✭﷽✭
*✿_سیرت النبی ﷺ_✿*
*✭ SEERATUN NABI ﷺ.✭*
*✿_सीरतुन नबी ﷺ. _✿*
*🌹صلى الله على محمدﷺ🌹*
▪•═════••════•▪
*┱✿_ ★_عنوان: ہجرت کا آغاز_,*
★__ اگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے۔ان میں سے پانچ وہ تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپﷺ سے مل کر گئے تھے۔ان لوگوں سے بھی آپﷺ نے بیعت لی۔آپﷺ نے ان کے سامنے سورۃ النساء کی آیات تلاوت فرمائیں۔
بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس مدینہ منورہ جانے لگے تو آپﷺ نے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ کو بھیجا۔ آپﷺ نے حضرت ابو مصعب ؓ بن عمیر کو بھی ان کےساتھ بھیجاتا کہ وہ نئے مسلمانوں کو دین سکھائیں،قرآن کی تعلیم دیں۔انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ یہ مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی ہیں جنہیں قاری کہا گیا۔
★_ حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز پڑھانا شروع کی۔ سب سے پہلا جمعہ بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔جمعہ کی نماز اگرچہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی،لیکن وہاں مشرکین کی وجہ سے مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکے۔سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔
★_حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ منورہ میں دین کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سعد بن معاذ اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت اسید بن حضیر ؓ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ان کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر ؓ حج کے دنوں میں واپس مکہ پہنچے۔مدینہ منورہ میں اسلام کی کامیابیوں کی خبر سن کر آپﷺ بہت خوش ہوئے۔ مدینہ منورہ میں جو لوگ اسلا م لا چکے تھے ان میں سے جو حج کے لئے آئے تھے انہوں نے فارغ ہونے کے بعد منی میں رات کے وقت آپﷺ سے ملاقات کی۔جگہ اور وقت پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ان لوگوں کے ساتھ چونکہ مدینہ سے مشرک لوگ بھی آئے ہوئے تھے اور ان سے اس ملاقات کو پوشیدہ رکھنا تھا،اس لئے یہ ملاقات رات کے وقت ہوئی۔
★_یہ حضرات کل ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں۔ملاقات کی جگہ عقبہ کی گھاٹی تھی۔وہاں ایک ایک دو دو کر کے جمع ہو گئے۔اس مجمع میں ۱۱ آدمی قبیلہ اوس کے تھے۔پھر آپﷺ تشریف لائے۔
آپﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ بھی ساتھ تھے۔ان کے علاوہ آپﷺ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حضرت عباس ؓ بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت آپﷺ گویا اپنے چچا کے ساتھ آئے تھے تا کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں۔
"_ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ بھی ساتھ آئے تھے۔
★__ سب سے پہلے حضرت عباس ؓ نے ان کے سامنے تقریر کی۔انہوں نے کہا:
تم لوگ جو عہد و پیمان ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرو،اس کو ہر حال میں پورا کرنا،اگر پورا نہ کر سکو تو بہتر ہے کہ کوئی عہد و پیمان نہ کرو ‘‘۔
اس پر ان حضرات نے وفا داری نبھانے کے وعدے کیے۔
★_تب نبی اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:
تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک یہ کہتا ہوں کہ میری حمایت کرو اور میری حفاظت کرو۔‘‘
اس موقع پر ایک انصاری بولے:
اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی۔‘‘
اب وہ سب بول اٹھے:
یہ نفع کا سودا ہے ہم اسے ختم نہیں کریں گے۔
★__اب ان سب نے نبیﷺ سے بیعت کی حضور ﷺ کی حفاطت کا وعدہ کیا۔حضرت براء بن معرور ؓ نے کہا:
ہم ہر حال میں آپﷺ کا ساتھ دیں گے آپﷺ کی حفاطت کریں گے۔‘‘
حضرت براء بن معرور ؓیہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ ابو الہیثم بن التیہان ؓ بول اٹھے:
چاہے ہم پیسے پیسے کو محتاج ہو جائیں اور چاہے ہمیں قتل کر دیا جائے، ہم ہر قیمت پر آپﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘
★_اس وقت حضرت عباس ؓ بولے:
ذرا آہستہ آواز میں بات کرو۔۔۔کہیں مشرک آواز نہ سن لیں‘‘۔
اس موقع پر ابو الہیثم ؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اب ہم ان کو توڑ رہے ہیں،ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپﷺ ہمیں چھوڑ کر مکہ آجائیں۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا:
نہیں ! بلکہ میرا خون اور تمہارا خون ایک ہے،جس سے تم جنگ کرو گے اس سے میں جنگ کروں گا ،جسے تم پناہ دو گے اسے میں پناہ دوں گا۔‘‘
پھر آپﷺ نے ان سے بارہ آدمی الگ کیے یہ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے تھے-آپ نے ان سے فرمایا:
"تم میرے جاں نثار ہو...میرے نقیب ہو -"
ان بارہ حضرات میں یہ شامل تھے-
سعد بن عبادہ،اسعد بن رواحہ٬براء بن معرور ابوالہیثم ابن التیہان،اسید بن حضیر،عبداللہ بن عمرو بن حزام، عبادہ بن صامت اور رافع بن مالک رضی اللہ عنہم -ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کا نمائندہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جاں نثاروں سے فرمایا:
"تم لوگ اپنی اپنی قوم کی طرف سے اس طرح میرے کفیل ہو جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ حواری ان کے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مہاجروں کی طرف سے کفیل اور ذمے دار ہوں-"
★__ اس بیعت کو بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے- یہ بہت اہم تھی- اس بیعت کے ہونے پر شیطان نے بہت واویلا کیا،چیخا اور چلایا کیوں کہ یہ اسلام کی ترقی کی بنیاد تھی-
"★__جب یہ مسلمان مدینہ پہنچے تو انہوں نے کھل کر اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا-اعلانیہ نمازیں پڑھنے لگے-مدینہ منورہ میں حالات سازگار دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا کیونکہ قریش کو جب یہ پتا چلا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگجو قوم کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے اور ان کے ہاں ٹھکانہ بنالیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کا مکہ میں جینا اور مشکل کردیا،تکالیف دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اب تک ایسا نہیں کیا تھا -روز بروز صحابہ کی پریشانیاں اور مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں-کچھ صحابہ کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے،طرح طرح کے عذاب دیے گئے-آخر صحابہ نے اپنی مصیبتوں کی فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور مکہ سے ہجرت کر جانے کی اجازت مانگی-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند دن خاموش رہے-آخر ایک دن فرمایا:
"مجھے تمہاری ہجرت گاہ کی خبر دی گئی ہے...وہ یثرب ہے (یعنی مدینہ)-"
★__اور اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی-اس اجازت کے بعد صحابہ کرام ایک ایک دو دو کرکے چھپ چھپا کر جانے لگے- مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا-,
"_مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد ابن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت علی رضی اللہ کو خود اپنا بھائی بنایا-
★_مسلمانوں میں سے جن صحابہ نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبد اللہ مخزومی رضی اللہ عنہ ہیں-انہوں نے سب سے پہلے تنہا جانے کا ارادہ فرمایا-جب یہ حبشہ سے واپس مکہ آئے تھے تو انہیں سخت تکالیف پہنچائی گئی تھیں-آخر انہوں نے واپس حبشہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر پھر انہیں مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ رک گئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ روانہ ہوئے-مکہ سے روانہ ہوتے وقت یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی ساتھ سوار کرلیا - جب ان کے سسرال والوں کو پتا چلا تو وہ انہیں روکنے کے لیے دوڑے اور راستے میں جا پکڑا-ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔
★__ انہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے:
"اے ابوسلمہ! تم اپنے بارے میں اپنی مرضی کے مختار ہو مگر ام سلمہ ہماری بیٹی ہے،ہم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ۔"
یہ کہہ کر انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کے اونٹ کی لگام کھینچ لی۔اسی وقت ابوسلمہ کے خاندان کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور بولے:
" ابوسلمہ کا بیٹا ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔جب تم نے اپنی بیٹی کو اس کے قبضے سے چھڑا لیا تو ہم بھی اپنے بچے کو اس کے ساتھ نہیں جانے دین گے۔"
★_یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو چھین لیا۔اس طرح ان ظالموں نے حضرت ابوسلمہ رضی الله عنہ کو ان کی بیوی اور بچے سے جدا کردیا۔ابوسلمہ رضی الله عنہ تنہا مدینہ منوره پہونچے۔
ام سلمہ رضی الله عنہا شوہر اور بچے کی جدائی کے غم میں روزانہ صبح سویرے مکہ سے باہر مدینہ منورہ کی طرف جانے والے راستے میں جاکر بیٹھ جاتیں اور روتی رہتیں۔ایک دن ان کا ایک رشتے دار ادھر سے گزرا۔ اس نے انہیں روتے دیکھا تو ترس آگیا۔وہ اپنی قوم کے لوگوں میں گیا اور ان سے بولا:
" تمہیں اس غریب پر رحم نہیں آتا...اسے اس کے شوہر اور بچے سے جدا کردیا، کچھ تو خیال کرو۔"
آخر ان کے دل پسیج گئے۔انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کو جانے کی اجازت دے دی۔یہ خبر سن کر ابوسلمہ رضی الله عنہ کے رشتہ داروں نے بچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ بچہ کو لے کر مدینہ چلی جائیں۔
★_اس طرح انہوں نے مدینہ کی طرف تنہا سفر شروع کیا۔راستے میں حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا ملے۔یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، کعبہ کے چابی برادر تھے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔یہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں قبا میں پہنچا دیا۔پھر حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے: " تمہارے شوہر یہاں موجود ہیں۔"
_اس طرح ام سلمہ رضی الله عنہا مدینہ پہنچی۔آپ پہلی مہاجر خاتون ہیں جو شوہر کے بغیر مدینہ آئیں۔حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا نے انہیں مدینہ پہنچا کر جو عظیم احسان کیاتھا،اس کی بنیاد پر کہا کرتی تھیں:
" میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ نیک اور شریف کسی کو نہیں پایا۔"
★_اس کے بعد مکہ سے مسلمانوں کی مدینہ آمد شروع ہوئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہم ایک کے بعد ایک آتے رہے۔انصاری مسلمان انہیں اپنے گھروں میں ٹھراتے۔ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔حضرت عمر رضی الله عنہ اور عیاش بن ابو ربیعہ رضی الله عنہ بیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ پہنچے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی ہجرت خاص بات یہ ہے کہ مکہ سے چھپ کر نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ اعلان کرکے نکلے۔انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا،پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی،اس کے بعد مشرکین سے بولے:
" جو شخص اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے،اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے یا اپنی ماں کی گود ویران کرنا چاہتا ہے...وہ مجھے جانے سے روک کر دکھائے۔"
★_ان کا یہ اعلان سن کر سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔کسی نے ان کا پیچھا کرنے کی جرات نہ کی۔وہ بڑے وقار سے ان سب کے سامنے روانہ ہوئے۔
★__ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ ہجرت سے پہلے وہ آرزو کیا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ وہ روانگی کی تیاری کرچکے تھے ایک دن حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
" ابوبکر! جلدی نہ کرو، امید ہے، مجھے بھی اجازت ملنے والی ہے۔"
★_چنانچہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ رک گئے۔ انہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی تھی۔انہوں نے ان دونوں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ماہ سے کھلا پلا رہے تھے۔
ادھر مشرکین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرتے جارہے ہیں اور مدینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہے...وہاں مسلمان روز بروز طاقت پکڑتے چلے جائیں گے تو انہیں خوف محسوس ہوا کہ الله کے رسول بھی کہیں مدینہ نہ چلے جائے اور وہاں انصار کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کی تیاری نہ کرنے لگیں...تو وہ سب جمع ہوئے...اور سوچنے لگے کہ کیا قدم اٹھائیں۔
★__یہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے۔دارالندوہ ان کے مشورہ کرنے کی جگہ تھی۔یہ پہلا پختہ مکان تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا۔قریش کے اس مشورے میں شیطان بھی شریک ہوا۔وہ انسانی شکل میں آیا تھا اور ایک بوڑھے کے روپ میں تھا،سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہ دروازے پر آکر ٹھر گیا۔اسے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا:
" آپ کون بزرگ ہیں۔"
اس نے کہا:
" میں نجد کا سردار ہوں۔آپ لوگ جس غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں، میں بھی اسی کے بارے میں سن کر آیا ہوں تاکہ لوگوں کی باتیں سنوں اور ہوسکے تو کوئی مفید مشورہ بھی دوں۔"
اس پر قریشیوں نے اسے اندر بلالیا۔اب انہوں نے مشورہ شروع کیا۔ان میں سے کوئی بولا:
" اس شخص( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم)کا معاملہ تم دیکھ ہی چکے ہو،الله کی قسم!اب ہر وقت اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اپنے نئے اور اجنبی مددگاروں کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کرے گا،لہذا مشورہ کرکے اس کے بارے میں کوئی ایک بات طے کرلو۔"
★_وہاں موجود ایک شخص ابوالبختری بن ہشام نے کہا:
" اسے بیڑیاں پہنا کر ایک کوٹھری میں بند کردو اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک انتظار کرو،تاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوجائے جو اس جیسے شاعروں کی ہوچکی ہے اور یہ بھی انہی کی طرح موت کا شکار ہوجائے۔"
اس پر شیطان نے کہا:
" ہرگز نہیں!یہ رائے بالکل غلط ہے۔یہ خبر اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی،وہ تم پر حملہ کردیں گے اور اپنے ساتھی کو نکال کر لے جائیں گے...اس وقت تمہیں پچھتانا پڑے گا،لہذا کوئی اور ترکیب سوچو۔"
★_اب ان میں بحث شروع ہوگئ۔اسود بن ربیعہ نے کہا:
" ہم اسے یہاں سے نکال کر جلاوطن کردیتے ہے...پھر یہ ہماری طرف سے کہیں بھی چلا جائے۔"
اس پر نجدی یعنی شیطان نے کہا:
" یہ رائے بھی غلط ہے۔تم دیکھتے نہیں،اس کی باتیں کس قدر خوب صورت ہیں،کتنی میٹھی ہیں۔وہ اپنا کلام سناکر لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔الله کی قسم! اگر تم نے اسے جلاوطن کردیا تو تمہیں امن نہیں ملےگا۔ یہ کہیں بھی جاکر لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا۔ پھر تم پر حملہ آوار ہوگا...اور تمہاری یہ ساری سرداری چھین لے گا... لہذا کوئی اور بات سوچو۔"
★_اس پر ابوجہل نے کہا:
" میری ایک ہی رائے ہے اور اس سے بہتر رائے کوئی نہیں ہوسکتی۔"
سب نے کہا: -" اور وہ کیا ہے۔"
ابوجہل نے کہا:
" آپ لوگ ہر خاندان اور ہر قبیلےکا ایک ایک بہادر اور طاقتور نوجوان لیں۔ہر ایک کو ایک ایک تلوار دیں۔ان سب کو محمد پر حملہ کرنے کے لیے صبح سویرے بھیجیں۔وہ سب ایک ساتھ اس پر اپنی تلواروں کا ایک بھرپور وار کریں...اس طرح اسے قتل کردیں۔اس سے ہوگا یہ کہ اس کے قتل میں سارے قبیلے شامل ہوجائیں گے،لہذا محمد کے خاندان والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ان سب سے جنگ کریں...لہذا وہ خون بہا( یعنی فدیے کی رقم)لینے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ ہم انہیں دے دیں گے۔"
اس پر شیطان خوش ہوکر بولا:
" ہاں! یہ ہے اعلیٰ رائے...میرے خیال میں اس سے اچھی رائے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔"
چنانچہ اس رائے کو سب نے منظور کرلیا۔
★__الله تعالٰی نے فوراً جبرئیل علیہ السلام کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے عرض کیا:
" آپ روزانہ جس بستر پر سوتے ہیں،آج اس پر نہ سوئیں۔"
اس کے بعد انہوں نے مشرکین کی سازش کی خبر دی،
"_چنانچہ سورۃ الاانفال کی آیت ۳۰ میں آتا ہے:
" ترجمہ: اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے،جب کافر لوگ آپ کی نسبت بری بری تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آیا آپ کو قید کرلیں،یا قتل کرڈالیں، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور الله اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے مضبوط تدبیر والا الله ہے۔"
★_غرض جب رات ایک تہائی گزر گئی تو مشرکین کا ٹولہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا...وہ انتظار کرنے لگا کہ کب وہ سوئیں اور وہ سب یک دم ان پر حملہ کردیں۔ان کفار کی تعداد ایک سو تھی,
★_ادھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یمنی چادر اوڑھ لو۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
"تمہارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔"
★_مشرکوں کے جس گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیر رکھا تھا، ان میں حکیم بن ابوالعاص، عقبہ بن ابی معیط، نصر بن حارث، اسید بن خلف، زمعہ ابن اسود اور ابوجہل بھی شامل تھے۔ ابوجہل اس وقت دبی آواز میں اپنے ساتھیوں سے رہا تھا:
"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے، اگر تم اس کے دین کو قبول کرلو گے تو تمہیں عرب اور عجم کی بادشاہت مل جائے گی اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی اور وہاں تمہارے لیے ایسی جنتیں ہوں گی، ایسے باغات ہوں گے جیسے اردن کے باغات ہیں، لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کرو گے تو تم سب تباہ ہو جاؤ گے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تمہارے لئے وہاں جہنم کی آگ تیار ہوگی اس میں تمہیں جلایا جائے گا۔"
★_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے یہ الفاظ سُن لیے، آپ یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلے:
"ہاں! میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں۔"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: یٰسن۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک آپ پیغمبروں کے گروہ میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن زبردست اللہ مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (پہلے تو) ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں، اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے سووا دیکھ نہیں سکتے۔"
★_یہ سورۃ یٰسین کی آیات 1 تا 9 کا ترجمہ ہے ۔ ان آیات کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کفار وقتی طور پر اندھا کردیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم نے جو مٹی پھینکی تھی وہ ان سب کے سروں پر گری، کوئی ایک بھی ایسا نہ بچا جس پر مٹی نہ گری ہو۔
جب قریش کو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر خاک ڈال کر جا چکے ہیں تو وہ سب گھر کے اندر داخل ہوئے۔ آپ صل اللہ و علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:
"خدا کی قسم یہ تو اپنی چادر اوڑھے سو رہے ہیں لیکن جب چادر الٹی گی تو بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ مشرکین حیرت زدہ رہ گئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمارے صاحب کہاں ہیں؟"
مگر اُنھوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔
╨─────────────────────❥
★"_عنوان: مکہ کے غار ثور تک_,*
★__اب حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کو ہجرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:
"میرے ساتھ دوسرا ہجرت کرنے والا کون ہوگا؟"
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"ابوبکر صدیق ہونگے۔"
★_حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک چادر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اُٹھے:
" اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً کسی خاص کام سے تشریف لائے ہیں۔"
پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چارپائی پر بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"دوسرے لوگوں کو یہاں سے اٹھا دو۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! یہ تو سب میرے گھر والے ہیں۔"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔"
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً بول اٹھے:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ کے ساتھ جاؤں گا؟"
جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ہاں! تم میرے ساتھ جاؤ گے -"
★_یہ سنتے ہی مارے خوشی کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تو حیران ہوئی... اس لیے کہ میں اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ انسان خوشی کی وجہ سے بھی رو سکتا ہے -
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں، میں نے انہیں اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے -"
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں یہ قیمت دے کر لے سکتا ہوں -"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! میں اور میرا سب مال تو آپ ہی کا ہے -"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹنی لے لی -
★_بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کی قیمت دی تھی - اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا - یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کے پاس ہی رہی - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی موت واقع ہوئی -
★__سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں اونٹنیوں کو جلدی جلدی سفر کے لیے تیار کیا - چمڑے کی ایک تھیلی میں کھانے پینے کا سامان رکھ دیا - حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر پھاڑ کر اس کے ایک حصے سے ناشتے کی تھیلی باندھ دی - دوسرے حصے سے انہوں نے پانی کے برتن کا منہ بند کردیا - اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ تمہاری اس اوڑھنی کے بدلے جنت میں دو اوڑھنیاں دے گا۔"
★_اوڑھنی کو پھاڑ کر دو کرنے کے عمل کی بنیاد پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین کا لقب ملا یعنی دو اوڑھنی والی۔یاد رہے کہ نطاق اس دوپٹے کو کہا جاتا ہے جسے عرب کی عورتیں کام کے دوران کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں۔
★_پھر رات کے وقت حضور صلی اللہ ھو علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اور پہاڑ ثور کے پاس پہنچے۔ سفر کے دوران کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو؟"
جواب میں انہوں نے عرض کیا:
"اللہ کےرسول! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ کہیں راستے میں کوئی آپ کی گھات میں نہ بیٹھا ہو۔"
★_اس پہاڑ میں ایک غار تھا۔ دونوں گار کے دھانے تک پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
"قسم اُس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا۔ آپ ذرا ٹھریے! پہلے غار میں داخل ہوں گا، اگر غار میں کوئی موذی کیڑا ہوا تو کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا دے…”
★_چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ جہاں کوئی سوراخ ملتا اپنی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کو بند کر د,یتے۔
★__ اس طرح انہوں نے تمام سوراخ بند کردیے مگر ایک سوراخ رہ گیا اور اسی میں سانپ تھا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی ۔اس کے بعد آنحضرت ﷺ غار میں داخل ہوئے ۔ادھر سانپ نے اپنے سوراخ پر ایڑی دیکھی تو اس پر ڈنک مارا ۔
تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے لیکن انہوں نے اپنے منہ سے آواز نہ نکلنے دی، اس لیے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سورہےتھے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے سانپ کے ڈسنے کے باوجود اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہ دی...نہ آواز نکالی کہ کہیں حضور ﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے، تاہم آنکھ سے آنسو نکلنے کو وہ کسی طرح نہ روک سکے...وہ حضور ﷺ پر گرے ۔ان کے گرنے سے حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔
★__ آپ ﷺنےحضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا: -ابوبکر کیا ہوا؟
انہوں نے جواب دیا: -آپ پر میرے ماں باپ قربان ۔مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔
آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن سانپ کے کاٹے کی جگہ پر لگادیا۔اس سے تکلیف اور زہر کا اثر فوراﹰ دور ہوگیا ۔
★_صبح ہوئی، آنحضرت ﷺ کو حضرت ابوبکر رضی الله کے جسم پر چادر نظر نہ آئی ۔تو دریافت: -ابوبکر! چادر کہاں ہے؟
انہوں بتادیا:- اللّٰہ کے رسول! میں نے چادر پھاڑ پھاڑ کر کر اس غار کے سوراخ بند کیے ہیں ۔آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اور فرمایا: -اے اللّٰہ ابوبکر کو جنت میں میرا ساتھی بنانا ۔
اسی وقت الله تعالٰی نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی ہے ۔
★_ادھر قریش کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں اس غار کے قریب آپہنچے ۔ان میں سے چند ایک جلدی سے آگے بڑھ کر غار میں جھانکنے لگے ۔غار کے دہانے پر انہیں مکڑی کا جالا نظر آیا ۔ساتھ ہی دو جنگلی کبوتر نظر آئے ۔اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اس غار میں کوئی نہیں ہے ۔ایک روایت میں یوں آیا ہے ان میں امیہ بن خلف بھی تھا، اس نے کہا: اس غار کے اندر جاکردیکھو،
کسی نے جواب دیا: - غار کے اندر جاکر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، غار کے منہ پر بہت جالے لگے ہوئے ہیں..اگر وہ اندر جاتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے، نہ یہاں کبوتر کے انڈے ہوتے،
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ان لوگوں کو غار کے دہانے پر دیکھا تو آپ رو پڑے اور دبی آواز میں بولے:
اللّٰہ کی قسم! میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا میں تو اس لیے روتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو تکلیف نہ پہنچائیں -"
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-"ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے -"
اسی وقت اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل کو سکون بخش دیا - ان حالات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیاس محسوس ہوئی - انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا... تو آپ نے ارشاد فرمایا:-"اس غار کے درمیان میں جاؤ اور پانی پی لو -"
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اٹھ کر غار کے درمیان میں پہنچے - وہاں انہیں اتنا بہترین پانی ملا کہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبو والا تھا - انہوں نے اس میں سے پانی پیا،
★_جب وہ واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:-"اللہ تعالی نے جنت کی نہروں کے نگراں فرشتے کو حکم فرمایا کہ اس غار کے درمیان میں جنت الفردوس سے ایک چشمہ جاری کردیں تاکہ تم اس میں سے پانی پی سکو -"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حیران ہوئے اور عرض کیا:-"کیا اللہ کے نزدیک میرا اتنا مقام ہے -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-"ہاں! بلکہ اے ابوبکر! اس سے بھی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے پیغام کے ساتھ نبی بناکر بھیجا ہے، وہ شخص جو تم سے بغض رکھے، جنت میں داخل نہیں ہوگا -"
★_ غرض قریش مایوس ہوکر غار ثور سے ہٹ آئے اور ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے - ساتھ ہی انہوں نے اعلان کردیا:
"جو شخص محمد یا ابوبکر کو گرفتار کرے یا قتل کرے، اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے -"
★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس غار میں تین دن تک رہے - اس دوران ان کے پاس حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہہ بھی آتے جاتے رہے۔ یہ اس وقت کم عمر تھے مگر حالات کو سمجھتے تھے۔ اندھیرا پھیلنے کر بعد یہ غار میں آجاتے اور اندھیرے فجر کے وقت وہاں سے واپس آجاتے، اس سے قریش یہ خیال کرتے کہ انہوں نے رات اپنے گھر میں گزاری ہے۔ اس طرح قریش کے درمیان دن بھر جو باتیں ہوتیں، یہ ان کو سنتے اور شام کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر بتادیتے۔
★_حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ایک غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی الله عنہہ تھے۔ یہ پہلے طفیل نامی ایک شخص کے غلام تھے۔ جب یہ اسلام لے آئے تو طفیل نے ان پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ نے اس سے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ یہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔
یہ بھی ان دنوں غار تک آتے جاتے رہے۔ شام کے وقت اپنی بکریاں لے کر وہاں پہنچ جاتے اور رات کو وہیں رہتے۔ صبح منہ اندھیرے حضرت عبداللہ رضی الله عنہ کے جانے کے بعد یہ بھی وہاں سے اپنی بکریاں اسی راستے سے واپس لاتے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ ان تین راتوں تک ان کا برابر یہی معمول رہا۔ یہ ایسا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ کی ہدایت پر کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن بھر قریش کی باتیں سنا کریں اور شام کو انہیں بتایا کریں۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو بھی ہدایت تھی کہ دن بھر بکریاں چرایا کریں اور شام کو غار میں ان کا دودھ پہنچایا کریں۔
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی اسماء رضی الله عنہا بھی شام کے وقت ان کے لیے کھاناپہنچاتی تھیں ۔
ان تین کے علاوہ اس غار کا پتہ کسی کو نہیں تھا۔ تین دن اور رات گزرنے پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی الله عنہا سے فرمایا:
" اب تم علی کے پاس جاؤ، انہیں غار کے بارے میں بتادو اور ان سے کہو، وہ کسی رہبر کا انتظام کردیں۔ آج رات کا کچھ پہر گزرنے کے بعد وہ رہبر یہاں آجائے۔"
★_چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سیدھی حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس آئیں۔ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیغام دیا۔حضرت علی رضی اللہ نے فوراً اجرت کا ایک راہبر کا انتظام کیا۔ اس کا نام اریقط بن عبداللہ لیثی تھا۔ یہ راہبر رات کے وقت وہاں پہنچا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی اونٹ کی بلبلانے کی آواز سنی، آپ فوراً ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ساتھ غار سے نکل آئے۔ اور راہبر کو پہچان لیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔
★_ اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہ کے ذریعے اپنے گھر سے وہ رقم بھی منگوالی تھی جو وہاں موجود تھی... یہ رقم چار پانچ ہزار درہم تھی۔ جب صدیق اکبر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تھے تو ان کے پاس چالیس پچاس ہزار درہم موجود تھے۔ گویا یہ تمام دولت انہوں نے الله کے راستے میں خرچ کردی تھی۔ جاتے وقت بھی گھر میں جو کچھ تھا، منگوالیا... ان کے والد ابوقحانہ رضی الله عنہ اس وقت تک مسلمان نہيں ہوئے تھے۔ ان کی بینائی ختم ہوگئی تھی... وہ گھر آئے تو اپنی پوتی حضرت اسماء رضی الله عنہا سے کہنے لگے؛
" میرا خیال ہے، ابوبکر اپنی اور اپنے مال کی کی وجہ سے تمہیں مصیبت میں ڈال گئے ہیں(مطلب یہ تھا کہ جاتے ہوئے سارے پیسے لے گئے ہیں)۔"
یہ سن کر حضرت اسماء رضی الله عنہا نے کہا: -" نہیں بابا! وہ ہمارے لیے بڑی خیروبرکت چھوڑگئے ہیں۔"
★_حضرت اسماء کہتی ہیں: " اس کے بعد میں نے کچھ کنکر ایک تھیلی میں ڈالے اور ان کو طاق میں رکھ دیا۔ اس میں میرے والد اپنے پیسے رکھتے تھے۔ پھر اس تھیلی پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ ان پر رکھتے ہوئے میں نے کہا:
"یہ دیکھیے! روپیے یہاں رکھے ہیں۔"
ابوقحانہ رضی الله عنہ نے اپنا ہاتھ رکھ کر محسوس کیا اور بولے: -" اگر وہ یہ مال تمہارے لیے چھوڑ گئے ہیں تب فکر کی کوئی بات نہیں، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔"
حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ گئے تھے۔"
★__ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی حضرت حمزہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو ملی تو کہنے لگے:-"اب میرے مکہ میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں -"
پھر انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا - یہ گھرانہ مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑا ہوا - ابھی تنعیم کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے -
★__ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں یہ آیت نازل فرمائی:
"اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرے گا، پھر اسے موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا اور اللہ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں، بڑے رحمت کرنے والے ہیں -" (آیت 100)
★__حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:-"حسان کیا تم نے ابوبکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟"
انہوں نے عرض کیا:-"جی ہاں -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا.-سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں.
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے شاعر تھے، ان کو شاعر رسول کا خطاب بھی ملا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمائش پر انہوں نے جو دو شعر سنائے، ان کا ترجمہ یہ ہے.
"_حضرت ابوبکر صدیق جو دو میں کے دوسرے تھے، اس بلند و بالا غار میں تھے اور جب وہ پہاڑ پر پہنچ گئے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگائے.
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق زار تھے جیسا کہ ایک دنیا جانتی ہے اور اس عشق رسول میں ان کا کوئی ثانی یا برابر نہیں تھا.
★__یہ شعر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسکرانے لگے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آئے. پھر ارشاد فرمایا.
تم نے سچ کہا حسان، وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا، وہ غار والے کے نزدیک (یعنی میرے نزدیک) سب سے زیادہ پیارے ہیں، کوئی دوسرا شخص ان کی برابری نہیں کر سکتا.
★_حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے چلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا.
اے ابو درداء، یہ کیا، تم اس شخص سے آگے چلتے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے افضل ہے. قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، انبیاء و مرسلین کے بعد ابو بکر سے زیادہ افضل آدمی پر نہ کبھی سورج طلوع ہوا اور نہ غروب ہوا.
★_حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.
میرے پاس جبريل آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالٰی آپ کو حکم دیتا ہے کہ ابو بکر سے مشورہ کیا کیجیے.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا.
میری امت پر ابو بکر کی محبت واجب ہے.
یہ چند احادیث حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں اس لیے نقل کر دی گئیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہجرت کے ساتھی تھے اور یہ عظیم اعزاز ہے.
.*
╨─────────────────────❥
عنوان: سو اونٹنیوں کا انعام_★
★__ غار سے نکل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوئے اور راہبر کے ساتھ سفر شروع کیا. حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی اونٹ پر سوار تھے.
غرض یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا، راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے سے لے کر جا رہا تھا. راستے میں کوئی ملتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھتا.-یہ تمہارے ساتھ کون ہیں.
تو آپ اس کے جواب میں فرماتے.-میرے ساتھ میرے راہبر ہیں.
یعنی میرے ساتھ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں. ان کا مطلب تھا کہ یہ دین کا راستہ دکھانے والے ہیں مگر پوچھنے والے اس گول مول جواب سے یوں سمجھتے کہ یہ کوئی راہبر (گائیڈ) ہیں جو ساتھ جا رہے ہیں.
★_ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس طرح جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو میرے پاس سے ٹالتے رہنا، یعنی اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو تم یہی ذو معنی (گول مول) جواب دینا. کیونکہ نبی کے لیے کسی صورت میں جھوٹ بولنا مناسب نہیں... چاہے کسی بھی لحاظ سے ہو، چنانچہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں سوال کرتا رہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی جواب دیتے. رہ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ.... وہ ان راستوں سے اکثر تجارت کے لیے جاتے رہتے تھے، انہیں اکثر لوگ جانتے تھے، ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں،
★__ ادھر قریش نے سو اونٹنیوں کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.
سراقہ رضی اللہ عنہ خود اپنی کہانی ان الفاظ میں سناتے ہیں.
میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا، کہ اے سراقہ. میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھی ہیں.
مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں، چنانچہ میں اٹھا، گھر گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ میری گھوڑی نکال کر چپکے سے وادی میں پہنچا دے، اور وہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کے پچھلی طرف نکل کر وادی میں پہنچا. اس رازداری میں مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی کام کر ڈالوں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کر لوں. میں نے اپنی زرہ بھی پہن لی تھی، پھر میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف روانہ ہوا، میں نے اپنی گھوڑی کو بہت تیز دوڑایا. یہاں تک کہ آخر کار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ فاصلے پر پہنچ گیا،
★__لیکن اسی وقت میری گھوڑی کو ٹھوکر لگی، وہ منہ کے بل نیچے گری، میں بھی نیچے گرا، پھر گھوڑی اٹھ کر ہنہنانے لگی. میں اٹھا، میرے ترکش میں فال کے تیر تھے. یہ وہ تیر تھے جن سے عرب کے لوگ فال نکالتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا، کرو، اور کسی پر لکھا ہوتا تھا، نہ کرو، میں نے ان میں سے ایک تیر لیا، اور فال نکالی،... یعنی میں جاننا چاہتا تھا، یہ کام کروں یا نہ کروں،... فال میں انکار نکلا، یعنی یہ کام نہ کرو، لیکن یہ بات میری مرضی کے خلاف تھی، میں سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ والا تیر نکلنے کے باوجود میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا. یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بہت قریب پہنچ گیا جو کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مڑ کر بار بار دیکھ رہے تھے.
★_اسی وقت میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں، حالانکہ وہاں زمین سخت اور پتھریلی تھی. میں گھوڑی سے اترا... اسے ڈانٹا.... وہ کھڑی ہو گئی لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک زمین میں دھنسی ہوئی تھیں وہ زمین سے نہ نکلیں.
میں نے پھر فال نکالی. انکار والا تیر ہی نکلا. آخر میں پکار اٹھا.
میری طرف دیکھیے، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا اور نہ میری طرف سے آپ کو کوئی ناگوار بات پیش آئے گی.... میں سراقہ بن مالک ہوں، آپ کا ہمدرد ہوں.... آپ کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہوں.... مجھے معلوم نہیں کہ میری بستی کے لوگ بھی آپ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں یا نہیں.
★_یہ کہنے سے میرا مطلب تھا، اگر کچھ اور لوگ اس طرف آ رہے ہوں گے تو میں انہیں روک دوں گا. اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.
اس سے پوچھو، یہ کیا چاہتا ہے.
اب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا.... اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور بولا.
