس کی پیشن گوئی ہوچکی تھی۔ بازان کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع دی۔
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کے نام بھی خط لکھوایا۔نجاشی کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے اس مکتوب مبارک کو آنکھوں سے لگایا،تخت سے اتر کر زمین پر آبیٹھے اور اسلام قبول کیا۔پھر ہاتھی دانت کی صندوقچی منگوا کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خط مبارک اس میں ادب سے رکھا۔اس خط کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے نام ایک دوسرا خط بھی لکھوایا۔اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے لکھوایا کہ نجاشی حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح کردیں۔
نجاشی نے اس خط کو بھی چوما...آنکھوں سے لگایا اور حکم کی تعمیل کی اور حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح پڑھایا۔یہ دونوں خط حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ لے کر گئے تھے۔
۔
*★_ شاہ حبشہ نجاشی کے نام خط _,*
★_ اس دوران اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے خبر دی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کسریٰ پر اس کے بیٹے کو مسلط کردیا ہے، وہ فلاں مہینے اور دن اسے قتل کردے گا۔
اس وحی کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور یہ اطلاع انہیں دی۔ساتھ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے بازان کے نام خط لکھوایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ کسریٰ کو فلاں مہینے اور فلاں دن قتل کردے گا۔
بازان کو یہ خط ملا تو اس نے سوچا، اگر وہ نبی ہیں تو جیسا انہوں نے لکھا ہے، ویسا ہی ہوگا۔
★_ چنانچہ اسی طرح ہوا...اس کے بیٹے شیرویہ نے اسی دن اسے قتل کردیا جس کی پیشن گوئی ہوچکی تھی۔ بازان کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع دی۔
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کے نام بھی خط لکھوایا۔نجاشی کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے اس مکتوب مبارک کو آنکھوں سے لگایا،تخت سے اتر کر زمین پر آبیٹھے اور اسلام قبول کیا۔پھر ہاتھی دانت کی صندوقچی منگوا کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خط مبارک اس میں ادب سے رکھا۔اس خط کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے نام ایک دوسرا خط بھی لکھوایا۔اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے لکھوایا کہ نجاشی حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح کردیں۔
نجاشی نے اس خط کو بھی چوما...آنکھوں سے لگایا اور حکم کی تعمیل کی اور حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نکاح پڑھایا۔یہ دونوں خط حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ لے کر گئے تھے۔
╨─────────────────────❥
*★_ حجۃ الوداع کے لیے روانگی_,*
★_ 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔اس حج کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 24 ذی قعدہ 10ھ جمعرات کے دن مدینہ منورہ سے حجتہ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔
★_ روانگی دن کے وقت ہوئی۔روانہ ہونے سے پہلے بالوں میں کنگھا کیا، سر مبارک میں تیل لگایا، مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں ادا فرمائ۔
اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں۔ ان کی تعداد اس وقت نو تھی۔انہوں نے اونٹوں پر ہودجوں میں سفر کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصوی پر سوار تھے۔ یہ اونٹنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت احرام میں تھے۔ قصوی پر اس وقت ایک پرانا کجاوہ تھا جو چار درہم قیمت کا رہا ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چادر بھی معمولی سی تھی۔
★_ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے۔
ترجمہ:"اے اللہ! اس حج کو مقبول بنادے اور ایسا بنادے جس میں نہ تو ریاکاری اور دھوکا ہو اور نہ دکھاوا اور ظاہرداری ہو۔"
سفر کے دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کیا: _آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں۔ یہ حج کا شعار ہے۔
چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔انہوں نے بلند آواز میں تلبیہ شروع کردیا۔
★_ راستے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو طوی کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔رات وہیں قیام فرمایا۔ صبح کی نماز پڑھ کر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے پہنچ گئے اور وہیں قیام فرمایا۔ پھر دن میں چاشت کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے،باب عبد مناف سے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔یہ دروازہ باب سلام کے نام سے مشہور ہے۔بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی آپ ﷺ نے ان الفاظ میں دعا فرمائی :
ترجمۃ:اے اللہ ! تو خود سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی آتی ہے۔ پس اے ہمارے پروردگار تو ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور اس گھر کی عزت اور دبدبہ میں اضافہ ہی اضافہ فرما۔
★_ پھر بیت اللہ کے گرد طواف کیا،سات چکر لگائے،طواف کی ابتدا آپ ﷺ نے حجر اسود سے کی۔ پہلے اسکے پاس گئے اور اسکو چھوا۔اس وقت آپ ﷺ کی آنکھون میں آنسوں آگئے، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل فرمایا یعنی سینہ تان کر تیز رفتار سے چکر لگائے،باقی چار چکروں میں معمولی رفتار سے لگائے، طواف سے فارغ ہونے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا، اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھے اور انکو چہرہء مبارک پر پھیرا۔طواف سے فارغ ہونے کے بعد آنحضور ﷺ نے مقام ابراھیم پر دو رکعت نماز پڑھی پھر آب زم زم نوش فرما۔
★_ اب آپ ﷺ صفا پہاڑی کی طرف چلے۔ اس وقت آپ ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے۔
ترجمۃ:" بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔" (سورۃ البقرہ)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ یہ دو پہاڑیاں ہیں ان کے درمیاں چکر لگانے کو سعی کرنا کہتے ہیں۔ پہلے تین پھیروں میں آپ تیز تیز اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، جب صفا پر چڑھتے اور کعبہ کی طرف منہ کرلیتے تو اس وقت اللہ کی توحید یوں بیان فرماتے:
ترجمۃ:"اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں،اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ تن تنہا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا، اپنے بندوں کی مدد کی اور اسنے تن تنہا متحدہ لشکروں کو شکست دی۔"
★_ مروہ پر پہنچ کر بھی حضور ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم فرمایا جن کےساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے۔ انھیں حکم فرمایا کہ وہ احرام کو برقرار رکھیں۔
★_ 8 ذی الحجہ کو حضور ﷺ منیٰ کیلئے روانہ ہوئے۔منیٰ کی طرف روانگی سے پہلے ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لئے جو پہلے احرام کھول چکے تھے۔ منیٰ میں آنحضرت ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں ادا فرمائیں، رات وہیں گزاری ۔وہ جمعہ کی رات تھی۔ صبح کی نماز بھی آپ ﷺ نے منیٰ میں پڑھی۔ سورج طلوع ہونے کے بعد وہاں سے عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ میرے لئے اونٹ کے بالوں کا ایک قبہ بنا دیا جائے ۔ میدان عرفات میں حضور اکرم ﷺ اس قبے میں ٹہرے یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا۔ اس وقت حضور ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو لانے کا حکم فرمایا۔ قصویٰ پر سوار ہوکر آپ ﷺ وادی کے اندر پہنچے اور اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے ہی مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا۔
★_ اس خطبہ میں آنحضور ﷺ نے فرمایا:_ "لوگو! میری بات سنو۔دیکھو میں جانتا نہیں کہ اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے کبھی ملوں گا یا نہیں۔لوگو! سن لو،تمہارے خون (یعنی تمہاری جانیں) اور تمہارے اموال ایک دوسرے پر اپنے رب سے ملنے تک(یعنی زندگی بھر)اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے لئے یہ دن اور یہ مہینہ قابل احترام ہے۔دیکھو تم(مرنے کے بعد ) عنقریب اپنے رب سے ملوگے،وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرےگا اور میں (ہر عمل کے متعلق ) تمام احکام تمہیں پہنچا چکا ہوں،پس جس کے پاس(کسی کی )امانت ہو، اسے چاہئے کہ وہ اس امانت کو مانگنے پر اسی شخص کے حوالے کردے جس نے امانت دار سمجھ کر امانت رکھوائی تھی۔
★_ دیکھو ہرقسم کا سود(جو کسی کا کسی کے ذمے تھا ) ساقط کردیا گیا، البتہ تمہارا اصل مال تمہارے لئے حلال ہے۔ نہ تم زیادتی کروگے اور نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔اللہ تعالی نے فیصلہ کردیا ہے کہ اب کوئی سود جائز نہیں اور عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط کر دیا گیا۔ اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جو بھی قتل کا مقدمہ تھا،وہ بھی ختم کردیا گیا(اب اسکا انتقام نہیں لیا جائےگا)اور سب سے پہلے جو قتل کا بدلہ میں ختم کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا قتل ہے اور ابن ربیعہ نے بنو لیث میں دودھ پیا تھا، ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا۔ پس یہ پہلا قتل ہے جس سے میں معافی کی ابتداء کر رہا ہوں۔
★_ لوگو! غور سے سنو،شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے اب اس سر زمین میں کبھی اسکی عبادت کی جائےگی، لیکن اگر اسکی اطاعت کروگے تو وہ تمہارے ان گناہوں سے جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو، راضی ہو جائے گا۔ اسلئے تم لوگ دین کے معاملے میں شیطان سے بچتے اور ڈرتے رہو۔
★_ لوگو! غور سے سنو!تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے اور تم پر ان عورتوں کا حق ہے۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرتے رہو کیوکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔لوگو!میری بات سمجھنے کی کوشش کرو،میں نے تو(ہر حکم)پہنچا دیا اور تمہارے اندر وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا، تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ کھلی ہوئی چیز ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ -
★_ لوگو! میری بات سن کر غور کرو، خوب سمجھ لو کہ ہر مسلمان دوسرے دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،لہٰذا کسی بھی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز(بلا اجازت)حلال نہیں،ہاں مگر اس وقت جب وہ دل کی خوشی سے کوئی چیز خود دے دے- پس تم لوگ اپنے آپ پر کسی بھی حالت میں ظلم مت کرنا-لوگو! بتاؤ میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا؟ "
لوگوں نے جواب میں کہا" یقیناً یقیناً"اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف رخ کیا اور شہادت کی انگلی اٹھاکر فرمایا:
" اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ،اَللّهُمَّ اشْهَدْ. (اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا،اے اللہ آپ گواہ رہیے گا) -"
★_ خطبے سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا- اذان کے بعد ظہر کی تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی- پھر عصر کی نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی- یعنی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کی گئیں- دونوں نمازوں کے لیے اذان ایک کہی گئی، اور تکبیریں الگ الگ ہوئیں-
★_ عرفات میں ایک جماعت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی-انھوں نے پوچھا:_"حج کس طرح کیا جاتا ہے؟"
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:_"حج دراصل وقوفِ عرفات کا نام ہے، یعنی عرفات میں ٹھہرنا حج کرنا ہے-عرفات کا پورا میدان وقوف کی جگہ ہے-"
★_ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مشعر الحرام یعنی مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے- اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا- آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو اطمینان سے چلنے کا حکم فرماتے رہے-اس طرح مزدلفہ پہنچے- یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں- یہ دونوں نمازیں عشاء کے وقت پڑھی گئیں- عورتوں اور بچوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ آدھی رات کے ایک گھنٹے بعد ہی مزدلفہ سے منی روانہ ہوجائیں تاکہ وہاں ہجوم ہونے سے پہلے شیطان کو کنکریاں مارسکیں-