بس آپ دعا کر دیجئے کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں.... میں وعدہ کرتا ہوں، اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی آپ کے دعا فرماتے ہی حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑی کے پاؤں زمین سے نکل آئے ۔
★_گھوڑی کے پاؤں جونہی باہر آئے، سراقہ رضی اللہ عنہ پھر اس پر سوار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:-"اے اللہ! ہمیں اس سے باز رکھ -"
اس دعا کے ساتھ ہی گھوڑی پیٹ تک زمین میں دھنس گئی - اب انہوں نے کہا:
"اے محمد! میں قسم کھا کر کہتا ہوں... مجھے اس مصیبت سے نجات دلادیں... میں آپ کا ہمدرد ثابت ہوں گا -"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-"اے زمین! اسے چھوڑ دے -"
یہ فرمانا تھا کہ ان کے گھوڑی زمین سے نکل آئی...،
"_ بعض تفاسیر میں لکھا ہے کہ سراقہ رضی اللہ عنہ نے سات مرتبہ وعدہ خلافی کی... ہر بار ایسا ہی ہوا... بعض روایات میں ہے کہ ایسا تین بار ہوا... آخر حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکتے... چنانچہ انہوں نے کہا:
"میں اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا... آپ میرے سامان میں سے کچھ لینا چاہیں تو لے لیں... سفر میں آپ کے کام آئے گا۔"
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کچھ لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: -" تم بس اپنے آپ کو روکے رکھو اور کسی کو ہم تک نہ آنے دو۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے سراقہ رضی الله سے یہ بھی فرمایا: -" اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔"
_سراقہ رضی اللہ عنہہ یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے: -" آپ نے کیا فرمایا... کسریٰ بادشاہ کے کنگن مجھے پہنائے جائیں گے۔"
ارشاد فرمایا: -"ہاں! ایسا ہی ہوگا۔"
★_آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی یہ حیرت انگیز پیشن گوئی تھی... کیونکہ اس وقت ایسا ہونے کا قطعاً کوئی امکان دور دور تک نہیں تھا، لیکن پھر ایک وقت آیا کہ حضرت سراقہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عمر رضی الله عنہہ کے دور میں جب مسلمانوں کو فتوحات پر فتوحات ہوئیں اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کو شکست فاش ہوئی تو اس مال غنیمت میں کسریٰ کے کنگن بھی تھے۔ یہ کنگن حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے حضرت سراقہ رضی الله عنہہ کو پہنائے، اور اس وقت سراقہ رضی الله عنہہ کو یاد آیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت ارشاد فرمایا تھا:
" اے سراقہ! اس وقت تک تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔"
: ★_اپنے ایمان لانے کی تفصیل سراقہ رضی الله عنہہ یوں بیان کرتے ہیں:
" جب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم حنین اور طائف کے معرکوں سے فارغ ہوچکے تو میں ان سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ ان سے میری ملاقات جعرانہ کے مقام پر ہوئی۔میں انصاری سواروں کے درمیان سے لشکر کے اس حصے کی طرف روانہ ہوا جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔ میں نے نزدیک پہنچ کر عرض کیا: -" اے الله کے رسول! میں سراقہ ہوں۔"
ارشاد فرمایا: -"قریب آجاؤ۔"
میں نزدیک چلا آیا اور پھر ایمان لے آیا۔
★__حضرت عمر صدیق رضی الله عنہہ نے کسریٰ کے کنگن مجھے پہناتے ہوئے فرمایاتھا:
" تمام تعریفیں اس ذات باری تعالٰی کے لیے ہیں جس نے یہ چیزیں شاہ ایران کسریٰ بن ہرمز سے چھین لیں جو یہ کہا کرتا تھا، میں انسانوں کا پروردگار ہوں۔"
★_یہ سراقہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے معافی ملنے کے بعد واپس پلٹے اور راستے میں جو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں آتا ہوا انہیں ملا، یہ اسے یہ کہہ کر لوٹاتے رہے۔
"میں اس طرف ہی سے ہوکر آرہا ہوں... ادھر مجھے کوئی نہیں ملا... اور لوگ جانتے ہی ہیں مجھے راستوں کی کتنی پہچان ہے۔"
★_غرض اس روز یہ قافلہ تمام رات چلتا رہا... یہاں تک کہ چلتے چلتے اگلے دن دوپہر کا وقت ہوگیا۔ اب دور دور تک کوئی آتا جاتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں سامنے ایک چٹان ابھری ہوئی نظر آئی۔ اس کا سایہ کافی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس جگہ پر پڑاﺅ ڈالنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سواری سے اترے اور اپنے ہاتھوں سے جگہ کو صاف کرنے لگے تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم چٹان کے سائے میں سوسکیں، جگہ صاف کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنی پوستین وہاں بچھادی اور عرض کیا:
" الله کے رسول! یہاں سوجائے... میں پہرہ دوں گا... "
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سوگئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے ایک چرواہے کو چٹان کی طرف آتے دیکھا... شاید وہ بھی سائے میں آرام کرنا چاہتا تھا۔
★_ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ فوراً اس طرف مڑے اور اس سے بولے: -" تم کون ہوں؟ "
اس نے بتایا: -" میں مکہ کا رہنے والا ایک چرواہا ہوں۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بولے: -" کیا تمہاری بکریوں میں کوئی دودھ والی بکری ہے۔"
جواب میں اس نے کہا: " ہاں ہے" پھر وہ ایک بکری سامنے لایا۔ اپنے ایک برتن میں دودھ دوہا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو دیا۔ وہ دودھ کا برتن اٹھائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے جوکہ اس وقت سورہے تھے۔انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا، دودھ کا برتن لیے اس وقت تک کھڑے رہے، جب تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جاگ نہیں گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے دودھ میں پانی کی دھار ڈالی تاکہ وہ ٹھنڈا ہوجائے، پھر خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا:
" یہ دودھ پی لیجئے۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا، اور پوچھا:
" کیا روانگی کا وقت ہوگیا۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے عرض کیا:
" جی ہاں! ہوگیا ہے۔"
╨─────────────────────❥
*★_: حضرت اُمّ معبد کے خیمے پر_,*
★_اب یہ قافلہ پھر روانہ ہوا... ابھی کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ایک خیمہ نظر آیا۔ خیمے کے باہر ایک عورت بیٹھی تھی۔یہ ام معبد رضی الله عنہا تھیں۔ جو اس وقت تک اسلام کی دعوت سے محروم تھیں۔ ان کا نام عاتکہ تھا۔ یہ ایک بہادر اور شریف خاتون تھیں۔
انہوں نے بھی آنے والوں کو دیکھ لیا۔اس وقت ام معبد رضی الله عنہا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ کن ہستیوں کا ہے۔ نزدیک آنے پر حضور صلی الله علیہ وسلم کو ام معبد رضی الله عنہا کے پاس ایک بکری کھڑی نظر آئی... وہ بہت ہی کمزور اور دبلی پتلی سی بکری تھی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ام معبد رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: -" کیا اس کے تھنوں میں دودھ ہے؟ "
اُمّ معبد رضی اللہ عنہہ نے بولیں؛ -" اس کمزور اور مریل بکری کے تھنوں میں دودھ کہا سے آئے گا۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: -" کیا تم مجھے اس کو دوہنے کی اجازت دوگی۔"
اس پر اُمّ معبد رضی الله عنہا بولیں: -" لیکن یہ تو ابھی ویسے بھی دودھ دینے والی نہیں ہوئی... آپ خود سوچیئے، یہ دودھ کس طرح دے سکتی ہے... میری طرف سے اجازت ہے، اگر اس سے آپ دودھ نکال سکتے ہیں تو نکال لیجئے۔"
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اس بکری کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے ائے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی کمر اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی:
" اے الله! اس بکری میں ہمارے لیے برکت عطا فرما۔"
جونہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی... بکری کے تھن دودھ سے بھر گئےاور ان سے دودھ ٹپکنے لگا۔
یہ نظارہ دیکھ کر اُمّ معبد رضی الله عنہا حیرت زردہ رہ گئیں۔
★ _آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:-"ایک برتن لاؤ -"
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا ایک برتن اٹھا لائیں... وہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے آٹھ دس آدمی سیراب ہوسکتے تھے - غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا دودھ نکالا - اس کے تھنوں میں دودھ بہت بھر گیا تھا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پہلے اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دیا - انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، اس کے بعد ان کے گھر والوں نے پیا - آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود دودھ نوش فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا:-"قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے -"
سب کے دودھ پی لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کا دودھ نکال کر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور وہاں سے آگے روانہ ہوئے -
★_شام کے وقت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ لوٹے، وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے گئے ہوئے تھے - خیمے پر پہنچے تو وہاں بہت سا دودھ نظر آیا - دودھ دیکھ کر حیران ہوگئے، بیوی سے بولے:
"اے آُمّ معبد! یہ یہاں دودھ کیسا رکھا ہے... گھر میں تو کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ہے؟"
مطلب یہ تھا کہ یہاں جو بکری تھی، وہ تو دودھ دے ہی نہیں سکتی تھی - پھر یہ دودھ کہاں سے آیا؟
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں:-"آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا -"
یہ سن کر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ اور حیران ہوئے، پھر بولے:-"ان کا حلیہ تو بتاؤ -"
جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:
"ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے - (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) - نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی - اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے - وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے - بال نہایت سیاہ تھے - وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے - ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی - اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے - سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -"
★__حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ حلیہ سن کر ان کے شوہر بولے:
"اللہ کی قسم! یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہے، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور ان کی پیروی اختیار کرلیتا اور میں اب اس کی کوشش کروں گا -"
چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ معبد اور حضرت ابومعبد رضی اللہ عنہما ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا -
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کی جس بکری کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہا تھا، وہ بکری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہی -
*
╨─────────────────────❥
★_ مدینہ منورہ میں آمد_,*
★_ادھر مکہ میں جب قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ پتہ نہ چلا تو وہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آئے - ان میں ابوجہل بھی تھا - دروازے پر دستک دی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باہر نکلیں - ابوجہل نے پوچھا:-"تمہارے والد کہاں ہیں؟"
وہ بولیں:-"مجھے نہیں معلوم -"
یہ سن کر ابوجہل نے انہیں ایک زوردار تھپڑ مارا - تھپڑ سے ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر گرگئی -
اس پر بھی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انہیں کچھ نہ بتایا - ابوجہل اور اس کے ساتھی بڑبڑاتے ہوئے ناکام لوٹ گئے -
★__ادھر مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ اللہ کے رسول مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے ہیں... اب تو وہ بے چین ہوگئے - انتظار کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا - روزانہ صبح سویرے اپنے گھروں سے نکل پڑتے اور حرہ کے مقام تک آجاتے جو مدینہ منورہ کے باہر ایک پتھریلی زمین ہے - جب دوپہر ہوجاتی اور دھوپ میں تیزی آجاتی تو مایوس ہوکر وآپس لوٹ آتے - پھر ایک دن ایسا ہوا... مدینہ منورہ کے لوگ گھروں سے مقام حرہ تک آئے - جب کافی دیر ہوگئی اور دھوپ میں تیزی آگئی تو وہ پھر وآپس لوٹنے لگے - ایسے میں ایک یہودی حرہ کے ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا - اسے مکہ کی طرف سے کچھ سفید لباس والے آتے دکھائی دئیے - اس قافلے سے اٹھنے والی گرد سے نکل کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واضح طور پر نظر آئے تو وہ یہودی پکار اٹھا :
"اے گروہِ عرب! جن کا تمہیں انتظار تھا، وہ لوگ آگئے -"
★__یہ الفاظ سنتے ہی مسلمان وآپس دوڑے اور حرہ کے مقام پر پہنچ گئے - انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتے پایا -
ایک روایت میں ہے کہ پانچ سو سے کچھ زائد انصاریوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال کیا -
وہاں سے چل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا تشریف لائے - اس روز پیر کا دن تھا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کلثوم بن معدم رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا - بنی عمرو کا یہ گھرانہ قبیلہ اوس میں سے تھا - ان کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے -
★__قبا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی - اس کا نام مسجد قبا رکھا -
"_ اس مسجد کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مکمل طور پر وضو کیا، پھر مسجد قبا میں نماز پڑھی تو اسے ایک حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا... ،
"_حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس مسجد میں تشریف لاتے رہے - اس مسجد کی فضیلت میں اللہ تعالٰی نے سورۃ التوبہ میں ایک آیت بھی نازل فرمائی -
★__قبا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے - جونہی آپ کی آمد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی - حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر جتنا خوش دیکھا، اتنا کسی اور موقع پر نہیں دیکھا... سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دونوں طرف آکھڑے ہوئے اور عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں تاکہ آپ کی آمد کا منظر دیکھ سکیں -
★_ عورتیں اور بچے خوشی میں یہ اشعار پڑھنے لگے:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَا لِلّهِ دَاعِ
أَيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمُطَاعِ
ترجمہ:"چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے - جب تک اللہ تعالٰی کو پکارنے والا اس سر زمین پر باقی ہے، ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے - اے آنے والے شخص جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں آپ ایسے احکامات لےکر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے -"
★__راستے میں ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے - حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جوان نظر آتے تھے - حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے بال سیاہ تھے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دو سال بڑے تھے -
اب ہوا یہ کہ جن لوگوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں خیال کیا کہ اللہ کے رسول یہ ہیں اور گرم جوشی سے ان سے ملنے لگے - یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً محسوس کرلی... اس وقت تک دھوپ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی تھی، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کردیا - تب لوگوں نے جانا اللہ کے رسول یہ ہیں -
★_پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے روانہ ہوئے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور ساتھ ساتھ بہت سے لوگ چل رہے تھے - ان میں سے کچھ سوار تھے تو کچھ پیدل - اس وقت مدینہ منورہ کے لوگوں کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
"اللہ اکبر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے -"
راستے میں آپ کی خوشی میں حبشیوں نے نیزہ بازی کے کمالات اور کرتب دکھائے... ایسے میں ایک شخص نے پوچھا:
"اے اللہ کے رسول! آپ جو یہاں سے آگے تشریف لے جارہے ہیں تو کیا ہمارے گھروں سے بہتر کوئی گھر چاہتے ہیں؟"
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے ایک ایسی بستی میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھالے گی -"
اس کا مطلب یہ تھا کہ دوسری بستی کے لوگوں پر اثر انداز ہوجائے گی یا دوسری بستیوں کو فتح کرلے گی -
★_یہ جواب سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا راستہ چھوڑ دیا - اس بستی کے بارے میں سب کو بعد میں معلوم ہو گیا کہ وہ مدینہ منورہ ہے -
مدینہ منورہ کا پہلا نام یثرب تھا - یثرب ایک شخص کا نام تھا - وہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا - مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد جمعہ کے روز ہوئی، چنانچہ اس روز پہلا جمعہ پڑھا گیا.
★__ جمعہ کی یہ پہلی نماز مدینہ منورہ کے محلے بنی سالم کی جس مسجد میں آپ نے جمعہ ادا کیا، اب اس مسجد کو "مسجد جمعہ" کہا جاتا ہے۔یہ قبا کی طرف جانے والے راستے کے بائیں طرف ہے۔اس طرح یہ پہلی نماز جمعہ تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز سے پہلے خطبہ بھی دیا تھا۔اس پہلے خطبے میں جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کا کچھ حصہ یہ تھا۔
"پس جو شخص اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہتا ہے تو ضرور بچالے۔چاہے وہ آدھے چھوہارے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، جسے کچھ بھی نہ آتا ہو، وہ کلمہ طیبہ کو لازم کرلے، کیونکہ نیکی کا ثواب دوگنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور سلام ہو اللہ کے رسول پر اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔"
★_ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑدی، یعنی اسے اپنی مرضی سے چلنے کی اجازت دی۔اونٹنی نے پہلے دائیں اور بائیں دیکھا، جیسے چلنے سے پہلے فیصلہ کررہی ہوکہ کس سمت میں جانا ہے، ایسے میں بنی سالم کے لوگوں( یعنی جن کے محلے میں جمعے کی نماز ادا کی گئی تھی)نے عرض کیا۔
"اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ہاں قیام فرمایئے، یہاں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے - یہاں آپ کی پوری حفاظت ہو گی... یہاں دولت بھی ہے، ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں... ہمارے پاس باغات بھی ہیں اور زندگی کی ضرورت کی سب چیزیں بھی موجود ہیں -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سن کر مسکرائے، ان کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا:
"میری اونٹنی کا راستہ چھوڑدو، یہ جہاں جانا چاہے، اسے جانے دو، کیونکہ یہ مامور ہے -"
مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے اونٹنی خود چلے گی اور اسے اپنی منزل معلوم ہے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو دعا دی:
"اللہ تعالٰی تمہیں برکت عطا فرمائے -"
★_ اس کے بعد اونٹنی روانہ ہوئی - یہاں تک کہ بنی بیاصہ کے محلے میں پہنچی - یہاں کے لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے ہاں ٹھہریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا جو بنی سالم کو دیا تھا - اسی طرح بنی ساعدہ کے علاقے سے گزرے - ان حضرات نے بھی یہ درخواست کی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب فرمایا - اونٹنی آگے بڑھی - اب یہ بنی عدی کے محلے میں داخل ہوئی، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی ننھیال تھی - ان لوگوں نے عرض کیا:
"ہم آپ کے ننھیال والے ہیں، اس لیے یہاں قیام فرمایئے - یہاں آپ کی رشتہ داری بھی ہے، ہم تعداد میں بھی بہت ہیں - آپ کی حفاظت بھی بڑھ چڑھ کر کریں گے، پھر یہ کہ ہم آپ کے رشتہ دار بھی ہیں، سو ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں -"
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا کہ یہ اونٹنی مامور ہے، اسے اپنی منزل معلوم ہے - اونٹنی اور آگے بڑھی اور اسی محلے میں ایک جگہ بیٹھ گئی - یہ جگہ بنی مالک بن نجار کے محلے کے پاس تھی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے دروازے کے قریب تھی -
★_ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نام خالد بن زید نجار انصاری تھا - یہ قبیلہ خزرج کے تھے - بیعت عقبہ کے موقع پر موجود تھے - ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے - حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت قریبی معاونین میں سے رہے - ان کی وفات یزید کے دور میں قسطنطنیہ کے جہاد کے دوران ہوئی -
★_ اونٹنی بیٹھ گئی، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اُترے نہیں تھے کہ وہ اچانک پھر کھڑی ہوگئی... چند قدم چلی اور ٹھہر گئی... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام بدستور چھوڑے رکھی تھی - اونٹنی اس کے بعد واپس اس جگہ آئی جہاں پہلے بیٹھی تھی - وہ دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی - اپنی گردن زمین پر رکھ دی اور منہ کھولے بغیر ایک آواز نکالی - اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اترے - ساتھ ہی فرمایا:
"اے میرے پروردگار! مجھے مبارک جگہ پر اتارنا اور تو ہی بہترین جگہ ٹھہرانے والا ہے -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ چار مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا:
"ان شاء اللہ! یہی قیام گاہ ہوگی -"
★_اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان اتارنے کا حکم دیا - حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"کیا میں آپ کا سامان اپنے گھر لے جاؤں -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی - وہ سامان اتار کر لے گئے - اسی وقت حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ آگئے - انہوں نے اونٹنی کی مہار تھام لی اور اونٹنی کو لے گئے، چنانچہ اونٹنی ان کی مہمان بنی -
بنی نجار کے ہاں اترنے پر ان کی بچیوں نے دف ہاتھوں میں لے لیے اور خوشی سے سرشار ہوکر ان کو بجانے لگیں اور یہ گیت گانے لگیں:
ترجمہ:"ہم بنی نجار کے پڑوسیوں میں سے ہیں، کس قدر خوش قسمتی کی بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہیں -"
★_ ان کی آواز سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے - ان کے نزدیک آئے اور فرمایا:- "کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟"
وہ بولیں : -"ہاں! اے اللہ کے رسول -"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- "اللہ جانتا ہے، میرے دل میں بھی تمہارے لیے محبت ہی محبت ہے -"
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر اس وقت تک ٹھہرے جب تک کہ مسجد نبوی اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ تیار نہیں ہوگیا -آپ تقریباً گیارہ ماہ تک وہاں ٹھہرے رہے -
*
╨─────────────────────❥
: *★_ مسجد نبوی کی تعمیر_,*
★__آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبا سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساتھ اکثر مہاجرین بھی مدینہ منورہ آگئے تھے - اس وقت انصاری مسلمانوں کا جذبہ قابل دید تھا - ان سب کی خواہش تھی کہ مہاجرین ان کے ہاں ٹھہریں - اس طرح ان کے درمیان بحث ہوئی - آخر انصاری حضرات نے مہاجرین کے لیے قرعہ اندازی کی - اس طرح جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آئے، وہ انہی کے ہاں ٹھہرے، انصاری مسلمانوں نے انہیں نہ صرف اپنے گھروں میں ٹھہرایا بلکہ ان پر اپنا مال اور دولت بھی خرچ کیا -
★__مہاجرین کی آمد سے پہلے انصاری مسلمان ایک جگہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے - حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھاتے تھے - جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنانے کی فکر ہوئی - آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی - اونٹنی چل پڑی، وہ اس جگہ جاکر بیٹھ گئی جہاں آج مسجد نبوی ہے، جس جگہ مسلمان نماز ادا کرتے رہتے تھے، وہ جگہ بھی اس کے آس پاس ہی تھی، اس وقت وہاں صرف دیواریں کھڑی کی گئی تھیں... ان پر چھت نہیں تھی - اونٹنی کے بیٹھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بس! مسجد اس جگہ بنے گی -"
★_اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:--"تم یہ جگہ مسجد کے لیے فروخت کردو -"
وہ جگہ دراصل دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی اور اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ان کے سرپرست تھے - یہ روایت بھی آئی ہے کہ ان کے سرپرست معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ تھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:-- "آپ یہ زمین لے لیں، میں اس کی قیمت ان دونوں کو ادا کردیتا ہوں -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا خرید لیا - یہ قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے ادا کی گئی (واہ! کیا قسمت پائی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ قیامت تک مسجد نبوی کے نمازیوں کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا جارہا ہے -)
★_ یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں یتیم لڑکوں کو بلوایا - زمین کے سلسلے میں ان سے بات کی - ان دونوں نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! ہم یہ زمین ہدیہ کرتے ہیں -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یتیموں کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرمادیا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا ان سے خرید لیا - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں دس دینار ادا کردیں، چنانچہ انہوں نے وہ رقم ادا کردی -
★_زمین کی خرید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ فرمایا، اینٹیں بنانے کا حکم دیا، پھر گارا تیار کیا گیا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے پہلی اینٹ رکھی - پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسری اینٹ وہ رکھیں - انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لگائی ہوئی اینٹ کے برابر دوسری اینٹ رکھ دی - اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا - انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر تیسری اینٹ رکھی - اب آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا - انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر چوتھی اینٹ رکھی - ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"میرے بعد یہی خلیفہ ہوں گے -" (مستدرک حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
★_پھر حضور اقدس نے صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو حکم فرمایا:
"اب پتھر لگانا شروع کردو -"
★__ مسلمان پتھروں سے بنیادیں بھرنے لگے - بنیادیں تقریباً تین ہاتھ(ساڑھے 4 فٹ) گہری تھیں - اس کے لیے اینٹوں کی تعمیر اٹھائی گئی - دونوں جانب پتھروں کی دیواریں بنا کر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت بنائی گئی اور کھجور کے تنوں کے ستون بنائے گئے - دیواروں کی اونچائی انسانی قد کے برابر تھی -
★_ ان حالات میں کچھ انصاری مسلمانوں نے کچھ مال جمع کیا - وہ مال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے اور عرض کیا:
"اللہ کے رسول! اس مال سے مسجد بنائیے اور اس کو آراستہ کیجیے، ہم کب تک چھپر کے نیچے نماز پڑھیں گے -"
اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے مسجدوں کو سجانے کا حکم نہیں دیا گیا -"
اسی سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
"قیامت قائم ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں آرائش اور زیبائش کرنے لگیں گے جیسے یہود اور نصارٰی اپنے کلیساؤں اور گرجوں میں زیب و زینت کرتے ہیں -"
★_ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی چھال اور پتوں کی تھی اور اس پر تھوڑی سی مٹی تھی - جب بارش ہوتی تو پانی اندر ٹپکتا... یہ پانی مٹی ملا ہوتا... اس سے مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتا - یہ بات محسوس کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! اگر آپ حکم دیں تو چھت پر زیادہ مٹی بچھا دی جائے تاکہ اس میں سے پانی نہ رِسے، مسجد میں نہ ٹپکے -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"نہیں! یونہی رہنے دو -"
★_ مسجد کے تعمیر کے کام میں تمام مہاجرین اور انصار صحابہ نے حصہ لیا - یہاں تک کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنے ہاتھوں سے کام کیا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی چادر میں اینٹیں بھر بھر کر لاتے یہاں تک کہ سینہ مبارک غبار آلود ہو جاتا - صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اینٹیں اٹھاتے دیکھا تو وہ اور زیادہ جانفشانی سے ایینٹیں ڈھونے لگے - (یہاں اینٹوں سے مراد پتھر ہیں -) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ باقی صحابہ تو ایک ایک پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو پتھر اٹھا کر لا رہے تھے تو ان سے پوچھا:
"عمار! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک پتھر کیوں نہیں لاتے -"
انہوں نے عرض کیا:
اس لیے کہ میں اللہ تعالٰی سے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب چاہتا ہوں -"
★_حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بہت نفیس اور صفائی پسند تھے - وہ بھی مسجد کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے - پتھر اٹھا کر چلتے تو اس کو اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تاکہ کپڑے خراب نہ ہوں - اگر مٹی لگ جاتی تو فوراً چٹکی سے اس کو جھاڑنے لگ جاتے - دوسرے صحابہ دیکھ کر مسکرادیتے -
★_ مسجد کی تعمیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس میں پانچ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے - اس کے بعد اللہ تعالٰی کے حکم سے قبلے کا رخ بیت اللہ کی طرف ہو گیا - مسجد کا پہلے فرش کچا تھا، پھر اس پر کنکریاں بچھا دی گئیں - یہ اس لیے بچھائی گئیں کہ ایک روز بارش ہوئی، فرش گیلا ہوگیا - اب جو بھی آتا، اپنی جھولی میں کنکریاں بھر کر لاتا اور اپنی جگہ پر ان کو بچھا کر نماز پڑھتا - تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ سارا فرش ہی کنکریوں کا بچھا دو -
★_ پھر جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کو وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا - مسجد کے ساتھ زمین کا ایک ٹکڑا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ ٹکڑا انہوں نے ایک یہودی سے خریدا تھا - جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسجد کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا جنت کے ایک مکان کے بدلے میں خرید لیں -"
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین کا وہ ٹکڑا ان سے لے لیا - مسجد نبوی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"اگر میری یہ مسجد صنعا کے مقام تک بھی بن جائے(یعنی اتنی وسیع ہوجائے) تو بھی یہ میری مسجد ہی رہے گی، یعنی مسجد نبوی ہی رہے گی -"
★_ اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ، آپ نے مسجد نبوی کے وسیع ہونے کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی اور ہوا بھی یہی - بعد کے ادوار میں اس کی توسیع ہوتی رہی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا -
★_مسجد نبوی کے ساتھ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے دو حجرے بنائے گئے - یہ حجرے مسجد نبوی سے بالکل ملے ہوئے تھے - ان حجروں کی چھتیں بھی مسجد کی طرح کھجوروں کی چھال سے بنائی گئی تھیں - مسجد نبوی کی تعمیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام پذیررہے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے مکان میں نچلی منزل میں قیام فرمایا تھا، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی تھی:
"حضور! آپ اوپر والی منزل میں قیام فرمائیں -"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا:
"مجھے نیچے ہی رہنے دیں... کیونکہ لوگ مجھ سے ملنے کے لیے آئیں گے، اسی میں سہولت رہے گی -"
★_حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" ایک رات ہماری پانی کی گھڑیاں ٹوٹ گئی - ہم گھبرا گئے کہ پانی نیچے نہ ٹپکنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشانی نہ ہو...تو ہم نے فوراً اس پانی کو اپنے لحاف میں جذب کرنا شروع کردیا... اور ہمارے پاس وہ ایک ہی لحاف تھا اور دن سردی کے تھے -"
اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اوپر والی منزل پر قیام کرنے کی درخواست کی... آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات مان لی -
★_ان کے گھر کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کھانا حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے ہاں سے بھی آتا تھا -
: ★_اس تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت زید بن رافع رضی اللہ عنہما کو مکہ بھیجا تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں کو لے آئیں - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سفر میں خرچ کرنے کے لیے 500 درہم اور دو اونٹ دئیے - رہبر کے طور پر ان کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو بھیجا - سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اخراجات برداشت کیے - ان کے گھر والوں کو لانے کی ذمے داری بھی انہیں ہی سونپی گئی - اس طرح یہ حضرات مکہ معظمہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحب زادیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، اور دایہ ام ایمن رضی اللہ عنہا( جو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں )اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ آگئے۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایا کے بیٹے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد درجے عزیز تھے۔
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس لیے انہیں ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بعد میں ہجرت کی تھی اور اپنے شوہر کو کفر کی حالت میں مکہ ہی چھوڑ آئی تھیں۔ان کے شوہر ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔یہ غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوئے، گرفتار ہوئے، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا، پھر یہ مسلمان ہوگئے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ اپنے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پہلے ہی حبشہ ہجرت کرگئی تھیں۔یہ بعد میں حبشہ سے مدینہ پہنچے تھے۔
★_حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر والے بھی ساتھ ہی مدینہ منورہ آگئے۔ان میں ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام رومان، حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا شامل تھیں۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
"جس شخص کو جنت کی حوروں میں سے کوئی حور دیکھنے کی خواہش ہو، وہ ام رومان کو دیکھ لے۔"
★_ ہجرت کے اس سفر میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے قبا میں ٹھہرنا پڑا۔ان کے ہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔بچے کی پیدائش کے بعد مدینہ پہنچیں اور اپنا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں برکت حاصل کرنے کے لیے پیش کیا - یہ ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا - ان کی پیدائش پر مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی، کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مہاجرین مدینہ آئے ہیں، ان کے ہاں کوئی نرینہ نہیں ہوئی کیونکہ ہم نے ان پر جادو کردیا ہے - حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان لوگوں کی یہ بات غلط ثابت ہوگئی، اس لیے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی -
★__ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوگئی تو رات کے وقت اس میں روشنی کا مسئلہ سامنے آیا - اس غرض کے لیے پہلے پہل کھجور کی شاخیں جلائی گئیں - پھر حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو وہ اپنے ساتھ قندیلیں، رسیاں اور زیتون کا تیل لائے -
🖊: ★__ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے یہ قندیلیں مسجد میں لٹکادیں، پھر رات کے وقت ان کو جلادیا - یہ دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:-"ہماری مسجد روشن ہوگئی، اللہ تعالٰی تمہارے لیے بھی روشنی کا سامان فرمائے، اللہ کی قسم! اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی تم سے کردیتا -"
بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں قندیل جلائی تھی -
★__ مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو حجرے اپنی بیویوں کے لیے بنوائے تھے - (باقی حجرے ضرورت کے مطابق بعد میں بنائے گئے) - ان دو میں سے ایک سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور دوسرا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا -
مدینہ منورہ میں وہ زمینیں جو کسی کی ملکیت نہیں تھیں، ان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے لیے نشانات لگادئیے، یعنی یہ زمینیں ان میں تقسیم کر دیں - کچھ زمینیں آپ کو انصاری حضرات نے ہدیہ کی تھیں - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی تقسیم فرمادیا اور ان جگہوں پر ان مسلمانوں کو بسایا جو پہلے قبا میں ٹھہر گئے تھے، لیکن بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ قبا میں جگہ نہیں ہے تو وہ بھی مدینہ چلے آئے تھے -
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیویوں کے لیے جو حجرے بنوائے، وہ کچے تھے - کھجور کی شاخوں، پتوں اور چھال سے بنائے گئے تھے - ان پر مٹی لیپی گئی تھی -
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مشہور تابعی ہیں اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ تابعی اسے کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کو دیکھا ہو - وہ کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں امہات المومنین کے حجروں میں جاتا تھا، ان کی چھتیں اس قدر نیچی تھیں کہ اس وقت اگرچہ میرا قد چھوٹا تھا، لیکن میں ہاتھ سے چھتوں کو چھو لیا کرتا تھا -
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ابھی دو سال باقی تھے - وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی خیرہ کے بیٹے تھے - حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں - صحابہ کرام انہیں برکت کی دعائیں دیا کرتے تھے - حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لے گئی تھیں - حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان الفاظ میں دعا دی تھی:
"اے اللہ! انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور لوگوں کے لیے یہ پسندیدہ ہوں -"
★_ مسجد نبوی کے چاروں طرف حضرت حارثہ بن نعمان کے مکانات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد نکاح فرمائے تھے، جن میں دینی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک مکان یعنی حجرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیتے - اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کا قیام ہوجاتا - یہاں تک کہ رفتہ رفتہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے سارے مکان اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیے -
*
╨─────────────────────❥
*★__ اسلامی بھائی چارہ_,*
★_ اسی زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار مسلمانوں کے سامنے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ کیا - اس معاہدے کی ایک تحریر بھی لکھوائی - معاہدے میں طے پایا کہ یہودی مسلمانوں سے کبھی جنگ نہیں کریں گے، کبھی انہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں وہ کسی کی مدد نہیں کریں گے اور اگر کوئی اچانک مسلمانوں پر حملہ کرے تو یہ یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے -
ان شرائط کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کی جان و مال اور ان کے مذہبی معاملات میں آزادی کی ضمانت دی گئی - یہ معاہدہ جن یہودی قبائل سے کیا گیا، ان کے نام بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر ہیں -
★_ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا - اس بھائی چارہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت اور خلوص کا بے مثال رشتہ قائم ہوا - اس بھائی چارہ کو مواخات کہتے ہیں - بھائی چارہ کا یہ قیام حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوا - یہ بھائی چارہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ہوا - اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا:
"اللہ کے نام پر تم سب آپس میں دودو بھائی بن جاؤ-"
اس بھائی چارہ کے بعد انصاری مسلمانوں نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا - خود مہاجرین پر اس سلوک کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھے:
"اے اللہ کے رسول! ہم نے ان جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے - انہوں نے ہمارے ساتھ اس قدر ہمدردی اور غم گساری کی ہے، اس قدر فیاضی کا معاملہ کیا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی... یہاں تک کہ محنت اور مشقت کے وقت وہ ہمیں الگ رکھتے ہیں اور صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس میں برابر کا شریک کرلیتے ہیں... ہمیں تو ڈر ہے... بس آخرت کا سارا ثواب یہ تنہا نہ سمیٹ لے جائیں - "
ان کی یہ بات سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
" نہیں! ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور انہیں دعائیں دیتے رہو گے -"
★__ بعض علماء نے لکھا ہیکہ بھائی چارہ کرانا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت میں سے ہے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کسی نبی نے اپنے امتیوں میں اس طرح بھائی چارہ نہیں کرایا -
★_ اس سلسلہ میں روایت ملتی ہے کہ انصاری مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی ہر چیز میں سے نصف حصہ دے دیا - کسی کے پاس دو مکان تھے تو ایک اپنے بھائی کو دے دیا - اسی طرح ہر چیز کا نصف اپنے بھائی کو دے دیا - یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں انھوں نے اپنے مہاجِر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں - عِدّت پوری ہونے کے بعد تم اس سے شادی کرلینا - لیکن مہاجِر مسلمان نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا -
╨─────────────────────❥
🖋🖊: *★__اذان پڑھنے کا طریقہ _,*
★__ ان کاموں سے فارِغ ہونے کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے بلایا کریں - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا - اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا لہرادیا جائے - لوگ اس کو دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کو بتادیا کریں گے - لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو پسند نا فرمایا - پھر کسی نے کہا کہ بگُل بجادیا کریں - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی نا پسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا - اب کسی نے کہا کہ ناقوس بجا کر اعلان کردیا کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی پسند نا فرمایا - اس لیے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ تھا -
★_ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ جلادی جایا کرے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو بھی پسند نا فرمایا اس لیے کہ یہ طریقہ مجوسیوں کا تھا
ایک مشورہ یہ دیا گیا
ایک شخص مقرر کردیا جائے کہ وہ نماز کا وقت ہونے پر گشت لگالیا کرے " چنانچہ اس رائے کو قبول کرلیا گیا چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کرنے والا مقرر کردیا گیا –
★_انہی دنوں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا انہوں نے ایک شخص کو دیکھا اس کے جسم پر دو سبز کپڑے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس (بگُل) تھا حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا " کیا تُم یہ ناقوس فروخت کرتے ہو " ......اس نے پوچھا -"تم اس کا کیا کروگے "
میں نے کہا : "ہم اس کو بجا کر نمازیوں کو جمع کریں گے " اس پر وہ بولا :
" کیا میں تمہیں اس کے لیے اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں "
میں نے کہا: " ضرور بتائیے" ..... اب اس نے کہا...... تم یہ الفاظ پکار کر لوگوں کو جمع کیا کرو "
اور اس نے اذان کے الفاظ دہرادیے - یعنی پوری اذان پڑھ کر انھیں سنادی - پھر تکبیر کہنے کا طریقہ بھی بتادیا -
★__ صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا یہ خواب سُنایا ..... خواب سُن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
" بے شک ! یہ سچّا خواب ہے ان شاءاللہ! تم جاکر یہ کلمات بلال کو سکھادو تاکہ وہ ان کے ذریعے اذان دیں - ان کی آواز تم سے بلند ہے اور ذیادہ دل کش بھی ہے "
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آئے انھوں نے کلمات سیکھنے پر صبح کی اذان دی,..... اس طرح سب سے پہلے اذان فجر کی نماز کے لیے دی گئی
: ★__ جونہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان گونجی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے وہ جلدی سے چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور تیز تیز چلتے مسجد نبوی میں پہنچے- مسجد میں پہنچ کر انہیں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے عرض کیا :
" اے اللہ کے رسول اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے٬میں نے بھی بالکل یہی خواب دیکھا ہے"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی خواب کی تصدیق سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : -"اللّٰہ کا شکر ہے "
★__ اب پانچوں وقت کی نمازوں کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ان پانچ نمازوں کے علاوہ کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرنا ہوتامثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن ہوجاتا یا بارش طلب کرنے کے لیے نماز پڑھنا ہوتی تو وہ "الصلاۃ جامعۃ " کہہ کر اعلان کرتے تھے ,
اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ موذن رہے- ان کی غیر موجودگی میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے-
★_آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلۂ اوس اور قبیلۂ خزرج کے لوگوں سے یہ کہا کرتے تبھے :
" بہت جلد ایک نبی ظاہر ہوں گے ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی(یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نشانیاں بتایا کرتے تھے) ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں کو سابقہ قوموں کی طرح تہس نہس کردیں گے- جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کو تباہ کیا گیا-ہم بھی تم لوگوں کو اسی طرح تباہ کردیں گے "
جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور مبارک ہوگیا تو یہی یہود حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنےلگے-
جب اوس اور خزرج کے لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تو بعض صحابہ نے ان یہودیوں نے کہا: -" اے یہودیو! تم تو ہم سے کہا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی-ہم ان پر ایمان لاکر تم لوگوں کو تباہ و برباد کردیں گے لیکن اب جبکہ ان کا ظہور ہوگی ہے تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے-تم تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ تک بتایا کرتے تھے-
★_ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ بات کہی تو یہودیوں میں سلام بن مشکم بھی تھا- یہ قبیلہ بنی نضیر کے بڑے آدمیوں میں سے تھا اس نے ان کی یہ بات سن کر کہا : -" ان میں وہ نشانیاں نہیں ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے تھے "
اس پر اللّٰہ تعالٰی نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 89 نازِل فرمائی-
"_ترجمہ : اور جب انہیں کتاب پہنچی(یعنی قرآن) جو اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اس کی بھی تصدیق کرنے والی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے یعنی تورات٬ حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (اس نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف اللّٰہ سے مدد طلب کرتے تھے٬پھر وہ چیز آپہنچی جس کو وہ خود جانتے پہچانتے تھے (یعنی حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نبوت)تو اس کا صاف انکار کر بیٹھے بس اللہ کی مار ہو ایسے کافروں پر-
╨─────────────────────❥
🖊: *★__عنوان: یہودیوں کے سوالات_,*
★_ اس بارے میں ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کے ایک بڑے سردار مالک بن صیف سے فرمایا:
"میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسی علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی،کیا تورات میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالٰی موٹے تازے"حبر" یعنی یہودی راہب سے نفرت کرتا ہے،کیونکہ تم بھی ایسے ہی موٹے تازے ہو،تم وہ مال کھا کھا کر موٹے ہوئے جو تمہیں یہودی لا لا کر دیتے ہیں-"
یہ بات سن کر مالک بن صیف بگڑ گیا اور بول اٹھا:
"اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری-"
★_ گویا اس طرح اس نے خود حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب تورات کا بھی انکار کردیا...اور ایسا صرف جھنجھلاہٹ کی وجہ سے کہا- دوسرے یہودی اس پر بگڑے-انھوں نے اس سے کہا:
"یہ ہم نے تمہارے بارے میں کیا سنا ہے-"
جواب میں اس نے کہا:
محمد نے مجھے غصہ دلایا تھا...بس میں نے غصہ میں یہ بات کہہ دی-"
یہودیوں نے اس کی اس بات کو معاف نہ کیا اور اسے سرداری سے ہٹادیا-اس کی جگہ کعب بن اشرف کو اپنا سردار مقرر کیا-
★_اب یہودیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرنا شروع کردیا،ایسے سوالات پوچھنے کی کوشش کرنے لگے جن کے جوابات ان کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ دے سکیں گے-مثلاً ایک روز انھوں نے پوچھا:--"اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)آپ ہمیں بتائیں،روح کیا چیز ہے؟-"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کے بارے میں وحی کا انتظار فرمایا،جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے-"
"_یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
ترجمہ:"اور یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں،آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے -"(سورۃ بنی اسرائیل:آیت85)
★_پھر انھوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب آئے گی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:
اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے...اس کے وقت کو اللّہ کے سوا کوئی اور ظاہر نہیں کرےگا-"(سورة الأعراف)
اسی طرح دو یہودی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور پوچھا:
آپ بتائیے!اللّہ تعالٰی نے موسی علیہ السلام کی قوم کو کن باتوں کی تاکید فرمائی تھی-
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"یہ کہ اللّہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بدکاری نہ کرو،اور حق کے سوا(یعنی شرعی قوانین کے سوا) کسی ایسے شخص کی جان نہ لو جس کو اللہ تعالٰی نے تم پر حرام کیا ہے،چوری مت کرو، سحر اور جادوٹونہ کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ،کسی بادشاہ اور حاکم کے پاس کسی کی چغل خوری نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ، گھروں میں بیٹھنے والی(پاک دامن) عورتوں پر بہتان نہ باندھو-اوراے یہودیو! تم پر خاص طور پر یہ بات لازم ہے کہ ہفتے کے دن کسی پر زیادتی نہ کرو،اس لیے کہ یہ یہودیوں کا متبرک دن ہے -"
★_یہ نو ہدایات سن کر دونوں یہودی بولے:
"ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبی ہیں-"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"تب پھر تم مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟"
انھوں نے جواب دیا:
"ہمیں ڈر ہے،اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہودی ہمیں قتل کرڈالیں گے-"
: ★_ دو یہودی عالم ملک شام میں رہتے تھے-انہیں ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کی خبر نہیں ہوئی تھی-دونوں ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے-مدینہ منورہ کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:
"یہ شہر اس نبی کے شہر سے کتنا ملتا جلتا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے ہیں-"
اس کے کچھ دیر کے بعد انہیں پتا چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے اس شہر مدینہ منورہ میں آچکے ہیں-یہ خبر ملنے پر دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے- انھوں نے کہا:
"ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں،اگر آپ نے جواب دےدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے-"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"پوچھو!کیا پوچھنا چاہتے ہو؟"
★_انھوں نے کہا:
"ہمیں اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی گواہی اور شہادت کے متعلق بتایئے-"
ان کے سوال پر سورۂ آل عمران کی آیت 19 نازل ہوئی-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ان کے سامنے تلاوت فرمائی-
ترجمہ:اللہ نے اس کی گواہی دی ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی گواہی دی ہے اور وہ اس شان کے مالک ہیں کہ اعتدال کے ساتھ انتظام کو قائم رکھنے والے ہیں-ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں،وہ زبردست ہیں،حکمت والے ہیں-بلاشبہ دین حق اور مقبول،اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہے-"
★_ یہ آیت سن کر دونوں یہودی اسلام لے آئے-اسی طرح یہودیوں کے ایک اور بہت بڑے عالم تھے-ان کا نام حصین بن سلام تھا-یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے-ان کا تعلق قبیلہ بنی قینقاع سے تھے- جس روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کرکے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے،یہ اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے-جونہی انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرۂ مبارک دیکھا،فوراً سمجھ گئے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا-پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام سنا تو فوراً پکار اُٹھے:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی لے کر آئے ہیں-"
★_پھر ان کا اسلامی نام آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن سلام رکھا-اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اپنے گھر گئے-اپنے اسلام لانے کی تفصیل گھر والوں کو سنائی تو وہ بھی اسلام لے آئے
★__ چند یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال پوچھا: _آپ یہ بتائیں،اس وقت لوگ کہاں ہوں گے جب قیامت کے دن زمین اور آسمان کی شکلیں تبدیل ہوجائیں گی؟"
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا:-"اس وقت لوگ پل صراط کے قریب اندھیرے میں ہوں گے-"
★_اسی طرح ایک مرتبہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بادلوں کی گرج اور کڑک کے بارے میں پوچھا-جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"یہ اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کا نگران ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑا ہے،اس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہوا اس طرف لے جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے اللہ تعالٰی کا حکم ہوتا ہے-"
★_ان یہودیوں ہی میں سے ایک گروہ منافقین کا تھا-یہ بات ذرا وضاحت سے سمجھ لیں-مدینہ منورہ میں جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو یہودیوں کا اقتدار ختم ہوگیا-بہت سے یہودی اس خیال سے مسلمان ہوگئے کہ اب ان کی جانیں خطرے میں ہیں-سو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہ جھوٹ موٹ کے مسلمان ہوگئے-اب اگرچہ کہنے کو وہ مسلمان تھے،لیکن ان کی ہمدردیاں اور محبتیں اب بھی یہودیوں کے ساتھ تھیں-ظاہر میں وہ مسلمان تھے،اندر سے وہی یہودی تھے،ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول نے منافق قرار دیا ہے-ان کی تعداد تین سو کے قریب تھی-
انہی منافقوں میں عبداللہ ابن اُبیّ بھی تھا...یہ منافقوں کا سردار تھا-
یہ منافقین ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ کب اور کس طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں...مسلمانوں کو پریشان کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے -
╨─────────────────────❥
*👈🏻 قبلے کی تبدیلی کا حکم_,*
★__ اسی سال2ہجری کے دوران قبلے کا رخ تبدیل ہوا اور اس وقت تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے-
قبلہ کی تبدیلی کا حکم ظہر کی نماز کے وقت آیا- ایک روایت میں یہ ہے کہ عصر کی نماز میں حکم آیا تھا - قبلے کی تبدیلی اس لیے ہوئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آرزو کی تھی کہ قبلہ بیت اللہ ہو -
★_خاص طور پر یہ آرزو اس لیے تھی کہ یہودی کہتے تھے "محمد ہماری مخالفت بھی کرتے ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز بھی پڑھتے ہیں-اگر ہم سیدھے راستے پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نمازیں نہ پڑھا کرتے"-
ان کی بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی کہ ہمارا قبلہ بیت اللہ ہوجائے اور اللہ تعالٰی نے یہ دعا منظور فرمائی-
★_ قبلے کی تبدیلی کا حکم نماز کی حالت میں آیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے دوران ہی اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی رخ تبدیل کرلیا-یہ نماز مسجد قبلتین میں ہورہی تھی-
★_ حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ نماز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی،یہ مسجد سے نکل کر راستے میں دو انصاریوں کے پاس سے گزرے.... وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اس وقت رکوع میں تھے-انہیں دیکھ کر عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے-"
قبا والوں کو یہ خبر اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پہنچی-وہ لوگ اس وقت دوسری رکعت میں تھے کہ منادی نے اعلان کیا:
"لوگو!خبردار ہوجاؤ!قبلے کا رخ کعبہ کی طرف تبدیل ہوگیا ہے-"
نماز پڑھتے ہوئے لوگ قبلے کی طرف گھوم گئے-اس طرح مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ بنا-
*📕_سیرت النبی ﷺ_, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)_*
╨─────────────────────❥
*👈🏻_رمضان کے روزے اور صدقۂ فطر کا حکم_,*
★__ اسی سال یعنی3ہجری میں رمضان کے روزے اور صدقۂ فطر کا حکم نازل ہوا-پھر مسجد نبوی میں منبر نصب کیا گیا،جب تک منبر نہیں بنا تھا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے اور خطبہ دیتے تھے،جب منبر بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کے اس تنے کی بجائے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا تو وہ تنا رونے لگا... اس کے رونے کی آواز ایسی بلند ہوئی کہ تمام لوگوں نے اس آواز کو سنا-آواز اس قدر دردناک تھی کہ ساری مسجد ہل گئی،وہ اس طرح رورہا تھا جیسے کوئی اونٹنی اپنے بچے کے گم ہونے پر روتی ہے-
★_اس کے رونے کی آواز سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر سے اتر کر اس کے پاس پہنچے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا،اس کے بعد اس میں سے ایک بچے کے سسکنے کی آوازیں آنے لگیں-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
"پرسکون اور خاموش ہوجا-"
تب کہیں جا کر اس کا رونا بند ہوا-اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تنے کو منبر کے نیچے دفن کرنے کا حکم دیا-
★_آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ارشاد فرمایا:
"میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے-"
یعنی یہ مقام جنت ہی کا ایک مقام ہے-اللہ تعالٰی نے اس مقام کو جنت میں شامل کردیا ہے-
╨─────────────────────❥سیرت النبی ﷺ
عنوان: قریش کا تجارتیز قافلہ
[12/02, 4:28 pm] My New Voda: ★_ قریش کے ایک تجارتی قافلے پر حملے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم روانہ ہوئے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشیرہ کے مقام پر پہنچے تو قافلہ اس مقام سے گزرکر شام کی طرف روانہ ہوچکا تھا... چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لے آئے تھے-پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ وہ قافلہ شام سے واپس آرہا ہے اور اس سامانِ تجارت کا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا:
"قریش کا تجارتی قافلہ آرہا ہے،اس میں ان کا مال و دولت ہے-تم اس پر حملہ کرنے کے لیے بڑھو-ممکن ہے، اللہ تمہیں اس سے فائدہ دے-"
★_ادھر اس قافلے کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے... یہ قریش کے بھی سردار تھے-
(اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے) ان کی عادت تھی کہ جب ان کا قافلہ حجاز کی سرزمین پر پہنچتا تو جاسوسوں کو بھیج کر راستے کی خبریں معلوم کرلیتے تھے-انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خوف بھی تھا،چنانچہ ان کے جاسوس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس تجارتی قافلے کو گھیرنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں-یہ سن کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ خوف زدہ ہوگئے-انھوں نے فوراً ایک شخص کو مکہ کی طرف روانہ کیا اور ساتھ ہی اسے یہ ہدایات دیں:
"تم اپنے اونٹ کے کان کاٹ دو،کجاوہ الٹ دو،اپنی قمیص کا اگلا اور پچھلا دامن پھاڑ دو،اسی حالت میں مکہ میں داخل ہونا -انہیں بتانا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)اپنے اصحاب کے ساتھ ان کے قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں-" ایسا اس لیے کیا تاکہ مشرکین جلد مدد کو آجائیں-
★_وہ شخص بہت تیزی سے روانہ ہوا-اب ابھی یہ مکہ پہنچا نہیں تھا کہ وہاں عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا-حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی تھیں-(یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ بعد میں یہ اسلام لے آئی تھیں یا نہیں،روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے... کچھ روایات کہتی ہیں،ایمان لے آئیں تھیں، کچھ میں ہے کہ انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) خواب بہت خوف ناک تھا،یہ ڈر گئیں-انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سنایا... لیکن اس شرط پر سنایا کہ وہ کسی اور کو نہیں سنائیں گے... انھوں نے پوچھا:
اچھا ٹھیک ہے... تم خواب سناؤ، تم نے کیا دیکھا ہے؟"
★_عاتکہ بنت عبدالمطلب نے کہا:
"میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار چلا آ رہا ہے-یہاں تک کہ وہ ابطخ کے پاس آکر رکا-(ابطخ مکہ معظمہ سے کچھ فاصلے پر ہے) وہاں کھڑے ہوکر اس نے پوری آواز سے پکار پکار کر کہا" لوگو! تین دن کے اندر اندر اپنی قتل گاہوں میں چلنے کے لیے تیار ہوجاؤ"پھر میں نے دیکھا کہ لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ہیں،پھر وہ وہاں سے چل کر بیت اللہ میں داخل ہوا-لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے-پھر وہ شخص اونٹ سمیت کعبہ کی چھت پر نظر آیا-وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے،اس کے بعد وہ ابوقبیس کے پہاڑ پر چڑھ گیا-وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے-پھر اس نے ایک پتھر اٹھا کر لڑھکایا- پتھر وہاں سے لڑھکتا پہاڑ کے دامن میں پہنچا تو اچانک ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا-پھر مکہ کے گھروں میں سے کوئی گھر نہ بچا جہاں اس کے ٹکڑے نہ پہنچے ہوں-"
★_یہ خواب سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اللہ کی قسم عاتکہ!تم نے بہت عجیب خواب دیکھا ہے... تم خود بھی اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا-"
: ★_حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے تو راستے میں انہیں ولید بن عتبہ ملا،یہ ان کا دوست تھا-عباس رضی اللہ عنہ نے خواب اس سے بیان کردیا اور وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گا نہیں-ولید نے جاکر یہ خواب اپنے بیٹے عتبہ کو سنا دیا-اس طرح یہ خواب آگے ہی آگے چلتا رہا،یہاں تک کہ ہر طرف عام ہوگیا-مکہ میں اس خواب پر زور شور سے تبصرہ ہونے لگا-آخر تین دن بعد وہ شخص اونٹ پر سوار مکہ میں داخل ہوا جسے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا-وہ مکہ کی وادی کے درمیان میں پہنچ کر اونٹ پر کھڑا ہوگیا اور پکارا:
"اے قریش!اپنے تجارتی قافلے کی خبر لو،تمہارا جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آرہے ہیں،اس پر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) حملہ کرنے والے ہیں... جلدی مدد کو پہنچو-"
★_اس تجارتی قافلے میں سارے قریشیوں کا مال لگا ہوا تھا،چنانچہ سب کے سب جنگ کی تیاری کرنے لگے-جو مال دار تھے،انھوں نے غریبوں کی مدد کی... تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد جنگ کے لیے جائیں-جو بڑے سردار تھے، وہ لوگوں کو جنگ پر ابھارنے لگے-ایک سردار سہیل بن عمرو نے اپنی تقریر میں کہا:
"اے قریشیو!کیا یہ بات تم برداشت کرلو گے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے بے دین ساتھی تمہارے مال اور دولت پر قبضہ کرلیں، لہٰذا جنگ کے لیے نکلو... جس کے پاس مال کم ہو،اس کے لیے میرا مال حاضر ہے-"
★_اس طرح سب سردار تیار ہوئے،لیکن ابولہب نے کوئی تیاری نہ کی،وہ عاتکہ کے خواب کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا تھا،وہ کہتا تھا:_"عاتکہ کا خواب بالکل سچا ہے،اور اسی طرح ظاہر ہوگا-"
ابولہب خود نہیں گیا،لیکن اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام کو چار ہزار درہم دےکر جنگ کے لیے تیار کیا، یعنی وہ اس کی طرف سے چلا جائے-
★_ادھر خوب تیاریاں ہورہی تھیں،ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے-مدینہ سے باہر بئر عتبہ نامی کنویں کے پاس لشکر کو پڑاؤ کا حکم فرمایا-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کنویں سے پانی پینے کا حکم دیا اور خود بھی پیا-یہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:
"مسلمانوں کو گن لیا جائے-"
سب کو گنا گیا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کا معائنہ بھی فرمایا-جو کم عمر تھے،انہیں واپس فرمادیا - واپس کیے جانے والوں میں حضرت اسامہ بن زید اور رافع بن خدیجہ،براء بن عازب،اسید بن زھیر،زید بن ارقم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے-
جب انہیں واپس چلے جانے کا حکم ہوا تو عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے-آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی،چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے-اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔
╨─────────────────────❥
🖋🖊: *★_ بدر کی طرف روانگی _,*
★_ روحاء کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو گننے کا حکم دیا۔گننے پر معلوم ہوا مجاہدین کی تعداد 313 ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا:
"یہ وہی تعداد ہے جو طالوت کے ساتھیوں کی تھی،جو ان کے ساتھ نہر تک پہنچے تھے۔"( طالوت بنی اسرائیل کے ایک نیک مجاہد بادشاہ تھے،ان کی قیادت میں 313 مسلمانوں نے جالوت نامی کافر بادشاہ کی فوج کو شکست دی تھی)
★_ لشکر میں گھوڑوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔اونٹ ستر کے قریب تھے۔اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین یا چار چار آدمیوں کے حصے میں دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جو اونٹ آیا، اس میں دو اور ساتھی بھی شریک تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس اونٹ پر اپنی باری کے حساب سے سوار ہوتے اور ساتھیوں کی باری پر انہیں سوار ہونے کا حکم فرماتے... اگرچہ وہ اپنی باری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کی خواہش ظاہر کرتے... وہ کہتے: -"اے اللہ کے رسول!آپ سوار رہیں... ہم پیدل چل لیں گے۔"
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: -"تم دونوں پیدل چلنے میں مجھ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو اور نہ میں تمہارے مقابلے میں اس کی رحمت سے بےنیاز ہوں۔"( یعنی میں بھی تم دونوں کی طرح اجر کا خواہش مند ہوں )۔
★_روحاء کے مقام پر ایک اونٹ تھک کر بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو پتا چلا،اونٹ تھک کر بیٹھ گیا ہے اور اٹھ نہیں رہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پانی لیا۔اس سے کلی کی۔کلی والا پانی اونٹ والے کے برتن میں ڈالا اور اس کے منہ میں ڈال دیا۔اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اس قدر تیز چلا کہ لشکر کے ساتھ جاملا۔اس پر تھکاوٹ کے کوئی آثار باقی نہ رہے۔
اس غزوے کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا،وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کی زوجہ محترمہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: -"تمہیں یہاں ٹھہرنے کا بھی اجر ملے گا اور جہاد کرنے کا اجر بھی ملے گا۔"
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔
_طلحہ بن عبید اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو جاسوسی کی ذمے داری سونپی تاکہ یہ دونوں لشکر سے آگے جاکر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ سے ہی روانہ فرمادیا تھا۔
★_روحاء کے مقام سے اسلامی لشکر آگے روانہ ہوا۔عرق ظبیہ کے مقام پر ایک دیہاتی ملا۔اس سے دشمن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔اب لشکر پھر آگے بڑھا۔اس طرح اسلامی لشکر ذفران کی وادی تک پہنچ گیا۔اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش مکہ ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے کوچ کرچکے ہیں۔
[🖊: ★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع ملنے پر تمام لشکر کو ایک جگہ جمع فرمایا اور ان سے مشورہ کیا کیونکہ مدینہ منورہ سے مسلمان صرف ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے... کسی باقاعدہ لشکر کے مقابلے کے لیے نہیں نکلے تھے... اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باری باری اپنی رائے دی... حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، اس کے مطابق عمل فرمایئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ کی قسم! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جاکر لڑ لیجئے،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.... بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں،ہم آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑیں گے،آخر دم تک لڑیں گے۔
★_ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو دعا دی۔حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی تقاریر کیں.... ان کی تقاریر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے طرف دیکھا،کیونکہ ابھی تک ان میں سے کوئی کھڑا نہیں ہوا تھا۔اب انصاری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ سمجھ گئے،چنانچہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے.... تو عرض ہے کہ ہم ایمان لاچکے ہیں،آپ کی تصدیق کرچکے ہیں اور گواہی دے چکے ہیں،ہم ہر حال میں آپ کا حکم مانیں گے،فرماں برداری کریں گے۔"
★_ ان کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - "اب اٹھو،کوچ کرو، تمہارے لیے خوش خبری ہے،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا۔"
★_ ذفران کی وادی سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے مقام پر پہنچے۔اس وقت تک قریشی لشکر بھی بدر کے قریب پہنچ چکا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قریش کے لشکر کی خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔انہیں دو ماشکی( پانی بھرنے والے)ملے... وہ قریشی لشکر کے ماشکی تھے۔ان دونوں سے لشکر کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں.... انہوں نے لشکر میں شامل بڑے بڑے سرداروں کے نام بھی بتادیئے... اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: - "مکہ نے اپنا دل اور جگر نکال کر تمہارے مقابلے کے لیے بھیجے ہیں۔"
یعنی اپنے تمام معزز اور بڑے بڑے لوگ بھیج دیئے ہیں۔
🖋🖊: ★_ اس دوران ابوسفیان رضی اللہ عنہ قافلے کا راستہ بدل چکے تھے اور اس طرح ان کا قافلہ بچ گیا.... جب کہ اس قافلے کو بچانے کے لیے جو لشکر آیا تھا،اس سے اسلامی لشکر کا آمنا سامنا ہوگیا۔ادھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ قافلہ تو اب بچ گیا ہے،اس لیے انہوں نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ واپس مکہ کی طرف لوٹ چلو.... کیونکہ ہم اسلامی لشکر سے بچ کر نکل آئے ہیں لیکن ابوجہل نے واپس جانے سے انکار کردیا۔
قریشی لشکر نے بدر کے مقام پر اس جگہ پڑاؤ ڈالا،جس جگہ پانی نزدیک تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر نے جس جگہ ہٹاؤ ڈالا،پانی وہاں سے فاصلے پر تھا۔اس سے مسلمانوں کو پریشانی ہوئی۔تب اللہ تعالیٰ نے وہاں بارش برسادی اور ان کی پانی کی تکلیف رفع ہوگئی۔جب کہ اسی بارش کی وجہ سے کافر پریشان ہوئے۔وہ اپنے پڑاؤ سے نکلنے کے قابل نہ رہے.... مطلب یہ کہ بارش مسلمانوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے زحمت ثابت ہوئی۔
★_ صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: -"لوگو! نماز کے لیے تیار ہوجاؤ۔"
چنانچہ صبح کی نماز ادا کی گئی... پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطبہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"میں تمہیں ایسی بات کے لیے ابھارتا ہوں،جس کے لیے تمہیں اللہ نے ابھارا ہے تنگی اور سختی کے موقعوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ تمام تکالیف سے بچالیتا ہے اور تمام غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔"
★_ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے... اور قریش سے پہلے پانی کے قریب پہنچ گئے۔مقام بدر پر پانی کا چشمہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں رکتے دیکھ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول!قیام کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں ہے، میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں... آپ وہاں پڑاؤ ڈالیں جو دشمن کے پانی سے قریب ترین ہو۔ہم وہاں ایک حوض بناکر پانی اس میں جمع کرلیں گے۔اس طرح ہمارے پاس پینے کا پانی ہوگا... ہم پانی کے دوسرے گڑھے اور چشمے پاٹ دیں گے،اس طرح دشمن کو پانی نہیں ملے گا۔"
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو بہت پسند فرمایا... ایک روایت کے مطابق اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے اور بتایا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی رائے بہت عمدہ ہے۔
اس رائے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے اور اس چشمے پر آگئے جو اس جگہ سے قریب ترین تھا جہاں قریش نے پڑاؤ ڈالا تھا۔مسلمانوں نے یہاں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسرے گڑھے بھرنے کا حکم دیا۔
★_ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کچے کنویں پر ایک حوض بنوایا،جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پانی بھروادیا اور ڈول ڈلوادیئے۔اس طرح حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل ہوا۔اس کے بعد سے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو ذی رائے کہا جانے لگا تھا۔
╨─────────────────────❥
★_ میدان بدرمیں_,*
★_ اس موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
" اے اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک عریش بنادے۔( عریش کھجور کی شاخوں اور پتوں کا ایک سائبان ہوتا ہے) آپ اس میں تشریف رکھیں۔اس کے پاس آپ کی سواریاں تیار رہیں۔اور ہم دشمن سے جاکر مقابلہ کریں۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشورہ قبول فرمایا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سائبان بنایا گیا۔یہ ایک اونچے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔اس جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے میدان جنگ کا معائنہ فرماسکتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قیام فرمایا۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا:
"آپ کے ساتھ یہاں کون رہے گا تاکہ مشرکوں میں سے کوئی آپ کے قریب نہ آسکے۔"
یہ سن کر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا سایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کرتے ہوئے بولے:
" جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھنے کی جرات کرے گا،اسے پہلے اس تلوار سے نمٹنا پڑے گا۔"
★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ان جُرات مندانہ الفاظ کی بنیاد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سب سے بہادر شخص قرار دیا۔
یہ بات جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سائبان کے دروازے پر کھڑے تھے۔اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی انصاری صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ وہاں موجود تھے۔اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔
★_ اس طرح صبح ہوئی،پھر قریشی لشکر ریت کے ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوا۔اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مشرکوں کے نام لے لے کر فرمایا کہ فلاں اس جگہ قتل ہوگا،فلاں اس جگہ قتل ہوگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کے نام لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس جگہ قتل ہوگا،وہ بالکل وہیں قتل ہوئے،ایک انچ بھی ادھر ادھر پڑے نہیں پائے گئے۔
★_ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ قریش کا لشکر لوہے کا لباس پہنے ہوئے اور ہتھیاروں سے خوب لیس بڑھا چلا آرہا ہے تو اللہ رب العزت سے یوں دعا فرمائی:
" اے اللہ!یہ قریش کے لوگ،یہ تیرے دشمن اپنے تمام بہادروں کے ساتھ بڑے غرور کے عالم میں تجھ سے جنگ کرنے( یعنی تیرے احکامات کے خلاف ورزی )اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لئے آئے ہیں،اے اللہ!آپ نے مجھ سے اپنی مدد اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے،لہذا وہ مدد بھیج دے۔اے اللہ!تو نے مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے ثابت قدم رہنے کا حکم فرمایا ہے،مشرکوں کے اس لشکر پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔اے اللہ! انہیں آج ہلاک فرمادے۔
★_ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ صلی علیہ وسلم کی دعا میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں۔
" اے اللہ!اس امت کے فرعون ابوجہل کو کہیں پناہ نہ دے،ٹھکانہ نہ دے۔"
غرض جب قریشی لشکر ٹھر گیا تو انہوں نے عمیر بن وہب جہمی رضی الله عنہ کو جاسوسی کے لیے بھیجا۔ یہ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔اور بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔
قریش نے عمیر رضی الله عنہ سے کہا:
"جاکر محمد کے لشکر کی تعداد معلوم کرو اور ہمیں خبر دو۔"
★_ عمیر رضی الله عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کے گرد ایک چکر لگایا۔پھر واپس قریش کے پاس آئے اور یہ خبر دی:
"ان کی تعداد تقریباﹰ تین سو ہے۔ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں... مگر اے قریش!میں نے دیکھا ہے ان لوگوں کو لوٹ کر اپنے گھروں میں جانے کی کوئی تمنا نہیں اور میں سمجھتا ہوں،ان میں سےکوئی آدمی اس وقت تک نہیں مارا جائے گا جب تک کہ کسی کو قتل نہ کردے۔ گویا تمہارے بھی اتنے ہی آدمی مارے جائے گے...جتنا کہ ان کے...اس کے بعد پھر زندگی کاکیا مزہ رہ جائے گا،اس لیے جنگ شروع کرنے سے پہلے اس بارے میں غور کرلو۔"
★_ ان کی بات سن کر کچھ لوگوں نے ابوجہل سے کہا:
" جنگ کے ارادے سے بعض آجاؤ اور واپس چلو،بھلائی اسی میں ہے۔"
واپس چلنے کا مشورہ دینے والوں میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ابو جہل نے ان کی بات نہ مانی اور جنگ پر تل گیا اور جو لوگ واپس چلنے کی کہہ رہے تھے،انہیں بزدلی کا طعنہ دیا۔اس طرح جنگ ٹل نہ سکی۔
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ اسود مخزومی نے قریش کے سامنے اعلان کیا:
" میں الله کے سامنے عہد کرتا ہو کہ یا تو مسلمانوں کے بنائے ہوئے حوض سے پانی پیوں گا...یا اس کو توڑ دوں گا یا پھر اس کوشش میں جان دے دوں گا۔"
★_ پھر یہ اسود میدان میں نکلا۔حضرت حمزہ رضی الله عنہہ اس کے مقابلے میں آئے۔
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے اس پر تلوار کا وار کیا، اس کی پنڈلی کٹ گئی،اس وقت یہ حوض کے قریب تھا،ٹانگ کٹ جانے کے بعد یہ زمین پر چت گرا،خون تیزی سے بہہ رہا تھا،اس حالت میں یہ حوض کی طرف سرکا اور حوض سے پانی پینے لگا۔حضرت حمزہ رضی الله عنہ فوراً اس کی طرف لپکے اور دوسرا وار کرکے اس کا کام تمام کردیا۔
★_ اس کے بعد قریش کے کچھ اور لوگ حوض کی طرف بڑھے۔ ان میں حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں آتے دیکھ کر فرمایا:
"انہیں آنے دو،آج کے دن ان میں سے جو بھی حوض سے پانی پی لے گا،وہ یہیں کفر کی حالت میں قتل ہوگا۔"
حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ نے پانی نہیں پیا، یہ قتل ہونے سے بچ گئے اور بعد میں اسلام لائے،بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔
★_ اب سب سے پہلے عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید میدان میں آگے نکلے اور للکارے۔
"ہم سے مقابلے کے لیے کون آتا ہے۔"
اس للکار پر مسلمانوں میں سے تین انصاری نوجوان نکلے۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ان کے نام معوذ، معاذ اور عوف رضی الله عنہم تھے۔ ان کے والد کا نام عفرا تھا۔ ان تینوں نوجوانوں کو دیکھ کر عتبہ نے پوچھا: -" تم کون ہو؟ "
انہوں نے جواب دیا: -" ہم انصاری ہیں۔"
اس پر عتبہ نے کہا: -" تم ہمارے برابر کے نہیں...ہمارے مقابلے میں مہاجرین میں سے کسی کو بھیجو،ہم اپنی قوم کے آدمیوں سے مقابلہ کرے گے۔"
اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں واپس آنے کا حکم فرمایا۔یہ تینوں اپنی صفوں میں واپس آگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور انہیں شاباشی دی۔
اب آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا: - "اے عبیدہ بن حارث اٹھو! اے حمزہ اٹھو! اے علی اٹھو۔"
★_ یہ تینوں فوراً اپنی صفوں میں سے نکل کر ان تینوں کے سامنے پہنچ گئے۔ان میں عبیدہ بن حارث رضی الله عنہ زیادہ عمر کے تھے، بوڑھے تھے۔ان کا مقابلہ عتبہ بن ربیعہ سے ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مقابلہ شیبہ سے،اور حضرت علی کا مقابلہ ولید سے ہوا۔
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے شیبہ کو وار کرنے کا موقع نہ دیا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ نے ایک ہی وار میں ولید کا کام تمام کردیا۔البتہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور عتبہ کے درمیان تلواروں کے وار شروع ہوگئے۔
★_ دونوں کے درمیان کچھ دیر تک تلواروں کے وار ہوتے رہے،یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے۔اس وقت تک حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی الله عنہما اپنے اپنے مقابل کا صفایا کرچکےتھے۔لہذا وہ دونوں ان کی طرف بڑھے اور عتبہ کو ختم کردیا۔ پھر زخمی عبیدہ بن حارت رضی الله عنہ کو اٹھا کر لشکر میں لے آئے۔انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لٹا دیا گیا۔ انہوں نے پوچھا:
" اے الله کے رسول!کیا میں شہید نہیں ہوں؟ "
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: -" میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو۔"
اس کے بعد صفراء کے مقام پر حضرت عبیدہ بن حارث رضی الله عنہ کا انتقال ہوگیا۔انہیں وہی دفن کیا گیا، جب کہ حضور صلی الله علیہ وسلم غزوہ بدر سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ منوره کی طرف لوٹ رہے تھے۔
★_ جنگ سے پہلے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم کی صفوں کو ایک نیزے کے ذریعے سیدھا کیا تھا۔صفوں کو سیدھا کرتے ہوئے حضرت سواد بن غزیہ رضی الله عنہ کے پاس سے گذرے،یہ صف سے قدرے آگے بڑھے ہوئے تھے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک تیر سے ان کے پیٹ کو چھوا اور فرمایا: -" سواد!صف سے آگے نہ نکلو،سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔"
اس پر حضرت سواد رضی الله عنہ نے عرض کیا: - " الله کے رسول!آپ نے مجھے اس تیر سے تکلیف پہنچائی۔آپ کو الله تعالیٰ نے حق اور انصاف دے کر بھیجا ہے لہذا مجھے بدلہ دے۔"
آپ نے فوراً اپنا پیٹ کھولا اور ان سے فرمایا: - " لو!تم اب اپنا بدلہ لے لو۔"
حضرت سواد آگے بڑھے اور آپ کے سینے سے لگ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بوسہ دیا۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا: - "سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ "
انہوں نے عرض کیا: -" الله کے رسول!آپ دیکھ رہے ہیں،جنگ سر پر ہے،اس لیے میں نے سوچا،آپ کے ساتھ زندگی کے جو آخری لمحات بسر ہوں،وہ اس طرح بسر ہوں کہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مس کررہا ہو...( یعنی اگر میں اس جنگ میں شہید ہوگیا تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں)۔
یہ سن کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
★_ ایک روایت میں آتا ہے،"جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو چھولیا،آگ اس جسم کو نہیں چھوئے گی۔"ایک روایت میں یوں ہے کہ"جو چیز بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو لگ گئی،آگ اسے نہیں جلائے گی۔"
★_ پھر جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کردیا تو فرمایا:
"جب دشمن قریب آجائے تو انہیں تیروں سے پیچھے ہٹانا اور اپنے تیر اس وقت تک نہ چلاؤ جب تک کہ وہ نزدیک نہ آجائیں۔( کیونکہ زیادہ فاصلے سے تیراندازی اکثر بے کار ثابت ہوتی ہےاور تیر ضائع ہوتے رہتے ہے)اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک کہ دشمن بالکل قریب نہ آجائے۔"
اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو یہ خطبہ دیا:
"مصیبت کے وقت صبر کرنے سے الله تعالیٰ پریشانیاں دور فرماتے ہیں۔اور غموں سے نجات عطا فرماتے ہیں۔"
★_ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان میں تشریف لے گئے۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ آپ کے ساتھ تھے۔سائبان کے دروازے پر حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ کچھ انصاری مسلمانوں کے ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے تاکہ دشمن کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھنے سے روک سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہاں سواریاں بھی موجود تھیں۔تاکہ ضرورت کے وقت آپ سوار ہوسکیں۔
★_ مسلمانوں میں سب سے پہلے مہجع رضی الله عنہ آگے بڑھے۔یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام تھے،عامر بن حضرمی نے انہیں تیر مارکر شہید کردیا۔
ادھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان میں الله تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرے کر یوں دعا کی: -"اے الله!اگر آج مومنوں کی جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔"