★_ فجر کا وقت ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مزدلفہ میں منہ اندھیرے ہی نماز پڑھائی- پھر سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے- جمرہ عقبہ(بڑے شیطان) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات کنکریاں ماریں- شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کو رمی کہتے ہیں- یہ کنکریاں مزدلفہ سے چن لی جاتی ہیں- ہر کنکری مارتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ اکبر فرماتے رہے-اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونٹنی پر سوار تھے-حضرت بلال اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے-حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے-
★_ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو خطبہ دیا- اس میں ایک دوسرے کے مال اور عزت کو حرام قرار دیا- آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حرمت کا دن قرار دیا اور فرمایا:
"اے لوگو! تمہارا خون،تمہارا مال اور تمہاری عزت اور ناموس تمہارے درمیان ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن تمہارے لیے حرمت کا دن ہے جس طرح اس شہر کی حرمت ہے اور جس طرح اس مہینے کی حرمت ہے-"
یہ الفاظ کئی بار فرمائے...آخر میں دریافت فرمایا:__"اے لوگو!کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا-"
لوگوں نے اقرار کیا-
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"اب تم میں سے جو موجود ہے،وہ غائب تک یہ تبلیغ پہنچادے...میرے بعد تم کفر کی تاریکیوں میں لوٹ نہ جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو-"
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے یہ بھی فرمایا کہ وہ مجھ سے حج کے مناسک (ارکان) سیکھ لو- کیونکہ ممکن ہے اس سال کے بعد مجھے حج کا موقع نہ ملے-
(اور ایسا ہی ہوا...کیونکہ اس حج کے صرف تین ماہ بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی تھی-)
_ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں قربانی کی جگہ تشریف لائےاور 63 اونٹ قربان فرمائے- یہ سب جانور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ ہی سے لائے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمائے-گویا اپنی عمر کے ہر سال کے بدلے ایک جانور قربان فرمایا-
★_ قربانی کے گوشت میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کچھ گوشت پکایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تناول فرمایا- باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا- کل سو اونٹ تھے- اس طرح 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح فرمائے-
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جانوروں کا گوشت اور دوسری چیزیں لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا- منی کا تمام مقام قربانی کرنے کی جگہ ہے... اس کے کسی بھی حصے میں جانور قربان کیا جاسکتا ہے-
★_ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر منڈوایا- سر مبارک کے بال صحابہ کرام میں تقسیم کیے گئے- اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی:
ترجمہ:"اے اللہ!سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما-"
_ سر منڈوانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو لگائی-
★_ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ جانے کے لیے سواری پر تشریف فرما ہوئے- مکہ پہنچ کر ظہر سے پہلے طواف کیا- یہ طوافِ افاضہ تھا جو حج میں فرض ہے - اس کے بغیر حج نہیں ہوتا- پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے زم زم کے کنوئیں سے زم زم نوش فرمایا- کچھ پانی اپنے سر مبارک پر بھی چھڑکا- پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی واپس تشریف لے گئے- وہیں ظہر کی نماز ادا کی-
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں تین دن ٹھہرے- تین دن تک رمئ جمرات کی، یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماریں - ہر شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں- منی کے قیام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لائے اور صحابہ کرام کو حکم فرمایا:
"لوگو!اپنے وطن لوٹنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرلو-"
اسے طوافِ وداع کہتے ہیں،یعنی رخصت ہوتے وقت کا طواف... اور یہ ہر حاجی پر واجب ہے۔
╨─────────────────────❥
★_ حج سے واپسی _,*
★_ طوافِ وداع کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے-واپسی کے سفر میں غدیرِ خم نامی تالاب کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو جمع فرمایا،ان کے سامنے خطبہ دیا- جس میں فرمایا:
لوگو! درحقیقت میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور بندہ ہوں- ممکن ہے،اب جلد ہی میرے رب کا ایلچی (قاصد ) میرے پاس آجائے- (یعنی میرا بلاوا آجائے) اور میں اس کے آگے سرِ تسلیم خم کردوں، میں بھی اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں اور تم بھی جواب دہ ہو،اب تم کیا کہتے ہو؟"
★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:
"ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا، اس میں پوری محنت فرمائی اور نصیحت تمام کردی-"
تب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"کیا تم اس کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ جنت،دوزخ اور موت برحق چیزیں ہیں اور یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی چیز ہے- اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے گا جو قبروں میں پہنچ چکے ہیں؟"
صحابہ کرام نے عرض کیا:
"بےشک ہم ان سب باتوں کی گواہی دیتے ہیں-"
★_ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"اے اللہ!آپ گواہ رہیے گا-"
پھر فرمایا:_"لوگو!قرآن پر جمے رہنا-میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں-ایک اللہ کی کتاب،دوسرے اپنے گھر والے(جس میں ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادیاں سب آگئیں) ... تم منتشر ہوکر پھوٹ مت ڈال لینا، یہاں تک کہ تم حوضِ کوثر پر میرے پاس جمع ہوجاؤ-"
اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ فرمائے:
"میں جس کا مولی اور آقا ہوں علی بھی اس کے مولی اور آقا ہیں- اے اللہ جو علی کا مددگار ہو تو بھی اس کا مددگار ہوجا ...اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ- جو اس سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ. ..جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو اس کی اعانت کرے تو بھی اس کی اعانت فرما،جو بھی اسے رسوا کرے تو اسے رسوا فرما، یہ جہاں بھی ہو، تو حق اور صداقت کو اس کا ساتھی بنانے-"
"_ لفظ مولا کے بہت سے معانی ہیں-یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام اہلِ ایمان کے لیے بزرگ،سردار اور قابلِ احترام ہیں، مولا کا ایک مطلب مددگار بھی ہے-غرض مولا کے بیس کے قریب معانی ہیں-
★_ مشہور محدث امام نووی رحمۃاللہ علیہ سے پوچھا گیا:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ جو ارشاد ہے کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کے مولی علی بھی ہیں، کیا اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ امامت کے زیادہ حق دار ہیں-"
اس سوال کے جواب میں امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اس حدیث سے یہ مطلب نہیں نکلتا بلکہ ان علماء کے نزدیک جو اس میدان میں نمایاں ہیں اور جن کی تحقیق پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کا مددگار، آقا اور محبوب میں ہوں تو علی بھی اس کے مددگار، آقا اور محبوب ہیں-"
★_ اس سفر سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے راستے میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رات بسر فرمائی- اور رات کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہونے کو پسند نہیں فرمایا- پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر مدینہ منورہ پر پڑی تو تین مرتبہ تکبیر کہی اور یہ کلمات پڑھے:
اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، ہم توبہ کرتے ہوئے اور اپنے پروردگار کو سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی تعریفیں کرتے ہوئے لوٹنے والے ہیں، اللہ کا وعدہ سچا ہوگیا- اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور سب گروہوں کو اس تنہا نے شکست دی-"
★_ پھر صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے-11ھ میں پیر کے دن جب کہ ماہِ صفر کی آخری تاریخیں تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں کی عظیم سلطنت کے خلاف تیاری کا حکم فرمایا، اس سے اگلے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:_"اس مقام کی طرف بڑھو جہاں تمہارے والد شہید ہوئے تھے اور اس علاقے کو اسلامی شہسواروں سے پامال کرو، میں تمہیں اس لشکر کا امیر بناتا ہوں. .. نہایت تیزی سے سفر کرکے اپنی منزل کی طرف بڑھو تاکہ جاسوسوں کی اطلاعات سے پہلے دشمن کے سر پر پہنچ جاؤ. ..اگر اللہ تعالٰی تمہیں ان پر فتح عطا فرمائے تو ان لوگوں کے درمیان زیادہ دیر مت ٹھہرنا اور اپنے ساتھ جاسوس اور مخبر لے جانا-"
★_ اگلے روز بدھ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں درد شروع ہوگیا- اس کے بعد بخار بھی ہوگیا- جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکلیف کے باوجود اپنے دستِ مبارک سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پرچم بنا کر دیا،پھر فرمایا:
"اللہ کا نام لے کر اس کے راستے میں جہاد کے لیے جاؤ اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے،ان سے جنگ کرو-"
★_ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنا پرچم لے کر اسلامی لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے- وہ اس وقت بالکل نوجوان تھے. ..اس نوجوانی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں لشکر کا سالار مقرر فرمایا تھا جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بڑے بڑے ممتاز اور تجربہ کار لوگ موجود تھے. ..اس بنیاد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ حضرات نے اس بات کو محسوس کیا کہ جب اتنے بڑے اور تجربہ کار حضرات موجود ہیں تو ایک نوعمر کو سپہ سالار کیوں مقرر فرمایا گیا-
╨─────────────────────❥
*★_آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ناراضگی_,*
★_ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان باتوں کی خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے- یہاں تک کہ اسی وقت اپنے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے...اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور بدن مبارک پر ایک چادر تھی-
★_آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر تشریف لائے- اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر صحابہ کرام کو خطاب فرمایا:
"لوگو! یہ کیسی باتیں ہیں جو اسامہ کو امیر بنانے پر تم لوگوں کی طرف سے مجھ تک پہنچی ہیں؟ اس سے پہلے جب میں نے اسامہ کے والد کو امیر بنایا تھا تو اس وقت بھی اس قسم کی کچھ باتیں سننے میں آئی تھیں، قسم ہے اللہ عزو جل کی کہ وہ یعنی زید بن حارثہ امیر بننے کے لیے موزوں ترین آدمی تھے اور اب ان کے بعد ان کا بیٹا امیر بننے کے لیے موزوں ترین ہے،یہ دونوں باپ بیٹے ایسے ہیں کہ ان سے خیر ہی کا گمان کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اسامہ کے بارے میں خیر ہی کا گمان رکھو،کیونکہ وہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ایک ہے-"
★_ اب جو صحابہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جانے والے تھے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لیے آنے لگے- اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیعت کافی ناساز تھی، اس کے باوجود فرمارہے تھے،_ "اسامہ کے لشکر کو روانہ کردو..."
★_ اپنی طبیعت کی خرابی کے پیشِ نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لشکر کے ساتھ جانے سے روک دیا تھا اور انہیں حکم فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں-
اتوار کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا...حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر ٹھہر گئے تھے- وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کے لیے آئے... جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آنکھیں بند کیے نڈھال سی حالت میں لیٹے ہوئے تھے-
★_ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آہستہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دبایا اور پیشانی کو بوسہ دیا- آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی بات نہ کی، دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھائے اور ان کو اسامہ پر رکھ دیا- حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لیے دعا فرمارہے ہیں- اس کے بعد اسامہ رضی اللہ عنہ پھر اپنے لشکر میں لوٹ آئے...،
★_ لشکر اس وقت جرف کے مقام پر تھا- اسلامی لشکر روانہ ہونے کی تیاری کررہا تھا کہ مدینہ منورہ سے پیغام ملا:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طبعیت ناساز ہوگئی ہے...آپ نہ جائیں-"
اس طرح یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا...