پھر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اپنے سائبان سے نکل کر صحابہ کے درمیان تشریف لائے اور انہیں جنگ پر ابھارنے کے لیے فرمایا: -" قسم ہے اس ذات کی،جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے،جو شخص بھی آج ان مشرکوں کے مقابلے میں صبر اور ہمت کے ساتھ لڑے گا،ان کے سامنے سینہ تانے جما رہے گا اور پیٹ نہیں پھیرے گا،الله تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ "
★_ حضرت عمیر بن حمام رضی الله عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ الفاظ سن کر کھجوریں ہاتھ سے گرادیں اور بولے: -" واہ واہ! تو، میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ان مشرکوں میں سے کوئی مجھے قتل کردے۔"
یہ کہتے ہی تلوار سونت کر دشمنوں سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
حضرت عوف بن عفراء رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: -" اللہ کے رسول! بندے کے کس عمل پر الله کو ہنسی آتی ہے۔"( یعنی اس کے کون سے عمل الله تعالیٰ خوش ہوتے ہیں)۔
جواب میں آپ نے فرمایا:
" جب کوئی مجاہد زرہ بکتر پہنے بغیر دشمن پر حملہ آوار ہو۔"
یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے جسم پر سےزرہ بکتر اتار کر پھینک دی اور تلوار سونت کر دشمن پر ٹوٹ پڑے،یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
★_ جنگ کے دوران حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور مشرکوں پر پھینک دی۔ایسا کرنے کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا تھا۔
کنکریوں کو مٹھی میں پھینکتے وقت حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: -" یہ چہرے خراب ہوجائیں۔"
ایک روایت کے مطابق یہ الفاظ آئے ہیں: -"اے اللہ!ان کے دلوں کو خوف سے بھردے،ان کے پاؤں اکھاڑ دیں۔"
الله کے حکم اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعا سے کوئی مشرک ایسا نہ بچا جس پر وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ان کنکریوں نے ان کو بد حواس کردیا۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شکست کھاکر بھاگے۔ مسلمان ان کا پیچھا کرنے لگے۔انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔
★_ کنکریوں کی مٹھی کے بارے میں الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: - "اور اے نبی!کنکریوں کی مٹھی آپ نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔"( سورہ الا نفال: آیت 17)
★_ بدر کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد فرمائی تھی۔اس روز حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے نہایت سرفروشی سے جنگ کی۔ان کے جسم پر بہت بڑے بڑے زخم آۓ۔
★_ اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی عنایت فرمائی۔ وہ چھڑی ان کے ہاتھ میں آتے ہی معجزاتی طور پر ایک چمک دار تلوار بن گئی۔حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ اس تلوار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔اس تلوار کا نام عون رکھا گیا۔یہ تلوار تمام غزوات میں حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور اسی تلوار سے وہ جنگ کیا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد یہ تلوار ان کی اولاد کو وراثت میں ملتی رہی،ایک سے دوسرے کے پاس پہنچتی رہی۔
★_ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ کی تلوار بھی ٹوٹ گئی تھی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی جڑ عطا فرمائی اور فرمایا:- ”اس سے لڑو“
انہوں نے جونہی اس جڑ کو ہاتھ میں لیا،وہ ایک نہایت بہترین تلوار بن گئی اور اس غزوہ کے بعد ان کے پاس رہی۔
★_ حضرت خبیب بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مشرک نے میرے دادا پر تلوار کا وار کیا۔اس وار میں ان کی ایک پسلی الگ ہو گئی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب دہن لگا کر ٹوٹی پسلی اس کی جگہ رکھ دی۔وہ پسلی اپنی جگہ پر اس طرح جم گئی جیسے ٹوٹی ہی نہیں تھی۔
★_ حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک تیر میری آنکھ میں آکر لگا،میری آنکھ پھوٹ گئی۔میں اسی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا،آنکھ اسی وقت ٹھیک ہو گئی اور زندگی بھر اس آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
★_ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ مشرکوں کی لاشوں کو ان جگہوں سے اٹھا لایا جاۓ جہاں جہاں ان کے قتل ہونے کی نشان دہی کی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ان شاءاللہ کل یہ عتبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہوگی،یہ شیبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہو گی۔یہ امیہ بن خلف کے قتل کی جگہ ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان جگہوں کی نشان دہی فرمائی تھی۔۔۔اب جب لاشیں جمع کرنے کا حکم ملا اور صحابہ کرام لاشوں کی تلاش میں نکلے تو مشرکوں کی لاشیں بالکل انہی جگہوں پر پڑی ملیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لاشوں کو ایک گڑھے میں ڈالنے کا حکم فرمایا۔
★_ جب تمام مشرکوں کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس گڑھے کے ایک کنارے پر آکھڑے ہوئے...وہ وقت رات کا تھا۔بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی غزوہ میں فتح حاصل ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اسی مقام پر تین رات قیام فرمایا کرتے تھے۔ تیسرے دن آپ نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی۔مدینہ منوره میں فتح کی خبر حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ لائے تھے۔انہوں نے یہ خوش خبری بلند آواز میں یوں سنائی:
"اے گروہ انصار!تمہیں خوش خبری ہو،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکوں کے قتل اور گرفتاری کی۔قریشی سرداروں میں سے فلاں فلاں قتل اور فلاں فلاں گرفتار ہوگئے ہیں۔"
★_ فتح کی یہ خبر وہاں اس وقت پہنچی جب مدینہ منورہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی صاحبزادی وفات پاچکی تھیں اور ان کے شوہر حضرت عثمان رضی الله عنہ اور وہاں موجود صحابہ کرام ان کو دفن کر کے قبر کی مٹی برابر کررہے تھے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جب حضرت رقیہ رضی الله عنہا کی وفات کی اطلاع دی گئی تو ارشاد فرمایا:
" الحمد اللّٰه!اللّٰه تعالیٰ کا شکر ہے۔شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔"
★_ فتح کی خبر سن کر ایک منافق بولا:
"اصل بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھی شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے ہیں،اور اب وہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکیں گے،محمد(صلی الله علیہ وسلم )بیٹھ کر آئے ہیں،اگر محمد(صلی الله علیہ وسلم )زندہ ہوتے تو اپنی اونٹنی پر خود سوار ہوتے مگر یہ زید ایسے بدحواس ہورہے ہیں کہ انہیں خود بھی پتا نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ "
اس پر حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے اس سے کہا:
"اوہ الله کے دشمن!محمد صلی الله علیہ وسلم کو آلینے دے،پھر تجھے معلوم ہوجائے گا...کسے فتح ہوئی اور کسے شکست ہوئی ہے؟"
★_ پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں صفراء کی گھاٹی میں پہنچے تو اس جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔اس مال میں ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے تھے،اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان، ہتھیار،کپڑے اور بے شمار کھالیں،اون وغیرہ بھی اس مال غنیمت میں شامل تھا۔یہ چیزیں مشرک تجارت کے لیے ساتھ لے آئے تھے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس مال میں سے ان لوگوں کے بھی حصے نکالے،جو غزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوسکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں خودآنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کیونکہ حضرت رقیہ رضی الله عنہ بہت بیمار تھیں اور خود حضرت عثمان رضی الله عنہ کو چیچک نکلی ہوئی تھی،اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اصحاب بدر میں شمار فرمایا۔
★_ اسی طرح حضرت ابولبابہ رضی الله عنہ تھے،انہیں خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے پاس بطور محافظ چھوڑا تھا۔اور حضرت عاصم بن عدی رضی الله عنہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبا اور عالیہ والوں کے پاس چھوڑا تھا۔
اسی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کا بھی حصہ نکالا جنہیں جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ دشمن کی خبر لائیں۔یہ لوگ اس وقت واپس لوٹے تھے جب جنگ ختم ہوچکی تھی
۔
اسی مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے قریش کے
قیدیوں میں سے نضر بن حارث کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔یہ شخص قرآن کریم اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا تھا۔اسی طرح کچھ آگے چل کر آپ نے عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم فرمایا۔یہ بھی بہت فتنہ پرور تھا۔اس نے ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر تھوکنے کی کوشش بھی کی تھی اور ایک بار حضور صلی الله علیہ وسلم کو نماز میں سجدے کی حالت میں دیکھ کر اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی گردن پر اونٹ کی اوجھ لا کر رکھ دی تھی۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا:
"مکہ سے باہر میں جب بھی تجھ سے ملوں گا تو اس حالت میں ملوں گا کہ تلوار سے تیرا سر قلم کروں گا۔"
اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے اور پھر مدینہ منوره کے قریب پہنچ گئے۔یہاں لوگ مدینہ منوره سے باہر نکل آئے تھے تاکہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کا استقبال کرسکیں اور فتح کی مبارک باد دے سکیں۔
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ منوره میں داخل ہوئے تو شہر کی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کیا۔وہ اس وقت یہ گیت گارہی تھیں:
"ہمارے سامنے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے،اس نعمت کے بدلے میں ہم پر ہمیشہ اللّٰه تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔"
دوسری طرف مکہ معظمہ میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی،خبر لانے والے نے پکار کر کہا:
"لوگو!عتبہ اور شیبہ قتل ہوگئے،ابوجہل اور امیہ بھی قتل ہوگئے اور قریش کے سرداروں میں سے فلاں فلاں بھی قتل ہوگئے...فلاں فلاں گرفتار کرلیے گئے۔"
یہ خبر وحشت ناک تھی۔خبر سن کر ابولہب گھسٹا ہوا باہر آیا۔اسی وقت ابوسفیان بن حارث رضی الله عنہ وہاں پہنچے،یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔یہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ابولہب نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا:
"میرے نزدیک آؤ اور سناؤ.... کیا خبر ہے؟"
╨─────────────────────❥
*★_ بدر میں فتح کے بعد _,*
★_ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ منوره میں داخل ہوئے تو شہر کی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کیا۔وہ اس وقت یہ گیت گارہی تھیں:
"ہمارے سامنے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے،اس نعمت کے بدلے میں ہم پر ہمیشہ اللّٰه تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔"
★_ دوسری طرف مکہ معظمہ میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی،خبر لانے والے نے پکار کر کہا:
"لوگو!عتبہ اور شیبہ قتل ہوگئے،ابوجہل اور امیہ بھی قتل ہوگئے اور قریش کے سرداروں میں سے فلاں فلاں بھی قتل ہوگئے...فلاں فلاں گرفتار کرلیے گئے۔"
یہ خبر وحشت ناک تھی۔خبر سن کر ابولہب گھسٹا ہوا باہر آیا۔اسی وقت ابوسفیان بن حارث رضی الله عنہ وہاں پہنچے،یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔یہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ابولہب نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا:
"میرے نزدیک آؤ اور سناؤ.... کیا خبر ہے؟"
★_ ابوسفیان بن حارث (رضی اللہ عنہ) نے جواب میں میدان جنگ کی جو کیفیت سنائی،وہ یہ تھی:
"خدا کی قسم!بس یوں سمجھ لو کہ جیسے ہی ہمارا دشمن سے ٹکراؤ ہوا،ہم نے گویا اپنی گردنیں ان کے سامنے پیش کردیں،اور انہوں نے جیسے چاہا،ہمیں قتل کرنا شروع کردیا،جیسے چاہاگرفتار کیا،پھر بھی میں قریش کو الزام نہیں دوں گا،کیونکہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے پڑا ہے،وہ سفید رنگ کے تھے اور سیاہ اور سفید رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے،وہ زمین اور آسمان کے درمیان پھر رہے تھے-اللہ کی قسم ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی-"
★_ ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،یہ سنتے ہی میں نے کہا:
"تب تو خدا کی قسم وہ فرشتے تھے-"
میری بات سنتے ہی ابولہب غصہ میں آ گیا اس نے پوری طاقت سے تھپڑ میرے منھ پر دے مارا-پھر مجھے اٹھا کر پٹخ دیا اور میرے سینے پر چڑھ کر مجھے بے تحاشا مارنے لگا-
وہاں میری مالکن یعنی ام فضل بھی موجود تھیں- انہوں نے ایک لکڑی کا پایہ اٹھا کر اتنے زور سے ابولہب کو مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا-ساتھ ہی ام فضل نے سخت لہجے میں کہا:
"تو اسے اس لیے کمزور سمجھ کر مار رہا ہے کہ اس کا آقا یہاں موجود نہیں-"
★_ اس طرح ابولہب ذلیل ہوکر وہاں سے رخصت ہوا-جنگ بدر میں اس قدر ذلت آمیز شکست کے بعد ابولہب سات روز سے زیادہ زندہ نہ رہا-طاعون میں مبتلا ہوکر مرگیا- اسے دفن کرنے کی جرأت بھی کوئی نہیں کررہا تھا-آخر اسی حالت میں اس کی لاش سڑنے لگی،شدید بدبو پھیل گئی-تب اس کے بیٹوں نے ایک گڑھا کھودا اور لکڑی کے ذریعے اس کی لاش کو گڑھے میں دھکیل دیا- پھر دور ہی سے سنگ باری کرکے اس گڑھے کو پتھروں سے پاٹ دیا-
★_ اس شکست پر مکہ کی عورتوں نے کئی ماہ تک اپنے قتل ہونے والوں کا سوگ منایا-اس جنگ میں اسود بن ذمعہ نامی مشرک کی تین اولادیں ہلاک ہوئیں-یہ وہ شخص تھا کہ مکہ میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا تھا،تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑایا کرتا تھااور کہتا تھا:
"لوگو!دیکھو تو!تمہارے سامنے روئے زمین کے بادشاہ پھررہے ہیں جو قیصر و کسری کے ملکوں کو فتح کریں گے!!!"
اس کی تکلیف دہ باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اندھا ہونے کی بددعا دی تھی،اس بددعا سے وہ اندھا ہوگیا تھا-
★_ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اندھا ہونے اور اس کی اولاد کے ختم ہوجانے کی بددعا فرمائی تھی-اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا قبول فرمائی،چنانچہ پہلے وہ اندھا ہوا،پھر اس کی اولاد جنگ بدر میں ماری گئی-
★_ جنگ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ فرمایا-حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ ان کو فدیہ لے کررہا کردیا جائے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض مصلحتوں کے تحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ پسند فرمایا اور ان لوگوں کی جان بخشی کردی، ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا-
تاہم اس سلسلے میں اللہ تعالٰی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کرتے ہوئے سورۃ الأنفال کی آیت 67تا70 نازل فرمائی-ان آیات میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کو قتل کیا جانا چاہیے تھا-
★_ بدر کے قیدیوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند ابوالعاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے-اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں تھیں-جب زینب رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا کہ فدیہ لے کررہا کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تو انہوں نے شوہر کے فدیہ میں اپنا ہار بھیج دیا-یہ ہار حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا-فدیے میں یہ ہار ابوالعاص رضی اللہ عنہ کا بھائی لے کر آیا تھا-اس نے ہار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا-ہار کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے-حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آ گئیں-حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
"تم مناسب سمجھو تو زینب کے شوہر کو رہا کردو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو-"
صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً کہا:-"ضرور یا رسول اللہ!
★_ چنانچہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو رہا کردیا گیا اور زینب رضی اللہ عنہا کا ہار لوٹادیا گیا-البتہ آپ نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے وعدہ لیا تھا کہ مکہ جاتے ہی وہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں گے- انھوں نے وعدہ کرلیا-
: ★_ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی شادی ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے اس وقت ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع نہیں کی تھی-جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع کی تو مشرکین نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ پر زور دیا تھا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دیں،لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا-البتہ ابولہب کے دونوں بیٹوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی-ابھی صرف ان کا نکاح ہوا تھا،رخصتی نہیں ہوئی تھی-جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تھا کہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مشرکوں کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی-ابوالعاص رضی اللہ عنہ غزوہ بدر کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوگئے تھے-
★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو لانے کے لیے مدینہ منورہ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا-ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے وعدے کے مطابق انہیں ان کے ساتھ بھیج دیا(اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا تھا)اس طرح وہ مدینہ آگئیں-راستے میں دشمنوں نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی تھی،لیکن ابوالعاص کے بھائی ان کے راستے میں آگئے اور مشرک ناکام رہے-
★_ قیدیوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید بن ولید (رضی اللہ عنہ) بھی تھے-انہیں ان کے بھائی ہشام اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے رہا کرایا-ان کا فدیہ ادا کیا گیا-جب وہ انہیں لے کر مکہ پہنچے تو وہاں انھوں نے اسلام قبول کرلیا-اس پران کے بھائی بہت بگڑے-انھوں نے کہا:
"اگر تم نے مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا تھا تو وہیں مدینہ میں کیوں نہیں ہوگئے-"
★_ بھائیوں کی بات کے جواب میں حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ بولے:
میں نے سوچا،اگر میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوگیا تو لوگ کہیں گے، میں قید سے گھبرا کر مسلمان ہوگیا ہوں-"
اب انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بھائیوں نے ان کو قید کردیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کے لیے قنوت نازلہ میں رہائی کی دعا فرمانے لگے-آخر ایک دن ولید بن ولید رضی اللہ عنہ مکہ سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ منورہ پہنچ گئے-
★_ ایسے ہی ایک قیدی حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ(جو بعد میں اسلام لائے)نے بھی غزوہ بدر میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور شکست کے بعد قیدی بنالیے گئے تھے-وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عمیر تھا....ان کے ایک دوست تھے، صفوان (رضی اللہ عنہ)-ان دونوں دوستوں کا تعلق مکہ کے قریش سے تھا-دونوں اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے-ایک روز یہ دونوں حجر اسود کے پاس بیٹھے تھے-دونوں بدر میں قریش کی شکست کے بارے میں باتیں کرنے لگے... قتل ہونے والے بڑے بڑے سرداروں کا ذکر کرنے لگے،
★_ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اللہ کی قسم!ان سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہوگیا ہے-"
یہ سن کر عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"تم سچ کہتے ہو،خدا کی قسم!اگر مجھ پر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے پیچھے بیوی بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)کے پاس پہنچ کر انہیں قتل کردیتا (معاذ اللہ)- میرے پاس وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے،میرا اپنا بیٹا وہب ان کی قید میں ہے،وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھا..."
یہ سننا تھا کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرتے ہوئے کہا:
"تمہارا قرض میرے ذمہ ہے،وہ میں ادا کروں گا اور تمہارے بیوی بچوں کی ذمہ داری بھی میرے ذمے ہے، جب تک وہ زندہ رہیں گے،میں ان کی کفالت کروں گا-"
عمیر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا پختہ عزم کرلیا اور کہا:
"بس تو پھر ٹھیک ہے،یہ معاملہ میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گا...نہ تم کسی سے اس ساری بات کا ذکر کروگے،نہ میں-"
★_ صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا-عمیر رضی اللہ عنہ نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی،اس کی دھار کو تیز کیا اور پھر اس کو زہر میں بجھایا-پھر مکہ سے مدینہ کا رخ کیا-
مسجد نبوی میں پہنچ کر عمیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے غزوہ بدر کی باتیں کررہے تھے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر ان پر پڑی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ انھوں نے عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ لی تھی،انھوں نے کہا:- "یہ خدا کا دشمن ضرور کسی بُرے ارادے سے آیا ہے-"
_ پھر وہ فوراً وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا:- "اللہ کے رسول!خدا کا دشمن عمیر ننگی تلوار لیے آیا ہے-"
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"عمر!اسے میرے پاس اندر لے آؤ-"
★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً باہر نکلے،تلوار کا پٹکا پکڑ کر انہیں اندر کھینچ لائے-اس وقت وہاں کچھ انصاری موجود تھے-حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
"تم لوگ بھی میرے ساتھ اندر آجاؤ...کیونکہ مجھے اس کی نیت پر شک ہے-"
چنانچہ وہ اندر آگئے-آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمیر رضی اللہ عنہ کو اس طرح پکڑ کر لا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
" عمر!اسے چھوڑدو...عمیر!آگے آجاؤ-"
چنانچہ عمیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آگئے اور جاہلیت کے آداب کی طرح صبح بخیر کہا-حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"عمیر!ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام عنایت فرمایا ہے،جو جنت والوں کا سلام ہے...اب تم بتاؤ،تم کس لیے آئے ہو؟"
عمیر رضی اللہ عنہ بولے:
"میں اپنے قیدی بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں-"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:- "پھر اس تلوار کا کیا مطلب...سچ بتاؤ،کس لیے آئے ہو؟"
عمیر رضی اللہ عنہ بولے:
"میں واقعی اپنے بیٹے کی رہائی کے سلسلے میں آیا ہوں-"
★_ چونکہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے ارادے سے متعلق اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی پہلے سے بتادیا تھا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
نہیں عمیر!یہ بات نہیں...بلکہ بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تم اور صفوان حجراسود کے پاس بیٹھے تھے اور تم دونوں اپنے مقتولوں کے بارے میں باتیں کررہے تھے، ان مقتولوں کی جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور جنہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا-اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر تمہیں کسی کا قرض نہ ادا کرنا ہوتا اور پیچھے تمہیں اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جاکر"محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو قتل کردیتا-اس پر صفوان نے کہا تھا،اگر تم یہ کام کرڈالو تو قرض کی ادائیگی وہ کردےگا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی خیال وہی رکھےگا،ان کی کفالت کرےگا-مگر اللہ تعالٰی تمہارا ارادہ پورا ہونے نہیں دیں گے-"
★_ عمیر رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گئے،کیونکہ اس گفتگو کے بارے میں صرف انہیں پتا تھا یا صفوان رضی اللہ عنہ کو،چنانچہ اب عمیر رضی اللہ عنہ فوراً بول اُٹھے:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،اور اے اللہ کے رسول!آپ پر جو آسمان سے خبریں آیا کرتی ہیں اور جو وحی نازل ہوتی ہے،ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے،جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے...تو اُس وقت حجر اسود کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی ہماری گفتگو کی کسی کو خبر ہے،کیونکہ ہم نے رازداری کا عہد کیا تھا- اس لیے اللہ کی قسم!آپ کو اللہ تعالٰی کے سوا اور کوئی اس بات کی خبر نہیں دےسکتا،پس حمدوثنا ہے اس ذاتِ باری تعالٰی کے لیے جس نے اسلام کی طرف میری رہنمائی کی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق فرمائی-"
★_ اس کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے،تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
"اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور انہیں قرآن پاک پڑھاؤ اور ان کے قیدی کو رہا کرو-"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فوراً حکم کی تعمیل کی-
★_ اب حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"اے اللہ کے رسول!میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اللہ کے اس نور کو بجھادوں اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کرچکے ہیں،انہیں خوب تکالیف پہنچایا کرتا تھا-اب میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں،تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں-ممکن ہے،اللہ تعالٰی انہیں ہدایت عطا فرمادیں-"
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مکہ جانے کی اجازت دے دی،چنانچہ یہ واپس مکہ آگئے-ان کی تبلیغ سے ان کے بیٹے وہب رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے-
★_ جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ عمیر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ بھونچکا رہ گئے اور قسم کھا لی اب کبھی عمیر رضی اللہ عنہ سے نہیں بولیں گے-اپنے گھر والوں کو دین کی دعوت دینے کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ صفوان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پکار کہا:
"اے صفوان!تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو،تمہیں معلوم ہے کہ ہم پتھروں کو پوجتے رہے ہیں اور اور ان کے نام پر قربانیاں دیتے رہے ہیں،بھلا یہ بھی کوئی دین ہوا...میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں-"
_ ان کی بات سن کر صفوان رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا-بعد میں فتح مکہ کے موقع پر عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے امان طلب کی تھی اور پھر یہ بھی ایمان لے آئے تھے-(ان کے اسلام لانے کا قصہ فتح مکہ کے موقع پر تفصیل سے آئے گا-ان شاء اللہ)-
★_ اسی طرح ان قیدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے- صحابہ کرام نے انہیں بہت سختی سے باندھ رکھا تھا- رسی کی سختی انہیں بہت تکلیف دے رہی تھی اور وہ کراہ رہے تھے-ان کی اس تکلیف کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تمام رات بےچین رہے... جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس وجہ سے بےچین ہیں تو فوراً حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رسیاں ڈھیلی کردیں...یہی نہیں!باقی تمام قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردیں...پھر انھوں نے اپنا فدیہ ادا کیا اور رہا ہوئے،اسی موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تھے مگر انھوں نے مکہ والوں سے اپنا مسلمان ہونا پوشیدہ رکھا-
★_ قیدیوں میں ایک قیدی ابوعزہ جمحی بھی تھا-اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے التجا کی:
"اے اللہ کے رسول!میں بال بچوں والا آدمی ہوں اور خود بہت ضرورت مند ہوں...میں فدیہ نہیں ادا کرسکتا...مجھ پر رحم فرمائیں-"
یہ شاعر تھا،مسلمانوں کے خلاف شعر لکھ لکھ کر آپ کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا-اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی درخواست منظور فرمائی اور بغیر فدیے کے اسے رہا کردیا...البتہ اس سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں لکھے گا...اس نے وعدہ کرلیا،لیکن رہا ہونے کے بعد جب یہ مکہ پہنچا تو اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا-مسلمانوں کے خلاف اشعار لکھنے لگا-یہ مکہ کے مشرکوں سے کہا کرتا تھا:
"میں نے محمد پر جادو کردیا تھا،اس لیے انھوں نے مجھے بغیر فدیے کے رہا کردیا-"
★_ اگلے سال یہ شخص غزوہ احد کے موقع پر مشرکوں کے لشکر میں شامل ہوا اور اپنے اشعار سے کافروں کو جوش دلاتا رہا-اسی لڑائی میں یہ قتل ہوا-
╨─────────────────────❥
★_ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی رخصتی _,*
★_ بدر کے فتح کی خبر شاہِ حبشہ تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے-حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے مسلمان اس وقت تک حبشہ ہی میں تھے-شاہِ حبشہ نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر یہ خوش خبری سنائی-
بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ بدری کہلائے- انہیں بہت فضیلت حاصل ہے-
★_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالٰی نے اصحابِ بدر پر اپنا خاص فضل و کرم فرمایا ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جو چاہو کرو،میں تمہارے گناہ معاف کرچکا......یا یہ فرمایا کہ تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے-"
مطلب یہ ہے کہ ان کے سابقہ گناہ تو معاف ہو ہی چکے ہیں،آئندہ بھی اگر ان سے کوئی گناہ ہوئے تو وہ بھی معاف ہیں-
★_ غزوہ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی-شادی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے پوچھا:
"بیٹی تمہارے چچازاد بھائی علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے تمہارا رشتہ آیا ہے،تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟"
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں-گویا انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا-تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے پوچھا:
"تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟"(یعنی شادی کے لیے کیا انتظام ہے؟)
انھوں نے جواب دیا:
"میرے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے-"
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے،البتہ تم زرہ کو فروخت کردو-"
★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ چارسواسی درہم میں فروخت کردی اور رقم لاکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کردی-
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ شادی کے سلسلے میں حضرت علی اپنی زرہ بیچ رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا:
"یہ زرہ اسلام کے شہسوار علی کی ہے،یہ ہرگز فروخت نہیں ہونی چاہیے-"
پھر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو بلایا اور انہیں چارسو درہم دیتے ہوئے کہا:
یہ درہم اس زرہ کے بدلے میں علی کو دے دیں-"
ساتھ ہی انھوں نے زرہ بھی واپس کردی. ..بہرحال اس طرح شادی کا خرچ پورا ہوا-
★_ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا خطبہ پڑھا- پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے لیے دعا فرمائی-
★_ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح _,*
★_ غزوہ بدر کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا-حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا-یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے-ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا-
★_ یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
"زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالٰی نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے-"
اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی...تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے-
★_ دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا-اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی- اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی-
╨─────────────────────❥
: *★_ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح _,*
★_ غزوہ بدر کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا-حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا-یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے-ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا-
★_ یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
"زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالٰی نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے-"
اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی...تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے-
★_ دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا-اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی- اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی-
╨─────────────────────❥
*★_ غزوہ احد کی تیاری _,*
★_ 3ھ میں غزوہ احد پیش آیا-احد پہاڑ مدینہ منورہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے-اس پہاڑ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں-جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا پھل تبرک کے طور پر کھا لیا کرو،چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو-"
★_ غزوہ احد کیوں ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ بدر میں مشرکوں کو بدترین شکست ہوئی تھی- سب جمع ہوکر اپنے سردار حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا:
"بدر کی لڑائی میں ہمارے بے شمار آدمی میں قتل ہوئے ہیں-ہم ان کے خون کا بدلہ لیں گے...آپ تجارت سے جو مال کما کر لاتے ہیں،اس مال کے نفع سے جنگ کی تیاری کی جائے-"
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات منظور کرلی اور جنگ کی تیاریاں زورشور سے شروع ہوگئیں-کہا جاتا ہے کہ سامانِ تجارت سے جو نفع ہوا تھا،وہ پچاس ہزار دینار تھا-
★_ آخر قریشی لشکر مکہ معظمہ سے نکلا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا-قریش کے لشکر میں عورتیں بھی تھیں-عورتیں بدر میں مارے جانے والوں کا نوحہ کرتی جاتی تھیں-اس طرح یہ اپنے مردوں میں جوش پیدا کررہی تھیں،انہیں شکست کھانے یا میدان جنگ سے بھاگ جانے پر شرم دلا رہی تھیں-
★_ قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھیجی-انہوں نے یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے بھیجی- خط لے جانے والے نے تین دن رات مسلسل سفر کیا اور یہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا-آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت قبا میں تھے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے مدینہ منورہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قریشی لشکر سے مقابلے کے سلسلے میں مشورہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ قریش پر شہر سے باہر حملہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر اپنا دفاع کیا جائے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ کرو،ان لوگوں کو وہیں رہنے دو،جہاں وہ ہیں،اگر وہ وہاں پڑے رہتے ہیں تو وہ جگہ ان کے لیے بدترین ثابت ہوگی اور اگر ان لوگوں نے شہر میں آ کر ہم پر حملہ کیا تو ہم شہر میں ان سے جنگ کریں گے اور شہر کے پیچ و خم کو ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں-"
: ★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رائے دی تھی،تمام بڑے صحابہ کرام کی بھی وہی رائے تھی-منافقوں کے سردار عبداللہ ابن اُبی نے بھی یہی مشورہ دیا-یہ شخص ظاہر میں مسلمان تھا اور اپنے لوگوں کا سردار تھا-
★_ دوسری طرف کچھ پرجوش نوجوان صحابہ اور پختہ عمر کے صحابہ یہ چاہتے تھے کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے-یہ مشورہ دینے والوں میں زیادہ وہ لوگ تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور انہیں اس کا بہت افسوس تھا-وہ اپنے دلوں کے ارمان نکالنا چاہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے کہا:
"ہمیں ساتھ لے کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے باہر چلیں تاکہ وہ ہمیں کمزور اور بزدل نہ سمجھیں،ورنہ ان کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ہمیں دھکیلتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آئیں اور اے اللہ کے رسول!جو شخص بھی ہمارے علاقے میں آیا،ہم سے شکست کھاکر گیا ہے،اب تو آپ ہمارے درمیان موجود ہیں،اب دشمن سے کیسے ہم پر غالب آسکتا ہے؟"
حضرت حمزہ رضی االلہ عنہ نے بھی ان کی تائید کی-آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات مان لی- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا-انہیں حکم دیا:
" مسلمانو! پوری تن دہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کرنا،اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے،اب دشمن کے سامنے جاکر لڑنے کی تیاری کرو-"
★_ لوگ یہ حکم سن کر خوش ہوگئے-اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی-اس وقت تک ارد گرد سے بھی لوگ آگئے تھے- پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تشریف لے گئے-ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنایا-باہر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور صفیں باندھے کھڑے تھے-
★_ اس وقت حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں سے کہا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی،تم لوگوں نے انہیں باہر نکل کر لڑنے پر مجبور کیا...بہتر ہوگا،تم اب بھی اس معاملے کو ان پر چھوڑ دو-حضورصلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں گے،ان کی جو بھی رائے ہوگی،بھلائی اسی میں ہوگی،اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمابرداری کرو-"
[
: ★_ باہر یہ بات ہورہی تھی،اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی لباس پہن رکھا تھا،دوہری زرہ پہن رکھی تھی- ان زرہوں کا نام ذات الفضول اور فضہ تھا-یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی قینقاع سے مال غنیمت سے ملی تھیں-
ان میں سے ذات الفضول وہ ذرہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہودی کی رقم ادا کرکے اسے واپس لیا تھا- زرہیں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے لباس کے اوپر پہن رکھی تھیں-
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تین پرچم بنوائے-ایک پرچم قبیلہ اوس کا تھا-یہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-دوسرا پرچم مہاجرین کا تھا،یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-تیسرا پرچم قبیلہ خزرج کا تھا،یہ حباب بن منذر رضی اللہ عنہ یا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا-
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے-لشکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما چل رہے تھے-یہ دونوں قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا،مدینہ منورہ سے کوچ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیہ کے مقام پر پہنچے- پھر یہاں سے روانہ ہوکر شیخین کے مقام پر پہنچے، شیخین دو پہاڑوں کا نام تھا-یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم عمر نوجوانوں کو واپس بھیج دیا-یہ ایسے نوجوان تھے جو ابھی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے-ان میں رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما بھی تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی-
★_ یہ دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا:
"آپ نے رافع کو اجازت دے دی جب کہ مجھے واپس جانے کا حکم فرمایا،حالانکہ میں رافع سے زیادہ طاقت ور ہوں-"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- "اچھا تو پھر تم دونوں میں کشتی ہوجائے-"
دونوں میں کشتی کا مقابلہ ہوا،سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا-اس طرح انہیں بھی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوگئی-
: ★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کے معائنے سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوگیا-حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اذان دی-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی- پھر عشاء کی نماز ادا کی گئی-نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے-رات کے وقت پہرہ دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس مجاہدوں کو مقرر کیا-ان کا سالار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا-یہ تمام رات اسلامی لشکر کے گرد پہرہ دیتے رہے-رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین سے کوچ فرمایا اور صبح کی نماز کے وقت احد پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔
★_ اسلامی لشکر نے جہاں پڑاؤ ڈالا اس مقام کا نام شوط تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں فجر کی نماز ادا فرمائی۔اس وقت لشکر میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا، یہ منافق تھا۔اس کے ساتھ تین سو جوان تھے، یہ سب کے سب منافق تھے۔اس مقام پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی نے کہا! _ "آپ نے میری بات نہیں مانی اور ان نوعمرلڑکوں کا مشورہ مانا۔حالانکہ ان کا مشورہ کوئی مشورہ ہی نہیں ہے۔اب خود ہی ہماری رائے کے بارے میں اندازہ ہوجائے گا، ہم بلاوجہ کیوں جانیں دیں۔اس لیئے ساتھیو! واپس چلو. "
اس طرح یہ لوگ واپس لوٹ گئے۔اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات سو صحابہ رہ گئے۔
★_ اس روز مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور دوسرا ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔شوط کے مقام سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی گھاٹی میں پڑاؤ ڈالا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالتےوقت اس بات کا خیال رکھا کہ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی طرف رہے۔
اس جگہ رات بسر کی گئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی آذان دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صفیں قائم کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔نماز کے بعد حضور ﷺ نے مسلمانوں کو خطبہ دیا ۔اس میں جہاد کے بارےمیں ارشاد فرمایا ۔جہاد کے علاوہ حضور ﷺ نے حلال روزی کمانے کے بارےمیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا:
جبرئیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ وحی ڈالی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اپنے حصے کے رزق کا ایک ایک دانہ حاصل نہیں کرلیتا (چاہے کچھ دیر میں حاصل ہو مگر اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی) ۔اس لیے اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور رزق کی طلب میں نیک راستے اختیار کرو (ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے کہ رزق میں دیر لگنے کی وجہ سے تم الله کی نافرمانی حاصل کرنے لگو) ۔
★_آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
ایک مومن کا دوسرے مومن سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسے سر اور بدن کا رشتہ ہوتاہے ۔اگر سر میں تکلیف ہو تو سارا بدن درد سے کانپ اٹھتا ہے....