╨─────────────────────❥
*_ آخری ایام _,*
★_طبیعت خراب ہونے سے پہلے ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آدھی رات کے وقت قبرستان بقیع میں تشریف لے گئے اور وہاں ہر مومن کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی-
قبرستان سے واپس لوٹے تو سر مبارک میں شدید درد شروع ہوگیا- حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سر درد کے بارے میں بتایا، انھوں نے سر دبانا شروع کیا...سر درد کے ساتھ بخار بھی شروع ہوگیا-
★_ مرض شروع ہونے کے بعد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی تمام ازواج کے ہاں باری کے مطابق تشریف لے جاتے تھے- جس دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اس دن مرض میں شدت پیدا ہوگئی-تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تمام ازواج کو بلایا اور ان سے اجازت لی کہ آپ کی تیمارداری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہو- سب نے خوشی سے اس کی اجازت دے دی-
★_ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر غشی طاری رہنے لگی... بخار کی شدت زیادہ ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف کنووں سے، سات مشکیں پانی منگوائیں اور اپنے اوپر ڈالنے کا حکم فرمایا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان سات مشکوں کا پانی ڈالنا شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا: _"بس کافی ہے۔"
★_ زندگی کے ان آخری ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: _"اے عائشہ! مجھے خیبر میں جو زہر دیا گیا تھا، اس کی تکلیف میں اب محسوس کرتا ہوں۔"
اس کا مطلب ہے کہ آخری دنوں میں اس زہر کا اثر دوبار ظاہر ہوگیا تھا اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت درجہ شہادت کو پہنچتی ہے۔
★_ پانی اپنے اوپر ڈلوانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارک سے باہر نکلے۔ اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے لیے دعا مانگی۔ بہت دیر تک ان کے لیے دعا فرماتے رہے، پھر ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے سامنے ایک طرف دنیا رکھی اور دوسری طرف وہ سب کچھ رکھا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔پھر اس بندے کو اختیار دیا کہ وہ ان دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک چن لے۔اس بندے نے اپنے لیے وہ پسند کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔"
★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان باتوں کا مطلب فوراً سمجھ گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے مراد اپنی ذات ہے،چنانچہ رونے لگے اور عرض کیا _" اے اللہ کے رسول ہم اپنی جانیں اور اپنی اولادیں آپ پر قربان کر دیں گے۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : _" ابوبکر خود کو سنبھالو"
پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: _" لوگو!ساتھ دینے کے اعتبار سے اور اپنی دولت خرچ کرنے کے اعتبار سے جس شخص کا مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ ابوبکر ہیں۔ "
_ یہ حدیث صحیح ہے اس کو دس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔
★_ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _" مسجد سے ملے ہوئے تمام دروازے بند کر دیے جاییں٬ بس ابوبکر کا دروازہ رہنے دیا جائے، کیونکہ میں اس دروازہ میں نور دیکھتا ہوں،
صحبت اور رفاقت کے اعتبار سے میں کسی کو ابوبکر سے افضل نہیں سمجھتا،"
★_ایک روایت میں ہے۔ "ابوبکر میرے ساتھی ہیں اور میرے غمگسار ہیں، اس لئے مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا: _"میرے ساتھی ابوبکر کے بارے میں مجھے تکلیف نہ پہنچاؤ۔"
★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد مبارک ہے۔
"جب لوگوں نے مجھے جھوٹا کہا تھا تو ابوبکر نے مجھے سچا کہا تھا، جب لوگوں نے اپنا مال روک لیا تھا تو ابوبکر نے میرے لئے اپنے مال کو فیاضی سے خرچ کیا۔
جب لوگوں نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا تو ابوبکر نے میری غم خواری کی تھی۔"
: ★_ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
"اے اللہ کے رسول! یہ کیا بات ہے کہ آپ نے ابوبکر کا دروازہ تو کھلا رہنے دیا اور باقی لوگوں کے دروازے بند کروادیے"
ان کی بات کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اے عباس نہ میں نے اپنے حکم سے کھلوایے اور نہ بند کروا ۓ"
مطلب یہ تھا کہ ایسا کرنے ک حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
★_ اپنے اوپر سات مشکوں کا پانی ڈلوانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا تو مہاجرین سے ارشاد فرمایا :
" اے مہاجرین انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا، خیر کا سلوک کرنا،کیونکہ یہ لوگ میری پناہ گاہ تھے، ان کے پاس مجھے ٹھکانہ ملا، اس لئے ان کی بھلائیوں کے بدلے میں ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کی برایٔوں سے درگزر کرنا "
اتنا فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے۔
★_ اپنے مرض وفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں۔ وہ نماز عشاء کی تھی... جب حضرت بلال نے اذان دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"میرے لئے برتن میں پانی لاؤ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا،پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا مگر غشی طاری ہوگئ۔
کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو دریافت فرمایا :
"کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟"
صحابہ کرام نے عرض کیا: "لوگ آپکا انتظار کر رہے ہیں,"
★_اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی لانے کا حکم دیا، وضو کیا، پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا، لیکن پھر غشی طاری ہوگئ۔ اس کے بعد پھر افاقہ ہوا تو پوچھا :
"کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟"
صحابہ کرام نے پھر عرض کیا:" نہیں،لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ "
اب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، نماز کا ارادہ فرمایا ، لیکن غشی طاری ہوگئ۔
افاقہ ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی بتایا گیا، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں۔
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ حکم ملا تو انھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : -"اے عمر تم نماز پڑھا دو"
اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: _"آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں"
آخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی...اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔
: ★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔
اس دوران صبح کی ایک نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں دوسری رکعت میں شریک ہوئے اور اپنی پہلی رکعت بعد میں ادا فرمائی۔
اس نماز کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد تک آۓ تھے۔ ان دو میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نماز پڑھا رہے تھے ...انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا تو فوراً پیچھے ہٹنے لگے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امامت فرمایٔں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے بائیں جانب بٹھادیا۔
اس طرح حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی، ان کے پیچھے باقی تمام صحابہ نے بھی کھڑے رہ کر نماز ادا کی اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پوری فرمائی۔
★_ امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کے پیچھے تین مرتبہ نماز پڑھی۔
اس بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ امامت کرنے لگے تھے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا:_ "نہیں ...نہیں ...نہیں...ابوبکر ہی نماز پڑھائیں۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ پیچھے ہٹ آئے تھے اور حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی تھی۔
★_ پھر آخری روز آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک پردے کے باہر سے نکال کر مسجد میں دیکھا۔ لوگ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے...یہ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم مسکرا دیے...یہ دن پیر کا دن تھا.. .وہی دن جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی ۔مسکرا کر صحابہ کرام کو دیکھنے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے پردہ گرادیا۔
★_ اس وقت لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف میں کمی ہوگئی ہے...سو آپ کے آس پاس موجود صحابہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ بھی مدینہ منوره کے قریب "مسخ" نامی دیہات چلے گئے جہاں ان کی دوسری زوجہ محترمہ کا گھر تھا۔ یہ جگہ مدینہ منوره سے ایک یا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھی۔ جانے سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے اجازت لی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس روز صبح آپ صلی الله علیہ وسلم کے رُخ انور پر بہت بشاشت تھی۔ چہرہ انور چمک رہا تھا، لہذا لوگوں نے خیال کیا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حالت سنبھل گئی ہے۔
★_ لیکن دوپہر کے قریب آپ صلی الله علیہ وسلم کا بخار تیز ہوگیا۔ یہ خبر سنتے ہی تمام ازواج مطہرات پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آگئیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر اس وقت بار بار غشی طاری ہو رہی تھی، ہوش میں آتے تو فرماتے:
"میں اپنے رفیق اعلیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔"
★_ جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنا ہاتھ مبارک پانی میں ڈال کر اپنے چہرہ انور پر پھیرنے لگے۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے تھے: _"اے اللّٰہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔"
سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم پر بےچینی کے آثار دیکھے تو میں پکار اٹھی: _"ہائے میرے والد کی بے چینی!"
یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"آج کے بعد پھر کوئی بےچینی تمہارے باپ کو نہیں ہوگی۔"
╨─────────────────────❥
: *★_ سفرآخرت _,*
★_ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر وفات کے وقت جو اس قدر تکلیف اور بےچینی کے آثار ظاہر ہوئے، اس میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے., ..یہ کہ اگر کسی مسلمان کو موت کے وقت اس طرح کی تکلیف اور بےچینی ہو تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف کو یاد کرکے خود کو تسلی دے سکتا ہے۔
★_ یعنی دل میں کہہ سکتا ہے کہ جب اللّٰہ کے رسول پر موت کے وقت اتنی تکلیف گذری تو میری کیا حیثیت ہے؟ یوں بھی موت کی سختی مومن کے درجات بلند ہونے کا سبب بنتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: "آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر موت کی تکلیف کے بعد اب میں کسی پر بھی موت کے وقت سختی کو ناگوار محسوس نہیں کرتی۔"
جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی تو فرمایا کرتے تھے:
"اے تمام لوگوں کے پروردگار! یہ تکلیف دور فرمادے اور شفا عطا فرمادے کہ تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری دی ہوئی شفا ہی اصل شفا ہے جس میں بیماری کا نام و نشان نہیں ہوتا۔"
★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی بےچینی بڑھی تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور دعا کے یہی کلمات پڑھ کر دم کرنے لگی ۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھینچ لیا اور یہ دعا پڑھی:
" اے اللّٰہ! میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ عطا فرما۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی کوئی تکلیف ہوتی عافیت اور شفا کی دعا کیا کرتے تھے۔ لیکن جب مرض وفات ہوا تو اس میں شفا کی دعا نہیں مانگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ اس حالت میں میرے بھائی عبدالرحمن رضی الله عنہ آئے، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس مسواک کو دیکھنے لگے۔ میں سمجھ گئی کہ مسواک کی خواہش محسوس کررہے ہیں، کیونکہ مسواک کرنا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا، چنانچہ میں نے پوچھا: _"آپ کو مسواک دو۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک سے ہاں کا اشارہ فرمایا۔ میں نے مسواک دانتوں سے نرم کر کے دی۔ اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مجھ سے سہارا لیے ہوئے تھے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
"میرے اوپر اللّٰہ کے خاص انعامات میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔ آپ کا جسم مبارک اس وقت میرے جسم سے سہارا لیے ہوا تھا۔ وفات کے وقت اللّٰہ تعالیٰ نے میرا لعاب دہن آپ صلی الله علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ملادیا، کیونکہ اس مسواک کو میں نے نرم کرنے کے لیے چبایا تھا اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس سے اپنے دانتوں پر پھیرا تھا۔"
★_ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوئی تو سب ازواج مطہرات آس پاس جمع ہوگئیں۔
مرض کے دوران آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے چالیس غلام آزاد فرمائے۔ گھر میں اس وقت چھ یا سات دینار تھے۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کو حکم دیا کہ ان دیناروں کو صدقہ کردے.. .ساتھ ہی ارشاد فرمایا:
"محمد اپنے رب کے پاس کیا گمان لے کر جائے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات ہو اور یہ مال اس کے پاس ہو۔"
★_ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے اسی وقت ان دیناروں کو صدقہ کردیا۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بیماری سے چند روز پہلے حضرت عباس رضی الله عنہ نے خواب دیکھا تھا کہ چاند زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف چلا گیا۔ انہوں نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو خواب سنایا تھا...خواب سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
"اے عباس! وہ تمہارا بھتیجا ہے۔"
یعنی یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔
★_ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے پناه محبت تھی۔ علالت کے دوران آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا۔ وہ تشریف لائیں تو ان کے کان میں کچھ باتیں کیں، وہ سن کر رونے لگیں، پھر ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں۔ بعد میں انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو بتایا کہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں وفات پا جاؤں گا ،یہ سن کر میں رو پڑی . ..دوسری بار فرمایا کہ خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی۔
چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے کچھ عرصے بعد سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھرانے میں حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا ہی انتقال ہوا۔
★_ وفات سے ایک یا دو دن پہلے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: _"یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاه بنالیا۔"
یہ بھی فرمایا کہ یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو اور فرمایا:
"لوگو!نماز...نماز...نماز کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔"
★_ وفات سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے۔انہوں نے عرض کیا:
"اے محمد صلی الله علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ آپ کے مشتاق ہیں۔"
یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
"تو حکم کے مطابق میری روح قبض کرلو۔"
★_ ایک روایت کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے تھے۔انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تھا:
"اے اللّٰہ کے رسول! یہ ملک الموت ہیں اور اور آپ سے اجازت مانگتے ہیں...آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی اور نہ آپ کے بعد کسی سے اجازت مانگیں گے۔ کیا آپ انہیں اجازت دیتے ہے؟۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ تب عزرائیل علیہ السلام اندر آئے۔انہوں نے آپ کو سلام کیا، اور عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ اگر آپ مجھے حکم دیں کہ میں آپ کی روح قبض کروں تو میں ایسا ہی کروں گا اور اگر آپ حکم فرمائیں کہ چھوڑ دو تو میں ایسا ہی کروں گا۔ "
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
"کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ روح قبض کیے بغیر چلے جاؤ؟ "
انہوں نے عرض کیا:
"ہاں! مجھے یہی حکم دیا گیا ہے۔"
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی طرف دیکھا تو انہوں نے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول!اللّٰہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔"
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: _"مجھے اپنے پروردگار سے ملاقات عزیز ہیں۔"
پھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا:
"تمہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے، اس کو پورا کرو۔"
چنانچہ ملک الموت نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض کرلی انا لله و انا الیه راجعون۔
★_ اس روز پیر کا دن تھا اور دوپہر کا وقت تھا۔ تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ معتبر قول کے مطابق ربیع الاول کی 9 تاریخ تھی۔ وفات کے فوراً بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کو اطلاع بھیجی گئی...وہ فوراً آئے۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، انہوں نے آتے ہی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو بوسہ دیا۔اور یہ الفاظ کہے:
"آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔آپ زندگی میں بھی پاک اور مبارک تھے اور موت کی حالت میں بھی پاک اور مبارک ہیں،جو موت آپ کو آنا تھی آچکی،اب اللّٰہ تعالیٰ آپ کو موت نہیں دیں گے۔"
╨─────────────────────❥
*★_ اسی کے پاس سب کو جاناہے _,*
★_ باہر صحابہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کی حالت اتنی پریشان کن تھی کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے، اور لوگوں کو مخاطب ہوکر کہنے لگے: _
"_اللّٰہ کی قسم! رسول اللّٰہ کا انتقال نہیں ہوا...رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ منافقوں کے ہاتھ پیر نہیں توڑ دیں گے۔ اور اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا... بعض منافق یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ اسی طرح اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے اور پھر چالیس راتوں کے بعد اپنی قوم میں واپس آگئے تھے، جب کہ لوگ ان کے بارے میں کہنے لگے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے۔اللّٰہ کی قسم ! رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم بھی اسی طرح واپس تشریف لائیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام لوٹ آئے تھے...پھر ان لوگوں کے ہاتھ پیر کٹوائیں گے۔"
★_ حضرت عمر رضی الله عنہ غم کی زیادتی کی وجہ سے ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ تشریف لائے اور منبر پر چڑھے۔ انہوں نے بلند آواز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"لوگو! جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔"
★_ یہ کہہ کر انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت 44 تلاوت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے:
"اور محمد رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے اور بھی بہت رسول گذر چکے ہیں۔ سو اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ شہید ہوجائے تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے ...اور جو شخص الٹے پیروں پھر بھی جائے گا تو اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی حق شناس لوگوں کو بدلہ دے گا۔"
حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔_"یہ آیت سن کر مجھے لگا جیسے میں نے آج سے پہلے یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔"
اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ،صَلَوَٰتٌۭ وَسَلَامٌ عَلَى رْسَولِہ صلی الله علیہ وسلم
(بے شک ہم سب اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔)
★_ حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت سے سب کے لیے موت کا برحق ہونا ثابت فرمایا اور فرمایا:_"اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔
"آپ کو بھی مرنا ہے اور انہیں( عام مخلوق کو)بھی مرنا ہے۔"( سورۃ الزمر : آیت 30)
★_ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ پر تمام مسلمانوں نے بیعت کرلی۔ اس کے بعد لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔
(اور یہ کس قدر حیرت انگیز اتفاق ہے کہ یہ قسط ربیع الاول کی انہی تاریخوں میں شائع ہورہی ہے...جن میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی، یہ قدرتی ترتیب اسی طرح بن گئی ورنہ میرا ایسا کوئی باقاعدہ ارادہ نہ تھا۔)
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔ غسل حضرت علی، حضرت عباس اور ان کے بیٹوں فضل اور قثم رضی الله عنہم نے دیا۔حضرت فضل اور حضرت اسامہ رضی الله عنھما غسل دینے والوں کو پانی دے رہے تھے۔غسل کے وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی قمیص نہیں اتاری گئی۔غسل کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن کا دیا گیا، عود وغیرہ کی دھونی دی گئی۔اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چار پائی پر لٹاکر ڈھانپ دیا گیا۔
★_نماز جنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی۔سب نے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھی ۔یعنی جتنے لوگ حجرہ مبارک میں آسکتے تھے،بس اتنی تعداد میں داخل ہوکر نماز ادا کرتے اور باہر آجاتے،پھر دوسرے صحابہ اندر جاکر نماز ادا کرتے۔
★_حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی الله عنہ چند دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئے تو ان الفاظ میں سلام کیا۔
پھر تمام مہاجرین اور انصار نےبھی اسی طرح سلام کیا۔نماز جنازہ میں سب نے چار تکبیرات کہیں۔
★_ انصاری حضرات سقیفہ بنی ساعدہ( ایک جگہ کا نام)میں جمع ہورہے تھے تاکہ خلافت کا فیصلہ کیا جائے۔کسی نے اس بات کی خبر حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنھما کو دی۔یہ دونوں حضرات فوراً وہاں پہنچے،اور خلافت کے بارے میں ارشاد نبوی سنایا۔
★_خلافت کا مسئلہ طے ہوگیا تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا...سوال یہ کیا گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟اس موقع پر بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ آگے آئے اور فرمایا:
"آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں وفات ہوئی ہے...