╨─────────────────────❥
*★_ معرکہ احد کا آغاز _,*
★_اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ۔مشرکوں کے لشکر کے دائیں بائیں خالد بن ولید اور عکرمہ تھے ۔یہ دونوں حضرات اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ دے کر فرمایا:
تم خالد بن ولید کےمقابلے پر رہنا اور اس وقت تک حرکت نہ کرنا جب تک کہ میں اجازت نہ دوں ۔پھر آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کے ایک دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس درے پر متعین فرمایا جو مسلمانوں کی پشت پر تھا ۔
★_ اس درے پر پچاس تیر انداز مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پشت کی طرف سے دشمن حملہ نہ کرسکے ۔حضور اکرم ﷺ نے ان پچاس تیر اندازوں سے فرمایا: تم مشرکوں کے گھڑ سوار دستوں کو تیر اندازی کرکے ہم سے دور ہی رکھنا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پشت کی طرف سے آکر حملہ کردیں، ہمیں چاہے فتح ہو یا شکست.....تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا ۔
★_ اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے ایک تلوار نکالی اور فرمایا:
کون مجھ سے یہ تلوار لےکر اس کا حق ادا کرسکتا ہے؟...
اس پر کئی صحابہ کرام اٹھ کر آپ ﷺ کی طرف لپکے، لیکن آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں نہيں دی ۔ان حضرات میں حضرت علی رضی الله عنہ بھی تھے ۔آپ ﷺ نے ان صحابہ سے فرمایا: -بیٹھ جاؤ ۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی وہ تلوار لینے کی تین بار کوشش کی، مگر آپ ﷺ نے ہر مرتبہ انکار کردیا ۔آخر صحابہ کے مجمع میں سے حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: _میں اس تلوار کا حق ادا کروں گا ۔
آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں عطا فرمادی ۔
★_ابودجانہ رضی الله عنہ بےحد بہادر تھے، جنگ کے دوران غرور کے انداز میں اکڑ کر چلا کرتےتھے ۔جب آپ ﷺ نے انہیں دونوں لشکروں کے درمیان اکڑ کر چلتے دیکھا تو فرمایا: یہ چال ایسی ہے جس سے اللہ تعالی نفرت فرماتا ہے،سوائے اس قسم کے موقعوں کے ۔(یعنی دشمنوں کا سامنا کرتے وقت یہ چال جائز ہے تاکہ یہ ظاہر ہوکہ ایسا شخص دشمن سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہے اور نہ اسے دشمن کے جنگی ساز و سامان کی پروا ہے ۔)
★_ پھر دونوں لشکر ایک دوسرے کے بالکل نزدیک آگئے ۔اس وقت مشرکوں کے لشکر سے ایک اونٹ سوار آگے نکلا اور مبارزت طلب کی یعنی مقابلے کے لیے للکارا ۔اس نے تین مرتبہ پکارا۔تب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اسلامی صفوں سے نکل کر اس کی طرف بڑھے ۔حضرت زبیر رضی الله عنہ اس وقت پیدل تھے ۔جب کہ دشمن اونٹ پر سوار تھا ۔اس کے نزدیک پہنچتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہ ایک دم زور سے اچھلے اور اس کی اونچائی کے برابر پہنچ گئے ۔ساتھ ہی انہوں نے اس کی گردن پکڑلی....دونوں میں اونٹ پر ہی زورآزمائی ہونے لگی ۔ان کی زورآزمائی دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
ان میں سے جو پہلے نیچے گرے گا، وہی مارا جائےگا ۔اچانک وہ مشرک نیچے گرا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس پر گرے، گرتے ہی انہوں نے فوراﹰ ہی اس پر تلوار کا وار کیا اور وہ جہنم رسید ہوگیا ۔
:
★_ آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی:
ہر نبی کا ایک حواری (یعنی خاص ساتھی) ہوتاہے اور میرے حواری زبیر ہیں ۔پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔اگر اس مشرک کے مقابلے کے لیے زبیر نہ نکلتے تو میں خود نکلتا ۔اس کے بعد مشرکوں کی صفوں میں سے ایک اور شخص نکلا ۔اس کا نام طلحہ بن ابو طلحہ تھا ۔یہ قبیلہ عبدالدار سے تھا ۔اس کے ہاتھ میں پرچم تھا ۔اب اس نے مبارزت طلب کی ۔اس نے بھی کئی بار مسلمانوں کو للکارا، تب حضرت علی رضی الله عنہ مسلمانوں کی صفوں میں سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے، اب ان دونوں میں مقابلہ شروع ہوا ۔دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کے وار کیے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک وار اس کی ٹانگ پر لگا ۔ٹانگ کٹ گئی ۔وہ بری طرح گرا اور اس کے کپڑے الٹ گئے ۔اس طرح وہ برہنہ ہوگیا ۔وہ پکار اٹھا:
میرے بھائی میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔
★_حضرت علی رضی الله عنہ طلحہ بن ابو طلحہ کو چھوڑ کر لوٹ آئے... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
"اے علی! تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ "
انہوں نے عرض کیا: -"اللّٰه کے رسول! اس نے مجھے خدا کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی تھی۔"
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: -"اسے قتل کر آؤ۔"
چنانچہ حضرت علی رضی الله عنہ گئے اور اسے قتل کرڈالا۔اس کے قتل کے بعد مشرکوں کا پرچم اس کے بھائی عثمان بن ابوطلحہ نے لے لیا۔اس کے مقابلے پر حضرت حمزہ رضی الله عنہ آئے۔انہوں نے اس کے نزدیک پہچتے ہی تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کا کندھا کٹ گیا۔ وہ گر پڑا، اور دوسرے وار سے انہوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔
★_اب طلحہ کا بیٹا مسافع آگے بڑھا۔حضرت عاصم بن ثابت بن ابوالافلح رضی الله عنہ نے اس پر تیر چلایا، وہ بھی ہلاک ہوگیا۔اس کے بعد اس کا بھائی حارث میدان میں نکلا، حضرت عاصم رضی الله عنہ نے اسے بھی تاک کر تیر مارا، وہ بھی مارا گیا۔
ان دونوں کی ماں بھی لشکر میں موجود تھی۔اس کا نام سلافہ تھا۔اس کے دونوں بیٹوں نے ماں کی گود میں دم توڑا۔مرنے سے پہلے سلافہ نے پوچھا:
"بیٹے! تمہیں کس نے زخمی کیا ہے؟"
ایک بیٹے نے جواب دیا: -"میں نے اس کی آواز سنی ہے، تیر چلانے سے پہلے اس نے کہا تھا، لے اس کو سنبھال، میں ابوالافلح کا بیٹا ہوں۔"
اس جملے سے سلافہ جان گئی کہ وہ تیر انداز حضرت عاصم بن ثابت رضی الله عنہ ہیں، چنانچہ اس نے قسم کھائی۔
"اگر عاصم کا سر میرے ہاتھ لگا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔"
ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی عاصم بن ثابت کا سر کاٹ کر لائے گا، میں اسے سو اونٹ انعام میں دوں گی۔"
★_جب عام جنگ شروع ہوئی دونوں لشکر ایک دوسرے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوئے۔ اس جنگ کے شروع ہی میں مشرکوں کے گھڑسوار دستے نے تین مرتبہ اسلامی لشکر پر حملہ کیا۔مگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے اوپر تیراندازوں کا جو دستہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہر مرتبہ تیروں کی باڑھ مارکر اس دستے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا تھا۔مشرکین تینوں مرتبہ بدحواسی کے عالم میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
اس کے بعد مسلمانوں نے مشرکوں پر بھرپور حملہ کیا۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مشرکوں کی طاقت کو زبردست نقصان پہنچا۔اس وقت لڑائی پورے زوروں پر تھی۔
: ★_ مشرکوں کی عورتوں میں ہندہ بھی تھی۔ یہ ابوسفیان کی بیوی تھی۔ اس وقت تک یہ اسلام نہ لائی تھیں اور مسلمانوں کی سخت ترین دشمن اور بہت تند مزاج تھیں۔انہوں نے اپنے ہاتھوں میں دف لےلیا، اور ان کے ساتھ دوسری عورتیں بھی تھیں... انہوں نے بھی دف لے لیے۔اب سب مل کر دف بجانے لگیں اور گیت گانے لگیں۔یہ قدم انہوں نے اپنے مردوں کو جوش دلانے کے لئے اٹھایا۔
★_ ادھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابودجانہ رضی الله عنہ کو جو تلوار عطا فرمائی تھی، انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا تو میرے تین مرتبہ تلوار مانگنے کے باوجود آپ نے وہ تلوار مجھے مرحمت نہ فرمائی، حالانکہ میں آپ کا پھوپھی زاد تھا۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تلوار ابودجانہ کو دے دی تو میں نے دل میں کہا، دیکھتا ہوں کہ یہ اس تلوار کا حق کس طرح ادا کرتے ہیں؟ اس کے بعد میں نے ان کا پیچھا کیا اور سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا رہا۔میں نے دیکھا انھوں نے اپنے موزے میں سےایک سرخ رنگ کی پٹی نکالی، اس پٹی پر ایک طرف لکھا تھا، اللّٰه کی مدد اور فتح قریب ہے۔دوسری طرف لکھا تھا، جنگ میں بزدلی شرم کی بات ہے، جو میدان سے بھاگا وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکتا۔
★_یہ پٹی نکال کر انھوں نے اپنے سر پر باندھ لی۔انصاری مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بول اٹھے: _"ابودجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے۔"
انصاریوں میں یہ بات مشہور تھی کہ حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ جب یہ پٹی سر پر باندھ لیتے تو پھر دشمنوں پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابلے پر ٹک نہیں سکتا۔
چنانچہ اس پٹی کے باندھنے کے بعد انہوں نے انتہائی خوفناک انداز میں جنگ شروع کردی۔وہ دشمن پر موت بن کر گرے، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔دشمنوں کو اس حد تک قتل کیا کہ آخر یہ تلوار مڑگئ اور مڑ کر درانتی جیسی ہوگئ۔
اس وقت مسلمان پکار اٹھے:
"ابودجانہ نے واقعی تلوار کا حق ادا کردیا۔"
★_ حضرت حمزہ رضی الله عنہ بھی ان کی طرح انتہائی سرفروشی سے جنگ کر رہے تھے۔ اس روز حضرت حمزہ رضی الله عنہ بیک وقت دو تلواروں سے لڑ رہے تھے، یعنی ان کے دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں... حضرت حمزہ رضی الله عنہ اس روز اس قدر دلیری سے لڑے کہ ان کے ہاتھ سے 31 مشرک مارے گئے۔سباع کو قتل کرنے کے بعد وہ اس کی ذرہ اتارنے کے لیے جھکے۔اس وقت حضرت وحشی کی نظر ان پر پڑی جو اس وقت مشرکین کے لشکر میں شامل تھے۔جھکنے کی وجہ سے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی ذرہ پیٹ پر سے سرک گئ تھی۔
★_ حضرت وحشی یہ واقعہ سناتے ہوئے فرماتے تھے "میں نے فوراً نیزہ تاک کر مارا، وہ ان کے پیٹ میں لگا، میں ان کی طرف بڑھا۔انہوں نے مجھے دیکھا اور شدید زخمی حالت کے باوجود انہوں نے اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن پھر کمزوری کی وجہ سے گر گئے۔کچھ دیر تک میں ایک طرف دبکا رہا جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ان کی روح نکل چکی ہے، تب ان کے قریب گیا۔وہ واقعی شہید ہوچکے تھے۔میں وہاں سے ہٹ آیا اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔کیونکہ مجھے صرف ان کے قتل سے دلچسپی تھی۔اور اس جنگ میں کسی کو قتل کرنے کی خواہش نہیں تھی... اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر میں نے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو قتل کردیا تو مجھے آزاد کر دیا جائے گا
★_ ۔"حضرت وحشی رضی الله عنہ حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنہہ کے غلام تھے اوروہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ادھر مشرکوں کے پرچم برادر جب ایک ایک کرکے ختم ہوگئے اور کوئی پرچم اٹھانے والا نہ رہا تو ان میں بذدلی پھیل گئی... وہ پسپا ہونے لگے۔پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ایسے میں وہ چیخ اور چلارہے تھے۔ ان کی عورتیں جو دیر پہلے جوش دلانے کے لیے اشعار پڑھ رہی تھیں، اپنے دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں۔ان پر بدحواسی اس قدر سوار ہوئی کہ اپنے کپڑے نوچنے لگیں۔
مسلمانوں نے جب دشمن کو بھاگتے دیکھا تو ان کا پیچھا کرنے لگے، ان کے ہتھیاروں اور مال غنیمت پر قبضہ کرنے لگے۔
اب یہاں..
★_ . اس موقع پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوگیا۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے درے پر پچاس تیرانداز مقرر فرمائے تھے اور انہیں واضح طور پر ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں... ان کے امیر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ تھے... اس دستے نے جب مشرکوں کو بھاگتے دیکھا اور مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو یہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔یہ دیکھ کر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ بولے: _ "کہاں جارہے ہوں؟ ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے ، اللّٰه کے رسول نے ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ جمے رہیں... اور یہاں سے نہ ہٹیں۔"
اس پر ان کے ساتھی بولے:
"اب مشرکوں کو شکست ہوگئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔"
★_ حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ انہیں روکتے رہ گئے۔ لیکن وہ نہ مانے اور میدان میں چلے گئے۔لیکن حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ اور چند ساتھی البتہ وہی رکے رہے، ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔انہوں نے نیچے کا رخ کرنے والوں سے کہا: _"ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کریں گے۔"
★_ اس وقت حضرت خالد بن ولید کی نظر درے پر پڑی۔یہ مشرکوں کے ایک دستے کے سالار تھے۔ اور لشکر کے دائیں بازو پر مقرر تھے۔شکست کے بعد یہ اس طرف سے پسپا ہو رہے تھے کہ درے پر نظر پڑی...جنگ کے دوران بھی یہ اس طرف سے بار بار حملہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے، لیکن پچاس تیرانداوں کے تیروں کی بوچھاڑ نے ان کی پیش قدمی روک دی تھی... اب انہوں نے دیکھا کہ وہاں پچاس کے بجائے چند مسلمان رہ گئے ہیں تو یہ اپنے دستے کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئے۔ان کے دستے کے ساتھ ہی عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے دستے کے ساتھ اس طرف پلٹ پڑے۔
اس طرح پورے دو دستوں نے ان چند مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ان کا یہ حملہ اس قدر زبردست تھا کہ پہلے ہی حملے میں حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔
★_اب ان دونوں دستوں نے اس درے کی طرف سے مسلمانوں کی پشت پر اچانک بہت زور کا حملہ کیا۔مسلمان اس وقت مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے۔ان میں سے اکثر نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لی تھیں۔اس تابڑ توڑ حملے نے انہیں بدحواس کردیا۔ مسلمان اس حملے سے اس قدر بدحواس ہوئے کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔اس وقت تک انہوں نے جتنے مشرکوں کو قیدی بنالیا تھا یا جتنا مال غنیمت لوٹ چکے تھے وہ سب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
مشرکوں کا پرچم اس وقت زمین پر پڑا تھا... ایک مشرک عورت بنت علقمہ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے لپک کر اس کو اٹھا لیا اور بلند کردیا۔اب تک جو مشرک بھاگ رہے تھے، وہ بھی اپنے پرچم کو بلند ہوتے دیکھ کر پلٹ پڑے وہ جان گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے۔اب سب دوڑ دوڑ کر اپنے پرچم کے گرد جمع ہونے لگے اور بدحواس مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔
★_ ایسے میں ایک مشرک ابن قمہ نے پکار کر کہا: _ "محمد قتل کردیئے گئے۔"( معاذ الله )
اس خبر نے مسلمانوں کو اور زیادہ بدحواس کردیا۔
ایسے میں کسی صحابی نے کہا:
"اب جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قتل ہوچکے ہیں تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ "
اس پر کچھ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کہا:
"اگر اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی کے دین کے لیے لڑوگے، تاکہ تم شہید کی حیثیت سے اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوں۔"
حضرت ثابت بن وحداح رضی الله عنہ نے پکار کر کہا:
"اے گروہ انصار! اگر محمد صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اللّٰه تعالیٰ تو زندہ ہے، اسے تو موت نہیں آسکتی۔اپنے دین کے لیے لڑو، اللہ تعالیٰ فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے۔"
★_ یہ سنتے ہی انصار کے ایک گروہ نے مشرکوں کے اس دستے پر حملہ کردیا۔جس میں خالدبن ولید، عکرمہ بن ابوجہل، عمرو بن عاص اور ضرار بن خطاب موجود تھے اور یہ چاروں زبردست جنگ جو تھے۔انصار کے حملے کے جواب میں خالد بن ولید نے ان پر جوابی حملہ کیا۔اس جوابی حملے میں ابن وحداح رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔
★_ ۔دوسری طرف مسلمانوں کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے مشرکوں کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کردیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی جگہ پر جمے رہے، اس عالم میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمارہے تھے:
"اے فلاں! میری طرف آؤ، اے فلاں! میری طرف آؤ، میں الله کا رسول ہوں۔"
ہر طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی... اس حالت میں ان تیروں سے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ۔
★_ اس نازک وقت میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت آپ صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع رہی... یہ جماعت مشرکوں کے مسلسل حملوں کو روک رہی تھی۔خود کو پروانوں کی طرح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر قربان کررہی تھی۔ان میں حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ بھی تھے۔ وہ دشمن کے وار اپنی ڈھال پر روک رہے تھے۔وہ بہت اچھے تیرانداز تھے، نشانہ بہت پختہ تھا۔چنانچہ دشمنوں پر مسلسل تیر بھی چلارہے تھے اور کہتے جاتے تھے: _"میری جان آپ پر فدا ہوجائے، میرا چہرہ آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔"
★_ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو کسی مسلمان کے ترکش میں تیر نظر آتے تو اس سے فرماتے: _"اپنا ترکش ابوطلحہ کے سامنے الٹ دو۔"
حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہ نے اس روز اس قدر تیراندازی کی کہ ان کے ہاتھ سے تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دشمن کو دیکھنے کے لیے سر اوپر کرتے تو حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہہ پکار اٹھتے:
"اے اللّٰه کے رسول! آپ اپنا سر اوپر نہ کریں... کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔"
پھر خود پنجوں کے بل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالکل سامنے آجاتے تاکہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں... کوئی تیر لگے تو مجھ کو لگے۔
★_ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس جو صحابہ کرام رضی الله عنہم موجود تھے، انہوں نے دشمنوں سے زبردست جنگ کی۔ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ بھی تھے۔یہ بھی زبردست تیرانداز تھے۔یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تیر اٹھا اٹھا کر مجھے دے رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔
"اے سعد! تیراندازی کرتے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔"
وہ فرماتے ہیں:"حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے مجھے ایک تیر ایسا بھی ملا جس کے سرے پر پھل( تیز دھار نوک والا حصہ)نہیں تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا کہ تیر کا پھل نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"یہی تیر چلاؤ ۔"
اس پر حضرت سعد رضی الله عنہہ نے دعا کرتے ہوئے کہا:
"اے اللّٰه! یہ تیرا تیر ہے، تو اس کو دشمن کے سینے میں پیوست کردے۔"
ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے:
"اے اللّٰه! سعد کی دعا قبول فرما۔اے اللّٰه! اس کی تیراندازی کو درست فرما۔"
★_پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا ترکش خالی ہوگیا، تیر ختم ہوگئے،تب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ترکش ان کے سامنے الٹ دیا، حضرت سعد رضی الله عنہہ پھر تیر چلانے لگے...
★_ کہا جاتا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی الله عنہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے کسی نے پوچھا:
"آپ کی دعائیں کیوں فوراً قبول ہوتی ہیں۔"
انہوں نے جواب دیا:
"میں زندگی بھر کوئی لقمہ یہ جانے بغیر منہ تک نہیں لے گیا کی یہ کہاں سے آیا ہے؟ "
(مطلب یہ کہ ہمیشہ حلال کھایا ہے۔)
★_اس بارے میں حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب بھی کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔"
اس سلسلے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
"جس کا کمانا حرام ہو، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا لباس حرام ہو، اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟ "
★_اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے ۔ہر تیر پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
"تیراندازی کرو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔"
حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ جملہ حضرت سعد کے علاوه کسی اور کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔"
★_حضرت سعد رضی الله عنہ رشتہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
"یہ سعد میرے ماموں ہیں، کوئی مجھے ایسا ماموں تو دکھائے۔"
اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ کے علاوہ حضرت سہیل بن حنیف رضی الله عنہ نے بھی تیر چلائے جوکہ اس نازک وقت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں شامل تھے۔
[
★_حضرت زید بن عاصم رضی الله عنہ کی بیوی حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہ اس روز مجاہدوں کو پانی پلارہی تھی، جب جنگ کا پانسہ پلٹا مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی تو یہ اس وقت بھی زخمیوں کو پانی پلارہی تھی۔
حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کا اصل نام نؤسیبہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اور مشرکوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں، جلدی سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچیں اور تلوار کے ذریعے دشمنوں سے لڑنے لگیں۔تلوار چلاتے چلاتے جب زخمی ہوگئیں، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چلانے لگیں۔
★_ایسے میں انہوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا، وہ یہ کہتا ہوا چلا آرہا تھا:
"مجھے بتاؤ... محمد کہاں ہیں؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا۔"
یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔، جب وہ قریب آیا تو حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا اور مصعب بن عمیر رضی الله عنہ نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ان کے وار سے محفوظ رہا۔ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللّٰه تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔"
اس پر حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے عرض کیا:
"اللّٰه کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے الله انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔"
★_ اس وقت حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے کہا:
"اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔"
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، اُمّ عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں سے لڑ رہی ہیں۔"
غزوہ احد میں حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔
★_اس روز حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔
★_اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ رضی الله عنہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"انہیں میرے قریب لاؤ۔"
ان کی خوش قسمتی دیکھیئے کہ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور صلی الله علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیے اور اسی حالت میں جان دے دی... کس قدر مبارک موت تھی ان کی!!
★_ اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطلاع دی کہ اس نے رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے، حالانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا۔
★_ اسی دوران ابی بن خلف رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اسے میری طرف آنے دو۔"
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے:
"اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟ "
پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھودی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر اس ہلکی سی خراش ہی سے وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا... وہ کہہ رہا تھا:
"خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔"
مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا:
"تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا... تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے... اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا... لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے ایسی خراش پر تو ہم اف بھی نہیں کرتے۔"
اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہا:
"لات اور عزیٰ کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں۔"
“★_بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا:
"اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔"
اس کی بکواس سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم پر فرماتے تھے"انشاءاللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔"
اب جب اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا... وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبیح کیے ہوئے بیل کی طرح ذکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔
★_ ایک حدیث میں آتا ہے:
"وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔"
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں"سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو۔"
★_ احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز مشرق ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں، یہ شخص حضرت حنظلہ رضی الله عنہ کا باپ تھا... اور حضرت حنظلہ رضی الله عنہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔
لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک گڑھے میں گرگئے، حضرت علی رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو گرتے دیکھا، انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً آپ صلی الله علیہ وسلم کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اوپر اٹھاکر باہر نکالا۔
★_ آپ صلی الله علیہ وسلم جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو پتھر مارا۔اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے جالیا، میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فوراً اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللّٰه تم سے راضی ہوگیا، اللّٰه تم سے راضی ہوگیا۔"
★_ اس حملے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خود( لوہے کی ٹوپی ) بھی ٹوٹا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے خود کی دو کڑیاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابن قمیہ کو بددعا دی:
"اللّٰه تجھے ذلیل کردے اور برباد کردے۔"
★_اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی۔ اس جنگ کے بعد جب ابن قمیہ اپنی بکریوں کے گلّے میں پہنچا تو انہیں لے کر پہاڑ پر چڑھا، وہ بکریوں اور مینڈھوں کو گھیر گھیر کر لے جارہا تھا کہ اچانک ایک مینڈھے نے اس پر حملہ کردیا، اس نے اسے اس زور سے سینگ مارا کہ وہ پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
★_ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خون بہنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:
"وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اس لیے خون سے رنگین کردیا کہ وہ انہیں ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔"
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں خود کی کڑیاں گھس گئی تھیں، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو کھینچ کھینچ کر نکالا، اس کوشش کے دوران ان کا اپنا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ بہرحال کڑی نکل گئی، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ایک دانت اور ٹوٹ گیا...تاہم کڑی نکل گئی۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے کے بعد ان کا چہرہ بدنما ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوگیا۔
★_جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا اور پکارے:
"اے مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ موجود ہیں۔"
جب مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا تو پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے ساتھ ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہم تھے۔
★_پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ فرمایا جو گھاٹی کے اندر ابھری ہوئی تھی، لیکن زخموں سے خون نکل جانے اور زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چڑھ نہ سکے، یہ دیکھ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:_"طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان پر جنت واجب ہوگئی۔"
★_ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی، جب یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلے تو چال میں لنگڑاہٹ تھی، اب ان کی کوشش یہ تھی کہ لنگڑاہٹ نہ ہو...تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے کی برکت سے ان کی لنگراہٹ دور ہوگئی۔
★_ اس وقت تک جنگ کی یہ خبریں مدینہ منورہ میں پہنچ چکی تھیں، لہٰذا وہاں سے عورتیں میدان احد کی طرف چل پڑیں، ان میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی دیکھا تو بے اختیار آپ سے لپٹ گئیں، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو دھویا، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی ڈالنے لگے، لیکن زخموں سے خون اور زیادہ بہنے لگا، تب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلایا، جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ راکھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں میں بھر دی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بہنے کا سلسلہ رکا۔
★_اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، کمزوری کی وجہ سے یہ نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔
اس لڑائی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر تقریباً 70 زخم آئے، یہ نیزوں، برچھوں اور تلواروں کے تھے، تلوار کے ایک وار سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں، دوسرے ہاتھ میں ان کو ایک تیر آ کر لگا تھا، اس سے مسلسل خون بہنے لگا، یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس سے انہیں ہوش آیا تو فوراً پوچھا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:_"خیریت سے ہیں۔"
یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:_"اللہ کا شکر ہے، ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے۔"
★_حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے تھے۔
احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا...اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے...اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا:
"یہ شخص جہنمی ہے۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر بہت حیران ہوئے۔
╨─────────────────────❥
: *★_ قزمان کا واقعہ _,*
★_حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے تھے۔
★_ احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا...اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے...اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا:-"یہ شخص جہنمی ہے۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر بہت حیران ہوئے۔
★_ جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے اس پر وہ بولا:
"مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔"
اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا...پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی...اس طرح وہ حرام موت مرا۔
★_ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:- "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"
آپ نے دریافت فرمایا:-- "کیا ہوا؟"
جواب میں اس نے کہا:-- "آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس نے خودکشی کرلی ہے۔"
اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی،
★_ اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا...جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا...اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا:
"تم یہاں کیسے آگئے...قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟"
اصیرم نے جواب دیا:
"میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی...یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔"
*★_ حضرت حنظلہ اور عمرو بن جموح رضی اللہ عنہما کی شہادت _,*
★_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم رضی اللہ عنہ کی طرف ہوتا تھا۔
★_ اس لڑائی میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا...یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔"
اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو "غسیل الملائکہ" کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔
★_ اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا:
"ہم جا رہے ہیں...آپ نہ جائیں۔"
اس پر عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ حضور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے:
اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں...مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-- "تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔"
دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹوں سے فرمایا:-- "تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔"
★_ یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی:
اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔"
چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں...انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔"
*★_ مشرکین کی واپسی _,*
★_ حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"یہ اونٹ مامور ہے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔"
★_ اس سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دعا کی تھی: اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔
چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا،
★_ مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا...یعنی ان کے ناک کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔
لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے...مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی...کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:-- "دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔"
★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے...میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں۔"
اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں۔"
★_ ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔
★_ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام عرض کرنا _,*
★_ ان صحابی نے فوراً حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کہا:
رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تمہارا حال پوچھتے ہیں
زندوں میں ہو یا مردوں میں ہو
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں اب مردوں میں ہوں۔ میرے جسم پر نیزوں کے بارہ زخم لگے ہیں، میں اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ مجھ میں سکت باقی تھی۔ اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابن ربیع آپ کے لئے عرض کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہی بہترین جزا عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے نبی کو مل سکتی ہے، نیز میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچادینا اور ان سے کہنا کہ سعد بن ربیع تم سے کہتا ہے کہ اگر ایسی صورت میں تم نے دشمن کو اللہ کے نبی تک پہنچنے دیا کہ تم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے تو اس جرم کے لئے اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔
★_ یہ کہنے کے چند لمحے بعد ہی ان کی روح نکل گئی۔ وہ انصاری صحابی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ سعد پر رحمت فرمائے، اس نے صرف اللہ اور رسول کے لئے زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی (دونوں حالتوں میں) خیر خواہی کی ہے۔
★__ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی دو صاحبزادیاں تھیں، ان کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضٰ اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے آئیں۔ آپ نے ان کے لئے چادر بچھادی۔ ایسے میں حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ خاتون کون ہیں؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
اے خلیفہ رسول وہ کون شخص تھا؟
آپ نے فرمایا:
وہ شخص وہ تھا جو سبقت کرکے جنت میں پہنچ گیا، میں اور تم رہ گئے، یہ سعد بن ربیع کی صاحبزادی ہیں۔
★_ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے۔ اس وقت ایک شخص نے عرض کیا:
میں نے انہیں چٹانوں کے قریب دیکھا ہے، وہ اس وقت کہہ رہے تھے، میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔
اس کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چٹانوں کی طرف چلے جہاں اس شخص نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا، آخری وادی کے درمیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کی لاش نظر آئی۔ حالت یہ تھی کہ ان کا پیٹ چاک تھا اور ناک کان کاٹ ڈالے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ منظر بہت دردناک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-- اس جیسا تکلیف دہ منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
★_ پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خوب روئے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حمزہ رضی الله عنہہ کی لاش پر روئے۔
╨─────────────────────❥
[*★_ حضرت حمزہ رضی الله عنہہ اور احد کے شہداء کا جنازہ _,*
★_ اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی الله عنہہ سے فرمایا:
"اپنی والدہ کو اس طرف نہ آنے دینا، وہ پیارے چچا کی نعش دیکھنے نہ پائیں ۔"
حضرت زبیر رضی الله عنہہ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ رضی الله عنہا تھا، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہہ کی بہن تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔حکم سنتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہہ مدینہ منورہ کے راستے پر پہنچ گئے۔اس طرف سے حضرت صفیہ رضی الله عنہا چلی آرہی تھیں، وہ انہیں دیکھتے ہی بولے:
"ماں! آپ واپس چلی جائیں۔"
اس پر حضرت صفیہ رضی الله عنہا نے بیٹے کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:
"کیوں چلی جاؤں؟... مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، مگر یہ سب خدا کی راہ میں ہوا ہے، میں انشاءاللہ صبر کا دامن نہیں چھوڑوں گی۔"
★_ ان کا جواب سن کر حضرت زبیر رضی الله عنہہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کا جواب آپ کو بتایا، تب آپ نے فرمایا: -"اچھا! انہیں آنے دو۔"
چنانچہ انہوں نے آکر بھائی کی لاش کو دیکھا:- "اناللہ واناالیہ وراجعون" پڑھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"حمزہ کے لیے کفن کا انتظام کرو۔"
ایک انصاری صحابی آگے بڑھے۔انہوں نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔پھر ایک صحابی آگے بڑھا، انہوں نے بھی اپنی چادر ان پر ڈال دی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہہ سے فرمایا:
"جابر! ان میں سے ایک چادر تمہارے والد کے لیے اور دوسری چادر میرے چچا کے لیے ہوگی۔"
★_ حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو بھی کفن کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا تھا... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: -"سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔"
یہ مصعب بن عمیر رضی الله عنہ وہ تھے جو اسلام لانے سے پہلے قیمتی لباس پہنتے تھے، ان کا لباس خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا۔آج ان کی میت کے لیے پورا کفن بھی میسر نہیں تھا۔
باقی شہداء کو اسی طرح کفن دیا گیا،ایک ایک چادر میں دو دو تین تین لاشوں کو لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
★_ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی الله عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی:
"اے اللّٰه! کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے... پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ! تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت وجہ سے اور اس وقت الله تعالیٰ فرمائیں، تو نے سچ کہا۔"
چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔
★& اس جنگ میں حضرت جابر کے والد عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح رضی الله عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی....لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا.... بالکل تروتازہ تھیں... یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا... کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا... ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔
: *★_ : شہداء کا مرتبہ __,*
★_ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہہ نے اپنے دور میں میدان احد سے ایک نہر کھدوائ، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں... لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں، نرم، ملائم تھیں۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ احد کے چالیس سال بعد کا ہے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پاؤں میں کدال لگ گئی۔
★_ کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے پاؤں سے خون جاری ہوگیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی..
_ یہ واقعہ غزوہ احد کے تقریباﹰ پچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منوره کی مٹی اس قدر شور( نمکیات والی )ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں۔
★_ اسی طرح حضرت خارجہ بن زید رضی الله عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی الله عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہداء کو احد سے مدینہ منوره لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان احد ہی میں دفن کیا جائے۔
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا:
"میں ان سب کا گواہ ہوں... جو زخم بھی کسی کو اللّٰه تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللّٰه تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔"
★_ غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت جابر رضی الله عنہ کے والد عبداللہ رضی الله عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہ سے فرمایا:
"اے جابر! کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں؟... اور وہ یہ کہ جب بھی اللّٰه تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا یے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا: "اے باری تعالیٰ! مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں۔"
اس پر اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
"یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹاؤں۔ "
انہوں نے عرض کیا؛ -"پروردگار! جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔"
اس پر اللّٰه تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ: "اور اے مخاطب! جو لوگ اللّٰه کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں۔"
*★_ شہداء کا مرتبہ-2__,*
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا... جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا: - "رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کیا حال ہیں؟ "
لوگوں نے بتایا: -"الله کا شکر ہے... آپ بخیر و عافیت ہیں۔"
اس پر عورت نے کہا: -"میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔"
پھر جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں: - "آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔" یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں۔
★_ غزوۂ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا... یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا، اور اس بارے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا:
"آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "کاٹو نہیں ۔"
پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سےاس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی:
"اے اللّٰه! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔"
چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی... حضرت قتادہ رضی الله عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
★_ ایک اور صحابی کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا... وہ فوراً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔
غزوہ احد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔
ترجمہ: "اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہی تو ہیں، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔"( سورۃ آل عمران: آیت 144 )
جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم قتل کردیئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔
★_ غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت گھوڑے پر سوار تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت شہداء اور ان کے عزیزوں کے لیے یہ دعا فرمائی:
"اے اللّٰه! ان کے دلوں سے رنج اور غم کو مٹادے، ان کی مصیبتوں کو دور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔"
: *★_ مدینہ منورہ میں آمد _,*
★_ غزوۂ احد میں 70 کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔مرنے والے مشرکوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے، جب اللّٰه کے رسول مدینہ منوره پہنچے تو مسلمانوں کی شکست پر منافقوں اور یہودیوں کی زبانیں کھل گئیں۔وہ کھلے عام مسلمانوں کو برا کہنے لگے، خوشی سے بغلیں بجانے لگے۔ان لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بھی کہے، مثلا وہ کہتے پھرتے تھے:
"محمد صرف حکومت کرنے کے شوقین ہیں۔آج تک کسی نبی نے اس طرح نقصان نہیں اٹھایا جس طرح انہوں نے اٹھایا ہے، خود بھی زخمی ہوئے اور اپنے اتنے ساتھیوں کو بھی مروایا ہے۔"( معاذاللہ )
کبھی کہتے: - "تمہارے جو ساتھی مارے گئے، اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو اس طرح اپنی جانیں نہ گنواتے۔"
★_ حضرت عمر رضی الله عنہہ تک ان کی یہ باتیں پہنچیں تو انہیں بہت غصہ آیا۔انہوں نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا؛ -"اے الله کے رسول! آپ ہمیں ان لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دیں۔"
یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: -"کیا یہ لوگ یعنی منافقین ظاہر میں مسلمان نہیں ہیں۔کیا یہ کلمہ نہیں پڑتے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں۔"
حضرت عمر رضی الله عنہہ نے عرض کیا: -"بے شک کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ ایسا تلوار کے خوف سے کرتے ہیں، اب ان کی حقیقت ظاہر ہوچکی ہے، ان دلوں میں جو کینہ اور فساد ہے وہ سامنے آگیا ہے۔"
یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: -"جو شخص اسلام کا اعلان کرے، چاہے ظاہری طور پر ہی کرے، مجھے اس کے قتل کی ممانعت کردی گئی ۔"
★_ غزوہ احد کے دوسرے ہی روز، صبح سویرے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا قاصد مدینہ منوره میں یہ اعلان کررہا تھا: --"مسلمانو! قریش کا تعاقب کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔"
یہ اعلان قریش کو ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہوجائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے تعاقُّب میں تشریف لارہے ہیں - اور ساتھ میں انھیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی طاقت موجود ہے - اُحد کی شکست کی وجہ سے وہ کمزور نہیں ہوگئے -
★_ اس طرح تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روانہ ہوئے سب لوگ زخمی تھے لیکن کسی نے بھی اپنے زخموں کی پرواہ نہ کی -...... جبکہ حالت یہ تھی کہ بنو سلمہ کے چالیس آدمی زخمی ہوئے تھے - خود اللّہ کے رسول بھی زخمی تھے - اور اسی حالت میں صحابہ کو لیکر روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زخموں کی صورت یہ تھی کہ چہرہ مبارک زرہ کے گڑجانے کی وجہ سے زخمی تھا - چہرہ مبارک پر پتھر کا ایک زخم بھی تھا - نچلا ہونٹ اندر کی طرف سے زخمی تھا - ایک روایت میں اوپر کا ہونٹ زخمی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے - ان زخموں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دایاں کندھا بھی زخمی تھا - اس کندھے پر ابن قیمیہ نے اس وقت وار کیا تھا جب آپ گڑھے میں گرے تھے گڑھے میں گِر جانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے -
╨─────────────────────❥
*★_ غزوہِ حمراءالاسد _,*
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حمراءالاسد کے مقام پر ٹھہرا - یہ جگہ مدینہ منوّرہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے - اس مقام پر مسلمانوں نے تین دِن تک قیام کیا - ہر رات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑاو میں جگہ جگہ آگ روشن کرتے رہے تاکہ دشمن کو دور سے روشنیاں نظر آتی رہیں - اس تدبیر سے دشمن نے خیال کیا کہ مسلمان بڑی تعداد کے ساتھ آئے ہیں - چنانچہ ان پر رعب پڑ گیا -
اس مہم کو غزوۂ حمراءالاسد کہا جاتا ہے - حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوے میں مسلمانوں کے پاس کھانے کے لیے صرف کھجوریں تھیں یا صرف اونٹ ذبح کیے جاتے تھے -
★_ مشرکین نے جب یہ خبر سنیں کہ مسلمان تو ایک بار پھر تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو وہ مکّہ کی طرف لوٹ گئے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مدینہ کوچ فرمایا -
★_ اسی سال یعنی ٣ہجری میں شراب حرام ہوئی -
۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر پیش آیا - اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ضروری معاملہ میں بنو نضیر سے بات طئے کرنا تھی - یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو کسی کا خون بہادینا پڑا تو بنو نضیر بھی اس سلسلہ میں مدد کریں گے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب ان کے محلے میں تشریف لے گئے تو صحابۂ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ساتھ تھی - ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی - ان میں حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں پہنچ کر ان سے بات شروع کی تو وہ بولے :
"ہاں ہاں! کیوں نہیں.... ہم ابھی رقم ادا کردیتے ہیں " آپ پہلے کھانا کھالیں :" اس طرح وہ بظاہر بہت خوش ہوکر ملے " لیکن دراصل وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی سازش پہلے سے تیار کر چکے تھے -
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو انھوں نے ایک دیوار کے ساتھ بٹھایا - پھر ان میں سے ایک یہودی اس مکان کی چھت پر چڑھ گیا - وہ چھت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک بڑا سا پتھر گرانا چاہتا تھا - ابھی وہ ایسا کرنے ہی والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا - انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے باخبر کردیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے وہاں سے اٹھے - انداز ایسا تھا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو... آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر مدینہ منورہ لوٹ آئے -
★_ جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں دیر ہوئی صحابہ کرام حیران ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے - انہیں مدینہ منورہ سے آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا - اس نے بتایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر آرہا ہے - اب صحابہ رضی اللہ عنہم فوراً مدینہ منورہ پہنچے - تب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سازش کے بارے میں بتایا -
*★__ : غزوۂ بنی نظیر اور غزوۂ بنی مصطلق_,*
★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نظیر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ پیغام دیا:
"میرے شہر (یعنی مدینہ) سے نکل جاؤ، تم لوگ اب اس شہر میں نہیں رہ سکتے - اس لیے کہ تم نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ غداری تھی -"
تمام یہودیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہوں نے کیا سازش کی تھی، اس لیے کہ سب کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا - سازش کی تفصیل سن کر یہودی خاموش رہ گئے - کوئی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا - پھر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص بھی یہاں پایا گیا، اس کی گردن مار دی جائے گی -"
★_حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن کر یہودیوں نے وہاں سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں... اونٹوں وغیرہ کا انتظام کرنے لگے، لیکن ایسے میں منافقوں کی طرف سے انہیں پیغام ملا کہ اپنا گھربار اور وطن چھوڑ کر ہرگز کہیں نہ جاؤ، ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں، اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور اگر تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے -"
یہودیوں کو روکنے میں سب سے زیادہ کوشش منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے کی،
★_ بنی نظیر کو یہ پیغامات ملے تو انہوں نے جلاوطن ہونے کا خیال ترک کردیا... چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا:
"ہم اپنا وطن چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے... آپ کا جو جی چاہے، کرلیں -"
یہ پیغام سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ تکبیر بلند کیا، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا:_ "یہودی جنگ پر آمادہ ہیں لہٰذا ... تیاری کرو -"
اس وقت یہودیوں کو جنگ پر ابھارنے والا شخص حیی بن اخطب تھا، اسی شخص کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور ام المومنین کا اعزاز پایا - حیی بن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا،
★_ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ بنونظیر کی طرف روانہ ہوئے - اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - جنگی پرچم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا - نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلامی لشکر کے ساتھ آگے بڑھے - شام کے وقت مسلمان بنونظیر کی بستی میں پہنچ گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا - ادھر یہودی اپنی حویلیوں میں بند ہوگئے اور چھتوں پر سے تیر برسانے لگے، پتھر گرانے لگے -
★_ دوسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لکڑی کے ایک قبے(گنبد نما سائبان) میں قیام پذیر ہوئے، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بنایا تھا -
یہودیوں میں سے ایک شخص کا نام غزول تھا، وہ زبردست تیرانداز تھا... اس کا پھینکا ہوا تیر دور تک جاتا تھا - اس نے ایک تیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قبے کی طرف پھینکا - تیر وہاں تک پہنچ گیا - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے قبے کو ذرا دور منتقل کردیا -
★_ رات کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حیرت ہوئی، انہوں نے آپ سے عرض کیا:-"اے اللہ کے رسول! علی نظر نہیں آرہے؟"
آپ نے فرمایا:- "فکر نہ کرو، وہ ایک کام سے گئے ہیں -"
کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزول کا سر اٹھائے ہوئے آگئے - اب ساری صورتحال کا پتا چلا، جب غزول نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سائبان کی طرف تیر پھینکا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی وقت سے اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور آخر اس کا سر کاٹ لائے - اس کے ساتھ دس آدمی اور تھے، وہ غزول کو قتل ہوتے دیکھ کر بھاگ لیے تھے - نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دس آدمی اور بھی روانہ فرمائے تھے -
★_ بنونظیر کا محاصرہ جاری رہا، یہاں تک کہ چھ راتیں گزر گئیں - اس دوران منافق عبداللہ بن ابی برابر یہودیوں کو پیغامات بھیجتا رہا کہ تم اپنی حویلیوں میں ڈٹے رہو - ہم تمہاری مدد کو آرہے ہیں، لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی مدد نہیں پہنچی - اب تو یہود کا سردار حیی بن اخطب بہت پریشان ہوا... کچھ عقل مند یہودیوں نے اسے عبداللہ بن ابی کے مشورے پر عمل نہ کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن حیی بن اخطب نے ان کی بات نہیں مانی تھی - اب انہوں نے طعنے کے طور پر کہا:--"عبداللہ بن ابی کی وہ مدد کہاں گئی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا... اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے؟"
وہ کوئی جواب نہ دے سکا،
★_ یہودی اب بہت پریشان ہوچکے تھے، ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سختی سے ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، آخر اللہ تعالٰی نے یہودیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ انھیں یہاں سے نکل جانے دیا جائے... وہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جائیں گے، البتہ اپنا گھریلو سامان لے جائیں گے -"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی، چنانچہ یہودیوں نے اپنے اونٹوں پر اپنی عورتوں اور بچوں کو سوار کرلیا اور اپنا سارا سامان بھی اس پر لاد لیا، یہ کل چھ سو اونٹ تھے، ان اونٹوں پر بہت سا سونا چاندی اور قیمتی سامان تھا -
اس طرح بنی نظیر کے یہ یہودی جلاوطن ہوکر خیبر میں جابسے،
★__ غزوہ بنو نظیر کے بعد غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر ثانی اور غزوہ دومتہ الجندل پیش آئے... یہ چھوٹے چھوٹے غزوات تھے جو یکے بعد دیگرے پیش آئے - پھر غزوہ بنی مصطلق پیش آیا... قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا، اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار کیا، اس لشکر میں اس کی قوم کے علاوہ دوسرے عرب بھی شامل تھے -
اس اطلاع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جنگ کی تیاری کی، اسلامی لشکر 2شعبان 5ہجری کو روانہ ہوا،
★_ ادھر جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت سے لوگ بدحواس ہوکر حارث کا ساتھ چھوڑ گئے اور ادھر ادھر بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلے پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کے مشرکوں پر حملہ کردیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ان میں سے دس فوراً مارے گئے، باقی گرفتار ہوگئے، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا -
★_ ان قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بنت حارث بھی تھیں، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگئیں، اب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے برّہ سے طے کیا کہ اگر وہ نو اوقیہ سونا دےدیں تو وہ انہیں آزاد کردیں گے -
یہ سن کر برّہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:
"اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہوچکی ہوں، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، ہمارے ساتھ جو ہوا، اس کو آپ جانتے ہیں، میں قوم کے سردار کی بیٹی ہوں... ایک سردار کی بیٹی اچانک باندی بنالی گئی... ثابت بن قیس نے آزاد ہونے کے لیے میرے ذمہ جو سونا مقرر کیا ہے وہ میری طاقت سے کہیں زیادہ ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں -"
★_ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ بتادوں؟"
برّہ بولیں: -"وہ کیا اے اللہ کے رسول -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:- "تمہاری طرف سے سونا میں دے دیتا ہوں اور میں تم سے نکاح کرلوں -"
اس پر برّہ بولیں :- "اے اللہ کے رسول! میں تیار ہوں -"
چنانچہ آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو بلایا، برّہ کو ان سے مانگا، وہ بولے:
"اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! برّہ آپ کی ہوگئی -"
★_ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اتنا سونا ادا کردیا اور برّہ سے شادی کرلی، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی، ان کا نام برّہ سے جویریہ رکھا گیا، اس طرح وہ امّ المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہوگئیں - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوب صورت خاتون تھیں -
*★_ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہما کا خواب _,*
★__ بعد میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث ان کا فدیہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس فدیے میں بہت سے اونٹ تھے، حارث ابھی راستے میں تھا کہ اس کی نظر ان میں سے دو خوب صورت اونٹوں پر پڑی، اس نے ان دونوں کو وہیں عقیق کی گھاٹی میں چھپادیا اور باقی فدیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کرکے کہا:
"یہ فدیہ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں -"
اس کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:--"اور وہ دو اونٹ کیا ہوئے جنھیں تم عقیق کی گھاٹی میں چھپا آئے ہو؟"
حارث بن ابی ضرار یہ سنتے ہی پکار اٹھا:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں... اس بات کا علم میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں... اس سے ثابت ہوا، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں -"
★_ اس طرح وہ مسلمان ہوگئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن حارث بھی مسلمان ہوگئے، اس کے بعد بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا، کچھ سے فدیہ لیا گیا، کچھ بغیر فدیے کے چھوڑ دیے گئے -
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"بنی مصطلق پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چڑھائی سے تین دن پہلے میں نے خواب دیکھا کہ یثرب(مدینہ منورہ) سے چاند طلوع ہوا اور چلتے چلتے میری گود میں آرہا، پھر جب ہم قیدی بنالیے گئے تو میں نے خواب کے پورا ہونے کی آرزو کی... جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی -"
اس غزوہ سے فارغ ہوکے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آگیا۔
★_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوچ کا اعلان ہوتے ہی میں قضائے حاجت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور لشکر سے دور جنگل کی طرف چلی گئی، جب میں فارغ ہوگئی تو واپس لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئی، میرے گلے میں ایک ہار تھا، وہ ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا، مجھے اس کے گرنے کا پتا نہ چلا، جب اس کا خیال آیا تو ہار کی تلاش میں واپس جنگل کی طرف گئی، اس طرح اس ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی، لشکر میں جو لوگ میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا کرتے تھے، انہوں نے خیال کیا کہ میں ہودج میں موجود ہوں، انہوں نے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اور انہیں احساس نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں، کیونکہ میں دبلی پتلی اور کم وزن کی تھی... میں کھاتی بھی بہت کم تھی، جسم پر موٹاپے کے آثار نہیں تھے، اس طرح لشکر روانہ ہوگیا -(ہودج محمل کو کہتے ہیں، یہ ایک ڈولی نما چیز ہوتی ہے جو اونٹ پر نشست کے طور پر بلند کی جاتی ہے تاکہ عورت پردے میں رہے -)
★_ ادھر کافی تلاش کے بعد میرا ہار مل گیا اور میں لشکر کی طرف روانہ ہوئی، وہاں پہنچی تو لشکر جاچکا تھا، دور دور تک سناٹا تھا، میں جس جگہ ٹھہری ہوئی تھی، وہیں بیٹھ گئی... میں نے سوچا، جب انہیں میری گم شدگی کا پتا چلے گا تو سیدھے یہیں آئیں گے، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند نے آلیا - صفوان سلمی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے مجھے دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے مجھے پہچان لیا، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا، ان کی آواز سن کر میں جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی میں نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی -
★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا - " ماں! سوار ہوجایئے! "
میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا:
"حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل."
(اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا،
╨─────────────────────❥
*★_ منافقین کی سازش_,*
★_حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"_جب ہم لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کا موقع مل گیا - اس نے کہا:-- "یہ عورت کون ہے جسے صفوان ساتھ لایا ہے؟"
اس کے ساتھی منافق بول اٹھے:
"یہ عائشہ ہے... صفوان کے ساتھ آئی ہیں -"
اب یہ لوگ لگے باتیں کرنے... پھر جب لشکر مدینہ منورہ پہنچ گیا تو منافق عبداللہ بن اُبی دشمنی کی بنا پر اور اسلام سے اپنی نفرت کی بنیاد پر اس بات کو شہرت دینے لگا -
★_ امام بخاری لکھتے ہیں:--"جب منافق اس واقعہ کا ذکر کرتے تو عبداللہ بن اُبی بڑھ چڑھ کر ان کی تائید کرتا تاکہ اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے -"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"مدینہ منورہ آکر میں بیمار ہوگئی... میں ایک ماہ تک بیمار رہی، دوسری طرف منافق اس بات کو پھیلاتے رہے، بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے، اس طرح یہ باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک اور میرے ماں باپ تک پہنچیں، جب کہ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا... البتہ میں محسوس کرتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے پہلے کی طرح محبت سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ پہلے بیماری کے دنوں میں میرا خیال رکھتے تھے - (دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھرانے پر منافقین کی الزام تراشی سے سخت غمزدہ تھے اس فکر ورنج کی وجہ سے گھر والوں سے اچھی طرح گھل مل بات کرنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طرزِ عمل سے میں پریشان رہنے لگی، میری بیماری کم ہوئی تو اُمّ مسطح رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ باتیں بتائی جو لوگوں میں پھیل رہی تھیں، ام مسطح رضی اللہ عنہا نے خود اپنے بیٹے مسطح کو بھی برا بھلا کہا کہ وہ بھی اس بارے میں یہی کچھ کہتا پھرتا ہے..
★_ . یہ سنتے ہی میرا مرض لوٹ آیا، مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، بخار پھر ہوگیا... گھر آئی تو بری طرح بےچین تھی، تمام رات روتے گزری... آنسو رکتے نہیں تھے، نیند آنکھوں سے دور تھی، صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:"کیا حال ہے؟ -"تب میں نے عرض کیا:-- "کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر ہو آؤں؟"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اجازت دے دی... دراصل میں چاہتی تھی، اس خبر کے بارے میں والدین سے پوچھوں - جب میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو میری والدہ (ام رومان رضی اللہ عنہا) مکان کے نچلے حصے میں تھیں... جب کہ والد اوپر والے حصے میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے، والدہ نے مجھے دیکھا تو پوچھا:
"تم کیسے آئیں؟"
میں نے ان سے پورا قصہ بیان کردیا... اور اپنی والدہ سے کہا:
"اللہ آپ کو معاف فرمائے، لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں، لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں -"
★_ اس پر میری والدہ نے کہا:
"بیٹی! تم فکر نہ کرو! اپنے آپ کو سنبھالو، دنیا کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی خوب صورت عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس سے جلنے والے اس کی عیب جوئی شروع کردیتے ہیں -"
یہ سن کر میں نے کہا:"اللہ کی پناہ! لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں، کیا میرے ابا جان کو بھی ان باتوں کا علم ہے -"
انھوں نے جواب دیا:"ہاں! انھیں بھی معلوم ہے -"
اب تو مارے رنج کے میرا برا حال ہوگیا، میں رونے لگی، میرے رونے کی آواز والد کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً نیچے اتر آئے، انھوں نے میری والدہ سے پوچھا:"اسے کیا ہوا؟".....تو انھوں نے کہا:"اس کے بارے میں لوگ جو افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ اس کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں -"
★_ اب تو والدہ بھی رونے لگیں، والد بھی رونے لگے، اس رات بھی میں روتی رہی، پوری رات سو نہ سکی، میری والدہ بھی رو رہی تھیں، والد بھی رو رہے تھے... ہمارے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رہے تھے، ایسے میں ایک انصاری عورت ملنے کے لیے آگئی... میں نے اسے اندر بلالیا، ہمیں روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگی، یہاں تک کہ ہمارے گھر میں جو بلی تھی... وہ بھی رو رہی تھی...
★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما پر بہتان اور آسمانی گواہی_,*
★__ ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے... آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کیا اور بیٹھ گئے... جب سے یہ باتیں شروع ہوئی تھی... آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پاس بیٹھنا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس بیٹھ گئے، ان باتوں کو ایک ماہ ہوچکا تھا... اس دوران آپ پر وحی بھی نازل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اور فرمایا:
"عائشہ! مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی باتیں پہنچی ہیں، اگر تم ان تہمتوں سے بری ہو اور پاک ہو تو اللہ تعالٰی خود تمہاری براءت فرمادیں گے اور اگرتم اس گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ تعالٰی سے استغفار کرو اور توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول کرتے ہیں -"
★_ اس پر میں نے اپنے والد اور والدہ سے عرض کیا:--"جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے، اس کا جواب دیجیے -"
جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول سے کیا کہوں -"
تب میں نے عرض کیا:
آپ سب نے یہ باتیں سنی ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان الزامات سے بری ہوں اور میرا اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو کیا اس پر یقین کرلیں گے... لہٰذا میں صبر کروں گی، میں اپنے رنج اور غم کی شکایت اپنے اللہ سے کرتی ہوں -"
اس کے بعد میں اٹھی اور بستر پر لیٹ گئی، اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تعالٰی میرے معاملے میں آیات نازل فرمائے گا، جن کی تلاوت کی جایا کرے گی، جن کو مسجدوں میں پڑھا جایا کرے گا... البتہ میرا خیال تھا کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی خواب دکھادیں گے اور مجھے اس الزام سے بری فرمادیں گے... ابھی ہم لوگ اسی حالت میں تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے آثار محسوس ہوئے۔
★__ حضور ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی توچہرۂ مبارک پر تکلیف کے آثار ظاہر ہوتےتھے-یہ بات محسوس کرتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑااوڑھادیااور آپﷺ کے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا-سید عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
میں نے جب آپﷺ پر وحی کے آثار دیکھےتومیں نے کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کی، کیونکہ میں بے گناہ تھی، البتہ میرے والدین پر بے تحاشہ خوف طاری تھا..،،
آخر آپﷺ سے وحی کے آثار ختم ہوئے، اس وقت آپﷺ ہنس رہےتھےاور آپﷺ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہےتھے دوقطرے موتیوں کی طرح نظر آرہے تھے، اس وقت آپﷺ نے جو پہلا جملہ فرمایا، وہ یہ تھا:
عائشہ! اللہ تعالی نے تمہیں بری کردیاہے-،،
★_ اللہ تعالی نے اس موقع پر سورۃ نور کی آیٰت نازل فرمائی تھیں:
ترجمہ: جن لوگوں نے یہ طوفان برپاکیاہے( یعنی تہمت لگائی ہے)اے مسلمانوں! وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے، تم اس( طوفان)کو برانہ سمجھو، بلکہ یہ انجام کےاعتبار سے تمہارےحق میں بہتر ہی بہتر ہے، ان میں سے ہر شخص نےجتنا کچھ کہاتھا، اسے اسی کے مطابق گناہ ہوا اور ان میں سے جس نے اس طوفان میں سب سے زیادہ حصہ لیا( عبد اللہ بن ابی)اسے( زیادہ)سخت سزاملے گی-جب تم لوگوں نےیہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنے آپس والوں کےساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا اور زبان سے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے-یہ الزام لگانے والے اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو قاعدے کےمطابق یہ لوگ چار گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھو ٹے ہیں اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل نہ ہوتا تو جس کام میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا-جب کہ تم اس جھوٹ کو اپنی زبانوں سے نقل درنقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کر رہے تھے، جس کی تمہیں کسی دلیل سے قطعا خبر نہیں تھی اورتم اس کی ہلکی بات( یعنی گناہ واجب نہ کرنے والی)سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے-اور تم نے جب( پہلی بار)اس بات کوسناتو یوں کیوں نہ کہا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے نکا لیں-معاذاللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے-اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا، اگر تم ایمان والے ہو- اللہ تم سے صاف احکام بیان کرتاہے اور اللہ جاننے والا، بڑاحکمت والاہے-
"_جولوگ( ان آیٰت کے نزول کے بعد بھی )چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچاہو، ان کے لئے دنیا وآخرت میں سزادرد ناک مقرر ہےاور( اس بات پر سزاکا تعجب مت کرو، )کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے-اور اے توبہ کرنے والو! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ کا فضل وکرم ہے( جس نے تمہیں توبہ کی توفیق دی)اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق،بڑارحیم ہے( توتم بھی وعید سے نہ بچتے)
*( سورہ نور آیات11تا20)*
*★_سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی دعا _,*
★__ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ ان آیات کہ نزول سے پہلےمیں نے خواب دیکھاتھا، خواب میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا، کیابات ہے، آپ کیوں غمگین رہتی ہیں، میں نے اسے بتایاکہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، میں اس کی وجہ سے غمگین ہوں-تب اس نوجوان نے کہا کہ آپ ان الفاظ میں دعاء کریں:
ترجمہ: اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور آئے غموں کو دور کرنے والے، پریشانیوں کو دور کرنے والے، مصیبتوں کے اندھیرے سے نکالنے والے، فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے، اور اے اوّل اور اے آخر! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لیے گلو خلاصی کی کوئی راہ نکال دے۔"
★__ دعاء سن کر میں نے کہا، بہت اچھا، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، میں ان الفاظ میں دعاء کی، اس کے بعد میرے لیے برأت کے دروازے کھول دیئے گئے۔
الزام لگانے والوں میں مسطح رضی اللہ عنہ بھی
تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی خبر گیری کرتے تھے، انہوں نے ہی انکی پرورش کی تھی…لیکن یہ بھی الزام لگانے والوں میں شامل ہوگئے،جب اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری فرما دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے مسطح رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سے نکال دیا اور ان سے کہا:
"اللہ کی قسم آئندہ میں کبھی بھی تم پر اپنا مال خرچ نہیں کروں گا،نا تمہارے ساتھ کبھی محبت اورشفقت کابرتاؤ کروں گا۔"
★_ اس پر اللہ تعالی نے سورۃ النور کی یہ آیت نازل فرمائی :
ترجمہ:"اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں،وہ قرابت داروں کو اور مسکینوں کو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں، بلکہ چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں،کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف کردے،بے شک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔"
★_ اس آیت کے نزول پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کردے؟"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اللہ کی قسم! میں یقینا چاہتا ہوں کہ میری مغفرت ہوجائے۔"
پھر وہ مسطح رضی اللہ عنہٗ کے پاس گئے ان کا جو وظیفہ بند کر دیا تھا اس کو پھر سے جاری کردیا…نہ صرف جاری کر دیا بلکہ دوگنا کردیا اور کہا"آئندہ میں کبھی مسطح کا خرچ بند نہیں کروں گا۔"
انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ بھی ادا کیا۔
*
★_ اسی غزوہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو مرتبہ گم ہوا تھا،پہلی بار جب ہار گم ہوا تو اس کی تلاش کے سلسلے میں سب لوگ رکے رہے، اسی دوران صبح کی نماز کا وقت ہو گیا،اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب نہیں تھے،اس لیے پانی کی تنگی تھی،جب لوگوں کو تکلیف ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹا، اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
"تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کی منزل کھوٹی کر دی،نہ یہاں لوگوں کی پاس پانی ہے، نہ قریب میں کوئی چشمہ ہے۔"
یہ کہنے کے ساتھ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیٹی کی کمر پر ٹوکے بھی مارے،ساتھ ہی وہ کہتے جاتے تھے:
"لڑکی! تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ہے،لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نہیں ہیں ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تھے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار نہیں کرتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہوتے تھے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وقت بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے، اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی -
اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بیٹی! جیسا کہ تم خود بھی جانتی ہو، تم واقعی مبارک ہو -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:
"عائشہ! تمہارا ہار کس قدر مبارک ہے -"
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اے آلِ ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں -"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:
"ہار کی تلاش کے سلسلے میں ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا، جس پر میں سوار تھیں تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا -"
مطلب یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو تیمم کی سہولت عطا ہوئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو تیمم کے بارے میں معلوم نہیں تھا -
اس واقعہ کے بعد جب آگے سفر ہوا تو منافقین کی سازش کا وہ واقعہ پیش آیا جو آپ نے پیچھے پڑھا -
اسی سال چاند کو گرہن لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف پڑھائی یعنی چاند گرہن کی نماز پڑھائی، جبکہ یہودی اس وقت زور زور سے ڈھول بجارہے تھے اور کہہ رہے تھے چاند پر جادو کردیا گیا ہے۔
╨─────────────────────❥
*★_ تیمم کا حکم _,"*
★_ اسی غزوہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو مرتبہ گم ہوا تھا،پہلی بار جب ہار گم ہوا تو اس کی تلاش کے سلسلے میں سب لوگ رکے رہے، اسی دوران صبح کی نماز کا وقت ہو گیا،اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب نہیں تھے،اس لیے پانی کی تنگی تھی،جب لوگوں کو تکلیف ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹا، اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
"تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کی منزل کھوٹی کر دی،نہ یہاں لوگوں کی پاس پانی ہے، نہ قریب میں کوئی چشمہ ہے۔"
★_ یہ کہنے کے ساتھ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیٹی کی کمر پر ٹوکے بھی مارے،ساتھ ہی وہ کہتے جاتے تھے:_"لڑکی ! تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ہے،لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نہیں ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تھے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار نہیں کرتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہوتے تھے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وقت بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے، اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی -
★_ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: -- "بیٹی! جیسا کہ تم خود بھی جانتی ہو، تم واقعی مبارک ہو -"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:_ "عائشہ! تمہارا ہار کس قدر مبارک ہے -"
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اے آلِ ابی بکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں -"
★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:-- "ہار کی تلاش کے سلسلے میں ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا، جس پر میں سوار تھیں تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا -"
مطلب یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو تیمم کی سہولت عطا ہوئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو تیمم کے بارے میں معلوم نہیں تھا -
اس واقعہ کے بعد جب آگے سفر ہوا تو منافقین کی سازش کا وہ واقعہ پیش آیا جو آپ نے پیچھے پڑھا -
★_ اسی سال چاند کو گرہن لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف پڑھائی یعنی چاند گرہن کی نماز پڑھائی، جبکہ یہودی اس وقت زور زور سے ڈھول بجارہے تھے اور کہہ رہے تھے چاند پر جادو کردیا گیا ہے۔
╨─────────────────────❥
*★_ غزوہ خندق _,*
★_ بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں ان کے علاقے سے نکال دیا گیا تھا، اسی وجہ سے ان کے بڑے بڑے سردار مکہ معظمہ گئے... قریش کو ساری تفصیل بتائی اور قریش کو دعوت دی کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے میدان میں آئیں، انہوں نے قریش کو خوب بھڑکایا اور کہا:
جنگ کی صورت میں ہم تمہارے ساتھ ہوں گے، یہاں تک کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھیوں کو نیست و نابود کردیں گے، مسلمانوں سے دشمنی میں ہم تمہارے ساتھ ہیں -"
یہ سن کر مشرکین کے سردار ابوسفیان نے کہا:
"ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ شخص وہ ہے، جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کی دشمنی میں ہمارا مددگار ہو، لیکن ہم اس وقت تک تم پر بھروسہ نہیں کریں گے جب تک کہ تم ہمارے معبودوں کو سجدہ نہ کرلو... تاکہ ہمارے دل مطمئن ہوجائیں -"
یہ سنتے ہی یہودیوں نے بتوں کو سجدہ کرڈالا،