میرے پاس ایک حدیث ہے... میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کی روح اسی جگہ قبض کی جاتی ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ ہوتی ہے۔
★_چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ دفن کیا جائے۔
اب یہ سوال اٹھا کہ قبر کیسی بنائی جائے،بغلی بنائی جائے یا شق کی۔۔۔اس وقت مدینہ منورہ میں حضرت ابوطلحۃ بن زید بن سہل رضی اللہ عنہ بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح شق کی قبر کھودتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ان دونوں کو بلالاؤ۔۔۔ان میں سے جو پہلے پہنچے گا، اسی سے قبر بنوالی جائے گی۔
ان کی طرف آدمی بھیجنے کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی:
اے اللہ!اپنے رسول کے لئے خیر ظاہر فرما۔
★_حضرتابوطلحہ رضی اللہ عنہ پہلے آئے،چنانچہ بغلی قبر تیار ہوئی۔ایک حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بغلی قبر ہی کا حکم فرمایا تھا۔ حضرت عباس،حضرت علی،حضرت فضل،حضرت قثم اور حضرت شقران رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں اتارا۔
حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے قبر میں ایک سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا۔یہ وہی سرخ کپڑا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے وقت اونٹ کے پالان پر بچھاتے تھے۔یہ کپڑا اس لئے بچھایا گیا کہ وہاں نمی تھی۔اس وقت حضرت شقران رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے:
خدا کی قسم!آپ کے بعد اس کپڑے کو کوئی نہیں پہن سکے گا۔
: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں ہوئی۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اس روز ہم سب ازواج ایک جگہ جمع ہوکر رورہی تھیں۔ہم میں سے کوئی سو نہ سکا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی۔ اذان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آیا تو سارا مدینہ رونے لگا۔لوگ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔اس سے بڑا صدمہ ان پر کبھی نہیں گذرا تھا اور نہ آئندہ کبھی کسی پر گذرے گا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
تمہارے دلوں نے کیسے برداشت کرلیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو؟۔
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہاں!لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پھیرنے والا کوئی نہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدمی اسی مٹی میں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کا خمیر اٹھایاجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی جگہ کی مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بھوکی پیاسی مر گئی۔
علمائےاسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن ہیں،وہ جگہ روئے زمین میں تمام مقامات سے افضل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقعۂ فیل والے سال میں پیدا ہوئے۔۔۔یعنی جس سال ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرچڑھائی کی تھی۔اس واقعہ کے چالیس یا پچاس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت صبح طلوع فجر کے وقت ہوئی۔وہ پیر کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس روز معتبر قول کے مطابق 9 تاریخ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس روز بھی ربیع الاول کی نو یا بارہ تاریخ تھی۔
اے اللہ درود وسلام ہو اس ذات پر کہ جس نے کفر وشرک کے اندھیروں میں شمع ہدایت روشن کی اور جن کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔وہ تیرے بندے اور رسول اور ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کامل ہے۔ میدان حشر میں ہمیں ان کے گروہ میں شامل فرما اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث کے خادموں میں داخل فرما۔آمین۔ سوائے اللہ رب العزت کی ذات عظیم کے کسی کو دوام حاصل نہیں۔
وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔
۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ اس قسط کے ساتھ ہی سیرت النبی قدم بہ قدم کا یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔اسے جس قدر پسند کیا گیا،اس پر اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے، اس میں تقریبا دو سال لگے۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے ان گنت پہلو پھر بھی اس میں شامل نہ ہوسکے۔۔۔۔اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔ دنیا کے تمام انسان تمام عمر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک پر لکھتے رہیں،تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔۔موجودہ حالات کا تقاضا ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کیا جائے، قول سے، عمل سے یا جس طرح بھی بن پڑے یہ کام ضرور کیا جائے۔ اس وقت انسانیت کو کسی آئیڈیل کی تلاش ہے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات ہوسکتی ہے۔ بقول ذکی کیفی۔۔۔
تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
: ★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں ہوئی۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اس روز ہم سب ازواج ایک جگہ جمع ہوکر رو رہی تھیں۔ ہم میں سے کوئی سو نہ سکا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی۔ اذان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آیا تو سارا مدینہ رونے لگا۔ لوگ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔اس سے بڑا صدمہ ان پر کبھی نہیں گذرا تھا اور نہ آئندہ کبھی کسی پر گذرے گا۔
★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: _تمہارے دلوں نے کیسے برداشت کرلیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو ؟۔
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:_ہاں! لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پھیرنے والا کوئی نہیں۔
★_ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدمی اسی مٹی میں دفن ہوتا ہے جہاں سے اس کا خمیر اٹھایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی جگہ کی مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔
: ★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بھوکی پیاسی مر گئی۔
★_ علمائےاسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن ہیں، وہ جگہ روئے زمین میں تمام مقامات سے افضل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقعۂ فیل والے سال میں پیدا ہوئے۔ ۔۔یعنی جس سال ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرچڑھائی کی تھی۔ اس واقعہ کے چالیس یا پچاس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت صبح طلوع فجر کے وقت ہوئی۔ وہ پیر کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس روز معتبر قول کے مطابق 9 تاریخ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس روز بھی ربیع الاول کی نو یا بارہ تاریخ تھی۔
★_ اے اللہ ! درود وسلام ہو اس ذات پر کہ جس نے کفر وشرک کے اندھیروں میں شمع ہدایت روشن کی اور جن کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ وہ تیرے بندے اور رسول اور ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کامل ہے۔ میدان حشر میں ہمیں ان کے گروہ میں شامل فرما اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث کے خادموں میں داخل فرما۔ آمین۔
سوائے اللہ رب العزت کی ذات عظیم کے کسی کو دوام حاصل نہیں۔
وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔
*★_ الحمد للہ اس قسط کے ساتھ ہی سیرت النبی قدم بہ قدم کا یہ سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔اسے جس قدر پسند کیا گیا، اس پر اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے، اس میں تقریباً ایک سال لگا ۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے ان گنت پہلو پھر بھی اس میں شامل نہ ہوسکے۔۔۔۔اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔ دنیا کے تمام انسان تمام عمر بھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک پر لکھتے رہیں، تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے ہم بھی دعا کرتے ہیں اور آپ سب بھی ہمارے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرما کر ہمارے ( پوری حق کا دائی ٹیم) کے لیے نجات کا ذریعہ بنائیں، اس میں جو غلطی کوتاہی ہوئی اس کو معاف فرمائیں ،*
★_ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کیا جائے، قول سے، عمل سے یا جس طرح بھی بن پڑے یہ کام ضرور کیا جائے۔ _ اس وقت انسانیت کو کسی آئیڈیل کی تلاش ہے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات مبارکہ ہوسکتی ہے۔ بقول ذکی کیفی۔۔۔
*تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا،*
*تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی ،*
╨─────────────────────❥
💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
╨─────────────────────❥
_ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_ https://t.me/joinchat/AAAAAFT7hoeE_C8b71KBPg
╚═════════════┅┄ ✭✭
⚀
Post a Comment