★_ اب قریش نے کہا:_ "اے یہودیو! تم اہل کتاب ہو اور تمہاری کتاب سب سے پہلی کتاب ہے، اس لیے تمہارا علم بھی سب سے زیادہ ہے، لہٰذا تم بتاؤ... ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کا -"
یہودیوں نے جواب میں کہا:
"تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور حق و صداقت میں تم لوگ ان سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے ہو -"
یہودیوں کا جواب سن کر قریش خوش ہوگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو انھوں نے جنگ کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی انھوں نے قبول کرلیا... چنانچہ اسی وقت قریش کے پچاس نوجوان نکلے، انھوں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اس کو اپنے سینے سے لگا کر یہ حلف دیا کہ وقت پر ایک دوسرے کو دغا نہیں دیں گے، جب تک ان میں سے ایک شخص بھی باقی ہے، محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کے خلاف متحد رہیں گے -
_ اب قریش نے جنگ کی تیاری شروع کردی، یہودیوں نے بھی اور قبائل کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری رکھیں، اس طرح ایک بڑا لشکر مسلمانوں کے خلاف تیار ہوگیا -
★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورہ کے لیے طلب کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے میں بتایا، پھر ان سے مشورہ طلب فرمایا کہ ہم مدینہ منورہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں یا باہر نکل کر کریں -
اس پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا:
"اے اللہ کے رسول! اپنے ملک فارس میں جب ہمیں دشمن کا خوف ہوتا تھا تو شہر کے گرد خندق کھودلیا کرتے تھے -"
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ سبھی کو پسند آیا، چنانچہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کردیا،
★_ سبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خندق کی کھدائی میں حصہ لیا... خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی خندق کھودی، خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھوک نے ستایا، وہ زمانہ عام تنگ دستی کا تھا -
کھدائی کے دوران ایک جگہ سخت پتھریلی زمین آگئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ کھدائی نہ کرسکے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور اس جگہ ماری، ایک ہی ضرب میں وہ پتھریلی زمین ریت کی طرح بھربھرا گئی -
ضرب لگانے کے دوران روشنی کے جھماکے سے نظر آئے،
★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ روشنی کے جھماکے کیسے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"پہلے جھماکے میں اللہ تعالٰی نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے، دوسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مجھے شام اور مغرب پر غلبہ عطا فرمانے کی اطلاع دی اور تیسرے جھماکے کے ذریعے اللہ تعالٰی نے مشرق کی فتح مجھے دکھائی ہے -"
★_ غرض جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو اس وقت قریش اور اس کے حامیوں کا لشکر مدینہ منورہ کے باہر پہنچ گیا، اس جنگ میں مشرکوں کی دس ہزار تعداد کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے، مشرکوں کا لشکر مدینہ منورہ کے گرد خندق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، وہ پکار اٹھے:_""خدا کی قسم! یہ تو بڑی زبردست جنگی چال ہے، عرب تو اس جنگی تدبیر سے واقف نہیں تھے -"
مشرکوں کے دستے بار بار خندق تک آتے رہے اور واپس جاتے رہے... مسلمان بھی اچانک خندق تک آتے اور ان کی طرف تیر برساتے، پھر واپس لوٹ جاتے،
★_ مشرکوں میں سے نوفل بن عبداللہ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی... لیکن اس کا گھوڑا خندق کے آرپار نہ پہنچ سکا اور سوار سمیت خندق میں گرا - نوفل کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی -
مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان بس اس قسم کی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی... مشرق دراصل خندق کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے قابل نہیں رہے تھے -
★_ ادھر مشرکوں میں سے چند لوگ آگے بڑھے - انھوں نے خندق عبور کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کو دور لے جاکر خوب دوڑایا اور جس جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی، اس جگہ سے لمبی چھلانگ لگاکر آخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگئے - ان لوگوں میں عمرو بن عبدِ وَد بھی تھا... وہ عرب کا مشہور پہلوان تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلا ایک ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہے - خندق عبور کرتے ہی وہ للکارا:_ "کون ہے جو میرے مقابلے میں آتا ہے؟"
اس کی للکار سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے - انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا:_ "اللہ کے رسول! اس کے مقابلے پر میں جاؤں -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:_ "بیٹھ جاؤ... یہ عمرو بن عبدِ وَد ہے -"
ادھر عمرو نے پھر آواز دی - حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پھر بٹھادیا... اس نے تیسری بار پھر مقابلے کے لیے آواز لگائی - آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجازت دےدی - حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھتے ہوئے میدان میں آئے -
"جلدی نہ کر، تیری للکار کو قبول کرنے والا تیرے سامنے آگیا ہے - جو تجھ سے کسی طرح عاجز اور کمزور نہیں ہے -"
★_ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ذوالفقار عطا فرمائی، اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور اللہ سے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی -
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقابلے سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دی اور بولے:
"میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں -"
اس نے انکار کیا ,
★_ دونوں میں ذبردست لڑائی ہوئی آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمرو کو مار گرایا ، اس کے گرتے ہی جو لوگ اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے، واپس بھاگے،
★_"تمام دن جنگ ہوتی رہی، خندق کے ہر حصے پر لڑائی جاری رہی، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور کوئی مسلمان بھی ظہر سے عشاء تک کوئی نماز نہ پڑھ سکا، اس صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان بار بار کہتے رہے:" ہم نماز نہیں پڑھ سکے -"یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے:"نہ ہی میں پڑھ سکا" آخر جنگ رکنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا انھوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی، اس کے فوراً بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عصر کی تکبیر پڑھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی نماز پڑھائی... اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت قضا پڑھی گئیں -
★_ غرض خندق کی لڑائی مسلسل جاری رہی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوگئے، آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی، اس کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالٰی دشمن پر ہوا کا طوفان نازل فرمائے گا، طوفان کے ساتھ اللہ اپنے لشکر(فرشتے ) بھی ان پر نازل کرےگا -
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر دےدی، سب نے اللہ کا شکر ادا کیا -
★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہوئی، آخر سرخ آندھی کے طوفان نے مشرکوں کو آلیا، ان دنوں موسم یوں بھی سرد تھا، اوپر سے انھیں اس سرد طوفان نے گھیرلیا، مشرکوں کے خیمے الٹ گئے، برتن الٹ گئے، ہوا کے شدید تھپیڑوں نے ہر چیز ادھر سے اُدھر کردی، لوگ سامان کے اوپر اور سامان لوگوں پر آگرا، پھر تیز ہوا سے اس قدر ریت اڑی کہ ان میں سے نہ جانے کتنے ریت میں دفن ہوگئے، ریت کی وجہ سے آگ بجھ گئی، چولہے ٹھنڈے ہوگئے، آگ بجھنے سے اندھیرے نے گویا انھیں نگل لیا، یہ اللہ کا عذاب تھا جو فرشتوں نے ان پر نازل کیا، وہ درہم برہم ہوگئے،
★_ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:
"پھر ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسی فوج بھیجی جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی تھی اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں -"(سورۃ الأحزاب)
"
[ ★_ خندق کی جنگ کے موقع پر کچھ خاص واقعات پیش آئے - جب خندق کھودی جارہی تھی تو اس دوران ایک صحابی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹی ایک پیالے میں کچھ کھجوریں لائی، یہ کھجوریں وہ اپنے باپ اور ماموں کے لیے لائی تھی...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کھجوروں پر پڑی تو فرمایا:
"کھجوریں ادھر لاؤ -"
اس لڑکی نے کھجوروں کا برتن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں الٹ دیا،
★_ کھجوریں اتنی نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ بھر جاتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر ایک کپڑا منگوایا، اس کو پھیلا کر بچھایا، پھر پاس کھڑے صحابی سے فرمایا:_ "لوگوں کو آواز دو... دوڑ کر آئیں -"
چنانچہ سب جلد ہی آگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھوں سے کھجوریں اس کپڑے پر گرانے لگے، سب لوگ اس پر سے اٹھا اٹھا کر کھاتے رہے، کھجوریں شروع کرنے سے پہلے سب لوگ بھوکے تھے، بھوک کی حالت میں ان سب نے یہ کھجوریں کھائیں، سب کے پیٹ بھرگئے... اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں سے کھجوریں ابھی تک گر رہی تھیں -
★_ ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پیش آیا، انہیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شدید بھوک کا علم ہوا تو گھر گئے، ان کے گھر میں بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کچھ گندم بھی تھی، انھوں نے کہا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھوک لگی ہے... لہٰذا یہ بکری ذبح کرکے سالن تیار کرلو،، گندم کو پیس کر روٹیاں پکالو، میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر آتا ہوں -"حضرت جابر رضی اللہ عنہ کچھ دیر بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آہستہ آواز میں کہا کہ آپ کے لیے گھر میں کھانا تیار کرایا ہے، یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی سے کہا:
"اعلان کردو... جابر کے ہاں سب کی دعوت ہے -"
★_چنانچہ پکار کر اعلان کیا گیا کہ سب لوگ جابر کے گھر پہنچ جائیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے کہ وہ تھوڑا سا کھانا اتنے لوگوں کو کیسے پورا ہوگا - انھوں نے پریشانی کے عالم میں "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھی اور پھر گھر آگئے... وہ کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"اللہ برکت دے -"
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ پڑھی، سب نے کھانا شروع کیا، باری باری لوگ آتے رہے اور کھا کر اٹھتے رہے، ان کی جگہ دوسرے لیتے رہے... یہاں تک کہ سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اس وقت ان مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی،
★_ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"اللہ کی قسم! جب سب کھانا کھا کر چلے گئے تو ہم نے دیکھا...گھر میں اب بھی اتنا ہی کھانا موجود تھا... جتنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھا گیا تھا -"
★_ جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے خود جنگ میں شرکت نہیں کی، بلکہ اپنی موجودگی سے مشرکوں کے دلوں میں خوف اور رعب پیدا کردیا اور اس رات جو ہوا چلی، اس کا نام بادِصبا ہے، یعنی وہ ہوا جو سخت سرد رات میں چلے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"بادِصبا سے میری مدد کی گئی اور ہوائے زرد کے ذریعے اس قوم کو تباہ کیا گیا -"
ہوائے زرد نے مشرکوں کی آنکھوں میں گردوغبار بھردیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں، یہ طوفان بہت دیر تک اور مسلسل جاری رہا تھا، ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مشرکوں میں پھوٹ پڑنے کے بارے میں پتاچلا،
★_ وہ ایسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کون ہے جو ہمیں دشمنوں کی خبر لادے، اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا:
"اللہ کے رسول! میں جاؤں گا -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ ہی بولے، آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
ہر نبی کے حواری یعنی مددگار ہوتے ہیں، میرے حواری زبیر ہیں -"
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا... تھکن کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ جاسکتے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی:"جاؤ، اللہ تعالٰی تمہارے سامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے تمہاری حفاظت فرمائے اور تم خیریت سے لوٹ کر ہمارے پاس آؤ -"
★_ یہ وہاں سے چل کر دشمن کے پڑاؤ میں پہنچ گئے، وہاں انھوں نے ابوسفیان کو کہتے سنا:__ اے گروہِ قریش! ہر شخص اپنے ہم نشینوں سے ہوشیار رہے اور جاسوسوں سے پوری طرح خبردار رہے -"
پھر اس نے کہا:
"اے قریش! ہم نہایت برے حالات کا شکار ہوگئے ہیں، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں... بنوقریظہ کے یہودیوں نے ہمیں دغا دیا ہے اور ان کی طرف سے ناخوش گوار باتیں سننے میں آئی ہیں... اوپر سے اس طوفانی ہوا نے جو تباہ کاری کی ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، اس لیے واپس چلے جاؤ، میں بھی واپس جارہا ہوں -"
★_ حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ خبریں لےکر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دشمن کا حال سنایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے... جب مشرکوں کا لشکر مدینہ منورہ سے بدحواس ہوکر بھاگا، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"اب یہ آئندہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے -"
╨─────────────────────❥
*★_ غزوۂ بنی قریظہ _,*
★_ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ خندق سے فارغ ہوکر گھر آئے تو وہ دوپہر کا وقت تھا...حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا کی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابھی غسل فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام سیاہ رنگ کا ریشمی عمامہ باندھے وہاں آگئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک خچر پر سوار تھے، انہوں نے آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا:
"اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں؟"
آپ نے فرمایا:_"ہاں! اتار دیے ہیں -" یہ سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"لیکن اللہ تعالٰی کے فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے -
_ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:_"اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اسی وقت بنو قریظہ کے مقابلے کے لیے کوچ کریں، میں بھی وہیں جارہا ہوں -"
★_ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایا:
"ہر اطاعت گزار شخص عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں پہنچ کر پڑھے -"
اس اعلان سے مراد یہ تھی کہ روانہ ہونے میں دیر نہ کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہتھیار لگائے گھوڑوں پر موجود تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تین ہزار تھی، ان میں 36 گھڑ سوار تھے، ان میں بھی تین گھوڑے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ پرچم لیے ہوئے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آگے روانہ ہوئے تھے، اس لیے پہلے وہاں پہنچے، انہوں نے مہاجرین اور انصار کے ایک دستے کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعے کے سامنے دیوار کے نیچے پرچم نصب کیا، ایسے میں یہودیوں نے حضور ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، اس پر حضرت علی اور دوسرے صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو غصہ آگیا،
★_ نبی اکرمﷺ وہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں یہودیوں کی بدزبانی کے بارے میں بتایا، آپ ﷺ نے ان کی پوری آبادی کو گھیرے میں لینے کا حکم دے دیا، یہ محاصرہ پچیس دن تک جاری رہا ۔یہودی اس محاصرے سے تنگ آگئے، اور آخر کار آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوگئے ۔
حضور ﷺ نے انہیں باندھنے کا حکم فرمایا ۔ان کی مشکیں کس دی گئیں، ان کی تعداد چھ سو یا ساڑھے سات سو تھی، انہیں ایک طرف جمع کردیاگیا ۔یہ سب وہ تھے جو لڑنے والے تھے، ان کے بعد یہودی عورتوں اور بچوں کو حویلیوں سے نکال کر ایک طرف جمع کیا گیا، ان بچوں اور عورتوں کی تعداد ایک ہزار تھی، ان پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کو نگران بنایاگیا ۔
★_ اب یہ لوگ بار بار آپ کے پاس آکر معافی مانگنے لگے ۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: _کیا تم اس بات پر رضامند ہو کہ تمہارے معاملے کا فیصلہ تمہارا ہی (منتخب کیا ہوا) کوئی آدمی کردے " " انہوں نے جواب دیا سعد بن معاذ (رضی الله عنہ) جو فیصلہ بھی کردیں، ہمیں منظور ہے ۔سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے ان یہودیوں کے دوست اور ان کے نزدیک قابل احترام شخصیت تھے، حضور اکرمﷺ نے ان کی یہ بات مان لی، سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوہء خندق میں شدید زخمی ہوگئے تھے، وہ اس وقت مسجد نبوی کے قریب ایک خیمے میں تھے، اب آنحضرت ﷺ کے حکم پر انھیں بنو قریظہ کی آبادی میں لایا گیا، ان کی حالت بہت خراب تھی ۔آخر وہ نبئ اکرم ﷺ وسلم کے پاس پہنچ گئے، انہیں ساری بات بتائی گئی... اس پر حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے کہا:
"فیصلے کا حق تو الله تعالیٰ ہی کا ہے یا پھر اللہ کے رسول کو ہے۔"
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"الله ہی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ یہود کے بارے میں فیصلہ کرو۔"
اب انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا:
"میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کا مال اور دولت مال غنیمت کے طور پر لے لیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا جائے۔"( حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہہ نے یہودیوں سے اپنی سابقہ دوستی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اتنا سخت فیصلہ اس لیے سنایا تھا کہ ان یہودیوں کا ظلم و ستم اور ان کی فتنہ انگیزی حد سے بڑھ گئی تھی، اگر انہیں یوں ہی زندہ چھوڑ دیا جاتا تو یقینی طور پر یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بدترین سازشیں کرتے رہتے۔ان کا مزاج بچھو اور سانپ کی مانند ہوچکا تھا، جو کبھی ڈسنے سے باز نہیں آسکتا، اس لیے ان کا سر کچلنا ضروری تھا۔)
★_ان کا فیصلہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تم نے الله تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ سنایا ہے...اس فیصلے کی شان بہت اونچی ہے... آج صبح سحر کے وقت فرشتے نے آکر مجھے اس فیصلے کی اطلاع دے دی تھی۔"
*★_غزوہ بنی لحیان _,*
★_ اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بنو قریظہ کی حویلیوں میں جو کچھ مال اور ہتھیار وغیرہ ہیں، سب ایک جگہ جمع کردیے جائیں۔"
چنانچہ سب کچھ نکال کر ایک جگہ ڈھیر کردیا گیا، اس سارے سامان میں پندرہ سو تلواریں اور تین سو زرہیں تھیں۔دو ہزار نیزے تھے، اس کے علاوہ بےشمار دولت تھی، مویشی بھی بے تحاشا تھے، سب چیزوں کے پانچ حصے کیے گئے، ان میں سے چار حصے سب مجاہدین میں تقسیم کیے گئے... یہاں شراب کے بہت سے مٹکے بھی ملے، ان کو توڑ کر شراب کو بہادیا گیا، اس کے بعد یہودی قیدیوں کو قتل کردیا گیا، قتل ہونے والوں میں ان کا سردار حئ بن اخطب بھی تھا۔بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈی بنالیا گیا۔
_ اس واقعہ کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی الله عنہ غزوۂ خندق میں لگنے والے زخموں کے باعث شہید ہوگئے، ان کے جنازے میں فرشتوں نے بھی شرکت کی، انہیں دفن کیا گیا تو قبر سے خوشبو آنے لگی۔
★_ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبیلہ بنو ہزیل سے ان کی ناپاک حرکت کا انتقام لینے کا ارادہ فرمایا، بنو ھذیل نے رجیع کے مقام پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا تھا، یہ لوگ خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ ان کے علاقے میں اسلام کی تعلیم کے لیے کچھ حضرات کو بھیج دیا جائے۔چنانچہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دس صحابہ رضی الله عنہہ کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا، ان لوگوں نے انہیں دھوکے سے شہید کردیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مظلومانہ شہادت کا بے حد رنج تھا۔چنانچہ ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو تیاری کا حکم فرمایا..,
★_ پھر لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔بظاہر تو شام کی طرف کوچ کیا تھا، مگر اصل مقصد بنو ہزیل کے خلاف کاروائی تھی، منزل کو اس لیے خفیہ رکھا گیا تاکہ دشمنوں کو جاسوسوں کے ذریعے پہلے سے معلوم نہ ہو اور مسلمان ان ظالموں پر بے خبری میں جاپڑیں۔
پہلے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے، جہاں صحابہ کرام رضی الله عنہم کو شہید کیا گیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہاں ان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی،
★_ ادھر کسی طرح بنو ھزیل کو پتہ چل گیا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں۔وہ ڈر کے مارے پہاڑوں میں جا چھپے، جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان کے فرار کا پتہ چلا تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مختلف سمتوں میں روانہ فرمایا... لیکن ان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔
آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم واپس روانہ ہوئے، اس غزوہ کو غزوہ بنی لحیان کہا جاتا ہے۔
★_ راستے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ابواء کے مقام سے گذرے، یہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کو دفن کیا گیا تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو اپنی والدہ کی قبر نظر آگئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی... پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم روئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام رضی الله عنہہ بھی روپڑے۔
: ★_ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ پہنچے، ابھی چند راتیں ہی گذریں تھیں کہ خبر ملی... عیینہ ابن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ مل کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپا مارا... اس چراگاہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیس اونٹ تھے... اونٹوں کی حفاظت کے لیے حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ کے بیٹے تھے، اور حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی بیوی بھی وہاں تھیں۔ان حملہ آوروں نے حضرت ابوذر رضی الله عنہ کے بیٹے کو قتل کردیا۔
اس واقعہ کا سب سے پہلے حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ کو پتہ چلا... وہ اپنی کمان اٹھائے صبح ہی صبح چراگاہ کی طرف جارہے تھے، ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، وہ ان کا، گھوڑا لے کر آیا تھااور لگام سے پکڑ کر اسے ہنکارہا تھا، راستے میں ان کی ملاقات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کے غلام سے ہوئی۔اس نے حضرت سلمہ رضی الله عنہ کو بتایا کہ عیینہ بن حصین نے کچھ سواروں کے ساتھ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی چراگاہ پر چھاپہ مارا ہے... اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اونٹوں کو لے گئے ہیں...چراگاہ کے محافظ کو انہوں نے قتل کردیا... اور ایک خاتون کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔
★_ یہ سنتے ہی حضرت سلمہ رضی الله عنہ نے اپنے غلام سے کہا: _"اس گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خبر کردو۔"
غلام تو اسی وقت روانہ ہو گئے، ساتھ ہی سلمہ رضی الله عنہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر پکارے: _"لوگو! دوڑو... کچھ لوگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اونٹ لے اڑے ہیں۔"
یہ اعلان تین بار دہرا کر وہ اکیلے ہی لٹیروں کی طرف دوڑ پڑے۔
عنوان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ چیتے کی سی تیزی سے دوڑے، یہاں تک کہ وہ حملہ آوروں تک پہنچ گئے، جونہی انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھا، ان پر تیر اندازی شروع کردی، جب بھی تیر چلاتے، تو پکار کر کہتے:
’’لے سنبھال! میں ابن اکوع ہوں، آج کا دن ہلاکت اور بربادی کا دن ہے۔‘‘
جب دشمن اپنے گھوڑے موڑکر ان کی طرف رخ کرتے تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی دوسری جگہ پہنچ جاتے اور وہاں سے تیر اندازی شروع کردیتے، یہ مسلسل اسی طرح کرتے رہے، دشمن کے پیچھے لگے رہے، دشمن ان کے تیروں کا شکار ہوتا چلا گیا۔
خود حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’میں بھاگ کر ان میں سے کسی کے سر پر پہنچ جاتا، اس کے پیر میں تیر مارتا، وہ اس سے زخمی ہوجاتا، لیکن جب ان میں سے کوئی پیچھے مڑتا تو میں کسی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور پھر اس جگہ سے تیر اندازی کرکے حملہ آور کو زخمی کردیتا، یا پتھر ان پر گرانے لگتا۔۔۔ میری اس تیر اندازی اور پتھروں کی بارش سے وہ بری طرح تنگ آگئے، یہاں تک کہ میری تیروں کی بارش نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا، زخمی ہوکر بھاگنے والوں نے تیس سے زیادہ نیزے اور اتنی ہی چادریں راستے میں گرادیں تاکہ ان کا بوجھ کم ہو اور وہ آسانی سے بھاگ سکیں۔ وہ جو چیز بھی کہیں پھینکتے، میں اس پر پتھر رکھ دیتا، تاکہ بعد میں ان کو جمع کرسکوں، غرض!میں ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ سوائے چند ایک کے وہ تمام اونٹ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔۔۔ پیچھے رہ گئے، دشمن آگے نکل گیا اور خود میں بھی ان کے تعاقب میں ان اونٹوں سے آگے نکل آیا۔۔۔ اس طرح میں نے حملہ آوروں سے تمام اونٹ چھڑالیے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پکار کے بارے میں پتا چلا تو مدینہ منورہ میں اعلان کرادیا کہ اے اللہ کے سوارو! تیار ہوجاؤ! اور سوار ہوکر چلو۔
اس اعلان کے بعد گھڑ سواروں میں سے جو صحابی سب سے پہلے تیار ہوکر آئے، وہ حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے، انہیں ابن اسود بھی کہا جاتا ہے، ان کے بعد حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ آئے، پھر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آئے، پھر باقی گھڑسوار صحابہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ان کا سالار مقرر فرمایا اور حکم فرمایا:
’’تم لوگ روانہ ہوجاؤ، میں باقی لوگوں کے ساتھ تم سے آملوں گا۔‘‘
چنانچہ یہ گھڑسوار دستہ دشمن کی تلاش میں نکلا۔۔۔ اور دشمن کے سر پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
سواروں میں سب سے پہلے جو شخص دشمن تک پہنچا، ان کا نام محدر بن فضلہ تھا، انہیں اخرم اسدی بھی کہا جاتا ہے، یہ آگے بڑھ کر دشمن کے سامنے جاکھڑے ہوئے اور بولے:
’’اے ملعون لوگو! ٹھہرجاؤ، مہاجرین اور انصار تمہارے مقابلے پر نکل پڑے ہیں۔‘‘
اخرم اسدی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے دشمن کے قریب پہنچ گئے ان کی طرف بڑھنے لگے، تو حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اپنے مورچے سے نکل کر ان کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور بولے:
"اے اخرم! ابھی دشمن پر حملہ نہ کریں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب کو آنے دیں -"
یہ سن کر اخرم اسدی رضی اللہ عنہ بولے:
" سلمہ! اگر تم اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور یہ جانتے ہوکہ جنت بھی برحق ہے اور دوزخ بھی برحق ہے، تو میرے اور شہادت کے درمیان سے ہٹ جاؤ -"
ان کے الفاظ سن کر سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی، فوراً آگے بڑھے... انھوں نے وار کرکے ایک دشمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا، اسی وقت ایک اور دشمن نے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ کو نیزہ دے مارا... وہ شہید ہوگئے... ایسے میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے، ایک دشمن نے ان کے گھوڑے پر وار کیا، گھوڑا زخمی ہوگیا، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پر وار کرکے اس کو قتل کردیا -
اسی وقت ایک گُھڑسوار ان کے مقابلے پر آیا، اس کا نام مسعدہ فراری تھا، آتے ہی کہنے لگا:
"تم مجھ سے کس طرح مقابلہ کرنا پسند کروگے... تلوار بازی، نیزہ بازی یا پھر کشتی؟"
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بولے:
"جو تم پسند کرو -"
اس پر اس نے کشتی لڑنا پسند کیا، وہ گھوڑے سے اتر آیا، اپنی تلوار درخت سے لٹکادی،حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی گھوڑے سے اتر آئے، انھوں نے بھی تلوار درخت سے لٹکادی، اب دونوں میں کشتی شروع ہوئی... آخر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو فتح یاب فرمایا، انھوں نے درخت سے لٹکی تلوار کھینچ لی اور اسے قتل کردیا، پھر انھوں نے مسعدہ کے بھتیجے پر حملہ کیا، اس نے خوف زدہ ہوکر باقی اونٹوں کو چھوڑ دیا... حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اونٹوں کو لےکر لوٹے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے نظر آئے... حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹوں کو ساتھ میں دیکھ کر فرمایا:
"ابوقتادہ تمہارا چہرہ روشن ہو -"
اس پر انھوں نے کہا:
"اے اللہ کے رسول! آپ کا بھی چہرہ روشن رہے -"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:
"اللہ تم میں، تمہاری اولاد میں اور اولاد کی اولاد میں برکت عطا فرمائے -"
ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ان کی پیشانی پر پڑی... وہاں ایک زخم تھا اور تیر کا پھل زخم ہی میں رہ گیا تھا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تیر کا وہ حصہ آہستہ سے نکال دیا، پھر ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا اور اپنی ہتھیلی زخم پر رکھ دی -
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ نے جونہی زخم پر ہاتھ رکھا، تکلیف بالکل غائب ہوگئی -"
اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو مسعدہ کا گھوڑا اور اس کے ہتھیار عطا فرمائے اور انہیں دعا دی -
حضرت ابوقتادہ اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر فرمایا:
"ہمارے سواروں میں بہترین سوار ابوقتادہ ہیں اور ہمارے پیدل مجاہدین میں بہترین پیدل سلمہ ہیں -"
پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے -
کچھ دن بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خواب دیکھا، یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ امن کی حالت میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں، پھر عمرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ نے بال منڈوائے ہیں اور کچھ نے بال کتروائے ہیں، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی چابی لی اور عرفات میں قیام کرنے والوں کے ساتھ قیام فرمایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور صحابہ نے بیت اللہ کا طواف کیا -
╨─────────────────────❥
*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب_,*
★_ کچھ دن بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خواب دیکھا، یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ امن کی حالت میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں، پھر عمرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ نے بال منڈوائے ہیں اور کچھ نے بال کتروائے ہیں، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی چابی لی اور عرفات میں قیام کرنے والوں کے ساتھ قیام فرمایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور صحابہ نے بیت اللہ کا طواف کیا -
★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا یہ خواب صحابہ کرام کو سنایا، سب اس بشارت سے بہت خوش ہوئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا:
"میرا ارادہ عمرے کا ہے -"
یہ سننے کے بعد سب نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں، آخر ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے -
★_ عمرے کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی کرادیا تھا، تاکہ لوگ اس قافلے کو حاجیوں کا قافلہ ہی خیال کریں اور مکے کے لوگ اور اس پاس کے لوگ جنگ کے لیے نہ اٹھ کھڑے ہوں، مشرکوں اور دوسرے دشمنوں کو پہلے معلوم ہوجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے آرہے ہیں... اور کوئی نیت نہیں ہے -
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا، پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی... پھر مسجد سے ہی اونٹنی پر سوار ہوئے...اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہیں سے احرام باندھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس سفر پر ذی قعدہ کے مہینے میں روانہ ہوئے تھے،
★_ قافلے کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، جانوروں پر جھولیں ڈالیں، تاکہ جان لیا جائے کہ یہ قربانی کے ہیں ان کے کوہانوں پر نشان لگایا گیا، یہ نشان زخم لگاکر ڈالا جاتا ہے، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے... چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور صحابہ کے پاس سوائے تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
*★_ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند معجزات_,*
★_ سفر کے دوران ایک مقام پر پانی ختم ہوگیا... صحابہ رضی اللہ عنہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے وضو فرمارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا:_"کیا بات ہے؟"
صحابہ نے بتایا:_"آپ کے پاس اس برتن میں جو پانی ہے، اس پانی کے علاوہ پورے لشکر میں کسی کے پاس اور پانی نہیں ہے -"
★_ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا، جونہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ مبارک پانی میں رکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی اس طرح نکلنے لگا جیسے برتن میں چشمے پھوٹ پڑے ہوں،
ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی کے فوارے نکلتے دیکھے -حضرت موسی علیہ السلام کے لیے ایک پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا، لیکن یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں سے پانی جاری ہوگیا تھا، علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ موسی علیہ السلام والے واقعہ سے کہیں زیادہ حیرت ناک ہے... کیونکہ چشمے پہاڑوں چٹانوں ہی سے نکلتے ہیں، لہٰذا پتھر سے پانی کا جاری ہونا اتنی عجیب بات نہیں، جتنی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک انگلیوں سے پانی جاری ہونا عجیب ہے -
★_ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:_"جونہی یہ پانی کا چشمہ پھوٹا، ہم سب پینے لگے... ہم نے پیا بھی اور اس پانی سے وضو بھی کیا اور اپنے برتن بھی بھرے... اگر ہم اس وقت ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی پانی ہمارے لیے کافی ہوجاتا، جب کہ اس وقت ہماری تعداد چودہ سو تھی -"
*★_ صلوۃِ خوف کی آیت کا نازل ہونا _,*
★_ مسلمانوں کا قافلہ "عسفان" کے مقام پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بشر بن سفیان عتکی رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ہی انہیں جاسوس بناکر مکہ کی طرف روانہ کردیا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیت اگرچہ صرف عمرے کی تھی، لیکن قریش کے بارے میں اطلاعات رکھنا ضروری تھا - بشر رضی اللہ عنہ نے آکر بتایا:
اے اللہ کے رسول! قریش کو اطلاع مل چکی ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں، دیہاتوں میں جو ان کے اطاعت گزار لوگ ہیں، قریش نے ان سے بھی مدد طلب کی ہے، بنی ثقیف بھی ان کی مدد کرنے پر آمادہ ہیں... اور ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہیں، وہ لوگ مکے سے نکل کر "ذی طوی" کے مقام تک آگئے ہیں، انھوں نے ایک دوسرے سے عہد کیا ہے کہ وہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے... دوسرے یہ کہ خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) گُھڑسوار دستہ لیے کراعِ غمیم کے مقام تک آگئے ہیں، ان کے دستے میں دوسو سوار ہیں، اور وہ آپ کے خلاف صف بندی کرچکے ہیں -"
★_ یہ اطلاعات ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ مسلمان گھُڑ سواروں کے ساتھ آگے بڑھیں، یہ آگے بڑھے اور حضرت خالد بن ولید کے دستے کے سامنے پہنچ گئے، انھوں نے بھی صف بندی کرلی -
نماز کا وقت ہوا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز شروع کی، جب مسلمان نماز سے فارغ ہوئے تو کچھ مشرکوں نے کہا:_"ہم نے ایک اچھا موقع گنوادیا، ہم اس وقت ان پر حملہ کرسکتے تھے، جب کہ یہ نماز پڑھ رہے تھے، ہم اس وقت انہیں آسانی سے ختم کرسکتے تھے -"
ایک اور مشرک نے کہا:_"کوئی بات نہیں! ایک اور نماز کا وقت آرہا ہے اور نماز ان لوگوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، ظاہر ہے یہ نماز پڑھے بغیر تو رہیں گے نہیں... سو ہم اس وقت ان پر حملہ کریں گے -"
★_ نماز عصر کا وقت ہوا تو اللہ تعالٰی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا - وہ صلوۃِ خوف کی آیت لےکر آئے تھے، جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
ترجمہ:"اور جب آپ ان کے درمیان ہوں اور آپ انہیں نماز پڑھانا چاہیں تو یوں کرنا چاہیے کہ لشکر کا ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور وہ لوگ ہتھیار لےلیں، پھر جب یہ لوگ سجدہ کرچکیں تو یہ آپ کے پیچھے آجائیں اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آجائے اور نماز پڑھ لے اور یہ اپنے بچاؤ کا سامان، ہتھیار وغیرہ لےلیں -"(سورۃ النساء)
★_ چنانچہ اس طرح نماز ادا کی گئی... یہ نمازِخوف تھی، یعنی جب دشمن سے مقابلہ ہو تو آدھا لشکر پیچھے ہٹ کر دو رکعت ادا کرلے اور واپس اپنی جگہ پر آجائے، باقی جو لوگ رہ گئے ہیں، اب وہ جاکر دو رکعت ادا کریں - اس نماز کی ادائیگی کا تفصیلی طریقہ فقہ کی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے -
_ مسلمانوں نے جب عصر کی نماز اس طرح ادا کی تو مشرک بول اٹھے:_"افسوس! ہم نے ان کے خلاف جو سوچا تھا، اس پر عمل نہ کرسکے -"
*★_ تیر میں سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا_,*
*★_ ادھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ قریشِ مکہ آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں مشورہ کیا اور ان سے فرمایا:_"لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کا فیصلہ کرلیں اور جو بھی ہمیں اس سے روکے، اس سے جنگ کریں -"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اے اللہ کے رسول! آپ صرف بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ فرماکر نکلے ہیں، آپ کا مقصد جنگ اور خوں ریزی ہرگز نہیں، اس لیے آپ اسی ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں، اگر کوئی ہمیں اس زیارت سے روکے گا تو اس سے جنگ کریں گے -"
★_ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا:_"اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں... ہم تو آپ سے کہتے ہیں آپ اور آپ کا رب جنگ کریں، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگ کریں گے، اور اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر آپ ہمیں لےکر "برکِ غماد" بھی جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پس و پیش نہیں کرےگا -"(برکِ غماد مدینہ منورہ سے بہت دور دراز کے ایک مقام کا نام ہے) -
★_ ان دونوں حضرات کی رائے لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:_"بس تو پھر اللہ کا نام لےکر آگے بڑھو -"
چنانچہ مسلمان آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، اس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی خود بخود بیٹھ گئی، لوگوں نے اٹھانا چاہا، لیکن وہ نہ اٹھی، لوگوں نے کہا:_"قصوی اڑ گئی ہے -"
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
"یہ اڑی نہیں اور نہ اڑنے کی اس کی عادت ہے، بلکہ اسے اس ذات نے روک لیا ہے، جس نے ابرہہ کے لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا -"
مطلب یہ تھا کہ قصوی خود نہیں رکی، اللہ کے حکم سے رکی ہے - حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر قیام کا حکم فرمایا، اس پر صحابہ نے عرض کیا:_"اللہ کے رسول! یہاں پانی نہیں ہے؟"
★_ یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر ناجیہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو دیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی کے جانوروں کے نگران تھے -
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ یہ تیر کسی گڑھے میں گاڑدو - تیر ایک ایسے گڑھے میں گاڑ دیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا - فوراً ہی اس میں سے میٹھے پانی کا چشمہ ابلنے لگا، یہاں تک کہ تمام لوگوں نے پانی پی لیا، جانوروں کو بھی پانی پلایا، پھر سب جانور اسی گڑھے کے گرد بیٹھ گئے -
جب تک تیر اس گڑھے میں لگا رہا، اس میں سے پانی ابلتا رہا...
گڑھے سے پانی ابلنے کی خبریں قریش تک بھی پہنچ گئیں... ابوسفیان نے لوگوں سے کہا:
"ہم نے سنا ہے، حدیبیہ کے مقام پر کوئی گڑھا ظاہر ہوا ہے، اس میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے، ذرا ہمیں بھی تو دکھاؤ، محمد نے یہ کیا کرشمہ دکھایا ہے -"
★_ چنانچہ انہوں نے وہاں جاکر اس گڑھے کو دیکھا... گڑھے میں لگے تیر کی جڑ سے پانی نکل رہا تھا، یہ دیکھ کر ابوسفیان اور اس کے ساتھی کہنے لگے:
"اس جیسا واقعہ تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا، یہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کا چھوٹا سا جادو ہے -"
╨─────────────────────❥
: *★__ صلح حدیبیہ __,*
★_حدیبیہ پہنچ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی طرف قاصد بھیجنے کا ارادہ فرمایا تاکہ بات چیت ہوسکے.... اور واضح ہوجائے کہ مسلمان لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے... بلکہ عمرہ کرنے کی نیت سے آئے ہیں... اس غرض کےلیے دو یا تین قاصد بھیجے گئے، لیکن بات نہ بن سکی... آخر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کو بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مکہ میں ان مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس جائیں جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں... انہیں فتح کی خوش خبری سنائیں اور یہ خبر دیں کہہ بہت جلد الله تعالیٰ مکہ میں اپنے دین کو سربلند فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہاں کسی کو اپنا ایمان چھپانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
★_ غرض آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عثمان رضی الله عنہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے سیدنا عثمان رضی الله عنہ نے ابان بن سعید کی پناہ لی جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعد میں مسلمان ہوئے۔ابان بن سعید نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی پناہ منظور کرلی۔انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اپنے آگے کرلیا... خود ان کے پیچھے چلے تاکہ لوگ جان لیں، یہ ان کی پناہ میں ہیں...اس طرح عثمان رضی الله عنہ قریش مکہ تک پہنچے۔انہیں رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ جواب میں قریش نے کہا: _"محمد( صلی الله علیہ وسلم)ہماری مرضی کے خلاف کبھی مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے... ہاں تم چاہو تو بیت الله کا طواف کرلو۔"
اس پر حضرت عثمان رضی الله عنہ نے جواب دیا: _"یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرلوں۔"
★_ قریش نے بات چیت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو تین دن تک روکے رکھا، ایسے میں کسی نے یہ خبر اڑادی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید کردیا ہے... اس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے غمزدہ ہوکر ارشاد فرمایا: _"اب ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک دشمن سے جنگ نہیں کرلیں گے۔"
اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: _"الله تعالیٰ نے مجھے مسلمانوں سے بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے۔"
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بات پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے پکار پکار کر بیعت کا اعلان کیا، اس اعلان پر سب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے، صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی۔
"کسی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔فتح حاصل کریں گے یا شہید ہوجائیں گے۔"
★_ مطلب یہ کہ یہ بیعت موت پر بیعت تھی۔اس بیعت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی طرف سے خود بیعت کی... اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: _"اے اللّٰه! یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے، کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے میں خود بیعت کرتا ہوں۔"
پھر چودہ سو صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے باری باری بیعت کی۔
★_ بعد میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع مل گئی کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو شہید نہیں کیا گیا... وہ زندہ سلامت ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا: _"اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مغفرت کردی، جو غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے۔"
اس بیعت کا ذکر الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا:
"اے پیغمبر! جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، تو اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور جو سچائی اور خلوص ان کے دلوں میں تھا، اس نے وہ معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔
★_ ادھر قریش کو جب اس بیعت کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہوگئے، ان کے عقل مند لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرلینا مناسب ہوگا... اور صلح اس شرط پر کرلی جائے کہ مسلمان اس سال تو واپس لوٹ جائیں، آئندہ سال آجائیں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہرکر عمرہ کرلیں۔جب یہ مشورہ طے پاگیا تو انہوں نے بات چیت کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا، اس کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔سہیل آپ کے سامنے پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، بات چیت شروع ہوئی، سہیل نے بہت لمبی بات کی، آخر صلح کی بات چیت طے ہوگئی۔دونوں فریق اس بات پر راضی تھے کہ خوں ریزی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ صلح کرلی جائے۔صلح کی بعض شرائط بظاہر بہت سخت تھیں۔
★_ اس معاہدے میں یہ شرائط لکھی گئیں۔
(1)- دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔
(2)- جو مسلمان اپنے ولی اور سرپرست کی اجازت کے بغیر مکہ سے بھاگ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے گا، الله کے رسول اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔
( یہ شرط ظاہر میں مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھی، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ شرط بھی دراصل مسلمانوں کے حق میں تھی۔کیونکہ اس طرح بیت الله مسلمانوں سے آباد رہا اور دین کا کام جاری رہا۔)
(3)- کوئی شخص جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو اور وہ بھاگ کر قریش کے پاس آجائے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔
(4)- کوئی شخص، یا کوئی خاندان یا کوئی قبیلہ اگر مسلمانوں کا حلیف( معاہدہ برادر )بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور جو شخص یا خاندان یا قبیلہ قریش کا حلیف بننا چاہے تو وہ ان کا حلیف بن سکتا ہیں۔
(5)- مسلمانوں کو اس سال عمرہ کیے بغیر واپس جانا ہوگا، البتہ آئندہ سال تین دن کے لیے قریش مکہ کو خالی کردیں گے، لہذا مسلمان یہاں غیر مسلح حالت میں آکر ٹھہر سکتے ہیں اور عمرہ کرسکتے ہیں۔
_ یہ شرائط بظاہر قریش کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف تھیں۔اس لیے صحابہ کرام کو ناگوار بھی گزریں، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے بھی ناگواری محسوس کی، وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آئے اور بولے: _"ابوبکر! کیا حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول نہیں ہیں۔"
حضرت صدیق اکبررضی الله عنہ نے فرمایا: _"بے شک حضور صلی الله علیہ وسلم اللّٰه کے رسول ہیں۔"
اس پر فاروق اعظم بولے: _"کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ "
ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے فرمایا: _"بالکل! ہم مسلمان ہیں۔"
حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا:_"کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟"
ابوبکرصدیق رضی الله عنہ بولے:،_"ہاں! بے شک وہ مشرک ہیں۔"
اب حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: _تب پھر ہم ایسی شرائط کیوں قبول کریں... جن سے مسلمان نیچے ہوتے ہیں ۔
★_ اس وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے بہت ہی خوب جواب دیا، فرمایا:
"اے عمر! وہ الله کے رسول ہیں... ان کے احکامات اور فیصلوں پر سر جھکاؤ، الله تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہیں۔"
یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ فوراً بولے: _"میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں۔"
اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسی قسم کے سوالات کیے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کی باتوں کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ بالکل وہی تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرما چکے تھے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں الله کا بندہ اور رسول ہوں میں کسی حالت میں بھی الله کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، وہی میرا مددگار ہے۔"
★_ اسی وقت حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ بول اٹھے: _"اے عمر! جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں، کیا تم اس کو سن نہیں رہے ہو؟ ہم شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔"
تب حضرت عمر رضی الله عنہ بھی بولے : _"میں شیطان مردود سے الله کی پناہ مانگتا ہوں۔"
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:_"اے عمر! میں تو ان شرائط پر راضی ہوں اور تم انکار کررہے ہو۔"
★_ چنانچہ حضرت عمر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے، میں نے اس وقت جو باتیں کی تھیں، اگرچہ وہ اس تمنا میں تھیں، کہ اس معاملے میں خیر اور بہتری ظاہر ہو، مگر اپنی اس وقت کی گفتگو کے خوف سے میں اس کے بعد ہمیشہ روزے رکھتا رہا، صدقات دیتا رہا، نمازیں پڑھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا۔
: ★_ پھر اس صلح کی تحریر لکھی گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولہ رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ معاہدہ لکھیں، اس پر سہیل بن عمرو نے کہا: _"یہ معاہدہ علی لکھیں گے یا پھر عثمان؟ "
حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم فرمایا اور فرمایا لکھو: _" بسم الله الرحمن الرحیم۔"
اس پر سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا:
"میں رحمٰن اور رحیم کو نہیں مانتا... آپ یوں لکھوائیں "بِسْمِکَ اَللّٰہُم "( یعنی شروع کرتا ہوں، اے اللّٰه تیرے نام سے)حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا: _"اسی طرح لکھ دو۔"
انہوں نے لکھ دیا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
"لکھو! محمد رسول اللّٰه نے ان شرائط پر سہیل بن عمرو سے صلح کی۔"
★_ حضرت علی رضی الله عنہ لکھنے لگے، لیکن سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا:
"اگر میں یہ شہادت دے چکا ہوتا کہ آپ اللّٰه کے رسول ہیں، تو پھر نہ تو آپ کو بیت اللّٰه سے روکا جاتا نہ آپ سے جنگ ہوتی ، اس لیے یوں لکھیے: _"محمد بن عبداللہ "
اس وقت تک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ حضور اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق وہ عبارت لکھ چکےتھے، اس لیے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: _اس کو مٹادو (یعنی لفظ رسول اللّٰه کو مٹادو)
حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے عرض کیا ۔میں تو کبھی نہيں مٹاسکتا ۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: مجھے دکھاؤ ۔یہ لفظ کس جگہ لکھاہے؟
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے لفظ آپ ﷺ کو دکھایا، حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کا حکم فرمایا، لکھو:
یہ وہ سمجھوتا ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی_,"
★_ ۔اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: الله کی قسم! میں الله کا رسول ہوں، چاہے تم مجھے جھٹلاتے رہو اور میں ہی محمد ابن عبداللہ ہوں " "
یہ معاہدہ ابھی لکھا جارہاتھا کہ اچانک ایک مسلمان حضرت ابو جندل ابن سہیل رضی الله عنہ اپنی بیڑیوں کو کھینچتے وہاں تک آپہنچے ۔مشرکوں نے انھیں قید میں ڈال رکھاتھا ۔ان کا جرم یہ تھا کہ اسلام کیوں قبول کیا....اسلام چھوڑ دو یا پھر قید میں رہو....یہ ابو جندل رضی اللّٰه عنہ اسی سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے جو معاہدہ طے کررہاتھا ۔یہ کسی طرح قید سے نکل کر وہاں تک آگئے تھے تاکہ اس ظلم سے نجات مل جائے ۔
★_ انہیں دیکھ کر سب مسلمان خوش ہوگئے اور جان بچاکر نکل آنے پر انھیں مبارکباد دینے لگے ۔ادھر جونہی سہیل نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو یک دم کھڑا ہوا، اور ایک زناٹے دار تھپڑ ان کے منہ پر دے مارا ۔یہ بھی روایت آئی ہے کہ اس نے انھیں چھڑی سے مارا پیٹا ۔مسلمان ان کی یہ حالت دیکھ کر رو پڑے ۔اب سہیل نے انھیں گریبان سے پکڑ لیا اور نبی کریمﷺ سے بولا:
اے محمد! یہ پہلا مسلمان ہے جو ہم لوگوں کے پاس سے یہاں آگیاہے، اس معاہدے کے تحت آپ اسے واپس کریں، کیونکہ یہ معاہدہ لکھا جاچکاہے ۔
: *★_ فتح مبین __,*
★_ اس کی بات سن کر حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لے جاؤ ۔اس پر ابوجندل رضی اللہ عنہ بےقرار ہو کر بولے: کیا آپ مجھے پھر ان مشرکوں کے ساتھ واپس بھیج دینگے؟
اسلام لانے کی وجہ سے حضرت ابوجندل رضی الله عنہ پر بہت ظلم ڈھائے گئےتھے ۔لہذا اس صورت حال پر سب لوگ بری طرح بے چین ہوگئے ۔اس موقع پر رسول الله ﷺ نے ان سے فرمایا: _ابوجندل! صبر اور ضبط سے کام لو، اللہ تعالٰی تمہارے لیے اور تم جیسے اور مسلمانوں کے لیے کشادگی اور سہولت پیدا فرمانے والا ہے، ہم قریش سے ایک معاہدہ کرچکے ہیں ۔اس معاہدے کی رو سے ہم تمہیں واپس بھیجنے کے پابند ہیں ۔ہم نے انہیں الله کے نام عہد دیا ہے لہٰذا اس کی خلاف ورزی ہم نہیں کریں گے۔"
★_ صحابہ کرام کی آنکھوں میں آنسو آگئے... وہ بےتاب ہوگئے... حضرت عمر رضی الله عنہ جیسے شخص بھی رو پڑے... لیکن معاہدے کی وجہ سے سب مجبور تھے۔اس طرح ابوجندل رضی الله عنہ کو واپس بھیج دیا گیا۔
ابوجندل رضی الله عنہ کا اصل نام عاص تھا۔ابوجندل ان کی کنیت تھی، ان کے ایک بھائی عبداللہ بن سہیل تھے جو کہ ان سے بھی پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔عبداللہ بن سہیل رضی الله عنہ اس طرح مسلمان ہوئے تھے کہ مشرکوں کے ساتھ بدر کے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے... لیکن بدر کے میدان میں آتے ہی یہ مشرکوں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔
★_اس معاہدے کے بعد بنو خزاعہ کے لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دوست قبیلے کی حیثیت سے شامل ہوگئے، یعنی مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔
معاہدہ لکھا جاچکا تو دونوں کی طرف سے اہم لوگوں نے اس پر بطور گواہ دستخط کیے، معاہدے سے فارغ ہوکر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوانے اور قربانی کا حکم فرمایا۔بلکہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سر منڈوایا اور قربانی کی، پھر تمام صحابہ کرام نے بھی ایسا کیا۔
★_ پھر جب مسلمان اس مقام سے واپس روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی۔اللّٰه تعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ خوش خبری سنائی کہ بے شک آپ کو ایک کھلی فتح دے دی گئی اور اللّٰه کی نعمت آپ پر تمام ہونے والی ہے۔
★_ سفر کے دوران ایک مقام پر خوراک ختم ہوگئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہ نے یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو بتائی۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ایک چادر بچھانے کا حکم فرمایا۔پھر حکم فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ بچا کچا کھانا ہو، اس چادر پر ڈال دے۔صحابہ کرام رضی الله عنہہ نے ایسا ہی کیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔پھر سب کو حکم دیا، اس چادر سے اپنے اپنے برتن بھر لیں، چنانچہ سب نے برتن بھرلیے، خوب سیر ہوکر کھایا، لیکن کھانا جوں کا توں بچارہا۔
★_ اس موقع پر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے اور ارشاد فرمایا:
"اَشهدُ اَنٌ لَا اِلٰہ اِلااللہ وَاِنّی رَسُوْلُ الله، اللّٰه کی قسم ان دو گواہیوں کے ساتھ جو شخص بھی اللّٰه تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا، دوزخ سے محفوظ رہے گا۔"
★_ جب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر سورۃ فتح نازل ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: _"اے اللّٰه کے رسول! آپ کو یہ فتح مبارک ہو۔"
اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو مبارک باد دی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں: _"اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی مسلمانوں کو کوئی فتح نہیں ہوئی۔"
یعنی یہ اس قدر بڑی فتح تھی... جب کہ لوگ اس کی حقیقت کو اس وقت بالکل نہیں سمجھ سکے تھے، جب معاہدہ لکھا جارہا تھا۔
★_ سہیل بن عمرو جنہوں نے یہ معاہدہ لکھا تھا... بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔حجتہ الودع کے موقع پر انہیں اس جگہ پر کھڑے دیکھا گیا تھا جہاں قربانیاں کی جاتی ہیں۔وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قربانی کے جانور پیش کررہے تھے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں ذبیح کررہے تھے۔اس کے بعد سہیل بن عمرو رضی الله عنہ نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا سر منڈانے کے لیے حجام بلایا۔اس وقت یہ منظر دیکھا گیا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا جو بال بھی گرتا تھا، سہیل بن عمرو اسے اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے۔
★_ اندازہ لگایئے ان میں کس قدر زبردست تبدیلی آچکی تھی... صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ رسول اللّٰه کا لفظ لکھے جانے پر طیش میں آگئے تھے اور اب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کو آنکھوں سے لگارہے تھے۔
اسی سال چھ ہجری کو شراب حرام ہوئی، حکم آنے پر لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب بارش کے پانی کی طرح نالیوں میں بہتی نظر آئی۔
╨─────────────────────❥
*★_ خیبرکی فتح __,*
★_ خیبر ایک بڑا قصبہ تھا۔اس میں یہودیوں کی بڑی بڑی حویلیاں، کھیت اور باغات تھے۔یہ یہودی مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔مدینہ منوره سے خیبر کا فاصلہ 150 کلومیٹر کا ہے۔حدیبیہ سے تشریف لانے کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ماہ تک یا اس سے کچھ کم مدت تک یعنی ذی الحجہ 6 ھ کے آخر تک مدینہ ہی میں رہے اور اس کے بعد رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے صرف ان لوگوں کو چلنے کا حکم فرمایا جو حدیبیہ میں بھی ساتھ تھے،
★_ مدینہ منوره سے روانہ ہوتے وقت رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفط رضی الله عنہ کو مدینہ منوره میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔اس غزوے میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ازواج میں سے حضرت اُمّ سلمہ رضی الله عنہا بھی ہمراہ تھیں ۔اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم جب خیبر کے سامنے پہنچے تو یہ صبح کا وقت تھا۔حضرت عبدالله بن قیس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے پیچھے تھا۔ایسے میں میں نے "لاحول ولا قوۃ الا بالله العلی العظیم " پڑھا۔
★_ میرے منہ سے یہ کلمہ سن کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"اے عبدالله! کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔"
میں نے عرض کیا: _"اے اللّٰه کے رسول! ضرور بتایئے۔"
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"وہ یہی کلمہ ہے جو تم نے پڑھا ہے، یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اور یہ کلمہ اللّٰه تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔"
★_ خیبر کے لوگوں نے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کو دیکھا تو چیختے چلاتے میدانوں اور کھلی جگہوں میں نکل آئے اور پکار اٹھے۔_"محمد! ایک زبردست لشکر لے کر آگئے ہیں۔"
یہودیوں کی تعداد وہاں تقریباﹰ دس ہزار تھی، اور وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان ان سے مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔جب مسلمان جنگ کی تیاری کررہے تھے تو اس وقت بھی حیران ہو ہو کر کہہ رہے تھے: _"حیرت ہے... کمال ہے... "
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں کے ان قلعوں میں سے سب سے پہلے ایک قلعہ نطات کی طرف توجہ فرمائی اور اس کا محاصرہ کرلیا۔اس مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مسجد بھی بنوائی۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جتنے دن خیبر میں رہے، اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے رہے۔اس جنگ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو زرہیں پہن رکھی تھیں اور گھوڑے پر سوار تھے۔رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑے کا نام ظرب تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں میں نیزه اور ڈھال بھی تھی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو پرچم دیا۔وہ پرچم اٹھائے آگے بڑھے۔انہوں نے زبردست جنگ کی، لیکن ناکام لوٹ آئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم ایک دوسرے صحابی کو دیا، وہ بھی ناکام لوٹ آئے۔محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ کے بھائی محمود بن مسلمہ رضی الله عنہ قلعہ کی دیوار کے نیچے تک پہنچ گئے۔لیکن اوپر سے مرحب نامی یہودی نے ان کے سر پر ایک پتھر دے مارا اور وہ شہید ہوگئے۔
: ★__ قلعہ نطات کے لوگ سات دن تک برابر جنگ کرتے رہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم روزانہ محمد بن مسلم رضی الله عنہ کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلتے رہے۔پڑاؤ میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو نگراں بناتے۔شام کے وقت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اسی جگہ واپس آجاتے۔زخمی مسلمان بھی وہیں پہنچا دیے جاتے۔رات کے وقت ایک دستہ لشکر کی نگرانی کرتا، باقی لشکر سوجاتا۔آپ صلی الله علیہ وسلم بھی نگرانی کرنے والے دستے کے ساتھ گشت کے لیے نکلتے۔کئی روز تک جب قلعہ فتح نہ ہوا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ سے فرمایا:
"آج میں پرچم اس شخص کو دوں گا جو الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللّٰه اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ پیٹھ دکھانے والا نہیں، اللّٰه تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائیں گے اور اس طرح اللّٰه تعالیٰ تمہارے بھائی کے قاتل پر قابو عطا فرمائے گا۔
★_ صحابہ کرام نے جب یہ اعلان سنا تو ہر ایک نے چاہا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم پرچم اسے دیں، مگر پھر رسول اللّٰه نے حضرت علی رضی الله عنہ کو طلب فرمایا۔ان دنوں حضرت علی رضی الله عنہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔چنانچہ لوگوں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بتایا کہ ان کی تو آنکھیں دکھنے آئی ہوئی ہیں۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کوئی انہیں میرے پاس لے آئے، تب حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ گئے اور انہیں لے آئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور پھر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔لعاب کا آنکھوں میں لگنا تھا کہ وہ اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
"اس کے بعد زندگی بھر میری آنکھوں میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
★_ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پرچم حضرت علی رضی الله عنہ کو مرحمت فرمایا اور ارشاد فرمایا: _"جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔"
حضرت علی رضی الله عنہ پرچم کو لہراتے ہوئے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے، پھر قلعہ کے نیچے پہنچ کر انہوں نے جھنڈے کو نصب کردیا، قلعہ کے اوپر بیٹھے ہوئے ایک یہودی نے انہیں دیکھ کر پوچھا: _"تم کون ہو؟ "
جواب میں انہوں نے فرمایا: _"میں علی ابن ابی طالب ہوں۔"
اس پر یہودی نے کہا: _"تم لوگوں نے بہت سر اٹھایا ہے، حالانکہ حق وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔"
★_ پھر یہودی قلعہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے، ان میں سب سے آگے حرش تھا۔وہ ایک مرحب کا بھائی تھا۔یہ شخص اپنی بہادری کے سلسلے میں بہت مشہور تھا، اس نے نزدیک آتے ہی حضرت علی رضی الله عنہ پر حملہ کیا۔حضرت علی رضی الله عنہ نے اس کا وار روکا اور جوابی حملہ کیا، اس طرح دونوں کے درمیان تلوار چلتی رہی۔آخر حضرت علی رضی الله عنہ نے اسے خون میں نہلادیا... اس کے گرتے ہی مرحب آگے آیا۔یہ اپنے بھائی سے زیادہ بہادر اور جنگ جو تھا۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے اسے بھی قتل کردیا۔
★_ مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر آگے آیا۔وہ آگے آکر للکارا:
"کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا۔"
حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ مسلمانوں کی طرف سے آگے آئے اور اسے ٹھکانے لگادیا۔
: ★_ خیبر کی جنگ ہورہی تھی کہ ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کا نام اسود راعی تھا اور وہ یہودی تھا۔ایک شخص کا غلام تھا۔اس کی بکریاں چراتا ہوا اس طرف آگیا تھا، اس نے کہا: _"اے اللّٰه کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے۔"
رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم نے مختصر طور پر اسلام کی خوبیاں بیان فرمائیں اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔اس کے بعد یہ اسود راعی رضی الله عنہ تلوار لے کر مسلمانوں کے ساتھ قلعہ کی طرف بڑھے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔جب ان کی لاش آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"اللّٰه تعالیٰ نے اس غلام کو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔"
اسود رضی الله عنہ کس قدر خوش قسمت تھے، نہ کوئی نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا... نہ حج کیا، لیکن پھر بھی جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
★_ آخر یہ قلعہ فتح ہوگیا۔اس قلعے کے محاصرے کے دوران مسلمانوں کو کھانے کہ تنگی ہوگئی۔وہ بھوک سے بے حال ہونے لگے، لوگوں نے اس تنگی کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیا۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائ: _"اے اللّٰه ! ان قلعوں میں سے اکثر قلعوں کو فتح کرا کہ ان میں رزق اور گھی کی بہتات ہو۔"
★_ اس کے بعد حضور صلی اللہ علییہ وسلم نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو پرچم عنایت فرمایا اور لوگوں کو جنگ کے لئے جوش دلایا۔ ناعم نامی قلعہ میں سے جولوگ یہودیوں میں سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ وہاں سے صعب نامی قلعہ میں پہنچ گئے، یہ فطات کے قلعوں میں سے ایک تھا، اس قلعہ کا محاصرہ دو دن تک جاری رہا۔ قلعہ میں یہودیوں کے پانچ سو جانباز تھے،
، آخر قلعہ فتح ہوگیا۔ اس قلعہ میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گیہوں، کھجوریں، گھی، شہد، شکر، زیتون کا تیل اور چربی ہاتھ آئی، یہاں سے مسلمانوں کو بہت سا جنگی سامان بھی ہاتھ لگا۔ اس میں منجنیق، زرہیں، تلواریں وغیرہ شامل تھیں۔
★_ اس قلعہ سے جو یہودی جان بچاکر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے قلہ نامی قلعہ میں پناہ لی، یہ قلعہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا، مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا، ابھی محاصرے کو تین دن گزرے تھے کہ ایک یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
اے ابوالقاسم! آپ اگر میری جان بخشی کردیں تو میں آپ کو ایسی اہم خبریں دوں گا کہ آپ اطمینان سے قلعہ فتح کرلیں گے۔ ورنہ آپ اگر اس قلعہ کا ایک مہینے تک محاصرہ کئے رہے تو بھی اس کو فتح نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ اس قلعہ میں زمین دوز نہریں ہیں، وہ لوگ رات کو نکل کر نہروں میں سے ضرورت کا پانی لے لیتے ہیں، اب اگر آپ ان کا پانی بند کردیں تو یہ لوگ آسانی سے شکست مان لیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے دی، اس کے بعد اس کے ساتھ ان نہروں پر تشریف لے گئے اور یہودیوں کا پانی بند کردیا، اب یہودی قلعہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے خون ریز جنگ ہوئی اور آخر کار یہودی شکست کھاگئے، اس طرح مسلمانوں نے فطات کے تینوں حصے فتح کرلئے۔
: ★_ حبشہ سے جو لوگ آئے تھے، ان میں حضرت اُمّ حبیبہ بنت ابوسفیان رضی الله عنہا بھی تھیں۔اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل تھیں، حبشہ میں رہتے ہوئے ان کا نکاح آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہوا تھا۔مکہ سے دوسری ہجرت کے موقع پر انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔اس وقت ان کا پہلا خاوند عبداللہ بن حجش ساتھ تھا۔لیکن حبشہ پہنچ کر وہ مرتد ہوگیا تھا۔اس نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا اور اسی حالت میں مرگیا تھا۔جب کہ اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر قائم رہی تھیں۔
★_ 7ھ محرم کے مہینے میں، اللّٰه کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ خمری رضی الله عنہ کو نجاشی کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کا نکاح آپ سے کردیں، چنانچہ یہ نکاح نجاشی نے پڑھایا تھا۔اس نکاح سے پہلے حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا نے ایک خواب دیکھا تھا، اس میں انہیں کوئی پکارنے والا "اُمّ المومنین "کہہ کر پکار رہا تھا، اس سے اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا گھبرا سی گئیں، جب انہیں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو تب انہیں اس کی تعبیر معلوم ہوئی۔ان کا مہر بھی شاه نجاشی کی طرف سے ادا کیا گیا... شادی کا کھانا بھی انہیں کی طرف سے کھلایا گیا،
★_ نجاشی کی جس کنیز کے ذریعے یہ سارے معاملات طے ہوئے۔وہ کنیز بھی اللّٰه کے رسول پر ایمان لے آئی تھیں اور انہوں نے اپنے ایمان لانے کا پیغام حضرت اُمّ حبیبہ رضی الله عنہا کے ذریعے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا تھا، آپ کو جب اس کنیز کا پیغام ملا تو آپ مسکرائے اور فرمایا "اس پر سلامتی ہو"۔
: ★_ اس طرح فطات اور شق کے پانچ قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ان جگہوں سے بھاگنے والے یہودیوں نے کتیبہ کے قلعوں میں پناہ لی، کتیبہ کے بھی تین قلعہ تھے۔ان میں سب سے پہلے قلعہ کا نام غوص تھا۔دوسرے کا وطیع اور تیسرے کا نام سلالم تھا، ان تمام تر قلعوں میں غوص کا قلعہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا۔مسلمان بیس دن تک اس کا محاصرہ کیے رہے۔آخر حضرت علی رضی الله عنہ کے ہاتھ پر اللّٰه تعالیٰ نے اس قلعہ کو بھی فتح کرادیا،
★_ اسی قلعہ سے حضرت صفیہ بنت حئ بن اخطب گرفتار ہوئیں۔بعد میں اللّٰه تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ مسلمان ہوئیں اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں۔
★_ قموص کی فتح کے بعد مسلمانوں نے قلعہ وطیع اور قلعہ سلالم کا محاصرہ کرلیا۔ یہ دونوں قلعہ بغیر خون ریزی کے فتح ہوئے، مسلمانوں کے ہاتھ ايک بڑا خزانہ بھی لگا۔
خیبر ہی میں آپ کی خدمت میں اشعری اور دوسی قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے، اشعری لوگوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی تھے۔اور دوسیوں میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ تھے۔ان حضرات کو بھی مال غنیمت دیا گیا۔
★_ خیبر کی فتح کے موقع پر حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی الله عنہ وہاں پہنچے۔انہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، یہ اس موقع پر وہاں لوٹے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ان کی پیشانی پر بوسہ دیا، اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:__"اللّٰه کی قسم! میں نہیں جانتا، مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے آنے پر زیادہ خوشی ہے۔"
اس وقت حضرت جعفر رضی الله عنہ کے ساتھ حبشہ کے رہنےوالے بہت سے لوگ بھی تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین پڑھ کر سنائی، اس کو سن کر یہ لوگ رو پڑے اور ایمان لے آئے۔
★_ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی زبردست خاطر تواضع فرمائی اور فرمایا:
"ان لوگوں نے میرے صحابہ کی بہت عزت افزائی کی تھی۔"
مطلب یہ تھا کہ جب مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے تو بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے، اس وقت وہاں ان کی بہت عزت افزائی ہوئی تھی۔
: ★_ جس زمانے میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خیبر پہنچے تھے اس وقت کھجوریں ابھی پکی نہیں تھی، چنانچہ کچی کھجوروں کو کھانے سے اکثر صحابہ بخار میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے اپنی پریشانی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے بیان کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
"گھڑوں میں پانی بھرلو اور ٹھنڈا کرلو، فجر کے وقت اللّٰہ کا نام پڑھ کر اس پانی کو اپنے اوپر ڈالو۔ صحابہ نے اس ہدایت پر عمل کیا تو ان کا بخار جاتا رہا۔
★_ خیبر کی جنگ میں سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ زخمی ہوگئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کے زخموں پر دم کیا، انہیں اسی وقت آرام آگیا۔
اس غزوے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لیے جانا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے فرمایا کہ دیکھو، کوئی اوٹ کی جگہ نظر آرہی ہے یا نہیں ۔عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے چاروں طرف دیکھا.؟؟ کوئی اوٹ کی جگہ نظر نہ آئی، البتہ انہیں ایک اکیلا درخت نظر آیا، انہوں نے بتایا کہ صرف درخت نظر آرہا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اِدھر اُدھر دیکھو، کوئی اور اوٹ کی چیز نظر آتی ہے۔"
★_ اب انہوں نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک اور درخت کافی دور نظر آیا، انہوں نے اس دوسرے درخت کے بارے میں آپ کو بتایا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: _"ان دونوں درختوں سے کہو، اللّٰه کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں کہ دونوں ایک جگہ جمع ہوجاؤ...یعنی آپس میں مل جاؤ۔"
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے ان دونوں درختوں کو مخاطب کرکے یہ بات کہہ دی، فوراً دونوں درخت حرکت میں آئے اور ایک دوسرے سے مل گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا پردہ بنالیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے فارغ ہونے کے بعد دونوں درخت اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔
*★_ حضرت فاطمہ رضیہ اللہ عنہا کا وراست کا مطالبہ _,*
★_ خیبر کی فتح کے بعد وہاں کی ایک بستی فدک کے لوگ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو لوگ حاضر ہوئے، ان کے سردار کا نام نون بن یوشع تھا۔اس نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا:
"ہم اس بات پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری جان بخشی کردی جائے اور ہم لوگ اپنا مال اور سامان لے کر فدک سے جلاوطن ہوجائیں۔"آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرمالی، اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے کہ یہودیوں نے فدک کا نصف دینے کی بات کی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو منظور فرمایا تھا۔
★_ یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا بہتر ہوگا، فدک کی یہ بستی چونکہ جنگ کے بغیر حاصل ہوگئی تھی، اس لیے یہ مال فے تھا۔ یعنی دشمن سے جنگ کیے بغیر حاصل کیا جانے والا مال جس کے خرچ کا مسلمانوں کے حکمران کو اختیار ہوتا ہے۔چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی آمدنی میں سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کیا کرتے تھے، بنی ہاشم کے چھوٹے بچوں کی پرورش بھی اس کی آمدنی سے فرماتے تھے۔بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کرتے تھے۔
★_ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ خلیفہ بنے تو حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے سمجھا کہ فدک کا علاقہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ملکیت تھا۔
لہذا مجھے وراثت میں ملنا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ سے درخواست کی کہ فدک کا علاقہ انہیں دیا جائے۔ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے انہیں مسئلہ سمجھایا اور فرمایا:
"رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم نبیوں کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔"حضرت فاطمہ رضی الله عنہا مطمئن ہوگئیں اور پھر دوبارہ یہ مطالبہ نہ کیا۔
[
*★_ یہودی عورت کا گوشت میں زہر ملانا _,*
★__ جب خیبر فتح ہوگیا تو ایک عورت مسلمانوں کی طرف آتی نظر آئی، وہ لوگوں سے پوچھ رہی تھی کہ الله کے رسول کو بکری کے گوشت کا کون سا حصہ زیادہ پسند ہے، لوگوں نے اسے بتایا حضور صلی الله علیہ وسلم کو دستی کا گوشت پسند ہے۔
اس عورت کا نام زینب تھا، یہ مرحب کی بھتیجی اور سلام بن مشکم یہودی کی بیوی تھی۔یہ بات معلوم کرنے کے بعد وہ واپس لوٹ گئی، اس نے ایک بکری کو ذبح کیا، پھر اس کو بھونا اور اس کے دستی والے حصے میں زہر ملادیا۔
★_ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھاکر واپس تشریف لائے تو اس عورت کو منتظر پایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے آنے کا سبب پوچھا تو بولی:
"اے ابوالقاسم! میں آپ کے لیے ایک ہدیہ لائی ہوں۔"
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر اس کا ہدیہ لے لیا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا، اس وقت وہاں بشر بن براء بن معرور رضی الله عنہ بھی موجود تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: _"قریب آجاؤ"
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دستی سے کھانا شروع فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی بشر بن براء نے بھی دستی سے گوشت کا لقمہ منہ میں ڈال لیا اور اسے نگل گئے، جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابھی لقمہ صرف منہ میں ڈالا تھا، دوسرے لوگوں نے دوسری جگہوں سے لقمہ لیا...
★_ جونہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لقمہ منہ میں ڈالا، فوراً اگل دیا اور فرمایا:
"ہاتھ روک لو، یہ گوشت مجھے بتارہا کہ اس میں زہر ہے۔"
اس وقت بشر بن براء رضی الله عنہ نے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو لقمہ میں نے کھایا تھا، اس میں مجھے کچھ محسوس ہوا تھا، لیکن میں نے اس کو صرف اس لیے نہیں اگلا کہ آپ کا کھانا خراب ہوگا پھر جب آپ نے اپنا لقمہ اگل دیا تو مجھے اپنے سے زیادہ آپ کا خیال آیا اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے اس کو اگل دیا۔"
اس کے بعد ان کا رنگ نیلا ہوگیا، وہ ایک سال تک اس زہر کے زیر اثر رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔
★_ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو بلوایا اور اس سے پوچھا:
"کیا تونے بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا؟ "
اس نے پوچھا:
"آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ "
جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے گوشت کے اسی ٹکڑے نے یہ بات بتائی جو میں نے منہ میں رکھا تھا۔"
اس نے اقرار کیا: "ہاں! میں نے زہر ملایا تھا۔"
تب آپ نے اس سے پوچھا:
"تم نے ایسا کیوں کیا؟ "
جواب میں اس نے کہا:
"آپ لوگوں نے( خیبر کی جنگ میں)میرے باپ، بھائی اور میرے شوہر کو قتل کیا اور میری قوم کو تباه کیا، اس لیے سوچا، اگر آپ صرف ایک بادشاہ ہیں تو اس زہر کے ذریعے ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو اس زہر کی پہلے ہی خبر ہوجائے گی ۔"
★_ اس کا جواب سن کر آپ نے اسے معاف فرمادیا... کیونکہ آپ اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے، البتہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاتا تو اس سے بدلہ لیتے تھے۔جہاں تک تعلق ہے بشر بن براء رضی الله عنہ کا... تو وہ اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے۔لیکن جب بعد میں زہر سے ان کی موت واقع ہوگئی تو اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس عورت زینب کو بدلے میں قتل کرادیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وفات کے وقت اس زہر کا اثر محسوس کیا تھا اور فرمایا تھا: "اس زہر کے اثر سے میری رگیں کٹ رہی ہیں۔"
: ★_ اس کے بعد جب ہم نے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تو مجھے صفوان ملے - میں نے ان سے کہا:
"صفوان! تم دیکھ رہے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم عرب و عجم پر چھاتے جارہے ہیں، اس لیے کیوں نہ ہم بھی ان کے پاس پہنچ کر ان کی اطاعت قبول کرلیں، کیونکہ حقیقت میں ان کی سربلندی خود ہماری ہی سربلندی ہوگی -"
اس پر صفوان نے کہا:"میرے علاوہ اگر ساری دنیا بھی ان کی اطاعت قبول کرلے، میں پھر بھی
نہیں کروں گا -"
★_ اس کا جواب سن کر میں نے سوچا، اس کا باپ اور بھائی جنگِ بدر میں مارے گئے ہیں، لہٰذا اس سے امید رکھنا فضول ہے، چنانچہ اس سے مایوس ہوکر میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی بات کہی جو صفوان سے کہی تھی، مگر اس نے بھی وہی جواب دیا... میں نے کہا:_"اچھا خیر... لیکن تم میری بات کو راز میں رکھنا -"
جواب میں عکرمہ نے کہا:"ٹھیک ہے، میں کسی سے ذکر نہیں کروں گا -"
اس کے بعد میں عثمان بن طلحہ سے ملا، یہ میرا دوست تھا، اس کے بھی باپ اور بھائی وغیرہ غزوہ بدر میں مارے جاچکے تھے، لیکن میں نے اس سے دل کی بات کہہ دی، اس نے فوراً میری بات مان لی، ہم نے مدینہ جانے کا وقت، دن اور جگہ طے کرلی..
★_ . ہم دونوں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، ایک مقام پر ہمیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ملے، ہمیں دیکھ کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، ہم نے بھی انہیں مرحبا کیا، اس کے بعد عمرو نے پوچھا:_"آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟"
ہم نے صاف کہہ دیا:"اسلام قبول کرنے جارہے ہیں -"
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فوراً بولے:_"میں بھی تو اسی لیے جارہا ہوں -"
اس پر تینوں خوش ہوئے... اور مدینہ منورہ کی طرف چلے، آخر حرّہ کے مقام پر پہنچ کر ہم اپنی سواریوں سے اترے، ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا:_"مکہ نے اپنے جگرپارے تمہارے سامنے لا ڈالے ہیں -"
★_ اس کے بعد ہم اپنے بہترین لباس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے، اسی وقت میرے بھائی ولید ہم تک پہنچ گئے اور بولے:_" جلدی کرو، اللہ کے رسول تمہاری آمد پر بہت خوش ہیں اور تم لوگوں کا انتظار فرمارہے ہیں -"
چنانچہ اب ہم تیزی سے آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پہنچ گئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گرم جوشی سے سلام کا جواب دیا، اس کے بعد میں نے کہا:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں -"
: *★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قول اسلام _,*
★_ خیبر کی جنگ کے بعد حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ پیش آیا۔
★_اس بارے میں خود حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں: "جب اللّٰه تعالیٰ نے مجھے عزت اور خیر عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اچانک میرے دل میں اسلام کی تڑپ پیدا فرمادی اور مجھے ہدایت کا راستہ نظر آنے لگا، اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں ہر موقع پر محمد صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے اور مخالفت میں سامنے آیا اور ہر بار ہی مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہمیشہ ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں، محمد صلی الله علیہ وسلم کا بول بالا ہورہا ہے۔پھر جب محمد صلی الله علیہ وسلم عمرے کے لیے مکہ میں تشریف لائے تو میں مکہ سے غائب ہوگیا۔تاکہ آپ کے مکہ میں داخلے کا منظر نہ دیکھ سکوں۔میرا بھائی ولید بن ولید آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔وہ مجھ سے بہت پہلے مسلمان ہوچکا تھا۔اس نے مکہ پہنچ کر مجھے تلاش کرایا، مگر میں وہاں تھا ہی نہیں،
★_ آخر اس نے میرے نام خط لکھا۔اس خط کے الفاظ یہ تھے:
"میرے لیے سب سے زیادہ حیرت کی بات یہی ہے کہ تم جیسا آدمی آج تک اسلام سے دور بھاگتا پھررہا ہے، تمہاری کم عقلی پر تعجب ہے، رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا کہ خالد کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: اللّٰه بہت جلد اسے آپ تک لائے گا۔اس پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس جیسا شخص اسلام سے بےخبر نہیں رہ سکتا، اگر وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکوں کے خلاف استعمال کرے تو ان کے لیے خیر ہی خیر ہےاور ہم دوسروں کے مقابلے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔اس لیے میرے بھائی اب بھی موقع ہے کہ جو کچھ تم کھوچکے ہو، اسے پالو، تم بڑے اچھے اچھے مواقع کھوچکے ہو۔"
★_حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے اپنے بھائی کا یہ خط ملا تو مجھ میں جانے کی امنگ پیدا ہوگئی، دل اسلام کی محبت میں گھر کرگیا۔ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے میرے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا۔اس سے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی، پھر رات کو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک انتہائی تنگ اور خشک علاقے میں ہوں... لیکن پھر اچانک وہاں سے نکل کر ایک نہایت سرسبز شاداب اور بہت بڑے علاقے میں پہنچ گیا ہوں -
: ★_ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں، جس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی... میں جانتا تھا کہ تم عقلمند ہو، اسی لیے میری آرزو تھی اور مجھے امید تھی کہ تم خیر کی طرف ضرور جھکو گے -"
اس کے بعد میں نے عرض کیا:
"اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے دعا فرمائیں کہ وہ میری ان غلطیوں کو معاف فرمادیں جو میں نے آپ کے مقابلے پر آکر کی ہے -"
حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا:
"اسلام قبول کرنا سابقہ تمام غلطیوں اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے -"
_ اسی طرح عمرو بن عاص اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما آگے آئے اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا -"
★_ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دراصل اس سے پہلے شاہِ حبشہ نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا، اس طرح ایک تابعی کے ہاتھ پر ایک صحابی نے اسلام قبول کیا، کیونکہ نجاشی صحابی نہیں ہیں...انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا تھا، لیکن تابعی وہ اس لیے ہیں کہ انھوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا -
★_ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہمیشہ گُھڑ سوار دستے کا امیر بنائے رکھا -
یہ تھی تفصیل ان تین حضرات کے ایمان لانے کی... حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی بہترین جنگی صلاحیتوں کے مالک تھے... وہ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہمارے مسلمان ہونے کے بعد اللہ کے رسول نے جنگی معاملات میں میرے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران بھی ہمارا یہی درجہ رہا -
★_ صلح حدیبیہ میں طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال تو عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے، البتہ انہیں آئندہ سال عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی، اس معاہدے کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عمرۂ قضا کی نیت کرکے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دوہزار صحابہ تھے، روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا تھا کہ جو لوگ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے، ان سب کا ساتھ چلنا ضروری ہے، چنانچہ وہ سبھی صحابہ ساتھ روانہ ہوئے، ان کے علاوہ کچھ وہ تھے جو حدیبیہ میں شریک نہیں تھے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قربانی کے جانور بھی تھے، اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے احتیاط کے طور پر ہتھیار بھی ساتھ لیے تھے... مسلمانوں میں سے ایک سو آدمی گُھڑسوار تھے، ان کے امیر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے -
╨─────────────────────❥
💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
╨─────────────────────❥
_ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_ https://t.me/joinchat/AAAAAFT7hoeE_C8b71KBPg
╚═════════════┅┄ ✭✭
⚀
Post a Comment